فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

October 15, 2012

تنقید برعقل محض از ایمانوئل کانٹ

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 9:39 pm

Critique of Pure Reason تنقید برعقل محض  یا

از ایمانوئل کانٹ فلسفے کی ایک نہائت اہم کتاب ہے۔ اس کتاب کا تنقیدی جائزہ دنیا کی سو عظیم کتابوں میں ستار طاہر نے کیا تھا جو درج زیل ہے۔

شو پنہارے کانٹ کے حوالے سے ہیگل کے فلسفے پر جو راۓ دی ہے اسے پڑھ کر خاصا تعجب ہوتا ہے کہ شو پنہارے نے ہیگل کے لئے خاصی توہین آمیز اور عامیانہ زبان استعمال کی ہے اس نے ایک طرح سے ہیگل کو مجمع باز اور چھچھورا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اصل فلسفی تو کانٹ تھا.جس نے نہ صرف پورے ایک دور کو بلکہ آنے والی نسلوں کو متاثر کیا ہے لیکن مجمع باز ہیگل نے بڑی شہرت حاصل کرلی جس کا وہ قطعی حقدار نہ تھا.

١٧٢٤ میں پروشیا کے شہر کونگز برگ میں پیدا ہونے والا عمانوایل کانٹ بہت دلچسپ شخصیت کا مالک تھا وہ خاموش طبع’ پستہ قامت شخص تھا. جس نے اپنی ساری عمر اسی شہر میں گزاردی اگرچہ وہ جغرافیے کے موضوع پر لیکچر دینے کا عادی تھا. لیکن خود کبھی اپنے شہر سے باہر نکلنے کی جرات نہ کر سکا. کانٹ کے آباو اجداد صدیوں پہلے اسکاٹ لینڈ سے نقل وطن کر کے پروشیا آئے تھے. اس کی والدہ کٹر مذہبی خیالات رکھنے والی خاتون تھی. بچپن میں کانٹ پر اپنی ماں کا اتنا شدید اثر تھا کہ وہ سختی سے مذہبی امور اور عقائد پر عمل کرتا تھا. لیکن پھر وہ اپنی زندگی میں مذہب سے اتنا دور ہو گیا کہ کبھی گرجے کا رخ نہ کیا.

کانٹ کا دور فریڈرک اعظم جیسے شہنشا اور والتئیر جیسے فلسفی کا دور ہے. اس دور میں یہ ممکن ہی نہ تھا کہ نوجوانی کے دنوں میں کانٹ کے دل میں بعض مسائل اور نظریات کے بارے میں شکوک پیدا نہ ہوتے’ کانٹ کے سلسلے میں یہ بات بہت اہم ہے کہ ابتدائی عمر میں جن لوگوں کا اثر اس پر بہت گہرا رہا. بعد میں انہی لوگوں سے اسی شدید اختلاف پیدا ہوا اور کانٹ نے ان کی نفی کی ان میں برطانوی فلسفی ہیوم خاص طور قابل ذکر ہے ہیوم ایک طرح سے اسکا “محبوب دشمن” بن گیا تھا. کانٹ سیدھا سادہ آدمی تھا. لیکن جب ہم اس کے فلسفیانہ نظریات کے مختلف مدراج کا جائزہ لیتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ روایت پرست اور کسی حد تک رجعت پسندانہ خیالات کا مالک کس طرح عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ آزاد خیال اور بے باک فلسفی کا روپ دھار گیا. اگر وہ اپنی آخری تصنیف کی اشاعت کے وقت ستر برس سے زائد عمر کا نہ ہو چکا ہوتا تو یقینا اسے زندان میں ڈال دیا جاتا اور فلسفے کی دنیا کو ایک اور شہید مل جاتا لیکن عمر بزرگی کی وجہ سے اس کو نظر انداز کر دیا گیا تھا.

