پچھلے دنوں گوگل ہینگ آوٹ پر برادرم ریاض شاہد نے گفتگو کے دوران غزالی، الہیات اور عقل کی حیثیت پر ہماری ناقص راے پوچھی، اس استفسار کا جواب تو محدود مطالعے کی بنا پر جو ہم سے بن پڑا وہ دے دیا لیکن یہ خیال ذہن سے نکالے نا نکلا کہ امام غزالی کو پڑھے ہوے عرصہ گذرا، اور وہاں بھی ان کی کتب کا مطالعہ زیادہ تر کیمیائے سعادت اور مکاشفتہ القلوب کے دروس تک ہی محدود رہا، کبھی شہرہ آفاق تحافتہ الفلاسفہ نہیں کھولی، محض تشریحات و اقتباسات پر ہی انحصار کرتے رہے۔ محدود وقت کی وجہ سے ہم نے قاضی قیصر السلام کی کتاب فلسفے کے بنیادی مسائل دوبارہ کھولی اور اس میں سے موجود امام غزالی پر ایک جامع مضمون دوبارہ پڑھ ڈالا، اب قارئین کی دلچسپی کے لئے اسکا کلف نوٹش ورژن شائع کئے دیتے ہیں کہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آے۔
امام غزالی
امام موصوف کا پورا نام ابو حامد محمّد ابن محمّد غزالی ہے. غزالی اپنے ہم عصر حکماۓ کلام میں نہایت ممتاز اور بلند پایہ شخصیت کے حامل ہیں. آپ مسلک شافعی کے آئمہ فکر میں سے ہیں. آپ خراسان کے شہر طوس میں ٤٥٠ھ میں پیدا ہوئے. آپ کے خیالات و افکار پر واضح روشنی خود آپ ہی کی تصنیف “المنقذ من الضلال” کے مطالعہ سے پڑتی ہے. اس کتاب میں موجودات عالم کے حقائق سے متعلق تشریحات کی گئی ہیں. آپ نے حقیقت کی بحث کے دوران فلاسفہ متکلمین باطنیه کے مبادیات پر غور کیا اور صرف تصوف، تامل، انجذاب ہی میں راہ ہدایت پائی. حالانکہ غزالی نے صوفیا کے افکار میں کوئی خاص ایزاد نہیں کیا. تاھم ان کے افکار کا فلسفه، عرب پر بڑا گہرا اثر پڑا. ان کی تصانیف میں جن دو کتابوں کا مطالعہ از بس ضروری ہے ان میں پہلی کتاب “مقاصد الفلاسفه” اور دوسری “تھافتھ الفلاسفه” ہے. مقاصد الفلاسفه دراصل علوم فلسفه کی تلخیص ہے اور تھافتھ الفلاسفه علوم فلسفه کے رد میں لکھی گئی.
اشعری الٰہیات کے مباحث میں پیش بہا کامرانیوں کی آخری کڑی امام غزالی ہیں. آپ کمسنی ہی میں یتیم ہو گئے تھے چناچہ آپ کے والد کے ایک صوفی دوست نے آپ کو تعلیم دلائی. بعد میں نیشا پور کے مدرسه میں داخل ہو گئے اور جیسے ہی آپ نے مروجہ علوم میں ترقی کی، یہ صوفی اثرات سے آزاد ہو کر اشعری ہو گئے. بعد ازیں ٤٨٤ھ میں مدرسه بغداد کے صدر مقرر ہوئے. لیکن بہت آپ روحانی اضطراب کا شکار ہو گئے اور اس عہدے سے مستعفی ہو کر شام چلے گئے جہاں انہوں نے اپنا پورا وقت مطالعہ و عبادات میں گزارا. ٤٩٩ھ میں دوبارہ نیشا پور واپس آگۓ اور یہاں مدرسه نظامیہ میں معتدل اشعری نظام فکر کی تعلیم کی قیادت سنبھال لی جس پر تصوف کا رنگ غالب تھا، جسے ہم اہل سنت کی الٰہیات کا آخری ارتقا قرار دے سکتے ہیں. گویا امام غزالی کو اشعری الٰہیات کے فروغ میں ایک اہم ستون کی حیثیت حاصل ہے..
