فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

January 31, 2012

تنقید کی موت از قیصر تمکین کا تعارف – دوسرا اور آخری حصہ

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 1:49 am

گذشتہ سے پیوستہ

 قیصر تمکین صاحب کی اردو زبان سے دلی محبت اور اسکی شکست و ریخت پر جلنا کڑھنا،  آپکی تحاریر میں متعدد بار دکھائ دیتا ہے۔  اسی زمن میں رطب اللسان ہیں۔

بہرحال یہاں کہنا صرف یہ تھا کہ بیسویں صدی جو ہماری زبان کی ترقی کے امکانات کی صدی تھی جس میں ہم نے بہتر سے بہتر ترقیوں کی خواہش کی تھی، فروعی مسائل میں ایسی الجھی کہ ادب و فن کی ترقی تو کجا خود زبان کا مستقبل ہی معرض بحث میں پڑ گیا.اس پر طرہ یہ کہ انگریزی ذریعہ تعلیم والے اسکولوں کی بھرمار اور لعنت نے مذہبی گھرانوں تک میں اردو کا ذبیحہ کر دیا.ہندوستان میں ہر سرکاری تقریب اور ہر محفل میں ہندی کہ بول بالارہتا ہے ،اسے قوم پرستی اور ملکی افتخار کہ نام دیا جاتا ہے لیکن انگریزی لکھنے اور پڑھنے والے ہندوستان میں ہی زیادہ ہیں.ہندوستان کہ نام ہی انڈیا ہے جو انگریزی ہے اور انگریزوں کہ دیا ہوا ہے.آج کل پورا ایک دبستان علم وادب ہندوستانیوں کہ ایسا ہے جو انگریزی حلقوں میں مساوی سلوک کہ حقدار اور عالمی عزت کہ حمل ہے لیکن وہ لوگ اپنی زبان (ہندی)کی حق تلفی کر کے انگریزی نہیں لکھتے پڑھتے ہیں.ہندوستان کے زیادہ تر ادیب انگریزی میں لکھنے کے باوجود اپنی مادری زبان یا علاقائی زبانوں سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں اس کے بر خلاف پاکستان میں جو طبقہ انگریزی بولنے،لکھنے یا پڑھنے کہ دعویٰ کرتا ہے اس کو اردو تو بہرحال نہیں آتی ہے لیکن انگریزی میں بھی بڑے بڑے صاحب لوگ بلکل صفر ہوتے ہیں.اس صورت حال کے لیے یہ نعرہ بہت بڑی حد تک صحیح ہے کہ پاکستان میں “نہ تو انگریزی آتی ہے اور نہ انگریزی جاتی ہے.”

آجکل اردو ادب کا ایک بڑا مسئلہ بے ادب مصنفین بھی ہیں جو کہ پیسے و تعلقات کے زور پر اپنی کتابیں چھپواتے اور انکاا’لوہا منواتے’  نظر آتے ہیں۔ قیصر تمکین صاحب اسی بارے میں لکھتے ہیں

ہمارے ادب میں (خاص طور پر انگلستان میں)ادب کے آخری پچیس سال کی تاریخ اصل میں اردو زبان کو ختم کرنے یا اس کہ چہرہ بہت ہی شعوری اور مخلصانہ طور پر مسخ کرنے کی کوششوں سے عبارت ہے.ان کوششوں میں تھوڑا حصّہ سمندر پار کے ملکوں میں جا بسنے والوں اور خام قلم کاروں کہ بھی ہے.نچلے طبقے یا پسے ہوئے اور پسماندہ افراد کے گروہ کے گروہ مشاعروں کو سستی تفریح کا ذریعہ بنانے میں منہک رہے ہیں.یہ کوشش کچھ زیادہ قابل تنقیص نہیں ہے کیوںکہ خام قلمکار ہی آگے بڑھ کر معتبر ادیب و شاعر بنتے ہیں.مغرب میں پیسے کی تنگی نہ ہونے کی وجہ سے ہر زید عمر بکر اپنی کتابیں خود چھپوانے لگا ہے.پیسے کوڑی سے مضبوط خضاب آلودہ حضرات نے ہندوستان و پاکستان کے ندیدے اور لالچی مدیران جرائد کو خطیر رقوم بھیج بھیج کر اپنے مشتبہ یا املا و انشا سے بے بہرہ کتب کی اشاعت کے اشتہارات بھی خوب شایع کراۓ(یہ طریقہ اب کچھ کم ہو رہا ہے ).کوکین،بردہ فروشی،غبن اور باقاعدہ ڈاکہ زنی میں ماخوزاداروں کے چلتی رقم قسم کے کامیاب حضرات نے ہوائی جہازوں کے ٹکٹ بھیج کر مستند ناقدین تک سے اپنے بارے میں بقول محمّد طفیل اکیس توپوں کی سلامی والے مضامین لکھائے.بہت سے امیر و رئیس حضرات نے اپنی سادہ و بے نمک تخلیقات کے ایسے ایسے کار چوبی نسخے چھپواۓ کے چغتائی کا مصوردیوان غالب تک ان کے سامنے پھیکا پڑگیا.گویا وہ صدی جو بڑی امنگوں کے ساتھ شروع ہوئی تھی اپنے آخری چوتھائی حصّے میں آ کر ابتدال و زوال کی سرگرمیوں کی داستان بن کر رہ ِگئ.
انہی پچیس برسوں میں برطانیہ میں مقیم اردو دوست آپس میں مربوط ہونے لگے.بازاری طریق فکر کے علاوہ بعض پراسرار وجوہ سے بھی ادیبوں اور شاعروں کی ایک ایسی کھپ دیکھتے ہی دیکھتے جہان فکر پر حاوی ہو گئی جو اپنی ناواقفیت پر مسرور اور لا علمی پر نازاں تھی.اسی زمانے میں شخصی بت پرستی اور ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانے کی روش عام ہوئی.

اردو ادب کی حالیہ تاریخ مرتب کرنے پر ان الفاظ میں راے زنی کرتے ہیں

مشکل اس وقت یہ ہے کے بیسویں صدی کی ادبی تاریخ مرتب کرنے کے کسی منصوبے پر تا حال کسی ادارے یا یونیورسٹی نے کوئی پیش رفت نہیں کی ہے امریکا اور انگلستان میں اس طرح کا کام ہو رہا ہے اور جلد ہی امریکی اور انگریزی ادب کی جامع تاریخ ہمارے سامنے آ جاۓ گی.اصل میں جس وسیع پیمانے پر محنت کی ضرورت ہے اس طرح کے وسائل ہمارے ادب میں نہیں ہیں.صرف ایک صدی کی ادبی تاریخ مرتب کرنے کے لئے بھی کئی پڑھے لکھ حضرات کا تعاون درکار ہوگا. یہاں پچھلی صدی کے صرف ایسے مسائل پر مختصر روشنی ڈالی جا سکتی ہے جو اب تک برقرار ہیں.پھر بھی اگر ہم لوگ کوئی سیر حاصل تبصرہ کرنا چاہیں تو زیادہ مشکلات نو ہوں گی.ایک جلد آسانی سی تنقیدی مسائل و نگارشات اور فن تنقید پر مرتب کی جا سکتی ہے.اسکے بعد نظم،افسانہ،ناول اور عمرانی مسائل پر علاحدہ علاحدہ دو تین جلدیں مرتب ہو سکتی ہیں.ہاں غزل کے بارے میں ضرور مشکل پیش آے گی کیونکہ  یہاں اتفاق راۓ سے زیادہ اختلافات کی عمل داری ہے۔

رسم الخط کےبارے میں انکی راے نہایت سنجیدہ، مدلل اورراقم کے خیال میں برہان قاطع کا درجہ رکھتی ہے۔ لکھتے ہیں۔

پاکستان میں اردو کی جگہ”اردش” نے قومی زبان کا منصب اختیار کر لیا.دوسری طرف ہندوستان میں فارسی رسم الخط ترک کر کے دیونا گری لپی مسلط کرنے کی کاوشوں میں اچھے کہے الله والوں کی متاع دین و دانش لٹ گئی.اس دور میں رسم الخط کا پرانا مسلہ ایک بار پھر بڑی شدّت سے ابھر کر سامنے آیا.۔۔۔اب رسم الخط کہ سوال بھی خاصا غور طلب ہے.انگریز اردو دوست رالف رسل نے ایک مقالے میں اردو پرستوں کو مشورہ دیا کہ وو دیونا گری رسم الخط اختیار کر لیں.اسکی تائید متعدد حلقوں کی طرف سے کی گئی لیکن ایک بات جس کی طرف توجہ کم دی جاتی ہے وو یہ ہے کے رسم الخط کی تبدیلی سے اردو کا تشخص اور حیثیت عرفی ہی ختم ہو جاۓ گی .زبانوں کہ جزواعظم ان کا رسم الخط ہوتا ہے.اسٹالن کی آمریت کے دور میں مسلم ریاستوں کا تہذیبی تشخص ہر ممکن طریقے پر مٹانے کی کوشش کی گئی اور پہلا اور سب سے موثر کام یہ ہوا کہ وہاں مقامی زبانوں کا رسم الخط مٹا دیا گیا.لیکن اس تبدیلی سے فائدہ کیا ہوا؟کیا واقعی عالمی پیمانے کہ کلاسیکی ادب پیدا ہوا؟

اردو کے بعض حروف مثلاً ،ث،س،ص یا ذ،ز،ظ اور ض صوتی طور پر ایک سے لگتے ہیں لیکن رسم خط کی صراط میں ان سے بلکل ہی دوسرے مختلف المعانی حروف بنتے ہیں.”قائد” کو اگر ہندی یا رومن میں لکھا جائے گا تو پڑھا اسے “کائد” جائے گا.اس طرح الفاظ کہ روپ بدلنے سے پہلے لغت ہی کو بدلنا پڑیگا.”عقل” اور”اکل” کہ فرق سمجھانے کے لیے قاموس میں ترمیم لانی ہوگی جس کے لیے ضرورت پڑیگی کہ ایک پورا لغت بورڈ بٹھایا جائے. مگر جب اصل کوششیں ہی زبان کو مٹانے کی ہو رہی ہوں تو اس “قریب المرگ ” اور کمزور زبان کو بہتری کے لیے لغت بورڈ کیوں اور کہاں مرتب کرایا جا سکتا ہے.ٹوائن بی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ کسی قوم کو مجہول بنانے کے لیے ضروری یہ ہے کہ وہاں کتاب خانوں کو آگ لگانے کے بجاۓ زبان کا رسم الخط بدل دیا جاۓ.قوم کا رشتہ خود بخود اپنے ماضی سے کٹ جائیگا.ہندوستان میں یہ تحریک چلی کہ اگر اردو کو دیونا گری لپی میں لکھا جائے تو اس زبان کہ ادب آسمان پر پہنچ جائے گا.لیکن پاکستان میں ایک خاصے با اثر حلقے کی طرف سے یہ آوازیں اٹھنے لگیں کہ اگر اردو والے رومن اسکرپٹ اختیار کر لیں تو ہماری زبان انگریزی اور چینی کو بھی میلوں دور چھوڑ جائے گی.یہ کہنے والے معلوم نہیں یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ کام تو تقریباً اسی برس پہلے ترکی میں ہو چکا ہے لیکن وہاں کے زبان و ادب نے کیا ترقی کرلی ؟

اگر پاکستان کے احباب مصر ہیں کہ ہماری زبان کے لیے رومن اسکرپٹ اختیار کر لیا جائے اور بھرتی بندھو چاہتے ہینن کہ ہم دیونا گری لپی اپنا لیں تو ہمارے سامنے یعنی ایک عام اردو دوست کے لیے مسلہ یہ پیدا ہو جائے گا کہ وہ کس کہ مشورہ قبول کرے.کیا یہ بہترنا ہوگا کہ محبان اردو کی ایک عالمی کانفرنس صرف یہ طے کرنے کے لیے طلب کی جائے کہ ہماری زبان کے لیے کون س رسم الخط بہتر رہے گا.اردو کی بہتری کے بزعم خود خوا ہاں حضرات ہر بات کی ابتدا اس دعوے سے کرتے ہیں کہ اردو ایک کم مایہ اور پسماندہ زبان ہے اور اسے بھرپور اور ترقی یافتہ بنانے کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ اسکا رسم الخط بدل دیا جائے لیکن اردو رسم الخط میں اگر کچھ نقائص ہیں تو وہی عربی و فارسی میں بھی ہیں.اصولی طور پر ان دونوں کہ رسم الخط ہی بدلنا چاہیے.یہ کوشش مشرق وسطیٰ اور ایران میں کیوں نہیں کی جاتی ہے یہ وہ لوگ اپنا رسم الخط مٹانے کے خواہاں نہیں ہیں؟

قیصر تمکین صاحب کی تحریر میں موجودہ اردو کا ایک بڑا ذخیرہ الفاظ ملتا ہے۔ وہ دقیق عربی و فارسی اصطلاحات کے بجاےاردو اصطلاحات پر زور دیتے تھے اور اپنی زبان کو کبھی اردش سے آلودہ نہ ہونے دیتے۔ یہ کتاب اپنے نفس مضمون کی بنا پر تھوڑی مشکل سے پڑھی جاتی ہے لیکن اگر آپ کو اردو تنقید و ادب سے دلچسپی ہو تو اس کا ختم کرنا چنداں مشکل نہیں بلکہ آپ اسے بار بار پڑھیں گے۔  حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

Share

January 29, 2012

زندگی سے ڈرتے ہو؟ : ن م راشد

Filed under: شاعری — ابو عزام @ 11:57 am

زندگی سے ڈرتے ہو؟
زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں!
آدمی سے ڈرتے ہو؟
آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں!

آدمی زباں بھی ہے، آدمی بیاں بھی ہے،
اس سے تم نہیں ڈرتے!
حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے، آدمی ہے وابستہ
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
اس سے تم نہیں ڈرتے!
’ان کہی‘ سے ڈرتے ہو
جو ابھی نہیں آئی، اُس گھڑی سے ڈرتے ہو
آس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو!

پہلے بھی تو گزرے ہیں،
دور نارسائی کے، ’بے ریا‘ خدائی کے
پھر بھی یہ سمجھتے ہو، ہیچ آرزو مندی
یہ شبِ زباں بندی، ہے رہِ خدا وندی!
تم مگر یہ کیا جانو،
لب اگر نہیں ہلتے، ہاتھ جاگ اُٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ اُٹھتے ہیں، راہ کا نشاں بن کر
نور کی زباں بن کر
ہاتھ بول اُٹھتے ہیں، صبح کی اذاں بن کر
روشنی سے ڈرتے ہو؟
روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں،
روشنی سے ڈرتے ہو!

شہر کی فصیلوں پر
دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر
رات کا لبادہ بھی
چاک ہو گیا آخر
اژدہامِ انساں سے فرد کی نوا آئی
زات کی صدا آئی
راہِ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے
اک نیا جنوں لپکے!
آدمی چھلک آٹھے
آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو
تم ابھی سے ڈرتے ہو؟
ہاں ابھی تو تم بھی ہو، ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں،
تم ابھی سے ڈرتے ہو!

Share

January 25, 2012

تنقید کی موت از قیصر تمکین کا تعارف – حصہ اول

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 9:01 pm

تنقید کی موت محترم قیصر تمکین صاحب کے مضامین کا ایک بیش قیمت مجموعہ ہے جسے راقم کی راے میں اردو نقد و نظر سے سے محبت رکھنے والے ہر قاری کو ضرور پڑھنا چاہیے ۔ صاحب تحریر کی اس کتاب پر نظر اردو کی عالمی کانفرنس کے دوران پڑی اور اس طرح اس نابغہ روزگار شخصیت کی تحریر و تصنیف سے تعارف  ہوا ۔ ان  کے انتقال پرمحترم حیدرآبادی کی یہ تحریر ، مرحوم کی خدمات و حیات کا نہایت عمدہ تذکرہ  ہے۔ قیصر تمکین صاحب کی دیگر کتب میں جنگ ہنسائی،خبرگیر (صحافتی دنیا کی داستان)، سو استکا ، الله کے بندے ، یروشلم یرو شلم ، یاسمین او یاسمین ، ، شعرونظر ، ہماری آواز،واہ، ایک کہانی،گنگا جمنی اور صدی کےموڑپرشامل ہیں۔

 تقریبا ۱۵۰ صفحات کی اس کتاب میں انکے بارہ عدد مضامین شامل ہیں  ۔ گذشتہ دہای کے اردو ادب کے منظر نامے سے آگاہی کے  لیے ان کا مطالعہ بے حد مفید ہے۔ ان میں بیسویں صدی کے رجحانات ، روۓادب،سوۓادب، تنقید کی موت، مغربی ادیب اور ہم، غزل کے امکانات، انہدام نظر، تہذیب عالی کا شوشہ کس لیے؟، ذکرامیر،جوش کی بد قسمتی،قاسمی  صاحب،ایک اعتراف،ایک ہدیہ عقیدت اور مجموعہ کلام یا استفہامیہ  شامل ہیں۔ قیصر تمکین صاحب ایک ہمہ جہت شخصیت تھے اور انکی تنقیدی نگاہ میں، روف پاریکھ صاحب کی طرح مغربی مفکرین کے لیے بھی وہی پیمانے ہیں جن سے وہ اپنے ہم عصر اردو لکھنے والوں کو پرکھتے تھے۔ وسیع المطالعہ تھے، ایک موقع پر لکھتے ہیں “ایلیٹ اور دوستوئیفسکی کا مطالعہ کرنے والے بہت ہی اچھے اور پڑھے لکھے لوگ بھی جیسے یہ مان چکے ہیں کہ وہ کوئی ماوراۓ تنقید نابغہ روزگار ہوں۔ ایلیٹ صاحب بڑے صاحب فکر شاعر اور ادیب و نقاد تھے.ان کی ادبی عظمت کا ہمہ وقت ذکر کرنے والے اردو داں حضرات کے لیےکیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ وہ ان حضرت کی مشرقی لندن کے غنڈوں اور نسل پرستوں جیسی زبان سے بھی اپنی واقفیت کا اظہار کریں کہ نسل انسانی ایک بڑے حصّے یہودیوں کو سب ہیومن  نیم وحشی اور  جیو ریٹ قرار دینے کا آفاقی معیار اردو تو کیا مشرق کے کسی بھی ادیب حتیٰ کہ ہندی کے نوفسطائی ادیبوں کے یہاں بھی نہ ملے گا “۔

قیصر صاحب انسانیت کے علمبردار تھے،  مزید فرماتے ہیں

.١٩٣٠ میں حضرت قبلہ ادب جناب ٹی ایس ایلیٹ صاحب نے تحریر فرمایا کہ یہودی تو چوہوں سے بھی گئے گزرے ہیں. ممکن ہے کہ ایسا لکھتے وقت ان کا ذہن نہ پختہ ہو مگر بعد کی عمر میں جب وہ نوبل انعام سے نوازے جا چکے تھے تب تو اپنی اس فسطائیت پر شرمندگی کا اظہار کر سکتے تھے.اپنی نسل پرستی پر مبنی تصنیفات کو رد کر سکتے تھے مگر ہمارے علم میں تو انکا کوئی ایسا جملہ یا تحریر موجود نہیں ہے جس میں اس سامراجی انداز نظر پر اظہار معذرت کیا گیا ہو.

انہوں نے ہمیشہ عمومی رجحانات پر تنقیدی نظر رکھی اور دریا کی روانی میں بہنے کو اپنی شان کے سوا سمجھا ، اسی زمن میں لکھتے ہیں

ہمارے بزرگوں میں جو سارے کے سارے دوسری جنگ عظیم کے کی پیداوار تھے.ایلیٹ کی ایک نظم ‘ویسٹ لینڈ’ کے بڑے چرچے تھے.ہم سمجھے کے اب یہ آکاش وانی ذرا دھیمی ہو گئی ہےاور قرت العینی جذباتی رومانیت(موصوفہ کے ایک ناول کی ابتدا ہی آیات ایلیٹ سا ہوتی ہے )کے زوال کے ساتھ ہی وہ دور “چیونگ گمی”بھی ختم ہو چکا ہے مگر حال ہی میں بی بی سی کی عالمی سروس کے دفاتر وقع بش ہاوس میں بعض ایسے بھی موحققین اردو ملے جوآج بھی ایلیٹ اوردوستوئیفسکی کا اسے طرح حوالہ دیتے ہیں جیسے اسٹوڈنٹس فیڈریشن ۔۔۔کی رکنیت کے زمانے میں کامریڈفلاں اورکامریڈفلاں لینن اور اسٹالین کے حوالہ جات سے ہم کو بہرہ ور فرماتے تھے. بہرحال ہم نے دوران گفتگو کئی باتوں کی طرف اشارہ کیا اوردوستوئیفسکی کی ضمن میں کہا کہ اس کے کرداروں کی فکری نراجیت ذہنی تشنج اور مذہبی عصبیت میں دراصل خود اسکی زندگی کے ایک نمایاں پہلو کی عکاسی ملتی ہے

انہیں بت شکنی بہت عزیز ہے اور وہ کسی بھی ادیب کو تنقید و تبصرے سے بالا نہیں سمجھتے۔ ایلیٹ کے بارے میں لکھتے ہیں

بہت سے لوگوں نے ایلیٹ کے فکرو فن پر تحسین محض ہی نہیں بلکہ منصفی و دیانت کے پہلوؤں سے بھی سوچ بچار کیا لیکن اردو میں جن حضرات نے ٹی ایس ایلیٹ کو پڑھا انہوں نے اسکو فکر و فن اور ادب کا مینارہ روشنی من کر اسکی ہاں میں ہاں ملانا باعث افتخار سمجھا اور اب تو یہ حال ہے کہ اردو کے ادبی حلقوں میں غالباً کوئی ایسا صاحب فکر ہے ہی نہیں جو یہ سوچ سکے کہ ٹی ایس ایلیٹ بھی ایک خاکی انسان تھا.ایک ایسا انسان جس کے بارے میں ام الکتاب کا ارشاد ہے کہ وہ مجموعہ خطا و نسیان ہوتا ہے اور جس کی کہاوتوں کے بارے میں دورائیں بھی ہو سکتی ہیں.

ان کی یہی راے ادب کی عمومی حیثیت اور ہماری غلامانہ ذہنیت پر بھی ہے۔ تنقید کی موت میں انگریزی ادب کے بارے میں لکھتے ہیں

ایک قبل لحاظ امر یہ ہے کہ ہندو پاکستان کی تمام جامعات میں انگریزی ادب خوب دھوم دھام سے پڑھایا جاتا ہے اور اس ادب کو کچھ اس طرح منزہ و طاہر اور ماوراۓ تنقید سمجھا جاتا ہے جیسے کوئی الہامی درجہ رکھتا ہو ہماری جامعات میں مغربی ادب کی خوبیاں ہمہ وقت معرض بحث رہتی ہیں

دانتے کے انفرنو کو مشق ستم بناتے ہوئے بجا طور پر کہتے ہیں

تقریبا ننانوے فیصدی کی حد تک اساتذہ و طلبا دانتے کی جہنم کے ناپاک ترین اور مکروہ ترین حصّوں سے یا تو ناواقف رہتے ہیں یا دیدہ دانستہ نا واقف رہنا مناسب سمجھتے ہیں.اطالوی ادب سے براہ راست واقفیت کے باوجود عزیز احمد جیسے صاحب شعور ادیب نے بھی دانتے کی صرف خوبیاں ہی گنائیں.انہو نے اسکے ذاتی تعصبات کا ذکر نہ کیا جنت کے آخری اور اعلیٰ ترین حصہ پر پہنچ کر شاعر نے جب بیانرچے کو دیکھا توکیا سوال کیا؟اس سوال کی توضیح و تشریح کلیسائی ادب نے کن کن پہلوؤں سے کی ہے؟کیا یہ فرض کرنا واقعی جائز بھی ہو سکتا ہے کہ عزیز احمد جیسا صاحب علم و شعور ان تشریحات سے بے خبر تھا!

وہ مغربی ادب کے مخالف نہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ اس کو پڑھنے والے مغربی ادب و فکر سے آگہی حاصل کریں نا کہ اسے کوی مقدس صحیفہ گردانا شروع کردیں۔ اس زمن میں کہتے ہیں

مغربی ادب و فکر سے متاثر ہونے والے زیادہ تر ایسے اصحاب ہوتے تھے جن کا مقصد پیروی مغرب نہیں بلکه مغربی ادب و فکر سے آگہی حاصل کرنا ہوتا تھا.بہت سے حضرات اس لیے مغرب کا مطالعہ کرتے تھے کہ اس سے متاثر ہو کر اسکے مثبت و جاندار پہلوؤں سے متمتع ہو کر اپنے ادب میں بھی نئی نئی راہیں نکالیں.یہ جذبہ کسی طرح بھی قابل اعتراض نہیں ٹھرایا جا سکتا ہے مگر پھر بھی یہی حضرات صرف مغرب ہی میں پھنس کر کیوں رہ جاتے ہیں اور اپنے شعور و فکر سے کام لے کر مغربی افکار کے منفی و گمراہ کن رجحانات پر نظر کیوں نہیں ڈالتے؟

جاری ہے۔

Share

January 24, 2012

قرارداد سال نو – ۵۲ ہفتوں میں ۵۲ کتابیں

Filed under: ادبیات,عمومیات,کتابیات — ابو عزام @ 12:13 pm

تو جناب قصہ کچھ یوں ہے کہ ۵۲ ہفتوں میں ۵۲ کتابوں کی تحریک سے متاثر ہوکر ہم نے بھی اپنے نئے سال کی قراردادوں میں یہ بات شامل کی کہ ہر ہفتے ایک عدد کتاب ختم کی جائے۔ ان کتابوں کا انتخاب مشکل امر ٹہرا۔ اس سلسلے میں ہم نے مختلف بہترین کتب کی فہرستوں، اپنے کتب خانے، ذاتی پسند، دوستوں اور دیگر زرائع سے مدد لی اور کتب کی مندرجہ زیل فہرست مرتب کی ہے۔ ان میں سے کچھ کتابیں پہلے پڑھ چکا ہوں لیکن دوبارہ پڑھنے کی خواہش ہے۔ سپر فریکنامکس ختم کر کر اب مبارک حیدر صاحب کی کتاب شروع کر دی ہے لہذا متعین اہداف کا حصول ابھی تک تو بفضل تعالی زیادہ مشکل نہیں لگ رہا۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
نصابی کتابوں، بلاگز، تکنیکی کتب، پاڈ کاسٹوں وغیرہ کے درمیان اچھی نان فکشن و فکشن کو پڑھنے کا موقع نہیں ملتا۔ ۵۲ ہفتوں کا یہ نظم اسی بات کی کوشش ہے کہ ہدف متعین کر کر اگر کام جائے تو کامیابی کا امکان زیادہ ہے۔ مندرجہ ذیل فہرست حتمی نہیں لہذا اس کے بارے میں اپنی رائے سے آگاہ کریں اور اگر آپ کی سفارشی کتاب زیادہ اچھی ہوئی تو اس کو اس فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
🙂

Week

Title

Author

1/1/2012

تنقید کی موت

Qaiser Tamkeen

1/8/2012

Case of Exploding Mangoes

Mohammad Hanif

1/15/2012

Superfreaknomics

 Steven D. Levitt and
Stephen J. Dubner

1/22/2012

مغالطے، مبالغے

Mubarak Haider

1/29/2012

Ender’s Game

Orson Scott Card

2/5/2012

Pragmatic thinking and
learning

Andrew Hunt

2/12/2012

فصوص الحکم

Ibn-Al-Arabi

2/19/2012

A History of God: The 4,000-Year
Quest of Judaism, Christianity and Islam

Karen Armstrong

2/26/2012

And then there were none

Agatha Christie

3/4/2012

Our Lady of Alice Bhatti

Mohammad Hanif

3/11/2012

The Selfish Gene

Richard Dawkins

3/18/2012

Torah – Old Testament

3/25/2012

Lord of the flies

William Golding

4/1/2012

دنیا کی سو عظیم کتابیں

Sattar Tahir

4/8/2012

Think and Grow Rich

Napoleon Hill

4/15/2012

The Catcher in the Rye

J. D. Salinger

4/22/2012

New Testament

4/29/2012

No god but God: The Origins,
Evolution, and Future of Islam

Reza Aslan

5/6/2012

کلیات عصمت چغتای

Ismat Chugtai

5/13/2012

The Clash of Fundamentalisms:
Crusades, Jihads and Modernity

Tariq Ali

5/20/2012


تهافت التهافت: نقض كتاب الإمام الغزالي المسمى “تهافت الفلاسفة”. من أشهر كتبه

Ibn-e-Rushd

5/27/2012

شہاب نامہ

Qudratullah Shahab

6/3/2012

The Hunger Games

Suzanne Collins

6/10/2012

Anna Karenina

Leo Tolstoy

6/17/2012

بوستان سعدی

Sa’di

6/24/2012

Lolita

Vladimir Nabokov

7/1/2012

مجموعہ مشتاق احمد یوسفی

Mushtaq Ahmed Yusfi

7/8/2012

The Brothers Karamazov

Fyodor Dostoyevsky

7/15/2012

Tafheem-ul-Quran 1

Syed Abul Ala Maududi

7/22/2012

Tafheem-ul-Quran 2

Syed Abul Ala Maududi

7/29/2012

Tafheem-ul-Quran 3

Syed Abul Ala Maududi

8/5/2012

Tafheem-ul-Quran 4

Syed Abul Ala Maududi

8/12/2012

Tafheem-ul-Quran 5

Syed Abul Ala Maududi

8/19/2012

Tafheem-ul-Quran 6

Syed Abul Ala Maududi

8/26/2012

The Castle

Franz Kafka

9/2/2012

On Intelligence

Jeff Hawkins

9/9/2012

The Adventures of Huckleberry
Finn

Mark Twain

9/16/2012

اسلامی ریاست

Dr. Hameedullah

9/23/2012

The Stand

Stephen King

9/30/2012

Angela’s Ashes

Frank McCourt

10/7/2012

Catch-22

Joseph Heller

10/14/2012

Madame Bovary

Gustave Flaubert

10/21/2012

The Diary of Anne Frank

Anne Frank

10/28/2012

The Stories of Anton
Chekhov

Anton Chekhov

11/4/2012

Das Capital

Karl Marx

11/11/2012

The Great Gatsby

F. Scott Fitzgerald

11/18/2012

Love in the Time of
Cholera

Gabriel Garcia Marquez

11/25/2012

The Picture of Dorian
Gray

Oscar Wilde

12/2/2012

A tale of two cities

Charles Dickens

12/9/2012

Linchpin

Seth Godin

12/16/2012

جنٹلمین بسم اللہ

Ashfaq Hussain

12/23/2012

The Art of War

Sun Tzu

 

Share

January 22, 2012

سوپا کا سیاپا

Filed under: خبریں,عمومیات — ابو عزام @ 2:08 pm

جیت گیا انٹرنیٹ، اور ہار گیا سوپا کا کالا قانون۔

اچھی خبر ہے کہ ذرائع ابلاغ کی طاقنتور لابی کے سامنےایک عام آدمی اور انٹرنیٹ کی آزاد معیشیت کی جیت ہوئ یا ہمیں ایسا لگا کیونکہ کنسپریسی تھیورسٹ تو اس میں بھی اپنی ہی چت اور اپنی ہی پٹ کا قانون ضرور لاگو کریں گے۔

سوپا کا قانون کیا تھا، مختصرا سوپا اور پیپا دونوں بظاہر تو آنلاین پایریسی  کے خلاف بنائے ہوئے قوانین ہیں لیکن ان کی پہنچ عمومی شہری آزادیوں تک ہوتی ہے، اسکے علاوہ ان انٹرنیٹ کمپنیوں کو جو لوگوں کا مہیا کیا ہوا مواد آنلاین رکھتی ہیں ان کو بھی کسی چوری کیے مواد کے شائع ہونے پر پابندی کا سامنا کرنا پڑتا۔ اسی وجہ سے ریڈیٹ، وکیپیڈیا، یوٹیوب، گوگل، وایرڈ وغیرہ نے اسکے خلاف سخت مہم چلائ اور بایکاٹ کیا۔

 ذرائع ابلاغ اور مواد کی فراہمی کے ادارے یا  ‘ کنٹنٹ پروایڈر’ ضرور سوپا ۲۔۰ کی کوشش کریں گے، پر دیکھتے ہیں زور کتنا بازو قاتل میں ہے۔

Share

January 20, 2012

مذہب کے نام پر قتل و غارت گری

Filed under: مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 12:09 am

تمثیلی منطق ،خیالی ڈیٹا اور مذہبی تعصبات کی مستعارانہ فکر سےلبریز افراد اکثر یہ دعوی کرتے دکھائ دیتے ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں  مذہب کے نام پر سب سے زیادہ قتل و غارت گری ہوئی ہے۔ اس بے بنیاد و بے اصل دعوے پر سر پیٹنے کو دل چاہتا ہے، اپنا نہیں بلکہ دعوی کرنے والے کا لیکن یہ سوچ کر ٹہر جاتے ہیں کہ کہیں یہ مذہب کے نام پر تشدد کے زمرے میں نا آجاے۔ حسرت کی طرح ادعا اتقا وفتح عقلی کے باوجود مذہب کے خلاف تعصب کی عینک اتار کر حقائق کو  مدنظر رکھا جائے اور تاریخ میں الحاد و سیکیولرانہ حکومتوں اور اقوام کے حالات ذندگی پڑھ لئے جائیں تو یہ غلط فہمی باآسانی دور ہو سکتی ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنوں کے ہاتھوں لاکھوں رومانوی جپسیوں، روسیوں اور یہودیوں کا قتل ہوتا ہے،بعد ازاں رد عمل میں یورپی ممالک سے بارہ ملین جرمنوں کا انقلا اور اس بالجبر ہجرت میں پانچ لاکھ افراد کی موت ہوتی ہے، اسٹالن کی کی زیر سرپرستی ایک کروڑ سے زائد افراد عظیم اشتراکیت کی مصنوعی غذائ قلت، قحط  اور قید و بند میں مارے جاتے ہیں۔ ماو کے سنہرے دور میں لاکھوں لوگوں کو عوامی عدالتوں میں برسر عام .انقلابی. سزائیں سنا کر دار و رسن سے نوازاجاتا ہیے، پوٹ پال کی حکومت میں کم و بیش بیس لاکھ کمبوڈین افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ تہذیب یافتہ یورپی اقوام جب اپنے تہذیبی ورثے کو شمالی  و جنوبی امریکہ برامد کرتے ہیں تو مختلف اندازوں کے مطابق بیس لاکھ سے ایک کروڑ کے لگ بھگ مقامی لوگوں کا صفایا ہوجاتا ہے کہ یہ تو دنیا کا  دستور ٹھرا۔ روانڈا کے قتل عام سے لے کر آشوتز کے گیسی کمروں کی نسل کشی تک اورہیروشیما و ناگاساکی و روس کے قفقاذی حملوں سے لے کر منگولوں و تاتاریوں کی وحشت تک، انسانی ظلم و ستم کی داستاں بہت طویل و غمگین ہے۔ رنگ و نسل کی برتری، قومیت پرستی، اور زیادہ طاقت کی خواہش نے ہمیشہ انسان کو انسان کا خون بہانے پر اکسایا لیکن تاریخ سےتھوڑی سی بھی آگاہی رکھنے والا شخص یہ جانتا ہے کہ ان میں سے کسی بھی مبارزت کو مذہب کے گلےباندھنا تحقیقی و علمی طور پر ناانصافی کی بات ہوگی۔ نام نہاد روشن خیال، سیکولر، تہذیب یافتہ و لبرل اقوام نے انسانیت پر جس طرح کے ظلم و ستم ڈھائے ہیں ان سے چشم پوشی کرنا تو شائد مذہب بیزاروں کی روائت ٹھری ہے۔ دو سو سال کی صلیبی جنگوں کے دس سے تیس لاکھ مقتولین پانچ سالہ جنگ عظیم کے چار سے ساڑھے سات کروڑ کشتگان کے برابر ٹھرتے ہیں، نا جانے ان کا ڈیٹا کس متوازی کائنات سے آتا ہے؟

حوالہ جات

The Great Big Book of Horrible Things: The Definitive Chronicle of History’s 100 Worst Atrocities

 List of Wars and Anthropogenic Disasters by Death Toll

Share

January 16, 2012

گواہرِاسپاٹیفائی

Filed under: ادبیات — ابو عزام @ 8:11 am

اسپاٹیفائی کی سروس حال ہی میں استعمال کرنا شروع کی جس کی بنیادی وجہ اس پر بڑے پیمانے پر موجود اردو، فارسی اور عربی زبان کے مجموعات ہیں۔ اس سروس کی اچھی بات یہ ہے کہ آپ مختلف ڈوائسز پر پلے لسٹ بنا کر اسے آف لائن سن سکتے ہیں۔ اسپاٹیفائی پر ہمیں ضیا محی الدین کی آواز میں بڑی تعداد میں مختلف صوتی مجموعات ملے جن سے اس سے قبل واقفیت نا تھی۔ اس سے نثر و نظم کے بہت سے گواہر سے  آگاہی نصیب ہوئی۔ کچھ چیدہ چیدہ مجموعات کے پتے درج زیل ہیں۔

فیض صاحب کی محبت میں

خطوط غالب مجموعہ اول

خطوط غالب مجموعہ دوم

خطوط غالب مجموعہ سوم

  ضیا محی الدین کے ساتھ ایک شام پانچ متفرق حصے

Share

January 13, 2012

اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز از محمد حنیف کا مختصر تعارف

Filed under: ادبیات,پاکستان,سیاست,طنزومزاح — ابو عزام @ 6:32 pm

کل شب کافی عرصے بعد انگریزی کی ایک نان فکشن کتاب کے دو سو کے قریب صفحات ایک نشست میں ختم کیے، باقی اس سے قبل پورے ہفتےمیں مختلف مواقع میں پڑھ چکا تھا، غالبا اس سے پہلے لایف آف پای ہی ایسی نان فکشن کتاب تھی جس کے انداز بیاں نے توجہ کو اس قدر مرکوز رکھا اور صفحہ در صفحہ کس طرح گذرا پتا نہیں چلا۔ راشد بھای سے یہ کتاب کچھ ماہ پہلے مستعار لی تھی، شروع کی لیکن دو ابواب کے بعد کچھ سفر کی مصروفیتوں کی بنا پر ختم نا کر سکا۔ اب دوبارہ اٹھای تو سوچا کہ ختم کر کے ہی چھوڑوں گا۔ محمد حنیف کی اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز اپنے متنازع موضوع اور معترضانہ مواد کے باوجود یا شاید اسی وجہ سے ایک دلچسپ ناول ہے جو ۸۰ کی دہائ کی پاکستانی سیاست، فوج اور دور آمریت کے سماجی رجحانات پر ایک طنزیہ و تمسخرانہ نظر ڈالتا ہے۔

