فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

February 3, 2012

ذکرامیرمینائی – حصہ اول

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 3:00 am

قلندرانہ شاعر، مرد متقی حضرت امیر مینائی سے راقم کا پہلا تعارف چوتھی جماعت میں اس وقت ہوا جب ہمارے ہمارے عزیز دوست اور امیر مینائی کے پڑ پوتے مبین احمد مینائی نے  خانوادہ مینائی سے اپنی وابستگی بتلاتے ہوئے کہا کی پی آئی بی کالونی کا مشہور مینا بازار دراصل امیر مینائی کے نام سے موسوم ہے۔ بیس سال گذرنے کے بعد آج بھی اس نجیب الطرفین خاندان سے ہمارے تعلقات تلمیذ قوئ ہیں۔ قیصر تمکین صاحب کی کتاب جس کا تبصرہ پچھلے دنوں شائع کیا، ان میں ایک عدد مضمون امیر مینائی کے بارے میں تھا جو کہ ان کی حیات و خدمات کا بہت خوب احاطہ کرتا ہے۔ اس کے اقتباسات اس بلاگ پر قسط وار شائع کرنے کا ارادہ ہے، امید ہے قاریئن کو پسند آے گا۔ پسندیدگی کی صورت میں محترم قیصر تمکین صاحب کی کتاب ضرور خرید کر علم دوستی کا ثبوت دیں کہ وہ ایسے مضامین سے بھرپور ہے۔

ذکر امیر از قیصر تمکین

ایک ایسے دور میں جب کہ علم وادب کے اطوار و اقدار ہی بدل چکے ہوں ،معجزہ فن کی ترکیب عوامی رابطہ اداروں کی مرہون منت بن چکی ہو اور افکار شائستہ و جمیل کوحیثیت آثار کہنہ و فرسودہ کی دے کرنسیاً منسیا قرار دیا جا چکا ہو،امیرزادگان انگلستان کا یہ اقدام کہ ایک مرد متقی و مجذوب عصر کی برسی منائیں ہر آئینہ داد و ستائش کا مستحق ہے.اظہار تعجب اس تقریب پریوں بھی ضروری ہے کہ حضرت امیر مینائی اپنی قلندرانہ پاکباز حیات واعمال کی بنا پر مجالس ادب کے ان مرکزی دھاروں سے بلکل الگ تھے جہاں ضرورت شعری کا عذر کر کے اخلاقی وشرعی ردا کی دھجیاں اڑانا امر مستحسن خیال کیا جاتا ہے.

عام طور پر یہ مان لیا گیا ہے کہ ادیب وفنکار کا منکرشریعت و شرافت ہونا ایک امر لازمی ہے.گویا اگر کردار میں کجی اور افعال پر از معائب نہ ہوں تو اسے سندفن اور رتبۂ شعر عطا ہی نہ ہو سکےگا.افسوس یہ ہے کہ اس مفروضے کی ترویج میں بڑا ہاتھ ترقی پسندوں کی بے راہ روی کا بھی رہا ہے.ترقی پسند جوانوں کے ایک بڑے حلقے نے سرعام یہ دعوے کیےکہ کوئی شاعر جب تک پینے اور پی کر بہکنے کا قائل نہ ہواسکی رموز شعر سے واقفیت ہی مشکوک رہے گی. امیر احمد مینائی کو یکسر فراموش کر دیے جانے اور ان کی خدمات کو زینت طاق نسیاں بنانے میں بھی یہی وجہ کار فرما رہی ہے کہ وہ متوازن شہری اور ثقہ بزرگ تھے اور ارتکاب انہوں نے کبھی بھی تمیز و تہذیب سے لا پرواہی کا نہیں کیا.اس پر طرہ یہ کہ تعلق ان کا ہمیشہ ہی مذہب کے اعلیٰ معیاروں اور اپنے الله و رسول سے رہا.جن احباب کی نظر میں مذہب.خواہ وہ کوئی مذہب کیوں نہ ہو بیل کے لیے لال رومال لہرانے کی سی کیفیت رکھتا ہووہ کسی ایسے شاعریا ادیب کو کیسے انگیز کر سکتے ہیں جس نے پورا ایک دیوان ہی نعت کا مرتب کر ڈالا ہو اور جو اپنے لیے موءجب افتخارو امتیاز یہی ایک بات سمجھاتا ہوں کہ اسے رحمتہ العالمینّ کی غلامی کا شرف حاصل ہے.امیر احمد مینائی کے اس مخلصانہ  و والہانہ دیوان نعت کے بارے میں حضرت جدامجد مولانامحسن کاکوروی نے فرمایا تھا-

یہ دیواں کیا ہے گویا اک گلستاں ہے ہدایت کا

ثمرہے یا کہ محبوب الٰہیّ کی رسالت کا

جب ١٨٥٧ءمیں فرنگی سازشوں اور سامراجی مظالم کے خلاف بغاوت کے شعلے لکھنؤ میں بھڑک اٹھے تو حضرت امیر مینائی شہر سے آٹھ میل دور مغرب میں اودھ کے مردم خیز قصبے کا کوری میں پناہ گیر ہوئے اور وہاں اپنے ہم عصر اور اس زمانے کے بلند پایاوکیل و مصنف محسن کاکوروی کے مکان پر قیام پذیر ہوئے.اپنے دوست کے اخلاص و مروت اورعشق رسول سے محسن کا کوروی بہت متاثر ہوئے.انہوں نے اپنے نومولود نواسے کا نام بھی امیر احمد رکھا-محسن کا کوروی  کے بیٹے نورالحسن نیر کا کوروی تھے جو ان دنوں ایسی فرہنگ مرتب کرنے میں مصروف تھے جس میں لکھنؤ اور اسکے اطراف و اکناف میں بولی جانے والی اور ہمہ وقت تغیر پذیر اردو زبان کے الفاظ و اصطلاحات جمع کی جا سکیں.اسی کوشش میں انہوں نے اپنی نادر روزگار لغت نوراللغات مرتب فرمائی اور اپنے گھر کو نور اللغات آفس کا نام دیا.یہی دفتر نوراللغات راقم الحروف کا ددھیال تھا.الانہ محسن کے نومولود نواسے امیر احمد اس خاکسار کی دادا تھے.اس طرح راقم اگرچہ براہ راست امیر زادگان میں نہیں ہے مگر پھر بھی ادب  و شعر کے وسیلے سے امیر مینائی مرحوم سے ایک واسطہ تو رکھتا ہی ہے چناں چہ آج کی تقریب اور اس میں شرکت کی سعادت سب سے زیادہ اسے خاکسار کے لیےموجب مسرت ہے. برسبیل تزکرہ ایک غلط فہمی کا ازالہ کرنا اس موقع پر نہ مناسب ہوگا.امیر مینائی علامہ محسن کا کوروی کے ہم عصراورقریبی دوست تھے لیکن تاریخ ادب اردو کے مصنف رام بابو سکسینہ نے لکھا ہے کہ حضرت محسن کا کوروی امیر مینائی کے خورد اور شاگرد تھےیہ غلط فہمی یوں ہوئے کہ وہ مصنف نوراللغات اور محسن کا کوروی کے باپ بیٹے کے رشتے سے نہ واقف تھے (انہیں معلوم نہیں تھا کہ نورالحسن نئیرکا کوروی مصنف نوراللغات اصل میں علامہ محسن کے صاحبزادے تھے .وہ مصنف نوراللغات کو بزرگ سمجھے)والد مرحوم مشیر احمد علوی ناظرکاکوروی نے سکسینہ صاحب کو اس غلطی کی طرف توجہ دلائی.سکسینہ صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ کتاب کی بعد کی اشاعتوں میں اس کی تصحیح کر دینگے مگر یہ وعدہ پورا نہ ہو سکا اور اب تک لوگ راقم کے دادا امیر احمد علوی کو علامہ محسن کے نواسے کے بجاۓانکا بتا تصور کرتے ہیں.”افکار”کراچی کی اشاعت میں بھی یہی غلط فہمی حال ہی میں دہرائی گئی اور یہ لکھا گیا کے علامہ محسن راقم الحروف کے پر دادا تھے.

میں نے بہت سی باتیں بچپن میں اپنے بزرگوں سے سنی تھیں جن کی تصدیق یا تردید کا کبھی وقت نہ مل سکا .حال ہی میں میرے ایک استفسار کے جواب میں علامہ نورالحسن نیر کا کوروی کے پوتے مولوی اطہر محسن علوی نے مندرجہ ذیل باتیں بتائیں ان کا ذکر بہت ضروری ہے تاکہ حیات امیر کے سلسلے میں ایک اور بیان بھی ملحوظ خاطر رہے:

       “امیر مینائی ١٦ شعبان ١٢٢٤ ہجری (مطابق ١٨٢٦عیسوی)میں پیدا ہوئے

        ابتدائی تعلیم والد کی سر پرستی میں حاصل کی اس کے بعد علماۓ فرنگی محل

        اور دیگرعلماۓ عصر مثلاً سعدالله(شاگرد مفتی صدر الدین آزردہ)سے تحصیل علم کی.

        شاعری کا مشغلہ اگر تکمیل علم سے پہلے شروع ہو جاۓ تو علوم کے حصول میں

        رکاوٹ پیدا ہوتی ہے.امیر کے والد نے اس کا خیال رکھا.ایک بار امیر اپنے

        والد کے پیرداب رہے تھے والد نے پوچھا کہ تم شاعری بھی کرنے لگے ہو.

        ہم بھی سنیں ہمارا امیر کیسے شعر کہتا ہے.جواب میں امیر نے شرماتے ہوئے بتایا

        کہ بارش نہیں ہو رہی ہے.لوگ پریشان ہیں.موجودہ کیفیت کو میں نے اس طرح نظم

        کیا ہے..

                              “ابر آتا ہے ہر بار برستا نہیں پانی

                              اس غم سےہےیادوسرےاشکوں کی روانی”

شفیق باپ نے بیٹے کی کوششوں کو سراہا لیکن ساتھ میں ہدایت کی کے پہلے علوم متدادلہ سے کماحقہ واقفیت  پیدا کرلیں اس کے بعد شاعری کریں.یہی وجہ ہے کہ امیر احمد مرحوم نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد شاعری کی طرف توجہ کی.جس ماحول میں تربیت ہوئی اسکا تقاضا تھا کہ وہ ایسا استاد تلاش کرتےجو ان کے مذاق کا ساتھ دیتا چناں چہ مظفرعلی خاں اسیر کا سا استاد ان کو مل گیا جو رکاکت وابتدال سے بلند تھا.اسیر ہی کی وساطت سے ١٨٥٢ء میں امیر کو واجد علی شاہ کے یہاں ملازمت حاصل ہوئی اسی دوران امیر نے ارشاد السلطان اور ہدایت السلطان نامی کتابیں لکھیں ابتدائی کلام کا مجموعہ جس کو بہارستان کے نام سےموسوم کیا تھا ١٨٥٧ء کے ہنگامے میں تلف ہوگیا چناں چہ اس زمانے کا جو رنگ تھا اس کا اندازہ پوری طرح نہیں کیا جا سکتا ہے جو تھوڑا بہت کلام ملتا ہے اس میں اخلاقی مضامین پاۓ جاتے ہیں.مثلاً…

