فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

May 18, 2013

کیوں بمقابلہ کیسے

Filed under: ادبیات,فلسفہ,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 11:31 am

سائنس جب کبھی یہ سوال کرتی ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، اس سے درحقیقت یہ مراد ہوتی ہے کہ ایسا کیسے ہوتا ہے۔ اسباب کی سائنسی تحقیق ہمیشہ کسی امر کی تجربہ گاہ میں  تصدیق و تكرار سے بحث کرتی ،  تخلیق کی  غیبی و روحانی وجوہات سے اسکو کوی خاص دلچسپی نہیں ہوتی ۔

جب انسان اپنے گرد ونواح پر نظر ڈالتا ہے تو اس کا یہ سوال، ایسا کیوں ہے، عموما اس جواب  کا متقاضی ہوتا ہے کہ اس کارخانہ ہستی کی اصل کیا ہے، تخلیق کا مبتدا و منتہی کیا ہے، مقصد زندگانی کیا ہے؟  یہ وہ سوالات ہیں جن کے بارے میں سائنسی تحقیق یا تو خاموش ہے یا اسکا خیال ہے کہ  یہ سب یونہی بے کار بے سبب بے وجہ وجود میں ٓآگیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سائنس اور مذہب کا کسی بھی سطح پر مسابقہ بے معنی ہے۔ ایک کا کیوں اور کیسے دوسرے کے کیوں اور کیسے سے قطعی مختلف ہے۔

اسی زمن میں امام غزالی نے فرمایا کہ

 ریاضی اور منطق میں کوئی بات ایسی نہیں جو اسلام سے متصادم نظر آتی ہو. ان کا کہنا ہے کہ فن منطق کا علم دین سے بالراست منفی یا مثبت کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ اس فن میں تو صرف اس امر پر بحث ہوتی ہے کہ دلائل کیا ہیں؟  ان کی جانچ پڑتال کی کسوٹی کیا ہے؟ برھان کسے کہتے ہیں؟ اس کے مقدمات کی شرائط کی نوعیت کیا ہے؟ تعریف کس سے تعبیر ہے اور اس کو کس طور پر مرتب کیا جاتا ہے؟ مزید اس علم میں یہ بتایا جاتا ہے کہ علم کی دو اقسام میں تصور یا تصدیق- تصور کو تعریفات و حدود کے ذریعہ معلوم کیا جاتا ہے، اور تصدیق کی شناخت، براھین اور دلائل سے ہوتی ہے. ظاہراً ان میں کوئی بات ایسی نہیں جس کو دین سے متصادم کہا جا سکے. بلکہ یہ تو بعینہ وہی باتیں ہیں جن کا اہل کلام اور اھالیان بحث و نظر کےہاں عموماً چرچا رہتا ہے. البتہ ان میں اور منطقیوں میں یہ فرق ضرور ہے کہ یہ انہیں مطالب کے لئے اپنی مخصوص اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں. اور تعریفات اور جزئیات میں زیادہ الجھتے ہیں. جب کہ وہ زیادہ تعمقات سے کام نہیں لیتے

Share

May 14, 2013

تلقین غزالی، ایک رفریشر

Filed under: ادبیات,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 9:05 pm

پچھلے دنوں گوگل ہینگ آوٹ پر برادرم ریاض شاہد  نے گفتگو کے دوران غزالی، الہیات اور عقل کی حیثیت پر ہماری ناقص راے پوچھی، اس استفسار کا جواب تو محدود مطالعے کی بنا پر جو ہم سے بن پڑا وہ دے دیا لیکن یہ خیال ذہن سے نکالے نا نکلا کہ امام غزالی کو پڑھے ہوے عرصہ گذرا، اور وہاں بھی ان کی کتب کا مطالعہ زیادہ تر کیمیائے سعادت اور مکاشفتہ القلوب کے دروس تک ہی محدود رہا، کبھی شہرہ آفاق تحافتہ الفلاسفہ نہیں کھولی، محض تشریحات و اقتباسات پر ہی انحصار کرتے رہے۔ محدود وقت کی وجہ سے ہم نے قاضی قیصر السلام کی کتاب فلسفے کے بنیادی مسائل دوبارہ کھولی اور اس میں سے موجود امام غزالی پر ایک جامع مضمون دوبارہ پڑھ ڈالا، اب قارئین کی دلچسپی کے لئے اسکا کلف نوٹش ورژن شائع کئے دیتے ہیں کہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آے۔

امام غزالی

امام موصوف کا پورا نام ابو حامد محمّد ابن محمّد غزالی ہے. غزالی اپنے ہم عصر حکماۓ کلام میں نہایت ممتاز اور بلند پایہ شخصیت کے حامل ہیں. آپ مسلک شافعی کے آئمہ فکر میں سے ہیں. آپ خراسان کے شہر طوس میں ٤٥٠ھ میں پیدا ہوئے. آپ کے خیالات و افکار پر واضح روشنی خود آپ ہی کی تصنیف “المنقذ من الضلال” کے مطالعہ سے پڑتی ہے. اس کتاب میں موجودات عالم کے حقائق سے متعلق تشریحات کی گئی ہیں. آپ نے حقیقت کی بحث کے دوران فلاسفہ متکلمین باطنیه کے مبادیات پر غور کیا اور صرف تصوف، تامل، انجذاب ہی میں راہ ہدایت پائی. حالانکہ غزالی نے صوفیا کے افکار میں کوئی خاص ایزاد نہیں کیا. تاھم ان کے افکار کا فلسفه، عرب پر بڑا گہرا اثر پڑا. ان کی تصانیف میں جن دو کتابوں کا مطالعہ از بس ضروری ہے ان میں پہلی کتاب “مقاصد الفلاسفه” اور دوسری “تھافتھ الفلاسفه” ہے. مقاصد الفلاسفه دراصل علوم فلسفه کی تلخیص ہے اور تھافتھ الفلاسفه علوم فلسفه کے رد میں لکھی گئی.

اشعری الٰہیات کے مباحث میں پیش بہا کامرانیوں کی آخری کڑی امام غزالی ہیں. آپ کمسنی ہی میں یتیم ہو گئے تھے چناچہ آپ کے والد کے ایک صوفی دوست نے آپ کو تعلیم دلائی. بعد میں نیشا پور کے مدرسه میں داخل ہو گئے اور جیسے ہی آپ نے مروجہ علوم میں ترقی کی، یہ صوفی اثرات سے آزاد ہو کر اشعری ہو گئے. بعد ازیں ٤٨٤ھ میں مدرسه بغداد کے صدر مقرر ہوئے. لیکن بہت آپ روحانی اضطراب کا شکار ہو گئے اور اس عہدے سے مستعفی ہو کر شام چلے گئے جہاں انہوں نے اپنا پورا وقت مطالعہ و عبادات میں گزارا. ٤٩٩ھ  میں دوبارہ نیشا پور واپس آگۓ اور یہاں مدرسه نظامیہ میں معتدل اشعری نظام فکر کی تعلیم کی قیادت سنبھال لی جس پر تصوف کا رنگ غالب تھا، جسے ہم اہل سنت کی الٰہیات کا آخری ارتقا قرار دے سکتے ہیں. گویا امام غزالی کو اشعری الٰہیات کے فروغ میں ایک اہم ستون کی حیثیت حاصل ہے..

آپ کے حالات زندگی اور علمی حیثیت کے اس اجمال کے بعد اب ہم آپ کے افکار کا جائزہ لیں گے. امام صاحب کو متکلم فلسفی کا مرتبه دیا جاتا ہے جب کہ اس کے برعکس ابن سینا، فارابی اور ابن رشد کی حیثیت فلسفی متکلم کی ہے.

