فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

August 24, 2012

پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کیوں کیا جاۓ؟ از ڈاکٹر حمید اللہ

Filed under: کتابیات,مذہب — ابو عزام @ 4:43 pm

ڈاکٹر حمید اللہ کی تحریر کردہ فرانسیسی سیرت طیبہ کی کتاب کےاردو ترجمے سے اقتباس

١: تعریف و توصیف اس الله تبارک وتعالیٰ کی جو رب العالمین ہے. ہم اسی ہی کی پرستش کرتے ہیں اور اسی ہی سے مدد مانگتے ہیں. ہمارے پاک پیغمبر حضرت محمّد صلی الله علیہ وسلم نے جو کچھ انسانیت کی اصلاح وفلاح کے لئے کیا ہم اس کی تصدیق وتوقیر کرتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں.

٢: ” رب تعالیٰ جل شانہ، کے پیغمبر ” کا تصور مختلف ممالک، اقوام اور ادوار کے حوالے سے مختلف ہو سکتا ہے. اسلام میں انسان تمام مخلوقات سے اشرف وافضل ہے جب کہ رب تعالیٰ جل شانہ، کے پیغمبر، انسانوں میں سب سے زیادہ اشرف و افضل اور کامل واکمل ہیں. یقینی طور پر یہ بات انسانیت کے بہتر پہلوؤں کے تحت ہی سمجھی جا سکتی ہے.

٣: انسانی زندگی دو عظیم شعبوں میں تقسیم ہے. ایک مادی جب کہ دوسرا روحانی ہے.ان دونوں شعبوں میں ہم آہنگی اور توازن پیدا کرنے کے لیے ایسی حیات مبارکہ کی عملی مثال دینا ہوگی جو فانی انسانوں کی رہنمائی کے لیے ایک مثالی نمونہ ہو.

٤: تاریخ نے ایسے لا تعداد بادشاہوں، دانشوروں، ولیوں اور دوسرے ممتاز راہنماؤں کا ریکارڈ پیش کیا ہے جن کی زندگیاں ہمارے لیے بہترین قابل عمل مثالیں ہیں. پھر آنحضرت محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا مطالعہ کیوں کیا جاۓ جو کہ انسانوں کی طرح ١٤٠٠ سال قبل اس دارفانی سے کوچ فرما گئے اور اس دوران سائنس کی قابل قدر ترقی کے ساتھ ساتھ ہمارے حالات اور زندگی کے بارے میں ہمارے نظریات میں ٹھوس تبدیلیاں آ چکی ہیں؟

٥: ایک مسلمان کے لیے اس کا جواب انتہائی سادہ ہے کہ وہ اس وقت مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے رہبرو رہنما حضرت محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی نہ کرے. لیکن وہ افراد جو ابھی تک نبی آخرالزماں حضرت محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کی سیرت ( سوانح حیات) کی تفصیلات سے آگاہ وآشنا نہیں ہیں ان کے لیے چند حقائق کی یاددہانی اہمیت کی حامل ہے.

(الف) محمد رسول صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کی اپنی نگرانی میں انتہائی قابل اعتماد انداز میں محفوظ کرنے کی خاطر تحریر میں لائی گئیں. دوسرے مختلف بڑے مذاہب کے بانیوں میں سے صرف حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کی ذات پاک نے خوش بخت نظریہ کے تحت وقتا فوقتا رب تعالیٰ جل شانہ، کی جانب سے وحی اور احکامات کو نہ صرف اپنی صحبت کے افراد تک پہنچایا بلکہ اپنے کاتبوں کو لکھوایا اور یہ کہ اس کے کئی نسخے اپنے پیروکاروں تک پہنچانے کا محتاط و محفوظ انتظام فرمایا. جہاں آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے تحفظ کا تعلق ہے یہ مسلمانوں کا مذہبی فریضہ بن گیا کہ وہ رب تعالیٰ جل شانہ، کی جانب سے نازل ہونے والے کلام کے مختلف حصّوں ( اقتباسات) کو اپنی نمازوں میں تلاوت کریں. اس طرح اس متبرک کلام کا زبانی یاد کرنا لازم ہو گیا. یہ روایت بغیر کسی رکاوٹ کے جاری و ساری رہی کہ رب کائنات کے کلام قرآن الحکیم کے تحریر شدہ نسخے محفوظ رکھے جائیں دوسرا یہ کہ انہیں زبانی حفظ کیا جاۓ. یہ دونوں طریقے الله تبارک وتعالیٰ کے کلام کی اصلی زبان میں مستند و معتبر ترسیل و تفسیر میں ایک دوسرے کے مددگر ثابت ہوئے. قرآن الحکیم اپنے مواد کے اعتبار سے “عہد نامہ قدیم ” کی پہلی پانچ کتابوں مع ” عہد نامہ جدید” کی پہلی چار کتابوں سے بھی زیادہ عظیم ہے. چناچہ اس امر میں حیرت و حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ قرآن الحکیم میں تمام شعبہ ہائے حیات کے بارے میں ہدایات موجود ہیں.

