فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

September 23, 2012

سیرت کا پیغام

Filed under: کتابیات,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 7:34 pm

انسانی تاریخ کے منظر میں ہمارے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی بلند و بلا شخصیت اتنی ابھرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ جب ابتدا سے لیکر اب تک کے بڑے سے بڑے تاریخی انسان جن کو دنیا اکابر میں شمار کرتی ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کے مقابلے میں لاۓ جاتے تو آپ کے آگے بونے نظر آتے ہیں. دنیا کے اکابر میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کے کمال کی چمک دھمک انسانی زندگی کے ایک دو شعبوں سے آگے بڑھ سکی. کوئی نظریات کا بادشاہ ہے مگر عملی قوت نہیں رکھتا ہے. کوئی عمل کا پتلا ہے مگر فکر میں کمزور ہے. کسی کے کمالات سیاسی تدبر تک محدود ہیں. کوئی محض فوجی ذہانت کا مظہر ہے. کسی کی نظر اجتماعی زندگی کے ہر ایک پہلو سے اتنی زیادہ گہری جمی ہیں کہ دوسرے پہلو اوجھل ہو گئے ہیں.کسی نے اخلاق اور روحانیت کو نظر انداز کر دیا. غرض تاریخ میں یک رخےہیرو ہی نظر اتے ہیں مگر تنہا آنحضور صلی الله علیہ وسلم ہی کی شخصیت ایک ایسی ہے جس میں تمام کمالات جمع ہیں. وہ خود ہی فلسفی اورحکیم بھی ہے اور خود ہی اپنے فلسفے کو عملی زندگی میں نافذ کرنے والا بھی. وہ سیاسی مدبر بھی ہے، فوجی لیڈر بھی ہے، وضع قانون بھی ہے معلم اخلاق بھی ہے، مذہبی اور روحانی پیشوا بھی ہے. اس کی نظر انسان کی پوری زندگی پر پھیلتی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی تفصیلات تک دی جاتی ہے. کھانے اورپینے کے آداب اور جسم کی صفائی کے طریقوں سے لیکر بین الاقوامی تعلقات تک ایک ایک چیز کے متعلق وہ احکام اور ہدایت دیتا ہے، اپنے نظریات کے مطابق ایک مستقبل تہذیب وجود میں لاکر دکھا دیتا ہے اورزندگی کے تمام مختلف پہلوؤں میں ایسا صحیح توازن  قائم کرتا ہے کہ افراط و تفریط کا کہیں نشان تک نظرتک نہیں آتا. کیا کوئی دوسرا شخص اس جامعیت کا پیش کیا جا سکتا ہے؟

سیرت کا پیغام تفہیمات، چہارم۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی

Share

September 17, 2012

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال نفس اور مکارم اخلاق

Filed under: کتابیات,مذہب — ابو عزام @ 1:00 am

بردباری، قوت برداشت، قدرت پا کر درگزر اور مشکلات پر صبر ایسے اوصاف تھے جنکے زریعہ الله نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی تربیت کی تھی. ہر حلیم و بردباری کی کوئی نہ کوئی لغزش اور کوئی نہ کوئی زبان کی بے احتیاطی جانی جاتی ہے مگر صلی الله علیہ وسلم کی بلندی کردار کا عالم یہ تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے خلاف دشمنوں کی ایذا ارسانی اور بدمعاشوں کی خود سری و زیادتی جس قدر بڑھتی گئی آپ صلی الله علیہ وسلم کے صبرو حلم میں اسی قدر اضافہ ہوتا گیا.

حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو جب بھی دو کاموں کے درمیان اختیار دیا جاتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم وہی کام اختیار فرماتے تھے جو آسان ہوتا، جب تک کہ گناہ کا کام نہ ہوتا. اگر گناہ کا کام ہوتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے بڑھ کر اس سے دور رہتے. آپ صلی الله علیہ وسلم نے کبھی اپنے نفس کے لیے انتقام نہ لیا! البتہ اگر الله کی حرمت چاک کی جاتی تو آپ صلی الله علیہ وسلم الله کے لیے انتقام لیتے.

آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے بڑھ کر غیظ و غضب سے دور تھے اور سب سے جلد راضی ہو جاتے تھے.