علم منطق کے بارے میں امام غزالی اپنی تصنیف “المنقذ من الضلال” میں لکھتے ہیں کہ ریاضی اور منطق میں کوئی بات ایسی نہیں جو اسلام سے متصادم نظر آتی ہو. ان کا کہنا ہے کہ فن منطق کا علم دین سے بالراست منفی یا مثبت کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ اس فن میں تو صرف اس امر پر بحث ہوتی ہے کہ دلائل کیا ہیں؟  ان کی جانچ پڑتال کی کسوٹی کیا ہے؟ برھان کسے کہتے ہیں؟ اس کے مقدمات کی شرائط کی نوعیت کیا ہے؟ تعریف کس سے تعبیر ہے اور اس کو کس طور پر مرتب کیا جاتا ہے؟ مزید اس علم میں یہ بتایا جاتا ہے کہ علم کی دو اقسام میں تصور یا تصدیق- تصور کو تعریفات و حدود کے ذریعہ معلوم کیا جاتا ہے، اور تصدیق کی شناخت، براھین اور دلائل سے ہوتی ہے. ظاہراً ان میں کوئی بات ایسی نہیں جس کو دین سے متصادم کہا جا سکے. بلکہ یہ تو بعینہ وہی باتیں ہیں جن کا اہل کلام اور اھالیان بحث و نظر کےہاں عموماً چرچا رہتا ہے. البتہ ان میں اور منطقیوں میں یہ فرق ضرور ہے کہ یہ انہیں مطالب کے لئے اپنی مخصوص اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں. اور تعریفات اور جزئیات میں زیادہ الجھتے ہیں. جب کہ وہ زیادہ تعمقات سے کام نہیں لیتے. امام غزالی کہتے ہیں کہ جب یہ ثابت ہو چکا کہ ہر انسان حیوان ہےتو اس سے یہ امرلازم ہوا کہ بعض حیوان انسان ہوتے ہیں. یعنی اصطلاحاً اسے یوں کہیں گے کہ موحیه کلیه کا عکس ہمیشہ موحیه جزئیہ ہوتا ہے. اس سے یہ انکشاف ہوا کہ دین کے اہم مسائل سے اس کا کیا تعلق ہے اور پھر اس کو نہ مانا جاۓ تو کس دلیل کی بناء پر؟ تا ہم اس میں بھی عملا یہ قباحت ہے کہ کچھ لوگ اس حسن ظن کا شکار ہو جاتے ہیں کہ جو اندازو معیار ان کا علم منطق میں ہے وہی عقائد و دینیات میں بھی ہوگا-..

حالانکہ حقیقتا ایسا نہیں ہے کیونکہ ان کی فہم و فراست صرف اس لئے..میدان پر مبنی ہو کر رہ گئی ہے جب کہ الٰہیات میں یہی لوگ حد درجہ تساہل سے کام لیتے ہیں. فن منطق پر غزالی کی تنقید کا اصل منشاء بھی یہی ہے کہ ہر فن کے دائروں کو ان کے اپنے جداگانہ تناظر میں سمجھا جاۓ اور جب کبھی کسی مسئلہ پر بحث کی جاۓ تو اس میں تقلید کی بنا پر راۓ زنی سے پرہیز برتا جاۓ. بلکہ دیکھنا یہ چاہیے کہ نفس مسئلہ کس حد تک صداقت کا حامل ہے. چناچہ فلسفہ پر بھی امام غزالی کےاعتراضات کی نوعیت کچھہ ایسی ہی ہے.

مسئلہ وجود پر بحث کرتے ہوئے امام غزالی کہتے ہیں کہ وجود کے تین مختلف عالم ہیں:-

١ – عالم ملک — یہ وہ عالم ہے جس میں وجود کا علم حواس کے ذریعہ سے ہوتا ہے. اس میں عالم کا علم ادراک سے ہوتا ہے اور یہ ہر آن متغیر رہتا ہے.

٢- عالم ملکوت_ یہ عالم حقیقت کا غیر متغیر اور ابدی عالم ہے، جو خدا کے حکم سے قائم ہوا

اور یھ عالم جس کا محض پر تو ہے

٣ – عالم جبروت_ یہ درمیانی حالت ہے. صحیح معنوں میں اس کا تعلق حقیقت سے ہے مگر یہ بظاھر ادراک کی سطح پر معلوم ہوتا ہے اس درمیانی حالت میں انسانی روح ہے جو عالم حقیقت سے متعلق ہے اگر چھ بظاھر اس کا اظلال سطح ادراکی پر ہوتا ہے.جس سے اس کا تعلق نہیں اور پھر یہ حقیقت کی طرف لوٹ جاتی ہے.

قلم و لوح وغیرہ جن کا ذکر قرآن میں ملتا ہے. محض تمثیل نہیں ہیں. ان کا تعلق عالم حقیقت سے ہے اور اس لئے یہ اس کے علاوہ ہیں جو کچھہ ہم اس عالم ادراک میں دیکھتے ہیں. یہ تینون سطحیں یا عالم زمان اور مکان میں علیحدہ نہیں ہیں. بلکہ انہیں وجود کی ہی اشکال سمجھنا چاہئے.

علاوہ ازیں امام موصوف وجود کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وجود ایک ہے جو تمام مخلوق کا خالق ہے. وہ لاشریک و بے ھمتا اور یکتاۓ زمانہ ہے. وہ ھمیشہ سے ہے اور ھمیشہ باقی رہیگا. ازل سے ابد اس ہستی کا وجود یقینی ہے. یہ قائم بالذات اور مکتفی بالذات ہے. یہ وجود بذات خود نہ جوہر ہے اور نہ عرض. وہ کسی وجود میں نہیں سماتا اور نہ کسی چیز سے مشابہ ہے. اس کی شکل و شبیه کوئی نہیں. اس کی ذات بے چون و چرا ہے. ہمارے توھمات و تخلیلات میں جو کچھہ آتا ہے یا آ سکتا ہے وہ ان سب سے بالاتر ہے کیونکہ یہ تو خود تخیلات کا بھی ضائع ہے. خوردی و بزرگی اور کمی و بیشی سے اس کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ خود یہ صفات بھی صور جسمیہ سے متعلق ہیں جن سے اس کا وجود منزہ ہے. وہ نہ کسی جگہ پر ہے اور نہ ہی اس لئے کوئی جگہ متعین ہے.

اس دنیا میں جو کچھہ ہے وہ عرش کے ماتحت ہے اور عرش اعلیٰ اس کی مرضی اور ارادے سے مسخر ہے. وہ عرش سے کہیں اعلیٰ تر ہے. ایسے نہیں جیسے کوئی جسم کسی جسم پررکھہ دیا جاۓ کیونکہ وہ کوئی جسم نہیں اور نہ ہی عرش اس کو اٹھاۓ ہوئے ہے، بلکہ عرش صرف اس کے حکم کے مطابق ایک جگہ قائم ہے. اس کی ذات کی صفت آج بھی وہی ہے جو عرش کو بنانے سے پہلےتھی اور آئندہ بھی ابدالاباد تک ایسی ہی رہےگی. گردش و انقلابات عالم کا اس کی ذات سے کوئی تعلق نہیں.

