انسانی تاریخ کے منظر میں ہمارے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی بلند و بلا شخصیت اتنی ابھرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ جب ابتدا سے لیکر اب تک کے بڑے سے بڑے تاریخی انسان جن کو دنیا اکابر میں شمار کرتی ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کے مقابلے میں لاۓ جاتے تو آپ کے آگے بونے نظر آتے ہیں. دنیا کے اکابر میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کے کمال کی چمک دھمک انسانی زندگی کے ایک دو شعبوں سے آگے بڑھ سکی. کوئی نظریات کا بادشاہ ہے مگر عملی قوت نہیں رکھتا ہے. کوئی عمل کا پتلا ہے مگر فکر میں کمزور ہے. کسی کے کمالات سیاسی تدبر تک محدود ہیں. کوئی محض فوجی ذہانت کا مظہر ہے. کسی کی نظر اجتماعی زندگی کے ہر ایک پہلو سے اتنی زیادہ گہری جمی ہیں کہ دوسرے پہلو اوجھل ہو گئے ہیں.کسی نے اخلاق اور روحانیت کو نظر انداز کر دیا. غرض تاریخ میں یک رخےہیرو ہی نظر اتے ہیں مگر تنہا آنحضور صلی الله علیہ وسلم ہی کی شخصیت ایک ایسی ہے جس میں تمام کمالات جمع ہیں. وہ خود ہی فلسفی اورحکیم بھی ہے اور خود ہی اپنے فلسفے کو عملی زندگی میں نافذ کرنے والا بھی. وہ سیاسی مدبر بھی ہے، فوجی لیڈر بھی ہے، وضع قانون بھی ہے معلم اخلاق بھی ہے، مذہبی اور روحانی پیشوا بھی ہے. اس کی نظر انسان کی پوری زندگی پر پھیلتی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی تفصیلات تک دی جاتی ہے. کھانے اورپینے کے آداب اور جسم کی صفائی کے طریقوں سے لیکر بین الاقوامی تعلقات تک ایک ایک چیز کے متعلق وہ احکام اور ہدایت دیتا ہے، اپنے نظریات کے مطابق ایک مستقبل تہذیب وجود میں لاکر دکھا دیتا ہے اورزندگی کے تمام مختلف پہلوؤں میں ایسا صحیح توازن قائم کرتا ہے کہ افراط و تفریط کا کہیں نشان تک نظرتک نہیں آتا. کیا کوئی دوسرا شخص اس جامعیت کا پیش کیا جا سکتا ہے؟
سیرت کا پیغام تفہیمات، چہارم۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی
کیا خوبصورت تمہید باندگی ہے ہمارے مرشد مولانا مودودی رح نے۔۔۔ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔
سیرت کے حوالے سے جس مصنف یا مولف نے لکھا شان رسول اللہ ﷺ کے مقابلے میں سمندر میں قطرے کے برابر ہے۔
بے شک آپ ﷺ اخلاق کے اعلی مرتبے پر ہیں۔
Comment by سید آصف جلال — September 24, 2012 @ 2:42 am