زندگی سے ڈرتے ہو؟
زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں!
آدمی سے ڈرتے ہو؟
آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں!
آدمی زباں بھی ہے، آدمی بیاں بھی ہے،
اس سے تم نہیں ڈرتے!
حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے، آدمی ہے وابستہ
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
اس سے تم نہیں ڈرتے!
’ان کہی‘ سے ڈرتے ہو
جو ابھی نہیں آئی، اُس گھڑی سے ڈرتے ہو
آس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو!
پہلے بھی تو گزرے ہیں،
دور نارسائی کے، ’بے ریا‘ خدائی کے
پھر بھی یہ سمجھتے ہو، ہیچ آرزو مندی
یہ شبِ زباں بندی، ہے رہِ خدا وندی!
تم مگر یہ کیا جانو،
لب اگر نہیں ہلتے، ہاتھ جاگ اُٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ اُٹھتے ہیں، راہ کا نشاں بن کر
نور کی زباں بن کر
ہاتھ بول اُٹھتے ہیں، صبح کی اذاں بن کر
روشنی سے ڈرتے ہو؟
روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں،
روشنی سے ڈرتے ہو!
شہر کی فصیلوں پر
دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر
رات کا لبادہ بھی
چاک ہو گیا آخر
اژدہامِ انساں سے فرد کی نوا آئی
زات کی صدا آئی
راہِ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے
اک نیا جنوں لپکے!
آدمی چھلک آٹھے
آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو
تم ابھی سے ڈرتے ہو؟
ہاں ابھی تو تم بھی ہو، ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں،
تم ابھی سے ڈرتے ہو!
بہت اعلیٰ
یہ پتہ نہ تھا کہ یہ ن م راشد صاحب کی تخلیق ہے۔
بہت اعلیٰ
Comment by علی — January 29, 2012 @ 1:37 pm
تبصرے کا شکریہ علی صاحب۔ ضیا محی الدین نے اسے بہت خوب پڑھا ہے۔
http://www.youtube.com/watch?v=0hf_aS1peLc
Comment by ابو عزام — January 30, 2012 @ 8:54 pm
انتہائی اعلیٰ انتہائی خوبصورت۔ کیا کہنے جناب آپ کے بھی اس انتخاب کیلیے، لاجواب۔
Comment by محمد وارث — January 29, 2012 @ 9:12 pm
بہت شکریہ وارث صاحب، آپ کے بلاگ پر شاعری و نثر کے بہترین انتخابات پڑھنے سے کچھ تو اثر آئے گا
Comment by ابو عزام — January 30, 2012 @ 8:56 pm
اس نظم کی تشریح کردیں پلیز۔ اور مشکل الفاظ کے معنی بیان کر دیں۔جزاک اللہ۔
Comment by Khalil Ahmad — March 22, 2014 @ 3:51 am