(ب) پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم، رب تعالیٰ جل شانہ، کے نبی اور رسول کا عزاز حاصل کرنے پر اپنی اجارہ داری کا اعلان نہیں فرماتے بلکہ اس کے برعکس آپ صلی الله علیہ وسلم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے پہلے الله تبارک وتعالیٰ نے تمام قوموں کے لیے پیغمبر بھیجے. آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان میں سے چند کے نام بھی لیے ہیں جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت ادریس علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام. آپ صلی الله علیہ وسلم نے بتایا کہ جن پیغمبروں کے آپ صلی الله علیہ وسلم نے نام لیے ہیں ان کے علاوہ اور بھی کئی پیغمبر ہیں. آپ صلی الله علیہ وسلم محض یہ دعویٰ فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم حقانیت و وحدانیت کی بحالی کا کردار ادا کرنے آئے ہیں. آپ صلی الله علیہ وسلم سابقہ پیغمبروں کی تعلیمات کا احیاء چاہتے ہیں جو کہ حضرت آدم علیہ السلام و حضرت حوا کے جانشینوں کی بدقسمت تاریخ کے دوران جنگوں اور انقلابات کے ذریعے بے قدری و تنزلی کا شکار ہوئیں. محمد رسول صلی الله علیہ وسلم کی خوش قسمت و مقدّس یادداشت کی بہت مضبوط و مستحکم اور غیر مصالحانہ توثیق و تصدیق یہ رہی کہ رب تعالیٰ جل شانہ، کے کلام کی ترسیل و ابلاغ آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد بھی بر قرار رہی جس سے رب تعالیٰ جل شانہ، کی طرف سے مزید پیغمبر بھیجھنے کی ضرورت نہ رہی. یقینی طور پر ہمارے پاس قرآن الحکیم اور الحدیث اپنی اصلی زبان میں محفوظ ہیں..

(ت) نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم ہونے مشن کے پہلے ہی روز سے تمام دنیا سے مخاطب ہوئے. آپ صلی الله علیہ وسلم کسی قوم یا کسی زمانے تک محدود نہیں رہے. آپ صلی الله علیہ وسلم نے رنگ ونسل اور سماجی ومعاشرتی درجہ بندیوں کی غیر مساوی تقسیم کو تسلیم نہیں کیا. اسلام میں تمام انسان مکمل طور پر برابر ہیں اور ذاتی برتری کی بنیاد نیک اعمال و افعال پرہے.

(ث) انسانی معاشرے میں مکمل طور پر اچھے اور مکممل طور پر برے انسان شاذو نادر ہی ہوتے ہیں. اکثریت کا تعلق متوسط درجہ سے ہوتا ہے. حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم نے یہ سمجھ کر اطمینان حاصل نہیں کیا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم انسانوں میں سے “فرشتوں” سے مخاطب ہیں بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے پیغام کا رخ بنیادی طور پرعام لوگوں اور فانی انسانوں کی بہت زیادہ اکثریت کی جانب رکھا. قرآن الحکیم کے الفاظ میں انسان کو “اس دنیا کے اچھے حصے اور آخرت کے اچھے حصے” کے حصول کے لیے کوشش وکاوش کرنی چاہیے.

