فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

July 9, 2012

قصہ اردو بلاگران کے ساتھ ایک شام کا

Filed under: پاکستان,سفر وسیلہ ظفر,طنزومزاح — ابو عزام @ 12:20 am

ایک عرصہ دراز سے یہ تحریر ڈرافٹ کے خانے میں پڑی تھی تو سوچا اس کو  ملاقات کی سالگرہ سے قبل شائع کردیا جاے۔  تاخیر کی معذرت۔

میر امن نے کیا خوب کہا کہ سچ ہے جب کچھ بن نہیں آتا۔ تب خدا ہی یاد آتا ہے نہیں تو اپنی اپنی تدبیر میں ہر ایک لقمان اور بو علی سینا ہے۔۔ خصوصا ۲۲ نومبر کی شب ایک بجے ناگن چورنگی کے پچھواڑے ایک دیوان عروسی میں جہاں پیر مرد راشد کامران نے یہ مقرّر کیا کہ تبدیلی اوقات کے ساتھ وہ پرسوں سات سمندر کے سفر پر روانہ ہو جاویں گے۔ فقیر بولا قبلہ حاجی صاحب، ایسی بھی کاہے کی جلدی، ٹک دم تو لو، ابھی مکے مدینے اور ابھی شہر فرشتگاں،  تو یکدم بولے کہ جی تو  بہت چاہتا ہے کہ روشنیوں کے شہر میں کچھ وقت اور بتاوں پر ظالم پیٹ ہر ایک کے ساتھ لگا ہے۔ فقیر بولا یہاں مملکت  بلاگستان کے ساتھی تیری جھلک دیکھنے کو ترستے ہیں اور تو بنا درشن کوچ کا قصد کرتا ہے۔ اس دہائ پر یوں گویا ہوے کہا کہ اگر قصد ملاقات احباب ریختہ  کا دل میں مقرر رکھتے ہو تو جلد کچھ ترکیب کرو۔ میں نے کہا اسی وقت میں درویش ابو شامل کے پاس برقی خط بذریعہ چہرہ کتاب لے جاتا ہوں اور خدا چاہے تو پھر جواب لاتا ہوں۔ آخر رخصت ہو کر اور فضل الٰہی پر  نظر رکھ اس سمت کو چلا۔

 اب خدا کے کارخانے کا تماشا سنو۔ ہماری قسمت نے یاوری کی اور درویش ابوشامل نے سبک دستی سے سب انتظام کیا، اوراگلی شام مطعم کراچی فوڈز میں خاطر احباب کا التزام رکھا۔اس درویش مرد کے  سب سے روابط اور یاداللہ کے سبب افکار میں قطبین کے فاصلے کے لوگ حب اردو و تبادلہ خیال کو ایک میز پر جمع ہوے  اور سب ہی مدعی تھے کہ

 گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر
یہ ہماری زبان ہے پیارے

اب اس محفل کا حال نا پوچھو۔ کیا اہل علم جمع تھے۔ ماجرا میں نے بہ چشمِ خود دیکھا اور خدا کی قدرت کو یاد کیا کہ ایسے ایسے بندے پیدا کیئے ہیں۔ کیا ہوا جو سماجی مہارتوں میں ید طولی نہیں رکھتے، پلاو و زردہ و بریانی سے انصاف مگر برابر کا روا رکھتے ہیں۔

برادرم شعیب صفدر اور فہیم اسلم نے نہایت انہماک سے عمار ابن ضیا کی تقریر سنی جس میں انہوں نے جامعہ میں سی آر بننے کے فوائد پر روشنی ڈالی ۔

اسی دوران محمد اسد نیپکن سے طیارہ بنانے کی مشق کرتے رہے۔

درویش نے پیر مرد راشد کامران کاشعیب صفدر سے تعارف کروایا جس میں شعیب صاحب کی روایتی گرمجوشی، برادر فہد کا استفہامیہ اور ہمارا خالی پلیٹ ہونا قابل ذکر ہے

کھانے کے آمد ہوئی تو کچھ دل کو تسلی ہوئی، ابوشامل درویش کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ اسی دوران ہم لوگ اس بات پر گفتگو کر رہے تھے کہ روزا پارکس کے سیٹ نا چھوڑنے کے فیصلے سے محترمہ عنیقہ ناز کے بلاگ پر بلاواسطہ کیا اثرات مرتب ہوے نیز کیا اس زمانے میں شعیب صفدر سول رائٹس کا کیس بلا معاوضہ لڑنے میں دلچسپی رکھتے۔

کھانے کے انتظار کے باعث غیر حالت ہونے پر یہاں یہ ذکر تھا کہ اگر حکم ہو تو شہزادہ عالمیان،  برادرم فہیم اسلم کو باورچی کے پاس لے جاویں، اس کو ایک نظر دکھاویں، امید قوی ہے کہ جلد شفائے کامل ہو۔ اور ظاہر میں بھی یہ تدبیر اچھی ہے کہ ہر ایک مطبخ کی ہوا کھانے سے اور جا بجا کے آب و دانے سے مزاج میں فرحت آتی ہے۔

اور یہ رہی جناب اجتماعی تصویر، جہاں مشرق و مغرب کے اردو سے محبت کرنے والے جمع ہیں

دائیں سے بائیں: راقم ، ابوشامل ، راشد کامران ، عنیقہ ناز ، شعیب صفدر ، فہیم اسلم ، محمد اسد اور عمار ابن ضیا

 نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

Share

July 7, 2012

فارنہائٹ 451 از رے بریڈبیری

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 3:08 pm

رے بریڈ بیری کی کتاب حالانکہ فارنہاٹٹ ۴۵۱  میری باون ہفتوں میں باون کتابوں کی فہرست میں موجود نہیں لیکن پھر بھی اس پر مختصر تبصرہ اس لئے ضروری سمجھا کیونکہ رے بریڈ  بیری کی حال میں ہی وفات ہوئی ہے اور انکی یہ کتاب ماضی میں میرے زیر مطالعہ رہی ہے۔ ان کی دو کتابیں  فارنہائٹ۴۵۱ اور مارشین کرانکل سائنس فکشن اورسماجی تبصرہ نگاری میں خاصی اہمیت کی حامل ہیں۔

فارنہایٹ ۴۵۱ رے بریڈبیری کیے طرز تحریر کی نمائندہ تصنیف ہے جو 1953 میں لکھی گئی لیکن آج کے ۲۴ گھنٹے کے میڈیا دور میں خصوصا بڑی اہم اہمیت کی حامل ہے۔ اس کتاب کو سائنس  فکشن کے ساتھ مستقبل کی سوشل کامینٹری یا معاشرتی تجزیے کا بہترین امتزاج کہا جا سکتا ہے۔ رے بریڈ بیری نے اس کہانی کا پلاٹ سائنس فکشن، تاریخ، معاشرتی رجحانات کو ایک فیوچریسٹک یا مستقبل کےایسے معاشرے میں قائم کیا ہے جہاں پر لوگ کتابیں نہیں پڑھتے بلکہ ٹی وی اور ریڈیو کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں کتابیں پڑھنا جرم  ہے اور حکومت وقت کی جانب سے حکم ہے کہ ہر کتاب کو اسکے پاے جانے کے ۲۴ گھنٹوں کے اندر جلا دیا جاے۔ لیکن یہ رجحان عوام الناس میں کچھ اسطرح سرائیت کر گیا ہے کہ اب وہ بھی کتابوں کو اپنا دشمن گردانتے ہیں۔

 جس طرح جارج ارویل کی ائنیمل فارم اور ۱۹۸۴  تمثیلی انداز میں معاشرتی برائیوں کے بخیے ادھیڑتی نظر آتی ہے،اسی طرح فارنہاٹٹ ۴۵۱ بھی کسی زندہ معاشرے میں کتاب کی اہمیت پر ایک اہم تصنیف ہے۔ اس کتاب کی وجہ تسمیہ اس درجہ حرارت کی نسبت ہے جس پر کاغذ بھڑک اٹھتا ہے۔ فارنہایٹ ۴۵۱  کا مرکزی خیال ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں کتابوں کو جلا  دیا جاتا ہے اور اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس معاشرے میں باغیانہ خیالات یا ایسے افکار جو عمومی راے سے ہٹ کر ہوں انہیں پنپنے کا موقع نا ملے۔ نیز ایسے افکار جو ریاست کی سوچ سے  متضادانہ روش کے حامل ہوں انہیں کتابوں اور دانشورانہ گفتگو کی مدد سے پروان نہ چڑھنے دیا جاۓ بلکہ انکو وہیں پردبا دیا جاۓ۔ اس آتش زنی کے ذریعےباغیانہ رویے کو روکا جاۓ اور لوگوں کی سوچ پر لا محالہ اسطرح سے پہرے بٹھاے جائیں کہ نئے افکار پھلنے پھولنے سےرک جائیں۔ جب لوگوں کا کتاب پڑھنے، دانشورانہ گفتگو و تبادلہ خیال کا موقع نہ دیا جاے گا تو لازما انکی آزادانہ سوچ کا راستہ رک جاۓ گا. یہ کتاب ایک فکری تجربہ ہے اس بات کا کہ کتابوں کو جلانے سے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

