اپنی کم علمی میں ہم ہمیشہ یہی سمجھتے رہے کہ اردو شاعری پر جو ستم وصی شاہ نے ڈھاے ہیں، اسکی نظیر تاریخ کبھی نا پیش کر سکے گی لیکن ہمت کرنے والوں نے دل کی گلیوں پر بھی بہت کچھ لکھ مارا جس پر تبصرے کے لئے استاذ جعفر کا پریشاں ہیں پِنڈ کی جھَلّیاں، قاطع برہان ہے۔ یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا، اصل موضوع ہے حضرت اقبال و فراز کے ایس ایم ایس دیوان جنہیں برادرم راشد کامران ہیش ٹیگ و کراوڈ سورس شاعری قرار دیتے ہیں ۔ اس ضمن میں ہمارا تو یہی موقف رہا کہ
فراز کے الٹے سیدے شعر بنانےسے یہ باز نہیں آتے اقبال
بہت ان نوجوانوں کو سمجھا کے دیکھ لیا
اب یہ چلن اسقدربڑھا کہ اچھے خاصے ڈھنگ کے لوگوں کوبھی اقبال کے نام پر بے بحر و اوزان کے ایسے اشعار منسوب کرتے دیکھا ہے کہ اس سے انکے نجیب الطرفین ہونے پر شک ہونے لگتا ہے۔ دریافت کرو تو جواب میں ڈھٹائ سے فرماتے ہیں کہ یہ تازہ دریافت، بحر و اوزان سے آزاد علامہ ہی کا کلام ہے، میں نے خود پڑھا ہے بانگ درگاہ ایس ایم ایس ایڈیشن میں۔ مثلا مندرجہ زیل فوٹوشاپئے ہی ملاحظہ ہوں
اس پر انور مسعود صاحب کا یہ شعر خوب لاگو ہوتا ہے کہ
اک اتائی کر رہا تھا ایک مجمع سے خطاب
یاد ہے بس ایک ٹکڑا مجھ کو اس تقریر کا
بات ہے بانگِ درا میں، شیخ سعدی نے کہی
’’صبح کرنا شام کا‘ لانا ہے جوئے شیر کا‘‘
تیرے سر میں تو بہت کام رفو کا نکلا
تو مرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ
تو مری کار دیکھ مرا کاروبار دیکھ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
’’آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے‘‘
اب تو ڈر لگتا ہے کھولنے سے بھی دراز
کہیں ایسا نہ ہو کہ اس میںسے بھی نکل آئے فراز
علامہ کے ساتھ تو یہ ظلم تو اکثر لوگوں کو کھلتا ہے لہذا انجمن اقبالیات شمالی امریکہ نے اس ضمن میں ایک مہم چلائ،برسبیل تذکرہ انجمن پر تو ضمیر جعفری نے خوب کہا تھا
یا پھر چلیں عطا الحق قاسمی صاحب کی ہی سن لیں کہ اقبال کی شاعری کو بین کردیا جاے۔ لیکن کہے دیتے ہیں کہ نقل کفر کفر نا باشد۔ کل کو ہم کاغذات نامزدگی داخل کرانے جائیں اور آپ ہمارا یہ مضمون پیش کریں تو یہ اعلان برات ہے ۔
محترم ڈفر نے اس ضمن میں فرازکا ایک ایس ایم ایس دیوان مرتب کیا تھا جو کہ خاصہ دلچسپ ہے۔ تخلیقی کیفیت توکراوڈ سورس شاعری میں بھی کچھ کم نظر نہیں آتی، لیکن یہ زیادہ تر ‘فراز’ کی ہی سخن پروری ہے، مثلا دیکھیں۔
فراز کی شادی میں ہوئے اتنے پھول نچھاور
کیمرہ میں فراز کے ساتھ جیو نیوز پشاور
یا پھر
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
اور ان کی جوتیاں لے کے بھاگ گیا فراز
اور یہ رعایت تو خصوصا لائق ستائش ہے
وہ ہمیں بے وفا کہتے ہیں تو کہتے رہیں فراز
امی کہتی ہیں جو کہتا ہے وہ خود ہوتا ہے
دیگر زبانوں کے امتزاج سے بھی بہترین اشعار وجود میں آتے ہیں اور ثابت ہوتے کہ فراز ایک عالمگیر شاعر ہے، محض اردو میں اسے مقید نہیں کیا جاسکتا، مثلا
مجھ سے لوگ ملتے ہیں میرے اخلاق کی وجہ سے فراز
ہور میرے کوئی سموسے تے نئیں مشہور
اور
اتنا سن کر ہی ہمارا دل ٹوٹ گیا فراز
the number you have dialed is busy on another call
اور دیگر ماحولیاتی و امن عامہ سے متعلق عوامل بھی دیکھیں
اس گلی اس وجہہ سے جانا چھوڑ دیا فراز
وہ کمینے نوکیا گیارہ سو بھی چھین لیتے ہیں
ظالموں نے تو مغل اعظم کو بھی نہیں بخشا
اس نے مجھے رات کو اکیلے جنگل میں چھوڑ دیا فراز
یہ کہہ کر کہ جب پیار کیا تو ڈرنا کیا
فیس بک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو حضرت اقبال پر بہتان لیکن ہمیشہ کچھ سنجیدہ سا لگتا ہے، اسقدر کہ اسے خود کو یقین دلانے کے لئے دوبارہ پڑھنا پڑھتا ہے۔
تم حیا و شریعت کے تقاضوں کی بات کرتے ہو
ہم نے ننگے جسموں کو ملبوس حیا دیکھا ہے
دیکھے ہیں ہم نے احرام میں لپٹے کئی ابلیس
ہم نے کئی بار مہ خانے میں خدا دیکھا ہے
یا پھر
عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟
ہم تو اس قبر میں بھی سکوں میسر نہیں فراز
روز آکر کہتا ہے شیطاں کہ استاد آج کوئی نیا شعر ہوجائے
بدل جائیں گی اک دن دیکھنا ملت كى تقديريں
سیل فـون اک ہاتھ میں ہے ایک میں ریمـوٹ!
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
حوالہ جات
آپ کی اس تحریر نے بہت محظوظ کیا ۔۔۔۔
کمال کی پھلجڑیاں چلائی ہیں۔
Comment by جواد احمد خان — May 5, 2013 @ 2:40 pm
بہت شکریہ جواد احمد خان صاحب
Comment by ابو عزام — May 6, 2013 @ 9:18 am
بہت شاندار۔
Comment by آصف — May 6, 2013 @ 12:48 am
تبصرے کا شکریہ
Comment by ابو عزام — May 6, 2013 @ 9:17 am
بہترین
Comment by علی — May 6, 2013 @ 6:45 am
تبصرے اور پسندیدگی کا شکریہ علی صاحب
Comment by ابو عزام — May 6, 2013 @ 9:19 am
یہ سیکنڈ اور تھرڈ لاسٹ قطعے تو مجھے اقبال کے ہی لگتے وہی انداز ہے۔
Comment by دوست — May 6, 2013 @ 9:21 pm