اگر گردش و انقلاب میں نقصان کی صفت ہوگی تو وہ خدائی کے قابل نہ ہوتا اور اگر انقلابات زمانہ ترقی و صفات حسنہ کے باعث ہوں گے تو اس کی مثال ایسی ہو جاۓ گی جیسے کوئی چیز اول نقص تھی بعد ازیں کامل ہوگئی. یہ صفت بھی مخلوق کے لئے ہوتی ہے خالق کے لئے نہیں.-١

امام غزالی خالق کے علم کو مخلوق کے علم سے مماثل سمجھتے ہیں اور ایک کو دوسرے پر قیاس کرتے ہیں. مثلا انسان مادیات کا علم حواس کے واسطے سے اور مجردات کا علم عقل کے ذریعہ سے حاصل کرتا ہے اور ان ہر دو صورتوں میں معلومات اس کے علم کی علت ہوتی ہیں. گویا جب انسان کا علم خود معلومات کا تابع اور معلول ہے تو معلومات کے تغیر و تعدد سے انسان کے علم میں بھی تغیرو تعدد پیدا ہو جاتا ہے. لیکن اس کے برعکس فلاسفہ کے نزدیک خدا کا علم خود علت ہے. معلومات کا معلول نہیں اس لئے اس کے علم کا قیاس انسانی علم پر نہیں کیا جا سکتا. یہی وجہ ہے کہ فلاسفہ کے نزدیک خدا کو موجودات کا جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کلیت و جزئیت کے ساتھہ وہ علم متصف ہوتا ہے جو عقل انفعالی کے ساتھہ تعلق رکھتا ہو اور خدا فعل محض ہے گویا عقل کو صرف موجودات کا علم ہوتا ہے اور معدومات کا علم نہیں ہوتا. امام غزالی کے نزدیک خدا کا صانع عالم ہونا اسی وقت ثابت ہوتا ہے جب اس سے اس کا صدور ارادہ و اختیار سے ہو.

تخلیق کائنات پر بحث کرتے ہوئے امام غزالی طبیعیات کی قدرو منزلت کو بھی پورے طور پر محسوس کرتے ہیں. انکا کہنا ہے کہ جس طور پر ایک طبیب جسم کے اعضاء رئیسہ اور اجزاۓ خادمہ پر غور کرتا ہے اور وہ ایسا کرتے ہوئے اس میں کسی پہلو کو اسلام و مذہب کے تقاضوں کو منافی نہیں سمجھتا اسی طرح طبیعیات میں بھی مختلف اشیا کی ترکیب و امتزاج سے بحث کرنا قطعی مذہب کی روح سے متصادم نہیں. طبیعیات میں کار فرما شے خود طبیعیت نہیں بلکہ خاطر طبیعیت ہے کیونکہ اس عالم میں ایک طرح کی فعالیت ہے اس کی کوئی توجیہہ علل و معلول کے اس بے جان گورکھہ دھندے سے نہیں ہو پاتی. وہ کہتے ہیں کہ یہ کارخانہ حیات اور کائنات نظم و ترتیب اور ایک طرح کے ارتقا کا متقاضی ہے. وہ کہتے ہیں کہ طبیعیت میں زندگی و عمل کی جستجو بے کار ہے. اس کا مبدا تو بھر حال حی و قیوم خدا کی ذات ہی کو قرار دینا ہوگا..

قانون علت و معلول کے متعلق غزالی کہتے ہیں کہ یہ تصور بھی ذہن و عادات کے تصور کی کرشمه زنی ہے ورنہ خارج میں اس طرح کے کسی رشتہ و تعلق کا ہمیں براہ راست تجربہ نہیں. کیونکہ جو کچھہ ہم دیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب آگ جلتی ہے تو اس میں احتراق یا جلانے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے. جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو روشنی سارے عالم میں پھیل جاتی ہے یا جب بجلی چمکتی ہے تو ایک آواز ہمارے کانوں کے پردے سے ٹکرا جاتی ہے. اس کے معنی یہ ہے کہ ہمارے مشاہدے میں دو چیزیں ھمیشہ ایک خاص ترتیب کے ساتھہ ہی آتی ہیں. ایک آگ اور ایک قوت آواز، ایک آفتاب اور ایک روشنی، یا ایک بجلی کی چمک اور ایک آواز رعد کا احساس اور ان دونوں مظاھر میں تعلق اور رشتے کی کیا نوعیت ہے؟ اس کا کوئی احساس ہمیں نہیں ہو پاتا اور منطقی اصطلاح میں یوں کہنا چاہئے کہ ان کو علت و معلول قرار دینا محض ایک نوع کے استقرا کا نتیجہ ہے جو ذہن و عادت سے متعلق ہے تجروبہ و مشاہدے سے بہر حال اس کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ  تجروبہ اور مشاہدے کی گرفت میں تو محض دو مختلف قسم کے واقعات ہی آ پاتے ہیں جو ہر چند کہ باہم متعلق نظر آتے ہیں تا ہم دقت نظر اور غور سے دیکھئے تو سوا اس کے کہ ہم نے ان ہردو واقعات کو ہمیشہ ایک دوسرے کے تعاقب میں ایک خاص ترتیب کے ساتھہ لگا ہواپایا یا صادر ہوتے دیکھا ہے اور کسی شے کا مشاھدہ نہیں کیا. چناچہ معلوم یہ ہوا کہ یہ صورت محض ذہن وعادت کی شعبدہ گری ہے کہ اس نے ایسے دو واقعات میں علت و معلول کا ایک رشتہ فرض کر لیاہے جو ہمیشہ توالی و تعاقب کے سانچے میں ڈھلے ہوئے نظر آۓ اور یہ سمجھہ لیا کہ پہلے ظہور میں آنے والی شے علت اور بعد میں ظہور کرنے والی شے معلول ہے جو اس ماقبل کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے.

زمان و مکان کے تصورات کی بحث میں قدیم فلاسفہ مختلف نظریات پیش کرتے آئے ہیں. یہ پرانے تصورات کچھہ اس طرح کے تھے کہ علاوہ ان جزیات و افراد کے جو پاۓ جاتے ہیں یہ بھی حقیقی وجود کا وصف رکھتے ہیں اور تمام جزیات و افراد کا ان سے تعلق ظرف و مظروف کا ہے. مکان کے بارے میں یہ فلاسفہ کہتے تھے کہ یہ ظرف باوجود اپنی وسعتوں کے بہر حال محدود ہیں کیونکہ کائنات خود محدود ہے اور زمانہ ایک ایسا وسیع تر ظرف اور پیمانہ ہے جو بے کراں و بے انتہاء ہے یعنی یہ غیر محدود اور لا منتاہی ہے.  لیکن غزالی زمان و مکاں کو جسم سے جدا کوئی مستقل بالذات ظرف قرار نہیں دیتے بلکہ ان کے خیال میں دونوں کا تعلق جسم ہی کے امتداد یا حرکت سے ہے یعنی کسی ایک ہی چیز کے استداد کو مکان سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہ چیز جب متحرک ہوتی ہے تو اس سے زمانہ کا تصور اپنے مخصوص پیمانوں میں ازخود ذہن انسانی میں ابھرتا ہے. گویا یہ الفاظ دیگر یہ امتداد و حرکت جسم ہی کے ابعاد میں سے ہیں. ان سے جدا اور الگ ان کا کوئی وجود ہی نہیں اور اس طور پر غزالی کو کانٹ کا پیشرو کہا جا سکتا ہے.

غزالی الله کی صفات سے بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدا کے ازلی و ابدی ہونے کے معنی یہ ہر گز نہیں کہ اس کی ذات پاک زمانی ہے اور زمانہ بھی وہ کہ جو حرکت مکان سے وجود میں آتا ہے بلکہ وہ خود خالق ہونے کی وجہ سے وقت و زمان کے حدود و اطراف سے ماورا اور مستغنی ہے. بلکل اسی طور پر مکان کے متعلقات کا اطلاق بھی اس پر نہیں ہو سکتا کیونکہ جریات و افراد سی علیحدہ اس کا اپنا کوئی وجود ہی نہیں. گویا غزالی کے نزدیک جہات و اطراف کا تصور انسان کی ھیت تر کیبی سے وابستہ ہے. لہٰذا اگر کوئی حیوان اس قسم کی ھیت ترکیبی سے متصف نہ ہو تو اس کی جہات انسانی جہات سے مختلف ہونگی. مثلآ چیونٹی یا چھپکلی کی مثال ہمارے سامنے ہے. جس طرح یہ زمین پر چلتی ہے اسی آسانی سے یہ چھت کی نچلی طرف بھی چلتی ہے اور بلاشبہ جو ہمارا فوق ہوتا ہے وہ اس چھپکلی کا تحت بن جاتا ہے بلکہ ان ہر دوصورتوں میں ایک طرح سے نسبت تضاد پائی جاتی ہے گویا الله تعالیٰ کا تعلق جہت علوی سے ہونا کوئی بہت خوبی کی بات نہیں کیونکہ یہ علو خود اضافی اور اعتباری صورت حال ہے حقیقی نہیں.

حضرت امام غزالی بطلیموسی نظام ھیت کے قائل نظر آتے ہیں. تاہم ان کا کہنا ہے کہ اجرام سماویہ کا تعلق ادنیٰ ترین سطح یعنی عالم حواس سے ہے. کل فطرت کے پس پردہ خدا ہے جو سطح حقیقت پر ہے. عقل کی رسائی بلند ترین سطح تک نہیں ہے کیونکہ اس کے اعمال کو ادراک حسی کی شہادت پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے. حقیقت کی سطح تک رسائی کے لئے انسان کا روحانی صلاحیت میں بلند ہونا لازم ہے جس کے وسیلے سے غیر مرئی اشیا مستقبل کے اسرار اور ایسے دوسرے تعقلات کا ادراک ہوتا ہے جو اسی طرح سے عقل کی رسائی سے خارج ہوتے ہیں، جس طرح عقل کے تعقلات محض امتیاز اور اس کی رسائی سے بھر ہوتے ہیں١- جس کا امتیاز حواس کے ذریعہ سے مدرک ہوتا ہے. وحی و الہام کے معنی انبیاء و اولیا پر حقائق کے منکشف ہونے کے ہیں اور ان حقائق کا علم صرف ایک ایسے ہی الہاسی شخصی تجروبہ سے ہو سکتا ہے جس سے روح حقیقت کی سطح تک بلند ہو جاتی ہے اور صرف اتنا ہی نہیں کہ قرآن مجید کے تمام حقائق الہاسی ہیں، بلکہ خیر و شر کے تمام تصورات بھی الہاسی ہیں اور ان تک صرف عقل سے پہنچنا ممکن نہ تھا اور بلاشبہ یہ وہ نکتہ ہے جس سے معتزلہ کے اس دعوے کی تردید مقصود ہے کہ اخلاقی امتیازات کا عقل کے واسطے سے ادراک ہو سکتا ہے اور فلاسفہ و اطبا اور ھیت دانوں پر بھی حقائق اسی کشف کے ذریعہ منکشف ہوتے ہیں. لہٰذا معلوم یہ ہوا کہ امام غزالی ابن رشد کے خلاف اسی فوق العقلی وجدان پر زور دیتے ہیں جو کہ حالت وجد میں حاصل ہوتا ہے جس کے ذریعہ سے روح عالم ظلی سے بلند ہو کر عالم حقیقت تک پہنچ جاتی ہے. یہ رجحان خالصتا تصوف کی پیداوار تھا اور اس طرح سے غزالی اہل سنت کے یہاں عنصر تصوف کو داخل کرتے ہیں اور ساتھہ ہی صوفیت کو حکمی شکل میں منتقل کرتے ہیں. ان کا یہ شاندار کام

چار عنوانات کے تحت آتا ہے.

١- انہوں نے اہل سنت کے یہاں تصوف کو داخل کیا.

٢- انہوں نے فلسفہ کے استعمال کو مقبول عام بنایا.

٣- انہوں نے فلسفہ کو الہیات کے تابع بنا دیا.

٤- انہوں نے خدا کو ملّت اسلامیہ میں ایک زمانہ میں بحال کیا جب تعلیم یافتہ طبقہ میں خوف کا عنصر کم ہونے لگا تھا.

 

چناچہ امام غزالی تک آ کر اسلامی الٰہیات کی ترقی درجہ کمال کو پہنچ جاتی ہے. غزالی نے جی تین مسائل کو بلخصوص موجب تکفیر جانا ہے وہ یہ ہیں :-

١- یوم حشر میں اجسام اٹھاۓ نہیں جائیں گے.

٢- الله کا علم صرف کلیات کا ہی احاطہ کئے ہوئے ہے جزیات کا نہیں.

٣- یہ کارخانہ’ عالم ازل تا ابد یونہی قائم و دائم رہے گا.

اقتباس از ے قاضی قیصر السلام، فلسفے کے بنیادی مسائل

Share

May 5, 2013

المشاہدات فی کراوڈ سورس ایس ایم ایس شاعری

Filed under: ادبیات,شاعری,طنزومزاح,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 1:01 pm

اپنی کم علمی میں ہم ہمیشہ یہی سمجھتے رہے کہ اردو شاعری پر جو ستم وصی شاہ نے ڈھاے ہیں، اسکی نظیر تاریخ کبھی نا پیش کر سکے گی لیکن ہمت کرنے والوں نے دل کی گلیوں پر بھی بہت کچھ لکھ مارا جس پر تبصرے کے لئے استاذ جعفر کا پریشاں ہیں پِنڈ کی جھَلّیاں، قاطع برہان ہے۔  یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا، اصل موضوع ہے  حضرت اقبال و فراز کے ایس ایم ایس دیوان جنہیں برادرم راشد کامران ہیش ٹیگ و کراوڈ سورس شاعری قرار دیتے ہیں ۔ اس ضمن میں ہمارا تو یہی موقف رہا کہ

فراز کے الٹے سیدے شعر بنانےسے یہ باز نہیں آتے اقبال
بہت ان نوجوانوں کو سمجھا کے دیکھ لیا

اب یہ چلن اسقدربڑھا کہ اچھے خاصے ڈھنگ کے لوگوں کوبھی اقبال کے نام پر بے بحر و اوزان کے ایسے اشعار منسوب کرتے دیکھا ہے کہ اس سے انکے نجیب الطرفین ہونے پر شک ہونے لگتا ہے۔ دریافت کرو تو جواب میں ڈھٹائ سے فرماتے ہیں کہ یہ تازہ دریافت، بحر و اوزان سے آزاد علامہ ہی  کا کلام ہے، میں نے خود پڑھا ہے بانگ درگاہ ایس ایم ایس ایڈیشن میں۔ مثلا مندرجہ زیل فوٹوشاپئے ہی ملاحظہ ہوں

268785_4472773623475_1426899029_n

اس پر انور مسعود صاحب کا یہ شعر خوب لاگو ہوتا ہے کہ

اک اتائی کر رہا تھا ایک مجمع سے خطاب
یاد ہے بس ایک ٹکڑا مجھ کو اس تقریر کا
بات ہے بانگِ درا میں، شیخ سعدی نے کہی
’’صبح کرنا شام کا‘ لانا ہے جوئے شیر کا‘‘

21216_10151463979022585_412146928_n

سنجیدہ شعر میں تحریف کر کر اسے مزاح کا رنگ دینا ایک قابل تحسین ہنر ہے۔ لیکن موجودہ تضمین سے شگفتگی کی صنف بنانے کا معیار و مزاج ، سوشل میڈیا کی ہی طرح کا ‘سطحی’ ہے۔  وہ دن ہوا ہوے جب عنایت علی خان یا پاپولر میرٹھی کس خوبی سے کہا کرتے تھے
حسن والوں نے کیا ہے بہت جم کے پتھراؤ
تیرے سر میں تو بہت کام رفو کا نکلا
یا پھر علّامہ کا یہ سنجیدہ شعر
مانا کہ ترے دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو مرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ
تھوڑی سی تحریف سے کیا خوب ہوا۔
مانا کہ ترے دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو مری کار دیکھ مرا کاروبار دیکھ
اور امیر الاسلام ہاشمی
عمر تو ساری کٹی عشقِ بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
نے کس قدر ‘نازک’ موضوع پر خامہ فرسائ کی
نائی آئے گا تو یہ کہہ کے گریزاں ہوں گے
’’آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے‘‘
 اب تو یہ حال ہے کہ

اب تو ڈر لگتا ہے کھولنے سے بھی دراز
کہیں ایسا نہ ہو کہ اس میں‌سے بھی نکل آئے فراز

علامہ کے ساتھ تو یہ ظلم تو اکثر لوگوں کو کھلتا ہے لہذا انجمن اقبالیات شمالی امریکہ نے اس ضمن میں ایک مہم چلائ،برسبیل تذکرہ انجمن پر تو ضمیر جعفری نے خوب کہا تھا

بپا ہم سال میں اک مجلس اقبال کرتے ہیں
پھر اْسکے بعد جو کرتے ہیں وہ قوال کرتے ہیں

487288_10151081453451505_527155786_n

یا پھر چلیں عطا الحق قاسمی صاحب کی ہی سن لیں کہ اقبال کی شاعری کو بین کردیا جاے۔ لیکن کہے دیتے ہیں کہ نقل کفر کفر نا باشد۔ کل کو ہم کاغذات نامزدگی داخل کرانے جائیں اور آپ ہمارا یہ مضمون پیش کریں تو یہ اعلان برات ہے ۔

398988_10150889305091505_2061535367_n

محترم ڈفر نے اس ضمن میں فرازکا ایک ایس ایم ایس دیوان  مرتب کیا تھا جو کہ خاصہ دلچسپ ہے۔   تخلیقی کیفیت توکراوڈ سورس شاعری میں بھی کچھ کم نظر  نہیں آتی، لیکن یہ زیادہ تر ‘فراز’ کی ہی سخن پروری ہے، مثلا دیکھیں۔

فراز کی شادی میں ہوئے اتنے پھول نچھاور
کیمرہ میں فراز کے ساتھ جیو نیوز پشاور

یا پھر

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
اور ان کی جوتیاں لے کے بھاگ گیا فراز

 اور یہ رعایت تو خصوصا لائق ستائش ہے

وہ ہمیں بے وفا کہتے ہیں تو کہتے رہیں فراز
امی کہتی ہیں جو کہتا ہے وہ خود ہوتا ہے

دیگر زبانوں کے امتزاج سے بھی بہترین اشعار وجود میں آتے ہیں اور ثابت ہوتے کہ فراز ایک عالمگیر شاعر ہے، محض اردو میں اسے مقید نہیں کیا جاسکتا، مثلا

مجھ سے لوگ ملتے ہیں میرے اخلاق کی وجہ سے فراز
ہور میرے کوئی سموسے تے نئیں مشہور

اور

اتنا سن کر ہی ہمارا دل ٹوٹ گیا فراز
the number you have dialed is busy on another call

اور دیگر ماحولیاتی و امن عامہ سے متعلق عوامل بھی دیکھیں

 

اس گلی اس وجہہ سے جانا چھوڑ دیا فراز
وہ کمینے نوکیا گیارہ سو بھی چھین لیتے ہیں

ظالموں نے تو مغل اعظم کو بھی نہیں بخشا

اس نے مجھے رات کو اکیلے جنگل میں چھوڑ دیا فراز
یہ کہہ کر کہ جب پیار کیا تو ڈرنا کیا

فیس بک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو حضرت اقبال پر بہتان لیکن ہمیشہ کچھ سنجیدہ سا لگتا ہے، اسقدر کہ اسے خود کو یقین دلانے کے لئے دوبارہ پڑھنا  پڑھتا ہے۔

تم حیا و شریعت کے تقاضوں کی بات کرتے ہو
ہم نے ننگے جسموں کو ملبوس حیا دیکھا ہے
دیکھے ہیں ہم نے احرام میں لپٹے کئی ابلیس
ہم نے کئی بار مہ خانے میں خدا دیکھا ہے

یا پھر

عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟

اب ان اشعار کو پڑھنے کے بعد ہم پر تو حضرت علامہ کی لحد میں لوٹ پوٹ پر نہایت افسوس کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ فراز ایس ایم ایس نے تو اس کیفیت  پر بھی ایک شعر کہا ہے، ملاحظہ ہو

ہم تو اس قبر میں بھی سکوں میسر نہیں فراز
روز آکر کہتا ہے شیطاں کہ استاد آج کوئی نیا شعر ہوجائے 
ایس ایم ایس اشعار کا ذخیرہ تو لا امتناہی ہے مگر کچھ خیال خاطر احباب کی خاطر اس کو مختصر رکھتے ہیں اور مندرجہ زیل اشعار پر تمت بالخیر کہتے ہیں
اگر اقبال پر ہوتی رہیں انــگـلش میں تـقـریریں
بدل جائیں گی اک دن دیکھنا ملت كى تقديريں
سیل فـون اک ہاتھ میں ہے ایک میں ریمـوٹ!
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

حوالہ جات

ہیش ٹیگ شاعری

جی ڈھونڈتا ہے

فراز، ایس ایم ایس دیوان

Share

May 1, 2013

انہدام، یاور امان کے شعری مجموعے کا تعارف

Filed under: ادبیات,شاعری,کتابیات — ابو عزام @ 10:50 pm

جان لیوا ہے شام بہت
پر دفتر میں ہے کام بہت
 شہد بھرے ان ہونٹوں سے
کھانے کو دشنام بہت
حسن کے چرچے گلی گلی
اپنے سر الزام بہت

یاور امان  کی شاعری عہد جدید کی تلخیوں کی ایسی منظر کشی ہے جس میں کلاسیکییت اور تکنیک سے اجتناب کے بجاے اسکا بھرپور استعمال نظر آتا ہے۔انکی شاعری سے متعارف کرانےکا سہرا ہمارے ایک دوست کے سر جاتا ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے عزیزدوست براردرم شمائل نے ایک نشست میں تذکرہ کیا کہ انکے والد محترم بھی شاعری کے دلدادہ ہیں، خود بھی لکھتے ہیں اور کئی زبانوں پر ۔مہارت رکھتے ہیں، نیز انکی ایک کتاب حال ہی میں چھپ کر آئ ہے۔ اس بات سے ہمیں بڑا اشتیاق ہوا اور ان سے گذارش کی کہ اگلی بار جب پاکستان کا چکر لگے تو کتاب ضرور لیتے آئیے گا۔

cover-front-yawar-aman

پھر جب ہمیں آٹوگراف کاپی ملی تو ظاہر سی بات ہے کہ پھولے نا سماے اور فورا انہدام، یاور امان کے شعری مجموعے کو پڑھنا شروع کیا۔ شاعرکے کلام میں اسکی زندگی کے اتار چڑھاو ، معاشرتی تبدیلیوں اور گردونواح کی جھلک ملنا کوئ اچھنبے والی بات نہیں لیکن جن مشکلات سے یاور امان صاحب گذرے ہیں، پرورش لوح وقلم کے نام پر انکو رقم کرنا درحقیقت ایک بڑی کاوش ہے۔

بارود کے نصاب میں تھی وہ کشش امان
بچوں کو لکھنے پڑھنے سے رغبت نہیں ہوئی

انکی تحریرمحض جالب کی احتجاجی شاعری نہیں اور نا ہی میر درد کا نوحہ ہے، اس میں فیض کی بغاوت اور  ندرت خیال ہے مگر بے محابہ لفاظی نہیں۔ یہ کتاب اظہارجذبات و احساسات و مشاہدات و طنز و تلخی سے عبارت  ایک ایسے مصور کا کینوس ہے جو  رنگوں کو  اسطرح بکھیر دیتا  ہے کہ پوری تصویر کے ساتھ ہر رنگ نمایاں نظر آتا ہے، چاہے وہ بارود کے دھوئیں کا سیاہ و سپید رنگ ہو، سمندر کے پانی کا نیلگوں رنگ ہو، سقوط بنگال  کے رستے زخموں کا آتشیں رنگ یا جلتے کراچی کا سرخ  رنگ، یاور امان کی اس کاوش میں آپکو وہ تمام رنگ یکجا نظر آئیں گے۔

autograph-yawar-aman

یاور امان صاحب کی شاعری میں نقل مکانی کے درد کے ساتھ ساتھ زندگی کی مشکلات کی عکاسی کی گئی ہے۔  کچھ قارئین کو شائد  یاور امان کی تحریر روایتی انداز سے مختلف   لگے کیونکہ انہوں نے  نہایت مہارت  سے الفاظ اور محاورات کے ساتھ جدید تجربات کئے ہیں۔

شاعر کے تعارف میں جناب ڈاکٹر محمّد رضا کاظمی لکھتے ہیں

یاور امان جیسے کلاسیکی رچاؤ اور بصیرت رکھنے والے شاعر کا وجود ہمیں ایک خوش گوار حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے. کسی کہ کشتہ نہ شد از قبلہ مانیست کے مصداق میں نے یاور کی شعوری تربیت گاہ پر نگاہ کی تو مجھے کلکتہ کی وہ گلیاں نظر آئیں جن سے ہم اور یاور ایک دوسرے سے آشنا ہوئے بغیر آشنا تھے. اس پس منظر میں میرے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ یاور کا شعور حیرت اور شناخت جیسے مسائل کے درمیان کیوں پروان چڑھا. یاور کے پاس جو آئینہ ہے اس کی آرائش سے کوئی نسبت نہیں اور شاید اس کا حسن واقعی صورت سراب رہا ہو. اتنا تو طے ہے کہ غم جاناں کی طرف سے اسے اطمینان ہے اور عشق اس کے لیے مسئلہ کا درجہ نہیں رکھتا. یاور کے دل سے جو صدا ابھرتی ہے وہ احتجاج کی صدا ہے.

انکی ایک غزل ملاحظہ ہو کہ۔

ہاتھوں میں سیم و زر کی حرارت نہیں ہوئی
مجھہ سے یزید وقت کی بیعت نہیں ہوئی

اس کا جب انتخاب تھا میرے لیے کفن
مجھہ سے بھی پاسداری خلعت نہیں ہوئی

سچ بولتے وہ کیسے جنھیں جاں عزیز تھی
یہ تاب، یہ مجال ، یہ جرات نہیں ہوئی

کچھہ لوگ بچ گۓ جو ابھی تک ہیں سد راہ
پوری مراد حسب ضرورت نہیں ہوئی

بارود کے نصاب میں تھی وہ کشش امان
بچوں کو لکھنے پڑھنے سے رغبت نہیں ہوئی

احمد الیاس یاور امان کی شاعری کے بارے میں اسطرح رطب اللسان ہیں۔

امان کی ابتدائی شاعری کا زمانہ وہ تھا جب ایک نۓ انقلاب زدہ ملک میں اردو شاعر اور ادیب، مع اور قاری سب کے سب بے بسی کی زندگی بسر کر رہے تھے. پرانے اقدار ٹوٹ پھوٹ کر بکھر چکے تھے اور لوگ بڑی حد تک نظریۂ  کی اذیت کا شکار ہو رہے تھے. جس معاشرے میں یہ صورت حال ہو وہاں معاشرے کی شیرازہ بندی باقی نہیں رہتی. امان نے اس صورت حال کو محسوس کیا اور اس کا اظہار بھی کیا.

امان نے اپنے ماحول اور وقت کے سیاسی شعور، سماجی انتشار اور معاشرتی مسائل کو غزلوں کے اشعار میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے. وہ اس میں کہاں تک کامیاب رہے یہ ایک الگ موضوع گفتگو ہے. لیکن اس تجربے میں انہوں نے زندگی کے عصری تقاضوں کو محسوس کیا ہے اور ان محسوسات کو ایک اچھے فنکار کی طرح ادب کے عصری تقاضوں کے ساتھہ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے.

ہاور امان صاحب کی یہ غزل یقینا قابل ستائش ہے جس میں انہوں نے سادگی کی زمین میں ایک خوبصورت مضمون باندھا ہے۔

جب کبھی آسمان کھلتا ہے
دھند کے درمیان کھلتا ہے 

یوں در دل تو کھولیے صاحب

جیسے خالی مکان کھلتا ہے 

اس طرح مجھہ سے کیوں کھلیں گے آپ

جس طرح بادبان کھلتا ہے 

میرے مہمان بن کر تو دیکھیں

کس طرح میزبان کھلتا ہے 

کوئی کھڑکی کبھی جو کھلتی ہے

گویا پورا مکان کھلتا ہے 

بے زبانی بھی سوچیے اس کی

جب کوئی بے زبان کھلتا ہے

 در حقیقت یقیں کی سرحد پر

سارا وہم و گمان کھلتا ہے

ایک اور تہذیب سانس لیتی ہے

جب کوئی پان دان کھلتا ہے

حسن کی بارگاہ میں اکثر

دست بستہ امان کھلتا ہے

یاور امان اور ان کی شاعری کے عنوان سے ایک مضمون میں علی حیدر ملک انکی سوانح لکھتے ہیں جس سے شاعر کی زندگی کے کئی پہلووں پر روشنی پڑتی ہے اور اشعار کے سیاق و سباق و کیفیت  کا اندازہ ہوتا ہے۔ 

بچہ بچہ ہے مرے شہر کا رونے والا

سوچتا ہے کسے بہلاۓ کھلونے والا

دن جو بدلے تو چلا آیا پذیرائی کو

ہار پھولوں کا لیے خار چبھونے والا

جانے کس جرم کی پاداش میں ان آنکھوں کو

رت جگے دے گیا آرام سے سونے والا

ایسا ہوتا ہے گماں یہ مرا اپنا تو نہیں

قتل گاہوں کی زمیں خون سے دھونے والا

ڈھونڈھتے ہو کسے ماضی کے دھندلکے میں امان

وقت گزرا ہوا پاتا نہیں کھونے والا

علی حیدر ملک کے تعارف کے کچھ حصے قارئین کی دلچسپی کے لئے یہاں نقل کررہا ہوں۔

یاور امان کی شاعری بنگلہ دیش کی ہم عمر ہے. مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے سے پہلے نہ تو وہ یاور امان تھے اور نہ ہی شاعر. تا ہم قرطاس و قلم سے ان کا رشتہ بہر حال اس وقت بھی قائم تھا. اس وقت وہ امان ہر گانوی کے نام سے جانے جاتے، افسانے و مضامین لکھتے اور ہندی و بنگالی ادب پاروں کے ترجمے کیا کرتے تھے. علاوہ ازیں بہ حیثیت صحافی اخبارات خصوصا ہفت روزہ “قوم” کھلنا اور روز نامہ “حریت” کراچی کے لیے خبریں، رپورٹیں اور فیچر وغیرہ بھی تحریر کرتے تھے.

بنغلہ دیش بننے کے بعد کسی طرح اپنی جان اور عزت بچا کر وہ کھلنا سے ڈھاکہ منتقل ہوگۓ. جان اور عزت تو محفوظ رہی لیکن اپنے روزگار اور پرانے ساتھیوں سے محروم ہو گۓ. غیر بنگالیوں کے لیے یہ بڑا پیغمبری وقت تھا. اردو بولنا ایک جرم تھا. رفتہ رفتہ حالات کسی قدر بہتر ہوئے تو اردو بولنے والوں کی توجہ اپنی زبان اور ادب کی طرف شروع ہوئی. مگر اردو کے اخبارات و رسائل تو تھے نہیں لہٰذا ایسے میں شعری محفلیں کام آئیں. شاعروں اور بازوق لوگوں کے گھروں پر چھوٹی چھوٹی شعری نشستیں منعقد ہونے لگیں. ان شعری نشقوں میں زیادہ تر طرحی غزلیں پڑھی جاتی تھیں. یاور امان ان نشستوں میں بہ حیثیت سامع شرکت کرتے تھے. پھر یہ سوچ کر کہ نثر نگاروں کے لیے فی الحال یہاں کوئی گنجائش نہیں، انہوں ننے شاعری شروع کردی اور بہ حیثیت شاعر شعری محفلوں میں شریک ہونے لگے. ابتداء میں حافظ دہلوی اور ماہر فریدی سے مشورۂ سخن کیا. یہ دونوں بزرگ جید صاحب فن اور استاد سمجھے جاتے تھے لیکن یاور امان ان سے مطمئن نہ ہوئے کیوں کہ وہ رموز شاعری سے آگاہ کرنے کے بجاۓ مصرعے یا شعر تبدیل کر دینے اور اکثر اوقات سادہ کاغذ پر اصلاح دینے کے طریقہ کار پر کار بند تھے. یاور امان کو یہ طریقہ کار پسند نہیں تھا اسی لیے مشورۂ سخن کا سلسلہ جلد ہی منقطع ہوگیا. انہوں نے مطالعے کو اپنا رہبر بنایا اور غزلیں کہہ کر چند قریبی بزرگوں اور احباب کو سنانے لگے جن میں نوشاد نوری اور احمد الیاس سب سے نمایاں تھے. وہ اب بھی اسی طریقہ کار پرعمل پیرا ہیں. ہر نئی تخلیق پہلے وہ اپنے قریبی احباب کو سناتے اور ان سے ان کی راۓ طلب کرتے ہیں اور ان کی راۓ کی روشنی میں اپنی تخلیق پر دوبارہ غور کرتے ہیں. اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے اس طرح کے قریبی دوست شاعر نہیں، نثر نگار ہیں مگر اس کا کیا کیا جاۓ کہ وہ شاعروں سے زیادہ ان نثرنگاروں کی راۓ کو ہی زیادہ معتبر گردانتے ہیں.

اردو شاعری  میں ایک طرف جہاں تعلی کی روایت بہت مضبوط ہے وہاں دوسری طرف تقلید کو بھی قابل فخر سمجھا گیا ہے . اکثر شعراء کا تعارف یہ کہہ کر کرایا جاتا ہے کہ فلاں شاعر کے رنگ میں شعر کہتے ہیں یایہ کہ فلاں شاعر کے دبستان سے وابستہ ہیں. یاور امان اس روش کو پسند نہیں کرتے. وہ کہتے ہیں :

 

امان چھاپ کسی کی نہ خود پہ لگنے دے

جب آرزو ہے کہ فن تیرا کامیاب رہے

 

وہ اپنے قلم کو کسی بھی شاعر کے اثر سے آزاد رکھنا چاہتے ہیں اور یہی نہیں وہ اپنی فکر کی تکرار بھی نہیں چاہتے:

امان آزاد رکھہ اپنے قلم کو

اور اپنے فکر کی تکرار مت کر

انہوں نے اردو شاعری کے اساتذہ اپنے پیسش روؤں اور ہم عصروں کا مطالعہ اور ان سے کسی قدر استفادہ ضرور کیا ہے لیکن کسی کی چھاپ اپنے اوپر نہیں لگنے دی. اپنے ارد گرد کے حالات و واقعات اور سیاست کی بازی گری سے آنکھیں چرانا عہد حاضر کے کسی شاعر کے لیے ممکن نہیں . یاور امان نے بھی ایسا نہیں کیا. انہوں نے عوام کی زبوں حالی کو اس طرح پیش کیا ہے:

اے قیصر وجمشید کے سجادہ نشیں دیکھہ

میت ابھی جمہور کی بے گورو و کفن ہے

ہمارے سیاسی رہنماؤں اور حکمرانوں کا رویہ کیا ہے، اس ضمن میں وہ کہتے ہیں :

منصب راہبری، اندھوں میں جب کانے کو

ہاتھہ آۓ تو سمجھہ لیتا ہے گھر کی میراث

 

یاور امان نے دو ہجرتیں کیں اس کا صلہ کیا ملا؟ ذرا شعر دیکھیے :-

 

دو ہجرتوں کے بعد بھی ثابت نہ کر سکے

حب زمیں امان زمین وطن کے ساتھہ

 

غزل اشارے اور کناۓ کا فن ہے. اس میں عصری حالات اور تاریخی واقعات کو بھی استعارے کے پیکر میں پیش کیا جاتا ہے لیکن یاورامان  نے بعض اوقات راست انداز سے کام لیا ہے مثلا وہ غزلیں جن کے مطلعے درج ذیل ہیں:

 

ان آنکھوں میں محبّت دیکھتے ہیں

چلو دل کی شہادت دیکھتے ہیں

اور

 

یقین کی حد سے آگے منزل وہم و گماں کیوں ہو

میاں دیدہ و دل حاصل سود و زیاں کیوں ہے

 

اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے یاور امان نے ناموں کے استعمال سے بھی گریز نہیں کیا مثلآ :

ہم نے سیکھا عالی  جی سے

اپنے نام کی  مالا جپتا

اور

کراچی کو نصیر الله بابر

عجب کیا رکھہ نہ دے بنگال کر کے

یہاں ایک واقعے کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے. آخر الذ کر شعر جس غزل کا ہے وہ اس زمانے میں کہی گئ تھی جب پاکستان کے وزیر داخلہ جنرل (ریٹائرڈ) نصیر الله بابر اپنے لاؤ لشکر کے ساتھہ کراچی شہر میں ٹوٹ پڑے تھے. ہزاروں نوجوانوں کو ماوراۓ قانون، گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید اور زخمی کردیاگیا . بے شمار معذور اور لاپتا کر دیے گۓ. پورا شہر، شہر خموشاں بنا ہوا تھا. اگر کوئی آواز سنائی دیتی تھی تو وہ گولی کی آواز ہوتی تھی یا نالہ وشیون کی. اس زمانے میں ظلم و جور کے خلاف صداۓ احتجاج بلند کرنا کوئی معمولی بات نہیں تھی یاور امان نے ان جرأت رندانہ سے کام لیتے ہوئے پوری قوت سے آواز بلند کی اور مشاعروں میں اپنے اشعاربے خوفی کے ساتھہ پڑھتے رہے. اورنگی ٹاؤن کے ایک بڑے مشاعرے میں، جس میں ضلعی انتظامیہ کے کئی زمہ دار افسر بھی موجود تھے، یاور امان نے یہ غزل پڑھی اور مشاعرہ لوٹ لیا، داد دینے والوں میں سرکاری افسران بھی شامل تھے.

اس کے کچھہ عرصے بعد یاور امان کسی دوست یا عزیز سے ملنے اورنگی گۓ. واپسی کے لئے وہ بس اسٹاپ پر کھڑے تھے کہ پولیس موبائل آئی اور انہیں اٹھا کر لے گئی. انہیں حوالات میں بند کر دیا گیا. پولیس ان پر الزام عائد کر رہی تھی کہ وہ ہندوستانی ایجنٹ ہیں اور غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوئے ہیں. یاور امان اپنی بے گناہی کا ثبوت پیش کرتے رہے لیکن حسب معمول پولیس اہلکاروں نے ایک نہ سنی. کچھ دیر بعد تھانے کے ایس ایچ او علاقے کے راؤنڈ سے واپس آۓ  تو انہوں نے یاور امان کو حوالات میں دیکھہ کر حیرت کے ساتھہ اپنے عملے سے پوچھا کہ انہیں یہاں کیوں بند کر رکھا ہے ؟ ایک اہلکار نے اپنا موقف بیان کیا تو ایس ایچ او نے جھنجھوڑ

کر کہا ارے او بیوقوفوں یہ شاعر ہیں اور کچھ عرصہ پہلے انہوں نے اورنگی کے مشاعرے میں وہ غزل پڑھی تھی جس میں اس وقت کے وزیر داخلہ کو نشانہ تنقید بنایا گیا تھا. پھر اس نے نصیر الله بابر والے شعر کے علاوہ کئی شعر سنا ڈالے. یاور امان کو حوالات سے رہا کرنے کے بعد ایس ایچ او نے انہیں چاۓ پلائی اور معذرت کی. زمانہ گردش کرتا رہتا ہے سو زمانے کی نئی گردش نے اس جماعت کو جو معتوب تھی، اقتدار کی مسند پر بٹھا دیا. اب ان لوگوں کی بن آئ جو پرشوب دنوں میں منقاد زیر پر کیے بیٹھے تھے. خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہو جانے والے ادیب اور شاعر انعامات وصول کرنے والوں کی قطار میں کھڑے ہو گۓ مگر یاور امان اور ان جیسے دوسرے اہل قلم جنہوں نے عین ظلم و جور کے زمانے میں احتجاجی فن پارے تخلیق کیے تھے اس قطار سے دور وہیں کھڑے رہے جہاں کہ وہ پہلے تھے. خیر یہ دوسرا قصّہ ہے اور ہمارے معاشرے کے ایک اور المیے کو ظاہر کرتا ہے.

بات ہو رہی تھی یاور امان کی شاعری کی اور میں یہ عرض کر رہا تھا کہ یاور امان نے کسی شاعر کی تقلید یا پیروی نہیں کی. یہاں تک کہ پرویز شاہدی اور مظہر امام جیسے ممتاز شعراء کی بھی نہیں جو کہ ان کے باقاعدہ استاد تھے. ویسے وہ بعض شاعروں کو پسند ضرور کرتے تھے جنمیں مرزا غالب، شادعظیم آبادی، جمیل مظہری، جون ایلیا اور ظفر اقبال خاص طور پر قابل ذکر ہیں. ان کی زمینوں میں انہوں نےغزلیں بھی کہی ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ اپنی افتاد طبع کے اعتبار سے وہ جدید غزل کے مجتہد ظفر اقبال سے زیادہ قریب ہیں. یوں تو انہوں نے کلاسیکی روایت میں بھی غزلیں کہی ہیں اور اچھے شعر تخلیق کیے ہیں لیکن جدید رنگ کی غزلوں میں ان کے یہاں زیادہ طرح داری اور پختگی کا احساس ہوتا ہے. ان کی جدید طرز کی غزلوں میں طنزکا عنصر بنت نمایاں نظر آتا ہے حالانکہ طنز ایک ایسی خصوصیت ہے جو غزل کے بنیادی مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی. تاہم غالب، یگانہ اور دور حاضر میں ظفر اقبال، مظفرحنفی اور کچھہ دیگر شعراء نے اس کا استعمال نہایت سلیقے سے کیا ہے. یاور امان بھی انہی لوگوں میں شامل ہیں.

یاور امان کی شاعری میں صرف طنز ہی نہیں اکثر تلخی کا بھی احساس ہوتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک کھاتے پیتے نجیب الطرفین سادات گھرانے میں پیدا ہوئے تھے لیکن لڑکپن میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھہ جانے کے باعث انہیں سخت ابتلا و آزمائش سے گزرنا پڑا. تعلیم اور روزگار کے حصول کے لئے انہیں کم عمری میں اپنا گاؤں چھوڑ کر کلکتہ اور ممبئی جیسے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑا. ان بڑے شہروں میں انہوں نے مادی کامیابی کے لیے چوہا دوڑ، انسانی اقدار کی پامالی اور سرماۓ کی چیرہ دستی کا تماشا بہت قریب سے دیکھا جس سے ان کے بہت سے آدرش شکست و ریخت سے دو چار ہوئے.بڑے تجارتی شہروں کے حالات نے ان کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان کی ذات کے اندر تلخی پرورش پانے لگی. اس تلخی کا اظہار جابہ جا ان کی شاعری میں ہوا ہے.

یاور امان نے شاعری کی مختلف صنفوں میں طبع آزمائی کی ہے. انہوں نے رباعی جیسی روایتی اور مشکل صنف کو بھی اظہار کا ذریعہ بنایا ہے اور نظم کی مختلف ہستیوں کو بھی آزمایا ہے. جہاں تک نئی صنف سخن “تروینی” کا تعلق ہے، وہ اس کے مخترع گلزار کے بعد اولین دو معماروں میں سے ایک ہیں. دوسری اولین معمار فوقیہ مشتاق ہیں. لیکن غزلوں کی تعداد بھر حال ان کے ہاں سب سے زیادہ ہے اس لیے انہوں نے سب سے پہلے اپنی غزلوں کا انتخاب شائع کرنا مناسب سمجھا. دوسری اصناف پر مشتمل مجموعے بعد میں شائع ہوں گے. فی الحال آپ ان غزلوں کے مختلف النوع ذائقے کا ۔لطف اٹھائیے.

علی حیدر ملک کے مندرجہ بالا تعارف سے امید ہے کہ ہمارے دور کے اس شاعر کے حالات زندگی اور انکے کلام کی نوعیت سے اچھی واقفیت ہوئ ہوگی۔ مندرجہ زیل غزل یاور امان صاحب کے مجموعے سے میری پسندیدہ غزل ٹھری ہے۔

جان لیوا ہے شام بہت

پر دفتر میں ہے کام بہت

شہد بھرے ان ہونٹوں سے

کھانے کو دشنام بہت

حسن کے چرچے گلی گلی

اپنے سر الزام بہت

ننگی گھاس ف ننگے پاؤں

چلنے میں آرام بہت

گھر سے گھر تک رہوں میں

پھیلے ہیں اوہام بہت

گھر، گلیوں، چوباروں میں

رشتوں کے اہرام بہت

مرنے کا بس ایک ہی دن

جینے کے ایام بہت

سچ کی قیمت کم ہے امان

جھوٹ کہو تو دام بہت

اور مندرجہ زیل اشعار میں آپکو جدید ٹکسالی اردو  کا مزا آے گا۔


عدو یوں تو مرا تگڑا بہت ہے

مگر میں نے اسے رگڑا بہت ہے

میں تجھہ سے عشق تو کرتا ہوں جاناں

مگر اس راہ میں لفڑا بہت ہے

تمھاری تیز رفتاری سلامت

ہمارے واسطے چھکڑا بہت ہے

تقریبا تین سوصفحات کی  یہ کتاب  میڈیا گرافکس کراچی نے شائع کی ہے اور اسکی قیمت تین سو رپے ہے۔

cover-back-yawar-aman

 

Share

Powered by WordPress