جود و کرم کا وصف ایسا تھا کہ اسکا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا. آپ صلی الله علیہ وسلم اس شخص کی طرح بخشش و نوازش فرماتے تھے جسے فقر کا اندیشہ ہی نہ ہو. ابن عبّاس رضی الله تعالیٰ عنہا کابیان ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سب سے بڑھ کر پیکر جود و سخا تھے. اور آپ صلی الله علیہ وسلم کا دریاۓ سخاوت رمضان میں اس وقت زیادہ جوش پر ہوتا جب حضرت جبریل علیہ السلام آپ صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات فرماتے اور حضرت جبریل علیہ السلام رمضان میں آپ صلی الله علیہ وسلم سے ہر رات ملاقات فرماتے اور قرآن کا دور کراتے. پس رسول صلی الله علیہ وسلم خیر کی سخاوت میں (خزائن رحمت سے مالا مال کر کے) بھیجی ہوئی ہو اسے بھی زیادہ پیش پیش ہوتے تھے.. حضرت جابر کا ارشاد ہے کہ ایسا کبھی نہ ہوا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے کوئی چیز مانگی گئی ہو اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے نہیں کہہ دیا ہو..

شجاعت، بہادری اور دلیری میں بھی آپ کا مقام سب سے بلند اور معروف تھا. آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے زیادہ دلیر تھے. نہایت کٹھن اور مشکل مواقع پر جبکے اچھے اچھے جانبازوں اور بہادروں کے پاؤں اکھڑ گئے آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی جگہ برقرار رہے اور پیچھے ہٹنے کی بجاۓ آگے ہی بڑھتے گئے. پاۓ ثبات میں ذرا لغزش نہ آئی بڑے بڑے بہادر بھی کبھی نہ کبھی بھاگے اور پسپا ہوئے. مگر آپ صلی الله علیہ وسلم میں یہ بات کبھی نہیں پائی گئی. حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ کابیان ہے کہ جب زور کا رن پڑتا اور جنگ کے شعلے خوب بھڑک اٹھتے تو ہم رسول صلی الله علیہ وسلم کی آڑ لیا کرتے تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی شخص دشمن کے قریب نہ ہوتا.

حضرت انس کا بیان ہے کہ ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا لوگ شور کی طرف دوڑتے تو راستے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم واپس آتے ہوئے ملے. آپ صلی الله علیہ وسلم لوگوں سے پہلے ہی آواز کی جانب پہنچ( کر خطرے کے مقام کا جائزہ لے) چکے تھے. اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم ابو طلحہ رضی الله تعالیٰ عنہ کے بغیر زین کے گھوڑے پر سوار تھے. گردن میں تلوار حمائل کر رکھی تھی اور فرما رہے تھے، ڈرو نہیں ڈرو نہیں. ( کوئی خطرہ نہیں).

آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے زیادہ حیاواراور پست نگاہ تھے. ابو سعید خدری رضی الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم پردہ نشین کنواری عورت سے بھی زیادہ حیا وار تھے. جب آپ صلی الله علیہ وسلم کو کوئی بات ناگوار گزرتی تو چہرے سے پتا لگ جاتا. اپنی نظریں کسی کے چہرے پرگاڑتے نہ تھے. نگاہ پست رکھتے تھے اور آسمان کی بہ نسبت زمین کی طرف نظر زیادہ دیر تک رہتی تھی. عموما نیچی نگاہ سے تاکتے. حیا اور کرم نفس کا علم یہ تھا کہ کسی سے ناگوار بات رو رو نہ کہتے اور کسی کی کوئی ناگوار بات آپ صلی الله علیہ وسلم تک پہنچتی تو نام لیکر اس کا ذکر نہ کرتے بلکہ یوں فرماتے کہ کیا بات ہے کہ کچھ لوگ ایسا کر رہے ہیں. فرزدق کے اس شعر کےسب سے زیادہ صحیح مصداق آپ صلی الله علیہ وسلم تھے:

یغضی حیاء و یغضی من مھا ہته فلا یکلم الا حین یبتسم

آپ حیاء کے سبب اپنی نگاہ پست رکھتے ہیں اور اپ کی ہیبت کے سبب نگاہیں پست رکھی جاتی ہیں’ چناچہ آپ سے اسی وقت گفتگو کی جاتی ہے جب آپ تبسم فرما رہے ہوں

آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے زیادہ عادل، پاک و امن، صادق اللہجہ اور عظیم الامانتہ تھے. اس کا اعتراف آپ صلی الله علیہ وسلم کے دوست دشمن سب کو ہے. نبوت سے پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم کو امین کہا جاتا تھا اور دور جاہلیت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس فیصلے کے لئے مقدمات لاۓ جاتے تھے. جامع ترمذی میں حضرت علی سے مروی ہے کہ ایک بار ابو جہل نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے کہا: ہم آپ کو جھوٹا نہیں کہتے البتہ آپ صلی الله علیہ وسلم جو کچھ لیکر آئے ہیں اسے جھٹلاتے ہیں. اس پر الله تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

“یہ لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کو نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم الله کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں “

ہرقل نے ابو سفیان سے دریافت کیا کہ کیا اس (نبی صلی الله علیہ وسلم) نے جو بات کہی ہے اس کے کہنے سے پہلے تم لوگ ان پر جھوٹ کا الزام لگاتے تھے؟ تو ابو سفیان نے جواب دیا کہ نہیں

آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے زیادہ متواضع اور تکبر سے دور تھے. جس طرح بادشاہوں کے لیے ان کے خدّام و حاشیہ بردار کھڑے رہتے ہیں اس طرح اپنے لیے صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہ کو کھڑا ہونے سے منع فرماتے تھے. مسکینوں کی عیادت کرتے تھے، فقراء کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے، غلام کی دعوت منظور فرماتے تھے. صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہ میں کسی امتیاز کے بغیر ایک عام آدمی کی طرح بیٹھتے تھے، حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے جوتے خود ٹانکتے تھے، اپنے کپڑے خود سیتے تھے اور اپنے ہاتھ سے اس طرح کام کرتے تھے جیسے تم میں سے کوئی آدمی اپنے کام کاج کرتا ہے. آپ صلی الله علیہ وسلم بھی انسانوں میں سے ایک انسان تھے اپنے کپڑے خود ہی دیکھتے کہ کہیں اس میں جوں نہ ہو اپنی بکری خود دہتے تھے اور اپنا کام خود کرتے تھے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے بڑھ کر عہد کی پابندی اور صلہ رحمی فرماتے تھے، لوگوں کے ساتھ سب سے زیادہ شفقت اور رحم و مروت سے پیش آتے تھے، رہائش اور ادب میں سب سے اچھے تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم کا اخلاق سب سے زیادہ کشادہ تھا. بدخلقی سے سب سے زیادہ دورو نفور تھے. نہ عادتا فحش گو تھے نہ بہ تکلف فحش کہتے تھے، نہ لعنت کرتے تھے. نہ بازار میں چیختے چلاتے تھے نہ برائی کا بدلہ۔ برائی سے دیتے تھے، بلکہ مافی اور درگزر سے کام لیتے تھے کسی کو اپنے پیچھے چلتا ہوا نہ چھوڑتے تھے. اور نہ کھانے پینے میں اپنے غلاموں اور لونڈیوں پر ترفع اختیار فرماتے تھے. اپنے خادم کا کام خود ہی کر دیتے تھے. کبھی اپنے خادم کو اف نہیں کہا. نہ اس پر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پرعتاب فرمایا. مسکینوں سے محبت کرتے، ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور ان کے جنازوں میں حاضر ہوتے تھے. کسی فقر کی وجہ سے حقیر نہیں سمجھتے تھے. ایک بار آپ صلی الله علیہ وسلم سفر میں تھے. ایک بکری کاٹنے پکانے کا مشورہ ہوا. ایک نے کہا’ ذبح کرنا میرے ذمہ، دوسرے نے کہا کھال اتارنا میرے ذمہ، تیسرے نے کہا پکانا میرے ذمہ، نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ایندھن کی لکڑیاں جمع کرنا میرے ذمہ، صحابہ نے عرض کیا. ہم آپ صلی الله علیہ وسلم کاکام کر دینگے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں جانتا ہوں کہ تم لوگ میرا کام کردوگے لیکن میں پسند نہیں کرتا کہ تم امتیاز حاصل کرو کیونکہ الله اپنے بندوں کی یہ حرکت ناپسند کرتا ہے کہہ اپنے آپ کو اپنے رفقاء میں ممتاز سمجھے”. اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے اٹھ کر لکڑیاں جمع فرمائیں.

آیئے ذرا ہند بن ہالہ کی زبانی رسول صلی الله علیہ وسلم کے اوصاف سنیں. ہند اپنی ایک طویل روایت میں کہتے ہیں: رسول الله صلی الله علیہ وسلم پیہم غموں سے دو چار تھے. ہمیشہ غورو فکر فرماتے رہتے تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے راحت نہ تھی. بلا ضرورت نہ بولتے تھے. دیر تک خاموش رہتے تھے. ازاول تا آخر بات پورے منہ سے کرتے تھے، یعنی صرف منہ کے کنارے سے نہ بولتے تھے. جامع اور دو ٹوک کلمات کہتے تھے جن میں فضول گوئی ہوتی تھی اور نہ کوتاہی.

نرم خو تھےجفاجو اور حقیر نہ تھے، نعمت معمولی بھی ہوتی تو اس کی تعظیم کرتے تھے. کسی چیز کی مذمّت نہیں فرماتے تھے. کھانے کی نہ برائی کرتے تھے. نہ تعریف حق کو کوئی نقصان پہنچاتا تو جب تک انتقام نہ لیتے آپ صلی الله علیہ وسلم کے غضب کو روکا نہ جا سکتا تھا. البتہ کشادہ دل کے تھے؛ اپنی نفس کے لیے نہ غضبناک ہوتے نہ انتقام لیتے. جب اشارہ فرماتے تو پوری ہتھیلی سے اشارہ فرماتے اور تعجب کے وقت ہتھیلی پلٹتے. جب غضبناک ہوتے تو رخ پھیر لیتے اور جب خوش ہوتے تو نگاہ پست فرمالیتے. آپ صلی الله علیہ وسلم کی بیشتر ہنسی تبسسم کی صراط میں تھی. مسکراتے تو دانت اولوں کی طرح چمکتے
لا یعنی بات سے زبان کو روکھے رکھتے. ساتھیوں کو جوڑتے تھے، توڑتے نہ تھے. ہر دم قوم کے معزز آدمی کی تکریم فرماتے تھے. اور اسی کو ان کا والی بناتے تھے. لوگوں (کے شر) سے محتاط رہتے اور ان سے بچاؤ اختیار فرماتے رہتے تھے . لیکن اس کے لیے کسی سے اپنی خندہ چبینی ختم نہ فرماتے تھے…

اپنے اصحاب رضی الله تعالیٰ عنہ کی خبر گیری کرتے اور لوگوں کے حالت دریافت فرماتے. اچھی چیز کی تحسین و تصویب فرماتے اور بری چیز کی تقبیح و توہین. معتدل تھے، افراط و تضریط سے دور تھے. غافل نہ ہوئے تھے کہ مبادا لوگ بھی غافل یا ملول خاطر ہو جائیں. ہر حالت کیلئے مستعد رہتے تھے. حق سے کوتائی نہ فرماتے تھے، نہ حق سے تجاوز فرما کرنا حق کی طرف لے جاتے تھے. جو لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کے قریب رہتے تھے وہ سب سے اچھے لوگ تھے اور ان میں ابھی آپ صلی الله علیہ وسلمکے نزدیک افضل وہ تھا جو سب سے بڑھ کر خیر خواہ ہو؛ اور سب سے زیادہ قدر آپ صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک اس کی تھی جو سب سے اچھا غمگسارومدد گار ہو..

آپ صلی الله علیہ وسلم اٹھتے بیٹھتے الله کا ذکر ضرور فرماتے جگہیں متعین نہ فرماتے. یعنی اپنے لیے کوئی امتیازی جگہ مقرر نہ فرماتے. جب قوم کے پاس پہنچتے تو مجلس میں جہاں جگہ مل جاتی بیٹھ جاتے اور اسی کا حکم بھی فرماتے. سب اہل مجلس پر برابر توجہ فرماتے، حتیٰ کہ کوئی جلیس یہ نہ محسوس کرتا کہ کوئی شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک اس سے زیادہ با عزت ہے. کوئی کسی ضرورت سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس بیٹھتا یا کھڑا ہوتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم اتنے صبر کے ساتھ اس کے لیے روکے رہتے کہ خود ہی واپس ہوتا ہے. کوئی کسی ضرورت کا سوال کر دیتا تو آپ اسے عطا کئے بغیر یا اچھی بات کہے بغیر واپس نہ فرماتے آپ نے اپنی خندہ جبینی اور اخلاق سے سب کو نوازا، یہاں تک کہ آپ سب کے لیے باپ کا درجہ رکھتے تھے اور سب آپ صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک یکساں حق رکھتے تھے، کسی کو فضلیت تھی تو تقوی کی پنیاد پر. آپ صلی الله علیہ وسلم کی مجلس حلم ہ حیاء اور صبر ق امانت کی مجلس تھی. اس میں آوازیں بلند نہ کی جاتی تھیں اور نہ حرمتوں پر عیب لگتے رہتے تھے. یعنی کسی کی بے آبروئی کا اندیشہ نہ تھا، لوگ تقویٰ کی بوتل بہم محبت و ہمدردی رکھتے تھے. بڑے کا احترام کرتے تھے چھوٹے پر رحم کرتے تھے، حاجتمند کو نوازتے تھے اور اجنبی کو انس عطا کرتے تھے

