تمثیلی منطق ،خیالی ڈیٹا اور مذہبی تعصبات کی مستعارانہ فکر سےلبریز افراد اکثر یہ دعوی کرتے دکھائ دیتے ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں مذہب کے نام پر سب سے زیادہ قتل و غارت گری ہوئی ہے۔ اس بے بنیاد و بے اصل دعوے پر سر پیٹنے کو دل چاہتا ہے، اپنا نہیں بلکہ دعوی کرنے والے کا لیکن یہ سوچ کر ٹہر جاتے ہیں کہ کہیں یہ مذہب کے نام پر تشدد کے زمرے میں نا آجاے۔ حسرت کی طرح ادعا اتقا وفتح عقلی کے باوجود مذہب کے خلاف تعصب کی عینک اتار کر حقائق کو مدنظر رکھا جائے اور تاریخ میں الحاد و سیکیولرانہ حکومتوں اور اقوام کے حالات ذندگی پڑھ لئے جائیں تو یہ غلط فہمی باآسانی دور ہو سکتی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنوں کے ہاتھوں لاکھوں رومانوی جپسیوں، روسیوں اور یہودیوں کا قتل ہوتا ہے،بعد ازاں رد عمل میں یورپی ممالک سے بارہ ملین جرمنوں کا انقلا اور اس بالجبر ہجرت میں پانچ لاکھ افراد کی موت ہوتی ہے، اسٹالن کی کی زیر سرپرستی ایک کروڑ سے زائد افراد عظیم اشتراکیت کی مصنوعی غذائ قلت، قحط اور قید و بند میں مارے جاتے ہیں۔ ماو کے سنہرے دور میں لاکھوں لوگوں کو عوامی عدالتوں میں برسر عام .انقلابی. سزائیں سنا کر دار و رسن سے نوازاجاتا ہیے، پوٹ پال کی حکومت میں کم و بیش بیس لاکھ کمبوڈین افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ تہذیب یافتہ یورپی اقوام جب اپنے تہذیبی ورثے کو شمالی و جنوبی امریکہ برامد کرتے ہیں تو مختلف اندازوں کے مطابق بیس لاکھ سے ایک کروڑ کے لگ بھگ مقامی لوگوں کا صفایا ہوجاتا ہے کہ یہ تو دنیا کا دستور ٹھرا۔ روانڈا کے قتل عام سے لے کر آشوتز کے گیسی کمروں کی نسل کشی تک اورہیروشیما و ناگاساکی و روس کے قفقاذی حملوں سے لے کر منگولوں و تاتاریوں کی وحشت تک، انسانی ظلم و ستم کی داستاں بہت طویل و غمگین ہے۔ رنگ و نسل کی برتری، قومیت پرستی، اور زیادہ طاقت کی خواہش نے ہمیشہ انسان کو انسان کا خون بہانے پر اکسایا لیکن تاریخ سےتھوڑی سی بھی آگاہی رکھنے والا شخص یہ جانتا ہے کہ ان میں سے کسی بھی مبارزت کو مذہب کے گلےباندھنا تحقیقی و علمی طور پر ناانصافی کی بات ہوگی۔ نام نہاد روشن خیال، سیکولر، تہذیب یافتہ و لبرل اقوام نے انسانیت پر جس طرح کے ظلم و ستم ڈھائے ہیں ان سے چشم پوشی کرنا تو شائد مذہب بیزاروں کی روائت ٹھری ہے۔ دو سو سال کی صلیبی جنگوں کے دس سے تیس لاکھ مقتولین پانچ سالہ جنگ عظیم کے چار سے ساڑھے سات کروڑ کشتگان کے برابر ٹھرتے ہیں، نا جانے ان کا ڈیٹا کس متوازی کائنات سے آتا ہے؟
حوالہ جات
The Great Big Book of Horrible Things: The Definitive Chronicle of History’s 100 Worst Atrocities
حضور آپ ماضی ميں چلے گئے اور حال کی بات ہی نہيں کی ۔ امريکا اور اس کے اتحادی انسانی حقوق کا ڈھول بجاتے نہيں تھکتے وہ عراق ۔ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں ميں لاکھوں بے قصور انسانوں کا خون کر چکے ہيں ۔ کيا يہ مذہب کے لئے ہے ؟
Comment by افتخار اجمل بھوپال — January 20, 2012 @ 3:07 am
تبصرے کا شکریہ افتخار صاحب۔ عراق و افغانستان کی عدم شمولیت کی وجہ یہ تھی کہ میں اس مضمون کو غیر متنازعہ طور پر تاریخی پس منظر تک محدود رکھنا چاہتا تھا۔ مرکزی خیال کو جدید صلیبی جنگوں کے منطقی مغالطے سے آلودہ ہونے سے بچانا اسکا بنیادی مقصد تھا۔
Comment by ابو عزام — January 20, 2012 @ 9:58 am
آپ نے وہ محاورہ سنا ہے کہ
بھینس کے آگے بین بجانا
Comment by جعفر — January 20, 2012 @ 8:48 am
تبصرے کا شکریہ جعفر صاحب، فیض صاحب نے کچھ ایسا ہی لکھا تھا کہ آکثر عقلمند لوگ اس سے اجتناب کرتے ہیں لیکن پھر ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ کچھ خدائ فوجدار ایسے ہوتے ہیں جن کو اس بین کے بجاتے رہنے سے بہتری کی امید ہوتی ہے، غالبا راقم کا شمار انہی گاودیوں میں ہوتا ہے۔
Comment by ابو عزام — January 20, 2012 @ 9:49 am
انسان اب یہ سمجھتا ہے کہ ہم اتنے بالغ ہو گئے ہیں کہ اب خدا کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ۔ مذہب کا کام صرف اتنا ہے کہ ہم جو چاہتے اس کی راہ میں نہ آئے ورنہ جو تھوڑا بہت موجود ہے ہم اسے بھی مٹا دیں گے اور ایک اپنا نیا مذہب پوری دنیا میں رائج کر دیں گے ۔
Comment by محمد ریاض شاہد — January 20, 2012 @ 10:44 am
تبصرے کا شکریہ ریاض شاہد صاحب، رومیوں و یونانیوں کی کونسلوں سے لے کر آج تک الحاد و زندقہ کی تحاریک کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ انسان کو عقلی بلوغت کے اس درجے پر فائز قرار دیں جس کے بعد خدا کا وجود لاحاصل ہو اور اسی زمن میں فرائڈ خدا کی موت کا اعلان کرتا نظر آتا ہے ، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ الہامی ہدایت کے بغیر انسانی فکری بلوغت نے کبھی کمیونزم کو جنم دیا تو کبھی استعماریت کو۔ صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ
Comment by ابو عزام — January 20, 2012 @ 2:46 pm
حضور آپ کی تاریخ کچھ سترہ اٹھارہ اور انیسویں صدی تک محدود نہیں ہے؟ موجودہ تشدد کی تو بات ہی رہنے دیں کہ سارا ٹنٹا ہی میرے اور تیرے خدا کی بڑائی کا ہے۔
یہ بھی اہم ہے کہ آپ نے تمام مذاہب کی وکالت کا بیڑا اٹھایا ہے جبکہ صحیفے جابجا ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں کہ خود خدا نے بستیوں کی بستیاں اور نسلوں کی نسلیں مٹادیں مگر باعث تحقیر انسانیت ہی ٹہرے گی۔
یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ مذہب ہی محض ایسی “کہوناس” فراہم کرتا ہے کہ انسان بڑی سے بڑی منافقت دھڑلے سے کرسکے اور تاریخ، ڈیٹا اور سائنس سے وہی قبول کرے جو وارے میں آتا ہے۔
Comment by راشد کامران — January 20, 2012 @ 11:14 am
برادرم راشد، تبصرے کا شکریہ۔ مودبانہ گذارش ہے کہ ڈیٹا کا جواب ڈیٹا ہی ہوتا ہے، جلی کٹی صلواتیں نہیں۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ چت بھی میری، پٹ بھی میری۔ ہم تو خاص علوم لانسان .”انتھروپولوجیکل” تناظر میں بات کر رہے تھے اور آپ بیچ میں صحائف لے آے، یہ تو قبلہ آپ کے مشرب کے خلاف ٹہرا،لبرل تو قوم لوط کے پایین، پومپئی کے آتش فشاں ڈھونڈتےہیں، فرشتگان اجل کا بستیاں الٹنا تو رجعت پسندوں کی ایمانیات کی باتیں ہیں، اہل یسار کہاں ایسے “فسانوں” کو خاطر میں لانے لگے۔ باقی آپ بھی ذرا سیمپل اسپیس کو بڑھا کر اعداد و شمار جمع کر کر موازنہ کرلیں، نتائج شائع کرنا ضروری نہیں ۔ بنا کسی ریفرنس ڈیٹا سیٹ کے تو آپ میڈسن پائری کے منطقی مغالطوں کی لغت میں اضافے کا ہی باعث بنیں گے ، باقی جو مرضی حضور کی ہم تو بس نیک و بد آپ کو۔۔۔۔
Comment by ابو عزام — January 20, 2012 @ 12:01 pm
