فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

April 30, 2013

محمد عبدالغنی، ایک عہد ساز شخصیت

Filed under: عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 6:43 pm

میرے بزرگ محمد عبدالغنی کو ہم سے جدا ہوے آج چھ برس کا عرصہ ہو چلا ہے۔ اس ضمن میں ایک یادگاری مضمون قارئین کی نظر ہے۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرماے، آمین۔

دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر
کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست

اخلاق و شرافت ، علم دوستی، شائستگی و تہذیب ، بلند حوصلگی ، وسعت قلب و فکر ، وضعداری و پاسداری اور انسانی ہمدردی جیسے الفاظ ان صفات میں سے صرف کچھ ہی کا احاطہ کر سکتے ہیں جن سے محمد عبدالغنی کی نابغہ روزگار شخصیت متصف تھی۔اسم با مسمی عبدالغنی کی تمام زندگی ضرورت مندوں کی دامے، درمے اور سخنے مدد سے عبارت تھی جس روایت کو انکی اہلیہ و اولاد نے زندہ رکھتے ہوئے عم محترم کے لئے صدقہ جاریہ کا التزام رکھا۔ آپ کی مکمل شخصیت کا احاطہ کرنا اس مختصر مضمون میں تو چنداں ممکن نا ہوگا لیکن میں‌ کچھ چیدہ چیدہ نکات قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہوں‌ گا۔

9 جنوری 1924 کو برٹش انڈیا کے صوبہ مہاراشٹر کےشہر پربنی میں آپ کی پیدائش ہوئی جو حیدرآباد دکن سے تقریبا دو سو میل کے فاصلے پر ہے۔ یہاں سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سیکنڈری تعلیم کے حصول کے لئے آپ اورنگ آباد چلے گئے۔ بعد ازاں آپ نے جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں داخلہ لیا جو کہ برطانوی راج میں غیر منقسم ہند کے بہترین تعلیمی اداروں میں سے ایک تھی اور اسے انڈیا کی آکسفورڈ اور کیمبرج کا درجہ دیا جاتا تھا۔ یہاں سے آپ نے 1941 میں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں علم کیمیا کے اندر پوری جامعہ میں پہلی اور علم طبعیات میں چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ 1943 میں آپ نے کیمیا، طبعیات، ریاضی اور انگریزی کے ساتھ بی ایس سی کی تعلیم مکمل کی اور ماسٹرز میں داخلہ لیا۔ یہ وہ وقت تھا جب عمومی طور پر لوگوں کا تعلیم کی طرف رجحان نا تھا لیکن غنی صاحب نے دور اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے اعلی تعلیم کو اپنی کلید کامیابی قرار دیا ۔اکیس سال کی عمر میں1945 میں اطلاقی کیمیا میں ماسٹرز میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن حاصل کرنے کے بعد آپ نےمزید اعلی تعلیم کے حصول کے لئے جامعہ عثمانیہ کو خیر آباد کہا اور محقق کے طور پر سرکاری اسکالرشپ پر برطانیہ روانہ ہوئے ۔ غیر ملکی تعلیم کے لئے سرکاری وظیفہ حاصل کرنا ایک بڑا اعزاز تھا جسے محمد عبدالغنی نے اپنی محنت اور ذہانت سے حاصل کیا اور ہر سطح پر اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ۔ آپ نے نارتھ اسٹیفورڈشائر تکنیکی کالج سے 1946-47 کے درمیان پروڈکشن مینیجمنٹ، پاٹری، مشین ڈراینگز، ورکشاپ ٹیکنالوجی، اطلاقی طبعیات جیسے گیارہ کلیات میں مینیجر کا کورس مکمل کیا جبکہ پاٹری اور سرامکس کے دیگر چھ کلیات میں ڈپلوما کی تعلیم حاصل کی۔ دو سال کے اندر ان تمام اسباق میں مہارت آپکی ذہانت، لگن اور محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

برطانیہ سے واپسی پر آپ نے بھارت کے بجاے پاکستان کو اپنی سرزمیں کے طور پر چنا اور سندھ گورنمنٹ میں‌ ڈپٹی ڈیولپمنٹ آفسر کے طور پر فرایض انجام دئے۔ نوزائدہ مملکت خداداد کو اسوقت جن مسائل اور چیلینجز کا سامنا تھا، ان میں‌ محمد عبدالغنی کی شخصیت اور ذہانت رکنے والے لوگوں کی اشد ضرورت تھی جو کہ اس نئے ملک کی تعمیر و ترقی کی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اس کار گراں کا بوجھ اٹھا سکیں۔ آپ نے یہ ذمہ داری نہایت بخوبی نبھائی اور زیل پاک سیمنٹ فیکٹری، دادو‌خیل سیمنٹ فیکٹری اور میپل لیف سیمنٹ فیکٹری کی داغ بیل ڈالی۔ 1955 سے 1960 کے عرصے میں‌آپ نے میپل لیف سیمنٹ فیکٹری کے مینیجر اور زیل پاک کے ایڈمنسٹریٹیو افسر کے فرائض انجام دئے۔ آپ کی صلاحیتوں اور قابلیت کو دیکھتے ہوئے آپ کو پی آی ڈی سی کے جنرل مینیجر (سیمنٹ) کے عہدے پر فائز کیا گیا جہاں سے آپ 1961 سے 1971 کی دہائی میں زیل پاک سیمنٹ فیکٹری، دادو‌خیل سیمنٹ فیکٹری، جنرل ریفیکٹریز اور میپل لیف سیمنٹ فیکٹری کو بخوبی چلایا۔ اس ایک دہائی کے دوران ان فیکٹریز کی مکمل ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر تھی جس میں‌ مارکٹنگ، پلاننگ، مینیجمنٹ، آرگنائزیشن، لیبر تعلقات وغیرہ شامل ہیں۔ اس دوران آپ نے نا صرف پروڈکشن میں کئی گنا اضافہ کیا بلکہ مشرق وسطی میں پاکستانی سیمنٹ کی کھپت کے لئے نئی منڈیوں کی تلاش کا سہرہ بھی غنی صاحب کے ہی سر جاتا ہے۔آپ ایک ‘سیلف میڈ’ انسان تھے اور ‘ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا’ کی عملی تفسیر۔ اسی وجہ سے آپ نے ہمیشہ لوگوں‌ کو نامصائب حالات میں محنت کرنے اور اپنی مدد آپ کرنے کی تلقین کی۔

1971 میں حکومت وقت کے سیمنٹ فیکٹریوں کے قومیاے جانے کا فیصلہ کیا جس کو بعد میں تاریخ نے ایک سنگین غلطی ثابت کیا،۔ اس عرصے میں آپ نے 1972 سے 1976 تک اسٹیٹ سیمنٹ کارپوریشن، جاویداں سیمنٹ فیکٹری کے مینیجنگ ڈایریکٹر کے فرایض انجام دیئے۔ جو لوگ پاکستان کی سیمنٹ کی صنعت کے لئے آپ کی دیرینہ خدمات سے آگاہ ہیں وہ آپ کو کئی حلقہ جات میں پاکستان کی اس صنعت کا قائد اور ‘باباے سیمنٹ’ کہتے ہیں۔ لیکن اجتماعی طور پر ہماری احسان نا شناس قوم نے آپ کی خدمات کو قومی سطح پر سراہنے کے بجائے اسے بھلا دیا۔

محمد عبدالغنی کے وسیع تجربے اور قابلیت سے دیگر ممالک نے بھی فائدہ اٹھایا۔ آپ نے بہاما سیمنٹ کمپنی اور گلف گروپ آف کمپنیز میں کنسلٹنٹ کے فرائض انجام دئے اور ان اداروں کی مدد سے کئ ممالک بشمول فلپائن میں‌ سیمنٹ کی صنعت کی داغ بیل ڈالنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بعد ازاں آپ نے روسکیم انٹرنیشنل ہیوسٹن میں بھی کنسلٹنٹ اور ایڈوائزر کے طور پر کام کیا جس کے بعد بینکرز ایکیوٹی نے قرضہ جات کے تعین اور اندازہ کے لئے اپریزر کے طور پر آپ کی ماہرانہ خدمات حاصل کئیں۔

ہمہ از آدمیم ما، لیکن

او گرامی تر است کُو داناست

کسی بھی نئی صنعت کے قیام کے لئےتجربے، وسائل اور پرزہ جات کی کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ اس زمن میں آپ نے بیرون ملک سفر کئے اور کئی کلیدہ معاہدوں کے تحت پاکستان کی سیمنٹ کی صنعت کو اسکی بنیادی ضروریات بہم پہنچائی ۔ ان دوروں کے تحت آپ ڈنمارک، امریکہ، فرانس، مغربی جرمنی، یوکے، سویٹزرلینڈ، سویڈن، اٹلی، چیکوسلاواکیا، ایران، سعودی عرب، جاپان غرضیکہ مشرق وسطی اور بعید کے کئی ممالک سے معاہدے کئے نیز وہاں کے پلانٹس سے حاصل کئے تجربات کو پاکستانی سیمنٹ کی صنعت کی بہتری کے لئے استعمال کیا۔

