سائنس فکشن پڑھنے والوں کے لیے اورسن اسکاٹ کارڈ اور اس کی مشہور زمانہ کتاب اینڈرز گیم کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ۱۹۸۵ میں چھپنے والی اس تین سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل کتاب اینڈرز گیم کو ساینس فکشن کے بہت سے مشہور انعامات و اعزازات سے نوازا جا چکا ہے اور اس کے کئی لاحقات یا سیکول بھی چھپ چکے ہیں۔ ۲۰۱۳ میں اس کتاب پر مبنی ایک فلم بھی ریلیز ہونے والی ہے۔ میں نے یہ کتاب ایک دوست کی فرمائش پر حال ہی میں ختم کی، نہایت دلچسپ کہانی اور مصنف کے انداز تحریر نے محسور کیے رکھا۔
یہ کتاب مستقبل کے ایک چھ سالہ نہایت ذہین و فطین بچے اینڈر وگینس کے بارے میں ہے جو کہ ایک جنیاتی تجربے کا نتیجہ ہے اور انسانی نسل کی بقا کا دارومدار اس کی ذہانت پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح سے خلای مخلوق ‘بگرز’ کو شکست دینے میں کامیاب ہوتا ہے۔ اس سے پہلے دو مرتبہ بگرز نے انسانوں پر حملہ کر کے ہزاروں لوگوں کو تہ تیغ کردیا تھا اور ایک بہادر کمانڈر میزر ریکم نے بالاخر ان کو مار بھگایا۔ اب اس کے ۷۰ سال بعد تیسری جنگ عظیم کی تیاریاں عروج پر ہیں جس کی قیادت کے لیے اینڈر وگینس کو تیار کیا جا رہاہے۔کیا اینڈراس مشن میں کامیاب ہو سکے گا اور کیا جنگ کی یہ تیاریاں اس نوعمر بچے کی نفسیاتی و ذہنی نشونما پر کیا اثر کریں گی؟ اس کتاب کے دیگر دو اہم کردار اینڈر وگنز کے بھائ اور بہن ہیں جو اسی کی طرح نہایت ذہین ہیں اور کم عمری میں زمین پر انقلابات کی تیاروں میں مصروف جب کہ اینڈر بگرز کے خلاف مصروف کار ہے۔ اسکا۱۲ سالہ بھائ پیٹر مماثل ہٹلر طاقت اور حکومت کا خواہشمند ہے جبکہ ۱۰ سالہ بہن ویلنٹاین نوع انسانی کی بہتری اور امن و امان کی داعی۔ اس پلاٹ کے مختلف کرداروں کے درمیان مصنف نے جس طرح سے دلچسپی کا سماں باندھا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
ساینس فکشن کے بیشتر مصنفین کی طرح اورسن اسکاٹ کارڈ کی سوچ بھی نہایت وسیع اور مستقبل بین ہے۔ ۱۹۸۵ کی اس کتاب میں آپ کو انٹرنیٹ اپنی تمام تر جلوہ گریوں کے ساتھ نظر آتا ہے۔ آی پیڈ کی میزیں، ڈیجیٹل جمہوریت، وارسا پیکٹ اور روسی خطرات،مستقبل کی جنگی مشقیں، کشش ثقل کے بغیر خلای اسٹیشن پر زندگی اور زمان و مکاں کی نئی تبدیلیاں قاری کو اپنے جال میں جکڑے رکھتی ہیں، غرضیکہ یہ کتاب ساینس فکشن پسند کرنے والوں کے لیے ہمہ جہتی دلچسپیوں کا سامان ہے۔
سائنس فکشن کا نام اگر طلسم ہوشربا رکھ دیا جائے تو زیادہ مناسب ہے ۔
ہاں یہ خلائ مخلوق “بگرز ” کیوں ہوتی ہے ہے ؟ 🙂
شاید ہم اس کائنات میں اپنے علاوہ کسی اور مخلوق کو ایسا ہی سمجھتے ہیں ؟
Comment by محمد ریاض شاہد — February 20, 2012 @ 6:59 am
تبصرے کا شکریہ ریاض شاہد صاحب، راشد بھائ کے بقول موجودہ فینٹسی یا ہوشربا سلسلہ جات جن کے مصنفین نے لاکھوں کروڑوں ڈالر کماے ہیں جیسے جے کے رولنگ درحقیقت طلسم ہوشربا و باغ و بہار و الف لیلی و لیلی سے مثاثر ہیں۔
باقی من حیث النسان، ہر مختلف النوع ہمارے لیے تو ہر ایلین بگر ہوتا ہے، چاہے وہ کلمہ گو بنگالی ہو یا وطنی ریڈ انڈین یا رومانی خانہ بدوش۔
Comment by ابو عزام — February 21, 2012 @ 6:46 am
[…] موجود رہیں، یعنی صوتی، برقی اور ورقی۔ اسی طرح سے ہم اینڈرز گیم بھی ختم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے کہ جہاں سے ورقی کتاب […]
Pingback by آپ کیوں پروا کریں ہیں کہ لوگ کیا سوچتے ہیں” از رچرڈ فائنمن” » فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ - عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن ق — March 4, 2012 @ 11:57 am
[…] موجود رہیں، یعنی صوتی، برقی اور ورقی۔ اسی طرح سے ہم اینڈرز گیم بھی ختم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے کہ جہاں سے ورقی کتاب […]
Pingback by آپ کیوں پروا کریں ہیں کہ لوگ کیا سوچتے ہیں” از رچرڈ فائنمن” » فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ - عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن ق — March 4, 2012 @ 12:06 pm
[…] موجود رہیں، یعنی صوتی، برقی اور ورقی۔ اسی طرح سے ہم اینڈرز گیم بھی ختم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے کہ جہاں سے ورقی کتاب […]
Pingback by آپ کیوں پروا کریں ہیں کہ لوگ کیا سوچتے ہیں” از رچرڈ فائنمن” » فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ - عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن ق — March 4, 2012 @ 12:14 pm