مارچ ۲۳ کے تناظر میں لکھی گئی یہ تحریر تو شائد کلمہ ابتذال کلیشے ہی قرار پاے لیکن بقول فیض، کبھی کبھی ایسا بھی لکھنا چاہیے۔
یہ لوگ کون ہیں اور کونسے خواب دیکھ رہے ہیں؟ کیا یہی وہ رویا اقبال ہے جس کا چہار دانگ عالم چرچا ہے، کیا یہی وہ خواب ہیں جس کی تعبیر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صورت میں قائم ہونے والی ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے؟
ہم اسے توہم و اغفال و تجسم ہذیان تو قرار دے سکتے ہیں لیکن زمینی حقائق سے دور ان پوش و کلچرڈ گلچین کا اساس مملکت خداداد سے کیا لینا دینا۔ اردش کے استعمال کے بنا چارہ نہیں کہ اس شماریات کا سیمپل سائز تو خدا جانے کس قسم کا آوٹلائر ہے، کوئ باشرع جوان نہیں، کوئ حجابی خاتون نہیں، ٹک ذکر دین نہیں، کہیں نظام مصطفوی کی پکار نہیں، فکر ہے تو بس اس بات کی کہ پاکستان کا ویزہ لینے کے لیے لوگوں کی لاین لگ جائے۔ مستعار لی گئی مغربی عقل کے یہ متوالے پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان اورمملکت ناروے و ریاست آسٹریلیا ومملکت نیدرلینڈز میں کیا فرق دیکھتے ہیں جہاں کی ہیومن ڈویلپمینٹ انڈیکس ٹاپ تھری میں شمار ہوتی ہے۔ اداروں کی مضبوطی کی خواہش یا قانون کی بالادستی بات تو بجا ٹھری لیکن نظریات کے فرق میں برہان قاطع کیا ہے؟ جس اساس پرمملکت پاکستان کا وجود ٹھرا، اس کا تذکرہ ندارد، کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے۔ کیا یہی مملکت پاکستان کے حصول کا خواب تھا؟ اگریہی بات ٹھری تو پھردو قومی نظریے پر دو حرف بھیجیے اور اسے خلیج بنگال کی طرح اس بار بحیرہ عرب میں ڈبو دیں، قرار داد مقاصد کو آگ لگا دیں، اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو سیکیولر جمہوریہ قرار دیتے ہوئے ایک “ترقی یافتہ” ملک بنانے کی جدوجہد کے لیے کمر باندھ لیں۔
قومی لباس سے محروم تن بدن پر موجود جن خمار آلود آنکھوں نے یہ اسکرپٹڈ خواب بنے ہیں انہیں میں استعمارانہ نظام کے خواب، سرمایہ دارانہ نظام کے خواب، گلوبل معیشیت کے خواب یا کالونیلزم کے خواب ہی گردان سکتا ہوں۔ مملکت خداداد کے مستقبل کے لیے اقامت دین اور قیام نظام مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایک خواب ہے جس کوغلامان مصطفی کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اس کی تعبیر کی سعی کرتے ہیں۔
ڈرائنگ روم کی سیاست کرنے والے جو لوگ اپنی زبان میں خواب بھی نہیں دیکھ سکتے ان سے فسانوی حقیقت کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔
جناب اتنی نستعلیق اردو میں جواب آں غزل پڑھ کر بہت مسرت ہوئی۔۔۔ زبردست
Comment by بیگ صاب — March 30, 2012 @ 4:44 am
محترم پہلے تو عرض کردوں کہ میں نے آپ کی پوسٹ کو بار بار پڑھا اور اول تو یقین نہیں آیا کہ آپ اس خواب راحت کا جواب خواب راحت پلس پلس سے دیں گے۔
1۔
ان پوش و کلچرڈ گلچین کا اساس مملکت خداداد سے کیا لینا دینا۔۔۔۔ اگر تاریخی کتابیں مکمل تبدیل نہیں ہوچکی توں شائد بانی پاکستان بھی اسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اکثر غیر قومی لباس میں ملبوس قوم سازی میں مصروف بھی نظر آتے تھے۔
2۔
اگر اپ کو یاد ہوتو قیام پاکستان کے وقت پاکستان صرف پاکستان تھا یہ “اسلامی و جمہوری” کا پندُھنا (جسے آکسی موران کہہ لیا جائے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں) بعد میں شامل کیا گیا تھا۔ آپ ایسے حقیقت پسند بلاگر سے میں توقع نہیں کرتا کے کھوکھلے خواب کے جواب میں آپ دو متضاد چیزوں یعنی اسلام اور جمہوریت کو بطور حل تجویز کریں گے۔ جناب کوئ مملکت یا تو اسلامی ہوسکتی ہے یا جمہوری یہ دونوں متضاد چیزیں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں اور شاید ہمارا سب سے بڑا المیہ بھی یہی ہے کہ ہمارے پوش و کلچرڈ گلچین اور باشرع جوان و حجابی دوشیزہ اپنے اپنے یوٹوپیائی نظام کو بطور حل تجویز کرتے ہیں۔
3۔
سیکولیر جمہوری خواب دیکھنے والے کم از کم اپنے نظام کا عملی نفاذ اس کے فوائد اور نقصانات موجودہ صدی میں پیش کرسکتے ہیں۔ آپ کے پاس ایسا سوائے یاد ماضی کے ایسا کیا عملی نمونہ موجود ہے جو اکیسویں صدی کی ایک ہمہ جہت سوسائٹی قبول کرسکے؟ کیا وجہ ہے کہ اکثریتی اسلامی ممالک خد اپنے ملکوں میں اس یوٹوپیا کے قیام میں ناکام ہیں جسے وہ سیارے کے مسائل کا حل سمجھتے ہیں؟
Comment by راشد کامران — March 30, 2012 @ 10:06 am
تبصرے کا بہت شکریہ راشد بھائ۔ یہ سہ نکاتی اعتراضات توایک بلاگ پوسٹ کے متقاضی ہیں لیکن اختصار سے عرض کرتا چلوں کہ یہاں ہماری جمہوریت سے مراد امرہم شوری بینھم ہے، مغربی طرز کی مادر پدر آزاد ریاست نہیں اور ڈیموکریسی اور ریپبلک کا فرق تو آپ جانتے ہی ہیں۔ اسلامی جمہوری ریاست میں اعلی ترین مقننہ و ائین، آئین خداوندی و حکم شارع ہےلہذا اس کے خلاف قانون سازی نہیں ہوسکتی۔ باقی لوگوں کو حکمران چننے اور ان کے مواخذے کا مکمل حق حاصل ہے۔ ۔اس نظام کی غیر کامل اشکال آپ مسلم رینیسانس سے لے کر آج کے ملائشیا تک میں دیکھ سکتے ہیں۔ اسلام اور جمہوری اقدار قطعی متصادم نہیں، اسلام اور مغربی طرز جمہوریت ضرور ایک دوسرے سے کچھ مقامات پر متصادم ہیں، بنیادی طور پر اس بات پر کہ عنان اقتدار مکمل طور پر عوام کے ہاتھ میں نا ہوگی کہ کل اگر اکثریت ہم جنس پرستی کو درست سمجھنے لگ جاے تو اسکی اجازت دے دی جاے، ایسا اسلامی جمہوری نظام میں نہیں ہوسکتا۔اگر آپ پولیٹکل سائنس کے حوالے سے جمہوریت کی تعریف کا مطالعہ کریں تو کوی بھی مغربی ڈیموکریسی،ٓآیڈیل دیموکریٹک اساس پر پورا نہیں اترتی، اسی طرح جس طرح کمیونسٹ چائنا مارکسی آیڈیلزم کا نمونا نہیں۔
آپ قران و سنت کی اس بالادستی کو پاپائیت پر بھی منطبق نہیں کرسکتے کیونکہ اسلامی جمہوریت میں حاکم وقت ہی بیک وقت منتظم ایڈمنسٹریٹر اور قران و سنت کی بالادستی برقرار رکھنے کا امین ہوتا ہے۔ پاپایت یا وکار آف یسوع مسیح کا مذہبی عامل حکومت وقت سے جداگانہ تشخص رکھتا ہے جو کہ خلافت علی منہاج النبوہ کی روح و عمل کے بلکل خلاف ہے
Comment by ابو عزام — March 31, 2012 @ 8:30 am
Aam tur pay agar aap aisi product bechnay ki kushish karain ju kisi nain aaj tak dekhii na hu tu log apku pagal yaa bay-aman kahain gai..lekin aap bechnay ki koshish main lagay rehtay hain.