 زیر تبصرہ کتاب کا مرکزی کردار مونٹاگ ایک فائرمین  ہے جوآگ کے محکمے میں کام کرتا ہےاور اس کا کام ہے کہ وہ کتابوں کو آگ لگاے۔ مستقبل کے ایک امریکی شہر کے گرد گھومتی یہ کتاب متضادات سے تعلق رکھتی ہے۔ یہاں فائر مین کا کام یہ ہے کہ وہ آگ لگاۓ،  بجاۓ اس کے کہ وہ آگ بجھاۓ، اس معاشرے کا حال یہ ہے کہ اس میں لوگ کتابیں نہیں پڑھتے ، نہ وہ فطرت سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور نہ قدرتی مناظرسے حظ اٹھاتے ہیں۔ نہ ہی وہ سوچ و بچار میں وقت صرف کرتے ہیں اور نہ ہی  آزادانہ سوچ کے حامل  ہیں۔ انکی پسند ہے تیز گاڑیاں،  ٹیلیویژن دیکھنااور ریڈیو سننا۔ مصنف ہیڈ فون کی طرز کے آلے کو گھونگے کے خول کا ریڈیو کہتے ہیں، واضع رہے کہ یہ کتاب  1953میں لکھی گئی تھی جب تک آی پاڈ اور والک مین  کا وجود نا تھا۔ یہ کتاب بہت پہلے لکھی گئی ہے لیکن اگر سوچیں تو اس میں سے بہت ساری باتیں آج سچ ثابت ہوتی ہیں کہ کتنے فیصدی لوگ آج کتابیں پڑھتے ہیں اور اسکی بنسبت کتنے لوگ ٹی وی دیکھتے ہیں یا ریڈیو سنتے ہیں۔ لہذا بنیادی طور پر جس مستقبل کے بارے میں رے بریڈ بیری نے یہاں بات کی ہے وہ ١٩٥٣ میں جب یہ کتاب لکھی گئی تھی اس وقت خلائی اور افسانوی بات تھی لیکن اب 2012  میں یہ بات بہت حد تک درست ثابت ہوچکی ہے۔

