فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

May 31, 2012

سفر حیات، اداس نسلیں از عبداللہ حسین سے ایک اقتباس

Filed under: ادبیات,کتابیات,مشاہدات — ابو عزام @ 1:31 am

ہم باتیں کرتے ہیں اور باتیں اور باتیں حتی کہ ایک روز بیٹھے بٹھاۓ ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ اس قدر بے سود ہے اور یہ احساس بڑا خوفناک ہوتا ہے. تمہیں کبھی ہوا ہے؟ اس کے باوجود ہم چلتے جاتے ہیں. منزل سے منزل کی طرف’ چہرے سے چہرے کی طرف ‘ بات سے بات کی طرف حتی کہ ہم تھک جاتے ہیں اور اداس ہو جاتے ہیں اور ہمارے دل سے امن غائب ہو جاتا ہے. پھر خاموش جنگلوں کی آرزو پیدا ہوتی ہے. تمہیں پتا ہے دل میں کسی آرزو کا پیدا ہونا سکون کے کھو جانے کی نشانی ہے؟ آرزو جو کبھی نہ کبھی حسرت بن جاتی ہے. خاموش جنگل اور ساتھی کے طور پر ایک گھوڑا یا کتا’ اور چمکدار موسم’ اور خیال آرائی’ تاکہ ہم چلے جائیں چلے جائیں اور بڑی بڑی عظیم مقدس باتوں کے بارے میں سوچیں . اس وقت ان بیشمار چھوٹی چھوٹی غیر ضروری باتوں کے لئے ہمارے دل میں نفرت پیدا ہو جاتی ہے جن میں ہم عمر بھر مصروف رہے اور ہم عظیم فکر کے لئے تڑپتے ہیں جو کبھی ہمارے ذہن میں پیدا نہ ہوئی. ایک وقت اتا ہے جب ماضی کی چھوٹی سے چھوٹی بات ہمیں اداس کر دیتی ہے. کوئی چہرہ’ کوئی لفظ’ کوئی پرانی دھن جو ہم نے کسی غیر آباد گلی میں سے گزرتے ہوئے دور سے سنی تھی. ہم اس بچے کی طرح محسوس کرتے ہیں جو ہر وقت رونے کے لئے تیار رہتا ہے..

دراصل ہم تھک چکے ہوتے ہیں’ اس مستقل عجلت سے جو ہماری زندگی میں راہ پا جاتی ہے’ جو مسلسل ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے پر مجبور کرتی ہے’ ان جگہوں پر لے جاتی ہے جہاں جا کر ہم کبھی خوش نہیں ہوتے. دراصل ہم محض اکتا چکے ہوتے ہیں’ عمر بھر سے جو ہم نے جہالت میں بسر کی’ وہ گئے گزرے زمانے جو ہم نے ضائع کر دیئے’ ہمارے خوف’ ہمارے جذبے’ ہماری اپنی جوانی اور بڑھاپا جو ہم نے بچوں کی طرح گزارا’ یا احمقوں کی طرح. اس وقت سڑک پر جاتی ہوئی ایک بس بھی ہمیں سارا وقت یاد دلا دیتی ہے کہ ہم ایک گاڑی کی طرح سرگرداں رہےجو اپنی لائنوں پر چلے جاتی ہے’ چلے جاتی ہے’ لائنیں جو اسے لئے جاتی ہیں’ پوچھے بغیر’ جانے بغیر’ پہچانے بغیر’ ہمیں ہانکا جاتا ہے’ ہم ہنکے جاتے ہیں. اپنی خوراک’ اپنی باتوں اور اپنے جذبوں کا بوجھ اٹھاۓ ہوئے. ہماری کتابیں’ ڈگریاں’ بہترین درزیوں کے ہاں کے سلے ہوئے سوٹ جن کا ذکر کرنے سے ہم کبھی نہیں چوکتے’ خوشنما رنگوں کی ٹائیاں’ ٹوپیاں اور خوشبوئیں جو ہم نے اعلیٰ درجے کی دوکان سے خریدیں’ سب کو کندھے پر لادے’ اپنی ساری امارت کو اٹھاۓ’ ہر قسم کے خیال کو قبول کرتے ہوئے….. خیال جو پڑاؤ سے پڑاؤ تک غائب ہو جاتا ہے…. کھاتے کھاتے اور کھاتے ہوئے’ اور باتیں کرتے ہوئے. باتیں؟ ان جگہوں کی جو ہم نے دیکھیں’ ان چیزوں کی جو ہماری ملکیت ہیں’ ہماری رائیں اور قیاس آرائیاں جن کا کوئی وجود نہیں ہوتا’ جو کسی کے لئے اہمیت نہیں رکھتیں’ ہمارے اپنے لئے بھی نہیں.. اس کے باوجود انہیں اخلاق اور توجہ کے ساتھ سنا جاتا ہے اور جواب میں جو کچھ کہا جاتا ہے اسے ہم توجہ اور اخلاق کے ساتھ نوٹ کرتے ہیں’ انہیں اہمیت دیئے بغیر’ ان کی پرواہ کئے بغیر.

تمہیں پتا ہے دنیا میں ہم کتنی نرمی’ کتنے اخلاق’ کتنی مکّاری سے ایک دوسرے کے ساتھ پیش آتے ہیں. ہم دنیا بھر کا سفر کرتے ہیں اور رائیں قائم کر لیتے ہیں اور پھر انہیں وقت گزارنے یا ایک دوسرے کو مرعوب کرنے کے لئے ہتھیاروں کے طور پر استعمال کرتے ہیں. اور ہماری رائیں کیا ہوتی ہیں؟ یہی کہ روضہ تاج محل خوبصورت عمارت ہے اور چین کے مجلسی حالات بہتر ہو رہے ہیں یا نہیں ہو رہے ہے اور دنیا میں اچھے شاعر پیدا ہونے بند ہو گئے ہیں. ہم انہیں بار بار دوہراتے ہیں حتی کہ اپنی تقریر میں ماہر ہو جاتے ہیں’ ٹورسٹ گائیڈ کی طرح. پھر ہم اس کا استعمال شروع کرتے ہیں. ہر ایک کے پاس اپنا اپنا سکہ بند طریقہ ہے’ برسوں کے تجربے اور مشق کے بعد اپنایا ہوا رویہ’ غیر شخصی سرسری پن’ یا محتاط’ شخصی اور منہمک رویہ. ہم بہر حال ہر منزل پر’ ہر طریقے سے اپنے آس پاس کے لوگوں کو ہم خیال بنانے کی’ دوسرے لفظوں میں انہیں مرعوب کرنے کی انتہائی جدوجہد کرتے ہیں’ ان کی کوئی پرواہ کئے بغیر’ اور مستقل یہ جانتے ہوئے کہ ہماری زرہ برابر پروا ان کو نہیں ہے. ہم اپنی زندگی کے خلا کو چھوٹی موٹی باتوں سے پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں’ گفتگو جو تسکین بخش بھی اتنی ہی ہوتی ہے جتنی کہ گمراہ کن. اور پھر وہ وقت آتا ہے’ وہ جو ہم تھک جاتے ہیں اور پیچھے رہ جاتے ہیں اور بس کا تیل ختم ہو جاتا ہے اور ہمارا سارا بوجھ سڑک کے کنارے بکھر جاتا ہے’ کچھ مردہ کچھ نیم مردہ’ اور دفعتا حقیقت ہمارے سامنے آجاتی ہے’ کہ یہ سب اس قدر بے سود تھا’ سب! کہ بلآخر ہم وہاں پہنچ گئے ہیں جہاں سکون نہیں ہے اور ہم واپس نہیں جا سکتے’ کہ جہاں محض نقصان عظیم کا احساس ہے’ کہ ہم پرانی بس کی طرح بدصورت اور بیکار ہیں اور ان چاہے’ ان جانے سڑک کے کنارے کھڑے ہیں’ بختاور ہیں تو توڑ پھوڑ کر دوبارہ ڈھالے جائیں گے’ بد بخت ہیں تو محض نظر انداز کر دیئے جائیں گے..

” اب ہم پریشان ہیں’ تنہائی کے خوف سے ہراساں ہیں’ تنہا ہیں’ بے حد تنہا ہیں. کیوں؟ کیا ہم صرف اس دن کے لی اتنی مدت سے رہنے آرہے تھے؟ ہمارا نصب العین’ ہمارے الفاظ’ احساسات’ جذبات’ وہ کام برسہا برس کی مشق سے جن میں ہم نے مہارت حاصل کی’ دور دراز کے سفر’ دوست’ فہم جو ہم نے تقریر اور میل جول کے زریعے تیز کیا’ ہماری ہر دلعزیزی جو ہمارے ارد گرد اور ساتھ ساتھ چلتی تھی’ سب ختم ہو گیا؟ کیوں؟ کیوں؟ اب ہم سوچنے سے قاصر ہیں کہ کبھی سوچ ہی نہیں پاۓ. پر ہم جانتے ہیں’ جیسا کے ہم کئی اور باتیں جانتے ہیں’ کہ ہم نے جس چیز کی تلاش کی اسے پایا اور جس کے لئے اب حیران پریشان کھڑے ہیں اس کی تلاش ہی میں کبھی نہ نکلے’ صاف سیڑھی بات ہے. چناچہ اب تم چین کی بنسری بجاؤ اور قناعت سے بیٹھ کر خاتمہ بالخیر کا انتظار کرو’ انتظار کرو اور نچلے بیٹھو’ نچلے بیٹھو کہ یہی اصل مقام ہے. پر چین کی بنسری بجاۓ نہی بجتی اور ہم انتظار نہی کر سکتے. ہم جانتے ہیں کہ جتنے بھی انہماک اور لاپروائی اور صبر کے ساتھ انتظار کریں جب موت آ ئےگی تو ہمیں پریشان کر دیگی’ جیسے کہ ہر کسی کو کر دیتی ہے. باوجود ساری باتوں کے’ جب یہ آتی ہے تو خوف زدہ کر دیتی ہے. زندگی میں پہلی بار ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں… ایک چمکیلی خوشگوار صبح کو اپنے بائیں باغ میں کھڑا خرگوشوں اور مرغیوں کو ناشتہ کھلا رہا ہوں. پرانا کڑوا تمباکو پی رہا ہوں اور اپنے پوتے پوتیوں کو سبزے پر کھیلتے کودتے دیکھ رہا ہوں. میری طبعیت میں ٹھہراؤ اور ربودگی آ چکی ہے اور میں سنبھل سنبھل کر اطمینان سے چلتا پھرتا ہوں. نوجوان آدمی کام پرجاتے ہوئے پاس سے گزرتے ہیں اور جھک کر سلام کرتے ہیں….. “قابل عزت بزرگ. سلیقے سے بسر کی ہوئی زندگی” وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں. پھر سامنے ایک اور چلا آتا ہے. ایک سفید سر والا دانا شخص’ چھڑی کے سہارے اپنے اپ کو سنبھالے’ وقار اور اطمینان کے ساتھ چلتا ہوا. نوجوان آدمی جھک کر سلام کرتے ہیں اور پہلی والی بات آپس میں دوہراتے ہیں. وہ اخلاق سے مسکرا کر جواب دیتاہے اور میرے سامنے آکر چند منٹ کے لئے رک جاتا ہے. ہم ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں اور موسم کے متعلق اظہار رائے کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی صحت کے متعلق پوچھ گچھ کرتے ہیں’ پھر خاموش ہو جاتے ہیں. اب کہنے کے لئے کچھ نہیں ہے. ساری باتیں اتنی غیر ضروری معلوم ہوتی ہیں. خرگوشوں کا ناشتہ اور چمکدار موسم اور دو خوشنما’ سجے سجاۓ بڈھے’ خالی الذہن اور مطمئن’ ایک دوسرے کے ڈھونگ کو جانتے ہوئے اور چھپائے ہوئے’ بلا وجہ نادم اور خوش مزاج ……. پھر وہی بات کرنے کے انداز میں کھنکارتا ہے اور محض ہاتھ سے سلام کر کے چلا جاتا ہے. میں پیچھے مڑ کر نہی دیکھتا لیکن میں جانتا ہوں اور ذہن کی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں. نہایت سلیقے سے خالی کی ہوئی ایک زندگی’ بے وجہ’ بے جواز.. جانتا ہوں کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے. ہم دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح سے جانتے ہیں پر کبھی تسلیم نہیں کرتے

اداس نسلیں از عبداللہ حسین

Share

May 28, 2012

اداس نسلیں از عبداللہ حسین

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 2:42 pm

کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں پڑھنے کے بعد آپ کو کم از کم اس صنف میں موجود دیگر کتب انکےآگے ہیچ لگنے لگتی ہیں، اپنی کم علمی کم مائگی کا احساس بڑھتا جاتا ہے کہ میاں، تم نے تو اس شہرہ آفاق ناول کو آج تک نہ پڑھا تھا اور بلاوجہ اردو ادب سے واقفیت کی ڈینگیں مارتے رہے وغیرہ وغیرہ۔ عبداللہ حسین کا ناول ‘اداس نسلیں’ بھی اسی قسم کی ایک نہایت اہم و دلچسپ کتاب ہے جو فکشن اور نان فکشن کے درمیانے احاطے میں با آسانی چہل قدمی کرتے ہوئے تین نسلوں کی سرگذشت سناتی ہے۔ ۱۹۶۳ میں چھپنے والے  اس ضخیم ناول کو اکثر برصغیر کے بٹوارے کی داستاں گردانا جاتا ہے لیکن پیش منظر میں بہت سے دیگر نہایت اہم موضوعات  زیر بحث رہے جن میں مقصد حیات، طبقاتی تقسیم، غربت و استحصال، سماجی اقدار، مذہب و کلچر کا آپسیں رشتہ، مذہب، الحاد اور عقل کے باہمی تعلق پر مکالمے شامل ہیں۔ اس کتاب کو سنگ میل پبلشرز نے شائع کیا ہے اور اسکا انگریزی ترجمہ بھی ویری نیشنز کے نام سے ایمزن پر دستیاب ہے جس کے بارے میں سننے میں آیا ہے کہ وہ ایک مبتدی کی ایک ماہر ہنر کے کام کو نقل کرنے کی کوشش ہے۔، واللہ عالم،

‘اداس نسلیں’ کا مرکزی کردار نعیم نامی ایک شخص ہے جس کی زندگی کے مختلف ادوار برصغیر کے مختلف سماجی میلانات اور سیاسی ادوارکے متوازی حرکت کرتے ہیں۔ گاوں کی سادہ محنت کش زندگی سے ہونے والی ابتدا، پھر مراعات یافتہ طبقے میں پلنا بڑھنا، گاوں کی زندگی میں واپسی، جنگ عظیم میں شرکت اور جنگ کی تمام ہولناکیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا، اور پھر رومانویت کی ایک داستان جس میں طبقاتی تقسیم زوروں پر دکھائ دیتی ہے۔ عبداللہ حسین نے سیاسی و سماجی بھول بھلیوں میں بھٹکتے اس شخص کی زندگی کے اتار چڑھاو سے ایک ایسی داستاں کا جال بنا ہے کہ جو قاری کو مستقل اپنے شکنجے میں جکڑے رکھتا ہے۔

یہ ناول ایک ‘ایپک’ داستاں ہے اور مہابھارت سے لے کر ہومر سے لے کر ایپک کی ایک خوبی اسکی طوالت ہوتی ہے۔ ۴۵۰ صفحات کی اس کتاب کو ایک کنٹیمپرری ایپک کہا جاسکتا ہے جس کے مصنف نے نا تو خود سے بٹوارہ دیکھا اور نا ہی انکی مادری زبان اردو ہے لیکن مکالمہ سازی، پلاٹ، کردار سازی اور قصہ گوئ میں عبداللہ حسین کو جو ملکہ حاصل ہے وہ عالمی ادب میں چیدہ چیدہ مصنفین کے پاس ہی نظر آتا ہے۔ لائف آف پائ کی تمثیل تو شائد مہمل ٹھرے لیکن ۱۷۷۶ کے ڈیوڈ میکیلگ بھی عبداللہ حسین سے تنوع سیکھ سکتے ہیں۔ دو کسانوں کی باہمی عامیانہ گفتگو ہو، نعیم اور انیس کا فلسفیانہ مکالمہ ہو، روشن علی آغا کی غدر میں سنہرے بالوں والے انگریز کو جان ہتیلی پر رکھ کر  بچانے کی لرزہ خیز کہانی ہو یا اینی بیسنٹ کا مجلس خدام ہند پر تبصرہ، مصنف نے اس خوبی سے ان تمام موضوعات کو ایک جامع ناول میں یکجا کیا ہے کہ ہر ایک کردار جدا بھی ہے اور بڑے کینوس کا حصہ بھی۔

یہ ناول اشفاق حسین کی طرح ‘پریچی’ نہیں، منٹو کی طرح ‘ایکسپلسٹ’ نہیں اور بانو قدسیہ کی طرح ‘انکلسوڈ’ نہیں۔ انگریزی کے اصطلاحات استعمال کرنے کی معذرت لیکن اداس نسلیں کے مصنف نے بھی اس امر میں کوئ شرم محسوس نا کی۔ مذہب و الحاد پر جس قسم کی عمیق و جداگانا بحث ہمیں انکے یہاں ملتی ہے اس کا عشر عشیر بھی آج کے ترقی پسند لٹریچر میں نظر نہیں آتا۔ عبداللہ حسین کے اس ناول نے جدید واقعہ گوئ کو درویش کے قصوں سے ملا کر ایک ایک نئی صنف کی بنیاد ڈالی ہے۔ ایک مچھیرے کی روداد پر لکھتے ہیں

. نیند پھر بھی نہ آئی. میں اٹھ کر چٹائی آگ کے قریب لے گیا. مگر چند ہی سانس لئے ہونگے کہ گرمی کی شدّت سے بلبلا اٹھا. اب میں اکڑوں بیٹھا تھا اور اپنی جسمانی حالت پر غور کر رہا تھا کہ سوچتے سوچتے مجھے ایک تجویز سوجھی. میں نے ٹوکری اٹھائی اور گندی مچھلیوں کو چن چن کر ایک طرف رکھا. “نیند تو آتی نہیں. آؤ تم سے گپیں ماریں. میں نے کہا اور ایک سڑی  ہوئی مچھلی اٹھائی. مچھلی کی باچھیں کھلی ہوئی تھی.

” میرا باپ زندہ ہوتا تو تمہیں مرنے سے پہلے ہی چھوڑ دیتا. لیکن میں تمہیں آسانی سے نہیں چھوڑنے کا کان کھول کر سن لو. میں نے کہا. “تم لکھ ہنسو’ لیکن تمہارے بچے اور دوسرے رشتہ دار تمہاری موت پر آنسو بہا رہے ہونگے.مچھلی اسی طرح ہنستی رہی. مجھے اس پر غصہ آگیا. ‘ تم سوتی نہیں؟ بے آرام جانور. تمھ مارے بھی ایک عرصہ ہو گیا پر بے دید آنکھیں اسی طرح کھلی ہیں. نہ خود سوتی ہیں نہ کسی کو سونے دیتی ہو لو…..’ یہ کہ کر میں نے اسے آگ میں اچھال دیا. تھوڑی ہی دیر میں خشک مچھلی تر ترا کر جلنے لگی. مگر اس کی آنکھیں اسی طرح کھلی تھی اور آگ میں پڑی ہوئی وہ ابھی تک ہنس رہی تھی. میں نے غصّے میں دوسری مچھلی کو بھی اٹھا کر آگ میں پھینکا. یہ مقابلتا سنجیدہ چہرے والی مچھلی تھی  لیکن یہ بھی جاگ رہی تھی. جلتی ہوئی مچھلی کی چربی کی بو ہر طرف پھیل رہی تھی جو کہ اگر تم نے کبھی سونگھی ہے بچو تو تمہیں پتا ہوگا کہ کافی اشتہاء آور ہوتی ہے مگر آدھی رات کے وقت میں نے زیادہ کھانا مناسب نہ سمھجا اور بھوک کو کسی اور وقت پر ٹال کر ایک اور مچھلی اٹھائی.
“تمہاری جلد بڑی خوبصورت اور نرم ہے. شاید کوئی گاہک مل جاۓ. تم آرام کرو.” یہ کہہ کر میں نے اسے ایک طرف رکھ دیا.
“یہ تجویز کارگر ثابت ہوئی اور کافی دیر تک اس کے ساتھ گپ شپ کرنے اور ناکارہ مچھلیوں کو جلانے کے بعد میں خود بخود سو گیا.

اور جلیانوالہ باغ کا سانحہ ایک عام فرد کی آنکھوں سے دیکھیں۔

“دروازے میں سے ابھی تک چلاتے ہوئے لوگ داخل ہو رہے تھے. مسلمان اپنے خدا اور مذہبی رہنماؤں کا نام لے کر اور ہندو اور سکھ اپنے اپنے خداؤں کو پکار پکار کر نعرے لگا رہے تھے. جب میں مڑا تو سب لوگ ایک سیاہ داڑھی والے شخص کی طرف دیکھ رہے تھے جو ایک اونچی جگہ پر کھڑا مجمعے کو چپ کرانے کے لیے ہاتھ پاؤں مر رہا تھا. اس کی داڑھی ہوا میں ہل رہی تھی لیکن وہ اپنی کوشش میں کچھ زیادہ کامیاب نہ رہا.دیکھتے ہی دیکھتے اس کے پیچھے ایک گورا نمودار ہوا جس نے فوجی افسروں کی وردی پہن رکھی تھی.اس نے دھکا دے کر کالی داڑھی والے کو نیچے گرا دیا اور اسی کی طرح ہاتھ ہلا ہلا کر کچھ کہنے لگا. ایک لمحے کے لیے خاموشی چھا گئ اور اس کی انتہائی غصیلی آواز ہمارے کانوں میں آئ. اس کی بات کسی کی سمجھ میں نہ آئی لیکن اسکی حرکات و سکنات سے ظاہر تھا کہ وہ ہمیں وہاں سے دفع ہو جانے کو کہہ رہا ہے. اچانک شور پھر بلند ہوا اور اسکی آواز دب گئی. ایک طرف سے کسی نے جوتا اتار کر اسکی طرف پھینکا. پھر ہر طرف سے جوتوں کی یلغار شروع ہوئی. ساتھ ساتھ مجمع مکمل حرکت میں تھا.کیونکہ اس دھکم پیل میں ایک جگہ روکنا سخت مشکل تھا. اب آس پاس سے ہزاروں نئے اور پرانے جوتے پھینکے جا رہے تھے اور ہوا میں جوتوں کی یلغار تھی جیسے دریا کی سطح پر سے مرغابیوں کی زار اڑ کر ایک لمحے کے لیے اندھیرا کر دیتی ہے……لیکن فوجی افسر کے ارد گرد کے لوگ ڈرے ہوئے چپ چاپ کھرے ہوئے تھے اور پیچھے سے آنے والے جوتے ان کے سروں پر گر رہے تھے. اس وقت میں نے ہوشیاری سے کام لے کر اپنے جوتے سنبھال کر رکھے کیونکہ  میرے پاس’ تم جانتے ہو بچوں کہ جوتوں کا صرف ایک ہی جوڑا ہے. جب جوتے ختم ہو گئے تو لوگوں نے اپنے کپڑے اتاراتار کر پھینکنے شروع کر دیئے. اب پگڑیوں ‘ قمیضوں اور بنیانوں کے گولوں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی اور جلد ہی آدھے سے زیادہ لوگ ننگے بدن ہو گئے بلکہ بعض تو بےحیائی سے کام لے کر سب کچھ ہی نکال کر پھرنے لگے. جب سب کچھ ختم ہو گیا تو صرف شور باقی رہ گیا جو کہ ہجوم اور وہ فوجی افسر مل کر مچا رہے تھے. اتنے میں میرے آگے کھڑا ہوا ایک شخص مڑا اور میری ٹوکری کی طرف بڑھا. میں پیچھے ہٹا تو عقب میں دس بارہ ہاتھوں نے ٹوکی گھسیٹ لی اور اس میں سے مچھلیاں اٹھا کر خونباز نظروں سے مجھے دیکھنے لگا. پھر پورے زور سے انہوں نے مچھلیاں ہزاروں انسانی سروں کے اوپر سے اس طرف کو پھینکیں. جن لوگوں پر وہ گریں انہوں نے اٹھا کر آگے پھینکیں’ پھر آگے’ اور آگے’ اور اسی طرح ایک مچھلی جا کر فوجی افسر کی آنکھوں کے درمیان لگی. اس نے وہیں پر اسے پکڑ لیا اور یل لحظے تک اسے دیکھتا رہا’ پر سر اٹھا لر مجمعے کو دیکھا’ پھر مچھلی کو ‘ پھر مجمعے کو. دفعتا اس نے مچھلی مچھلی سر سے بلند کی اور پوری طاقت سے اسے سامنے کھڑے شخص کے منہ پر کھینچ مارا. پھر اس نے بازو ہوا میں پھینکے اور پاگلوں کی طرح چیخ مار کر چلایا. اسی وقت گولی چلنی شروع ہوئی..

اس کتاب کو ختم کرنے میں وقت کی کم کی وجہ سے مجھے تقریبا ایک ہفتہ لگا۔ اگر آپ نے اردو ناول کے صف اول کی کتاب پڑھنی ہے تو اداس نسلیں آپ کی تپائ پر یقینا دھرا ہونا چاہیے۔

Share

May 24, 2012

حقیقت تمثیل از ابن عربی

Filed under: تحقیق,کتابیات,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 12:49 pm

فصوص الحکم میں  ابن عربی حکمت قدوسیہ فص کلمۂ ادریسیہ کے بیان میں کہتے ہیں

یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کسی مسئلے کی تحقیق جدا ہوتی ہے اور مثال کے طور پر یا عبرت لینے یا نصیحت پکڑنے کے لیے کسی جانور کے فرضی قصّے کا بیان کرنا یا غلط، مگر مشہور واقعے کی طرف اشارہ کرنا درست ہے. کیونکہ اس وقت مقصود صرف تمثیل اور عبرت ہوتی ہے..

واقعات اور مسائل کی تحقیق و تنقید کا مقام دوسرا ہوتا ہے.مثلاً کوئی کہے کہ حریص کو کچھ نہیں ملتا. بلکہ جو کچھ اپنا تھا اس کو بھی کھو دیتا ہے. جیسے ایک حریص کتا جس کے منہ میں گوشت کا ٹکڑا تھا. ندی پر سے گزر رہا تھا. اس نے ندی میں اپنا سایہ دیکھا’ اس نے سمجھا کہ ایک دوسرا کتا منہ میں گوشت کا ٹکڑا پکڑا لیے جا رہا ہے. حریص کتا اپنا منہ کھول کر اس کے گوشت کے ٹکرے کو چھینے کے لیے جھپٹا. اور اپنا گوشت کا ٹکڑا بھی کھو دیا. دیکھو اس واقعے سے صرف حرص کی مذمّت مقصود ہے. اور وہ اس سے حاصل ہے.یہ بات کہ واقعی کسی کتے نے ایسا کیا’ یا نہیں’ ہمارے مقصود سے خارج ہے.

ہیت دانوں کے دو فرقے ہیں.

بعض زمین کو مرکز علم سمجھتے ہیں اور یہ بطلیموسی کہلاتے ہیں.۱
بعض آفتاب کو اپنے سیاروں کا مرکز سمجھتے ہیں. اور یہ فیثا غورثی کہلاتے ہیں.۲

تابعین فیثا غورث کے خیال میں ہر ایک ثابتہ آفتاب ہے اور اس کا نور ذاتی ہے

بعض ثابتے ہمارے آفتاب سے بہت بڑے ہیں. کہکشاں ہیں. جس کو عربی میں مجرہ کہتے ہیں کروڑ ہا کروڑ آفتاب ہیں. دودو ثابتے یا آفتاب با ہم ایک دوسرے کے اطراف گردش کرتے ہیں. اور دودو کا جوڑا. اور ایک جوڑے کے اطراف گردش کرتا ہے بعض کے پاس قمر زمین کے اطراف گردش کرتا ہے اور زمین مع قمر کے آفتاب کے گرد گردش کرتی ہے. آفتاب مع تمام سیارات کے کسی بہت بڑے آفتاب کے گرد گردش کرتا ہے. اور تمام آفتاب ہاۓ عالم ایک شمس الشموس کے اطراف گردش کرتے ہیں. زمین کو ساکن ماننے والوں کے پاس ستاروں کی جو ترتیب ہے اس کو شیخ نے یہاں بطور تمثیل کے بیان کیا ہے. اور یہاں صرف علوۓ مکان کی مثال مقصود ہے نہ کہ تائید نظام بطلیموسی.

ہم کو بحیثیت مذہبی آدمی اور صوفی ہونے کے نہ نظام فیثا غورث سے غرض ہے نہ نظام بطلیموسی سے. اس مسئلے کو یاد رکھو. یہ بہت سی جگہ نفع دیگا.

Share

May 15, 2012

فصوص الحکم از ابن عربی

Filed under: ادبیات,کتابیات,مذہب — ابو عزام @ 12:23 pm

ابن عربی کا نام تصوف و فلاسفہ سےآگاہی رکھنے والوں کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ انکی مشہور زمانہ کتاب  فصوص الحکم کا اردو ترجمہ از مولانا عبدلقدیر صدیقی کچھ عرصے پہلے پڑھنا شروع کیا۔ اس کتاب کے ساتھ ساتھ اسکے عربی متن اور انگریزی ترجمے کو بھی ساتھ رکھا ، منشا یہ تھا کہ زبان و بیان کے تعلق سے ترجمے اور معنویت میں زیادہ فرق نا آئے، اس وجہ سے اس اصطلاحات سے پر دقیق کتاب کا مطالعہ مزید مشکل اور گھمبیر ہونے کے ساتھ ساتھ طول پکڑتا چلا گیا۔ تقریبا ساڑھے چار سو صفحات کی اس کتاب میں جو کہ فصوص الحکم کا ترجمہ و تشریح ہے اس میں اصل کتاب کا متن تو سو صفحات سے کچھ زیادہ نا ہوگا۔ ابن عربی کے متن پر اضافہ جات میں طریق اکبریہ ، شیخ کا ایک دوسرا طریقہ، شیخ کے معاصرین، شارحین فصوص الحکم ، شیخ کی تصانیف، طریقہ ترجمہ و شرح ، عقائد شیخ اکبر، شیخ کا فلسفہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کتاب کے کئی مختلف النوع انگریزی تراجم ایمزن پر موجود ہیں۔

فصوص الحکم یا حکمت کے موتیوں، جواہر  مندرجہ زیل مضامین پر مشتمل ہے۔

۱                                                           فص آدمیہ

۲                                                           فص شیشیہ

۳                                                           فص نوحییہ

۴                                                           فص ادریسیہ

۵                                                           فص مہمیتہ (ابراہیمیہ)

۶                                                           فص اسحاقیہ

۷                                                           فص اسماعیلیہ

۸                                                           فص یعقوبیہ

۹                                                           فص یوسفیہ

۱۰                                                         فص ہودیہ

۱۱                                                         فص صالحیہ

۱۲                                                        فص شعییہ

۱۳                                                        فص لوطیہ

۱۴                                                         فص عزیزیہ

۱۵                                                         فص عیسویہ

۱۶                                                         فص سلیمانیہ

۱۷                                                         فص داؤدیہ

۱۸                                                         فص یونسیہ

۱۹                                                        فص ایوبیہ

۲۰                                                         فص یحیویہ

۲۱                                                         فص زکرویہ

۲۲                                                         فص الیاسیہ

۲۳                                                         فص لقمانیہ

۲۴                                                         فص ہارونیہ

۲۵                                                         فص لقمانیہ

۲۶                                                         فص خالدیہ

۲۷                                                         فص محمدیہ

تعارف میں مفسر لکھتے ہیں کہ الشیخ محی الدین محمد بن علی بن محمد العربی الطائی الحاتمی.. یہ قبیلہ بنی طے اور حاتم طائ کی اولاد میں سے ہیں۔ سترھویں رمضان ٥٦٩ء میں تولد ہوئے.آپ کی تاریخ ولادت “نعمت” ہے. مولد مریسیہ از متعلقات اندلس یا اسپین یا ہسپانیہ اور وفات. بائیس ربیع الثانی ٦٣٨ء میں اس جہاں فنی سے جہاں باقی کی طرف توجہ کی. آپ کا سال وفات “صاحب الارشاد” سے نکلتا ہے۔

فصوص الحکم کی بہت سی زبانوں میں تفسیر و تشریح کی گئی ہے۔ عربی میں حسب ذیل شروح فصوص الحکم موجود ہیں۔

شیخ موید الدین بن محمود الجندی.
شیخ صدر الدین القونوی.
داؤد بن محمود الرومی القیصری.
نور الدین عبدالرحمان جامی
عبدالغنی النابلسی۔
الکاشانی.

فارسی شروح کچھ یوں ہیں۔

 نعمت الله شاہ ولی
مولوی احمد حسین کان پوری

اردو ترجموں میں  عبدالغفوردوستی اور مولوی سید مبارک شامل ہیں۔

اس کتاب کا نفس موضوع تصوف ہے اور اس میں کئی پیچیدہ مسائل سے گفتگو کی گئی ہے۔ شرح کا کام عبدالقدیر صدیقی صاحب نے خوب کیا ہے اس لیے اس تعارف میں انکے اقتباسات جا بجا مستعمل ہیں۔ اپنی شرح کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

دیگر شارحین فصوص الحکم میں شیخ قرآن شریف میں انبیاء کے قصوں. اور ان کے حالات میں جو کچھ آیا. ان سے یا تو بطور اعتبار کے مسائل توحید و تصوف کو استنباط کرتے ہیں مگر شیخ کے قول کی تاویل نہیں کرتے. نہ ان کے عقائد سے جو فتوحات مکیہ کے شروع میں بیان کئے گئے ہیں، توفیق و تطبیق دینے کی سعی کرتے ہیں دوسرے شارحین کے برخلاف’ فقیر شیخ کے قول کی تاویل کرتا ہے. اور ان کے عقائد کے ساتھ توفیق دیتا ہے.لوگوں کو شیخ کی طرز تحریر سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے بڑی بڑی غلط فہمیاں ہو رہی ہیں. بعض ان کو قطب معرفت سمجھتے ہیں. اور قرآن شریف کی آیتوں کی تاویل کرتے ہیں. مگر شیخ کے اقوال کی تاویل نہیں کرتے اور بعض ان کے برعکس شیخ کی تکفیر میں بھی تقصیرنہیں کرتے.

افلاطون کا ذکر اابن عربی کی اکیلیز ہیل ہے، اس بابت میں  طریق ترجمہ و شرح میں رقم طراز ہیں کہ

 بعض نادان یورپ زدہ’ شیخ کے فلسفے یا حکمت کو افلاطون کا فلسفہ سمجھتے ہیں. مگر ان کی سمجھ میں نہیں آیا’ کہ تمام کتاب جندی بغدادی’ ابو یزید بسطامی. سہیل بن عبدالله تستری کے اقوال اور آیات قرآن مجید و احادیث شریف سے بھری پڑی ہے. اور اپنے کشف کا بھی جابجا ذکر کرتے ہیں.مگر اس میں افلاطون کا کہیں’ایک جگہ بھی ذکر نہیں ہے. اول تو یہ ثابت ہی کب ہوا ہے کہ فلسفہ افلاطون کی کتاب شیخ کو پہنچی بھی تھی.کسی دشمن مسلمانان نے لگا دیا کہ شیخ نے افلاطون سے لیا. اور مقلدوں کے لئےبس آیت اتر آئی. ظالم اڑاتے ہیں کہ امام ابو حنفیہ نے رومن لا سے لیا. یا تو راة انور شیرواں سے لیا. ان کو معلوم نہیں کہ عقائد و فقہ کے اصول ہیں کیا. یہاں قرآن و حدیث کی شرح و تفسیر تو ہو سکتی ہے ان سے احکام استنباط کا کئے جاتے ہیں. ان کے خلاف ایک مسلہ بھی چل نہیں سکتا. یہ کمال جہل و تقلید میں. کمال علم و تحقیق کا ادعا ہے ہم کو دشمنوں کے کہنے سے تکلیف نہیں ہوتی. دوستوں کے دشمنوں کا ساتھ دینے سے ایذا ہوتی ہے.

شیخ کے کلام میں بکثرت مشاکلہ ہے.مشاکلہ عربی زبان میں بھی ہے. اور دوسری زبانوں میں بھی.اشعار میں بھی ہے’اور نثر میں بھی. کلام الله میں بھی. اور دوسروں کے کلام میں بھی. مشاکلہ کیا ہے. ایک لفظ پہلے آتا ہےاور اپنے اصلی معنی میں رہتا ہے.. پھر وہی لفظ دوبارہ آتا ہے. اور اس سے دوسرے معنی؛ مراد لیے جاتے ہیں.مثلاً ایک شخص کہے.تمنے مجھے خباثت کی.اب میں بھی دیکھو کیسی خباثت کرتا ہوں یعنی خباثت کا انتقام لیتا ہوں عرب شاعر کہتا ہے..

” قالو اقترح شیاء نجدلک طبخة، قلت أطبخوالي حبثه و قميصا “

“لوگوں نے کہا کچھ کھانے کی فرمائش کرو. ہم اس کو اچھی طرح سے پکائیں گے.”

میں نے کہا ایک جبہ و قمیض پکاؤ. یعنی ایک جبہ و قمیض سی دو.

قرآن مجید میں ہے

“ومکرو او مکرالله والله خیرالماکرین”… انہوں نے مکر کیا اور الله نے اس کی سزا دی.الله مکاروں کو سزا دینے میں بہت سخت ہے.

ابن عربی کا اسلوب اور کتاب کا موضوع فلسفہ و تصوف کا ایک ایسا امتزاج ہے جس کے بارے میں زیادہ کہنے سننے کی گنجائش نہیں، وہ صرف پڑھنے سے ہی تعلق رکھتا ہے۔ ایک جدید تعلیم یافتہ فرد کے لیے اس میں معنویت کی ایک دنیا چھپی ہے۔ مصنف فصوص لکھتے ہیں۔

زمانه عدم اور زمانه وجود مثل معاً ہیں. جس طرح اشاعرہ کے پاس اعراض و صفات پر ہو رہا ہے. اور ہرآن’ ہر لحظہ تجدد امثال اعراض پر ہو رہا ہے. اسی طرح صرف ذات حق موجود مستقبل ہے. اس کے سواۓ جتنے موجودات ہیں. سب غیر مستقل ہیں. دائمی طور پر محتاج الی الحق ہیں ہر آن ہر لحظ متجدد ہیں.

تجدد امثال کا مسئلہ جو حصول تخت بلقیس میں چھیڑا گیا ہے. مشکل ترین مسائل سے ہے مگر اس قصے میں ابھی جو میں نے بیان کیا اس کے سمجھنے والے کے لیے کچھ  دشوار نہیں. آصف بن برخیا کی فضلیت و بزرگی یہی ہے کہ وہ ادو جود ‘ وہ تجدید تخت بلقیس’ وہ تجلی الٰہی جو تخت بلقیس پر ملک سبا میں ہو رہی تھی. اس کو سلیمان کے سامنے مجلس میں کھینچ لیا.اور تخت موجود ہو گیا. پس حقیقت میں تخت نے نہ قطع مسافت کی.نہ اس کے لیے زمین لپیٹ دی گئی اور نہ دیواروں کو تھوڑا پھوڑا. اس مسئلے کو وہی سمجھتا ہے’ جو تجدد امثال کو منتا ہے. جو تجلی الٰہی کو اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے.

یہ تصرف بعض اصحاب سلیمان علیہ السلام سے ظاہر ہوا تا کہ اس کا اثر بلقیس اور ان کے ہمراہیوں کے دلوں پر عظمت و مرتبت سلیمان علیہ السلام کے لیے پڑھے. اس تصرف کا سبب یہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام’ داؤد علیہ السلام کو الله تعالیٰ کی طرف سے عطیہ وہیہ تھے. الله تعالیٰ فرماتے ہے. ” ووھبنا لداود سلیمان ” ہم نے داؤد کو سلیمان عطا کیا. ہبہ کیا ہے. واہب کا موہوب لہ بطور انعام دینا. نہ بطور جزاۓ عمل اور نہ بر بناۓ استحقام. پس سلیمان الله تعالیٰ کی نعمت سابقہ و حجت بالغہ اور اعداد کے لیے سر شکن ضرب ہیں.

اب سلیمان کے علم پر غور کرو.الله تعالیٰ فرماتا ہے ” ففھمنھا سلیمان ” ہم مستقراعندہ ” آیا ہے. یعنی تخت بلقیس’ سلیمان کے پاس حاضر و قرار پذیر تھا. آصف کا تخت کو حاضر کرنا نظر تحقیق میں ہمارے پاس اتحاد زمان کے ساتھ نہ تھا بلکہ وہاں اعدام و ایجاد’اور سبا سے معدوم کرنا اور بار سلیمانی میں موجود کرنا تھا. اس کو تجدد و امثال کہتے ہیں  ہر آن ہر شے قہر احدیت سے معدوم ہوتی ہے. اور پھر اسکو رحمت امتنانی موجود کرتی ہے. مگر عارفین کے سوا اس کو کوئی محسوس نہیں کرتا.دیکھو قرآن شریف میں ہے. ” بل ھم فی لبس من خلق جدید “

یعنی بلکہ انکو التباس اور دھوکا ہو گیا ہے. تازہ پیدائس و خلق جدید سے کہ وہی اگلی شے ہے. ان پر کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرتا کہ جس شے کو دیکھ رہے ہوں ‘ نہ دیکھا ہو…

جب معلوم ہو گیا کہ ہر شے میں تجدد امثال ہے.اعدام و ایجادہے. نیستی کے ساتھ ہستی لگی ہوئی ہے. ایسا نہیں ہے کہ ایک شے موجود ہو کر حق فیوم کی طرف دائمی موحتاج نہ رہی ہو بلکہ ہر شے کو آن امداد وجود ہوتی ہے.اور قیوم جل جلالہ کی طرف دائمی احتیاج رہتی ہیں. بہر حال تخت بلقیس کو ملک سب میں نیست و نابود ہونا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے حضور میں ہست موجود ہونا یہ  دونوں عمل ساتھ ساتھ تھے. اور یہ ہر دم میں ہر سانس میں تجدید حلق’ اور تازہ امداروجود کا نتیجہ ہے. اس کا علم ہر شخص کو نہیں ہوتا. بلکہ انسان خود کو نہیں سمجھتا،. کہ وہ ہر آن لا یکون اور پھر یکون ہوتا ہے. معدوم ہوتا ہے’ موجود ہوتا ہے.یہاں ثم اور پھر مہلت کے لیے نہ سمجھو بلکہ یہاں ثم اور پھر لفظ صرف تقدم  تقرم بالعیتہ کا مقتضی ہے جیسے کہتے ہیں کہ اول ہاتھ پڑتا ہے پھر کنجی پھرتی ہے.یہاں حرکت ید کو حرکت مفتاح پر تقدیم بالعیتہ ہے ایسا ہر گز نہیں کہ ہاتھ پڑنے کیے زمانے کے بعد کنجی پھرتی ہے. عربی زبان میں بعض خاص  خاص مقام میں “ثم بلا”  مہلت بھی مستعمل ہوتا ہے. وک شاعر کہتا ہے ” کھزالردینی ثم اضطرب ” جیسے نیزہ روینی کا ہلانا  پھر اس کا ھل جانا ظاہر ہے کہ نیزے کے ہلانے کا زمانہ اور اس کے ہلنے کا زمانہ یہ ساتھ ساتھ ہیں. اور یہاں ثم اور پھر مہلت کا مقتضیٰ بندے کا ظہور حق تعالیٰ پر موقف ہے اور بندے کے اعمال اس کی وجہ سے صادر ہوئے ہیں. حق تعالیٰ کا اسم الباطن والا ہے جب تم خلق کو دیکھو اس پر غور کرو. تو معلوم ہو جاۓ گا کہ کون کس اعتبار سے اول ہے.ظاہر ہے باطن ہے.

اسمائےالٰہی کی معرفت اور ان کی نسبت سے عالم میں تصرف نصیب ہوتا ہے. پس یہ معرفت حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی حاصل تھی بلکہ سلیمان علیہ السلام نے جو دعا کی تهی. “رب هبلی ملکا لا ینبغی لاحد من بعدی”  میرے پروردگار مجھے ایسی بادشاہی عطا کر کہ میرے بعد پھر کسی کو حاصل نہ ہو. وہ بادشاہی’ وہ ملک اصل میں یہی معرفت اسماۓ الٰہی ہے. کیا ایسی حکومت کسی کو سلیمان کے سوا ملی ہی نہیں. قطب وقت. وقت زمانہ. تو تمام عالم کا شہنشاہ. اور حاکم علی الاطلاق ہوتا ہے. بیشک قطب زمانہ حاکم علی الاطلاق ہوتا ہے. اسی میں تجلی اعظم رہتی ہے.  حضرت سلیمان علیہ السلام  کی مراد ملک سے ظاہر و عالم شہادت کی حکومت اور تصرف عام ہے. دیکھو محمّد صلی الله علیہ وسلم کو الله نے سب کچھ دے رکھا تھا. آپ کی باطنی حکومت اس سے زیادہ ہی تھی. مگر آپ نے عالم شہادت میں اس کو ظاہر نہیں کیا.

ابن عربی کی دیگر تصانیف مندرجہ زیل ہیں

عقلہ المستوفرہ.
عقیدہ مختصرہ.
عنقائے معرب.
قصیدہ البلادرات تقعینیہ..
القول النفیس..
کتاب تاج الرسائل..
کتاب الثمانیہ و الثلا ثین وھو کتاب الازل..
کتاب الجلالہ…’
کتاب مااتی بہ الوارد.
کتاب النقبا..
کتاب الیادہو کتاب الہود.
مجموعہ رسائل ابن العربی
مراتب الوجود.
مواقع النجوم.
فتوحات مکیہ       چار بڑی بڑی جلدوں میں.
نقش النصوص   اس کی شرح مولانا جامی نے کی ہے اور اس کا نام النصوص ہے
تفسیر صغیر       جو مطبوعہ مصر ہے’ عام طور سے ملتی ہے..
تفسیر کبیر         جو سنتے ہیں کہ فرانس کے کتب خانے میں قلمی ہے..

Share

May 10, 2012

کوانٹم طبعیات اور ہگز بوسون

Filed under: تحقیق,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 7:49 pm

 اگر آپ نے راقم کی طرح نوے کی دہائ میں کالج اور جامعہ کی تعلیم مکمل کی ہو تو آپکو یاد ہوگا کہ ہمارے نصاب میں کوانٹم طبعیات کے بارے میں کچھ  زیادہ  تذکرہ نا ہوتا تھا ۔ذراتی طبعیات مں کوارکس کا ذکر تو سنا لیکن اس کی اسپن اور چارم سے کوئ خاص یاداللہ نہ ہو پائ۔ اگر آپ کا بھی یہی حال ہے تو حل حاضر ہے۔ اس ماہ  کا سائنٹفک امیرکن کا شمارہ راشد کامران سے مستعار لے لیں

اور اگر یہ ممکن نا ہو تو یہ چھوٹی سے ویڈیو جو پی ایچ ڈی کامکس والوں نےہگز بوسون ذرے پر بنائ ہے وہ دیکھ لیں،یقینا افاقہ ہوگا۔

Share

May 8, 2012

ایک مشاعرہ ہاے فرنگ کی مختصر روداد

Filed under: ادبیات,شاعری,مشاہدات — ابو عزام @ 5:04 am

جب سے ہمارے عزیز دوست راشد کامران نے چوغہ انٹرورٹیہ پہنا ہے یا یہ کہا جائے کہ کلازٹ میں جا بسے ہیں، ہمیں ادبی محفلیں اکیلے ہی نمٹانی پڑ رہی ہیں۔ اسی طرح کی ایک محفل مشاعرہ لاس اینجلس ٹایمز کے کتب میلے میں بھی برپا تھی جہاں پہنچ کر ہم نے سوچا کہ چلو آج انگریزی مشاعرہ بھی سنتے ہیں۔ سچ بتایں تو بڑی مایوسی ہوئ،نا تو داد و تحسین کے ڈونگرے، نا مکرر کی تکراروں میں پان کی گلوری کی پچکار، نا کوئ صدر مجلس، نا ہی  کوئ شاعروں کا پینل اور تقدیم و تاخیر کا اصرار۔  بھلا یہ بھی کوئ مشاعرہ ہوا۔شعر معنویت سے بھرپور و گہرے ہونا ہی تو سب کچھ نہیں ہوتا، بقول ہمارے جامعہ کے ساتھی شعیب سلیم کے، ٹیمپو بننا چاہیے۔

  اب زرا رنگ حنا پر کچھ تازہ کلام ملاحظہ ہو جس میں مملکت خداداد کا بھی نام آتا ہےکہ یہاں سرخ رنگ کمیاب ہے۔

یہ نظم بھی خاص ہے کہ اس میں شعرا کے جھوٹ کی فہرست بنی گئِ ہے۔

یہ صاحب اپنے آپ کوجدید دور کا شاعر کہتے ہیں اور ریپ کے انداز میں شاعری کرتے ہیں۔فیس بک پر انکی شاعری کا کوئ جواب نہیں، یعنی کہ سوشل میڈیا نے انسانی تعلقات پر جو گھرے اثرات مرتب کئے ہیں، وہ انکی زبانی ہی سنیے۔

بہرحال، حاصل کلام یہ ہے کہ دیسی مشاعری دیسی مشاعرہ ہی ہوتا ہے۔ رسائٹل کیا جانے زعفران کا بھاو!

Share

May 6, 2012

!اسما محفوظ، تیری جرات کو سلام

Filed under: سیاست,مشاہدات — ابو عزام @ 7:51 am

اگر آپ اپنے ملک میں ہونے والی تحریک آزادی کے ایک سرگرم  ثقہ کارکن ہوں، امریکہ میں موجود ہوں اور آپکی اپنی فوجی حکومت آپکے لیے گرفتاری کا پروانہ جاری کردے تو آپ کیا کریں گے؟ سیاسی پناہ کی درخواست یا پھر ممکنہ قیدوبند میں واپسی؟ ہم میں سے بہت سوں کے لیے یہ سوال ایک نو برینر کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اسما محفوظ کے  لیے نہیں، وہ اپنے مقرر کردہ وقت پر مصر واپس لوٹ رہی ہیں۔ فراعنہ کی سرزمین میں جرات موسی رکھنے والی زینب الغزالیوں کی منزل مکمل آزادی یا موت ہے۔

کل رات مصر کی تحریک حریت کی اس کارکن اور ہیرو کو اکنا کے ایک عشائیے میں سننے کا اتفاق ہوا۔ یہ عشائیہ واے اسلام نامی دعوتی تنظیم کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا جو ریاستہاے متحدہ امریکہ میں دین کی دعوت کا کام کرتی ہے اور راقم کو اس سے تعلق کا شرف حاصل ہے۔ بیس منٹ کی ایک تقریر میں بہن اسما نے مصر کی تحریک آزادی، تحریر اسکوائر کے مناظر اور نوجوانان کے کردار کو اسقدر پر اثر طریقے سے بیان کیا کہ سامعین کی آنکھیں تر ہوگئیں، انکا کہنا تھا کہ انہیں تو مغربی میڈیا کی بدولت لوگ جانتے ہیں لیکن وہاں قید وبند میں  ہزاروں ایسے  کارکنان ہیں جنہوں نے اپنے ہاتھ، آنکھیں اور دیگر اعضا کھو دیے ہیں، سینکڑوں نے اپنی جانیں جان آفرین کے سپرد کردیں اور ان کا نام بھی کسی کو معلوم نہیں، لیکن کوئ بات نہیں کیونکہ اللہ تعالی کو ان کا نام معلوم ہے اور یہی سب سے اہم بات ہے۔

جرات اور استقامت کے اس زندہ نشان نے جب یہ آیت پڑھی کہ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ, خدا اس قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت خود نہیں بدلتی تو بے ساختہ اپنے وطن کی یاد آگئی۔ اسما محفوظ کی بنیادی وجہ شہرت انکی یہ ویڈیو ہے جو انہوں نے جنوری ۲۰۱۱ میں یوٹیوب پر پوسٹ کی تھی۔مصری خاتون صحافی منى الطحاوى کے مطابق اس ویڈیو نے مصری انقلاب کے شعلے کو مہمیز دی اور اکثر مبصرین کے مطابق یہ تحریک انقلاب کی وجہ بنی۔ اس مختصر پیغام اور بعد کی تقاریر میں اسما محفوظ کہتی ہیں کہ

میں یہ ویڈیو آپ کو ایک سادہ سا پیغام دینے کے لئے بنا رہی ہوں، ہم 25 جنوری کو تحریر اسکوائر جارہے ہیں۔ اگر ہم اب بھی غیرت کے نام پرزندہ رہنا چاہتے ہیں، اور ہم اس زمین پر وقارمیں جینا چاہتے ہیں تو ہمیں 25 جنوری کو تحریر اسکوائر جانا ہے … جو شخص یہ کہتا ہے کہ اسکا کوئ فائدہ نہیں کیونکہ وہاں بہت تھوڑے سے اور مٹھی بھر ہی لوگ ہونگے وہ جان لے کہ وہ انتظامیہ سے قطعی مختلف نہیں۔  اس جیسے غداروں کی وجہ سے ہی سیکیورٹی فورسز ہمیں گلیوں اور سڑکوں پر دوڑا کر مارتی ہے۔  آپ ۲۵ جنوری کو ضرور چلیں،  اگر آپ خواتین کے عزت و وقار کے بارے میں فکرمند ہیں تو آئیں اور تحریر اسکوائر میں اسکا دفاع کریں۔

اسما محفوظ نے اپنی تقریر میں کہا کہ انکو اس بات کی فکر ہے کہ مسلمان اور اقوام عالم اب مسلسل قتل عام اور ظلم و ستم دیکھ کر بے حس ہوتے چلے  ہیں،اور جو جوش و جذبہ مصر و لیبیا میں نظر آیا اب وہ شام میں نظر نہیں آتا جہاں پر روزانہ ایک جابر حکمران اپنے عوام پر جبر واستبداد کے پہاڑ توڑ رہا ہے، مصر کی موجودہ صورتحال پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوے انہوں نے کہا کہ ابھی وہ منزل جس کے لیے قربانیاں دی گئ ہیں وہ دور ہے۔ فوجی حکمرانوں نے ایمرجنسی قوانین کو دوبارہ لاگو کرنے کی سعی شروع کر رکھی ہے اور مجلس العسکری کی سیاست سے علیہدگی ضروری ہے۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ جرات و صداقت کی علمبردار ، تحریک حریت کی اس سپاہی اور تمام لوگ جو ظالم حکمران کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں ان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، آمین۔

Share

May 2, 2012

دو نظریاتی ریاستیں

Filed under: پاکستان,سیاست,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 4:00 am

سنہ ۱۹۴۷/۴۸ میں دو عدد نظریاتی ریاستی معرض وجود میں آئ تھیں جن کی بنا قومیتوں کی مذہبی بنیاد پر تقسیم تھی۔

نظریے پر عمل کتنا ہوا، اس کا اندازہ ان دو سرخیوں سے ہوجاتا ہے۔

سابق اسرائلی صدر موسے کاستو کو عدلیہ نے سات سال قید کی سزا سنا دی۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو قومی مصالحتی آرڈینینس یعنی این آر او پر عملدرآمد سے متعلق مقدمے میں عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنے اور توہین عدالت کا مرتکب ہونے  پر ایک منٹ کی سزا سنا دی ہے۔

جرائم کی نوعیت نہایت مختلف سہی لیکن اینکڈوٹ اچھی بنی ہے۔

Share

Powered by WordPress