فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

February 28, 2012

نیلی آنکھیں، ایک منطقی معما

Filed under: تحقیق,عمومیات — ابو عزام @ 8:44 pm

کمپوٹر سائنس کے طالبعلموں کے لیے جان کونوے اور اسکے گیم آف لایف کا نام جانا پہچانا ہے۔ لیکن جان کونوے کے بیان کردہ کامن نالج یا عمومی علم نامی حسابی انطباق پر مبنی اس نیلی آنکھوں والی پہیلی کو دنیا کے مشکل ترین منطقی معموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ذہن لڑایں اور دیکھیں کہ کیا آپ اسے حل کرسکتے ہیں؟

مختلف رنگ کی آنکھوں کےافراد کا ایک گروہ ایک دور پرے جزیرے پر رہتا ہے۔ یہ تمام افرد علم منطق میں طاق ہیں اور اگر کسی بات کا منطقی نتیجہ ہو تو اسکا فورا استنباط کرسکتے ہیں۔ ان میں سے کوئی فرد اپنی آنکھوں کا رنگ نہیں جانتا۔ ہر رات آدھی رات کے وقت، ایک کشتی جزیرے پر آ کر رک جاتی ہے. جزیرے پر جس شخص کو اپنی آنکھوں کا رنگ معلوم ہو وہ جزیرہ چھوڑ کر جاسکتا ہے۔ اس جزیرے کا ہر شخص ہر وقت دوسرے تمام افراد کو دیکھ اور گن سکتا ہے اور وہ ہر دوسرے شخص کی آنکھوں کا رنگ (خود کوچھوڑ کر) جانتا ہے۔ لیکن کوئی بھی کسی کو کسی کی آنکھ کا رنگ نہیں بتا سکتا اور نا ہی کوئی کسی سے پوچھ سکتا ہے۔ اس جزیرے پر موجود ہر شخص ان تمام قوانین سے واقف ہے اور نہایت قانون پسند ہے۔

اس جزیرے پر ۱۰۰ نیلی آنکھوں والے لوگ ہیں، ۱۰۰ لوگ بھوری آنکھوں والے لوگ ہیں اور ایک سردار ہے جس کی آنکھیں ہری ہیں۔ لیکن کس رنگ کی کتنی آنکھوں والے لوگ موجود ہیں، یہ تعداد لوگوں کے علم میں نہیں۔ مثلا کوئی بھی وہ شخص، جس کی نیلی آنکھیں ہوں ایک وقت میں ۹۹ نیلی آنکھوں والوں، ۱۰۰ بھوری آنکھوں والوں اور ایک سبز آنکھوں والے فرد کو دیکھ سکتا ہے۔ لیکن اس طرح اسے اپنی آنکھوں کا رنگ نہیں پتا چل سکتا کیونکہ اس کی دانست میں ۱۰۱ بھوری آنکھوں بھی ہوسکتے ہیں، دو ہری آنکھوں والے بھی اور ۱۰۰ نیلی آنکھوں والے بھی کیونکہ اسے اپنی آنکھوں کا رنگ نہیں معلوم۔

ایک دوپہر سردار نے میں آنکھوں کا رنگ نا بتانے کے قانون کو صرف ایک مرتبہ توڑتے ہوے کہا

“میں دیکھ سکتا ہوں کہ تم میں سے کم از کم ایک فرد کی آنکھیں نیلی ہیں”

اب بتایں کہ کتنے لوگ جزیرہ چھوڑ کر جایں گے اور کس رات کو؟

نیز اس جزیرے پر کوئی عکس یا عکاسی کرتی سطحیں یا پانی یا آینہ موجود نہیں۔ اس پہیلی کا جواب کوئی چال نہیں بلکہ منطقی انطباق ہے۔ اس میں انداذہ لگانے یا جنیات وغیرہ سے جواب ثابت نہیں ہوگا۔ سردار کسی خاص فرد کو نہیں بتا رہا کہ اس کی آنکھوں کا رنگ نیلا ہے بلکہ سب سے کہ رہا ہے کہ میں نے کم از کم ایک شخص کی آنکھیں نیلی دیکھی ہیں۔ اور اس کا جواب یقینا یہ بھی نہیں ہے کہ کوئی بھی جزیرہ چھوڑ کر نہیں جاے گا۔