حوصلہ عالی اگر ہو ہر جگہ معراج ہے

دار بھی ہے شاخ سدرہ دیدہ منصور میں

واجدعلی شاہ کی معزولی اور شہر کے ہنگاموں نے دیگر شرفا کی طرح امیر مینائی کو بھی لکھنؤ چھوڑنے پر مجبور کیا.امیر کاکوری چلے گئے جہاں محسن کا کوروی کی صحبت نے امیر کے نعت گوئی کے جذبے کو شہ دی.محسن کے قصیدے،ابیات نعت کی تضمین جو امیر نے کی وہ اسی فیض صحبت کا نتیجہ ہے.امیر مینائی مرحوم نے کاکوری کے کس گھر میں کب تک قیام کیا اسکا تزکرہ کہیں نہیں ملتا ہے.محسن کاکوروی کا جو مکان پھاٹک کے نام قصبے کے محلے باؤلی سے متصل تھا ان کے  پڑپوتے حافظ رضوان علوی نے کھدوادیا اس لیے اب اس کا یا وہاں کے کتب خانے کا کوئی بھی نشان نہیں ہے.احسن الله ثاقب جنہوں نے امیر مرحوم کے خطوط ترتیب دیے تھے انہوں نے بھی اس مسلے پر کوئی روشنی نہیں ڈالی.ثاقب کی اہمیت یہ ہے کہ وہ پہلے محسن کاکوروی کے شاگرد تھے جب ١٨٨٧ءمیں وو رامپور منتقل ہوئے تو حسب فرمائش محسن کاکوروی امیر مینائی کو اپنا کلام دکھانے لگے .

اپنے عارضی قیام لکھنؤ کے دوران ١٨٨٥ء میں امیر مینائی نے ایک جریدہ “دامن گلچیں” کے نام سے نکالا.ابتدائی پرچوں میں ہندوستان کے بہترین شعراءطبع آزمائی کرتے تھے.امیر، داغ، جلال،  ریاض اور شوق وغیرہ نے بھی اس میں اپنا کلام چھپوایا.منشی امیر مینائی کے اصرار پر محسن نے دو تین غزلیں بھیجیں ایک غزل کا مطلع تھا.


غزل کہنے میں ہے تعمیل ارشاد امیر

بعد مدّت آج محسن خامہ فرسائی ہوئی

غالباً اسی شعر کی وجہ سے بعض تزکرہ نگاروں نے جن میں رام بابو سکسینہ بھی شامل ہیں حضرت محسن کا کوروی کو امیر مینائی کا شاگرد بھی لکھ دیا ہے.امیر مینائی کا لکھنؤ میں قیام عارضی ہی رہا اور وہ بقول امیراحمدعلوی چند ماہ بعد رام پور واپس چلے گئے اور “دامن گلچیں” کی کلیاں مرجھا گئیں.

جاری ہے

Share

5 Comments »

  1. بہت خوب جناب اور بہت شکریہ یہ مضمون شیئر کرنے کیلیے۔ امیر مینائی اک ایک ضرب المثل شعر یاد آ گیا

    وصل کا دن اور اتنا مختصر
    دن گنے جاتے تھے اس دن کیلیے

    Comment by محمد وارث — February 3, 2012 @ 9:14 pm

  2. […]  گذشتہ سے پیوستہ […]

    Pingback by ذکرامیرمینائی – حصہ دوم » فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ - عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری — February 5, 2012 @ 3:01 am

  3. […] حصہ اول حصہ دوم […]

    Pingback by ذکرامیرمینائی – تیسرا اور آخری حصہ » فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ - عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری — February 7, 2012 @ 3:01 am

  4. السلام علیکم !
    حضرت امیر مینائی پر آپ کا مرقومہ مضمون باصرہ نواز ہوا
    طبیعت خوش ہوئی ۔بہت بہت مبارک باد قبول فرمائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے مکمل مضمون میل کیجیے گا ۔۔۔نوازش ہوگی ۔۔۔
    شکریہ
    جزاک اللہ

    مشاہد

    Comment by مشاہدرضوی — July 10, 2016 @ 9:11 am

  5. آپ کا مرسلہ
    جناب قیصر تمکین کا مرقومہ

    Comment by مشاہدرضوی — July 10, 2016 @ 9:13 am

RSS feed for comments on this post. TrackBack URL

Leave a comment

Powered by WordPress