فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

March 22, 2012

آور لیڈی آف ایلس بھٹی از محمد حنیف

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 12:02 am

محمد حنیف کے مکتبہ فکر سے تو ہمارا قطبین کا فاصلہ ٹھرا لیکن انکی ندرت خیال اور خوبی نثر کی تعریف نا کرنا ایک بڑی ادبی ناانصافی ہوگی۔ کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز کے بعد انکا تازہ ناول آور لیڈی آف ایلس بھٹی کل ہی ختم کیا اور امید ہے کہ ہماری یہ پیشن گوئ صحیح ثابت ہوگی کہ جلد ہی برصغیر کے انگریزی مصنفین میں انکا نام امیتابھ گھوش اور اروندھتی رائےکے پاے کا قرار دیا جاے گا۔ اس ناول کو ایک بار اٹھانے کے بعد رکھنے کو قطعی دل نہیں چاہتا، سسپنس کا برقرار رکھتے ہوے مصنف نے جس طرح کہانی کا تاروپود باندھا ہے وہ اپنی مثال آپ  ہے۔

محمد حنیف کو  تاریک طنز یا ڈارک کامیڈی پر خاص عبور حاصل ہے۔ وہ مھیب و موحش صورتحال کو اس پاے میں بیان کرتے ہیں کہ افسردگی کا وہ منظر آپ کی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے اور لیکن اس طرح کہ اس کی سنگینی میں طنز و مزاح کے نشتر سے ناگفتنی سا شگاف پڑا ہو۔ آور لیڈی آف ایلس بھٹی ایک عیسائ نرس ایلس کی بپتا ہے جو فرنچ کالونی جسے آپ کراچی کی عیسی نگری کا متبادل سمجھ لیں، کی رہایشی ہے اور جیل سے باہر آنے کے بعد اپنی زندگی کو عام ڈگر پر لانے کے لیے روز شب محنت کرنے کو تیار۔ اسی دوران اس کی مدبھیڑ پولیس کے ایک مخبر اور سابق جونیر مسٹر فیصل آباد  ٹیڈی سے ہوجاتی اورمہر و ماہ کے اس ٹکراو سے کہانی کے ہمہ جہتی پہلو نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ مصنف کو کردار سازی میں ملکہ حاصل ہے، ان کے زیادہ تر کردار یک رخی لیکن مضبوط ہوتے ہیں چاہے وہ جیل کا ساتھی نور ہو، ایلس کا باپ جوزف بھٹی ہو جو ‘مسلوں کی دعاوں’ سے السر کا علاج کرتا ہے،انکاونٹر اسپیشلسٹ انسپکٹر ملنگی ہو، سسٹر حنا علوی جیسی خرانٹ ہیڈ نرس ہو، ناٹ-ابوزر کا پراسرار کردار ہو  یا چریا وارڈ کے بے نام و نشان مریض، یہ تمام کردار ناول کے کینوس پر پھیلے نظر آتے ہیں، اس طرح کہ ان کے انفرادی رنگ نمایاں تو ہوں لیکن ان رنگوں کا یہ امتزاج ایک جاندار پلاٹ کی صورت میں قاری کو متجسس و منہمک رکھے۔

مصنف کے قرطاس پر منظر نگاری اور حالات و واقعات کے تانے بانے کچھ اسطرح بنے جاتے ہیں کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے ۔ ٹایم لاین کو اور لیپ کرنا یعنی حالات و واقعات کو متوازی چلاتے ہوے ایک نقطے پر مرکوز کرنا محمد حنیف صاحب کا اوج کمال ہے۔ آور لیڈی آف ایلس بھٹی ایک بہترین رولر کوسٹر کی طرح آپ کو بور نہیں ہونے دیتی،ہوسکتا ہے میری طرح آپ کو تین چوتھای ناول کے بعد انجام کی بھنک پڑ جاے لیکن سسپنس کا عنصر آخر تک باقی رہتا ہے۔ کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز کی طرح اس کتاب کا انجام بھی غیر روایتی اور کتاب کی طرح ہی آزاد از قیود و رسوم ہے، کیا ہیپی اینڈنگ اور رزمیہ اختتام کے علاوہ بھی کوئ اور انجام ہوتا ہے؟ یہ بات آپ کتاب پڑھ کر ہی جان پائیں گے۔