 گاے مونٹاگ کا مرکزی کردار اپنی بیوی کی خودکشی کی کوشش پر دلشکستہ ہے جو زندگی کی یکسانیت اور عامیانہ پن سے تنگ آکر خودکشی کرنا چاہتی ہے۔  وہ اس کے بعد ایک خاتون کلیرس  مکلین سے ملتا ہے جو خاصی زندہ دل ہے اور اس کے سوالات زیادہ تر کیوں کے بارے میں ہوتے ہیں کہ کہ  کیسے۔ اس تجسس کی پڑیا سے ملاقات سے مونٹاگ کے دل میں بھی زندگی کو مکمل طور پر جینے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے اور اسے بھی بہت سی چیزوں سے تجسّس آمیز رشتہ جوڑنے کا موقع ملتا ہے۔ اسی دوران اسے کتابیں پڑھنے کا شوق چراتا ہے اور پھر ایک دن جب وہ اپنے کام پر نہیں جاتا تو اس کا باس جو کہ کتابوں کا دانشوارانہ انداز میں نہایت سخت مخالف ہے، اس کے گھر آکر اس سے کہتا ہے کہ اگر تمہیں یہ  کتابیں پڑھنی ہیں تو تمہارے پاس چوبیس گھنٹوں کا وقت ہے۔ اس دوران وہ کتاب کی مخالفت میں اور کتاب جلانے کی حمایت میں ایک لمبی سی تقریر کرتا ہے جو کہ لائق مطالعہ ہے۔ اس کے بعد مونٹاگ 24 گھنٹوں میں بہت سی کتابیں پڑھنے کی کوشش شروع کرتا ہے اور جب مطالعہ میں بیوی کی مدد طلب کرتا ہے تو اسکی بیوی ٹکا سا جواب دیتے ہوے کہتی ہے کہ تمہیں یہ کتابیں پڑھنے کی کیا ضرورت ہے، ٹی وی دیکھو جو زیادہ مزیدارکام ہے۔اس اثنا میں اسکی ملاقات انگریزی کے پروفیسر فیبر سے ہوتی ہےجو اسے سمجھاتا ہے کہ کتاب کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے ایک ماحول درکار ہوتا ہے۔ تمہارے پاس کتابیں سمجھنے اور اس سے جو آگاہی حاصل ہو اس پہ عمل کرنے کا اختیار موجود ہونا چاہیے ۔انفرادی طور پر سوچنے   کی آزادی اگر موجود ہو تو  کتابیں فائدہ مند ہوتی ہیں۔خالی رٹو طوطے کی طرح پڑھنے سے کچھ خاص فائدہ نہیں مل سکتا۔ اس کے بعد کہانی مونٹاگ کی آگہی، اس کے ارباب اختیار سے ٹکراو اور بلاخر اس کے مجرم ٹھرنے پر منتج ہوتی ہے۔ مونٹاگ کی کتب بینوں اور دانشور گروہ کی تلاش، نیوکلائ ہتھیاروں کی مخالفت اور معاشرے کی ازسر نو تشکیل اس تصنیف کے اہم پہلو ہیں۔ اس دوران کئی سائنسی ایجادات کے روز مرہ استعمال کا تذکرہ ہے اور راقم کا غالب گمان ہے کہ اس پر تجسس ناول کا  مطالعہ آپ کو قطعی طور پر بور نا ہونے دے گا، لیکن ہوسکتا ہےکہ یہ مختصر جائزہ آپ کو سلا دے 🙂

اس ناول کے مندرجہ بالا مختصر خلاصے سے اپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ رے بریڈبیری کے خیالات عام ڈگر سے ہٹ کر ہوا کرتے ہیں۔ مثلا  تعلیمی نظام کے بارے میں انکا نقطہ نظر یہ تھا۔

لائبریریوں نے مجھے پالا ہے. میں کالجوں اور یونیورسٹیوں پر یقین نہیں ہے. میں لائبریریوں پر یقین رکھتا ہوں کیونکہ زیادہ تر طالب علموں کے پاس پیسہ نہیں ہوتا. جب میں نے ہائی اسکول سے گریجویشن کیا، یہ کساد بازاری کا دور تھا اور ہمارے پاس بلکل پیسہ نہیں تھا. میں کالج جا نہیں سکتا تھا لہذا میں دس سال تک ہر ہفتے تین دن لائبرری جا کر تعلیم حاصل کرتا رہا۔

Share

July 3, 2012

سائنسدان نیل ٹائسن کا ملحدین کو دندان شکن جواب

Filed under: مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 7:12 am

کیونکہ کبھی کبھی جب تک عنوان کلیشے نا ہو، اردو بلاگستان پر تحریر کچھ ادھوری سی معلوم ہوتی ہے۔

 نیل ڈیگراس ٹائسن ایک مشہور امریکی ماہر فلکیات، سائنسی امور کے مصنف و مبصر ہیں۔ الحاد کے علمبردار اکثر انہیں اپنا حامی قرار دیتے ہیں جس سے وہ سخت نالاں ہیں۔ وہ ایتھیسٹ یا ملحد لے بجاےاپنے ٓآپ کو اگناسٹک گردانتے ہیں اور روحانیت پر انکا ایک سائنسدان کئ حیثیت سے مندرجہ زیل موقف ہمارے جدید عسکری ملحدین کے لیے ایک بہترین مثال ہے۔

گذارش یہ ہے کہ تبصرہ کرنے سے پہلے نیل ٹائسن کیا کہ رہے ہیں اسے سن اور سمجھ لیا جاے تو راقم کا مدعا واضع ہو جا؁ے گا۔

Share

Powered by WordPress