فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

September 17, 2012

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال نفس اور مکارم اخلاق

Filed under: کتابیات,مذہب — ابو عزام @ 1:00 am

بردباری، قوت برداشت، قدرت پا کر درگزر اور مشکلات پر صبر ایسے اوصاف تھے جنکے زریعہ الله نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی تربیت کی تھی. ہر حلیم و بردباری کی کوئی نہ کوئی لغزش اور کوئی نہ کوئی زبان کی بے احتیاطی جانی جاتی ہے مگر صلی الله علیہ وسلم کی بلندی کردار کا عالم یہ تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے خلاف دشمنوں کی ایذا ارسانی اور بدمعاشوں کی خود سری و زیادتی جس قدر بڑھتی گئی آپ صلی الله علیہ وسلم کے صبرو حلم میں اسی قدر اضافہ ہوتا گیا.

حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو جب بھی دو کاموں کے درمیان اختیار دیا جاتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم وہی کام اختیار فرماتے تھے جو آسان ہوتا، جب تک کہ گناہ کا کام نہ ہوتا. اگر گناہ کا کام ہوتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے بڑھ کر اس سے دور رہتے. آپ صلی الله علیہ وسلم نے کبھی اپنے نفس کے لیے انتقام نہ لیا! البتہ اگر الله کی حرمت چاک کی جاتی تو آپ صلی الله علیہ وسلم الله کے لیے انتقام لیتے.

آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے بڑھ کر غیظ و غضب سے دور تھے اور سب سے جلد راضی ہو جاتے تھے.

جود و کرم کا وصف ایسا تھا کہ اسکا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا. آپ صلی الله علیہ وسلم اس شخص کی طرح بخشش و نوازش فرماتے تھے جسے فقر کا اندیشہ ہی نہ ہو. ابن عبّاس رضی الله تعالیٰ عنہا کابیان ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سب سے بڑھ کر پیکر جود و سخا تھے. اور آپ صلی الله علیہ وسلم کا دریاۓ سخاوت رمضان میں اس وقت زیادہ جوش پر ہوتا جب حضرت جبریل علیہ السلام آپ صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات فرماتے اور حضرت جبریل علیہ السلام رمضان میں آپ صلی الله علیہ وسلم سے ہر رات ملاقات فرماتے اور قرآن کا دور کراتے. پس رسول صلی الله علیہ وسلم خیر کی سخاوت میں (خزائن رحمت سے مالا مال کر کے) بھیجی ہوئی ہو اسے بھی زیادہ پیش پیش ہوتے تھے.. حضرت جابر کا ارشاد ہے کہ ایسا کبھی نہ ہوا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے کوئی چیز مانگی گئی ہو اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے نہیں کہہ دیا ہو..

شجاعت، بہادری اور دلیری میں بھی آپ کا مقام سب سے بلند اور معروف تھا. آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے زیادہ دلیر تھے. نہایت کٹھن اور مشکل مواقع پر جبکے اچھے اچھے جانبازوں اور بہادروں کے پاؤں اکھڑ گئے آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی جگہ برقرار رہے اور پیچھے ہٹنے کی بجاۓ آگے ہی بڑھتے گئے. پاۓ ثبات میں ذرا لغزش نہ آئی بڑے بڑے بہادر بھی کبھی نہ کبھی بھاگے اور پسپا ہوئے. مگر آپ صلی الله علیہ وسلم میں یہ بات کبھی نہیں پائی گئی. حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ کابیان ہے کہ جب زور کا رن پڑتا اور جنگ کے شعلے خوب بھڑک اٹھتے تو ہم رسول صلی الله علیہ وسلم کی آڑ لیا کرتے تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی شخص دشمن کے قریب نہ ہوتا.

حضرت انس کا بیان ہے کہ ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا لوگ شور کی طرف دوڑتے تو راستے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم واپس آتے ہوئے ملے. آپ صلی الله علیہ وسلم لوگوں سے پہلے ہی آواز کی جانب پہنچ( کر خطرے کے مقام کا جائزہ لے) چکے تھے. اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم ابو طلحہ رضی الله تعالیٰ عنہ کے بغیر زین کے گھوڑے پر سوار تھے. گردن میں تلوار حمائل کر رکھی تھی اور فرما رہے تھے، ڈرو نہیں ڈرو نہیں. ( کوئی خطرہ نہیں).

آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے زیادہ حیاواراور پست نگاہ تھے. ابو سعید خدری رضی الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم پردہ نشین کنواری عورت سے بھی زیادہ حیا وار تھے. جب آپ صلی الله علیہ وسلم کو کوئی بات ناگوار گزرتی تو چہرے سے پتا لگ جاتا. اپنی نظریں کسی کے چہرے پرگاڑتے نہ تھے. نگاہ پست رکھتے تھے اور آسمان کی بہ نسبت زمین کی طرف نظر زیادہ دیر تک رہتی تھی. عموما نیچی نگاہ سے تاکتے. حیا اور کرم نفس کا علم یہ تھا کہ کسی سے ناگوار بات رو رو نہ کہتے اور کسی کی کوئی ناگوار بات آپ صلی الله علیہ وسلم تک پہنچتی تو نام لیکر اس کا ذکر نہ کرتے بلکہ یوں فرماتے کہ کیا بات ہے کہ کچھ لوگ ایسا کر رہے ہیں. فرزدق کے اس شعر کےسب سے زیادہ صحیح مصداق آپ صلی الله علیہ وسلم تھے:

یغضی حیاء و یغضی من مھا ہته فلا یکلم الا حین یبتسم

آپ حیاء کے سبب اپنی نگاہ پست رکھتے ہیں اور اپ کی ہیبت کے سبب نگاہیں پست رکھی جاتی ہیں’ چناچہ آپ سے اسی وقت گفتگو کی جاتی ہے جب آپ تبسم فرما رہے ہوں

آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے زیادہ عادل، پاک و امن، صادق اللہجہ اور عظیم الامانتہ تھے. اس کا اعتراف آپ صلی الله علیہ وسلم کے دوست دشمن سب کو ہے. نبوت سے پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم کو امین کہا جاتا تھا اور دور جاہلیت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس فیصلے کے لئے مقدمات لاۓ جاتے تھے. جامع ترمذی میں حضرت علی سے مروی ہے کہ ایک بار ابو جہل نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے کہا: ہم آپ کو جھوٹا نہیں کہتے البتہ آپ صلی الله علیہ وسلم جو کچھ لیکر آئے ہیں اسے جھٹلاتے ہیں. اس پر الله تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

“یہ لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کو نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم الله کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں “

ہرقل نے ابو سفیان سے دریافت کیا کہ کیا اس (نبی صلی الله علیہ وسلم) نے جو بات کہی ہے اس کے کہنے سے پہلے تم لوگ ان پر جھوٹ کا الزام لگاتے تھے؟ تو ابو سفیان نے جواب دیا کہ نہیں

آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے زیادہ متواضع اور تکبر سے دور تھے. جس طرح بادشاہوں کے لیے ان کے خدّام و حاشیہ بردار کھڑے رہتے ہیں اس طرح اپنے لیے صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہ کو کھڑا ہونے سے منع فرماتے تھے. مسکینوں کی عیادت کرتے تھے، فقراء کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے، غلام کی دعوت منظور فرماتے تھے. صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہ میں کسی امتیاز کے بغیر ایک عام آدمی کی طرح بیٹھتے تھے، حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے جوتے خود ٹانکتے تھے، اپنے کپڑے خود سیتے تھے اور اپنے ہاتھ سے اس طرح کام کرتے تھے جیسے تم میں سے کوئی آدمی اپنے کام کاج کرتا ہے. آپ صلی الله علیہ وسلم بھی انسانوں میں سے ایک انسان تھے اپنے کپڑے خود ہی دیکھتے کہ کہیں اس میں جوں نہ ہو اپنی بکری خود دہتے تھے اور اپنا کام خود کرتے تھے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے بڑھ کر عہد کی پابندی اور صلہ رحمی فرماتے تھے، لوگوں کے ساتھ سب سے زیادہ شفقت اور رحم و مروت سے پیش آتے تھے، رہائش اور ادب میں سب سے اچھے تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم کا اخلاق سب سے زیادہ کشادہ تھا. بدخلقی سے سب سے زیادہ دورو نفور تھے. نہ عادتا فحش گو تھے نہ بہ تکلف فحش کہتے تھے، نہ لعنت کرتے تھے. نہ بازار میں چیختے چلاتے تھے نہ برائی کا بدلہ۔ برائی سے دیتے تھے، بلکہ مافی اور درگزر سے کام لیتے تھے کسی کو اپنے پیچھے چلتا ہوا نہ چھوڑتے تھے. اور نہ کھانے پینے میں اپنے غلاموں اور لونڈیوں پر ترفع اختیار فرماتے تھے. اپنے خادم کا کام خود ہی کر دیتے تھے. کبھی اپنے خادم کو اف نہیں کہا. نہ اس پر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پرعتاب فرمایا. مسکینوں سے محبت کرتے، ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور ان کے جنازوں میں حاضر ہوتے تھے. کسی فقر کی وجہ سے حقیر نہیں سمجھتے تھے. ایک بار آپ صلی الله علیہ وسلم سفر میں تھے. ایک بکری کاٹنے پکانے کا مشورہ ہوا. ایک نے کہا’ ذبح کرنا میرے ذمہ، دوسرے نے کہا کھال اتارنا میرے ذمہ، تیسرے نے کہا پکانا میرے ذمہ، نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ایندھن کی لکڑیاں جمع کرنا میرے ذمہ، صحابہ نے عرض کیا. ہم آپ صلی الله علیہ وسلم کاکام کر دینگے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں جانتا ہوں کہ تم لوگ میرا کام کردوگے لیکن میں پسند نہیں کرتا کہ تم امتیاز حاصل کرو کیونکہ الله اپنے بندوں کی یہ حرکت ناپسند کرتا ہے کہہ اپنے آپ کو اپنے رفقاء میں ممتاز سمجھے”. اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے اٹھ کر لکڑیاں جمع فرمائیں.

آیئے ذرا ہند بن ہالہ کی زبانی رسول صلی الله علیہ وسلم کے اوصاف سنیں. ہند اپنی ایک طویل روایت میں کہتے ہیں: رسول الله صلی الله علیہ وسلم پیہم غموں سے دو چار تھے. ہمیشہ غورو فکر فرماتے رہتے تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے راحت نہ تھی. بلا ضرورت نہ بولتے تھے. دیر تک خاموش رہتے تھے. ازاول تا آخر بات پورے منہ سے کرتے تھے، یعنی صرف منہ کے کنارے سے نہ بولتے تھے. جامع اور دو ٹوک کلمات کہتے تھے جن میں فضول گوئی ہوتی تھی اور نہ کوتاہی.

نرم خو تھےجفاجو اور حقیر نہ تھے، نعمت معمولی بھی ہوتی تو اس کی تعظیم کرتے تھے. کسی چیز کی مذمّت نہیں فرماتے تھے. کھانے کی نہ برائی کرتے تھے. نہ تعریف حق کو کوئی نقصان پہنچاتا تو جب تک انتقام نہ لیتے آپ صلی الله علیہ وسلم کے غضب کو روکا نہ جا سکتا تھا. البتہ کشادہ دل کے تھے؛ اپنی نفس کے لیے نہ غضبناک ہوتے نہ انتقام لیتے. جب اشارہ فرماتے تو پوری ہتھیلی سے اشارہ فرماتے اور تعجب کے وقت ہتھیلی پلٹتے. جب غضبناک ہوتے تو رخ پھیر لیتے اور جب خوش ہوتے تو نگاہ پست فرمالیتے. آپ صلی الله علیہ وسلم کی بیشتر ہنسی تبسسم کی صراط میں تھی. مسکراتے تو دانت اولوں کی طرح چمکتے
لا یعنی بات سے زبان کو روکھے رکھتے. ساتھیوں کو جوڑتے تھے، توڑتے نہ تھے. ہر دم قوم کے معزز آدمی کی تکریم فرماتے تھے. اور اسی کو ان کا والی بناتے تھے. لوگوں (کے شر) سے محتاط رہتے اور ان سے بچاؤ اختیار فرماتے رہتے تھے . لیکن اس کے لیے کسی سے اپنی خندہ چبینی ختم نہ فرماتے تھے…

اپنے اصحاب رضی الله تعالیٰ عنہ کی خبر گیری کرتے اور لوگوں کے حالت دریافت فرماتے. اچھی چیز کی تحسین و تصویب فرماتے اور بری چیز کی تقبیح و توہین. معتدل تھے، افراط و تضریط سے دور تھے. غافل نہ ہوئے تھے کہ مبادا لوگ بھی غافل یا ملول خاطر ہو جائیں. ہر حالت کیلئے مستعد رہتے تھے. حق سے کوتائی نہ فرماتے تھے، نہ حق سے تجاوز فرما کرنا حق کی طرف لے جاتے تھے. جو لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کے قریب رہتے تھے وہ سب سے اچھے لوگ تھے اور ان میں ابھی آپ صلی الله علیہ وسلمکے نزدیک افضل وہ تھا جو سب سے بڑھ کر خیر خواہ ہو؛ اور سب سے زیادہ قدر آپ صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک اس کی تھی جو سب سے اچھا غمگسارومدد گار ہو..

آپ صلی الله علیہ وسلم اٹھتے بیٹھتے الله کا ذکر ضرور فرماتے جگہیں متعین نہ فرماتے. یعنی اپنے لیے کوئی امتیازی جگہ مقرر نہ فرماتے. جب قوم کے پاس پہنچتے تو مجلس میں جہاں جگہ مل جاتی بیٹھ جاتے اور اسی کا حکم بھی فرماتے. سب اہل مجلس پر برابر توجہ فرماتے، حتیٰ کہ کوئی جلیس یہ نہ محسوس کرتا کہ کوئی شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک اس سے زیادہ با عزت ہے. کوئی کسی ضرورت سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس بیٹھتا یا کھڑا ہوتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم اتنے صبر کے ساتھ اس کے لیے روکے رہتے کہ خود ہی واپس ہوتا ہے. کوئی کسی ضرورت کا سوال کر دیتا تو آپ اسے عطا کئے بغیر یا اچھی بات کہے بغیر واپس نہ فرماتے آپ نے اپنی خندہ جبینی اور اخلاق سے سب کو نوازا، یہاں تک کہ آپ سب کے لیے باپ کا درجہ رکھتے تھے اور سب آپ صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک یکساں حق رکھتے تھے، کسی کو فضلیت تھی تو تقوی کی پنیاد پر. آپ صلی الله علیہ وسلم کی مجلس حلم ہ حیاء اور صبر ق امانت کی مجلس تھی. اس میں آوازیں بلند نہ کی جاتی تھیں اور نہ حرمتوں پر عیب لگتے رہتے تھے. یعنی کسی کی بے آبروئی کا اندیشہ نہ تھا، لوگ تقویٰ کی بوتل بہم محبت و ہمدردی رکھتے تھے. بڑے کا احترام کرتے تھے چھوٹے پر رحم کرتے تھے، حاجتمند کو نوازتے تھے اور اجنبی کو انس عطا کرتے تھے

آپصلی الله علیہ وسلم کے چہرے پر ہمیشہ بشاشت رہتی سہل خو اور نرم پہلو تھے جفا جو اور سخت خونہ تھے. نہ چیختے چلاتے تھے، نہ فحش کہتے تھے نہ زیادہ عتاب فرماتے تھے نہ بہت تعریف کرتے تھے. جس چیز کی خواہش نہ ہوتی اس سے تغافل برتتے تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم سے مایوسی نہیں ہوتی تھی. آپ صلی الله علیہ وسلم نے تین باتوں سے اپنے نفس کو محفوظ رکھا؛(١)ریاء سے (٢)کسی چیز کی کثرت سے (٣)اور لا یعنی بات سے. اور تین باتوں سے لوگوں کو محفوظ رکھا یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم (١) کسی کی مذمّت نہیں کرتے تھے (٢) کسی کو عار نہیں دلاتے تھے (٣) اور کسی کی عیب جوئی نہیں کرتے تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم وہی بات نوک زبان پر لاتے تھے جس میں ثواب کی امید ہوتی. جب آپ صلی الله علیہ وسلم تکلم فرماتے تو آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہم نشین یوں سر جھکاۓ ہوتے گویا سروں پر پرندے بیٹھے ہیں، اور جب آپ صلی الله علیہ وسلم خاموش ہوتے تو لوگ گفتگو کرتے. لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس گپ بازی نہ کرتے. آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس جو کوئی بولتا ہے سب اس کے لیے خاموش رہتے. یہاں تک کہ وہ اپنی بات پوری کر لیتا. ان کی بات وہی ہوتی جو ان کا پہلا شخص کرتا. جس بات سے سب لوگ ہنستے اس سے آپ صلی الله علیہ وسلم بھی ہنستے اور جس بات پر سب لوگ تعجب کرتے اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم بھی تعجب کرتے. اجنبی آدمی درشت کلامی سے کام لیتا تو اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم صبر کرتے اور فرماتے “جب تم لوگ حاجتمند کو دیکھو کہ وہ اپنی حاجت کی طلب میں ہے تو اسے سامان ضرورت سے نواز دو”. آپ صلی الله علیہ وسلم احسان کا بدلہ دینے والے کے سوا کسی سے ثنا کے طالب نہ ہوتے تھے.

خارجہ بن زید رضی الله تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم اپنی مجلس میں سب سے زیادہ با وقار ہوتے. اپنے پاؤں وغیرہ نہ پھیلاتے، بہت خاموش رہتے. بلا ضرورت نہ بولتے. جو شخص نہ مناسب بات بولتا اس سے رخ پھیر لیتے. آپ صلی الله علیہ وسلم کی ہنسی مسکراہٹ تھی اور کلام دو ٹوک؛ نہ فضول نہ کوتاہ. آپ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ رضی الله تعالیٰ عنہ کی ہنسی بھی آپ کی توقیر و اقتدار میں مسکراہٹ ہی کی حد تک ہوتی

حاصل یہ کہ نبی صلی الله علیہ وسلم بے نظیر صفات کمال سے آراستہ تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم کے رب نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو بے نظیر ادب سے نوازا تھے، حتیٰ کہ اس نے خود آپ صلی الله علیہ وسلم کی  تعریف میں فرمایا

یقیناً آپ صلی الله علیہ وسلم عظیم اخلاق پر ہِیں

 

 اور یہ ایسی خوبیاں تھیں جن کی وجہ سے لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف کھینچ آئے، دلوں میں آپکی محبت بیٹھ گئی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کو قیادت کا وہ مقام حاصل ہوا کہ لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم پر دا رفتہ ہو گئے. ان ہی خوبیوں کے سبب آپ صلی الله علیہ وسلم کی قوم کی اکڑ اور سختی نرمی میں تبدیل ہوئی یہاں تک کہ الله کے دین میں فوج درفوج داخل ہو گئی.

مندرجہ بالا الفاظ میں جن خوبیوں کا ذکر کیا ہے وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے کمال اور عظیم صفات کے مظاہر کی چند چوٹی چوٹی لکیریں ہیں، ورنہ آپ کے مجدو شرف اورشمائل و خصائل کی بلندی اور کمال کا یہ علم تھا کہ انکی حقیقت اور تہ تک رسائی ممکن ہے اور نہ اس کی گہرائی ناپی جا سکتی ہے،

بھلا عالم وجود کے اس سب سے عظیم بشر کی عظمت کی انتہا تک کس کی رسائی ہو سکتی ہے جس نے مجد وکمال کی سب سے بلند چوٹی پر اپنا نشیمن بنایا اور اپنے رب کے نور سے اس طرح منور ہوا کہ کتاب الہی ہی کو اسکا وصف اور خلق قرار دیا گیا..

قاری نظر عطا ہے حقیقت میں ہے قرآن

اقتباس از رحیق المختوم، تصنیف صفی الرحمن مبارکپپوری

Share

1 Comment »

  1. جزاک اللہ

    Comment by علی — September 17, 2012 @ 9:26 am

RSS feed for comments on this post. TrackBack URL

Leave a comment

Powered by WordPress