برادرم ابوعزام
آداب و تسلیمات
آپ کا پچھلا خط ملا، پڑھ کر دل باغ باغ ہوگیا، کیاکہنا ایسی آزادانہ فصاحت و بلاغت کا، قربان جائیے۔ قبلہ پاپوش میں لگائ کرن آفتاب کی، آپ کے علم وہنر کے تو ہم قتیل ٹھرے، مگر بس یہ بات ہمارے درمیان ہی رہےکہ مسلک ہاے دیسی لبرلیت میں تعقل مستعار کی انفرادیت صرف مغربانہ گردانوں سے ثابت ہوتی ہے، اپنے علما وفضلا و فصحا تحصیل علم و ہنر میں اپنی زندگیاں کھپا بیٹھے، ہم نے کبھی غلطی سے بھی نا سوچا کہ انکے افکار و تشریحات کا مطالعہ کریں، ان کو سمجھے خدا کرے کوئ، تپائ پر کتاب فرقان دھری ہو اور قران کا کا مہینہ گذر جاے پر ہمارے لیے تو بس ڈاکنس کا سہارا کافی ہے باقی تو پی ٹی آی کےجلسے کے شرکا سے ذہنی ہم آہنگی بڑی ضروری ٹھری کہ کیا خوب کہا تاباں نے
یا تنگ نہ کر ناصح ناداں، مجھے اتنا
یا چل کے دکھا دے ، دہن ایسا، کمر ایسی
ارے قبلہ، ایک بات لطیفے کی سنیں۔ حال ہی میں پتا چلا کہ مملکت خداداد میں ایک فرد نے پانی نے گاڑی چلانے کا دعوی کیا۔ ہونا کیا تھا، خوب گھمسان پڑا، سائنسدانوں کو راے زنی کے لئے بلایا گیا اور انہوں نے عرض کی کہ یہ طبعیات کے قوانین کے ٘قطعی مخالف بات ہے، اور توانائ کے تحفظ کا قانون اس بات کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔ ہر ایک نے ان صاحب علم افراد کی باتوں کو غور سے سنا اور تسلیم کیا، کسی اینکر و تبصرہ نگار نے یہ کہنے کی کوشش نا کی کہ جناب عالی، سائنس اور اسکے قوانین تو یہ ہیں لیکن میں ان سے متفق نہیں۔ میری راے میں حر حرکیات کے پہلے قانون کا ڈیلٹا درحقیقت ڈفرینشیل نہیں، بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اینٹروپی کا گھٹنا بڑھنا ایک تمثیلی شے ہے، اس کی توجیح یوں کی جا سکتی ہے کہ ۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ تذبذب شائد اس لئے کیونکہ سائنس کے علما، جنہوں نے اس علم میں اپنی عمر لگائ اور ان تمام قوانین کو سمجھا اور اس کے بعد قانون کا اس خاص مسئلے پر اطلاق بتلایا کی راے موجود ہے، اب اس کے خلاف کرنے والا اپنے آپ کو نکو بنوانے کے سوا کچھ اور حاصل نا کرے گا کہ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں۔
لیکن حضرت، یہ سن کر آپکو چنداں حیرت نا ہو کہ ہماری جماعت دیسی لبرلین کی دانست میں دین کا معاملہ بلکل اس کے برعکس ہے۔ ہمارا مسلک تو یہ ہے برادرم موجد باب فصاحت، کہ ہر دینی و فقہی مسئلے پر ہر فرد کو، چاہے کتنا ہی کم علم کیوں نا ہو، اظہار راے کی کھلی چھٹی حاصل ہے، روایت و درایت کا کیا لحاظ اور تقدیم و تاخیرکا کیا بھروسہ۔آپ کے پاس ایک عدد آی فون ہونا چاہیے۔ اسلامی حکومت، اخلاقی قدریں، معیشیت و معاشرت سے لے کر علم حدیث، فقہ اور منطق تک کے دقیق مسائل پر لبرلی ٹوئٹوں کا انبار لگانا ہو تو ہم گوگلی علم و ہنر کے ہرکارے حاضر ہیں۔ یعنی کہ محترم، آپ اسے تضاد کیوں سمجھے، یہ تو عین حق ہے، کچھ حاسدین اسے دوغلے پن سے تعبیر کرتے ہیں، انکی ذرا نا سنیں، غالب برا نا مان جو واعظ برا کہے، ہنہہ، بھلا بتائیں، ہم تو اسی دعوے سے کہتے ہیں اس کا اگلا مصرعہ ہے کہ کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا ۔دیسی لبرل گیم بک کا کہنا ہے جب کوئ تہمت منافقت لگاے تو فورا بات فرقہ بندی، مسالک ومذاہب کے اختلافات پر ڈال دی جاے کیونکہ جناب، سب بولئن والے جانتے ہیں کہ دو غلط جمع ہوں تو بات صحیح ہو جاتی ہے۔
سائنس کے قانون پر بات کرنے سے ہر ایک ڈرتا ہے لیکن خدا کے قانون کے لئے ہر ایک کے پاس واثق راے موجود ہے۔
۔خط تو بڑی محبت اور ارادت کا لکھا ہے، ساتھ ہی ایک حسب حال ‘م‘ بھی منسلک ہے، دیکھیں آپ کا کیا مدعا بنتا ہے
نیازمند
ایک دیسی لبرل
عمدہ۔
ٹوئٹر پر تو ایک سے ایک بڑا مفتی موجود ہے۔ جو بنت عنب سے افطار اور حشیش سے سحر کو روا بلکہ مباح سمجھتا ہے۔
Comment by جعفر — August 10, 2012 @ 10:34 pm
تبصرے کا شکریہ استاذ جعفر، بنت عنب سے افطار، بہت خوب۔ ان ٹوئٹراٹیوں کی حشر سامانیوں پر تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ
گو واں نہیں ، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبے سے ان بتوں کو نسبت ہے دور کی
Comment by ابو عزام — August 11, 2012 @ 8:13 am
لکھا تو آپ نے حسب معمول اچھا ہی ہے پر ہمارا سوال یہ ہے کیا واقعی پانی سے گاڑی چلائی گئی تھی یا میڈیا اسٹنٹ تھا؟
Comment by علی — August 11, 2012 @ 2:32 am
تبصرے کا شکریہ علی صاحب۔ رہی گاڑی کی بات تو
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
Comment by ابو عزام — August 11, 2012 @ 8:06 am
جو مطلب کی عبارت تھی اسے پنجوں سے گھس ڈالا
کبوتر لے کر آیا ہے میرے خط کا جواب آدھا
حضور عرض ہے کہ کچھ ہوا نا ہوا سلسہ تہاٰے دراز ہوا ۔ مرد جوہر کے جواہر سر بازار لٹے اور آپ ہیں کہ اختلاف نا ہوا؟
محترم قوانین فزکس جنہیں منچلے قوانین فطرت کہنے سے نہیں چوکتے کسی قراداد مقاصد کے محتاج نہیں اور نا ہی کسی گامے ماجے اور ساجھے کے بحث اور فتووں سے انکی حقانیت پر کوئی حرف آتا ہے اور نا ہی انہیں کسی ملک کے قوانین توہین کی حفاظت درکار ہے۔ لیکن ایک بند ڈبے میں ایک معجزہ رونما ہوتو انکی اتنی سی خواہش ہے کہ تشکیک کے رد کے لیے ثبوت پیش کرتے چلیں۔ انکا دائیں بائیں کی بحث سے کیا لینا؟
تحقیق کے محلے میں یقین کی سودا لے آئے ہیں تو سوال ہے کہ کیا طبع نازک پر تشکیک کی ریتی برداشت ہوگی؟ یا ہمیشہ کی طرح عدم ثبوت منفی گویا ثبوت موجود کی تکرار؟
Comment by راشد کامران — August 11, 2012 @ 8:24 am
تبصرے کا شکریہ راشد بھائ،
نفس مضمون کا تعلق اس امر سےہے کہ علماء سائینس اور علماء دین کی اتباع میں جو تضاد پایا جاتا ہے وہ کس قدر وسیع ہے۔ آپ جن قوانین کو مستقلا قوانین فطرت قرار دینے پر تلے ہیں ان میں تغیر اور ذہنی اپچ کی تبدیلیوں سے مستقل نئی باتیں سامنے آتی رہتی ہیں، جو سائنسی تحقیق کا مبدا و منتہی ہے، اس سے ہمیں کلام نہیں۔
Comment by ابو عزام — August 13, 2012 @ 6:18 am
سائنس اتھارٹی نہیں بلکہ استدلال کی محتاج ہے۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کس نے کہا ہے۔ فرق اس سے پڑتا ہے کہ کیا اور کیوں کہا گیا ہے۔
اس کے برعکس مذہب میں اتھارٹی اور اس اتھارٹی پر اندھا اعتقاد ہی سب کچھ ہے۔ کوئی خاص اہمیت نہیں کہ کیا اور کیوں کہا گیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ کس نے کہا ہے۔ اور بس اعتقاد لے آؤ۔
ملا اور حکیم کا موزانہ کاہے کا ؟
سائنس اور مذہب کا موازنہ کیونکر ؟
Comment by عثمان — August 11, 2012 @ 10:43 am
تبصرے کا شکریہ عثمان صاحب،
مضمون میں راقم کا مدعا سائنس و مذہب کا موازنہ نہیں بلکہ دونوں طرف کے علما کے لئے معاشرے میں موجود عمومی رجحان کے تضاد کی طرف توجہ دلانا مقصود تھا۔ نیز یہ کہنا کہ سائنس اتھارٹی نہیں بلکہ استدلال کی محتاج ہے، اصولی طور پر تو بلکل درست ہے لیکن حقیقت میں سائنسی تحقیق انسانی بائیس سے ماورا نہیں۔ آپ ‘گاڈ دز ناٹ پلے ڈائس’ سے لے کر واٹسن کے نسلی رجحانات تک کو دیکھ کر اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
Comment by ابو عزام — August 13, 2012 @ 6:32 am