فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

February 2, 2012

بیگمات کےآنسو از خواجہ حسن نظامی کا مختصر تعارف

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 8:06 am

راقم نے خواجہ حسن نظامی کا مضمون شہزادی کی بپتا نصاب میں پڑھا تھا اور اسکے نقوش آج تک یاداشت پر باقی ہیں۔ کچھ عرصے قبل بیگمات کے آنسوپڑھنے کا موقع ملا تو پوری کتاب ایک ہی نشست میں ختم کر ڈالی۔ اسکا مقدمہ ڈاکٹر عقیلہ جاوید اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ اردو، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی نے لکھا ہے اور بہت خوب لکھا ہے۔ تمہید حسن نظامی بھی پڑھنے لائق ہے۔ بس لیکن جو قصے ہیں وہ دکھ بھری داستانیں ہیں جن سے کئی فلموں کے اسکرین پلے بن سکتے ہیں اور یقین ہے کہ بنے بھی ہونگے لیکن چونکہ یہ سب کہی سنی باتیں ہیں لہذا اس کی آزادانہ تحقیق کا بظاہر کوئ وسیلہ نہیں لیکن تاج دہلی کے لٹنے کی اس سے بہتر نوحہ گری ہمارے ناقص مطالعے میں تو نہیں۔ خواجہ صاحب اپنی اس کتاب کی بابت تمہید میں لکھتے ہیں

میں نے دہلی کے غدر ١٨٥٧کی نسبت بارہ حصّوں پر تاریخی واقعات لکھے ہیں جن میں پہلا حصّہ بیگمات کے آنسو بہت ہی زیادہ مقبول ہے. پہلے یہ کتاب چھوٹے سائز پر غدر دہلی کے نام سے شائع ہوئی تھی پھر اس کتاب میں نئے افسانوں کا اضافہ ہوا اور آنسو کی بوندیں نام رکھ کر شائع کیا.پھر اور افسانے بڑھا کر بیگمات کے آنسو نام رکھا گیا. اب تک اس کتاب کے دس ایڈیشن چھپ چکے ہیں. ان مضامین کی نسبت ہندوستان کے اکثر اہل قلم کا خیال ہے کہ یہ میری تحریروں میں سب سے اعلیٰ ہیں اور اردو انشاء پروازی میں ان کہ ایک بڑا درجہ ہے. میرے دوست اور آنریبل مولانا سر سید احمد خان بہادر کے پوتے سید راس مسعود صاحب عرف نواب مسعود جنگ بہادر نے اسی بنا پر کئی سال ہوئے مجھ سے خواہش کی تھی کے میں ان افسانو کا ایک خاص ایڈیشن شائع کروں جسکا کاغذ اور چھپائی اور لکھائی اورجلد بنوئی ایسی عمدہ ہو کہ اسکو لائبریریایڈیشن کہہ سکیں. میں نے اپنے دوست کے کہنے کے موافق اسکا اہتمام کیا ۔

اس کتاب کے مضامین میں بھکاری شہزادہ، شہزادے کا بازار میں گھسٹنا،یتیم شہزادے کی ٹھوکریں،شہزادی کی بپتا،فاقہ میں روزہ،بنت بہادر شاہ،یتیم شہزادے کی عید،دکھیا شہزادی کی کہانی،بیچاری شہزادی کا خاکی چھپر کھٹ،کفنی،جب میں شہزادہ تھا،مرزا مغل کی بیٹی،غدر کی زچہ،غمگین شہزادی،جب ساقی کے ہاتھ میں جام تھا،نرگس نظر کی مصیبت،شہزادہ انساماں،آخر کا بس ایک آنسو،ہندی اور گجراتی،نواب مسعود جنگ بہادر کا شکریہ اور ہر ایک آنسوشامل ہیں۔

اس کتاب کے پڑھنے سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ علامہ اقبال خواجہ صاحب کے بڑے مداح تھے اور انکی صحبت سے فیض پانے کے لیے وہ بار بار الہٰ آباد جاتے تھے اور مسلسل خط و کتابت جاری رکھنے میں بھی سعی بلیغ فرماتے تھے.انھوں نے اپنے دل پر اکبر کی شخصیت اور ان کے کلام کے تاثرکا بار ہا اعتراف کیا اور اپنے اکثر نظریات کو ان کی توجہ اورصحبت کا نتیجہ قرار دیا.علامہ کا کہنا تھا کہ “اکبر کے اسٹائل کی سادگی اور نوکیلے پن کا سراغ ان کی اپنی نظموں کے بعد اگر کسی جگہ تلاش کیا جائے تو وہ خواجہ صاحب کے نثر پاروں میں ہی ملےگا.”

 چوں کہ خواجہ صاحب کے لکھے ہوئے افسانے اور کہانیاں زیادہ تر انقلاب ١٨٥٧ کی بپتا سے متعلق ہیں اس لیے ان میں سوز و گداز کی کیفیت بھی پائی جاتی ہے،اس حوالے سے ان کہ اسلوب ملاحظہ فرمائیں:

“درگاہ حضرت چراغ دہلی کے ایک گوشے میں ایک قبول صورت عورت پھٹا ہوا کمبل اوڑھے رات کے وقت ہائےہائے کر رہی تھی.سردی کہ مہینہ دھواں دھار برس رہا تھا.تیز ہوا کے جھونکوں سے بوچھاڑ اس جگہ کو ترس رہی تھی جہاں اس عورت کہ بستر تھا……..یہ عورت سخت بیمار تھی.پسلی کے درد،بخار اور بے کسی میں اکیلی پڑی تڑپتی تھی..بخار کی بے ہوشی میں اس نے آواز دی. گلبدن. اری او گلبدن!مردار مر گی.جلدی آ اور مجھ کو دوشالہ اوڑھا دے.دیکھ بوچھاڑ اندر آتی ہے. پردے چھوڑ دے،روشنک تو ہی آ .گلبدن تو کہیں غارت ہو گئی.میرے پاس کوئلوں کی انگیٹھی لا.پسلی پر تیل مل.ارے درد،میرا سانس روکا جاتا ہے.”جب کوئی اس آواز پر بھی اس کے پاس نہ آیا تو اس نے کمبل چہرے سے ہٹا اور چاروں طرف دیکھا.اندھیرے لان میں خاک کے بچھونے پر تنہا پڑی تھی.چاروں طرف گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا.مینہ سناٹے سے برس رہا تھا،بجلی چمکتی تھی تو ایک سفید قبر کی جھلک دکھائی دیتی تھی جو اسکے باپ کی تھی.”یہ حالت دیکھ کر اس عورت نے ایک نعرہ مارا اور کہا بابا!میں تمہاری گل بانو ہوں.دیکھو اکیلی ہوں.اٹھو مجھے بخارچڑھ رہا ہے،آہ میری پسلی میں شدّت کا درد ہو رہا ہے،مجھے سردی لگ رہی ہے،میرے پاس اس بوسیدہ کمبل کے سوا اوڑھنے کو کچھ نہیں ہے.میری اماں مجھ سے بچھڑ گئیں.میں محلوں سے جلا وطن ہو گئی.بابا اپنی قبر میں مجھے بلالو.اچھی مجھے ڈر لگتا ہے.کفن سے منھ نکالو اور مجھ کو دیکھو،میں نے برسوں سے کچھ نہیں کھایا.میرے بدن میں اس گیلی زمین کے کنکر چبھتے ہیں.میں اینٹ پر سر رکھے لیٹی ہوں.

“میرا چھپر کھٹ کیا ہوا؟میرا دوشالہ کہاں گیا؟میری سیج کدھر گئی؟ابّا.ابّا.اٹھو جی کب تک سوؤ گے. ہائےدرد.افوہ.سانس کیوں کر لوں؟

مولانا عبدالماجد ریا آبادی کا یہ قول خواجہ صاحب کے لِیےحرف آخر ہے کہ
“ان کا سا البیلا انشاء پرداز اردومیں نہ کوئی ان کے زمانے میں پیدا ہو سکا اور نہ آج تک ہوا ہے.وہ صحیح معنوں میں عوامی انشاء پرواز تھے،ساز سے زیادہ سوز کے مالک.”

Share

3 Comments »

  1. لگتا ہے کہیں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر پڑھنی پڑھے گی کتاب

    Comment by علی — February 2, 2012 @ 8:34 am

  2. تبصرے کا شکریہ، اچھی کتاب ہے علی صاحب، کسی بھی بڑی لایبرری یا کتابوں کی دکان سے مل جانی چاہیے، میں نے اردو بازار سے لی تھی۔

    Comment by ابو عزام — February 2, 2012 @ 6:14 pm

  3. خواجہ صاحب واقعی صاحبِ اسلوب نثر نگار تھے، انکی تحاریر پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ بہت شکریہ جناب۔

    Comment by محمد وارث — February 3, 2012 @ 9:15 pm

RSS feed for comments on this post. TrackBack URL

Leave a comment

Powered by WordPress