فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

June 16, 2012

تشکیک و تیقن

Filed under: مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 7:52 am

انگریزی مثل مشہور ہے کہ  جنگی خندقوں میں کوئی ملحد نہیں ہوتا۔

لیکن یہ مثل صرف خندقوں تک محدود نہیں، تشکیک و تیقن کا یہ فرق انسانی زندگی اور سوچ کے ارتقا میں ہر جگہ نہایت نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ میوٹیشن یا تغیر، جس کو ارتقاء کا بنیادی ستون ٹھرایا سمجھا جاتا ہے، اس تغیر کی مختلف امثال در حقیقت ایمانیات کا ایک لٹمس ٹیسٹ ہیں۔  مثال کے طور پر انسانی آنکھ جیسا ایک پیچیدہ عضو ہی لے لیں جسے ڈارون نے ہمیشہ نظریہ ارتقا کے لئے ایک پریشان کن شے سمجھا کہ یہ کیونکر وجود میں آئ۔ کروڑوں سال قبل آپ ہو ہم جب پرایمورڈیل مالیکیولر ملغوبوں میں غوطے کھا رہے تھے تب تو کسی جاندار کے پاس آنکھ موجود نا تھی، پھر ہوا یوں کہ میوٹیشن سے ایک باریک سی جھلی بنی کہ جس سے روشنی کی سمت کا اندازہ ہوتا، اور اس کے بعد یہ جھلی ہزاروں لاکھوں سال میں بڑھ کر پن ہول کیمرہ کی شکل اختیار کر گئی اور پھر اس میں فوکس کرنے کی صلاحیت آئ اور اس طریقے سے آج کی موجودہ پیچیدہ انسانی آنکھ معرض وجود میں آئی۔ ان تمام تغیرات کے بارے میں بہت آسانی سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب تو قبلہ میوٹیشن کی برکات ہیں، ایک سیلفش جین ہے جو میوٹیٹ کرتا رہا،۔ لیکن جب ہم نظریہ میوٹیشن کواس قدرآسانی سے بیان کرتے ہیں کہ گویا ہر چیزمیوٹیشن کے ذریعے وجود میں آئی، تو ہمیں اس بات کا چنداں احساس نہیں ہوتا کہ اس تغیروارتقاء کے پیچھے کیا کوئ گرانڈ پلان بھی موجود ہے؟ کیا یہ وحی خفی کسی ذات باری کی جانب سے ہے جو اس سمت کو متعین کرتی ہے یا یہ سب خودبخود ہوتا چلا جارہا ہے؟پرابیبلٹی اور پلاسیبیلٹی کی کمی بھی، اس خیال کو کہ میوٹیشن خود بخود ہوگئی ہے، کسی خالق کی موجودگی کے امکان کے قرب میں پھٹکنے نہیں دیتی کہ اس سے انٹیلیکچولزم پر حرف آتا ہے۔ ہمارےنزدیک بہت آسان بات ہے یہ کہہ دیں کہ بس جناب، سروائووال آف دا فٹسٹ، اور میوٹیشن خودبخود آنکھ بنا دیتی ہے۔ لیکن اسکی وجوہات کہ میوٹیشن کیونکرہوئ، اور یہ میوٹیشن کسی منفی سمت میں کیوں نہیں جاتی، یہ سوالات طوالت کی بنا پراصحاب تشکیک یا اسکیپٹکس اکثر چھوڑ دیا کرتے ہیں۔ یہی تشکیک و تیقن کی تقسیم کا بنیادی کا خاصہ ہے۔ میوٹیشن میں زندقہ، تغیروارتقاء سے آنکھ بننے کے عمل کو دیکھتا ہے، اہل ایمان اسی امر میں خدا کی قدرت کا سراغ پاتا ہے۔ ایک کو میوٹیشن کی خودی پر ایمان ہے گو کہ وہ لیب میں ری پروڈیوسیبل نا ہو اور دوسرے کو اس میں خدای اسرار نظر آتے ہیں جسے الحاد و زندقہ ذہنی کمزوری گرداننے میں چنداں شرم محسوس نہیں، کرتے۔