ان تمام پیشہ وارانہ قابلیتوں کے بعد بھی عبدالغنی صاحب تمام عمر ایک سادہ اور منکسر مزاج انسان کے طور پر جانے جاتے رہے۔ آپ نے ہمیشہ اپنے ضرورت مند عزیز و اقربا کی دامے درمے سخنے مدد کی ۔ آپ نے کبھی ظاہری دکھاوے کو اپنا شعار نہ بنایا بلکہ ہمیشہ لوگوں کو اس بات کی تلقین کی کہ وہ اپنی ترجیحات صحیح طرح متعین کریں۔ان کی جدوجہد اور ترقی ہمیشہ سے میرے لئے ذاتی طور پر ایک مثال رہی ہے۔ وہ مجھ سے ہمیشہ میری تعلیم کے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔ جب میں آٹھ سال کی عمر میں‌ اپنا پہلا کمپیوٹر سرٹیفیکیٹ ان کے پاس دکھانے لے گیا تو بہت خوش ہوئے اور شاباشی دی۔ ان کی اہلیہ ناہید غنی نے بھی بہت حوصلہ افزائی کی اور انعام کے طور پر سو رپے دیے جو میرے لیئے ہمیشہ ایک بیش بہا خزانے کی اہمیت رکھیں گے۔ اپنی اولاد کو بھی انہوں نے اعلی تعلیم دلوائی اور ہمیشہ انسانی ہمدردی اور رواداری کی تلقین دی جو آج بھی ان کی زندگی کا جزو لا ینفک ہے۔ سادہ و منکسر چچا جان اپنی تعریف کے قطعی قائل نا تھے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر میرا یہ مضمون پڑھ لیں تو ضرور کہتے کہ میاں اپنی پی ایچ ڈی کی تعلیم پر توجہ دو، یہ کہاں تم مدح سرائیوں میں لگے ہو۔

m a ghani adnan masood childhood

مجھ کو دہراؤ گے محفلوں میں مثالوں کی طرح

اپریل 2007 کے آخری ہفتوں کی بات ہے کہ خبر ملی کہ چچا جان صاحب فراش ہیں۔ شام کو اپنی والدہ کے ہمراہ ان سے ملنے یو سی ایل اے میڈیکل سینٹر گیا تو ان کے گرد تمام گھر والے جمع تھے ۔ انہیں دوسروں کے آرام کا اسقدر خیال تھا کہ عیادت کرنے تو میں گیا تھا مگر الٹا مجھ سے ہی پوچھنے لگے کہ راستے میں کہیں ٹریفک تو زیادہ نہیں ملا اور سفر میں مشکل تو نہ ہوئی۔ کچھ دیر بعد جب میں نے اجازت لی اور کہا کہ انشااللہ کل ملاقات ہوگی تو میرے وہم و گمان میں بھی نا تھا کہ یہ میری ان سے آخری ملاقات ہے۔ اگلی صبح شاہد بھائی کا فون آیا کہ پاپا کا انتقال ہو گیا ہے۔

اناللہ وانا علیہ راجعون

آپ کی تدفین میں‌ لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ دنیا بھر سے رشتے داروں اور دوستوں کے تعزیتی پیغامات کا تانتا بندھا رہا۔

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

لیکن سب سے اہم چیز جو انہوں نے اپنے میراث میں چھوڑی وہ متاع دنیا یا شہرت نہیں بلکہ اپنی اولاد اور خاندان والوں میں علم دوستی اور انسانی ہمدردی کا جذبہ تھا۔ آج انکا پوتا منصور غنی امریکہ کی جامعہ ییل کا طالبعلم ہے جو کئی امریکی صدور کی علمی و فکری درسگاہ رہی ہے۔ علم کی اہمیت کا یہ بیج بونے کا سہرا اس کے دادا ہی کے سر رہے گا .

آپ کی علمی و تکنیکی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف تھا۔ انکے ایک ماتحت اور میرے عزیز دوست کے والد بیان کرتے ہیں کہ “میں نے غنی صاحب جیسا ایماندار، ڈسپلنڈ اور نظم و ضبط کا پابند افسر اپنی تیس سالہ سروس میں آج تک نہیں دیکھا۔ ان کو جھوٹ، رشوت، سفارش سے سخت چڑ تھی اور قاعدے قانون کی پابندی انکی پیشہ وارانہ زندگی کا نہایت اہم جز”۔

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

photo

Share

2 Comments »

  1. اللہ تعالی ان کے درجات بلند کرے ، پاکستان کو آج پھر ایسے ہی ذہین اور بے لوث انسانوں کی ضرورت ہے

    Comment by محمد ریاض شاہد — May 2, 2013 @ 9:22 am

  2. تبصرے اور دعاوں کا شکریہ ریاض شاہد صاحب

    Comment by ابو عزام — May 6, 2013 @ 9:19 am

RSS feed for comments on this post. TrackBack URL

Leave a comment

Powered by WordPress