فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

April 30, 2012

گریجویٹ اسکول کے طلبہ کی کہانی، ایک فلم کی زبانی

Filed under: طنزومزاح,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 8:00 pm

پروفیسر صاحب رحم کریں، اگر میرا پی ایچ ڈی مکمل نہیں ہوا تو میں کیا کروں گا، میرے پاس تو کوئ بیک اپ پلان بھی نہیں
میاں، یہ تو تمہیں کیلٹیک میں داخلے سے قبل سوچنا چاہیے تھا، کسی چھوٹی موٹی یونیورسٹی میں چلے جاتے اگر یہ بات تھی تو، ایم آئ ٹی تھی نا۔

یہ مکالمہ پی ایچ ڈی مووی کا ہے جو پروفیسر اسمتھ اور اسکے شاگرد ونسٹن کے درمیان ہوتا ہے۔ اگر آپ کو تکنیکی کامکس کا شغف ہے تو ڈلبرٹ، ایکس کے سی ڈی اور پی ایچ ڈی کامکس سے ضرور واقفیت ہوگی۔ پی ایچ ڈی کامکس تحقیقی اسکول کے طلبہ کی زندگی پر مبنی واقعات کو طنزیہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔پایلڈ ہائ اینڈ ڈیپر کے خالق ہورہے چام*، جو خود اسٹانفرڈ ہونیورسٹی سے میکینکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہیں ، انہوں نے اس بار کامک سے بڑھ کرتقریبا ۷۰ منٹ کی ایک فلم بنا ڈالی جس کے تمام اداکار طلبہ و طالبات ہیں اور اس کی فلم سازی کالٹیک یونیورسٹی ہی میں کی گئی ہے۔

 

دو گریجویٹ طالبعلموں کی زندگی پر مبنی یہ فلم گریجویٹ اسکول کے تحقیقی کام، پروفیسروں کی بے اعتنائ اور پوسٹ ڈاکس کی زندگی کے گرد گھومتی ہے۔چونکہ راقم کیلٹیک کے آس پڑوس میں وقت گزارنے اور وہاں موجود ستار بخش پر راشد بھائ کے ساتھ گپیں لگانے میں ید طولی رکھتا ہے لہذا ہمیں تو اس کے تمام آوٹ ڈور سیٹس کو دیکھ کر بڑا مزا آیا۔ اس فلم کے مخصوص طرز بیاں اور موضوع کی بنیاد پر شائد عام افراد تو اتنا لطف نا اٹھا سکیں لیکن اگر آپ نے گریجوٹ اسکول یعنی ماسٹرز اور پی  ایچ ڈی میں وقت گذارا ہے تو آپ اس سے بھرپور انداز میں حظ اٹھا سکیں گے۔

*جی ہاں، اسے ہورہے ہی پڑھا جاتا ہے، جورج نہیں۔یہ ہسپانوی زبان کے لفط ج کا تلفظ ہ سے کیا جاتا ہے، جیسے سان ہوزے درست ہے اور سان جوز غلط۔

Share

April 23, 2012

لاس اینجلس کتب میلے کی ایک تصویری روداد

Filed under: ادبیات,سفر وسیلہ ظفر,کتابیات — ابو عزام @ 10:52 pm

 ہر سال کی طرح اس سال بھی لاس اینجلس ٹایمز اخبار کی طرف سے دو روزہ کتب میلے کا انعقاد کیا گیا۔ اس سال یہ کتب میلہ یو سی ایل اے کے بجاے یو ایس سی یعنی یونیورسٹی آف سا تھرن  کیلیفورنیا میں منعقد ہوا جہاں  اس میں ہزاروں افراد اور کتب فروشوں نے شرکت کی۔ اس اینجلس ٹائمز فیسٹیول 1996 ء میں شروع ہوا اور امریکہ میں ہونے والا سب سے بڑا کتب میلا  بن گیا جہاں یہ تہوار  ہر سال 140،000سے زیادہ کتابوں سے محبت کرنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔

 ہر سال کی طرح اس دفعہ بھی کتابوں کی محبت ہمیں بھی کشاں کشاں کھینچ لے گئی۔ یہاں تکنیکی کتب تو خیر کم ہی تھیں لیکن دیگر موضوعات پر ہزاروں کتب اور کتب فروشگاں  موجود تھے۔اسکے علاوہ بہت سے مشہور مصنفین بھی اس تہوار میں موجود تھے،

بچوں کے لئے خوب انتظام تھا اور  بچوں کے لئے کتابیں لکھنے والے بھی بہت موجود تھے جو بچوں کو کہانیاں سنا رہے تھے اور داد وصول کر رہے تھے۔انہی کہانیاں سنانے والوں اور کتابوں پر دستخط کرنے والوں میں کریم عبدالجبار بھی شامل تھے۔

اتنا بڑا میلا ہو اور آئ فون کی ایپ نا ہو، یہ کیسے ہو سکتا ہے!

ایپ کے علاوہ بھی جگہ جگہ جدول اور مصنفین کی آمد و کتابوں کی دستخط کا نظام الوقات ٓآویزاں تھا۔

نیے مصنفین نے لیئے سیکھنے کی ورکشاپ کا بھی انتظام کیا گیا تھا

 

 ایک  جانب مشاعرہ بھی گرم تھا اور ایک شاعر صاحب اپنے شعروں پر دادوں کے ڈونگرے وصول کر رہے تھے!

ایک جانب یو ایس سی کے طلبہ اپنے اساتذہ کی کتابیں اس دعوے کے ساتھ بیچ رہے تھے کہ ان کو پڑھ کر آپ بھی ایسے جہاز بنانے شروع کردیں گے!

گروچو کا یہ قول سچ بات ہے ہمیں تو بہت پسند آیا!

پیسیفیکا ریڈیو جس کا قبلہ بائیں بازو کے بھی بائیں جانب ہوتا ہے  وہاں سے براہ راست نشریات کر رہا تھا۔

۔ہر سال کی طرح اس سال بھی دعوت کی تنظیم  واے اسلام کی جانب سے اسٹال لگاے گے تھے ، ان میں ہر سال چار سے پانچ ہزار قران کی کاپیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ اس سال کی خاص بات یہاں موقع پر ایک فرد کا قبول اسلام ہے ۔۔

 کتابوں کے جھرمٹ میں ایک یادگار دن

Share

April 13, 2012

محرمات اور انسانی قوانین- اسفل السافلین

Filed under: خبریں,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 10:33 am

بی بی سی پر یہ عبرت انگیز خبر پڑھی، کہ نکاح محرمات کے بنیادی ‘انسانی حق آزادی’ کو یورپی عدالت نے تسلیم کرنے سے انکار کردی,، اگر یہی نفرین فعل چار سو میل دور بیلجیم یا فرانس میں ہوتا تو قابل مواخذہ نا ٹہرتا، کیا بات ہے انسانی قوانین آزادی کی۔

 لیکن قوانین جمہور و لبرلزم کے علمبردار یہ بتائن کہ اگر انسان کو قانون سازی کا مطلق حق حاصل ہے تو اس امر قبیح میں برائ ہی کیا ہے؟ جب لوگوں کو ہمجنس پرستی پرعائد پابندیاں زہر لگتی ہیں اور وہ اسے مملکت خداداد میں جاری و ساری دیکھنا چاہتے ہیں تو نکاح محرمات بھی تو صرف ایک معاشرتی ٹابو ہی ہے، اس کو بھی روند ڈالیے ۔ رہی بات پیدائشی موروثی نقائص کی تو پھر یوجینکس میں کیا برائ تھی، اس کو بھی جاری و ساری رکھا جاتا۔ تعدد ازواج کی مغربی پابندی بھی تو ایک معاشرتی قدغن ہی ہے، اسکا کیا جواز بنتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ لبرلیت و نام نہاد روشن خیالی کے علمبردار لوگ جو ‘رضامند عاقل و بالغ’ افراد کے افعال پر کسی قسم کی بیرونی قدغن نہیں پسند  کرتے انہیں کم از کم اصولی طور پر پر تو ان پیٹرک سٹیوبنگ اور سوزان کارولسکی کے حق میں آواز بلند کرنی چاہیے۔ یہ کیا دہری پالیسی ہے حیات من النزاعات کی کہ انسانی عقل کل ہے بھی اور نہیں بھی۔ موروثی نقائص کا مسئلہ ہے تو قطع القناة  یا نسبندی اور إستئصال الرحم کے بعد تو اس میں کوئ کجی نہیں رہ جاتی، العیاذ باللہ