!بوجھو تو جانیں

Share

February 27, 2012

اسباق و دروسہاے انٹرنیٹ – خان اکیڈمی

Filed under: خبریں,مشاہدات — ابو عزام @ 8:22 pm

انٹرنیٹ پر موجود اسباق و لیکچرز کا ذکر ہو اور خان اکیڈمی کا نام نا آے، یہ کیسے ہو ممکن ہے۔ خان اکیڈمی ایک غیر منافع بخش تعلیمی تنظیم ہے جسے۲۰۰۶ میں  امریکی معلم اور  ایم ائی ٹی  یونیورسٹی کے ایک گریجویٹ سلمان خان  نے تخلیق کیا تھا. خان اکیڈمی کا مشن ہے کہ کسی کو بھی، کہیں بھی ایک اعلی معیار کی تعلیم فراہم کی جاسکے اور اس کار خیر کے لیے انٹرنیٹ کی مدد لی جاے۔ ۲۶۰۰ سے زاِئد ویڈیو اسباق کے ذریعے ریاضی، تاریخ، صحت کی دیکھ بھال اور ادویات، طبعیات، علم کیمیا، کمپیوٹر سائنس، حیاتیات، فلکیات، معاشیات کے علاوہ سیکڑوں دیگر مضامین کو بلامعاوضہ سیکھا جاسکتا ہے۔

خان اکیڈمی

خان اکیڈمی – یو ٹیوب چینل

Share

February 24, 2012

کولیٹز کنجیکچر، ابن عربی اور وحدت الوجود

Filed under: ادبیات,تحقیق,طنزومزاح — ابو عزام @ 1:09 am

مطالعہ کتب ہاے مقالہ جات و فصوص الحکم از ابن عربی و متحرک الگارتھمز کی روز و شب تفکیر سے درج زیل تھیورم عدم سے وجود میں آیا ۔ شائد ادراک محاورہ جات اہل تصوف و حسابی تکنیکی استعداد کے بغیر استفادہ ممکن نا ہو۔

اس امر کلی موجود خارجی کا وجود ترتیب اثر میں محتاج ہے اور  موجود خارجی امر کلی کا تعقل و فہم میں محتاج ہے۔ اسی بنا پراسرار خودی میں پیہم ہے کہ دوی کے مماثل  کو بریدہ علی النصف کرو

f(n) = n/2

 اور تثلیث پر اضافہ واحد کہ یہ ممتنع بالذات و ممکن بالذات بنا اور یہی اس کا اقتضا ہے

f(n) = 3n + 1

 اب ہر شے کا ٹھکانا عددی برتری سے سوا وحدت یکتا ہی ہے کہ ہر عدد کا مقصود و مطلوب واحد

۱

۱

۲

۲, ۱

۳

۳, ۵, ۸, ۴, ۲, ۱

۴

۴, ۲, ۱

۵

۵, ۸, ۴, ۲, ۱

۶

۶, ۳, ۵, ۸, ۴, ۲, ۱

۷

۷, ۱۱, ۱۷, ۲۶, ۱۳, ۲۰, ۱۰, ۵, ۸, ۴, ۲, ۱
فقیر عدد بڑھا اور ترتیب اعیان میں ظہور دیکھ،

۱۳ -> ۴۰ -> ۲۰ -> ۱۰ -> ۵ -> ۱۶ -> ۸ -> ۴ -> ۲ -> ۱

تیری بساط کیا ہے کہ موجودات خارجہ سے ذوات واعمان خارجیہ ہیں، واحد ہی واحد ہے۔

 ۶, ۳, ۱۰, ۵, ۱۶, ۸, ۴, ۲, ۱.

۱۱, ۳۴, ۱۷, ۵۲, ۲۶, ۱۳, ۴۰, ۲۰, ۱۰, ۵, ۱۶, ۸, ۴, ۲, ۱

اس کلیے میں میں نے صرف ان حکمتوں پر اقتصار و انحصار کیا ہے جو فصوص علمیہ و یادگیری مشین و واستخراج البيانات پر مبنی و محدود و متعین ہیں۔ جو مقدر تھا اس کی بجاآوری کی اور جو حد معین تھی وہیں ٹہر گیا۔ اگر میں اثبات قضیه  چاہتا بھی تو اس کی استطاعت و طاقت نہ ہوتی کیونکہ اس وقت عالم کا اقتضا مانع ہوتا ہے۔

Share

February 23, 2012

لاکھ مسمار کیے جائیں از سلیم کوثر

Filed under: شاعری — ابو عزام @ 6:56 pm

لاکھ مسمار کیے جائیں زمانے والے
آہی جاتے ہیں نیا شہر بسانے والے

اس کی زد پر وہ کبھی خود بھی تو آسکتے ہیں
یہ کہاں جانتے ہیں آگ لگانے والے

اب تو ساون میں بھی بارود برستا ہے
اب وہ موسم نہیں بارش میں نہانے والے

سر سے جاتا ہی نہیں‌وعدہء فروا کا جنوں
مر گئے عدل کی زنجیر ہلانے والے

ہم نہ کہتے تھے تجھے، وقت بہت ظالم ہے
کیا ہوئے اب وہ ترے ناز اٹھانے والے

سائے میں بیٹھی ہوئی نسل کو معلوم نہیں‌
دُھوپ کی نذر ہوئے پیٹر لگانے والے

گھر میں دیواریں ہیں اور صحن میں آنکھیں ہیں‌سلیم
اتنے آزاد نہیں وعدہ نبھانے والے

Share

February 21, 2012

اسباق و دروسہاے انٹرنیٹ

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 8:49 pm

آج کی اتصالی دنیا نے انٹرنیٹ پر سیکھنا سکھانا جس قدر آسان بنا دیا ہے، اس سے پہلے کبھی نا تھا۔ آپ کو لینیر الجبرا کے بارے میں معلومات درکار ہیں، مثالیں یا وڈیوز کی ضرورت ہے تو بس کسی سرچ انجن سے گذارش کریں اور دیکھیں کمال۔ لیکن اپنے قاریین کو اس نہایت پیچیدہ مرحلے سے بچانے کے لیے ریڈیٹ کا یہ رابطہ شایع کیے دیتے ہیں کہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آے۔

فہرست بہترین اسباق و دروسہاے انٹرنیٹ  بتعاون ریڈیٹ

ان ویب سایٹس پر مختلف اقسام کے اسباق اور دروس موجود ہیں جن میں کپمیوٹر ساینس، حساب، کیلکولس، ای بکس، اکادمیات کے رسالہ جات، لسانیات، انجینیرنگ اور دیگر کئی موضوعات شامل ہیں۔

رب ذدنی علما

Share

February 20, 2012

اینڈرز گیم از اورسن اسکاٹ کارڈ

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 6:49 am

سائنس فکشن پڑھنے والوں کے لیے  اورسن اسکاٹ کارڈ اور اس کی مشہور زمانہ کتاب اینڈرز گیم  کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ۱۹۸۵ میں چھپنے والی اس تین سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل کتاب اینڈرز گیم کو ساینس فکشن کے بہت سے مشہور انعامات و اعزازات سے نوازا جا چکا ہے اور اس کے کئی لاحقات یا سیکول بھی چھپ چکے ہیں۔ ۲۰۱۳ میں اس کتاب پر مبنی ایک فلم بھی ریلیز ہونے والی ہے۔  میں نے یہ کتاب ایک دوست کی فرمائش پر حال ہی میں ختم کی، نہایت دلچسپ کہانی اور مصنف کے  انداز تحریر نے  محسور کیے رکھا۔

یہ کتاب مستقبل کے ایک چھ سالہ نہایت ذہین و فطین بچے اینڈر وگینس  کے بارے میں ہے جو کہ ایک جنیاتی تجربے کا نتیجہ ہے  اور انسانی نسل کی بقا کا دارومدار اس کی ذہانت پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح سے خلای مخلوق ‘بگرز’ کو شکست دینے میں کامیاب ہوتا ہے۔ اس سے پہلے دو مرتبہ بگرز نے انسانوں پر حملہ کر کے ہزاروں لوگوں کو تہ تیغ کردیا تھا اور ایک بہادر کمانڈر میزر ریکم نے بالاخر ان کو مار بھگایا۔ اب اس کے ۷۰ سال بعد تیسری جنگ عظیم کی تیاریاں عروج پر ہیں جس کی قیادت کے لیے اینڈر    وگینس کو تیار کیا جا رہاہے۔کیا اینڈراس مشن میں کامیاب ہو سکے گا اور کیا جنگ کی یہ تیاریاں اس نوعمر بچے کی نفسیاتی و ذہنی نشونما پر کیا اثر کریں گی؟ اس کتاب کے دیگر دو اہم کردار اینڈر وگنز کے بھائ اور بہن ہیں جو اسی کی طرح  نہایت ذہین ہیں اور کم عمری میں زمین پر انقلابات کی تیاروں میں مصروف جب کہ اینڈر  بگرز کے خلاف مصروف کار ہے۔ اسکا۱۲ سالہ بھائ پیٹر مماثل ہٹلر طاقت اور حکومت کا خواہشمند ہے جبکہ ۱۰ سالہ بہن ویلنٹاین نوع انسانی کی بہتری اور امن و امان کی داعی۔ اس پلاٹ کے مختلف کرداروں کے درمیان مصنف نے جس طرح سے دلچسپی کا سماں باندھا ہے  وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

ساینس فکشن کے بیشتر مصنفین کی طرح اورسن اسکاٹ کارڈ کی سوچ بھی نہایت وسیع اور مستقبل بین ہے۔ ۱۹۸۵ کی اس کتاب میں آپ کو انٹرنیٹ اپنی تمام تر جلوہ گریوں کے ساتھ نظر آتا ہے۔ آی پیڈ کی میزیں، ڈیجیٹل جمہوریت، وارسا پیکٹ اور روسی خطرات،مستقبل کی جنگی مشقیں، کشش ثقل کے بغیر خلای اسٹیشن پر زندگی اور زمان و مکاں کی نئی تبدیلیاں قاری کو اپنے جال میں جکڑے رکھتی ہیں، غرضیکہ یہ کتاب  ساینس فکشن پسند کرنے والوں کے لیے  ہمہ جہتی دلچسپیوں کا سامان ہے۔

Share

February 16, 2012

زمین ساکن ہے

Filed under: تحقیق,طنزومزاح,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 5:30 am

جہلِ خرد نے دن يہ دکھائے

گھٹ گئے انساں، بڑھ گئے سائے

آداب و اصول مباحثت میں استدلال و منطق تو خیرجزو اعظم ٹھرا، لیکن کچھ خیال علم و ہنرکا بھی ہو تو نورعلی نور۔ اگلے روز سیارہ جات فلک کے طفیل اتصال کردہ   انٹرنیٹ پر زمین کے ساکن ہونے کا مژدہ پڑا، طبعیت باغ باغ ہوگئ ۔ فلیٹ ارتھ سوسایٹی کا ایک ممبر تو پی ایچ ڈی میں ہمارا ہم جماعت بھی ہے لیکن وہ کچھ ازراہ تفنن کا  سا معاملہ ہے۔یہاں تو بات ایمانیات و اعتقدانہ بزرگانہ پر ہے کہ سائینس ان کے گھر کی لونڈی اور علوم ریاضی و طبعیات میں انہیں وہ ملکہ حاصل ہے کہ گویا نیوٹن انہی کی  سقہ کشی کے تلمذ سےباعث رشک عالم ٹھرا۔ زمین اگر گھوم رہی ہے تو ہم اسے محسوس کیوں نہیں کرتے اور اگر گول ہے تو نیچے والے لوگ اس کے کنارے سے گر کیوں نہیں جاتے، اس قدر جاندار دلائل ہیں کہ تمام علم انسانی، فلاسفہ، منطق، طبعیات و ریاضیات مل کر بھی اسکا جواب نہیں دے سکتے۔