دو ہزار نو میں شائع ہونے والے اس ناول ’اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز‘ کے مصنف، ڈرامہ نگار اور صحافی محمد حنیف کو کامن ویلتھ رائٹرز کا انعام مل چکا ہے اور اگر وہ اپنی اسی طرح کی صف شکن تحاریر لکھتے رہے تو مین بکر پرایز کی لانگ لسٹ سے شارٹ لسٹ ہونے میں کچھ زیادہ وقت نا لگے گا۔ اس ناول کا مرکزی خیال آمریت اور اس کے خمیر سے اٹھنے ہونے والی وہ مضحکہ خیزعبودیت و اضطرار کی ملی جلی کیفیت ہے جو انسانی دماغ میں فوج کے حکومتی نظام سے پروان چڑھتی ہوتی ہے۔ راقم کا اپنا تجربہ ہے کہ جب سانحہ بہاولپور ہوا تو سن آٹھ برس کا تھا لیکن اس عمر میں بھی یہ خیال کہ ضیا الحق کے علاوہ کوئی اور بھی صدر مملکت ہو سکتا ہے ایک نہایت  عجیب و ناممکن بات لگتی تھی۔ غیرجماعتی انتخابات کے اعلان پر بھی ہم بڑے عرصے تک اسی وجہ سے خفا رہے رہے کہ ہماری دانست میں یہ وہ انتخابات تھے جن میں جماعت اسلامی کے سوا سب جماعتوں کو حصہ لینے کی آزادی تھی۔ اس سے آپ ہماری سیاسی بالیدگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں لیکن یہ تو جملہ ہاے معترضہ ہیں، چلیے تبصرے کی جانب۔

محمد حنیف کے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ ان کے نزدیک کوئی چیز بھی تنقید و تمسخر سے ماورا نہیں۔ دی کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز میں بھی یہی سب وشتم بدرجہ اتم موجود ہے۔ جنرل ضیا کی آنکھوں سے لیکرانکے غدودان معدہ تک،پاکستان کی اسلامایزشن کا الزام ہو یا جرنیلوں کی میٹنگ، بیگم شفیق جہاں ضیا الحق کا بیڈروم ہو یا حدود آرڈینینس کی شرائط، ان کا خامہ بے محابہ ایک شتر بے مہارکی طرح تمام حدود قیود سے آزاد اپنے مناظر اور کردار قرطاس پر بکھیرتا چلا جاتا ہے۔ حنیف صاحب کے کردار یک جہتی اور مناظر پر انکی گرفت قوی ہے۔اپنے کرداروں کے پس منظر سے پیش منظر تک کا تعارف وہ اسطرح کرواتے ہیں کہ ایک تشنگی سی باقی رہتی ہے اور یہی اسرار کا باعث بنتی ہے۔ ان کے کرداروں کا کینوس خاصہ بڑا ہے لیکن وہ سب کے ساتھ انصاف کرتے نظر آتے ہیں۔ امریکی سفیرآرنلڈ رافیل، سی آی اے کے چارلس کوگن، اسلم بیگ، بن لادن، کیانی، برگیڈیر ٹی ایم، جنرل اختر عبدالرحمان پر مبنی کردار ہوں یا بے بی او اور علی شگری کے فسانوی کردار، انکا قلم چابکدستی سے ان زندگیوں اور واقعات کو اس طرح سے جوڑتا ہے کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے۔

محمد حنیف نے خود تو اس کتاب کو ایک انٹرویو میں فکشن قرار دیا تھا لیکن بیشتر کیچ ٹوینٹی ٹو اور جارج آرویل کی طرز کے ‘فکشنات’ کی طرح انہوں نے اپنی کہانی کے تانے بانے حقیقی واقعات سے کچھ اس طرح جوڑے ہیں کہ پڑھنے والا حقیقیت و فسانے کے درمیان ایک خلا میں معلق رہتا ہے اور آہستہ آہستہ فسانہ فسانہ نہیں رہتابلکہ حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے۔محمد حنیف کے افکارونظریات سے اختلاف تو بلکل ہوسکتا ہے لیکن ان کی ندرت خیال کی تعریف نا کرنا ناانصافی ہوگی۔ اندھی زینب کی بددعاوں سے لے کر کوے کی غیر قانونی پرواز ، شاہی قلعے کے سیکرٹری جنرل قیدی اور حرم کے قاضی کو کی جانے والی فون کال تک ان کے قلم کا نشتر ایسے زخم ادھیڑتا ہے کہ جو پاکستانی سیاسی و سماجی تناظر میں شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں اس ناول کی کہانی نہیں بیان کروں گا، بس اتنا کہتا چلوں گا کہ بقول مصنف انکا پہلا ناول ایک سیاسی تھرلر ہے اور یہ بات صد فیصد درست ہے۔

نازک طبع لوگوں کے لیے لیکن انتباہ ہے، غالب گمان ہمارا یہ ہے کہ یہ کتاب اور اس میں استعمال کی گی زبان و استعارات و مضامین طبعیت پر گراں گذرے گی۔ فحاشی کی تعریف میں تفرق ہو سکتا ہے لیکن مشتزنی سے لواطت اور راشد بھای کے الفاظ میں اعضاے بقاے نسل انسانی بلا شمار مستعمل ہیں لہذا احتیاط لازم اور جس کو ہو جان و دل عزیز اسکی گلی میں جاے کیوں۔

بی بی سی کی خبر ہے کہ اپنے پہلے ناول پر پیدا ہونے والے ردِ عمل کے بارے میں محمد حنیف نے بتایا تھا کہ ’اور کسی نے تو کوئی خاص ردِ عمل ظاہر نہیں کیا لیکن ایک صاحب نے انہیں مرکزی کردار (جنرل ضیا) کے بیٹے کا یہ پیغام پہنچایا کے ’میرے والد زندہ ہوتے تو پھر میں دیکھتا کہ وہ (حنیف) یہ ناول کیسے لکھتا‘۔
اس تبصرے کے اختتام حنیف صاحب کے کردار کورپورل لسارڈ کا یہ تاریخی جملہ نقل کرتا چلوں جو اس نے صوبیدار میجر کے اس استفسار پرکہ “یہ جو ہاٹ ڈاگ تم ہمارے لیے اتنے چاو سے لاے ہو، وہ حلال ہے کہ نہیں” کہا تھا،

it is a piece of f******* meat in a piece of f******* bread. If we can’t agree on that, what the hell am I doing here?”