اب انسانی ذہانت کو دیکھیں۔ سائنسی دعووں کومد نظر رکھا جاۓ تو ایپس اور انسانی ڈی آین آے میں محض ایک فیصدی فرق ہے۔ اب اس ایک فیصدی فرق نے ہمیں چاند پر پہنچایا، اشرف المخلوقات کا درجہ دیا، اس ایک فیصدی فرق کے ذریعے آج بنی نوع انسانی کے خلائ جہازوائجر اول  اور وائجر دوئم نظام شمسی کی حدود پار کرنے والے ہیں۔ اگر ہم سب ایک ہی پرائمورڈیل سوپ سے معرض وجود میں آے تو اس بات میں کیا استجاب لازم نہیں کہ کسی اور مخلوق میں اس درجہ کی ذہانت کیوں نہیں پائی جاتی؟ آپ شاید اس سے امر کو اسپیشیزم  گردانیں لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم کسی ڈالفن کو اسکوبا ٹینک لگائے موٹر کار چلاتے ہوئے نہیں دیکھتے۔ اگر تمام مخلوقات کے لیے ابتدا ایک ہے اور کوئ منصوبہ ساز نہیں، تو پرابیبلٹی کے حساب سے ان کروڑوں سالوں میں کوئ تو ایسی مخلوق ہوتی جس کی ذہانت کا معیار وہی ہوتا کہ جو حضرت انسان کی ذہانت کا معیار ہے؟ زمین کو اس وقت ایک کلوزڈ سسٹم سمجھ کر اس سوال پر غور کریں تو شائد یہ بات واضع ہو کہ جب ایک ہی طرح کے ڈی این اے سے سب کی تخلیق ہوئی ہے تو پھر یہ کیا وجہ ہے کہ ہم سے جنیاتی طور پر قریب ترین دوسری مخلوق جوکہ جسمانی طاقت میں آَٹھ گنا زیادہ مضبوط ہے، ذہانت سے اسقدر عاری کیوں؟ ڈاینوسارس نہایت کامیاب مخلوق تھے کہ جنہوں نے زمین پر کروڑوں سال حکومت کی، حضرت انسان کو تو فقط ایک لاکھ کچھ سال ہی ہوے، ان دیوہیکل جانوروں میں بھی کوئ قابل ذکر ذہانت کا عنصر نا دکھائ دیا۔ اگر تشکیک کی عینک ہٹا کر دیکھیں تو درحیقت یہاں پر بھی ٹکراو یقین اور شک کا ہے۔ اہل ایمان کا یقین اس استعارے کو سمجھتا ہے کہ کیا وجہ ٹھری کہ خلیفہ رب العزت اور اشرف المخلوقات کا درجہ صرف حضرت انسان کہ حق میں آیا ہے. جب کہ اہل تشکیک اور زندقہ اس امر کو محض ایک عارضی غیر حل شدہ مسئلہ گردانتے ہیں.

حاصل مطالعہ یہ ٹھرا کہ

ذَلِكَ الْكِتَابُ لا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ

یعنی  کہ اس کتاب میں کوئ شک نہیں اور ہدایت اس کے لیے جو غیب پر ایمان لایا۔ منطق کہے یہ کیسا سرکلر ریفرنس ہے؟ کوئ پیر ریویو نہیں اور تھیسس کہتا ہے کہ اس کتاب میں کوئ شک نہیں۔ امرغریب یہ کہ اگرتخلیق کے عمل کو بلکل صاف صاف کھول کھول کر بیان کر دیا جاۓ کہ مالک کل کی وحدانیت، وجود اور مالک سموت الرض ہونے کو لیب میں ریپروڈیوسیبل کردیا جائے تو پھر غیب کیا تھا؟ یہ ایک کیچ ۲۲ کی کیفیت ہے جو کہ اہل ایمان کو تشکیک و زندقہ کے مسلسل تضحیک و تشنیع کا نشانہ بناے رکھتی ہے اور ہر گزرتا لمحہ انکے ایمان میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اگر آسمان پر امر الہی سے کلمہ لا الہٰ الاللہ محمّد الرسول الله لکھا ہوا آجاۓ تو ظاہر ہے کہ کوئی بھی کافر نہ رہے۔ اگر سب کو مسلم بنانا خالق کی منشا ہوتی تو خدا کے نزدیک یہ کیا امر مشکل تھا، مگر غیب کو کھول کر بیان کر دینا حکمت الہی نہیں، ایمان بالغیب نام ہی اس تشکیک کے پردے کو دل سے ہٹا کر یقین محکم رکھنے  کا ہے ۔ یہ تو در حقیقت سب نظر کا فرق ہے کہ جس چیز کو اہل ایمان یقین کی نگاہ سے حکمت الہیہ اور تخلیق الہیہ گردانتے ہیں وہی زندقہ اور اہل تشکیک کو میوٹیشن یا خود بخود ہونے والی شہ دکھائ دیتی ہے. خدا کے وجود اور عدم وجود پر منطق کی دلیل یہ ہے کہ  اگر آپ انہونی کو ہٹا دیں تو جو چیزسب سے زیادہ منطقی ہوگی وہی چیز حقیقت کہلائے گی۔ سوال یہ ہے کہ خدا کے وجود کا انہونی ہونا کس منطق سے ثابت ہے، اسی منطق سے جو میوٹیشن کے خودبخود ہونے کو تو امر واقعی گرداننے میں چنداں گرفتہ نا ہو لیکن عدم دلیل کی بنا پر اہل ایمان کو اگناسٹزم کے شک کا فائدہ بھی نا دے؟

خردکے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
تیرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

Share

June 4, 2012

معمول – اداس نسلیں از عبداللہ حسین سے ایک اقتباس

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 5:08 am

“وہ عظیم شخصیت جو جنم نہ لے سکیں. جنہیں گھر باہر کے’ روز مرہ کے چھوٹے بڑے کام کرنے پڑے ‘ جن کا وقت اسی طرح ضائع ہو گیا. ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ ضابطہ جو ہم نے اپنے اوپرعائد کر لیا ہے اور جس کے تحت ہم زندگی بسر کرتے ہیں کس کام کا ہے. حصول مسرت کا یہ معیار  جو ہم نے قائم کیا ہے یا جو قائم کیا کرایا ہمیں ملا ہے کس حد تک صحیح ہے. ہم جو اتنا دکھ سہتے ہیں’اتنی محنت کرتے ہیں’ اتنے جھوٹ بولتے ہیں’ اتنی چاہتیں اتنی حسرتیں دل میں دباۓ رکھتے ہیں’ اتنی طاقتور خواہشیں پوری نہی کر سکتے کہ دل و دماغ کے روگی ہوں جاتے ہیں’ اتنی اخلاقی قدروں کو سمیٹتے ہیں’ اتنی اخلاقی قدروں کو قربان کرتے ہیں…. وقت کی کمی کی وجہ سے ان لوگوں سے نہیں مل سکتے جن سے بہت ملنا چاہتے ہیں’ دوستی کرنا چاہتے ہیں یا ہمدردی کی توقع رکھتے ہیں یا ایسے لوگوں کو نہیں مل پاتے جن کو ہم نہیں جانتے لیکن جن سے مل لیتے تو بہت خوش ہوتے.ان جگہوں پر نہیں جا سکتے جن کا صرف نام سن رکھا ہے’ جو کچھ سوچتے ہیں کہہ نہیں سکتے’ جو کہتے ہیں کر نہیں سکتے’ قطعی طور پر برے آدمی سے قطع تعلق اور اچھے آدمی سے دوستی نہیں کر سکتے’ غرض یہ کہ کسی ڈھنگ سے بھی زندگی کو بہتر طور پر بسر نہیں کر سکتے حالانکہ ہم میں سے کتنے ہی ہیں جو وہ سب کرنا چاہتے ہیں جو نہیں کر سکتے اور وہ سب کچھ نہیں کرنا چاہتے جو کر رہے ہیں’ تو چاہنے اور کرنے میں یہ تضاد’ یہ بعد کیوں ہے؟ اور اس سے کیا حاصل ہے اور یہ مصنوعی ہے یا حقیقی؟کیا یہ سب کچھ جو ہم بھگتتے ہیں محض اس لئے ہے کہ ہم اپنے گھر کو’ جو چند دیواروں اور کھڑکیوں کا مجموعہ ہوتا ہے’ سلامت رکھنا چاہتے ہیں’ یا اپنے خاندان کو جو چند افراد پر مشتمل ہوتا ہے’ یکجا رکھنا چاہتے ہیں یا اپنی جائداد کو جس میں کھانا پکانے کے برتن’ کپڑے اور چند آسائش کی اشیاء ہوتی ہیں’ قبضے میں رکھنا چاہتے ہیں. کیا ہم اپنی شخصیت کو محض اس لئے نظر انداز کر دیتے ہیں کہ بنیادی ضرورتوں کو پورا کر سکیں’ اپنی علیحدگی’ اپنی انفرادیت کو محض اس لئے ضائع کردیتے ہیں کہ کمتر انسانی جذبوں کی تسکین کر سکیں. کیا ہمیں ادنیٰ اور اعلیٰ کا فرق معلوم ہے؟ کیا ہم مسرت کا مطلب جانتے ہیں’ علم اور جہالت میں کیا ہم تمیز کر سکتے ہیں؟ کیا ہم محض اس لئے اس قدیم’ انسان کش ضابطے کو برقرار رکھے ہوئے ہیں کہ اس سے شخصی غرور کو جلا ملتی ہے؟ کہ ہم اپنے حقیر گھروں اور خاندانوں میں ایک کھوکھلی’ مغرور اور محتاط زندگی بسر کرتے رہیں. یا وہ نوجوان’ جو ابھی زندگی میں قدم رکھ رہے ہیں’ اپنے مکان کو گرنے سے بچانے اور کنبے کو خوراک مہیا کرنے کی خاطر روزانہ زندگی کے چھوٹے موٹے کام کرتے رہیں اور خوشی کے بجاۓ غرور اور تنفر حاصل کریں. ائر پھر ہم میں سے چند ایک ان کاموں میں کمال حاصل کر لیں اور نمایاں مقام پر پہنچیں اور حاسدانہ عزت کی نگاہ سے دیکھے جائیں اور اس طرح زیادہ مغرور اور زیادہ ناخوش ہو جائیں اور اپنے ساتھی لوگوں میں گھلنے ملنے کی بجاۓ انہیں مرعوب کرنے کی طرف مائل ہوں اور بدلے میں ان سے حقارت حاصل کریں. عوامی زندگی کے یہ نمایاں لوگ’ سیاست دان اور تعلیمی اداروں کے سربراہ اور بڑی عدالتوں کے منصف’ ان کی زندگی بھر کی کمائی کیا ہے؟ حقارت اور عمومیت! کیا وہ بس ان دو چیزوں کے لئے ایک انتہائی مردہ دل اور پر کوفت زندگی بسر کرتے ہیں؟

 ” اگر ہم ایک اونچی چٹان پر اکیلے بیٹھ کر سوچیں تو ہمیں پتا چلے گا کہ خوشی تو ایک معمولی شے  ہے اور اسے حاصل کرنا تو بڑا آسان ہے’ یعنی آپ اسے محض چٹان پر چڑھ کر بھی حاصل کر سکتے ہیں جب کہ آپ تنہا ہیں اور آپ کے ساتھ آپ کی ساری شخصیت ہے ساری انفرادیت ہے’ آپکی عظمت اور نیکی اور عقل ہے اور آپ ہر لحاظ سے مکمل ہیں اور قطعی طور پر مطمئن اور خوش قسمت ہیں اور آپکو بھوک نہیں لگ رہی چناچہ آپ ابھی کچھ دیر اور یہاں رک سکتے ہیں اور زندگی کے عظیم مقدس مسائل پر’ محبت اور موت پر غور کر سکتے ہیں اور دیانت داری سے اپنی راۓ وضع کر سکتے ہیں. اس وقت آپ کے پاس وہ بیش بہا آزادی کا احساس ہوتا ہے جس کے لئے’ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے’ کہ ہم پیدا کئے گئے ہیں اور ہم سوچتے ہیں کہ تھوڑی دیر میں نیچے جائیں گے اور فلاں فلاں کام کرینگے یا نہیں کرینگے کہ ان کا کرنا نہ کرنا ہمارے اختیار میں ہے…..مگر خوفناک بات یہ ہے کہ جب ہم نیچے جاتے ہیں تو ایک ایک کر کے ساری چیزیں ساتھ چھوڑ جاتی ہیں اور آخیر میں ہماری وہی پرانی’ کمزور’ گمنام شخصیت رہ جاتی ہے جس کے سامنے روزانہ معمول کے ایسے کام ہوتے ہیں جو ہر حالت میں کرنا ہوتے ہیں اور اپنے معمولی پن کے باوجود ہمارے اختیار سے باہر ہوتے ہیں. اس طرح ہم آنا فانا عمومیت کے اس سمندر میں گم ہو جاتے ہیں اور ہجوم سے الگ ہماری کوئی شخصیت’ کوئی آزادی نہیں رہتی. ہم خوشی کے اس معیار کو بھی بھول جاتے ہیں جو کچھ دیر قبل ہم نے قائم کیا تھا’ اور ایک دوسری قسم کی مسرت’ جو تقابل اور کبر نفس سے پھوٹتی ہے’ ہم پر قبضہ کر لیتی ہے. یہ زندگی کی سفا کی کا ایک منظر ہے کہ ہم جانے بوجھے اور محسوس کیے بغیر’ تیزی کے ساتھ اعلیٰ سےادنیٰ کی طرف سفر کرتے ہیں..

 “تو کیا طمانیت اور عقل و دانش کی یہ قربانی جو دی جاتی ہے حق بجانب ہے؟ وہ بے پناہ جور وستم جو ہم جھیلتے ہیں’ کیا ہماری زندگی’ ساری انسانی زندگی اس قابل ہے کہ اس کے لئے اتنی دل شکنی قبول کی جاۓ’ بتاؤ کیا ساری انسانی زندگی کی کوئی وجہ ہے؟”

اداس نسلیں از عبداللہ حسین

Share

Powered by WordPress