فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

January 1, 2012

عصری ادب اور سماجی رجحانات از ڈاکٹر روف پاریکھ کا تعارف

Filed under: ادبیات,تحقیق — ابو عزام @ 8:36 am

پچھلے ماہ کراچی ارٹس کونسل میں اردو کی عالمی کانفرنس میں ماہر لسانیات اور اردو لغت بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر روف پاریکھ کو پہلی مرتبہ سننے کا اتفاق ہوا۔ موصوف کا مقالہ غالب کی اردو لغت پر تھا جس میں ان کا مدلل و پر مغزانداز تحریر نمایاں نظراتا تھا۔ تقریرنہایت ہی عمدگی سے کی جس میں کوئی بات بھرتی کی نا تھی، نہایت قابل ادمی ہیں اور قحط الرجال کے اس دور میں جہاں عمومی طور پر رسائل و جرائد میں سرقے کا رواج اور تحقیق کا فقدان ہے، امید کی اخری کرنوں میں سے ایک کرن۔ کانفرنس کے بعد حسب عادت ہم جیب ہلکی کرنے باہر موجود کتابوں کے اسٹالز پر جا پہنچے تو وہاں روف پاریکھ صاحب کی کتاب عصری ادب اور سماجی رجحانات نہائت مناسب داموں میسر تھی،فورا خریدی اور ایک ہی نشست میں ختم بھی کرلی، اسی کا تعارف درج زیل ہے۔

اکادمی بازیافت کی شائع کردہ تقریبا دو سو صفحات کی یہ کتاب عصری ادب اور سماجی رجحانات، ڈاکٹر صاحب کے مختلف کتابوں پر کئے گئے تبصرہ جات کا مجموعہ ہے، یعنی کتاب برائے کتابیات یا میٹا بک۔ اس میں تقریبا تیس کے قریب مختلف النوع کتب پر تبصرے شامل ہیں لیکن یہ محظ تبصرے نہیں بلکہ اردو لغت، الفاظ کے چناو، فن تحریر، موجودہ ادبی و ثقافتی رجحانات، سماجی عناصر اور دیگر ادبی عوامل پر سیر حاصل مباحث کا نادر مجموعہ ہے۔ اس کے چیدہ چیدہ مضامین میں اردو میں عربی الفاظ کا تلفظ ایک جائزہ، الفاظ کی سرگزشت، محمد حسین ازاد کا کتب خانہ، عورت اور اردو زبان ایک جائزہ، مجید لاہوری کی حرف و حکایت ایک جائزہ، زکر راجا بھوج اورمولوئ مدن کا اور عنائتیں کیا کیا شامل ہیں۔

عام ناقدین کی طرح ڈاکٹر صاحب تعریف میں بخل سے کام نہیں لیتے لیکن انکی تنقید کا نشتر بھی کسی مصلحت کا قائل نہیں، وہ موجودہ دور کی سریع التحریر پیڈ پبلشنگ کی روش سے سخت نالاں ہیں اور اپنی تحاریر میں اس کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ مثلا موصوف نامی ایک کتاب کے بارے میں کہتے ہیں

“موصوفہ”کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مشتاق احمد یوسفی سے متاثر ہیں (لیکن اس طرح نہیں جس طرح یونس بٹ یوسفی سے متاثر ہیں.کیوں کہ اب تو یوسفی صاحب یونس بٹ سے متاثر ہو گئے ہیں یعنی بلکل اس طرح جیسے مظلوم عوام سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں)مگر اس متاثر ہونے کے باوجود موصوفہ نے یوسفی صاحب سے کوئی سبق نہیں سیکھا. یوسفی صاحب آج اردو کے عظیم ترین مزاح نگاروں میں شمار ہوتے ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ہر لفظ سوچ سوچ کر اور سطر تول تول کر لکھتے ہیں.بلکہ لکھنے سے پہلے سو بار مٹاتے ہیں اور غالباً اسی لیے پنسل سے لکھتے ہیں کے مٹانا تو پڑے گا ہی.”آب گم “کے دیباچے میں خود ایک جگہ لکھا ہے کہ”خاکے اور مضامین لندن میں بڑی تیز قلمی سے لکھ ڈالے اور حسب عادت پال میں لگا دیے کے ڈیڑھ دو سال بعد نکل کر دیکھیں گے کہ کچھ دم ہے بھی”. اس میں”حسب عادت “کے الفاظ غور طلب ہیں.جو شخص اتنا تردد کرے اسے بڑا نثرنگار تو بننا ہی ہے.لیکن رفعت ہمایوں صاحبہ کو شاید مصنفہ بننے کی جلدی تھی لہٰذا مضامین کو پال میں لگا نے کی بجاۓ کچے ہی دستر خوان پر سجا دیے کہ قاری جانے اور اس کا ہاضمہ!

مندرجہ بالا پیراگراف جامع طریقے سے ایک پریشان کن رجحان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جسے استاد جعفر نے اپنے تازہ مضامین میں یہاں اور یہاں بڑی خوبصورتی سے نشتر خامہ کا نشانہ بنایا ہے۔ڈاکٹر صاحب کو الفاظ سے بڑی محبت ہے۔ الفاظ کی سرگزشت نامی مضمون میں لکھتے ہیں

اس پر ہمیں خیال آیا کہ ہر زبان میں کچھ ایسے الفاظ ہوتے ہیں جو اس خطّے کے تہذیب و تمدن اور معاشرتی تصورات کو آشکارا کرتے ہیں.غیر قوم یا دوسرے کلچر کے لوگ ان کے لئے کوئی لفظ یا کوئی مترادف اپنے ہاں نہیں رکھتے اور اگر کوئی لفظ ہوتا بھی ہے تو اس مفہوم کو صحیح طور پر ادا نہیں کرتا.مَثَلاً فرانسیسی اور جرمن زبان میں بعض تہذیبی تصورات کے لئے جو لفظ ملتے ہیں ان کا ٹھیک ٹھیک انگریزی مترادف دستیاب نہیں ہوتا اور ان کی وضاحت میں ایک دو سطریں لکھنی پڑتی ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ محض لفظ نہیں ہوتے بلکہ”تصورات”اور”خیالات”ہوتے ہیں اسکی مثال کے طور پا پر لفظ”عصمت”کو لے لیں،ہمارے ہاں عصمت و عفت کا جو تصور ہے وو مغربی تہذیب میں ناپید ہے.یہی وجہ ہے کہ انگریزی میں اس مفہوم کی ادائیگی کے لئے جو لفظ ملتے ہیں(مَثَلاً,purity,modesty chastity,integrity وغیرہ)وہ اسکے اصل مفہوم کو اور عصمت کے تصور کو صحیح معنوں میں ادا کرنے سے قاصر ہیں.کچھ یہی کیفیت ہماری اشیاۓ خوردو نوش اور رسم و رواج کی ہیں.مَثَلاً پان کو لیجئے،اسکے لوازمات ،خصوصیات اور اہمیت پر انگریزی میں ایک مضمون لکھ ڈالیے، لیکن جس انگریز نے زندگی بھر پان نہیں کھایا وہ خاک بھی نہیں سمجھے گا کہ پان ہوتا کیا ہے.ہاں اسے ایک عدد گلوری، سونف خوشبو اور مشکی قوام والے پان کی کھلا دیجیے اور پھر قدرت کا تماشا دیکھیں.انشاء الله دریاۓ ٹیمز کی دھلی ہوئی انگریزی میں پان پر لیکچر دیگا اور پھر لکھنوی لہجے میں آداب و تسلیمات کے بعد بیٹل لیف (betel leaf ) کی بجاۓ پان (paan) کہنے پر اصرار کریگا.(اگر بیہوش نہ ہوا ہوگا تو!)کیوں کہ پان محض کھانے کی چیز نہیں ایک تہذیب کہ نام ہے.