غرضیکہ جو لوگ خدائ احکام کے بجاے انسانی قوانین کو بنیادی معاشرتی اقدار کے لیے هیئت حاکمیه کا درجہ دیتے ہیں وہ ایک ایسی ٹیڑھی شاہراہ پر سفر کرتے ہیں جس کا انجام گمراہی کا گڑھا ہے جہاں کسی فوٹون کی توانائ کچھ کام نا آئے گی۔

قال سمع النبي صلی الله عليه وسلم رجلا يعظ أخاه في الحيا فقال إن الحيا شعبة من الإيمان

Share

April 9, 2012

ڈاکٹر شیلڈن کوپر کا اردو بلاگران کے نام ایک تعارفی خط

Filed under: طنزومزاح,عمومیات — ابو عزام @ 11:36 pm

عزیزاردو بلاگران، ہیلو

آپ کا شائد مجھ سے غائبانہ تعارف ہو کہ مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ آپ میں سے بہت میرے فن کے قدردان ہیں۔ چونکہ عاجزی و تواضع سے میں کچھ متصف نہیں لہذا شکریہ وغیرہ کے تکلفات سے بندے کو  یکسرآزاد سمجھیں۔ آپ کو یقینا میری اردو پر حیرت ہورہی ہوگی۔ یہ دراصل میرے کوانٹم الگارتھم اور گوگل ترجمہ گھر کا امتزاج ہے جو ابھی یو ایس سی کے ہیرہ کمپیوٹر پر پروٹوٹایپ کے طور پر چلایا جارہا ہے۔ آپ کی مجھ سے غائبانہ آشنائ غالبا میری زندگی پر بننے والی سیریز بگ بینگ تھیوری سے ہوئ ہوگی جس میں میرے تین عدد دوستوں لینرڈ ہافسٹیڈر پی ایچ ڈی، راجیش کوتراپالی پی ایچ ڈی اور ہاورڈ ولوٹز محض ماسٹرز, اور میری سماجی و نجی زندگی کی ریکارڈنگ کی جاتی ہے۔ لوگ اس سے خاصہ حظ اٹھاتے ہیں، نامعلوم کیوں؟ ہماری زندگی کیلٹیک یونیورسٹی میں ہماری تحقیق اور کامک بک اسٹور کی تفریح کے گرد گھومتی ہے۔

۔ اس خط کو لکھنے کی ترغیب عدنان مسعود نامی ایک بلاگر نے اس نسبت سے دلوائ کہ وہ بھی میرے، رچرڈ فائنمن اور آئنسٹائن کے شہر پاساڈینا کے باسی رہے ہیں۔ان بلاگر صاحب کے حق میں حق ہمسائگی کہیں یا رحم دلی کیونکہ صرف ماسٹرز کئے ہوے لوگوں کی درخواست پر تو میں ریسٹورانٹ کا بل بھی نہیں سائن کرتا، آپ ہارورڈ سے پوچھ لیں کیونکہ اسکے پاس بھی صرف ماسٹرز کی ڈگری ہے، بے چارہ۔ مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ یہاں اردو بلاگستان میں بھی میری طرح خود پسند و بزعم خود دانا افراد کا ہجوم ہے۔ کچھ لوگوں کو تو گمنام تبصرے پڑھ کر میرے چبھتے ہوے فقرے یاد آجاتے ہیں جن کے لکھنے والوں کو پیار سے ٹرول کہا جاتا ہے، بہرحال آپکو میری اسِٹیون ہاکنگ سے ملاقات تو پسند آئ ہوگی، معذرت کے میں ہگس بوسون زرے کے مقالے میں ریاضی کی غلطی پر بے ہوش ہو گیا۔

بزنگا۔۔۔ معذرت، ہاہا، یہ اچھا مزاق ہے۔

اچھا اب اجازت،

ڈاکٹر شیلڈن کوپر،بی ایس، ایم ایس، ایم اے، پی ایچ ڈی، ایس سی ڈی، آی کیو ۱۸۷۔ سائنسدان ماہر نظریاتی طبیعیات

Share

Powered by WordPress