Kabhi socha hai used car salesmen itnay badnaam kiyoon hain? Wu bhi wohi kraty hain ju mullah karat hai…mal kuch keh kay bechtay hain nikalta kuch hai.
Comment by Hasan — March 31, 2012 @ 5:08 am
تبصرے کا شکریہ حسن صاحب،
جس نظام کی غیر مرئیت پر آپ نےاظہار خیال کیا ہے اسے مدینے سے قرطبہ تک اور جزائر ملاکا و سماترا سے صحارا تک بارہا، اپنی کسی نا کسی شکل میں پرکھا جا چکا ہے۔ اس کا غلبہ انسانی تاریخ کے ایک بڑے حصے تک رہا اور آج بھی ایک اعشاریہ تین بلین ماننے والوں کے ساتھ اس کی نشاط ثانیہ کچھ دور نہیں۔
بات صرف اتنی ہے کہ ہر دین کی طرح، خواہ وہ دین اشتراکیت ہو، دین استعمار ہو یا دین جمہور، اس سےمحبت رکھنے والا ہمیشہ اس کے غلبے کی کوشش جاری رکھتا ہے۔ چی گویرا سے لے کر ٹی پارٹی موممنٹ تک آپ کو اس کی سینکڑوں مثالیں مل جائیں گی۔ آپ کی ہمدردیاں جس بھی نظام کے ساتھ ہوں، آپ اسے پھیلانے کی سعی کریں، ہمارے لئے تو نظام مصطفوی ہی حرف آخر ہے۔
Comment by ابو عزام — March 31, 2012 @ 8:45 am
“ہماری جمہوریت سے مراد امرہم شوری بینھم ہے، مغربی طرز کی مادر پدر آزاد ریاست نہیں”!
yeah bhi siraf alfaz hain aur kuch nahin
“آئین خداوندی و حکم شارع”
is ka faisal konsay firqay ka kunsa molvi karay ga? yeah siraf grand alfaz hain aur kuch nahain
“نظام کی غیر کامل اشکال آپ مسلم رینیسانس سے لے کر آج کے ملائشیا تک میں دیکھ سکتے ہیں۔ ”
abhi tak na mukamal phir bhi aap ka hosla past nahain hua… aur malyasia konsa wala jahan aik din main das church jala deeay jatay hain..aisi society kee zaroorat kiya hai bhui?
“اسلام اور جمہوری اقدار قطعی متصادم نہیں، اسلام اور مغربی طرز جمہوریت ضرور ایک دوسرے سے کچھ مقامات پر متصادم ہیں، ”
au khadaya..jamhorriyat tu maujuda shakl main maghrab nay hi di hai…is say pehlay “Islami” dor main kahan thi?
“اگر اکثریت ہم جنس پرستی کو درست سمجھنے لگ جاے تو اسکی اجازت دے دی جاے، ایسا اسلامی جمہوری نظام میں نہیں ہوسکتا۔اگر ”
kiyoon nahain hu sakat bhu? agar khalifa ya sheikh sahib kii 100 harm muhtarmain jaiz hu sakti hain tu yeah kiyoon nahain hu sakta?