آپصلی الله علیہ وسلم کے چہرے پر ہمیشہ بشاشت رہتی سہل خو اور نرم پہلو تھے جفا جو اور سخت خونہ تھے. نہ چیختے چلاتے تھے، نہ فحش کہتے تھے نہ زیادہ عتاب فرماتے تھے نہ بہت تعریف کرتے تھے. جس چیز کی خواہش نہ ہوتی اس سے تغافل برتتے تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم سے مایوسی نہیں ہوتی تھی. آپ صلی الله علیہ وسلم نے تین باتوں سے اپنے نفس کو محفوظ رکھا؛(١)ریاء سے (٢)کسی چیز کی کثرت سے (٣)اور لا یعنی بات سے. اور تین باتوں سے لوگوں کو محفوظ رکھا یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم (١) کسی کی مذمّت نہیں کرتے تھے (٢) کسی کو عار نہیں دلاتے تھے (٣) اور کسی کی عیب جوئی نہیں کرتے تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم وہی بات نوک زبان پر لاتے تھے جس میں ثواب کی امید ہوتی. جب آپ صلی الله علیہ وسلم تکلم فرماتے تو آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہم نشین یوں سر جھکاۓ ہوتے گویا سروں پر پرندے بیٹھے ہیں، اور جب آپ صلی الله علیہ وسلم خاموش ہوتے تو لوگ گفتگو کرتے. لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس گپ بازی نہ کرتے. آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس جو کوئی بولتا ہے سب اس کے لیے خاموش رہتے. یہاں تک کہ وہ اپنی بات پوری کر لیتا. ان کی بات وہی ہوتی جو ان کا پہلا شخص کرتا. جس بات سے سب لوگ ہنستے اس سے آپ صلی الله علیہ وسلم بھی ہنستے اور جس بات پر سب لوگ تعجب کرتے اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم بھی تعجب کرتے. اجنبی آدمی درشت کلامی سے کام لیتا تو اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم صبر کرتے اور فرماتے “جب تم لوگ حاجتمند کو دیکھو کہ وہ اپنی حاجت کی طلب میں ہے تو اسے سامان ضرورت سے نواز دو”. آپ صلی الله علیہ وسلم احسان کا بدلہ دینے والے کے سوا کسی سے ثنا کے طالب نہ ہوتے تھے.

خارجہ بن زید رضی الله تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم اپنی مجلس میں سب سے زیادہ با وقار ہوتے. اپنے پاؤں وغیرہ نہ پھیلاتے، بہت خاموش رہتے. بلا ضرورت نہ بولتے. جو شخص نہ مناسب بات بولتا اس سے رخ پھیر لیتے. آپ صلی الله علیہ وسلم کی ہنسی مسکراہٹ تھی اور کلام دو ٹوک؛ نہ فضول نہ کوتاہ. آپ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ رضی الله تعالیٰ عنہ کی ہنسی بھی آپ کی توقیر و اقتدار میں مسکراہٹ ہی کی حد تک ہوتی

حاصل یہ کہ نبی صلی الله علیہ وسلم بے نظیر صفات کمال سے آراستہ تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم کے رب نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو بے نظیر ادب سے نوازا تھے، حتیٰ کہ اس نے خود آپ صلی الله علیہ وسلم کی  تعریف میں فرمایا

یقیناً آپ صلی الله علیہ وسلم عظیم اخلاق پر ہِیں

 

 اور یہ ایسی خوبیاں تھیں جن کی وجہ سے لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف کھینچ آئے، دلوں میں آپکی محبت بیٹھ گئی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کو قیادت کا وہ مقام حاصل ہوا کہ لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم پر دا رفتہ ہو گئے. ان ہی خوبیوں کے سبب آپ صلی الله علیہ وسلم کی قوم کی اکڑ اور سختی نرمی میں تبدیل ہوئی یہاں تک کہ الله کے دین میں فوج درفوج داخل ہو گئی.