(ج) انسانی معاشرے میں عظیم سلاطین، عظیم فاتحین، عظیم مصلحین اور عظیم متقین کی کمی نہیں لیکن زیادہ تر افراد اپنے متعلقہ شعبے ہی میں مہارت اور قدرو قیمت رکھتے ہیں. ان تمام اوصاف کا تمام پہلوؤں کے حوالے سے اجتماع صرف ایک ہی شخص میں ہونا. جیسا کہ سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کی شخصیت میں ہے. نہ صرف بہت ہی نایاب وکمیاب ہوتا ہے بلکہ وہاں ہوتا ہے جب معلم کو اپنی تعلیمات کو بذات خود عملی شکل دینے کا موقع ملتا ہے یعنی جب تدریس و تجربہ میں توازن پیدا ہوتا ہے.

(ح) اتنا کہنا کافی ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم ایک صالح کی حثیت سے ایک مذہب کے بانی ہیں جو دنیا کہ بڑے مذاہب میں سے ایک ہے جس کا ہمیشہ شاندارو جاندار وجود رہا ہے، جس کا نقصان اس کے روزانہ کے فوائد وثمرات کے مقابلہ نہ ہونے کہ برابر ہے. اپنے ہی بتاۓ ہوئے اصول و ضوابط پر انتہائی ریاضت و استقامت کے ساتھ عمل پیرا ہونے کے حوالے سے رحمتہ للعالمین حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ بے داغ ہے. ہم جانتے ہیں کہ ایک سماجی و معاشرتی منتظم کی حیثیت سے پیغمبر اسلام حضرت محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم نے ایسے ملک میں صفرسے سفر کا آغاز کیا جہاں ہر ایک شخص، ہر دوسرے شخص سے برسروکار تھا. سرور کونین حضرت مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کو ایک ایسی ریاست کی بنیاد رکھنے میں دس سال لگے جو تیس ٣٠ لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ کے علاقے میں پھیلی ہوئی تھی اور جس میں تمام جزیرہ نہاے عرب کے ساتھ ساتھ فلسطین اور جنوبی عراق کے علاقے شامل تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم نے اتنی بڑی سلطنت کو اپنے جانشینوں کے لیے ورثہ میں چھوڑا جنہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد پندرہ سال کے عرصے میں اسے یورپ، افریقہ اور ایشیا کے تین براعظموں تک وسعت دے دی.(طبری، جلد اول صفحہ ٢٨١٧ ) فاتح کی حیثیت سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی جنگی وعسکری ہجات میں دونوں جانب سے انسانی جانوں کے ضیاع کی کل تعداد چند سو افراد سے زیادہ نہیں ہے لیکن ان علاقوں کی رعایا میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کامل واکمل تھی. درحقیقت رحمتہ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم نے جسموں کی بجاۓ دلوں پر حکمرانی کی. جہاں تک آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کے مشن کی کامیابی و کامرانی کا تعلق ہے مکہ مکرمہ میں حجتہ الوداع کے موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ڈیڑھ لاکھ پیروکاروں کے اجتماع سے خطاب کیا جب کہ ابھی تک مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد اس تاریخی موقع پر لازما اپنے اپنے گھروں میں رہی ہوگی ( کیونکہ ہر سال حج کرنا فرض نہیں ہے ).

(خ) پیغمبر اسلام حضرت مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم نے جو قوانین اپنے پیروکاروں کے لیےلاگو کیے اپنے آپ کو بھی قوانین سے بالاتر نہیں سمجھا بلکہ اس کے برعکس جس قدر آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیروکاروں سے عمل کی توقع ہو سکتی تھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے بڑھ کر عبادت و ریاضت کی، روزے رکھے اور رب تعالیٰ جل شانہ، کی راہ میں خیرات کی. آپ صلی الله علیہ وسلم انصاف پسند تھے اور حتیٰ کہ اپنے دشمنوں کیساتھ نرمی و ہمدردی سے پیش آتے تھے چاہے وہ امن کا زمانہ یا جنگ کا دور ہو.

(د) آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات سے زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کرتی ہیں یعنی عقائد، روحانی عبادت، اخلاقیات، معاشیات، سیاست الغرض وہ تمام کچھ جس کا انسان کی انفرادی یا اجتماعی، روحانی و مادی زندگی سے ہے. اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان تمام شعبہ ہائے حیات میں اپنے فعل وعمل کی مثال چھوڑی ہے.

٦: چناچہ کسی بھی فرد کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا مطالعہ ضروری کرنا چاہیے اس سے پہلے کہ وہ اس بارے میں کوئی فیصلہ کرے..

Share

August 12, 2012

ونڈوز سرور ایپ فیبرک کک بک کا مختصر تعارف

Filed under: تحقیق,کتابیات — ابو عزام @ 10:30 am

یوں تو راقم عموما تکنیکی کتابوں کے تعارف سے اجتناب برتتا ہے لیکن چونکہ مجھے اس حالیہ کتاب، ونڈوز سرور ایپ فیبرک کک بک کے تکنیکی ناقد ‘رویویر’ ہونے کا اعزاز حاصل ہے تو سوچا کہ یہ روایت شکنی بھی کرتے چلیں۔

پیکٹ پب نامی ادارے کی شائع کردہ ونڈوز سرور ایپ فیبرک کک بک دراصل مائکروسافٹ کے ایپ فیبرک پلیٹ فارم کے بارے میں ایک نہایت کارآمد کتاب ہے جس میں کک بک یا کھانا پکانے کی کتاب کے انداز میں آسان اور زود عمل ترکیبوں سے اس  پلیٹ فارم کا تعارف اور استعمال سکھایا گیا ہے۔ ایپ فیبرک کچھ لائبرریوں کا مجموعہ ہے جس کے زریعہ مندرجہ زیل کام نہایت آسانی کے ساتھ بخوبی کیے جا سکتےہیں۔

ویب سروسز کی مانیٹرنگ یا دیکھ بھال

ویب سروسز کی ہوسٹنگ – آئ آئ ایس او واس کی مدد کے ساتھ

ویب سائٹ اور سروسز کی کیشینگ

 ویب سائٹ اور سروسز کے سیشن کو کسی بڑے ویب فارم پر منتشر انداز میں  تعینات کرنا

یہ کتاب ہمارے عزیز دوست حماد رجوب اور رک گیربے نے لکھی ہے نیز اس کے تکنیکی ادرارتی کام میں زبیر احمد کی مدد حاصل رہی۔

تکنیکی رویور کا کام مصنفین کی تحریر کی افادیت اور صحت کو پرکھنا، اس کے سورس کوڈ اور دیگر مندرجات کے عوامل کی آزمائش  اور اس کی عام فہمی یا ڈویلپر فہمی کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ اس زمن میں راے اور تبصرہ جات مصنفین کو دیئے جاتے ہیں جن کو وہ اپنی تحریر میں تبدیلی کے ساتھ شامل کر لیا کرتے ہیں۔

چار سو صفحات کی اس کتاب میں 60 عدد مختلف ترکیبوں کے ذریعے ایپ فیبرک کا مختلف حالات و مواقع پر استعمال سکھایا گیا ہے۔ ایپ فیبرک کی انستالیشن، کیشنگ، ہوسٹنگ، برقراریت یا پرززٹینس، اس کی مدد سے سروسز کی دیکھ بھال اور سیکیورٹی پر مختلف باب باندھے گئے ہیں نیز اسکرین شاٹ اور تصاویر کی مدد سے ہر عمل کو اچھی طرح سمجھایا گیا ہے۔ حماد اور رک نے نہایت محنت سے اسے ڈویلپرز اور سافٹویر انجینیرز کے لئے ایک آسان فہم  کتاب  بنانے کی سعی کی ہے۔ یہ کتاب ایمزن، پبلشر کی ویب سائٹ اور سفاری آنلائن بکس سے دستیاب ہے۔ نیز برقی کتابوں کے شوقین حضرات کے لئے اس کا کنڈل ورژن بھی دستیاب ہے۔