مصنف کی تحریر کی ایک بنیادی خوبی ناول میں تجسس و رومانویت کا مخفی عنصر ہے جس پر امتداد زمانہ کی گرد سے مہین جالے بن دیے جاتے ہیں لیکن یہ ابن صفی کی طرز کی تحریر نہیں۔ ان کا قلم طنز میں ڈوبا ہوا ایک نشتر ہے جسے وہ بے رحمی و سہل انگاری سے معاشرتی اقدار کی پردہ دری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جیسے کہ میں کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوزکے تبصرے میں کہ چکا ہوں، محمد حنیف کے لیے کوئ چیز مقدس گاے نہیں۔ معاشرتی اقدار پر طنز، اقلیتوں سے سلوک اور ان کی کمیونٹی کے مسائل، کراچی میں امن و امان کی سريع الزوال صورتحال، پادری و بشپ و محراب و منبر سے لے کر چوڑا چمار، ہر جہت پر ان کے قلم کی سیاہی اس طرح بلا تفریق چھینٹے اڑاتی ہے کہ دامن بچانا مشکل ہوتا ہے۔ اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ یہ ناول ‘سیونگ فیس’، ‘اے سیپریشن’ اور ‘نیو ٹیسٹمنٹ’ کا امتزاج ہے تو یقین کریں یہ بلکل غلط نا ہوگا۔

رینڈم ہاوس انڈیا کا شائع کردہ تقریبا ڈھائ سو صفحات کا یہ ناول ایک جرمن خطاط کے خط سبون میں طبع ہوا ہے۔ ہمیں علم نہیں کہ پاکستان کے کسی پبلشر نے اسے شائع کرنا گوارا کیوں نہیں کیا۔اس کا انتساب حسن درس کے نام ہے۔ کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز میں حنیف صاحب نے اردو استعارات استعمال کرنے سے گریز کیا تھا، شاید مین بکر پرائز کی امید میں انہوں نے کسی قسم کا خطرہ لینا گورا نا کیا لیکن اس مرتبہ انہوں نے ناول کے حسب حال تراکیب کو اسطرح مستعمل رکھا ہے کہ کہیں زیادتی محسوس نہیں ہوتی اور خصوصا اہل زبان و مکاں کو خصوصی چٹخارہ مل جاتا ہے۔ تکنیکی طور پر ری ایکارپوریشن یا کردار کا اعادہ  ناول میں ایک مشکل اسلوب صنف ہے لیکن راقم کی راے میں مصنف کو کردار سازی میں ملکہ حاصل ہے مثلا ناٹ-ابوذر کے کردار کی ری کوپریشن ایک نہایت عمدہ اور غیر متوقع بات تھی جسے آپ ناول پڑھنے کے بعد ہی سراہ سکیں گے۔ یہ کتاب انگریزی ادب کے ہر قاری کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں جو پاکستان کے حالات سے شناسای رکھتا ہو۔

Share

4 Comments »

  1. اگرچہ انگریزی ذرا پھنستی ہے میری
    لیکن یہ تو اب پڑھنی ہی پڑے گی

    Comment by Jafar — March 22, 2012 @ 9:54 am

  2. نا معلوم کیوں میں اس کے ابتدائی صفحات سے آگے نہیں جاپارہا۔۔ لیکن آپ نے جس طرح اس کا خلاصہ کیا ہے لگتا ہے یہ واقعی عمدہ ہے چناچہ ہمت کرنی پڑے گی
    ظاہر ہے کہ آپ سے مستعار بھی لینی پڑے گی
    🙂

    Comment by راشد کامران — March 22, 2012 @ 8:55 pm

  3. آپ نے تعریف کی ہے سو اچھا ہی ہو گا ۔ نامعلوم کیوں عرصہ سے ناول پڑھنے کو جی راضی ہی نہیں ہوتا

    Comment by افتخار اجمل بھوپال — March 23, 2012 @ 3:49 am

  4. عزیزان من، تبصرہ جات اور تحریر پڑھنے کا شکریہ

    Comment by ابو عزام — March 28, 2012 @ 6:49 am

RSS feed for comments on this post. TrackBack URL

Leave a comment

Powered by WordPress