ہماری طرح ڈاکٹر صاحب بھی ماہنامہ افکار کے بند ہونے سے بڑے افسردہ تھے اور عمومی طور پر ادبی رسائل کی طرف لوگوں کے عدم توجہی کے رجحانات پرسیخ پا۔ لیکن اس میں وہ بڑا قصور ان ناشرین کا گردانتے ہیں جنہوں نے قیمتیں بڑھا بڑھا کر ادب کو لوگوں کی پہنچ سے دور کر دیا ہے۔ اس ضمن میں وہ پرانی کتابوں کے ٹھیلوں کی مثال دیا کرتے ہیں جہاں لوگوں کا ہجوم لگا ہوتا ہے کیونکہ لوگ پڑھنا چاہتے ہیں اور سستی کتابیں جو ان کی قوت خرید میں ہوں وہی لے سکتے ہیں اب وہ کسی بھی معیار کی ہوں۔ اپنے مضمون ادبی رسائل کا سیاپا میں رطب اللسان ہیں

ایک زمانہ تھا کہ اردو کے ادبی رسائل بڑی دھوم سے نکلا کرتے تھے اور ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے تھے.پاکستان بننے کے بعد بھی کوئی بیس پچیس سال تک یہ عالم تھا کہ کسی ادبی پرچے میں کوئی اچھا مضمون یا افسانہ شائع ہوتا تو اسکا چرچا ہوا کرتا تھا.کافی ہاوس یا چاۓ خانے میں ہونے والی غیر رسمی ادبی نشستوں میں ان پر گفتگو ہوتی تھی لیکن رفتہ رفتہ منظر بدلتا گیا.ادبی رسائل کہ بازار سرد ہو گیا،انکے خریدار نہ رہے،ادب سے لوگوں کی دلچسپی کم ہوتی گئی.ادب محض تعلقات عامہ،فوائد کے حصول اور وقتی شہرت کاذریعہ بن گیا.حد سے حد مٹھی بھر لوگ ایسے رہ گئے جن کو ادب سے واقعی اور حقیقی دلچسپی ہے،بلکہ کچھ لوگوں کا تو خیال ہے کہ ہم لوگ ادب سے دلچسپی رکھنے والی آخری نسل کے افراد ہیں.

لیکن عام رجحان کے برعکس صاحب کتاب ٹیکنالوجی کو مورد الزام نہیں ٹہراتے۔ مزید لکھتے ہیں۔

ادب کی اس کساد بازاری پر بعض حضرات سائنس اور ٹیکنالوجی کو بھی صلواتیں سناتے پائے گئے ہیں.انکا خیال ہے کے ٹی وی ،وی سی آر،ڈش اینٹینا،ویڈیو گیمزاور انٹرنیٹ کے اس دور میں اگر کسی کے پاس ادب کے لیے وقت ہے تو وہ اسے زیادہ دلچسپ اور رنگوں اور روشنیوں میں نہائ ہوئی مصروفیات میں گذارنا چاہتا ہے.جب سے سائنس کو عروج ہوا ہے،ادب زوال پذیر ہو گیا ہے .لہٰذا سائنسی ترقیوں کو ادب کا دشمن سمجھنا چاہیے وغیرہ .