“اگر آپ پولیٹکل سائنس کے حوالے سے جمہوریت کی تعریف کا مطالعہ کریں تو کوی بھی مغربی ڈیموکریسی،ٓآیڈیل دیموکریٹک اساس پر پورا نہیں اترتی، ”
yeah ideal kab aur kahan thi aur kis nay defien kisy? aik farzi baat ku kitna sanjeeda liya jasakta hai…
“آپ قران و سنت کی اس بالادستی کو پاپائیت پر بھی منطبق نہیں کرسکتے کیونکہ اسلامی جمہوریت میں حاکم وقت ہی بیک وقت منتظم ایڈمنسٹریٹر اور قران و سنت کی بالادستی برقرار رکھنے کا امین ہوتا ہے۔ ”
pichlay 1000 saal main aisay ashkhas ki misalain dain..
tauba hai bhui…kuch aur tajarab hasal karu…abhi kachay hu..
Comment by Hasan — March 31, 2012 @ 8:41 am
“پاپایت یا وکار آف یسوع مسیح کا مذہبی عامل حکومت وقت سے جداگانہ تشخص رکھتا ہے جو کہ خلافت علی منہاج النبوہ کی روح و عمل کے بلکل خلاف ہے”
papayat khud tu alaihda nahain huna chatii thii, zabardasti aliahda kiya giya hai…bhui kuch para wara karu…khialii batoon kay aliawa bhi kuch socha karu.
Comment by Hasan — March 31, 2012 @ 8:44 am
agar amreeca main mazhab ku riyasat say alaihda na rakaha jata tu kitnay musalmaan isku pasand kartay? bhui koi real baat kiya karu..jazbaati rhetoric haqiqat ka replacement nahain. aisi batain tu non-starter hain..tabi tu koi masla hal nahain hai upni taraf..
Comment by Hasan — March 31, 2012 @ 8:47 am
” ہمارے لئے تو نظام مصطفوی ہی حرف آخر ہے۔
”
ub is pay kiya kaha jai saway iskay keah intezar hai keah koi firqwa baqi sab ku maar kay hawii hu jai tu iskay feham kay nazaam mustafi kii iteba kar lii jai…
Comment by Hasan — March 31, 2012 @ 8:51 am
“جس نظام کی غیر مرئیت پر آپ نےاظہار خیال کیا ہے اسے مدینے سے قرطبہ تک اور جزائر ملاکا و سماترا سے صحارا تک بارہا، اپنی کسی نا کسی شکل میں پرکھا جا چکا ہے۔ اس کا غلبہ انسانی تاریخ کے ایک بڑے حصے تک رہا اور آج بھی ایک اعشاریہ تین بلین ماننے والوں کے ساتھ ”
1400 saal say tu yeah iqliyaat main hai ub tak…ub aisa kiya hunay wala hai keah aik dam sab pay ghalab aajana hai isnay? baqi, kitnay log dunya main aisay kisii nizam ki zaroorat mehsoos kar rahay hain ju guzray dinoon ki yaadgar hai?
Comment by Hasan — March 31, 2012 @ 8:54 am
محترم حسن، تبصرہ جات اور اظہار خیال کا شکریہ
اس بلاگ پر آپ کو تبصرے و اظہار خیال کی مکمل آزادی ہے لیکن کیا خوب ہوتا کہ جواب ٓآں غزل ایک منظم و مربوط انداز میں کسی تحریر کی شکل میں آپ کے بلاگ پر بمع دلائل دیا جاتا کہ کج بحثی و کٹ حجتی کا سماں نا بندھے اور آپ کے دلائل و مضمون بھی صحیح طریقے سے بیان ہوسکیں.
Comment by ابو عزام — March 31, 2012 @ 9:30 am