قبلہ آپ جنوبی امریکہ کے سارے فساد کی ذمہ داری سیکولر سوچ اور لادینیت پر ڈالیں گے جو پاپائے روم کی نرسری ثابت ہوئی ہے تو عرض کرتے خوف تو آئے گا نا۔ ازراہ بحث آپ کے خیال میں موجودہ سیکولر سوچ اور لادینیت کی تاریخ کتنی پرانی ہوگی؟ خلافت اور پاپائیت کے جھنڈے تلے بھیجی گئیں فوجی مہمات غالبا بغیر جانی نقصان کے تھیں۔۔
Comment by راشد کامران — January 20, 2012 @ 12:32 pm
اگر استدلال کا یہی عالم رہا تو دور نہیں کہ ٹائٹینک کے ڈوبنے کا ملبہ بھی محراب و منبر پر آگرے۔
یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا، لیکن موجودہ سیکولر طرز فکر کے ڈانڈے تین سو قبل مسیح کی کے رومی و یونانی علما سے ملتے ہیں۔ اگر آپ غور کریں تو مندرجہ بالا مضمون میں صرف سیکولرزم کو اس جدال کا قطعی ذمہ دار نہیں قرار دیا جا رہا کیونکہ یہ حقایق کے منافی ہوگا بلکہ نسل پرستی، قومیت اور زر و زمین کے لئے ہونے والی جنگوں کو انسانی تباہی کا اصل منبی و منتہی ٹہرایا دیا جا رہا ہے۔ حاصل مضمون یہ ہے کہ تاریخ روشن خیال مغربی اقوام نے دوسری جنگ عظیم کس واعظ کی پکار پر لڑی اور کونسا صحیفہ اسکا ذمہ دار تھا۔ مذہب کی ہجو کرنے والوں کو کچھ اعداد کا خیال کرنا چاہے ورنہ فریکنامکس کا مطالعہ ازحد مفید ہے۔
جہاں تک جنوبی امریکہ کے ہسپانوئ انکویزیشن کی بات ہے، مجھے اس کو ماننے میں قطعی عار نہیں کہ یہاں آپکی بات مدلل ہے لیکن ایک حد تک۔ گنز جرمز ایند اسٹیل نامی کتاب میں جیرڈ ڈایمنڈ نے ان وجوہات پر بڑی مفصل گفتگو کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ارجنٹینا کے سوا جہاں تیرہ سو افراد کو تہ تیغ کیا گیا تھا، اس انکویزیشن کے اثرات کو عمومی طور پر نسل کشی نہیں لکھا جاتا لیکن شمالی امریکہ میں مقامی انڈینز پر کولمبس سے برطانوی راج تک جو مظالم ہوئے ہیں انہیں بڑے پیمانے پر نسل کشی کہا گیا ہے اور یہ تو آپکے علم میں ہے ہی کہ پلگرمز مذہبی آزادی کے علمبردار تھے، مذہب کے نہیں۔
Comment by ابو عزام — January 20, 2012 @ 2:38 pm
تو یہ بات تو آپ تسلیم کرتے ہیں کہ مذاہب بھی خون سے ہاتھ رنگنے میں نسل پرستوں اور قوم پرستوں سے پیچھے نہیں رہے؟
Comment by راشد کامران — January 20, 2012 @ 3:17 pm
کہو ایران کی، سنیں توران کی۔
اے پیر مرد، شماریات سے استفاذہ کر، زرا سیکول کوترتیب نزولی میں مرتب کراورلہورنگ پیلٹ کا حساب کر ، پھر ایمانداری سے بتاکے کوہ ندا کی صدا ڈیٹا گرڈ کے کس پیج سے آتی ہے۔
Comment by عدنان مسعود — January 20, 2012 @ 3:49 pm
yeah tarteeb e nazoolii kon tarteeb day ga keah mazhab kay naam pay khoon jab say dunya bani hai tab say aaj tak hu raha hai…ub kon ginay kay kitnay jaan behaq hui mazhab kay naam pay lekin buhut hui…aik laakh chobees hazar unbiya thay to kam say kam aik laakh chobees hazar mazhabi dangal tu hui na kam say kam…koi hisab hai kay kitnay maray inmain tarteeb a nazollay kay leeay?
Comment by Hasan — January 20, 2012 @ 4:33 pm
تبصرےکا شکریہ حسن صاحب۔
کچھ عرصے قبل حلقه تشکیک میں یه فقره بڑا گرم تھا
Dear Religion
Pics, or it didn’t happen.
Love
Science
اب آپ کے سوال کے تناظر میں کچھ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ
Dear Sir
Stats, or it didn’t happen.
Love
Religion
Comment by ابو عزام — January 20, 2012 @ 5:07 pm
اقتباس
Dear Sir
Stats, or it didn’t happen.
Love
Religion
تبصرہ
یہ تو آپ نے اپنے پیر میں کلہاڑی مار کے اوپر سے کالی مرچیں چھڑک لی ہیں۔
🙂
Comment by راشد کامران — January 20, 2012 @ 6:31 pm
وہ کیا کہتے ہیں،
عرفی تو میندش زغوغاے رقیباں
آواز سگاں کم نا کند رزق گدارا
Comment by ابو عزام — January 20, 2012 @ 7:12 pm
بہت اعلیٰ جناب۔۔۔۔ آپ نے تو تشکیک، تحقیق اور تعمیر کی بنیادیں ہلا ڈالی ہیں۔ 🙂
Comment by ڈاکٹر جواد احمد خان — January 21, 2012 @ 3:15 am
حضور رومانوی جپسیز سے آپکی مراد غالبا رومانی یا روما خانہ بدوش تھے۔۔۔
جہاں تک نفس مضمون کی بات ہے، سچ تو یہ کہ مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ میں آپ سے متفق ہو یا نہیں۔
آپ کا کہنا درست ہے کہ بہت سی جنگیں مذہب کی وجہ سے نہیں ہوئیں، ہاں البتہ افسوس یہ ضرور ہے کہ مذہب کے نام پر ضرور ہوئیں۔ ان دونوں باتوں میں فرق ہے۔
جنگ ۔۔۔ اور امن بھی ۔۔۔ فرد واحد کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ معاشرے کے مختلف طبقات اپنے کندھے پیش کرتے ہیں تو ین میں سے کوئی ایک ممکن ہو پاتی ہے۔ اب اس کو کیا کہیئے کہ بہت سے جنگ کرنے کے فیصلوں پر کلیسا، مسجد، مندر نے مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ ایک ہی جنگ سے کسی کو شہرت ملی تو کسی کو دولت تو کسی کو صرف اپنی مردانہ غیرت توانا کرنے کا ایک موقع۔ حالیہ جنگیں تو تقریبا سب ہی معاشی وجوہات کی بنا پر لڑی گئیں یا جا رہی ہیں، جس بارے میں نے کبھی یہاں لکھا تھا۔
http://goo.gl/b9JZo
آپ نے اعداد و شمار کی بھی بات کی ہے۔ ایک دھیان رہے کہ موازنہ کرتے وقت صرف تعداد نہیں بلکہ تناسب بھی دیکھا جائے تو زیادہ واضح تصویر بنتی ہے۔
Comment by فیصل — January 22, 2012 @ 9:01 am
تبصرے و تصیح کا شکریہ فیصل صاحب، روما خانہ بدوش بہت بہتر ترجمہ ہے انگریزی
romani gypsies
کا رومانوی جپسیز سے 🙂
تناسب کے حوالے سے آپکی بات عمومی طور پر بلکل درست ہے کہ اس سےنتائج پر بڑا فرق پڑتا ہے۔ اسی لیے اگر آپ ان جنگوں کے وقت انسانی آبادی کی ہلاکت کے تناسب کو مدنظر رکھیں توآپ دیکھیں گے کہ یہ بات حقیقیت سے زیادہ قریب ہے کہ مذہب کے نام پر ہونے والی جنگوں کا جانی نقصان دیگر جنگوں سےکئی “آرڈر آف میگنیٹیوڈ” کم تھا۔
اس تحریر سے میرا مقصد انسان کی عمومی دہشت پسندی کی وجوہات اور اس کے مظاہر پر روشنی ڈالنا نہیں، وجہ اسکی یہ تھی کہ مذکورہ مغالطے “ہ دنیا کی تاریخ میں مذہب کے نام پر سب سے زیادہ قتل و غارت گری ہوئی ہے” کا مختصرا شماریات و تاریخ کی رو سے رد کیا جاے، ٘اپکے خیال میں اس میں مجھے کتنی کامیابی حاصل ہوی ہے؟
Comment by عدنان مسعود — January 22, 2012 @ 1:14 pm
حضور آپ نے نہایت عمدگی سے اپنی بات بیان کی ہے، اب اسکا اثر سامع پر کتنا ہوتا ہے، یہ تو صرف آپ پر نہیں بلکہ سامع پر بھی منحصر ہے۔ اس خصوصی کیس میں البتہ اگر آپ راشد کامران سے ہاں کہلوا دیں تو سمجھیں آپ کامیاب ہو گئے ہیں۔
(؛
Comment by فیصل — January 22, 2012 @ 9:48 pm