اب محمد حنیف کی اگلی کتاب، آور لیڈی آف ایلس بھٹی کو پڑھنا ہے۔ اب یہاں معاملہ اس بار کچھ یوں ہے کہ کتاب ہماری ہے اور قبضہ راشد بھائی کا ہے۔ دیکھیں وہ کب عنایت کرتے ہیں۔

Share

January 10, 2012

دیسی لبرل کا المیہ – ایک خط

Filed under: طنزومزاح,مذہب — ابو عزام @ 9:57 pm

برادرم ابوعزام
آداب و تسلیمات

امید ہے مزاج بخیر ہونگے۔ آج سوچا کہ کچھ حال دل لکھوں، کچھ فگار انگلیوں کی بات ہو اور کچھ خامہ خونچکاں کی۔ آج سہ پہر سے وہ کیفیت وارد ہےجس پر علامہ نے خوب فرمایا

!یقیں مثلِ خلیلؑ آتش نشینی
!یقیں اللہ مستی، خود گزینی
سُن اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار
!غلامی سے بتر ہے بے یقینی

بس بھائی، تو مدعا و المیہ ہمارا یہی ٹھرا کہ تشکیک و ارتیاب کے بحران میں گرفتار، ہم گروہ اذھان ناپختہ کار ہیں۔ حق ہدایت نصیب کرے ورنہ تعقل پراگندہ اور افکار مغرب کی کاسہ لیسی سے عبارت۔ ایک بنیادی منطقی مغالطے کا شکار کہ جس کو لسانا دین کہتے ہیں اس کے قواعد و ضوابط، اس کے رب کی ربوبیت اور شارع کی حتمیت پر آمنا و صدقنا نہیں کہتے، اتنی اخلاقی جرات بھی نہیں پاتے کہ صاف علیہدہ ہوکر من الحیث الطالب وجود خداوندی کی دلیل طلب کریں اور رسول کی صداقت کو درایت کی کسوٹی پر پرکھنے کی سعی کریں۔ خدا لگتی کہیں تو چڑھتے سورج کی پرستش سے یہ عادت بھی واثق ہوئی کہ جیسے ستر کی دہائی میں اسٹالن کے اساطیر گنجہائے گرانمایہ معلوم ہوتے تھے، آج تعقل مستعار کے اس غلامانہ خلا کو مغربی الحادانہ افکار و زندقہ نے پر کیا ہے۔

علم حقیقی و معلومات میں باعث تفرق کیا ہے، اس کے ادراک سے بے بہرہ ہونے کے سبب ہمیشہ علوم دینیہ کو “دیر از این ایپ فار دیٹ” کے انداز فکر سے پرکھا، قران میں تلاش ممکن ہوئی تو جس مصحف کو برسوں نا چھوا تھا بیٹھے بٹھائےاس کے عالم بن گئے اور جب صحیین کی “ایپ” ملی تو شیخ الحدیث کا مرتبہ پایا۔ مغربی دانشکدوں کی افادیت سے تو مفر ممکن نہیں لیکن چونکہ کسی خردمند کا بالاستیعاب مطالعہ شامل نہ تھا لہذا تفکر کے منڈلاتے سائے، ضیا حرم نا پا کر آسیب ِالحاد میں تبدیل ہو چلے۔

تراکیب ترکی و تیزی سے ناآشنا ہم خود کو البیرونی و ابن الرشد و ابن عربی کے رشحات فکر کا تسلسل گردانتے ہیں لیکن تم سے حقیقت حال کیا چھپانا، ہماری محدود صلاحیت ہنر تو بس اینگلز و ڈاکنس کی سوچ کا پرتو ہے۔ ویسے بھی ماحول کچھ ایسا سازگار ہے کہ فی زمانہ “انٹیلیکچول” ہونے کے لئے منکر شریعت و شرافت ہونا ایک امر لازم ٹھرا۔ گویا کہ افکار میں بائیں جانب جھکاو اور افعال پر از معائب نا ہوں تو ذہنی استدراک کے مدارج کو انڈر گریجویٹ ہی گردانا جاتا ہے۔ اگر “آرگنائزڈ ریلیجن” کے ذکر پر لال رومال دیکھنے والے بیل کی طرح نا ڈکرائیں تو ٹوئٹر مفکرین آئی کیو سو سے نیچے ہونے کا گمان کرتے ہیں۔

بہرطور، یہ تو کچھ بیان حال دل تھا، کھول کر تمہارے سامنے رکھ دیا۔ لیکن میاں خیال رکھنا، ہم تو یہ کہے دیتے ہیں لیکن اگر تم سے زرا بھی کوئی پندونصائح وارد ہوئے تو چرب زبانی و بذلہ سنجی و لطیفہ گوئی کی آڑ میں تمہاری وہ ہنسی اڑائیں گے کہ تمہیں ہماری حکائت زباں کے پیچھےچھپنے کی زرا بھی جگہ بھی نا ملے گئ۔ اور اگر زیادہ مدلل ہوئے تو غیر عرفی سوچ و معترضانہ تفکر کے قتل کا ذمہ دار قرار دے کر وہ مجلس عزا گرم کریں کہ بھاگتے ہی بنے گی۔ زرا آزما کر تو دیکھو۔

دعاوں کا طلبگار
ایک دیسی لبرل

Share

January 8, 2012

!چین کی ترقی

Filed under: مشاہدات — ابو عزام @ 10:32 pm

 قیصر تمکین صاحب کی کتاب تنقید کی موت میں منصورہ احمد کی مندرجہ ذیل مختصر نظم ایک استفہامیے کے طور پر موجود ہے۔

!مرے مالک
تجھے تو علم ہی ہوگا
جو بچپن سے بڑھاپے میں چلے جاتے ہیں
ان سب کی جوانی کون جیتا ہے؟

 مجھ سے اکثر احباب اس بات پر نالاں رہتے ہیں کہ میں چین کی ترقی اور اس کی عظمت کی داستانوں کو درخوراعتنا نہیں گردانتا، نا ہی مجھے اس “ابھرتی ہوئی نئی عالمی طاقت” کی  بڑائی سے کوئی خاص دلچسپی ہے۔ میں اسے ۸۰ کی دہائی کی جاپانی  ترقی کی ناپائدارگی پر محمول کرتے ہوئے اکثر یہ سوال کرتا ہوں کہ جب ترقی مشرق کے رطب اللسان مجھے  سرزمین الصین کی تازہ ترین ایجاد کا نام بتائیں گے  تو میں اس موضوع پر مزید گفتگو کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اپ شائد اسے کج بحثی خیال کریں لیکن معاشی ناہمواریوں کے جس ابتذال  میں اہل چین نے ایک ناپائدار ترقی کی بنیادیں کھڑی کی ہیں، ان کی انسانی قیمت اسقدر بلند ہے کہ اس کا اجمالی تذکرہ بھی گلوبلائزیشن کے بڑے سے بڑے حامی کے رونگٹے کھڑے   کرنے کے لئے کافی ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ استعمارکا جبہ اتار کر انسانیت کا لبادہ اوڑھے اور خاکی پیراہن سے منطقی خطوط پر جی ڈی پی کی ناہمواریوں، یوان کے غیر فطری ٹھراو،  برامدات کے بسیار، معاشی ترقی کا کمیونسٹ پارٹی کی “ازاد منش، انسان دوست، مزدور دوست” پالیسیوں سے تعلق استوار کرے۔

 مسٹر ڈیزی کے ساتھ زرا شینجوان کا چکر لگائیں اور  دیکھیں کہ ترقی کس چڑیا کا نام ہے۔

 

Share
Older Posts »

Powered by WordPress