کانٹ کا عظیم ترین کارنامہ اس کی کتاب ہے یعنی “تنقید برعقل محض” جو ۱۷۸۱ میں شائع  ہوئ۔ اس کتاب کی اشاعت فلسفے کی دنیا میں ایک انقلاب کی حیثیت رکھتی ہے. “تنقید برعقل محض”وہ تصنیف ہے جو اپنی اشاعت سے لیکر اب تک بحث اور غور و فکر کا موضوع بنی رہی ہے. کانٹ نے اس کتاب میں جو فلسفہ پیش کیا اس نے دنیا کے فکری اور فلسفیانہ نظام کو بڑی شدّت سے متاثر کیا. فلسفے کا ایک نیا مکتب اس کتاب کے حوالے سے معرض وجود میں آتا ہے ایسی عظیم لافانی کتاب لکھنے والے کی زندگی کی ایک بھرپور جھلک بھی اس کے فلسفے کو سمجھنے میں خاصی مدد دیتی ہے.

١٧٥٥ میں کانٹ نے پرائیویٹ لیکچرار کی حیثیت سے کوئنگسبرگ کی یونیورسٹی میں درس دینا شروع کردیا. پندرہ برس تک وہ اسی حیثیت سی اس یونیورسٹی کے ساتھ منسلک رہا. وہ پروفیسر کے عہدے کا حقدار بھی تھا اور طلبگار بھی. اس سلسلے میں اس کی درخواستوں کو مسلسل نامنظور کیا جاتا رہا. بالآخر ١٧٧٠ میں اسے مابعد الطبیعات اور منطق کے مضامین کا پروفیسر بنا دیا گیا اس کی خاموش طبعی کی وجہ سے اس کے بارے میں کوئی یہ توقع نہ کر سکتا تھا کہ وہ فلسفے کی دنیا میں ہیجان پیدا کردیگا. ایسا سیدھا آدمی انسانوں کی زندگیوں کو چونکانے کی صلاحیت سے بظاہر محروم دکھائی دیتا تھا. وہ شرمیلا آدمی اندر سے بڑا شجاع تھا. خود کانٹ نے ایک بار لکھا تھا. “یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں مابعد الطبیعات کا عاشق ہوں لیکن میری اس محبوبہ نے میرے ساتھ نہت کم التفات کیا ہے.” وہ مابعد الطبیعات میں گہری دلچسپی لیتا تھا. ایک زمانہ اس پر ایسا بھی آیا جس کے بارے میں وہ خود کہتا ہے “میں مابعد الطبیعات کے تاریک پامال میں پھنسا رہا. یہ ایک ایسا سمندر ہے جسکا نہ کوئی کنارہ ہے نہ روشنی دکھانے والا مینار” لیکن اسی کانٹ نے مابعد الطبیعات میں تہلکہ خیز انقلاب پیدا کر کے ساری دنیا کو چونکا دیا. اپنی زندگی کے خاموش زمانے میں کانٹ کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ مابعد الطبیعات میں گہری دل چسپی لے رہا ہے. تب سیاروں’ زلزلوں’ آتش فشاں پہاڑوں’ ہواؤں کے بارے میں لکھا کرتا تھا.١٧٥٥ میں شائع ہونے والی اس کتاب “تھیوری آف ہیونز” کو ایک خاصی اچھی کتاب سمجھا گیا لیکن اس پر کوئی لمبی چوڑی بحث نہ ہوئی.١٧٩٨ میں اس نے اپنے نظریات کو وسعت دی اور اس کی کتاب ایتھنز وپولوجی شائع ہوئی. اس کتاب میں اس نے لکھا ہے کہ انسان کی زندگی کی سحر جنگلوں اور جانوروں کی معیت میں ہوئی. اس لیے ابتدائی دور کا انسان’ آج کے انسان سے بیحد مختلف تھا کانٹ نے اس کتاب میں اعتراف کیا. “قدرت نے پھر کس طرح انسان کی ارتقائی نشوونما میں حصّہ لیا اور کن اسباب وعوامل کی وجہ سے انسان موجودہ مقام تک پہنچا. اس کے بارے میں ہمیں کچھ علم تو نہیں. ڈارون نے انسانی انواع پر عظیم اور چونکا دینے والا کام کیا جس سے کانٹ کے ان خیالات و نتائج کی تائید ملتی ہے.