مندرجہ بالا الفاظ میں جن خوبیوں کا ذکر کیا ہے وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے کمال اور عظیم صفات کے مظاہر کی چند چوٹی چوٹی لکیریں ہیں، ورنہ آپ کے مجدو شرف اورشمائل و خصائل کی بلندی اور کمال کا یہ علم تھا کہ انکی حقیقت اور تہ تک رسائی ممکن ہے اور نہ اس کی گہرائی ناپی جا سکتی ہے،

بھلا عالم وجود کے اس سب سے عظیم بشر کی عظمت کی انتہا تک کس کی رسائی ہو سکتی ہے جس نے مجد وکمال کی سب سے بلند چوٹی پر اپنا نشیمن بنایا اور اپنے رب کے نور سے اس طرح منور ہوا کہ کتاب الہی ہی کو اسکا وصف اور خلق قرار دیا گیا..

قاری نظر عطا ہے حقیقت میں ہے قرآن

اقتباس از رحیق المختوم، تصنیف صفی الرحمن مبارکپپوری

Share

September 16, 2012

پیغمبر اسلام از ڈاکٹرمحمد حمید اللہ

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 5:15 pm

 ڈاکٹر حمید اللہ کی تحریر کردہ فرانسیسی سیرت طیبہ کی کتاب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اردو ترجمہ پروفیسر ڈاکٹر خالد پرویز  نے کیا ہے جس سے ایک اقتباس پہلے اس بلاگ پر پیش کیا جا چکا ہے۔ تقریبا ۷۰۰ صفحات کی یہ کتاب سیرت طیبہ پر لکھی جانے والی دیگر کتب کی طرح تاریخی واقعات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات مبارکہ، بعثت سے پہلے اور بعد ازاں دونوں کا بخوبی احاطہ کرتی ہے لیکن اس کی جداگانہ خصوصیت ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کا خصوصی انداز ہے۔ انہوں نے مغربی قاری کو مدنظر رکھتے ہوے حوالہ جات کی مدد سے ایک نہایت عمدہ متن ترتیب دیا ہے جس میں جا بجا مستشرقین کے اعتراضات کا سیر حاصل جواب دیا گیا ہے اور پوری کتاب کو ایک عدد شماری کے طور پر برجسته  نقاط کے طور پر لکھا گیا ہے جس سے تلاش اور حوالہ جات میں نہائت آسانی ہوتی ہے،۔

سیرت طیبہ تصنیف و تالیف کا ایک ایسا شعبہ ہے جس میں جتنا کام ہو کم ہے۔ الرحیق المختوم جیسی سیرت طیبہ کی کتاب کے بعد اگر آپ پیغمبر اسلام کو پڑھیں گے تو آپ کو انداز بیاں کا واضع فرق معلوم ہوگا۔ ۵۱ ابواب کی یہ کتاب نہائت محققانہ دیانت سے تحریر کی گئی ہے اور اس میں جا بجا لسان العرب سے لے کر دیگر مغربی محققین کی کتب و رسائل کے حوالہ جات موجود ہیں۔ مثلا نقطہ۵۲۴ میں نجاشی کے نام مکتوب پر طویل مدلل گفتگو کے بعد غير مقنع نتیجے کی بابت لکھتے ہیں۔

“اس طرح ہم یہ نتیچہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اس دستاویز کی ثقاہت و حقانیت اور اصابت شک و شبہ کے ساے سے کبھی بالا نہیں ہو پاے گی، بلکل اسی طرح اس دستاویز کے متعلق اٹھاے جانے والے جملہ اعتراضات بھی جو اسے مشتبہ قرار دیتے ہیں قابل یقین و تسلیم نہیں۔

اسطرح کی مدلل علمی بحث، تنقیدی تقابل اور علمی دیانت آپکو اسلامی تاریخ کی  بیشتر کتب میں شاذ و نادر ہی مل سکے۔  اس کتاب کے ابواب مندرجہ زیل ہیں۔

پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کیوں کیا جاۓ ؟
مادری اور بنیادی زرائع
احول اور حالات 
مقام کا انتخاب
مکہ کا بحیثیت مرکز کا انتخاب
اعلیٰ خدائی مشن کے لیے محمّد صلی الله علیہ وسلم کا انتخاب
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے آباءو اجداد 
حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش
یتیم اپنے چچا کے گھر میں
حرف فجار اور حرف الفضول
آزادی کی زندگی 
شادی اور خاندانی زندگی 
مذہبی ضمیر کی بیداری 
مشن کا آغاز 
الله تعالیٰ کے پیغام کی تبلیغ و اشاعت
ہجرت حبشہ 
معاشرتی بائیکاٹ 
جاۓ پناہ کی تلاش
معراج اور معجزات
مدینہ میں اشاعت اسلام
اسلام میں خواتین کا کردار قبل ازہجرت 
مدینہ میں ابتدائی اقدامات
قومی شیرازہ بندی
آئین ریاست
قریش مکّہ کے ساتھ تعلقات
احا بیش قبائل
حبشہ سے تعلقات 
نجاشی کے نام آنحضور صلی الله علیہ وسلم کا اصل مکتوب 
مصر کے ساتھہ تعلقات
مقوقس کے نام اصل خط
بازلطینی سلطنت کےساتھہتعلقات 
ہرقل کے نام اصل خط
ایران سے تعلقات
کسریٰ کے نام آنحضور صلی الله علیہ وسلم کا اصل خط
ایرانی مقبوضات کےساتھہ تعلقات 
المنزر کے نام آنحضور صلی الله علیہ وسلمکا نامہ مبارک 
عرب میں دیگر ایرانی مقبوضات
شاہان عمان، حیفر اور عبد کے نام رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے نامہ مبارک کا اصل مسودہ 
خطہ کے عرب قبائل
سفیر بینظیر عمرو ابن امیہ رضی الله تعالیٰ عنہ
دوسرے عرب قبائل
قبیلہ ہوازن اور شہر طائف 
دوسرے قبائل
مشرکین کےساتھہاتحادی معاہدات کی تنسیخ
فتنہ ارتداد اور قبائل کی بغاوت
یہودیوں سے تعلقات
بیرون مدینہ کے یہودی
عیسایوں کےساتھہتعلقات
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور عیسائیت. قرآن کی روشنی میں
دیگر مذاہب
بنیاد سے وصال تک
ورق تمام ہوا،اور مدح باقی ہے

ان ابواب کے جملہ عنوانات سے واضع ہے کہ یہ کتاب سیاست امور خارجہ و سفارت کےابواب کو اسی طرح اہمیت سے پیش کرتی ہے جس طرح سے ثور و بدر کو۔ سیرت طیبہ کے ہر طالبعلم کے لئے اسکا مطالعہ نہائت اہمیت کا حامل ہے اللھم صل علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی اِبراھیم وعلٰی آل اِبراھیم اِنک حمید مجید ہ اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی اِبراھیم وعلٰی آل اِبراھیم انک حمید مجید ہ

Share

September 10, 2012

تخلیق، ایک جزو لاینفک

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 5:26 pm

ہم کو گھڑے گھڑائے نقلی آدمیوں کی ضرورت نہیں ہے جو کسی ادبی یا پیشہ ورانہ کم کے لائق ہو بلکہ کچھ ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو اپنی قوت ارادی کے بل پر کسی بھی کام میں ہاتھ ڈال سکتے ہوں دنیا میں جو بہترین کارنامے وقوع پذیر ہوئے. یعنی طباع و دراک لوگوں کے کارنامے. جن پر کبھی کوئی لاگت نہیں آئی. اور نہ ہی ان کی کبھی کوئی قیمت ادا کی گئی. اور نہ تو ان کے لئے کوئی مشقت اٹھائی گئی. بلکہ یہ تو فکر کے بے ساختہ دھارے ہیں. شیکسپیئر نے ہیلمٹ اتنی آسانی سے لکھ ڈالا تھا، جتنی آسانی سے کوئی پرندہ اپنا گھونسلا بنا لیتا ہے. بڑی بڑی نظمیں بغیر کسی توجہ کے سوتے جاگتے لکھی گئی ہیں. عظیم مصوروں نے حصول مسرت کے لئے تصویریں بنائیں اور انہیں یہ خبر تک نہ ہی کہ ان کی شخصیت نے”خبر” کو جنم دیا ہے. و گرنہ شاید وہ اس سوجھ بوجھ کے ساتھ ایسی تصویریں ہر گز نہ بنا پاتے عظیم شعراء نے بھی اپنے نغمات کچھ اس طرح تخلیق کئے. یہ تخلیق نفیس و لطیف قوتوں کی بڑی حسین شگفتگی ہے. فرانسیسی خواتین کے خطوط کے بارے میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ یہ خطوط ان کے دلربا وجود کا دلربا حادثہ ہیں.ایک شاعر اپنے نغمات کے حق میں کبھی مفلس نہیں ہوتا. ماحول میں جب تک عمدہ اور آزادانہ نہ ہو کوئی گیت، گیت نہیں ہوتا. میں نے آج تک کوئی ایسا مغنی نہیں دیکھا جو فرض سمجھ کر گاتا ہو. یا دیگر راہیں مسدود پا کر مجبوراً گاتا ہو. نیند تو صرف انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو سونے کے لئے بیتاب نہ ہوں اور بلاشبہ وہی لوگ بہتر طور پر لکھ یا بول سکتے ہیں، جو لکھنے یا بولنے کے لئے خواہ مخواہ فکر مند نہ رہتے ہوں. مقام فضلیت”آموزوں” کو ہی حاصل ہوا کرتا ہے

ایمرسن – ترجمہ پروفیسر وقار عظیم

Share

September 5, 2012

بیگ صاحب اور فحاشی کی بے محابہ تعریفیں

Filed under: عمومیات,مذہب — ابو عزام @ 8:00 am

جامعہ کراچی کے ہمارے ایک عزیز دوست فراز حیدرآبادی المعروف بیگ صاحب فحاشی کی تعریف  میں رطب اللسان ہوئے۔ گو راقم انکی ساری باتوں سے متفق نہیں لیکن پھر بھی یہ تحریر قابل مطالعہ ہے کہ مکالمہ تو شروع ہو

شرم اک اداے ناز ہے‘ اپنے ہی سے سہی
ہیں کتنے بے حجاب کہ‘ ہیں یوں حجاب میں
یہ تحریر اس ربط پر پڑھی جا سکتی ہے۔
Share

September 2, 2012

کون ہے جان گالٹ، سوز درون کائنات؟

Filed under: ادبیات,سیاست,مذہب — ابو عزام @ 8:03 am

دروغ برگردن راوی پر کسی نے آئن رینڈ سے پوچھا کہ آپکی تصنیف آیٹلس شرگڈ بارہ سو صفحات کی ایک نہائت ضخیم کتاب ہے، آپ نے اس کو کبھی مختصر کرنے کا  سوچا؟ انسانی انفرادیت و آزادی کی طاقت اور جاہ حشمت کی نام نہاد علمبردار نے نہائت نخوت سے جواب دیا، کیا کبھی کسی نے یہ کہا ہے کہ انجیل ایک طویل کتاب ہے  اور اسکو مختصر ہونا چاہیے؟

تخلیقی انفرادیت کے لبادے میں چھپا کر جس بنیاد پرست انفرادیت کو آئن رینڈ ہوا دیتی نظر آتی ہے وہی ہمیں نطشے کے اوبیرمنش فوق البشر میں نظر آتا ہے سواے اسکے کہ یہاں اسکی اخلاقی قراردادو قابلیت کچھ اختیاری سی معلوم ہوتی ہے ۔سرمایہ دارانہ نظام اور انفرادیت کی اخلاقیات کا وہ علمبردار، کلاسیکی ادب میں دانتے و ملٹن و گوئٹے کے تصور ابلیس سے کچھ خاص مختلف نہیں، لیکن اس تفاوت کی صحیح توضیح و فرق ہمیں اقبال کے سوز درون کائنات ‘ابلیس’ اور مرد مومن کے  تجرباتی و متحرک کردار میں ہی صحیح طور پر عیاں نظر آتی ہے کہ ۔

می تپداز سوزِ من ، خونِ رگ کائنات
من بہ دو صرصرم ، من بہ غو تندرم

فکر نطشے کی طرح رینڈین ہیرو و ولن کا تصوربھی ان تخیلاتی سریع الفکر، صحیح النظر اور صائب الرائے افراد کے گرد اسی طرح مطوف ہے کہ سرحد ابلیس و یزداں  کا کوئ وجود نہیں۔ اقبال کے مرد مومن و ابلیس میں لیکن یہ خط تفریق نہائت عمدگی سے بنائ گئ ہے

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

کہ  جذبہ مسابقت و فوقیت  کی حدود پال ریان کے جاب کریٹرزسے ما سوا ہوں۔ افسوس یہ کہ ساری عمر معاشرتی زندگی و اشتراکی فوائد کے خلاف جنگ کرتی یہ مضطرب العقل خاتون جب خود پھیپڑوں کے سرطان میں مبتلا ہوئ تو سوشل سیکیورٹی لینے میں کچھ عار نا محسوس کی۔

بس یہی جان گالٹ موجودہ ریپبلکن پارٹی اور لبرٹیرنزم کی سوچ کا مختصر نوحہ ہے۔

Share

Powered by WordPress