یادش بخیر کہ راقم جماعت نہم کا طالبعلم تھا کہ جب ماہر طبعیات و نیوکلیات ڈاکٹر التمش کمال سے تعلق فیض و تلمیذ ہوا۔ ان کے طفیل مصنوعی ذہانت کے ابواب سے لے کر مرکز گریز و مرکز مائل قوتوں کی وجہ سے مصنوعی سیارچوں کے مدار میں رہنے کے مختلف موضوعات پرسائنسی دلائل و مشاہدات سے ابتدائ واقفیت ہوئ ، خصوصا اس جیولئر کہ جس کی بدولت یہ اجرام اس  فلک میں تیر رہے ہیں خاصی دلچسپی کا باٰعث بنی۔ یہ ۱۹۹۲-۹۳ کی بات ہے جب ۲۴۰۰ باڈ کے موڈم ہوا کرتے تھے اور معلومات وکیپیڈیا کے بجائے برٹانیکا سے لی جاتی تھیں، اس دور میں ایم آی ٹی کے نیوکلیائ فزسسٹ سے جو تشکیک و سائنیسی طریقہ سیکھا وہ درس زیست ہے۔ بہرحال اسی دور میں زیر تبصرہ کتابچے کا بھی مطالعہ کیا تھا، پڑھا کہ حرکت یومیہ حرکت شمس سے ہے نہ کہ حرکت زمین سے اور یہ بھی ک ہرمسلمان پر فرض ہے کہ حرکت شمس و سکون زمین پر ایمان لائے۔ نہ نص میں اسکا کوئ حامی ملا کہ  کُلّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ نا علم حدیث میں، اصول درایت پر جو پورا اترا اسے قبول کیا اور باقی رد۔ لیکن آج یہ تذکرہ عبث دیکھ کر رہا نا گیا کہ ضرور قلم اٹھایا جاے اور بشارتوں کے شور میں کوئ تو کہے کہ برادرم، اکیسویں صدی میں اسطرح کی باتیں کرنا اپنا مضحکہ اڑوانا ہے، لیکن لگتا ہے کہ یہ کوشش عبث ہوگی کہ جو لوگ یہ باتیں کرتے ہیں انہیں اپنی یا مسلم امہ کے عزت و وقار کی کیا فکر، انہیں تو مطلب ہے فرقہ و گروہ بندی سے، علمی روایتوں کے تغیر و تذلل سے اور حدث و جاہلیت سے۔

ہمیں تو سیدھی سے بات ہے لبرلوں پر رحم آتا ہے کہ ان کے لیے پنڈولم دوسری طرف لے جانے کی نوبت شاید باشعور و تعلیم یافتہ مذہبی طبقے کی وجہ سے نا آئ ہوگی بلکہ اس کا مژدہ تو ضرور زمین کے سکون نے سنایا ہوگا۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ انسان میں خدا کی محبت بچانے کے لئے یہ تہمت اٹھانا ضروری ہو گیا توایسا لگتا ہے کہ شاید زمین کا سکون ہی ان تمام فکری جنجہلاہٹوں کا صریر خامہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان اغلاط پر ایمان ضروریات دین میں سے ہے؟ اور کیا ان کے غلط تسلیم کرنے سے فاضل مولوی کی شان میں کوئ فرق آے گا؟ کہ جب شارع صلی اللہ علیہ وسلم نے انتم اعلم باموررادنیا کم فرما دیا تو اب ہما شما کا تذکرہ ہی کیا۔ لیکن وہ بالک ہٹ  ہی کیا کہ امام کی اغلاط حصہ دین نا ہوجایئں اور یک جنبش قلم سے وہ ماہر طبعیات و کیمیا و فلیکیات و حسابیات نا ہوجاویں کہ علم لدنی کا شمار سے کیا تعلق۔ آج شب  کچھ گلیلیو و کوپرنیکس کا غلبہ ہے، غم تو یہ ہے کہ نص کے عدم رد کے باوجود نادان دوست کلیسا کی پیروی کرنے پر تلے ہیں۔

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں

ہو رہے گا کچھ نا کچھ گھبرایں کیا

Share

February 15, 2012

راس آ نہیں سکا کوئی بھی پیمان الوداع از جون ایلیا

Filed under: شاعری — ابو عزام @ 4:25 pm

راس آ نہیں سکا کوئی بھی پیمان الوداع
تُو میری جانِ جاں سو مری جان الوداع

میں تیرے ساتھ بُجھ نہ سکا حد گزر گئی
اے شمع! میں ہوں تجھ سے پشیمان الوداع

میں جا رہا ہوں اپنے بیابانِ حال میں
دامان الوداع! گریبان الوداع

اِک رودِ نا شناس میں ہے ڈوبنا مجھے
سو اے کنارِ رود ، بیابان الوداع

خود اپنی اک متاعِ زبوں رہ گیا ہوں میں
سو الوداع، اے مرے سامان الوداع

سہنا تو اک سزا تھی مرادِ محال کی
اب ہم نہ مل سکیں گے ، میاں جان الوداع

اے شام گاہِ صحنِ ملالِ ہمیشگی
کیا جانے کیا تھی تری ہر اک آن ، الوداع

کِس کِس کو ہے علاقہ یہاں اپنے غیر سے
انسان ہوں میں ، تُو بھی ہے انسان الوداع

نسبت کسی بھی شہ سے کسی شے کو یاں نہیں
ہے دل کا ذرہ ذرہ پریشان الوداع

رشتہ مرا کوئی بھی الف ، بے سے اب نہیں
امروہا الوداع سو اے *بان* الوداع

اب میں نہیں رہا ہوں کسی بھی گمان کا
اے میرے کفر ، اے مرے ایمان الوداع

جون ایلیا

Share

February 13, 2012

سیاہ، سفید اور سرمئی

Filed under: سیاست — ابو عزام @ 8:00 am

کچھ خبریں سیاہ ہوتی ہیں، کچھ سفید اور کچھ سرمئی

کچھ مقامات پر قاری ان رنگوں کے وابسته بطرز تفکر شخصی ہونے پر اصرار کرسکتا ہے۔ لیکن ہر جگہ ایسا نہیں ہوتا۔

شام خون آشام سیاہ ہے، لیکن روس و چین کی نگاہوں سے اوجھل، انکا ویٹو مغرب کے ہسٹیریا کو مہمیز دیتا ہے۔ سچائ دو رنگی نہیں ہوتی،مگر مفادات میں قوس و قزح کے رنگ  بہت بکھرے ہیں۔

کیونکہ اگر لہو کا رنگ ہی تاریکی شب سے نمود سحر کا علمبردار ہوتا تو وہ فلسطینی ریاست کا وعدہ ویٹو نا ہوتا، آج یہ بساط پلٹی ہے تو کون جانے سچائیوں کا کیا رنگ ہوتا ہے۔

افغان کیس بھی واضع ہے کہ معصوم نہتے شہریوں، عورتوں اور بچوں کے خون سے زمیں کو رنگ دینا دامن انسانیت پر ایک سیاہ دھبہ ہے۔

تاریخ کہتی ہے کہ جب کسی قوم کے دامن پر لگے دھبے، زیادہ سیاہ ہوتے چلے جایا کریں کہ اس دامن کی سفیدی سرمئی ہوتی جاے تو ایسی اقوام مٹ جایا کرتی ہیں۔

بأى ذنب قتلت!

Share

February 12, 2012

پراجیکٹ اویلر

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 10:31 pm

اکثر احباب یہ سوال کرتے ہیں کہ پراگرامنگ سیکھنے یا کمپیوٹر ساینس کی فیلڈ میں داخل ہونے کے لیے کیا صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔ شماریاتی خصوصیات اور حسابی مسایل کو حل کرنے کی صلاحیت، میرا جواب عموما اسی طرح شروع ہوتا ہے۔ پراگرامنگ محض ایک آلہ کار ہے، درحقیقت  الگارتھم بنانا اور اسکو آپٹمایز کرنا کمپیوٹر ساینس کا بنیادی نکتہ ہے۔

پراجیکٹ اویلر  حساب اور پراگرامنگ پر مبنی ایک ویب سایٹ ہے جس میں مختلف قسم کے تقریبا چار سو کے قریب حسابی سوالات موجود ہیں جن کو آپ اپنی پسندیدہ پراگرامنگ کی زبان میں حل کر سکتے ہیں، یہاں کسی بھی پراگرامنگ کی زبان کو استعمال کرنے کی اجازت ہے، صرف آپکا جواب درست ہونا چاہیے۔ مثلا ایک سوال ہے کہ دو ملین سے کم کے تمام پرایم یا جوہری اعداد  کا حاصل جمع بتایں، اب آپ کوئ  بھی زبان استعمال کرکے یہ جواب معلوم کرسکتے ہیں لیکن الگارتھم خود بنانا ہوگا ورنہ مقابلے کا مقصد فوت ہوجاے گا۔

یہ ویب سایٹ ٹاپ کوڈر کے مقابلے میں کافی آسان ہے اور اگر آپ کو پروگرامنگ سیکھنے کا شوق ہے تو آپکی ازمایش و ذہنی ورزش کے لیے نہایت مفید۔میں اب تک دس مسائل حل کر چکا ہوں اور کوشش ہے کہ اگلے کچھ ماہ میں پورے تین سو سوالات ختم کرلوں، آپ بھی کوشش کر کے دیکھیں۔

Share
Older Posts »

Powered by WordPress