کانٹ کے افکار ونظریات کے بارے میں کہا جا سکتا ہے اس معمولی اور سادہ انسان کے عظیم دماغ میں خیالات آہستہ آہستہ جمع ہوئے اور پھر منظم صورت اختیار کرتے تھے. وہ بمشکل پانچ فٹ کا شخص ہوگا. شرمیلا’ سمٹا سمٹایا لیکن اس کے چھوٹے قد کے فلسفی کا دماغ بڑا تھا. ایسے خیالات اور افکار کی اماجگاہ جنہوں نے پوری فکرانسانی کو تبدیل کر دیا. اس کے سوانح نگار نے اسکی زندگی کو چند افعال میں پیش کیا ہے وہ لکھتا ہے.”کانٹ کی زندگی چنداعمال پر مشتمل تھی. بندھے ٹکے اوقات پر اس کے روز مرہ کے ان اعمال میں کبھی فرق نہ آیا.صبح بیدار ہونا’ کافی پینا’ لکھنا’ لیکچر دینا’ کھانا اور سیر کرنا اس کا ہر کام عین وقت پر ہوتا تھا نہ ایک منٹ آگے نہ ایک منٹ پیچھے”. اور پھر جب عما نوایل کانٹ اپنے بھورے رنگ کے کوٹ میں ملبوس’ چھڑی ہاتھ میں لیے اپنے گھر کے دروازے میں نمودار ہوتا تو اس کے ہمساۓ گھڑیاں ملاتے. کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس وقت ساڑھے تین بجے ہیں. ہر طرح کے موسموں میں وہ ٹھیک وقت پراپنے گھر سے نکلتا اور پیدل چلتا ہوا دکھائی دیتا. وہ دبلا پتلا کمزور انسان تھا. لیکن اس کا ذہن اور دماغ بہت قوی تھا وہ اگر کبھی بیمار بھی ہوتا تو ڈاکٹروں کا احسان نہ اٹھاتا وہ سمجھتا کہ ڈاکٹروں سے دور ہی رہنا چاہیے. اپنے انداز میں وہ اپنا علاج کرلیا کرتا تھا. اس لیے اس نے اسی برس کی طویل عمر پائی اس نے ستر برس کی امر میں ایک مقالہ تحریر کیا تھا. جس کا موضوع دماغی قوت اور بیماری کے احساسات پر قابو پانا تھا. اس کی پسندیدہ عادات میں ایک عادت یہ تھی کہ وہ طویل عرصے تک ناک سے سانس لیتا تھا. خاص طور پر جب گھر سے باہر ہوتا تو کبھی اپنا منہ کھلا نہ رکھتا اور چلتے ہوئے ناک سے سانس لیتا. وہ ہر کام بڑی احتیاط سے کرنے کا عادی تھا. ہر بات کو پہلے سوچتا. اچھی طرح غور کرتا اور پھر کہیں اس پرعمل کرتا. زندگی میں دوبار اس نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا. لیکن پہلی بار یوں ہوا کہ جس خاتون سے شادی کرنا چاہتا تھا اس سے عرض مدعا نہ کر سکا اور اس خاتون نے ایک دوسرے شخص سے شادی کرلی. دوسری بار جس خاتون سے وہ شادی کرنا چاہتا تھا وہ خاتون اس شہر سے ہی چلی گئی. اور کانٹ کو اس سے بات کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا. کانٹ ساری عمر کنوارہ رہا غالبا وہ بھی نطشے کی طرح یہ سمجھتا تھا کہ شادی شدہ آدمی کام کا نہیں رہتا. ٹالیرانڈ نے تو صاف کہا تھا کہ شادی شدہ آدمی کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ وہ روپے کے لیے سب کر گزرتا ہے اور یقینی بات ہے کہ کانٹ ایسا آدمی تھا جو اپنی زندگی کے اصولوں کو محض شادی کی مسرت پر قربان نہیں کر سکتا تھا.

وہ اپنی عظیم تصنیف “تنقیدبرعقل محض” پر کام کرتا رہا خاموشی سے…….کسی کو علم نہ تھا کہ وہ کیا لکھ رہا ہے. کسی کو علم نہ تھا کہ وہ ایک بڑے طوفان کو تخلیق کر رہا ہے وہ بار بار لکھتا اور نظر ثانی کرتا با لآخر اس کی یہ کتاب ١٧٧١ میں مکمل ہو گئی. اس وقت کانٹ کی عمر ستاون برس ہو چکی تھی. دنیا کا کوئی فلسفی اس عمر میں جا کر ایسی کتاب کا خالق بنتا ہوا دکھائی نہیں دیتا جس نے سارے فکری نظام کو ہلا کر رکھ دیا.

تنقید برعقل محض (Critique of Pure Reason)

اس عنوان کا مفہوم کیا بنتا ہے کتاب کے عنوان سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ “عقل محض” پر تنقیدی حملہ کیا گیا ہے حالانکہ کانٹ ایسا نہیں کرتا تھا یہاں “کریٹیک” کا لفظ تنقیدی تجزیے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے. اس عظیم تصنیف میں کانٹ ہمیں بتاتا ہے کہ عقل ہے کیا اور عقل محض کیا ہے. اس کے امکانات کیا ہیں اسکی حدود کیا ہیں. عقل محض سے اسکی مرد علم ہے ایسا علم جو حواس کے ذریعے حاصل نہیں ہوتا جو ہر طرح کے حیاتی تجربات سے آزاد ہوتا ہے. یہ علم مختلف ذہنی ساختوں سے جنم لیتا ہے. اپنے اس فلسفے کے حوالے سے کانٹ برطانوی مکتب کے عظیم فلسفیوں ہیوم اور لاک کو چیلنج کرتا ہے جو علم کا منبع حواس کو قرار دیتے ہیں. ہیوم کا خیال تھا کہ نہ روح ہوتی ہے نہ سائنس ہمیں جو کچھ نصیب ہوتا ہے وہ حواس کے ذریعے ملتا ہے. کانٹ نے اس کی شدید انداز میں نفی کی اس نے اپنی کتاب میں لکھا.

میرا بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ ہم عقل سے امید رکھتے ہوئے کیا حاصل کر سکتے ہیں اور یہ سوال اس صورت میں زیادہ واضح ہو جاتا ہے کہ جب ہم تمام مواد اور تجربے کی اعانت کو ایک طرف رکھ دیں تب عقل کس حد تک ہمیں کیا دے سکتی ہے.!

اپنے اس سوال کے حوالے سے کانٹ اپنی اس عظیم تہلکہ خیز کتاب میں ذہنی ڈھانچے اور دماغ کے مختلف مدراج کو بیان کرتے ہوئے ایسے امکانات کی نشاندہی کرتا ہوا ملتا ہے جو پہلے کبھی ہمارے سامنے نہ آئے تھے وہ اپنی اس کتاب کے حوالے سے بہت بڑا دعویٰ کرتا ہے اتنا بڑا دعویٰ شید ہی کسی فلسفی نے کیا ہوگا. وہ تنقید برعقل محض میں لکھتا ہے.

اس کتاب میں میں نے یہ مقصد رکھا ہے کہ تکمیل کو اپنا ہدف بناؤں میں نے یہ کاوش کی ہے کہ کوئی بھی مابعد الطبیعاتی مسئلہ ایسا نہ ہو جس کا جواب اورحل اس کتاب میں موجود نہ ہو یا پھر کم از کم اس مسئلے کے حل کے لیے اس کی کلید فراہم نہ کردوں.

کانٹ تنقید برعقل محض میں بتاتا ہے.

“تجربہ ایسی چیز نہیں ہے کہ جس پر علم کا انحصار ہو تجربے کی بدولت ہم خالص علم حاصل نہیں کر سکتے تجربہ ہاںمیں یہ بتاتا ہے کہ “کیا ہے “؟ لیکن یہ بتانا اس کے بس میں نہیں کہ کیوں ہے؟ اور پھر لازم نہیں کہ تجربہ ہمیں صحیح معنوں میں یہ بھی بتا سکے کہ کیا ہے؟ کی اصل کیا ہے.”انسان کے اندر کی سچائی تجربے سے آزاد ہونی چاہیے .”

ہم تجربے کی بدولت کہاں تک آگے بڑھ سکتے ہیں؟اسکا جواب ریاضی سے ملتا ہے ریاضی کا علم یقینی بھی ہے اور ناگزیز بھی ہم مستقبل کے بارے میں ریاضی کے اصول کو توڑ کر محض تجربے کی بناء پر علم حاصل نہیں کر سکتے.ہم یہ یقین کر سکتے ہیں کہ مستقبل میں سورج مغرب میں طلوع ہو سکےگا. یہ بھی یقین کر سکتےہیں کہ آگ لکڑی کو نہ لگے گی لیکن ہم پوری زندگی یہ بات تسلیم نہیں کر سکتے کہ دوا اور دو چار کے علاوہ بھی کچھ ابن سکتے ہیں. یہ سچائی تجربے سے پہلے کی ہے لازمی اور ناگزیز سچائیاں تجربے کی محتاج نہیں ہوتی ہے اور ایسی سچائیاں کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتی ہیں..

تجربے کا حاصل انفرادی اور منتشر ہیجان کے علاوہ کچھ نہیں. سچائیاں ہمارے دماغ کی پیداوار ہیں. ہمارے ذہنی اور دماغی ساخت سے جنم لیتی ہیں. ذہن ایسا نہیں ہے کہ جیسے برطانوی فلسفیوں نے کہا ہے کہ اس پر موم رکھی ہو اور اسے حرارت ملے تو اس پر نقش بیٹھ جاتا ہے. ذہن مفعول نہیں فاعل ہے. ذہن مجرو احساسات اور کیفیات کا بھی نام نہیں. ذہن ایک افعال عضو ہے جو ہیجانات کو خیالات میں تبدیل کرتا ہے جو منتشر اور گمراہ تجربات کے دوہرے پن کو منظم خیالات کی شکل دیتا ہے. کانٹ اپنے اس فلسفے کو (ماورائی) فلسفے کا نام دیتا ہے اور اسی نام سے شھرت حاصل ہوتی ہے. اس حوالے سے کانٹ کو لازوال مقام حاصل ہوا ہے.

وہ ان دو مراحل کا ذکر کرتا ہے جو ایک خاص طریقہ کار سے گزرتے ہوئے ہیجانات کے خام مواد کو خیال کی شکل دیتے ہیں. پہلا مرحلہ ہیجان کا وہ ہے جب زبان و مکان کا احساس اور تصور پیدا ہوتا ہے. دوسرے مرحلے میں یہ تصور خیال کی صورت اختیار کرتا ہے.

کانٹ اپنے فلسفے میں احساس زمان اور احساس مکان کو بیحد اہمیت دیتا ہے کیونکہ تصورات اور خیالات کی تشکیل میں یہ دونوں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں. زمان و مکان کا صحیح احساس ہی خیالات کی تنظیم کرتا ہے. ہیوم اور لاک نے ذہن اور دماغ کو محض پیسو باکس کا نام دیا تھا لیکن کانٹ نے دماغ کو خیالات اور عقل کا سرچشمہ اور گنجینہ ثابت کر دکھایا ہے. کانٹ کے فلسفے کو سمجھنے کے لیےول ڈرانٹ کے اس ٹکرے کو غور سے پڑھیے جو اس کے نظریات کا نچوڑ ہے.

Sensation is unorganized stimulus, perception is organized sensation, conception is organized perception, science is organized knowledge, wisdom is organized life: each is a greater degree of order, and sequence, and unity. Whence this order, this sequence, this unity? … it is our purpose that put order and sequence and unity upon this importunate lawlessness; it is ourselves, our personalities, our minds, that bring light upon these seas۔

 

وہ عقل کو منبع اور سچائی قرار دیتا ہے. حواس کے ذریعے سے حاصل ہونے والے تجربوں کو غلط کہتا ہے. کیونکہ ان میں انتشار ہوتا ہے ان میں نظم اور وحدت کا فقدان ہوتا ہے کانٹ کا ایک جملہ ہے.

Perceptions without conceptions are blind

یہ ذہن اور دماغ ہے جو “بحران” کو دور کرتا ہے اور تجربے سے مادرا اصلی سچائیوں تک لے جاتاہے. وہ لکھتا ہے کہ جو قوانین خیالات کے ہیں ووہی قوانین اشیاء پر لاگو ہوتے ہیں. کیونکہ اشیاء کا علم خیالات کے حوالے سے ہوتا ہے. اس لیے اشیاء کے لیے ان قوانین کی متابعت ناگزیر ہے. کانٹ کے فسلفے کے سمجھنے کا لیے شو پہار کی راۓ بھی بیحد مدد دیتی ہے.شو پہار نے کانٹ کے بارے میں لکھا تھا.

“Kant s greatest merits distinction phenomenon from the thing in itself”

کانٹ نے “تنقید برعقل محض”میں ایک جگہ لکھا ہے. “ہم کسی ایسے تجربے کا ذکر ہی نہیں کر سکتے جس کی وضاحت اور تشریح مکان،زمان اور اسباب علت سے نہ ہو سکتی ہو.” کانٹ کے فلسفے سے کلیسیا اورمذہبی دنیا اور اس کے تعلقات میں انقلاب آیا. اختلافات کا ایک باب واہوا جو کبھی بند نہ ہو سکا. حواس کو ترک کر کے عقل محض کو زندگی کے معنی و مقصد قرار دے کر کانٹ نے فلسفے کا ایسا نظام قائم کیا جس نے پہلے نظریات کو یکسر رد کردیا. سارتر جیسے عظیم مفکر اور دانشور نے کانٹ کی شخصیت اور اس کے افکار کے تضاد کو بارے موثر انداز میں نمایاں کیا ہے وہ لکھتاہے. “یہ سیدھا سادہ عام پروفیسر ظاہر اور باطن کے عظیم ترین تضاد کا حامل تھا. لوگ اسی دیکھ کر اپنی گھڑیوں کا وقت درست کرتے تھے لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اسے شخص نے ان کی زندگیوں کے ساتھ وابستہ عقائد کو سفاکی سے قتل کردیا ہے.”

کانٹ نے مذہب کو اخلاقی قوانین اور اصول کے تابع کردیا.اس نے اپنی بنیادی کتاب اور فلسفے “تنقید برعقل محض” کو وسعت دے کر اس کا اطلاق بعد کے دور میں دگیر موضوعات پر کیا. چھیاسٹھ برس کی عمر میں اس کی کتاب “کریٹیک آ منجمنٹ ” شائع ہوئی. انہتر برس کی عمر میں اس نے کتاب لکھی.

Religion within the limits of pure reason

یہ کتاب جو اس کے بنیادی فلسفے کا مذہب پر اطلاق کرتی ہے. اس کی سب سے “ہیباک” کتاب کا درجہ رکھتی ہے اور پھر یہ ذہن میں رکھیے کہ اس کتاب کو اس نے انہتر برس میں لکھا.وہ لکھتا ہے کہ مذہب کی نظریاتی عقل کی منطق پر نہیں رکھنی چاہیے. بلکہ اس کی بنیاد عملی عقل اور اخلاقیات پر استوار ہونی چاہیے. اس کا مطلب یہ ہوا کہ بائیبل جیسی مذہبی کتاب کو اخلاقی قواعد پر جانچ جاۓگا اس محض روحانی حیثیت کو سامنے نہ رکھا جاۓ گا. گرجے اور مذہبی عقائد اگر اخلاقی ذمہ داری کو پورا نہیں کرتے اور محض ذمہ داری، اجارہ داری برقرار رکھنے میں کوشاں ہیں تو پھر وہ اپنا فرض صحیح طور پر روا نہیں کر رہے. کانٹ لکھتا ہے.

یسوع خدا کی بادشاہت کو زمین کے قریب لے آیا تھا. لیکن یسوع کو غلط سمجھا گیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خدا کی بادشاہت قائم ہونے کے بجاۓ پادری کی بادشاہت دنیا پر قائم ہو گئی.”

“معجزے کسی مذہب کی صداقت کو ثابت نہیں کر سکے”. کانٹ کے اس نظریے “عقل محض” اور اس کے مذہب پر اطلاق کی وجہ سے بڑی لے دے ہوئی. اس کے خلاف حکومت نے ایک بڑا فیصلہ کیا تھا لیکن اس کی عمر اور بڑھاپے کی وجہ سے نظر انداز کر دیا گیا. ورنہ یہ بھی ممکن تھا کہ اس کی بقیہ زندگی زندان میں بسر ہوتی. اس کتاب کو جو مذہب کے حوالے سے تنقید بر عقل محض سے تعلق رکھتی ہے. اس ناشر نے شائع کرنے اسے انکار کردیا جو اسی پہلے شائع کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا. کانٹ نے بڑی بہادری کا ثبوت دیا اور یہ کتاب اپنے دوستوں کو بھیج دی جینا کا علاقہ جرمنی کی حدود سے باہر تھا. اس لیے اسی جینا یونیورسٹی نے شائع کیا. اس کتاب کی اشاعت پر جینا کا بادشاہ بیحد ناراض ہوا. اس نے ایک شاہی فرمان کانٹ کے نام جاری کیا جس میں کانٹ کی شدید مذمّت کی گئی کہ اس نظریات کی وجہ سے مقدّس کتابوں کی بے حرمتی ہوئی ہے اور عیسائی اعتقادات کی بیخ کی گئی ہے. اسے متنبہ کیا گیا کہ وہ مستقبل میں ایسی کوئی تحریر نہ لکھ اور اپنے فرائض کو اس طرح ادا کرے کہ اعتقادات پر حرف نہ آئے. ساتھ ہی یہ وارننگ بھی دی گئی کہ اگر اس نے آئندہ احتیاط نہ برتی تو پھر ناخوشگوار نتائج پیدا ہونگے.

کانٹ نے خاموشی اخیار کے رکھی اصل میں وہ جو کچھ کہنا چاہتا تھا وہ اپنی اس کتاب کے حوالے سے کہ چکا تھا. ١٨٠٤ میں کانٹ کا انتقال ہوا.

Share

October 7, 2012

قصہ شہر فرشتگاں کے اردو مشاعرے کا

Filed under: ادبیات,شاعری,طنزومزاح — ابو عزام @ 10:22 pm

اب آغاز قصے کا کرتا ہوں

ذرا کان دھرکو سنو اور منصفی کرو

دو درویش پہنچے مومن لاج پیرزادہ کا ترنم سننے

دیکھا ہمارے وی سی صاحب تو غائب ہیں

شاید کچھ تنظیمی کام آن پڑے ہوں

پرحسیں ہاتھ کے کنگن والے وصی شاہ موجود

سنا کہ موے فرنگیوں نے قاسم صاحب کو ویزا نہ دیا

ہم سوچتے رہے پھرشاہ صاحب کو کیونکر ملا

کہ وہ تو حواس انسانی و اردو ادب کے جرائم کیلئے

ہیگ میں مطلوب ہیں

پھر یکایک راشد بھائ گویا ہوے کہ

تجھے قسم کہ اگر یہاں بیٹھا تو

 تعلق رفتگاں میں ایسی دراڑ پڑے گی کہ۔۔۔

بس پھر الٹے پانوں لوٹ آے


ایک نہائت آزاد نظم بقلم خود

Share

October 3, 2012

اردو مرکز لاس اینجلس میں مشاعرہ

Filed under: ادبیات — ابو عزام @ 10:36 am

ہفتہ چھ اکتوبر کو مومن لاج، ٹارینس میں ہونے والے مشاعرے کا اشتہاری دعوت نامہ

Share

Powered by WordPress