مزید لکھتے ہیں کہ

لیکن اگر ہم مغرب پر نظر ڈالتے ہیں تو حیران کن نظارہ سامنے آجاتا ہے سائنس اور ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر وغیرہ میں ہم سے دو سو سال آگے چلنے والی اقوام کو مطالعے سے بےپناہ شغف ہے.کچھ عرصے قبل ہیری پوٹر کے سلسلے کی نئی کتاب منظر عام پر آئ،مغربی معاشرے مے گویا زلزلہ آگیا.کئی روز تک خبروں کا موضوع بننے والی اور فروخت کے نۓ ریکارڈ قائم کرنے والی یہ کتاب بَچوں کا ناول ہے،جس کا ہیرو ہیری پوٹر جادو سے واقف ہے.انٹرنیٹ پر چند ماہ قبل ہی سے اس کتاب کی خبریں آرہیں تھیں.اسے آٹھ جولائی کو رات بارہ بجے کتابوں کی دوکان سے باہر کیا بچے ،کیا بڑے قطار لگاے کھڑے تھے.
کہاں ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کے کمپیوٹر کی وجہ سے کتاب نہیں بکتی؟کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی وجہ سے کتابوں کی فروخت میں خاصا اضافہ ہوا ہے کیوں کہ انٹرنیٹ پر کتابوں کی خبروں اور ان پر تبصروں نے کتاب کی مانگ میں اضافہ کیا ہے.ہیری پوٹر کی کتابوں کی مصنفہ جے کے رولنگ کو معاوضے کے طور پر کئی ملین ڈالرمل چکے ہیں اور اس سلسلے کی آخری کتاب یعنی”ہیری پوٹر اینڈ دی گو بلٹ آف فائر” کی صرف دو دن میں پانچ لاکھ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہو گی ہیں اور ان میں سے تقریبن ایک لاکھ کاپیاں انٹرنیٹ کےذریعے بکی ہیں.یہ کتابیں اڑتالیس لاکھ کی تعداد میں شائع ہوئی ہے اور خیال ہے کے مزید بیس لاکھ کاپیاں فوری طور پر چھاپنی پڑینگی. یہ ہے سائنسی طور پر ترقی یافتہ معاشرے میں کتاب کی اہمیت اور قدرو قیمت کا حال.

اور اس کی بنیادی وجہ فاضل مصنف کے نزدیک یہ ہے کہ

لیکن یہ تو مغربی معاشرے کی بات ہے.ہمارے ہاں کتابوں کی فروخت تیزی سے کم ہو رہی ہے.اسکی ایک بری وجہ مہنگائی،اقتصادی بدحالی اور ناشرین کی لوٹ کھسوٹ ہے جو کتابوں کی قیمتیں اتنی زیادہ رکھتے ہیں کہ جو پڑھنا چاہتا ہے وہ بھی کتاب خریدنے کی ہمّت نہیں کر سکتا.ان پڑھ لوگوں یا پڑھے لکھےبد زوقوں کا تو ذکر ہی جانے دیجئے .

محترم ماہر لسانیات کو اگلے ناقدین سے بڑی انسیت ہے، خصوصا کلیم الدین احمد جو نقوش کے میں لکھا کرتے تھے ان کا ایک اقتباس بطور دلیل شامل کرتے ہیں کہ “نقوش” کے طنز و مزاح نمبر میں انہو نے لکھا:

“شوکت تھانوی اور عظیم بیگ چغتائی اپنی شہرت کے باوجود بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتے اصل یہ ہے کہ دونوں کی ذہنیت ترقی کے مدراج طے کرنے کے دوران ایک خاص مقام پر پہنچ کر رک گی ہے اور یہ ذہنیت وہی ہے جسے”انڈرگریجویٹ”ذہنیت کہتے ہیں.دونوں استعداد بہم پہچانے سے پہلے مصنف بن بیٹھے.ان کے کارناموں کو اگر کسی طالب علم کہ کارنامہ شمار کیا جاۓ تو لائق تحسین ہے.اس سے زیادہ وقعت دینا تنقید اور مذاق صحیح پر دانستہ ظلم کرتا ہے”مزید لکھتے ہیں کے :”انہیں لازم تھا کہ جو کچھ لکھتے اسے محض مشق سمجھتے.لکھتے اور لکھ کر پھاڑ دیتے اور آہستہ آہستہ مطالعہ، مشاہدہ، غوروفکر میں وسعت، باریکی اور گہرائی پیدا کرنے کی کوشش کرتے”.

پی ار کے شعبے پر چوٹ کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ

دراصل تعلقات عامہ کا شعبہ اب اتنا زور پکڑ گیا ہے کہ اسکے زور پر ٹین ڈبےوالے بھی آرٹ کاؤنسل کے کرتا دھرتا بن جاتے ہیں اور کہا یہ جاتا ہے کہ “جی ادب سے انہیں بہت لگاؤ ہے اس لیےبنا دیا ہے”. اس جلدی چھپنے،مصنف کہلانے اور صاحب کتاب بننے کے جنون نے بہت اچھے لکھنے والوں کو خراب و خوار کیا ہے

اور پھر جو انہوں نے لکھا تو ہماری اور راشد کامران بھائی کی دل کی بات لکھی جو یونس بٹ صاحب کی حالیہ کتب خرید کر پچھتا رہے ہیں۔

ڈاکٹر محمّد یونس بٹ کو ہی لیجیے،بہت اچھی اٹھان تھی.لگتا تھا کے اردو مزاح کے گلستاں میں ایک نو بہارناز کا اضافہ ہوا چاہتا ہے.لیکن ایک تو انھوں نے انگریزی مزاح اور مشتاق احمد یوسفی کے فقروں کو استعمال کرنا شروع کیا، دوسرے بسیار نویسی کے سبب خود کو بھی دہرانا شروع کیا اور تھوک کے بھاؤ لکھنے کی وجہ سے خود کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا لیا.

اور اخری اقتباس حاصل مضمون کے طور پر درج کرتا ہوں کہ

مرزا فرحت الله بیگ جیسے لکھنے والوں کو لوگوں نے زیادہ لکھنے پرطعنہ دیا تھا کہ انہیں لکھنے کہ ہیضہ ہو گیا ہے.جس پر انھوں نے کہا کہ بہت اچھا،اب مجھے لکھنے کہ قبض رہے گا.فرحت عبّاس شاہ کو تو خیر شاعری کہ ہیضہ ہو ہی گیا ہے اور ابھی بہت سے ایسے لکھنے والے ہیں کہ کم لکھیں تو اپنا، قارئین کا اور ادب کا سب کا بھلا کریں گے.برا ہوگا تو ناشرین کا جو فرحت عبّاس شاہ اور یونس بٹ وغیرہ کی کتابیں دھڑا دھڑ چھاپ کر نہال ہوئے جا رہے ہیں.

یہ تو جناب اس کتاب کا ایک نہائت سطحی سا تعارف تھا، اس تحریر کی تمام خرابیاں ہماری کم علمی اور نااہلی پر منطبق ہے، اس گوہر نایاب کتاب میں نہائت خوب علمی و ادبی بحثیں ہیں، الفاظ و املا کی ایسی نادر مثالیں ہیں کہ لفظوں سے محبت کرنے والے لوگ عش عش کر اٹھیں گے۔ ہدیہ ڈیڑھ سو روپے ہے اور امید ہے کہ لبرٹی یا اردو بازار سے یہ کتاب با اسانی مل سکتی ہے۔ اپنے تبصرہ جات سے ضرور اگاہ کیجئے گا۔

Share

2 Comments »

  1. کتابوں پر تبصرے میں کم ہی پڑھتا ہوں اور وہ بھی نان فکشن ہو تو بالکل ہی نہیں۔
    لیکن آپ نے جو لکھا اسے پڑھ کے یوں لگا کہ جیسے میں نے ہی ذرا باتمیز ہوکے لکھا ہے۔
    اب یہ علم نہیں کہ یہ خیلات کا توارد ہے یا سرقہ
    😀

    Comment by جعفر — January 1, 2012 @ 9:03 pm

  2. ہماری صلاحیت ہنر کے لحاظ سے تو سرقہ ہی ہوگا، پسندیدگی کا شکریہ۔

    Comment by عدنان مسعود — January 2, 2012 @ 10:54 am

RSS feed for comments on this post. TrackBack URL

Leave a comment

Powered by WordPress