آپ کے حالات زندگی اور علمی حیثیت کے اس اجمال کے بعد اب ہم آپ کے افکار کا جائزہ لیں گے. امام صاحب کو متکلم فلسفی کا مرتبه دیا جاتا ہے جب کہ اس کے برعکس ابن سینا، فارابی اور ابن رشد کی حیثیت فلسفی متکلم کی ہے.
علم منطق کے بارے میں امام غزالی اپنی تصنیف “المنقذ من الضلال” میں لکھتے ہیں کہ ریاضی اور منطق میں کوئی بات ایسی نہیں جو اسلام سے متصادم نظر آتی ہو. ان کا کہنا ہے کہ فن منطق کا علم دین سے بالراست منفی یا مثبت کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ اس فن میں تو صرف اس امر پر بحث ہوتی ہے کہ دلائل کیا ہیں؟ ان کی جانچ پڑتال کی کسوٹی کیا ہے؟ برھان کسے کہتے ہیں؟ اس کے مقدمات کی شرائط کی نوعیت کیا ہے؟ تعریف کس سے تعبیر ہے اور اس کو کس طور پر مرتب کیا جاتا ہے؟ مزید اس علم میں یہ بتایا جاتا ہے کہ علم کی دو اقسام میں تصور یا تصدیق- تصور کو تعریفات و حدود کے ذریعہ معلوم کیا جاتا ہے، اور تصدیق کی شناخت، براھین اور دلائل سے ہوتی ہے. ظاہراً ان میں کوئی بات ایسی نہیں جس کو دین سے متصادم کہا جا سکے. بلکہ یہ تو بعینہ وہی باتیں ہیں جن کا اہل کلام اور اھالیان بحث و نظر کےہاں عموماً چرچا رہتا ہے. البتہ ان میں اور منطقیوں میں یہ فرق ضرور ہے کہ یہ انہیں مطالب کے لئے اپنی مخصوص اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں. اور تعریفات اور جزئیات میں زیادہ الجھتے ہیں. جب کہ وہ زیادہ تعمقات سے کام نہیں لیتے. امام غزالی کہتے ہیں کہ جب یہ ثابت ہو چکا کہ ہر انسان حیوان ہےتو اس سے یہ امرلازم ہوا کہ بعض حیوان انسان ہوتے ہیں. یعنی اصطلاحاً اسے یوں کہیں گے کہ موحیه کلیه کا عکس ہمیشہ موحیه جزئیہ ہوتا ہے. اس سے یہ انکشاف ہوا کہ دین کے اہم مسائل سے اس کا کیا تعلق ہے اور پھر اس کو نہ مانا جاۓ تو کس دلیل کی بناء پر؟ تا ہم اس میں بھی عملا یہ قباحت ہے کہ کچھ لوگ اس حسن ظن کا شکار ہو جاتے ہیں کہ جو اندازو معیار ان کا علم منطق میں ہے وہی عقائد و دینیات میں بھی ہوگا-..
حالانکہ حقیقتا ایسا نہیں ہے کیونکہ ان کی فہم و فراست صرف اس لئے..میدان پر مبنی ہو کر رہ گئی ہے جب کہ الٰہیات میں یہی لوگ حد درجہ تساہل سے کام لیتے ہیں. فن منطق پر غزالی کی تنقید کا اصل منشاء بھی یہی ہے کہ ہر فن کے دائروں کو ان کے اپنے جداگانہ تناظر میں سمجھا جاۓ اور جب کبھی کسی مسئلہ پر بحث کی جاۓ تو اس میں تقلید کی بنا پر راۓ زنی سے پرہیز برتا جاۓ. بلکہ دیکھنا یہ چاہیے کہ نفس مسئلہ کس حد تک صداقت کا حامل ہے. چناچہ فلسفہ پر بھی امام غزالی کےاعتراضات کی نوعیت کچھہ ایسی ہی ہے.
مسئلہ وجود پر بحث کرتے ہوئے امام غزالی کہتے ہیں کہ وجود کے تین مختلف عالم ہیں:-
١ – عالم ملک — یہ وہ عالم ہے جس میں وجود کا علم حواس کے ذریعہ سے ہوتا ہے. اس میں عالم کا علم ادراک سے ہوتا ہے اور یہ ہر آن متغیر رہتا ہے.
٢- عالم ملکوت_ یہ عالم حقیقت کا غیر متغیر اور ابدی عالم ہے، جو خدا کے حکم سے قائم ہوا
اور یھ عالم جس کا محض پر تو ہے
٣ – عالم جبروت_ یہ درمیانی حالت ہے. صحیح معنوں میں اس کا تعلق حقیقت سے ہے مگر یہ بظاھر ادراک کی سطح پر معلوم ہوتا ہے اس درمیانی حالت میں انسانی روح ہے جو عالم حقیقت سے متعلق ہے اگر چھ بظاھر اس کا اظلال سطح ادراکی پر ہوتا ہے.جس سے اس کا تعلق نہیں اور پھر یہ حقیقت کی طرف لوٹ جاتی ہے.
قلم و لوح وغیرہ جن کا ذکر قرآن میں ملتا ہے. محض تمثیل نہیں ہیں. ان کا تعلق عالم حقیقت سے ہے اور اس لئے یہ اس کے علاوہ ہیں جو کچھہ ہم اس عالم ادراک میں دیکھتے ہیں. یہ تینون سطحیں یا عالم زمان اور مکان میں علیحدہ نہیں ہیں. بلکہ انہیں وجود کی ہی اشکال سمجھنا چاہئے.
علاوہ ازیں امام موصوف وجود کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وجود ایک ہے جو تمام مخلوق کا خالق ہے. وہ لاشریک و بے ھمتا اور یکتاۓ زمانہ ہے. وہ ھمیشہ سے ہے اور ھمیشہ باقی رہیگا. ازل سے ابد اس ہستی کا وجود یقینی ہے. یہ قائم بالذات اور مکتفی بالذات ہے. یہ وجود بذات خود نہ جوہر ہے اور نہ عرض. وہ کسی وجود میں نہیں سماتا اور نہ کسی چیز سے مشابہ ہے. اس کی شکل و شبیه کوئی نہیں. اس کی ذات بے چون و چرا ہے. ہمارے توھمات و تخلیلات میں جو کچھہ آتا ہے یا آ سکتا ہے وہ ان سب سے بالاتر ہے کیونکہ یہ تو خود تخیلات کا بھی ضائع ہے. خوردی و بزرگی اور کمی و بیشی سے اس کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ خود یہ صفات بھی صور جسمیہ سے متعلق ہیں جن سے اس کا وجود منزہ ہے. وہ نہ کسی جگہ پر ہے اور نہ ہی اس لئے کوئی جگہ متعین ہے.
اس دنیا میں جو کچھہ ہے وہ عرش کے ماتحت ہے اور عرش اعلیٰ اس کی مرضی اور ارادے سے مسخر ہے. وہ عرش سے کہیں اعلیٰ تر ہے. ایسے نہیں جیسے کوئی جسم کسی جسم پررکھہ دیا جاۓ کیونکہ وہ کوئی جسم نہیں اور نہ ہی عرش اس کو اٹھاۓ ہوئے ہے، بلکہ عرش صرف اس کے حکم کے مطابق ایک جگہ قائم ہے. اس کی ذات کی صفت آج بھی وہی ہے جو عرش کو بنانے سے پہلےتھی اور آئندہ بھی ابدالاباد تک ایسی ہی رہےگی. گردش و انقلابات عالم کا اس کی ذات سے کوئی تعلق نہیں.
اگر گردش و انقلاب میں نقصان کی صفت ہوگی تو وہ خدائی کے قابل نہ ہوتا اور اگر انقلابات زمانہ ترقی و صفات حسنہ کے باعث ہوں گے تو اس کی مثال ایسی ہو جاۓ گی جیسے کوئی چیز اول نقص تھی بعد ازیں کامل ہوگئی. یہ صفت بھی مخلوق کے لئے ہوتی ہے خالق کے لئے نہیں.-١
امام غزالی خالق کے علم کو مخلوق کے علم سے مماثل سمجھتے ہیں اور ایک کو دوسرے پر قیاس کرتے ہیں. مثلا انسان مادیات کا علم حواس کے واسطے سے اور مجردات کا علم عقل کے ذریعہ سے حاصل کرتا ہے اور ان ہر دو صورتوں میں معلومات اس کے علم کی علت ہوتی ہیں. گویا جب انسان کا علم خود معلومات کا تابع اور معلول ہے تو معلومات کے تغیر و تعدد سے انسان کے علم میں بھی تغیرو تعدد پیدا ہو جاتا ہے. لیکن اس کے برعکس فلاسفہ کے نزدیک خدا کا علم خود علت ہے. معلومات کا معلول نہیں اس لئے اس کے علم کا قیاس انسانی علم پر نہیں کیا جا سکتا. یہی وجہ ہے کہ فلاسفہ کے نزدیک خدا کو موجودات کا جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کلیت و جزئیت کے ساتھہ وہ علم متصف ہوتا ہے جو عقل انفعالی کے ساتھہ تعلق رکھتا ہو اور خدا فعل محض ہے گویا عقل کو صرف موجودات کا علم ہوتا ہے اور معدومات کا علم نہیں ہوتا. امام غزالی کے نزدیک خدا کا صانع عالم ہونا اسی وقت ثابت ہوتا ہے جب اس سے اس کا صدور ارادہ و اختیار سے ہو.
تخلیق کائنات پر بحث کرتے ہوئے امام غزالی طبیعیات کی قدرو منزلت کو بھی پورے طور پر محسوس کرتے ہیں. انکا کہنا ہے کہ جس طور پر ایک طبیب جسم کے اعضاء رئیسہ اور اجزاۓ خادمہ پر غور کرتا ہے اور وہ ایسا کرتے ہوئے اس میں کسی پہلو کو اسلام و مذہب کے تقاضوں کو منافی نہیں سمجھتا اسی طرح طبیعیات میں بھی مختلف اشیا کی ترکیب و امتزاج سے بحث کرنا قطعی مذہب کی روح سے متصادم نہیں. طبیعیات میں کار فرما شے خود طبیعیت نہیں بلکہ خاطر طبیعیت ہے کیونکہ اس عالم میں ایک طرح کی فعالیت ہے اس کی کوئی توجیہہ علل و معلول کے اس بے جان گورکھہ دھندے سے نہیں ہو پاتی. وہ کہتے ہیں کہ یہ کارخانہ حیات اور کائنات نظم و ترتیب اور ایک طرح کے ارتقا کا متقاضی ہے. وہ کہتے ہیں کہ طبیعیت میں زندگی و عمل کی جستجو بے کار ہے. اس کا مبدا تو بھر حال حی و قیوم خدا کی ذات ہی کو قرار دینا ہوگا..
قانون علت و معلول کے متعلق غزالی کہتے ہیں کہ یہ تصور بھی ذہن و عادات کے تصور کی کرشمه زنی ہے ورنہ خارج میں اس طرح کے کسی رشتہ و تعلق کا ہمیں براہ راست تجربہ نہیں. کیونکہ جو کچھہ ہم دیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب آگ جلتی ہے تو اس میں احتراق یا جلانے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے. جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو روشنی سارے عالم میں پھیل جاتی ہے یا جب بجلی چمکتی ہے تو ایک آواز ہمارے کانوں کے پردے سے ٹکرا جاتی ہے. اس کے معنی یہ ہے کہ ہمارے مشاہدے میں دو چیزیں ھمیشہ ایک خاص ترتیب کے ساتھہ ہی آتی ہیں. ایک آگ اور ایک قوت آواز، ایک آفتاب اور ایک روشنی، یا ایک بجلی کی چمک اور ایک آواز رعد کا احساس اور ان دونوں مظاھر میں تعلق اور رشتے کی کیا نوعیت ہے؟ اس کا کوئی احساس ہمیں نہیں ہو پاتا اور منطقی اصطلاح میں یوں کہنا چاہئے کہ ان کو علت و معلول قرار دینا محض ایک نوع کے استقرا کا نتیجہ ہے جو ذہن و عادت سے متعلق ہے تجروبہ و مشاہدے سے بہر حال اس کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ تجروبہ اور مشاہدے کی گرفت میں تو محض دو مختلف قسم کے واقعات ہی آ پاتے ہیں جو ہر چند کہ باہم متعلق نظر آتے ہیں تا ہم دقت نظر اور غور سے دیکھئے تو سوا اس کے کہ ہم نے ان ہردو واقعات کو ہمیشہ ایک دوسرے کے تعاقب میں ایک خاص ترتیب کے ساتھہ لگا ہواپایا یا صادر ہوتے دیکھا ہے اور کسی شے کا مشاھدہ نہیں کیا. چناچہ معلوم یہ ہوا کہ یہ صورت محض ذہن وعادت کی شعبدہ گری ہے کہ اس نے ایسے دو واقعات میں علت و معلول کا ایک رشتہ فرض کر لیاہے جو ہمیشہ توالی و تعاقب کے سانچے میں ڈھلے ہوئے نظر آۓ اور یہ سمجھہ لیا کہ پہلے ظہور میں آنے والی شے علت اور بعد میں ظہور کرنے والی شے معلول ہے جو اس ماقبل کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے.
زمان و مکان کے تصورات کی بحث میں قدیم فلاسفہ مختلف نظریات پیش کرتے آئے ہیں. یہ پرانے تصورات کچھہ اس طرح کے تھے کہ علاوہ ان جزیات و افراد کے جو پاۓ جاتے ہیں یہ بھی حقیقی وجود کا وصف رکھتے ہیں اور تمام جزیات و افراد کا ان سے تعلق ظرف و مظروف کا ہے. مکان کے بارے میں یہ فلاسفہ کہتے تھے کہ یہ ظرف باوجود اپنی وسعتوں کے بہر حال محدود ہیں کیونکہ کائنات خود محدود ہے اور زمانہ ایک ایسا وسیع تر ظرف اور پیمانہ ہے جو بے کراں و بے انتہاء ہے یعنی یہ غیر محدود اور لا منتاہی ہے. لیکن غزالی زمان و مکاں کو جسم سے جدا کوئی مستقل بالذات ظرف قرار نہیں دیتے بلکہ ان کے خیال میں دونوں کا تعلق جسم ہی کے امتداد یا حرکت سے ہے یعنی کسی ایک ہی چیز کے استداد کو مکان سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہ چیز جب متحرک ہوتی ہے تو اس سے زمانہ کا تصور اپنے مخصوص پیمانوں میں ازخود ذہن انسانی میں ابھرتا ہے. گویا یہ الفاظ دیگر یہ امتداد و حرکت جسم ہی کے ابعاد میں سے ہیں. ان سے جدا اور الگ ان کا کوئی وجود ہی نہیں اور اس طور پر غزالی کو کانٹ کا پیشرو کہا جا سکتا ہے.
غزالی الله کی صفات سے بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدا کے ازلی و ابدی ہونے کے معنی یہ ہر گز نہیں کہ اس کی ذات پاک زمانی ہے اور زمانہ بھی وہ کہ جو حرکت مکان سے وجود میں آتا ہے بلکہ وہ خود خالق ہونے کی وجہ سے وقت و زمان کے حدود و اطراف سے ماورا اور مستغنی ہے. بلکل اسی طور پر مکان کے متعلقات کا اطلاق بھی اس پر نہیں ہو سکتا کیونکہ جریات و افراد سی علیحدہ اس کا اپنا کوئی وجود ہی نہیں. گویا غزالی کے نزدیک جہات و اطراف کا تصور انسان کی ھیت تر کیبی سے وابستہ ہے. لہٰذا اگر کوئی حیوان اس قسم کی ھیت ترکیبی سے متصف نہ ہو تو اس کی جہات انسانی جہات سے مختلف ہونگی. مثلآ چیونٹی یا چھپکلی کی مثال ہمارے سامنے ہے. جس طرح یہ زمین پر چلتی ہے اسی آسانی سے یہ چھت کی نچلی طرف بھی چلتی ہے اور بلاشبہ جو ہمارا فوق ہوتا ہے وہ اس چھپکلی کا تحت بن جاتا ہے بلکہ ان ہر دوصورتوں میں ایک طرح سے نسبت تضاد پائی جاتی ہے گویا الله تعالیٰ کا تعلق جہت علوی سے ہونا کوئی بہت خوبی کی بات نہیں کیونکہ یہ علو خود اضافی اور اعتباری صورت حال ہے حقیقی نہیں.
حضرت امام غزالی بطلیموسی نظام ھیت کے قائل نظر آتے ہیں. تاہم ان کا کہنا ہے کہ اجرام سماویہ کا تعلق ادنیٰ ترین سطح یعنی عالم حواس سے ہے. کل فطرت کے پس پردہ خدا ہے جو سطح حقیقت پر ہے. عقل کی رسائی بلند ترین سطح تک نہیں ہے کیونکہ اس کے اعمال کو ادراک حسی کی شہادت پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے. حقیقت کی سطح تک رسائی کے لئے انسان کا روحانی صلاحیت میں بلند ہونا لازم ہے جس کے وسیلے سے غیر مرئی اشیا مستقبل کے اسرار اور ایسے دوسرے تعقلات کا ادراک ہوتا ہے جو اسی طرح سے عقل کی رسائی سے خارج ہوتے ہیں، جس طرح عقل کے تعقلات محض امتیاز اور اس کی رسائی سے بھر ہوتے ہیں١- جس کا امتیاز حواس کے ذریعہ سے مدرک ہوتا ہے. وحی و الہام کے معنی انبیاء و اولیا پر حقائق کے منکشف ہونے کے ہیں اور ان حقائق کا علم صرف ایک ایسے ہی الہاسی شخصی تجروبہ سے ہو سکتا ہے جس سے روح حقیقت کی سطح تک بلند ہو جاتی ہے اور صرف اتنا ہی نہیں کہ قرآن مجید کے تمام حقائق الہاسی ہیں، بلکہ خیر و شر کے تمام تصورات بھی الہاسی ہیں اور ان تک صرف عقل سے پہنچنا ممکن نہ تھا اور بلاشبہ یہ وہ نکتہ ہے جس سے معتزلہ کے اس دعوے کی تردید مقصود ہے کہ اخلاقی امتیازات کا عقل کے واسطے سے ادراک ہو سکتا ہے اور فلاسفہ و اطبا اور ھیت دانوں پر بھی حقائق اسی کشف کے ذریعہ منکشف ہوتے ہیں. لہٰذا معلوم یہ ہوا کہ امام غزالی ابن رشد کے خلاف اسی فوق العقلی وجدان پر زور دیتے ہیں جو کہ حالت وجد میں حاصل ہوتا ہے جس کے ذریعہ سے روح عالم ظلی سے بلند ہو کر عالم حقیقت تک پہنچ جاتی ہے. یہ رجحان خالصتا تصوف کی پیداوار تھا اور اس طرح سے غزالی اہل سنت کے یہاں عنصر تصوف کو داخل کرتے ہیں اور ساتھہ ہی صوفیت کو حکمی شکل میں منتقل کرتے ہیں. ان کا یہ شاندار کام
چار عنوانات کے تحت آتا ہے.
١- انہوں نے اہل سنت کے یہاں تصوف کو داخل کیا.
٢- انہوں نے فلسفہ کے استعمال کو مقبول عام بنایا.
٣- انہوں نے فلسفہ کو الہیات کے تابع بنا دیا.
٤- انہوں نے خدا کو ملّت اسلامیہ میں ایک زمانہ میں بحال کیا جب تعلیم یافتہ طبقہ میں خوف کا عنصر کم ہونے لگا تھا.
چناچہ امام غزالی تک آ کر اسلامی الