انگریزی مثل مشہور ہے کہ جنگی خندقوں میں کوئی ملحد نہیں ہوتا۔
لیکن یہ مثل صرف خندقوں تک محدود نہیں، تشکیک و تیقن کا یہ فرق انسانی زندگی اور سوچ کے ارتقا میں ہر جگہ نہایت نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ میوٹیشن یا تغیر، جس کو ارتقاء کا بنیادی ستون ٹھرایا سمجھا جاتا ہے، اس تغیر کی مختلف امثال در حقیقت ایمانیات کا ایک لٹمس ٹیسٹ ہیں۔ مثال کے طور پر انسانی آنکھ جیسا ایک پیچیدہ عضو ہی لے لیں جسے ڈارون نے ہمیشہ نظریہ ارتقا کے لئے ایک پریشان کن شے سمجھا کہ یہ کیونکر وجود میں آئ۔ کروڑوں سال قبل آپ ہو ہم جب پرایمورڈیل مالیکیولر ملغوبوں میں غوطے کھا رہے تھے تب تو کسی جاندار کے پاس آنکھ موجود نا تھی، پھر ہوا یوں کہ میوٹیشن سے ایک باریک سی جھلی بنی کہ جس سے روشنی کی سمت کا اندازہ ہوتا، اور اس کے بعد یہ جھلی ہزاروں لاکھوں سال میں بڑھ کر پن ہول کیمرہ کی شکل اختیار کر گئی اور پھر اس میں فوکس کرنے کی صلاحیت آئ اور اس طریقے سے آج کی موجودہ پیچیدہ انسانی آنکھ معرض وجود میں آئی۔ ان تمام تغیرات کے بارے میں بہت آسانی سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب تو قبلہ میوٹیشن کی برکات ہیں، ایک سیلفش جین ہے جو میوٹیٹ کرتا رہا،۔ لیکن جب ہم نظریہ میوٹیشن کواس قدرآسانی سے بیان کرتے ہیں کہ گویا ہر چیزمیوٹیشن کے ذریعے وجود میں آئی، تو ہمیں اس بات کا چنداں احساس نہیں ہوتا کہ اس تغیروارتقاء کے پیچھے کیا کوئ گرانڈ پلان بھی موجود ہے؟ کیا یہ وحی خفی کسی ذات باری کی جانب سے ہے جو اس سمت کو متعین کرتی ہے یا یہ سب خودبخود ہوتا چلا جارہا ہے؟پرابیبلٹی اور پلاسیبیلٹی کی کمی بھی، اس خیال کو کہ میوٹیشن خود بخود ہوگئی ہے، کسی خالق کی موجودگی کے امکان کے قرب میں پھٹکنے نہیں دیتی کہ اس سے انٹیلیکچولزم پر حرف آتا ہے۔ ہمارےنزدیک بہت آسان بات ہے یہ کہہ دیں کہ بس جناب، سروائووال آف دا فٹسٹ، اور میوٹیشن خودبخود آنکھ بنا دیتی ہے۔ لیکن اسکی وجوہات کہ میوٹیشن کیونکرہوئ، اور یہ میوٹیشن کسی منفی سمت میں کیوں نہیں جاتی، یہ سوالات طوالت کی بنا پراصحاب تشکیک یا اسکیپٹکس اکثر چھوڑ دیا کرتے ہیں۔ یہی تشکیک و تیقن کی تقسیم کا بنیادی کا خاصہ ہے۔ میوٹیشن میں زندقہ، تغیروارتقاء سے آنکھ بننے کے عمل کو دیکھتا ہے، اہل ایمان اسی امر میں خدا کی قدرت کا سراغ پاتا ہے۔ ایک کو میوٹیشن کی خودی پر ایمان ہے گو کہ وہ لیب میں ری پروڈیوسیبل نا ہو اور دوسرے کو اس میں خدای اسرار نظر آتے ہیں جسے الحاد و زندقہ ذہنی کمزوری گرداننے میں چنداں شرم محسوس نہیں، کرتے۔
اب انسانی ذہانت کو دیکھیں۔ سائنسی دعووں کومد نظر رکھا جاۓ تو ایپس اور انسانی ڈی آین آے میں محض ایک فیصدی فرق ہے۔ اب اس ایک فیصدی فرق نے ہمیں چاند پر پہنچایا، اشرف المخلوقات کا درجہ دیا، اس ایک فیصدی فرق کے ذریعے آج بنی نوع انسانی کے خلائ جہازوائجر اول اور وائجر دوئم نظام شمسی کی حدود پار کرنے والے ہیں۔ اگر ہم سب ایک ہی پرائمورڈیل سوپ سے معرض وجود میں آے تو اس بات میں کیا استجاب لازم نہیں کہ کسی اور مخلوق میں اس درجہ کی ذہانت کیوں نہیں پائی جاتی؟ آپ شاید اس سے امر کو اسپیشیزم گردانیں لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم کسی ڈالفن کو اسکوبا ٹینک لگائے موٹر کار چلاتے ہوئے نہیں دیکھتے۔ اگر تمام مخلوقات کے لیے ابتدا ایک ہے اور کوئ منصوبہ ساز نہیں، تو پرابیبلٹی کے حساب سے ان کروڑوں سالوں میں کوئ تو ایسی مخلوق ہوتی جس کی ذہانت کا معیار وہی ہوتا کہ جو حضرت انسان کی ذہانت کا معیار ہے؟ زمین کو اس وقت ایک کلوزڈ سسٹم سمجھ کر اس سوال پر غور کریں تو شائد یہ بات واضع ہو کہ جب ایک ہی طرح کے ڈی این اے سے سب کی تخلیق ہوئی ہے تو پھر یہ کیا وجہ ہے کہ ہم سے جنیاتی طور پر قریب ترین دوسری مخلوق جوکہ جسمانی طاقت میں آَٹھ گنا زیادہ مضبوط ہے، ذہانت سے اسقدر عاری کیوں؟ ڈاینوسارس نہایت کامیاب مخلوق تھے کہ جنہوں نے زمین پر کروڑوں سال حکومت کی، حضرت انسان کو تو فقط ایک لاکھ کچھ سال ہی ہوے، ان دیوہیکل جانوروں میں بھی کوئ قابل ذکر ذہانت کا عنصر نا دکھائ دیا۔ اگر تشکیک کی عینک ہٹا کر دیکھیں تو درحیقت یہاں پر بھی ٹکراو یقین اور شک کا ہے۔ اہل ایمان کا یقین اس استعارے کو سمجھتا ہے کہ کیا وجہ ٹھری کہ خلیفہ رب العزت اور اشرف المخلوقات کا درجہ صرف حضرت انسان کہ حق میں آیا ہے. جب کہ اہل تشکیک اور زندقہ اس امر کو محض ایک عارضی غیر حل شدہ مسئلہ گردانتے ہیں.
حاصل مطالعہ یہ ٹھرا کہ
ذَلِكَ الْكِتَابُ لا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ
یعنی کہ اس کتاب میں کوئ شک نہیں اور ہدایت اس کے لیے جو غیب پر ایمان لایا۔ منطق کہے یہ کیسا سرکلر ریفرنس ہے؟ کوئ پیر ریویو نہیں اور تھیسس کہتا ہے کہ اس کتاب میں کوئ شک نہیں۔ امرغریب یہ کہ اگرتخلیق کے عمل کو بلکل صاف صاف کھول کھول کر بیان کر دیا جاۓ کہ مالک کل کی وحدانیت، وجود اور مالک سموت الرض ہونے کو لیب میں ریپروڈیوسیبل کردیا جائے تو پھر غیب کیا تھا؟ یہ ایک کیچ ۲۲ کی کیفیت ہے جو کہ اہل ایمان کو تشکیک و زندقہ کے مسلسل تضحیک و تشنیع کا نشانہ بناے رکھتی ہے اور ہر گزرتا لمحہ انکے ایمان میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اگر آسمان پر امر الہی سے کلمہ لا الہٰ الاللہ محمّد الرسول الله لکھا ہوا آجاۓ تو ظاہر ہے کہ کوئی بھی کافر نہ رہے۔ اگر سب کو مسلم بنانا خالق کی منشا ہوتی تو خدا کے نزدیک یہ کیا امر مشکل تھا، مگر غیب کو کھول کر بیان کر دینا حکمت الہی نہیں، ایمان بالغیب نام ہی اس تشکیک کے پردے کو دل سے ہٹا کر یقین محکم رکھنے کا ہے ۔ یہ تو در حقیقت سب نظر کا فرق ہے کہ جس چیز کو اہل ایمان یقین کی نگاہ سے حکمت الہیہ اور تخلیق الہیہ گردانتے ہیں وہی زندقہ اور اہل تشکیک کو میوٹیشن یا خود بخود ہونے والی شہ دکھائ دیتی ہے. خدا کے وجود اور عدم وجود پر منطق کی دلیل یہ ہے کہ اگر آپ انہونی کو ہٹا دیں تو جو چیزسب سے زیادہ منطقی ہوگی وہی چیز حقیقت کہلائے گی۔ سوال یہ ہے کہ خدا کے وجود کا انہونی ہونا کس منطق سے ثابت ہے، اسی منطق سے جو میوٹیشن کے خودبخود ہونے کو تو امر واقعی گرداننے میں چنداں گرفتہ نا ہو لیکن عدم دلیل کی بنا پر اہل ایمان کو اگناسٹزم کے شک کا فائدہ بھی نا دے؟
خردکے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
تیرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں