فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

April 30, 2013

محمد عبدالغنی، ایک عہد ساز شخصیت

Filed under: عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 6:43 pm

میرے بزرگ محمد عبدالغنی کو ہم سے جدا ہوے آج چھ برس کا عرصہ ہو چلا ہے۔ اس ضمن میں ایک یادگاری مضمون قارئین کی نظر ہے۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرماے، آمین۔

دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر
کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست

اخلاق و شرافت ، علم دوستی، شائستگی و تہذیب ، بلند حوصلگی ، وسعت قلب و فکر ، وضعداری و پاسداری اور انسانی ہمدردی جیسے الفاظ ان صفات میں سے صرف کچھ ہی کا احاطہ کر سکتے ہیں جن سے محمد عبدالغنی کی نابغہ روزگار شخصیت متصف تھی۔اسم با مسمی عبدالغنی کی تمام زندگی ضرورت مندوں کی دامے، درمے اور سخنے مدد سے عبارت تھی جس روایت کو انکی اہلیہ و اولاد نے زندہ رکھتے ہوئے عم محترم کے لئے صدقہ جاریہ کا التزام رکھا۔ آپ کی مکمل شخصیت کا احاطہ کرنا اس مختصر مضمون میں تو چنداں ممکن نا ہوگا لیکن میں‌ کچھ چیدہ چیدہ نکات قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہوں‌ گا۔

9 جنوری 1924 کو برٹش انڈیا کے صوبہ مہاراشٹر کےشہر پربنی میں آپ کی پیدائش ہوئی جو حیدرآباد دکن سے تقریبا دو سو میل کے فاصلے پر ہے۔ یہاں سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سیکنڈری تعلیم کے حصول کے لئے آپ اورنگ آباد چلے گئے۔ بعد ازاں آپ نے جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں داخلہ لیا جو کہ برطانوی راج میں غیر منقسم ہند کے بہترین تعلیمی اداروں میں سے ایک تھی اور اسے انڈیا کی آکسفورڈ اور کیمبرج کا درجہ دیا جاتا تھا۔ یہاں سے آپ نے 1941 میں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں علم کیمیا کے اندر پوری جامعہ میں پہلی اور علم طبعیات میں چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ 1943 میں آپ نے کیمیا، طبعیات، ریاضی اور انگریزی کے ساتھ بی ایس سی کی تعلیم مکمل کی اور ماسٹرز میں داخلہ لیا۔ یہ وہ وقت تھا جب عمومی طور پر لوگوں کا تعلیم کی طرف رجحان نا تھا لیکن غنی صاحب نے دور اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے اعلی تعلیم کو اپنی کلید کامیابی قرار دیا ۔اکیس سال کی عمر میں1945 میں اطلاقی کیمیا میں ماسٹرز میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن حاصل کرنے کے بعد آپ نےمزید اعلی تعلیم کے حصول کے لئے جامعہ عثمانیہ کو خیر آباد کہا اور محقق کے طور پر سرکاری اسکالرشپ پر برطانیہ روانہ ہوئے ۔ غیر ملکی تعلیم کے لئے سرکاری وظیفہ حاصل کرنا ایک بڑا اعزاز تھا جسے محمد عبدالغنی نے اپنی محنت اور ذہانت سے حاصل کیا اور ہر سطح پر اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ۔ آپ نے نارتھ اسٹیفورڈشائر تکنیکی کالج سے 1946-47 کے درمیان پروڈکشن مینیجمنٹ، پاٹری، مشین ڈراینگز، ورکشاپ ٹیکنالوجی، اطلاقی طبعیات جیسے گیارہ کلیات میں مینیجر کا کورس مکمل کیا جبکہ پاٹری اور سرامکس کے دیگر چھ کلیات میں ڈپلوما کی تعلیم حاصل کی۔ دو سال کے اندر ان تمام اسباق میں مہارت آپکی ذہانت، لگن اور محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

برطانیہ سے واپسی پر آپ نے بھارت کے بجاے پاکستان کو اپنی سرزمیں کے طور پر چنا اور سندھ گورنمنٹ میں‌ ڈپٹی ڈیولپمنٹ آفسر کے طور پر فرایض انجام دئے۔ نوزائدہ مملکت خداداد کو اسوقت جن مسائل اور چیلینجز کا سامنا تھا، ان میں‌ محمد عبدالغنی کی شخصیت اور ذہانت رکنے والے لوگوں کی اشد ضرورت تھی جو کہ اس نئے ملک کی تعمیر و ترقی کی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اس کار گراں کا بوجھ اٹھا سکیں۔ آپ نے یہ ذمہ داری نہایت بخوبی نبھائی اور زیل پاک سیمنٹ فیکٹری، دادو‌خیل سیمنٹ فیکٹری اور میپل لیف سیمنٹ فیکٹری کی داغ بیل ڈالی۔ 1955 سے 1960 کے عرصے میں‌آپ نے میپل لیف سیمنٹ فیکٹری کے مینیجر اور زیل پاک کے ایڈمنسٹریٹیو افسر کے فرائض انجام دئے۔ آپ کی صلاحیتوں اور قابلیت کو دیکھتے ہوئے آپ کو پی آی ڈی سی کے جنرل مینیجر (سیمنٹ) کے عہدے پر فائز کیا گیا جہاں سے آپ 1961 سے 1971 کی دہائی میں زیل پاک سیمنٹ فیکٹری، دادو‌خیل سیمنٹ فیکٹری، جنرل ریفیکٹریز اور میپل لیف سیمنٹ فیکٹری کو بخوبی چلایا۔ اس ایک دہائی کے دوران ان فیکٹریز کی مکمل ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر تھی جس میں‌ مارکٹنگ، پلاننگ، مینیجمنٹ، آرگنائزیشن، لیبر تعلقات وغیرہ شامل ہیں۔ اس دوران آپ نے نا صرف پروڈکشن میں کئی گنا اضافہ کیا بلکہ مشرق وسطی میں پاکستانی سیمنٹ کی کھپت کے لئے نئی منڈیوں کی تلاش کا سہرہ بھی غنی صاحب کے ہی سر جاتا ہے۔آپ ایک ‘سیلف میڈ’ انسان تھے اور ‘ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا’ کی عملی تفسیر۔ اسی وجہ سے آپ نے ہمیشہ لوگوں‌ کو نامصائب حالات میں محنت کرنے اور اپنی مدد آپ کرنے کی تلقین کی۔

1971 میں حکومت وقت کے سیمنٹ فیکٹریوں کے قومیاے جانے کا فیصلہ کیا جس کو بعد میں تاریخ نے ایک سنگین غلطی ثابت کیا،۔ اس عرصے میں آپ نے 1972 سے 1976 تک اسٹیٹ سیمنٹ کارپوریشن، جاویداں سیمنٹ فیکٹری کے مینیجنگ ڈایریکٹر کے فرایض انجام دیئے۔ جو لوگ پاکستان کی سیمنٹ کی صنعت کے لئے آپ کی دیرینہ خدمات سے آگاہ ہیں وہ آپ کو کئی حلقہ جات میں پاکستان کی اس صنعت کا قائد اور ‘باباے سیمنٹ’ کہتے ہیں۔ لیکن اجتماعی طور پر ہماری احسان نا شناس قوم نے آپ کی خدمات کو قومی سطح پر سراہنے کے بجائے اسے بھلا دیا۔

محمد عبدالغنی کے وسیع تجربے اور قابلیت سے دیگر ممالک نے بھی فائدہ اٹھایا۔ آپ نے بہاما سیمنٹ کمپنی اور گلف گروپ آف کمپنیز میں کنسلٹنٹ کے فرائض انجام دئے اور ان اداروں کی مدد سے کئ ممالک بشمول فلپائن میں‌ سیمنٹ کی صنعت کی داغ بیل ڈالنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بعد ازاں آپ نے روسکیم انٹرنیشنل ہیوسٹن میں بھی کنسلٹنٹ اور ایڈوائزر کے طور پر کام کیا جس کے بعد بینکرز ایکیوٹی نے قرضہ جات کے تعین اور اندازہ کے لئے اپریزر کے طور پر آپ کی ماہرانہ خدمات حاصل کئیں۔

ہمہ از آدمیم ما، لیکن

او گرامی تر است کُو داناست

کسی بھی نئی صنعت کے قیام کے لئےتجربے، وسائل اور پرزہ جات کی کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ اس زمن میں آپ نے بیرون ملک سفر کئے اور کئی کلیدہ معاہدوں کے تحت پاکستان کی سیمنٹ کی صنعت کو اسکی بنیادی ضروریات بہم پہنچائی ۔ ان دوروں کے تحت آپ ڈنمارک، امریکہ، فرانس، مغربی جرمنی، یوکے، سویٹزرلینڈ، سویڈن، اٹلی، چیکوسلاواکیا، ایران، سعودی عرب، جاپان غرضیکہ مشرق وسطی اور بعید کے کئی ممالک سے معاہدے کئے نیز وہاں کے پلانٹس سے حاصل کئے تجربات کو پاکستانی سیمنٹ کی صنعت کی بہتری کے لئے استعمال کیا۔

ان تمام پیشہ وارانہ قابلیتوں کے بعد بھی عبدالغنی صاحب تمام عمر ایک سادہ اور منکسر مزاج انسان کے طور پر جانے جاتے رہے۔ آپ نے ہمیشہ اپنے ضرورت مند عزیز و اقربا کی دامے درمے سخنے مدد کی ۔ آپ نے کبھی ظاہری دکھاوے کو اپنا شعار نہ بنایا بلکہ ہمیشہ لوگوں کو اس بات کی تلقین کی کہ وہ اپنی ترجیحات صحیح طرح متعین کریں۔ان کی جدوجہد اور ترقی ہمیشہ سے میرے لئے ذاتی طور پر ایک مثال رہی ہے۔ وہ مجھ سے ہمیشہ میری تعلیم کے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔ جب میں آٹھ سال کی عمر میں‌ اپنا پہلا کمپیوٹر سرٹیفیکیٹ ان کے پاس دکھانے لے گیا تو بہت خوش ہوئے اور شاباشی دی۔ ان کی اہلیہ ناہید غنی نے بھی بہت حوصلہ افزائی کی اور انعام کے طور پر سو رپے دیے جو میرے لیئے ہمیشہ ایک بیش بہا خزانے کی اہمیت رکھیں گے۔ اپنی اولاد کو بھی انہوں نے اعلی تعلیم دلوائی اور ہمیشہ انسانی ہمدردی اور رواداری کی تلقین دی جو آج بھی ان کی زندگی کا جزو لا ینفک ہے۔ سادہ و منکسر چچا جان اپنی تعریف کے قطعی قائل نا تھے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر میرا یہ مضمون پڑھ لیں تو ضرور کہتے کہ میاں اپنی پی ایچ ڈی کی تعلیم پر توجہ دو، یہ کہاں تم مدح سرائیوں میں لگے ہو۔

m a ghani adnan masood childhood

مجھ کو دہراؤ گے محفلوں میں مثالوں کی طرح

اپریل 2007 کے آخری ہفتوں کی بات ہے کہ خبر ملی کہ چچا جان صاحب فراش ہیں۔ شام کو اپنی والدہ کے ہمراہ ان سے ملنے یو سی ایل اے میڈیکل سینٹر گیا تو ان کے گرد تمام گھر والے جمع تھے ۔ انہیں دوسروں کے آرام کا اسقدر خیال تھا کہ عیادت کرنے تو میں گیا تھا مگر الٹا مجھ سے ہی پوچھنے لگے کہ راستے میں کہیں ٹریفک تو زیادہ نہیں ملا اور سفر میں مشکل تو نہ ہوئی۔ کچھ دیر بعد جب میں نے اجازت لی اور کہا کہ انشااللہ کل ملاقات ہوگی تو میرے وہم و گمان میں بھی نا تھا کہ یہ میری ان سے آخری ملاقات ہے۔ اگلی صبح شاہد بھائی کا فون آیا کہ پاپا کا انتقال ہو گیا ہے۔

اناللہ وانا علیہ راجعون

آپ کی تدفین میں‌ لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ دنیا بھر سے رشتے داروں اور دوستوں کے تعزیتی پیغامات کا تانتا بندھا رہا۔

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

لیکن سب سے اہم چیز جو انہوں نے اپنے میراث میں چھوڑی وہ متاع دنیا یا شہرت نہیں بلکہ اپنی اولاد اور خاندان والوں میں علم دوستی اور انسانی ہمدردی کا جذبہ تھا۔ آج انکا پوتا منصور غنی امریکہ کی جامعہ ییل کا طالبعلم ہے جو کئی امریکی صدور کی علمی و فکری درسگاہ رہی ہے۔ علم کی اہمیت کا یہ بیج بونے کا سہرا اس کے دادا ہی کے سر رہے گا .

آپ کی علمی و تکنیکی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف تھا۔ انکے ایک ماتحت اور میرے عزیز دوست کے والد بیان کرتے ہیں کہ “میں نے غنی صاحب جیسا ایماندار، ڈسپلنڈ اور نظم و ضبط کا پابند افسر اپنی تیس سالہ سروس میں آج تک نہیں دیکھا۔ ان کو جھوٹ، رشوت، سفارش سے سخت چڑ تھی اور قاعدے قانون کی پابندی انکی پیشہ وارانہ زندگی کا نہایت اہم جز”۔

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

photo

Share

April 28, 2013

عسکری الحادئیے

Filed under: مذہب — ابو عزام @ 6:50 am

کیونکہ عسکری ملحدین یا دہریہ کہنے سے، باالفاظ شعیب سلیم، ٹیمپو نہیں بنتا۔

الحاد ایک مذہب ہے، اور اس کے عسکری پیروکار و معتتقدین انہی غیر اثبات شدہ حقیقتوں کا پرچار کرتے ہیں جن کے عدم ثبوت میں وہ دیگر متصور الہامی وغیر الہامی مذاہب کے تمسخر و استہزا پر مصر ہیں۔ کم از کم پیر مغاں کلیسا الحاد نے اس عدم ادراک کی لاج رکھی ورنہ علمی دیوالیہ تو اس انبوہ کا وطیرہ ٹھرا۔

اور جب مفتود شدہ اخلاقی جرات کی بات چل نکلی ہے تو جہاں حضرت انسان کی اطاعت طلب کرنے پر انہیں مذہب سے خدا واسطے کا بیر ہے (واللہ عالم اس محاورے کا لغت زندیقیہ میں ترجمہ کیا ہوتا ہے)، وہیں حضورکا انسانی فلسفہ و نظریات مثلا جمہوریت و اشتراکیت و ملوکیت و فاشیستی واستبداد کی پبلک پالیسی امور میں دخل اندازیوں سے ایسا تجاہل غیر عارفانہ و صرف نظر کہ دامن پہ کوئ داغ نا ۔۔

وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ

Share

April 26, 2013

عقلیت پرستی کا دور از حسن عسکری

Filed under: ادبیات,کتابیات,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 9:58 pm

عقلیت پرستی کا دور، انتخاب از مجموعہ محمد حسن عسکری

حسن عسکری

عقلیت پرستی کی داستان یہ ہے. سترھویں صدی کے وسط تک لوگ یہ طے کر چکے تھے کہ انسان کی جدوجہد کا میدان یہ مادی کائنات ہے، اور انسان کا مقصد حیات تسخیر فطرت یا تسخیر کائنات ہونا چاہئے. بیکن نے مطالعہ فطرت کا طریقہ بھی مقرر کر دیا تھا. اب سوال یہ تھا کہ انسانی صلاحیتوں میں کونسی صلاحیت ایسی ہے جو تسخیر کائنات کے لئے زیادہ مفید ہو سکتی ہے. اس دور نے یہ فیصلہ کیا کہ انسان صرف عقل (یعنی عقل جزوی اور عقل معاش) پر بھروسہ کر سکتا ہے، کیونکہ یہی چیز سارے انسانوں میں مشترک ہے. عقل (جزوی) کا یہ اختصاص ظاہر کرنے کے لئے ان لوگوں نے لفظ (یونیورسل) استعمال کیا. اس لفظ کی وجہ سے اتنی غلط فہمیاں اور گمراہیاں پیدا ہوئی ہیں کہ ہمارے علماء کو اس کی نوعیت اچھی طرح ذہن میں رکھنی چاہئے. اس لفظ کے اصل معنی ہیں. “عالم گیر” یا “کائنات گیر”مگر یہاں عالم کے معنی مادی کائنات نہیں ہیں، بلکہ وہ مفہوم ہے جو “اٹھارہ ہزار عوالم” کے فقرے میں آتا ہے. ہمارے دینی علوم میں دراصل اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے دو کافظ استعمال ہوتے ہیں…”کامل” (جیسے “انسان کامل”) اور “کلی” (جیسے “عقل کلی”) مگرفی الحال مغرب “عوالم” کا مطلب نہیں جانتا’ اس کے ذہن میں “عالم” کا مطلب صرف مادی کائنات اور اس کے اجزاء ہیں. چناچہ سترھویں صدی سے مغرب میں (یونیورسل) کا لفظ جنرل (یعنی عمومی) کے معنوں میں استعمال ہو رہا ہے. جو چیز “عمومی” ہوتی ہے وہ انفرادیت اور جزویت ہی کے دائرے میں رہتی ہے “کامل” اور “کلی” نہیں ہوتی. مگر مغرب اس امتیاز سے واقف نہیں.

یہ تو جملہ معترضہ تھا. غرض ‘ عقلیت پرستی کے دور میں یہ بات تسلیم کرلی گئی کہ انسان کی رہنمائی بس عقل (جزوی) کر سکتی ہے.

اس دور کے سب سے بڑے “امام” دوہیں. ایک تو فرانس کا فلسفی اور ریاضی دان دے کارت اور دوسرا انگلستان کا سائنسدان نیوٹن.

دیکارت یوں تو رومن کیتھلک پادری تھا’ اور اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں کے شکوک و شبہات دور کر کے اپنے دین کی خدمت کرنا چاہتا تھا. لیکن نتیجہ الٹا نکلا’ مغرب کے ذہن کو مسخ کرنے کی ذمہ داری جتنی اس پر ہے شاید اتنی کسی ایک فرد پر نہیں’ فرانس کے ایک رومن کیتھلک مصنف نے تو یہاں تک کہا ہے کہ فرانس نے خدا کے خلاف جو سب سے بڑا گناہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ دیکارت کوپیدا کیا.
اب تک تو یہ بحث چلی آرہی تھی کہ حقیقت روح میں ہے یا مادے میں ‘بعض لوگ کہتے تھے کہ روح حقیقی ہے ‘مادہ غیر حقیقی. بعض لوگ کہتے تھے کہ مادہ بھی حقیقت رکھتا ہے مگر کھلی طور پر، کچھ لوگ دبے لفظوں میں یہ بھی کہتے ہیں کہ بس مادہ ہی حقیت ہے. اس سارے جھگڑے کا دیکارت نے یہ حل نکالا کہ روح اور مادہ دونوں حقیقی ہیں’ مگر ایک دوسرے سے بلکل الگ ہیں اور اپنی اپنی جگہ قائم ہیں. چناچہ اس نے روح اور مادے کو ‘ انسان کی روح اور جسم کے دو الگ الگ خانوں میں بانٹ دیا جو ایک دوسرے سے آزاد اور خود مختار ہیں.

یہ نظریہ مغربی ذہن میں اس طرح بیٹھا ہے کہ تین سو سال سے یہ تفریق اسی طرح چلی جا رہی ہے. روح اور جسم’ روح اور مادے کے ارتباط کے مسلہ آج تک حل نہیں ہوا. مغرب کے زیادہ تر مفکر جسم اور مادے میں اٹک کے رہ گۓ’ اس سے اوپر نہیں جا سکتے کچھ مفکر روح میں لٹک گۓ تو نیچے نہیں آ سکتے. دیکارت کے فلسفے کا سب سے خوفناک نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مغرب “روح” کے معنی ہی بھول گیا’ اور “ذہن” (یا “نفس”) کو روح سمجھنےلگا.

یہ گڑبڑ دراصل یونانی فلسفے میں بھی موجود تھی. ارسطو وغیرہ یونانی فلسفی انسان کی تعریف دو طرح کرتے ہیں. انسان کو یا تو “معاشرتی حیوان” کہتے ہیں یا “عقلی حیوان” (ان فقروں سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ یونانی فلسفے پر معاشرتی نقطہ نظر اور عقل جزوی کس حد تک غالب تھی). دیکارت کے ہم عصر فرانسیسی مفکر پاسکال نے انسان کو “سوچنے والا سرکنڈا” بتایا ہے. یعنی انسان کے جسمانی وجود کے جانور کی سطح سے بھی نیچے اتار دیا ہے. (مغرب کی ساری جسم پروری کے باوجود مغربی فکر میں جسمانیت سے گھبرانے اور اسے حقیر سمجھنے کا رجحان بھی خاصا قوی ہے.)

اسی طرح دیکارت نے انسانی وجود کی تعریف ایک مشہور لاطینی فقرے میں یوں کی ہے.

Cogito ergo sum  (I think therefore i am )

“میں سوچتا ہوں” اس لئے میں ہوں”. گویا اس کےنزدیک وجود کا انحصار ذہن پر ہے. یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر آدمی نہ سوچے تو اس کا وجود رہے گا یانہیں. خود دیکارت سے ایک آدمی نے پوچھا تھا کہ “میرے کتے کے بارے میں آپ کی کیا راۓ ہے ؟”

غرض ‘ جسم اور روح’ مادے اور روح کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکارت نے مغربی فکر کو ایسی الجھن میں ڈال دیا ہے جس سے باہر نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیںآتی’ اور مغربی ذہن ہر مسئلے پر روح اور مادے کے تقابل یا تضاد ہی کے لحاظ سے غور کرتا ہے.

دیکارت کے ہم عصر پاسکال نے ایک دوسرے قسم کی کشمکش مغربی ذہن میں پیدا کی ہے. اب تک تو لڑائی روح اور جسم میں ہی تھی. چونکہ مغرب “روح” کے معنی بھولنے لگا تھا’ اس لئے کہنا چاہئے کہ ذہن (یا نفس) اور جسم میں لڑائی تھی. پاسکال نے اعلان کیا کہ “دل کے پاس بھی ایسی منطق ہے جسے عقل نہیں سمجھ سکتی،”

The heart has reasons of its own which the reason does not understand

یہاں لفظ “دل” کے معنی خاص طور سے سمجھہ لینے چاہیں’ نہ صرف اسلامی علوم میں بلکہ سارے مشرقی ادیان میں “دل” سے مراد ہے “عقلی کلی”. علاوہ ازیں ‘ ہمارے یہاں “نفس” روح اور جسم کے درمیان کی چیز ہے. اس لئے “نفس” میں عقل جزوی بھی شامل ہے اور ہوا وہوس بھی. پاسکال نے جس “دل” کا ذکر کیا ہے اور جسے “ذہن” مقابل رکھا ہے. اس سے مراد “جذبات” ہیں. اس سے بتیجھ یہ نکلتا ہے کہ پاسکال نے “دل” اور “عقل” یا “ذہن” کے درمیان جنگ چھیڑ دی’ اور مغربی فکر اور ادب میں اس جنگ کی شدّت بڑھتی ہی چلی گئی ہے. ظاہر ہے کہ اس جنگ سے آدمی کو جذباتی تکلیف پھنچتی ہے. بیسویں صدی میں اس تکلیف کا نام “کرب” رکھا گیا ہے. (اس ضمن میں جرمن زبان کا لفظ اینگسٹ بہت مشھور ہوا ہے. جس کے لئے انگریزی میں لفظ اینگش ہے). ہمارے زمانے میں بہت سے مغربی مفکر اس “کرب” کو انسان کی معراج سمجھتے ہیں. دیکارت کہتا تھا کہ انسان کو وجود سوچنے سے حاصل ہوتا ہے. آج کل کے بہت سے مفکر کہتے ہیں کہ انسان کو وجود “کرب” سے حاصل ہوتا ہے. بلکہ بعض مفکر تو اس “کرب” اور مذہب کو ہم معنی سمجھتےہیں اور اپنی دینیات کی بنیاد اسی پر رکھتے ہیں.

عقلیت پرستی کے دور کا دوسرا بڑا امام نیوٹن ہے. سائنس میں اس کا سب سے بڑا کارنامہ “کشش ثقل کے قانون” کی دریافت ہے. لیکن مغربی ذہن پر اس کا اثر بہت گہرا پڑا ہے. یہ قانون معلوم کر کے اس نے گویا یہ دکھا دیا کہ کائنات کا نظام چند واضح قوانین کے ذریعے چل رہا ہے. اگر انسان اپنی عقل (جزوی) کی مدد سے یہ قوانین دریافت کرلے تو کائنات اور فطرت پر بورا قابو حاصل کر سکتا ہے. قوانین دریافت کرنے میں وقت لگے گا، لیکن انسان کو یہ امید رکھنی چاہئے کہ ایک دن فطرت کو فتح کرلے گا.

سائنس نیوٹن سے بہت آگے چلا گیا اور اس کا تصور کائنات رد کردیا گیا’ مگر اس نے جو ذہنیت پیدا کی تھی وہ بڑھتی چلی گئی ہے.

نیوٹن کی نظرمیں کائنات اور فطرت ایک بے جان مشین تھی’ اور انسان ایک انجینئر کی طرح تھا. کائنات کے اس نظرئیے کو “میکانکیت” کہتے ہیں. انیسویں صدی میں بعض مفکروں نے اس نظرئیے کو رد کر دیا’ اور یہ ثابت کیا کہ کائنات اور فطرت بھی انسان کی طرح جان رکھتی ہے’ اور نمو اس کی بنیادی خصوصیت ہے’ اور کائنات خود اپنی توانائی سے زندہ ہے. اس نظریے کو “نامیت” کہتے ہیں. یہ ایک اور جھگڑا ہے جو تقریبا دو سو سال سے مغرب کے فلسفی اور سائنس داں دو حریف جماعتوں میں صف آرا چلے آ رہے ہیں. ایک گروہ میکانیت کا قائل ہے’ دوسرا نامیت کا.

عقلیت پرستی کے دور میں ہی نفسیات کا آغاز ہوا. اس سے پہلے نفسیات کوئی الگ علم نہیں تھا’ بلکہ فلسفے ہی کا حصّہ تھا. ابن رشد نے تو علم النفس کو طبیعات کے ماتحت رکھا ہے.نفسیات کو فلسفے سے الگ کرنے کا کام سترھویں صدی کے دوسرے حصّے میں انگریز مفکر لاک نے سر انجام دیا’ اور اس کے نظریات میں اضافہ اٹھارویں صدی کے انگریز مفکر ہارٹلے نے کیا. نیوٹن نے کائنات کو مشین سمجھا تھا. ان دو مفکروں نے انسانی ذہن کو بھی مشین سمجھا. ان کا خیال ہے کہ ذہن بجاۓ خود کوئی چیز نہیں’ خارجی اشیاء انسان کے اعصاب پر اثر انداز ہوتی ہیں (مثلآ کوئی چیز دیکھی یا سونگھی یا چھوئی) تو اعصاب میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے. یہ ارتعاش دماغ کے مرکز میں پہنچ کر تصویر کی شکل میں تبدیل ہو جاتا ہے’ اور پھر تصویر خیال بن جاتی ہے. اس طرح خارجی اشیاء کے عمل سے ذہن پیدا ہوتا ہے.

اس نظرئیے کا جواب اٹھارویں صدی میں پادری بارکلے نے دیا. اس کا خیال ہے کہ خارجی اشیاء کو وجود حاصل نہیں’ بلکہ ذہن خارجی اشیاء کوپیدا کرتا ہے. جب کوئی آدمی کہتاہے کہ میں نے پھول دیکھا’ تو اس کے پاس پھول کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا. یہ تو بس ایک ذہنی ادراک ہے’ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ ذہن خارجی اشیاء کو پیدا کرتا ہے. پادری بارکلے نے انسانی ذہن کے نمونے پر خدا کا بھی ذہنی تصور کیا تھا (نعوذ باللہ). اس نظرئیے کو “مثالیت” کہتے ہیں.

انسانی ذہن کے یہ دونوں نظرئیے دراصل روح اور مادے کے اسی تقابل کا نتیجہ ہیں جو دیکارت سے شروع ہوا تھا’ اسی لئے ان دونوں کے درمیان کوئی مصالحت نہیں ہو سکتی.

اٹھارویں صدی کا انگریز فلسفی ہیوم ایک معاملے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اس نے کہا ہے کہ ہر ایسے لفظ کو شک کی نظر سے دیکھنا چاہئے جو کسی ایسی چیز پر دلالت کرتا ہو جسے حسی تجربے میں نہ لیا جا سکے. یعنی وہ چاہتا تھا کہ انسانی زبان و بیان سے ایسے لفظ بھی خارج کردیۓ جائیں جن کا تعلق روحانیت سے ہوں. یہ رجحان آگے چل کر انیسویں صدی میں فرانس کے فلسفی کونت کے “نظریہ ثبوتیت” کی شکل میں ظاہر ہوا، اور بیسویں صدی میں انگریزوں کے “منطقی ثبوتیت” کی شکل میں. ان فلسفوں کا بیان آگےہوگا .

اٹھارویں صدی میں ایک نئی قسم کا مذہب نمودار ہوا جو دراصل دہریت کی ایک شکل ہے. اس کا نام (خدا شناسی) رکھا گیا ہے. اس دور کے لوگ کہتے تھے کہ عقل (جزوی) انسان کا خاص جوہر ہے’ اور یہ چیز ہر زمانے او ہر جگہ کے انسانوں میں مشترک ہے’ اور ہر جگہ ایک ہی کام کرتی ہے.چناچہ خدا کو پہچاننے کے لئے وحی پر تکیہ کرنے کی ضرورت نہیں’ عقل (جزوی) کی مدد سے بھی خدا تک پہنچ سکتے ہیں. عقل کے ذریعے چند ایسے اصول معلوم کئے جا سکتے ہیں جو سارے مذاہب میں مشترک ہوں. ان اصولوں کا مجموعہ ہی اصل مذہب ہوگا.

جب انگریز ہمارے یہاں آئے تو ان کے اثر سے یہ رجحان ہمارے برصغیر میں بھی پہنچا.

١٨٥٧، کی جنگ آزادی کے بعد “خدا شناسی” کے جو میلے انگریزوں نے کراۓ ان کے پیچھے یہی رجحان تھا. ہندو اس سے بہت متاثر ہوئے’ اور انیسویں صدی کے شروع میں راجہ رام موہن راۓ نے جو “برہمو سماج” کی بنیاد ڈالی وہ اسی اثر کا نتیجہ تھا.

مسلمان بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے. ١٨٣٦، میں کمبل پوش نے یورپ کا سفر کیا تھا اور دس سال بعد اپنا سفر نامہ لکھا. ان کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ یورپ جانے سے پہلے ہی وہ “خدا شناسی” سے متاثر ہو چکے تھے. اس کا نام انہوں نے “سلیمانی مذہب” رکھا ہے. اسی کے اثرات اردو شاعر غالب کے یہاں بھی نظر آتے ہیں.

عقلیت پرستی کے دور کی ایک مرکزی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے انسانی زندگی اور انسانی فکر میں سب سے اونچی جگہ معاشرے کو دی تھی.ان کا خیال تھا کہ فرد کو اپنے ہر فعل اور قول میں معاشرے کا پابند ہونا چاہئے. یہ لوگ مذہب کو بھی صرف اسی حد تک قبول کرتے تھے جس حد تک کہ مذہب معاشرے کے انضباط میں معاون ہو سکتا ہے. غرض معاشرے کو بلکل خدا کی حیثیت دے دی گئی تھی نعوذباللہ..اس کے خلاف رد عمل انیسویں صدی میں ہوا’ اور معاشرے کے بجاۓ فرد کو اہمیت دی گئی. بیسویں صدی میں اشتراکیت کے زیر اثر بعض لوگ معاشرے کو پھر خدا ماننے لگے.

مغربی فکر میں جس طرح روح اور مادے ‘ ذہن اور جسم’ عقل اور جذبے کے درمیان مسلسل کشمکش جاری ہے’ اسی طرح معاشرے اور فرد کی کشمکش بھی بنیادی حیثیت رکھتی ہے’ اور اس کا بھی کوئی حل نہیں ملتا. مغرب میں جو معاشرتی انتشار پھیلا ہوا ہے اور روز بروز بڑھتا ہی جاتا ہے اس کی جڑ یہی تضاد ہے.

ان تصریحات سے پتا چلتا ہے کہ مغرب کا ذہن کسی طرح کی وحدت تک پہنچ ہی نہیں سکتا’ اور دوئی ‘ تضاد اور کثرت میں پھنس کے رہ گیا ہے. وحدت کا اصول قائم کرنے کی جتنی کوششیں ہوئی ہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکیں’ اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ مغرب مادے میں وحدت ڈھونڈھتا ہے جہاں کثرت اور شکست وریخت کے سوا کچھ نہیں مل سکتا..

مغرب چاہے معاشرے کو اوپر رکھے یا فرد’ دونوں نظریوں میں ایک بات مشترک ہے ………. انسان پرستی. بیسویں صدی میں بعض مفکر اور ادیب ایسے بھی ہیں جو انسان کو حقیر سمجھتے ہیں یا انسان سے نفرت کرتے ہیں’ لیکن ان کی فکر کا مرکز بھی انسان ہی ہے…

Share

April 21, 2013

محض ایک نظریہ؟ چند غلط العوام اصطلاحات اور انکے درست سائنسی معنی

Filed under: تحقیق,سائینس و ٹیکنالوجی,مشاہدات — ابو عزام @ 6:31 am

 نظریہ یا تھیوری کا لفظ ان غلط العوام  سائنسی اصطلاحات میں سے ایک ہے جو ہماری روز مرہ کی زبان اور اردو نثر میں خاص طور پر مستعمل ہیں۔ لوگوں کا غالب گمان یہ ہے کہ نظریہ ایک نا پختہ بچہ ہوتا ہےجو بڑا ہو کر قانون بن جاتا ہے۔ لہذا شماریاتی علوم کے لفظ معتبر یا سگنفکنٹ سے لیکرآرگینک،  فطری یا نیچرل، اور نظریے سے لیکر ماڈل یا نمونے تک بے شمار ایسی سائنسی اصطلاحات ہیں جنکی معنویت عوام الناس اور سائنسی حلقہ جات میں بلکل مختلف ہے۔  مثال کے طور پر اگریہ کہا جاۓ کے پاکستان کی آدھی آبادی کا آئی کیو اوسط درجے سے نیچے ہے تو شماریات کے ماہر کے لیے یہ اوسط کی  بنیادی تعریف ہونے کے باعث اظہر من الشمس حقیقت ہے لیکن ایک عام فرد کے لئے یہی حقیقت نہایت حیرت انگیز بات ہوتی ہے ۔ بہرطور، مفروضہ، نظریہ، قانون وغیرہ روز مرّہ استعمال کی وہ اصطلاحات ہیں، جن کو غلط العوام کہنا کچھ بے جا نا ہوگا. اب سائنسدانوں کا تو یہ خیال ہے ان تمام اصطلاحات کے بجاۓ لوگ ماڈل یا نمونے کی اصطلاح استعمال کریں تو شائد افاقہ ہو۔

theory

پہلی اصطلاح،  نظریہ

نظریہ بیک وقت ایک عام استعمال ہونے والا لفظ اور ایک پیچیدہ سائنسی اصطلاح ہے۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے کیمیادان،  مائیکل فیئر نے نظریے یا تھیوری کو ایک سائنسی اور تکنیکی اصطلاح قرار دیتے ہوے کہا کہ صرف اس وجہ سے کہ عام لوگ اس اصطلاح کے بارے میں نہیں جانتے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم سائنسدان اسے استعمال کرنا ترک کردیں.اس غلط فہمی کا تو یہ ہے کہ ہمیں بہتر سائنسی تعلیم کی ضرورت ہے۔

عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں میں انسانی ہاتھ کی موجودگی اور نظریہ ارتقاء کے منکرین ان دونوں چیزوں کی سائنسی توجیہ کو محض ایک نظریہ قرار دے کر رد کر دیتے ہیں.موجودہ سائنسی تحقیق کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں میں انسانی آلودگی کے اثرات اور نظریہ ارتقاء،  دونوں نظریات کے لئے واضح سائنسی شواہد موجود ہیں۔ اس انکار کی ایک وجہ یہ ہے کہ لفظ نظریہ کی سائنسی اصطلاح اور اسکی عام فہم معنویت میں شدید اختلاف ہے. ایک سائنسی نظریہ کسی مشاہدے کی ایک ایسی سائنسی توجیہ ہوتا ہے جس کو بارہا کیے جانے والے تجربات سے جانچا اور پرکھا جا سکتا ہے نیز اس کے درست ہونے کے واضح شواہد موجود ہوتے ہیں مثلا درجہ حرارت کا مستقل بڑھنا یا فاسلز کی موجودگی۔ لیکن اگر کسی عام فرد سے نظریے کی تعریف پوچھی جاۓ تو وہ اسے کسی کی ذاتی راۓ پر محمول کریگا، جسکی اکثر و بیشتر کوئی تجرباتی اور مشاہداتی مثال موجود نہیں ہوتی، اور اسی بنا پر اکثر یہ سوال ہوتا ہے کہ قانون اور نظریہ  میں کیا فرق ہے؟

دوسری اصطلاح، قانون۔ عام طور پر قانون کو نظریے کی انتہائ شکل سمجھا جاتا ہے اور اس سے لوگوں کی اکثر یہ مراد ہوتی ہے کہ قانون کبھی غلط نہیں ہوتا۔ اس سے پس پردہ یہ بھی کہا جارہا ہوتا ہے کہ اگر یہ نظریہ واقعی درست ہوتا تو قانون ہوتا۔

حقیقت یہ ہے کہ سائنسی قوانین ، اشیا کی کی عام حالت میں عمومی طور پرپائ جانے والی روش کی نشاندہی کرتے ہیں ۔یہ جملہ کچھ پیچیدہ سا ہے لہذا ہم مثالوں سے سمجھاتے ہیں۔ قوانین دراصل یہ بتاتے ہیں کہ جب سے کسی خاص مشاہدے کی بنیاد پر ایک ریاضیاتی نمونے کو بنایا گیا ہے، اور جس نظام پر اسے لاگو کیا گیا ہے، دونوں کو بلکل اسی روش پر موافق پایا گیا ہے۔ نیز اس قانون میں کوئ رعائت نہیں ہے۔  اب اس کے لئے کچھ مثالوں کو دیکھتے چلیں۔

نیوٹن کے حرکت کے قوانین نہائت مشہور و معروف ہیں اور ان کا اطلاق طبعیات کے بیشتر شعبوں میں لامحالہ کیا جاتا ہے۔ میکرو یا بڑی اشیا پر عمدہ طریقے سے انکے اطلاق کے باوجود کوانٹم مکینکس اور ذرہ جاتی سطح پر یہ قوانین پورے نہیں اترتے۔  اسکے باوجود بھی ان قوانین کو ثقہ قانون کا درجہ حاصل ہے کیونکہ  یہ ماڈل  بڑی سطح پر اشیا کی صحیح طرح نمائندگی کرتا ہے۔

کشش ثقل اور اضافیت کا نظریہ ایسے نظریات کی عام مثالیں ہیں جنہیں ہم تجربہ گاہ میں ثابت کر سکتے ہیں۔  سمجھنے کی بات یہ ہے کہ لفظ نظریہ کوئ تضیک نہیں اور نا کوئ نظریہ بڑا ہو کر قانون بن جاتا ہے۔ ان دونوں کا محض دائرہ کار تھوڑا مختلف ہے۔

نظریہ کسی طبعی، کیمیائ، حیاتیاتی و دیگر سائنسی امور کی وضاحت کرتا ہے اور ‘کیوں’ کی وضاحت کے لئے ایک ذریعہ فراہم کرتا ہے۔ اس کے برخلاف قانون اس وضاحت سے بحث نہیں کرنا مثلا اشیا کی باہمی کشش کے نیوٹن کے قانون پر غور کریں۔ ایک  طبعی روِیہ کی ماڈل کے زریعے پیشن گوئی کرنے کے لئے نیوٹن کے اس قانون کو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن لیکن کمیت میں یہ کشش کیوں آئی، اس کے بارے میں اس قانون کوئ رہنمائ نہیں کرتا اور ہمیں آج کی تحقیق بتاتی ہے کہ کشش ثقل کے بارے میں ہماری ابتدائ سمجھ بوجھ نہایت ناقص ہے۔

لیکن کیا اس سے نیوٹن کے قوانین تبدیل ہو جائیں گے؟ اگر ہمیں کوئ اور ماڈل نیوٹن کے قوانین سے بہتر نتائج دے تو یقینا اس ماڈل کا استعمال شروع کردیا جاے گا لیکن فی الحال یہ قوانین بیشتر روز مرہ کی تکنیکی و انجینئرنگ کی ضروریات کے لئے کافی ہیں۔

تیسری اصطلاح، مفروضہ

جامعہ ساؤتھہ ویسٹرن لوزیانہ کے طبیعات دان ایٹ ایلن کا خیال ہے کہ چونکہ عوام الناس مفروضہ، قانون اور نظریہ جیسےاصطلاحات کی معنویت کا نہایت بے دردی سے قتل عام کرتے ہیں، لہٰذا ان کا استعمال ختم کردینا چاہیے. ایلن کا کہنا ہے کہ اب ان الفاظ کو بچانے کی کوشش کرنا اب ایک سعی لاحاصل ہی ہے. سائنسی طور پر ایک مفروضے کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ  کسی عمل کی ایسی  توجیح پیش کرتا ہے ہے جس کو سائنسی بنیادوں پر جانچہ یا پرکھا جا سکے ، لیکن اگر کسی عام آدمی سے پوچھا جاۓ تو اس کے خیال میں سائنسی مفروضہ محض ایک علمی قیاس یا اٹکل پچو کا دوسرا نام ہو گا جو کہ درست نہیں۔

کسی طبعی عمل کی پیشن گوئ اور اسکو جانچنے کے لئے سائنسدان مختلف اقسام کے ریاضیاتی  سائینسی ماڈل یا نمونے بناتے ہیں، ان کا عشر عشیر ایک مساوات ہوتی ہے مثلا

اس مساوات کو پھر تجربے کی کسوٹی پر رکھا جاتا ہے اور جو ماڈل بہتر طریقے سے تمام عوامل کی نشاندہی کرتا ہو، اسے نظریے کے طور پر مان لیا جاتا ہے اور باقی تمام نمونہ جات یا مفروضوں کو رد کردیا جاتا ہے۔ آکم ریزر بھی اسی عمل کی ایک مثال ہے۔

چوتھی اصطلاح، ماڈل یا نمونہ۔

اب نظریہ ہی محض ایک ایسی سائنسی اصطلاح نہیں جو کہ وسیع طور پر غلط سمجھی جاتی ہو، لفظ نمونہ یا ماڈل بھی اسی پریشانی کا شکار ہے. موٹر گاڑیوں اور فیشن میں استعمال ہونے والی یہ زود زبان اصطلاح مختلف سائنسی میدانوں میں بھی مختلف معنی  رکھتی ہے. مثلا، ایک موسمیاتی نمونہ، ریاضاتی نمونے سے خاصا مختلف ہوتا ہے۔ جان ہاکس جو کہ جامعہ وسکونسن میڈیسن میں ایک ماہر بشریات ہیں ، کہتے ہیں کہ طبیعات کے اسٹینڈرڈ ماڈل کی بنا پر اس میدان میں خاصا انضباط نظر آتا ہے لیکن علم جینیات اورعلم ارتقاء میں ماڈل کی یہی اصطلاح مختلف معنوں میں مستعمل ہے۔

پانچویں اصطلاح۔ سائینسی شکی یا اسکیپٹک

ماحولیاتی تبدیلیوں کا انکار کرنے والوں کو نشریاتی میڈیا اکثر ماحولیاتی ماہر تشکیک دان قراردیتا ہیں لیکن مائیکل ہانٹ جو کہ پینسلوینیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماحولیاتی سائنسدان ہیں، ان کے مطابق یہ ایسے ہی لا علم لوگوں کو زبردستی  سر چڑھانے کے  مترادف ہے۔ تشکیک عام فہم معبود عام سائنسی اقادات کو بلاوجہ اعتراض سے الجھانا تشکیک نہیں بلکہ میں نا مانوں کا دوسرا نام ہے۔ یہ غیر حقیقی تشکیک کا دعوی کرنے والے درحقیقت سائنسی مشاہدات اور تجربات کو ماننے کی جرّات نہیں رکھتے جبکہ حقیقی تحقیق کرنے والے سائنسی مشاہدات اور تجربات کوحقیقت گردانتے ہیں چاہے وہ انکے نظریات کے خلاف ہی کیوں نا ہو۔ تاہم سائنسدانوں کو ہمیشہ تشکیک کا متقاضی ہونا چاہیے کالس سیگن نے حقیقی تشکیک کو سائنس کی خود درستگی کی بنیادی وجہ بتایا ہے.

چھٹی اصطلاح، فطرت یا تربیت۔

یہ عام طور پر استعمال ہونے والی اصطلاح ، فطرت بھی سائنسدانوں کے لیے دردسر کا باعث ہے، کیونکہ فطرت کا لفظ عام زبان میں استعمال ہو تو ایک نہایت پیچیدہ سائنسی عمل کو آسانی کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش میں اسکی معنویت کو کھو دیتا ہے.ڈین کروور جو کے جامعہ مشیگن میں ارتقائی حیاتیات دان ہیں انکا کہنا ہے یہ ایک ایسی ہی غلط استعمال ہونے والی اصطلاحات میں سے ایک ہے جن  کا سادہ لوح استعمال انکے اصل معنی کھو دیتا ہے۔

موجودہ ارتقائی حیاتیات دانوں کے لیے اس اصطلاح کا غلط استمال باعث تشویش ہے، آباواجداد کے جینز انسانی زندگی  پر واضح طور پر اثر انداز ہوتے ہیں. لیکن اسی طرح ایپی جینیٹک تبدیلیوں کا بھی انسانی زندگی پر بھی خاص اثر ہوتا ہے کیونکہ  یہ جنیاتی تبدیلیاں موروثی ہونے کے ساتھہ ساتھہ ماحولیاتی اثرات کی بناء پر بھی اثر پذیر ہو سکتی ہے۔  انسانی طرز زندگی رویے اور دیگر تبدیلیوں کا انحصار ماحولیات، جینیات، کیمیائی تبدیلیوں اور کئی غیر متوقع عوامل پر ہے جن کا مکمل ادراک  ایک نہایت مشکل کام ہے۔

ساتویں اصطلاح، سگنیفکنٹ یا معتبر۔

اسی طرح کا ایک اور غلط العوام اصطلاح شماریاتی سائنس کا لفظ معتبر ہے، یہ ایک خاصا وسیع الستعمال اور گنجلک لفظ ہے، کسی اعداد و شمار معتبر ہونے سے آپکی کیا مراد ہے، مائکل اوبرائن، جو جامعہ مزیوری کے سائنس اور آرٹس کالج کے سربراہ ہیں،  یہ سوال پوچھتے نظر آتے ہیں۔  کیا آپکی مراد شماریاتی طور پر معتبر ہے یا محض رائے کی اہمیت،  شماریات میں کسی چیز کے معتبر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس واقعے کا اتفاقی طور پر وقوع پذیر ہونے کا احتمال نہایت کم ہو. لیکن ضروری نہیں کہ یہ کسی شہ کی علت کا سبب بھی بنے۔ لیکن عمومی استعمال کے وقت سیمپل اسپیس اور علت کی سمت کا خیال کم ہی رکھا جاتا ہے۔

آٹھویں اصطلاح، قدرتی،

قدرتی یا نباتیاتی کا لفظ اور اسکا غلط استعمال بھی سائنسدانوں کو، بالخصوص حیاتیات کے ماہرین کو بہت پریشان کرتا ہے۔ اسکی وجہ عام ذخیرہ الفاظ میں قدرتی کا خودبخود بننے والا صحت مندانہ رجحان ہے ۔ اس لفظ کے استعمال سے فوری طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ ہر مصنوعی شے صحت کے لیے مضر ہے اور ہر قدرتی شے صحت کے لیے لازمی طور پر اچھی ہوگی جو کہ سائنسی طور پر درست نہیں۔ 

 مثلا یورینیم ایک قدرتی عنصر ہے لیکن اس کے استعمال سے آپ کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے. اسی طرح نباتیاتی یا آرگینک لفظ کا استعمال بھی اسی طرح کی غیر متوقع مشکلات کا باعث ہے. آرگینک سے سائنسدانوں کی مراد کاربن والے مرکبات ہوتے ہیں، لیکن عوام اس اصطلاح کو اب کیڑے مار دواؤں سے پاک آڑو اور کپاس کی اعلیٰ قسم والی چادروں کے لیے بھی استعمال کرنے لگے ہیں، جو کہ اس لفظ کے حقیقی مطلب کے برعکس ہے ۔ سائنسدان اس تمام غلط فہمی کا سبب اسکول اور کالج میں سائنسی تعلیم کی کمی کو ٹھہراتے ہیں اس اشتباہ  اور سو فہمی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمومی طور پر لوگ کم سائنسی تعلیم کی بنا پر اصطلاحات کو درست طور نہیں سمجھتے. اسی طرح سے عام الفاظ کے دوہری معنی ہونے کی وجہ سے بھی سائنسی اصطلاحات کی فراست کا صحیح احاطہ نہیں کر ہو پاتا۔  کروگر لکھتے ہیں کہ سائنس صحیح اور غلط کے ثنائی نظام کے بجاۓ ایک تسلسل یا اسپیکٹرم کی حامی ہے جسکی حدود انسانی معلومات کی حدو کی طرح مستقل بڑھتی جا رہی ہیں۔

112704410

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ سائنس کو درحقیقت اس بات سے قطعی کوئی غرض نہیں کہ کون کیا کہہ رہا ہے مثلا البرٹ آئنسٹائن بے چارہ یہ سمجھتا رہا کہ کوانٹم فزکس اندھیرے کی ایک ڈراؤنی شہ ہے لیکن کوانٹم طبیعات سے اسکے خوف کی وجہ، کوانٹم طبیعات کو صحیح یا غلط علم ثابت کرنے میں کوئی مدد نا کرسکی اور آج یہ طبعیات کی ایک ثقہ شاخ کے طور پر مانی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر عوام الناس نظریے اور مفروضے کو خلط ملط کرتے رہیں تو اس سے بھی سائنس کی صحت پر کوئ فرق نا پڑے گا۔ بقول آنجہانی گلیلیو کے، وہ تو گھوم رہی ہے۔

 امید ہے کہ اب آپ کو ان اصطلاحات سے خاطر خواہ واقفیت ہو گئی ہوگی۔ مزید معلومات کے لئے درج زیل حوالہ جات کا مطالعہ موزوں ہے۔

حوالہ جات و تخلیص 

کیمیا – اباوٹ ڈاٹ کام
        سائنٹفک امریکن

Share

April 6, 2013

میراتھن دوڑنے کا غلط طریقہ – لاس اینجلس میراتھن کی تصویری روداد

Filed under: سفر وسیلہ ظفر,طنزومزاح,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 8:58 am


LA-Marathon-FEATURE

آپ اسے شعراء اور ادباء کی نازک مزاجی کہئیے یا کچھ اور کہ اردو نثر و نظم میں دوڑنے والے کا کچھہ زیادہ تذکرہ نہیں ملتا. مرزا نوشہ تو دھول دھپے کے قطعی قائل نہ تھے اور نہ ہی رگوں میں دوڑنے پھرنے کے، اور یوسفی تو اپنی ناسازی طبع کا رونا کچھ یوں روتے ہیں کہ اچھے اچھوں کی آنکھیں بھر آئیں.اب بلاگ چونکہ اردو ادب کی تیسری صنف ٹھہری تو لہٰذا کچھ غیر ہم آہنگی تو لازم ہے.۔ وہ جو کہتے ہیں کے جب گیڈر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے،راقم کی جو شامت آئی تو ہم نے سانٹا مونیکا کی طرف بھاگنے کا عزم کیا.۔ 

2013_LAM_8.5X11_Coursemap_final_outlined

ٹورینٹینو کی فلموں کی طرح اس بیک اسٹوری کی بھی کچھ بیک اسٹوری ہے، اصل میں قصّہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے عزیز دوست راشد کامران کی میراتھن سے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ کے بعد دیسیوں کے قومی وقار، تناسب اندام اور تندرستی صحت کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری ہمارے نازک کندھوں پر آ پڑی۔لیکن اب اس جثے کے ساتھ بھاگنا ایک امر دشوار ٹھرا، تو باتوں باتوں میں ایک دوست عزیزم اسٹیون سانگ سے یہ شرط لگی کہ ستمبر ۱۲’  تک جو شخص ایک سو پینسٹھ پاؤنڈ تک وزن کم کرلے گا۔ وہ گویا یہ روپے پیسے کے بغیر لگنے والی شرط جیتے گا اور ہارنے والا فیس بک پر اپنے اسٹیٹس میں اپنے آپ کو سخت سست قرار دیتے ہوئے دوسرے فریق کی خوب تعریفیں کریگا. نیزشرط کے مندرجات میں مزید یہ بات بھی شامل تھی کہ ہارنے والا یا والے ایک عدد مراتھن دوڑینگے اور اسکا وقت راقم کے لیے پانچ گھنٹے تیس منٹ اور اسٹیون کے لیے چار گھنٹے تیس منٹ کے برابر یا اس کم ہونا چاہیے ۔ اب اگر یہ وقت بھی نہ ہو پایا تو اس نتیجے میں ہارنے والا یا والے، دوسرے فریق کی مرضی کی تین عدد کتابیں پڑھیںگے اور اس پر  تبصرہ کرینگے جو ایمازون پر شائع کرنا لازم ہے. اب اس قدر پیچیدہ شرط کی مندرجات کے بعد ہم نے وزن کم کرنے پر عمل درآمد شروع کیا اور رمضان کی برکت سے ایک سو ستر پاؤنڈ پہ آگۓ، لیکن  ستم گر کو ذرا روا نہ ہوا کہ پانچ پاؤنڈ ادھر یا پانچ پاؤنڈ ادھر کو معاف کیا جاۓ اور مجبورا ہم دونوں کو ہی میراتھن کی رجسٹریشن کرانی پڑی،،  ہمیں ملی بب نمبر ۱۷۰۵۰، اور اسطرح دفتری کاروائ مکمل ہوئ۔

میراتھن کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ فاصلہ دوڑنے والا پہلا شخص ایتھنز کی طرف بھاگا اور منزل مقصود پہنچنے پر پٹ سے گر کر مر گیا۔ لیکن چونکہ ہم نے من الحیث القوم تاریخ سے کچھ نا سیکھا تو یہ تو خیر یونانی کہاوتیں ہیں۔ 

اب باری آئی تیاری کی،یہ تھا ہمارا میراتھن کی تیاری کا جدول۔

 

16-Week Marathon Training Schedule
Week Mon Tue Wed Thu Fri Sat Sun Total
1 3 Rest 4 3 Rest 5 Rest 15
2 3 Rest 4 3 Rest 6 Rest 16
3 3 Rest 4 3 Rest 7 Rest 17
4 3 Rest 5 3 Rest 8 Rest 19
5 3 Rest 5 3 Rest 10 Rest 21
6 4 Rest 5 4 Rest 11 Rest 24
7 4 Rest 6 4 Rest 12 Rest 26
8 4 Rest 6 4 Rest 14 Rest 28
9 4 Rest 7 4 Rest 16 Rest 31
10 5 Rest 8 5 Rest 16 Rest 34
11 5 Rest 8 5 Rest 17 Rest 35
12 5 Rest 8 5 Rest 18 Rest 36
13 5 Rest 8 5 Rest 20 Rest 38
14 5 Rest 8 5 Rest 9 Rest 27
15 3 Rest 5 3 Rest 8 Rest 19
16 3 Rest 3 Walk 2 Rest 26.2 Rest 34.2


لیکن، درحقیقت ہوا یوں کہ  پطرس بخاری کے بقول، پہلا اٹھنا چار بجے، دوسرا اٹھنا چھ بجے اور بیچ میں لالا جی آواز دیں تو نماز، سیانے کہتے ہیں کل وہ جادوئی وقت ہے جب سارے کام بخیرو خودہی ہو جایا کرتے ہیں، ہم بھی اسی کل کا انتظار کرتے رہے،. بہانے بنانے میں ملکہ حاصل ۔ ہر روز، 
بعد از فجر کچھ ایسا ہوتا

آج کچھ سردی و تیز ہوا کا گذر لگتا ہے،

آج بارش جیسا موسم لگتا ہے،

آج موسم کافی سرد معلوم ہوتا ہے،

جوتے تو گاڑی میں رکھے ہیں،

میاں سورج سوا نیزے پر ہے، 

وغیرہ وغیرہ۔۔

یہی کرتے کرتے میراتھن کی صبح آ پہنچی، ویسے تو یہ ہماری تیسری میراتھن تھی لیکن بغیر کسی قسم کی تیاری کے پہلی۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق، ڈاجر اسٹیڈیم پہنچے۔ صبح کا سہانا وقت اور چالیس ہزار لوگوں کا مجمع دیکھا تو کچھ ہمت بندھی کہ ، ہو رہے گا کچھ نا کچھ ، گھبرائیں کیا۔

 

392876_547465325297498_1971927162_n

LA-Marathon

سوا سات بجےکے لگ بھگ سب نے بھاگنا شروع کیا، اب یہ مرد تائوانی تو پچاس پچاس میل یونہی ویک اینڈ پر تفریحا بھاگتا پھرتا ہے، اور ہمارا تو میٹنگ روم سے میٹنگ روم جاتے سانس پھول جاتا ہے، لہذا ہمارا اسکا کیا مقابلہ،

862771_10151349615249212_1526966936_n

تو جناب ہم نے جب آہستہ آہستہ بھاگنا شروع کیا یا یہ کہیں کہ بھاگنے کی اداکاری شروع کی تو  لوگوں کے دھکوں سے خراماں خراماں یہ کہتے ہوے آگے بڑھتے چلے کہ

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں

میل اول –  لوگوں کا سیلاب ہمیں آہستہ آہستہ اپنے ساتھ چلاتا رہا اور ہم چلتے گئے

میل دوئم – رفتار میں کچھ تیری آنے لگی اور ہم گنگنانے لگے کہ – مجھے سہل ہو گئیں منزلیں وہ ہوا کے رُخ بھی بدل گئے

لاس اینجلس میراتھن

 

میل سوئم – بلا تبصرہ مندرجہ زیل پوسٹرز۔

funny-marathon-ten

میل چہارم،  توانائی کی بشاشت کے ساتھ دوڑنا جاری رہا، جگہ جگہ پری وش رضاکار پانی پلانے، اور ہم کہتے ساقیا اور پلا اور پلا.

205386072-M-1

 – میل پنجم –  قدم بڑھاۓ چلو جوانوں کہ منزلیں راہ تک رہی ہیں.مزید پانی کچھہ الیکٹرولائٹ اور کچھہ اہتمام اخراج کا،

لاس اینجلس میراتھن

میل ششم-  اب ہم کچھ ایلیٹ رنرز کی طرف سے تنہائی محسوس کرنے لگے ، اپنے گرد و پیش افراد کی کمیت ہماری کمیت کے قریب تک آ چکی تھی

میل ہفتم – اب دوڑنے کی رفتار آہستہ ہوتے ہوتے محض تیز چلنے پر منتج ہو گئی

sign-5

میل ہشتم –  پانی اور الیکٹرولائٹ کا انتظام ۔ ان دوڑوں کے دوران رضاکاروں کے جھنڈ کے جھنڈ دکھائ دیتے ہیں جن میں اقلیتوں کا بڑا کردار ہوتا ہے۔

پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خُدا کے تئیں

معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا

6857528326_452584af57_z
میل نہم –  یہ نواں میل ہے کے دسواں؟ سراب کی کی کیفیت کی ابتدا اور بھوک لگنا شروع.

میری زندگی میری منزلیں، مجھے قرب میں نہیں دور دے

مجھے تُو دِکھا وہی راستہ، جو سفر کے بعد غرور دے

میل دہم –  اب پٹھوں کا کچھ خاموش اور کچھ زور سے احتجاج،  یعنی جتنا ابھی بھاگ کر آئے ہیں اتنا مزید؟ یہ کیا چکر ہے بھائی..

 

Asics 26miles no gridlock billboard

گیارہواں میل، ہالی وڈ کے گرد و نواح کے علاقے سے دل بہلانے کا شغل کیا

منزلیں دور پُر خطر رستے

مجھ کو لے آئے یہ کدھر رستے

گھر سے نکلا ہوں جستجو میں تری

مجھ کو لے جا ئیں اب جدھر رستے

la-marathon

بارہواں میل – یہاں رکشے کا شعر یاد آنے لگا کہ

 تھک کر مجھ سے پوچھا پاؤں کے چھالوں نے،

کتنی دور بنائی ہے بستی دل میں بسنے والوں نے

تیرھواں میل – خیال آیا کہ آدھی میراتھن ہوتی تو ابھی تک ختم ہو جاتی اور ہم گھر جاتے، وہ کیا کہتا ہے شاعر کہ گر اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے

Asics made of 26 miles billboard



چودھواں میل۔  شرطوں کی تحریم پر اپنے آپ کو کوستے، نیز اب ہم پیدل چلنے والوں سے آملے تھے

پندرھواں میل –  مہ وشوں کی کمی پر زیر لب احتجاج، اب  تھکن سے ہر پٹھے نے احتجاج شروع کر دیا تھا۔

6857528284_1eeb62b5c5_z

سولہواں میل – الٹے  پاؤں میں پڑ جانے والے چھالوں کی کی وجہ سے سیدھے پاؤں پر زور دینے سے ایک لنگڑی سی رفتار کی کوشش جاری رہی..

 سترھواں میل – ارے دس میل مزید؟  بھائی واپسی کی بس کہاں ملے گی

Asics LA Marathon 2013 billboard

اٹھارواں میل –  اب جہاز اور طوطے کا ڈی جے کالج کے زمانے میں سنا لطیفہ یاد آنے لگا،  پھر ہم سوچتے کہ آباء و اجداد بھی تو انڈیا سے آئے تھے اور انھیں کون پانی اور الیکٹرولائٹ پلایا کرتا تھا تو چلو شاید ہو جاۓ یہ سفر کسی نا کسی طرح

انیسواں میل – اب ہمارے جی پی ایس اور بلو ٹوتھ کی بیٹری ختم ہو چکی تھی اور خان صاحب کے راگ تھم گئے تھے

لاس اینجلس میراتھن
بیسواں میل۔ اب رضاکاروں نے کرسیاں سمیٹنا شروع کردی تھیں اور پولیس نے سڑکوں کو کھلوانا شروع کر دیا ہے

marathon-water

اکیسواں میل – ہم جو بھی ہماری ہمّت بڑھاتا ہوا نظر آتا ہم اسی گاڑی سے فنش لائین تک لفٹ لینے کی التماس کرتے

بائیسواں میل – اب حالت یہ تھی کہ کئی بار سوچا کہ پولیس والوں کی سائیکل لے بھاگیں پر ہمّت نہ پڑی

254453447667548365_QP7iFcfP_c

تئیسواں میل –  ہر اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے،  اب تک ہمیں یقین واثق ہو چلا تھا کہ  اگر مردوں کو درد زہ ہوتا تو وہ میراتھن جیسا ہی ہوتا۔

چوبیسواں میل – سراب  کی کیفیت اب تقریبا مستقل ہو چکی تھی

اللہ کیا ہی منزل مقصود دور ہے

تھم ہوگئے ہیں سوجھ کے مج خستہ تن کے پاؤ

 

پچیسواں میل –  من من بھر کے پاؤں…..جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا، ایسے جوڑ بھی جن کی موجودگی کا کبھی علم نا تھا۔  اسٹیون کا خیال ذہن سے نکالتے رہے کہ کہیں ہمیں بھی پطرس کی طرح ایف اے کی وہ کتاب دوبارہ نا پڑھنی پڑے۔

منزلیں دور بھی ہیں منزلیں نزدیک بھی ہیں

اپنے ہی پاؤں میں زنجیر پڑی ہو جیسے

لاس اینجلس میراتھن
چھبیسواں میل –  یہ طوالت میں  سب سے لمبا میل ہوتا ہیں، اگر آپ اسے ناپنے نکلیں تو یہ باقی تمام میلوں سے کم سے کم دگنا تو نکلےگا ہی،

جب ہم اختتامی لکیر یا فنش لائن پر پہنچے تو منتظمین نے ہماری حالت اور وقت دیکھ کر پوچھا

کیا آپ دوڑ کر آرہے ہیں؟

تو ہم نے جل کر کہا نہیں یونہی سیر کرنے نکلے تھے ڈاجر اسٹیڈیم سے سینٹا مونیکا تک،  بس سوچا کہ آپ سے ملاقات کر لیں،  بڑا اشتیاق تھا

یوں قتل سے لوگوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کے فرعون کو مراتھن کی نہ سوجی

اب میڈل لینے کے بعد، فنش لائن سے گھر تک کا فاصلہ کس طرح طے ہوا، یہ کبھی بعد میں بتائینگے،  ابھی تو اتنا ہی کافی ہے کہ اگر آپ کبھی مراتھن دوڑیں تو دو تین  ماہ قبل سے پریکٹس ضرور کر لیجیئے ۔ شکریہ،

861882_10151350628074212_1458462759_n

lam_logo2013_asics 

Share

Powered by WordPress