اگر آپ ڈسٹریبیوٹڈ سلوشنز میں دلچسپی رکھتے ہیں اور مائکروسافٹ کی کنیکٹڈ تیکنالیجیز کے بارے میں زیادہ جاننے کے لئے کوشاں ہیں تو اس کتاب کا مطالعہ نہائت مفید ثابت ہوگا۔

Share

مسلماں زادہ ترکِ نسب کن

Filed under: سیاست,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 9:21 am

اعداے ملت اسلامیہ کا عرصہ دراز سے یہ منشا رہا ہے کہ امت واحدہ کو  نسلی اور وطنی تفرقات میں  بانٹے رکھیں۔ اس کی تازہ ترین مثال روہینگا کے مسلمانوں کے قتل عام پر ڈرائنگ روم لبرلیوں کا یہ ردعمل ہے کہ یہ  ایک نسلی و محدود جغرافیای معاملہ ہے، اس کو مسلمانوں کا مسئلہ بنانے کی کوشش کرنا غلط ہے۔

یہ عدم پرواہی و بے اعتنای ایک نہایت تباہ کن رجحان ہے جو درحقیقیت اورئنٹلزم کا کول ایڈ پینے سے لاحق ہوتا ہے۔ آج سے نہیں عرصہ دراز سے اسی قماش کے لوگ سلطان صلاح الدین ایوبی کو مسلمان نہیں بلکہ کرد فاتح، دولتہ عثمانیہ کو مسلمانوں کی نہیں بلکہ ترکوں کی امارات اور اسپین پر مسلمانوں کی حکومت کو بربروں کی سلطنت قرار دیتے ہیں۔ اس زمن میں قران کا موقف بلکل صاف ہے

و انّ ھذہ امتکم امة واحدة وانا ربکم فاتقون -مومنون ٥٢
اور
انماالمومنون اخوة فاصلحوا بین اخویکم -الحجرات ١٠

اس امت واحدہ کو رنگ و نسل، زبان و وطن اور ویسٹفیلین سوویرنیٹی کی بنیاد پر بانٹنے کا کام اسی کو زیب دیتا ہے جس نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول نا سن رکھا ہو

مثل المومنین فی تواد ہم وتراحمہم وتعاطفہم مثل الجسد والواحد اذا اشتکی منہ عضوتداعی لہ سائرالجسد بالسہر والحمی ﴿متفق علیہ﴾

“مومنوں کی مثال آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے ایک دوسرے کے ساتھ رحم کھانے میں ایک دوسرے کے ساتھ شفقت کرنے میں ایک جسم کے مانند ہے جب اس کا ایک عضو بیمار ہوجاتا ہے تو سارا جسم اس کے لیے بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔”

نیز مزید فرمایا

المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضا ﴿بخاری ۴۸۱ مسلم ۲۵۸۵﴾
“مومن ﴿دوسرے ﴾مومن کے لیے دیوار کے مثل ہے جس کی ایک اینٹ سے دوسرے اینٹ کو مضبوط بناتی ہے۔”

حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشارمومن کو جغرافیائ حدود کا خیال نہیں ہوتا، بحکم الہی وہ قبیلوں اور قوموں کو پہچان کا ذریعہ تو ضرور مانتا ہے لیکن اس کا دل ہر مسلمان کے دکھ درد میں برابر کا شریک ہوتا ہے چاہے وہ شام میں بشار الاسد کے ظلم و ستم سے پنجہ آزما ہو، ایران میں زلزلے کی تباہ کاریوں سے متاثر ہو یا برما کے بدھوں کی سنگینوں کا شکار ہو۔

 سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبرز مقام محمدؐ عربی است

وہ اپنی بے عملی کو چھپانے کے لیے حیلے بہانے نہیں ڈھونڈتا بلکہ جس امر کہ طاقت و قدرت اس کے رب نے عطا کی ہے اتنا عمل کر کے  نتیجہ اپنے خالق پر چھوڑ دیتا ہے۔ اس کو کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں ہوتا اور نا اس کے لیے بوسنیا کا یورپی مسلمان سوڈان کے افریقی مسلمان سے اور کاشغر کے اویغور بھائ سے چنداں مختلف ہوتا ہے۔ وہ تو بس یہ جانتا ہے کہ

نہ افغانیم ونے ترک و تتاریم
چمن زادیم و ازیک شاخساریم

مسلمانوں کی نسل کشی خواہ وہ بوسنیا میں ایتھنک کلینزنگ کے نام پر ہو، یا چاہے کسی جابر حکمراں کے ہاتھوں، اس امت کا برنگِ احمر و خون و رگ و پوست ایک ہے۔ اگر کسی ایک واقعے کو امتداد زمانہ سے زیادہ توجہ ملے اور دوسرے کو کچھ کم تو اس سے امت کے رشتوں میں کمی نہیں آجاتی۔وہ امت کو جغرافیے کی چھری سے ذبح کرنے کے بجاے ببانگ دہل کہتا ہے کہ

ان تازہ خداوں میں بڑا سب سے، وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، مذہب کا کفن ہے
یہ بُت کہ ترا شیدہ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کا شانہ دینِ نبوی ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیں ہے، تو مصطفوی ہے

امت میں نفاق کے پروردہ لوگوں کو مژدہ ہو کہ عربوں و ترکوں کو میانمارمیں اپنوں کا خون دامے درمے سخنے کھینچ لایا، تورانی و افغانی کی تمیز نا رہی، یہی منتہاے ملت ہے ،عرب نازد اگر، ترکِ عرب کن۔ و من الله توفیق۔

Share

August 10, 2012

دیسی لبرل کا تضاد، ایک خط

Filed under: ادبیات,طنزومزاح — ابو عزام @ 7:43 pm

برادرم ابوعزام

آداب و تسلیمات

آپ کا پچھلا خط ملا، پڑھ کر دل باغ باغ ہوگیا، کیاکہنا ایسی آزادانہ فصاحت و بلاغت کا، قربان جائیے۔ قبلہ پاپوش میں لگائ کرن آفتاب کی، آپ کے علم وہنر  کے تو ہم قتیل ٹھرے، مگر بس یہ بات ہمارے درمیان ہی رہےکہ مسلک ہاے دیسی لبرلیت میں تعقل مستعار کی انفرادیت صرف مغربانہ گردانوں سے ثابت ہوتی ہے، اپنے علما وفضلا و فصحا تحصیل علم و ہنر میں اپنی زندگیاں کھپا بیٹھے، ہم نے کبھی غلطی سے بھی نا سوچا کہ انکے افکار و تشریحات کا مطالعہ کریں، ان کو سمجھے خدا کرے کوئ، تپائ پر کتاب فرقان دھری ہو اور قران کا کا مہینہ گذر جاے پر ہمارے لیے تو بس ڈاکنس کا سہارا کافی ہے باقی تو پی ٹی آی کےجلسے کے شرکا سے ذہنی ہم آہنگی بڑی ضروری ٹھری کہ کیا خوب کہا تاباں نے

یا تنگ نہ کر ناصح ناداں، مجھے اتنا
یا چل کے دکھا دے ، دہن ایسا، کمر ایسی

ارے قبلہ، ایک بات لطیفے کی سنیں۔ حال ہی میں پتا چلا کہ مملکت خداداد میں ایک فرد نے پانی نے گاڑی چلانے کا دعوی کیا۔ ہونا کیا تھا، خوب گھمسان پڑا، سائنسدانوں کو راے زنی کے لئے بلایا گیا اور انہوں نے عرض کی کہ یہ طبعیات کے قوانین کے ٘قطعی مخالف بات ہے، اور توانائ کے تحفظ کا قانون اس  بات کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔ ہر ایک نے ان صاحب علم افراد کی باتوں کو غور سے سنا اور تسلیم کیا، کسی اینکر و تبصرہ نگار نے یہ کہنے کی کوشش نا کی کہ جناب عالی، سائنس اور اسکے قوانین  تو یہ ہیں لیکن میں ان سے متفق نہیں۔ میری راے میں حر حرکیات کے پہلے قانون کا ڈیلٹا درحقیقت ڈفرینشیل نہیں، بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اینٹروپی کا گھٹنا بڑھنا ایک تمثیلی شے ہے، اس کی توجیح یوں کی جا سکتی ہے کہ ۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ تذبذب شائد اس لئے کیونکہ سائنس کے علما، جنہوں نے اس علم میں اپنی عمر لگائ اور ان تمام قوانین کو سمجھا اور اس کے بعد قانون کا اس خاص مسئلے پر اطلاق بتلایا کی راے موجود ہے، اب اس کے خلاف کرنے والا اپنے  آپ کو نکو بنوانے کے سوا کچھ اور حاصل نا کرے گا کہ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں۔

لیکن حضرت، یہ سن کر آپکو چنداں حیرت نا ہو کہ ہماری جماعت دیسی لبرلین کی دانست میں دین کا معاملہ بلکل اس کے برعکس ہے۔ ہمارا مسلک تو یہ ہے برادرم موجد باب فصاحت، کہ ہر دینی و فقہی مسئلے پر ہر فرد کو، چاہے کتنا ہی کم علم کیوں نا ہو، اظہار راے کی کھلی چھٹی حاصل ہے، روایت و درایت کا کیا لحاظ اور تقدیم و تاخیرکا کیا بھروسہ۔آپ کے پاس ایک عدد آی فون ہونا چاہیے۔ اسلامی حکومت، اخلاقی قدریں، معیشیت و معاشرت سے لے کر علم حدیث،  فقہ اور  منطق تک کے دقیق مسائل پر لبرلی ٹوئٹوں کا انبار لگانا ہو تو ہم گوگلی علم و ہنر کے ہرکارے حاضر ہیں۔ یعنی کہ محترم، آپ اسے تضاد کیوں سمجھے، یہ تو عین حق ہے، کچھ حاسدین اسے دوغلے پن سے تعبیر کرتے ہیں، انکی ذرا نا سنیں، غالب برا نا مان جو واعظ برا کہے، ہنہہ، بھلا بتائیں، ہم تو اسی دعوے سے کہتے ہیں اس کا اگلا مصرعہ ہے کہ  کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا ۔دیسی لبرل گیم بک کا کہنا ہے جب کوئ تہمت منافقت لگاے تو فورا بات فرقہ بندی، مسالک ومذاہب کے اختلافات پر ڈال دی جاے کیونکہ جناب، سب بولئن والے جانتے ہیں کہ دو غلط جمع ہوں تو بات صحیح ہو جاتی ہے۔

سائنس کے قانون پر بات کرنے سے ہر ایک ڈرتا ہے لیکن خدا کے قانون کے لئے ہر ایک کے پاس واثق راے موجود ہے۔

۔خط تو بڑی محبت اور ارادت کا لکھا ہے،  ساتھ ہی ایک حسب حال ‘م‘ بھی منسلک ہے، دیکھیں آپ کا کیا مدعا بنتا ہے

نیازمند

ایک دیسی لبرل

Share

August 4, 2012

ایک پراسرار کتاب کی آمد

Filed under: کتابیات — ابو عزام @ 2:39 pm

صبح کا وقت تھا کہ دروازے پر دستک ہوئ، کھولا تو باہر ڈاکیا کھڑا تھا ایک عدد ڈبے کے ساتھ اور راقم کے دستخط کا متمنی تھا، آٹوگراف لینے کے بعد وہ مرد فیڈایکس تو اپنی منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہوا لیکن ہمیں انصاری روڈ دہلی سے آنے والے اس پیکٹ کی بابت حیران و پریشان چھوڑ گیا۔

 ڈبے کا حجم و وزن خاصہ تھا لہذا گمان غالب تھا کہ یہ گدی نشینوں کا خط تو نہیں ہو سکتا الا یہ کہ انہوں نے صاحب قبر کی نشانی ایک اینٹ بطور تحفہ بھیج دی ہو۔پھر یہ دیکھا کہ  کہیں اس میں سے ٹک ٹک کی کوئ آواز تو نہیں آرہی کیونکہ دلی کی سرکار سے ہمارے تعلقات اسوقت سے نسبتا کشیدہ ہیں جب سے وہ  ہمارے پاکستانی پاسپورٹ کو سان فرانسسکو سے نئی  دہلی بھیج  کر بھول گئے ہیں۔ یعنی تقریبا ایک سال سے زائد کا عرصہ ہونے کو آگیا مگر ہر انکوئری کا جواب یہی ہوتا ہے کہ تخت دہلی کو صبر کا مزید امتحان مطلوب ہے۔  بہرحال، یہ تو جملہ معترضہ تھا، واپس آتے ہیں ڈبے کی طرف۔ چونکہ اتفاقا آج ہماری ۳۲ ویں سالگرہ بھی تھی تو گمان ہوا کہ شائد کسی دوست نے دست التفات بڑھایا ہو لیکن چونکہ  مہر ایمزن موجود نا تھی لہذا یہ خیال بھی جاتا رہا۔ ہمارے کتابی ریویوز کے گروپیز کا خیال بھی وارد ہوا لیکن بالحاظ صوم اسے فورا جھٹک ڈالا۔

 تو کسی جتن صاحب کی طرف سے انصاری روڈ دہلی سے آنے والی اس ڈاک کو آہستہ آہستہ کھولا، اور جب دیکھا تو اندر سےمیاں نہرو برآمد ہوے، یعنی کی انکی ۱۱۰۰ صفحات کی یہ ضخیم تصنیف گلمپسس آف ورلڈ ہسٹری یا دنیا کی تاریخ کا ایک اجمالی جائزہ جسے پینگوئن والوں نے شائع کیا تھا۔ جب تعارف پڑھنا شروع کیا تو پتا چلا کہ حلقہ محققین میں تو بڑے پاے کی کتاب مانی جاتی ہے اور نیویارک ٹائمز نے اسے ایچ جی ویلز کی تاریخ کے خاکوں کی کتاب سے اعلی و ارفع گردانا ہے۔ لیکن یہ سوال ابھی تک باقی ہے کہ یہ کون مہربان و قدردان ہے جس نے راقم کو۷۰ ڈالر کی یہ کتاب مفت میں ارسال کردی۔اب ظاہر سی بات ہے پبلشر نے تو ہمارے کتابی جائزوں سے متاثر ہو کر یہ کام نا کرنا تھا، لیکن قبلہ، جس جہاں میں حرحرکیات و طبعیات کے قوانین لائیو ٹیلیوژن پر توڑے جا رہے ہوں وہاں اس سے کیا بعید۔

نقشوں اور حوالہ جات سے بھرپور یہ کتاب چندرگپت موریا سے لے کر چنگیز خان، سلطنت عثمانیہ اور تاج برطانیہ اور بعد تک کی انسانی تاریخ کی روداد  سناتی ہے، اس کا رمضان کے بعد مطالعہ شروع کرنے کا ارداہ ہے  اور اسکا جائزہ پیش کرنے کی کوشش بھی کروں گا لیکن یہ کتاب کہاں سے آئ کی پہیلی کو بوجھنے اور جواہر لال نہرہ کی لکھی ہوئ ۱۱۰۰صفحات کی کتاب پڑھنے کے لیے

چیتے کا جگر چاہئیے شاہیں کا تجسس

تحديث, عقدہ یہ کھلا کہ ہمارے عزیز دوست پیرمحمد راجا المعروف راجا پیر نے سالگرہ کے تحفے کے طور پر یہ کتاب ہمیں بھیجی تھی اور ان کی زبانی وہ اس ‘پرینک’ اور ہماری بلاگ پوسٹ سے خاصے محظوظ ہوے۔ امید ہے پیر صاحب کی دیکھا دیکھی دیگر احباب بھی اس روایت کو جاری و ساری رکھیں گے۔

Share

Powered by WordPress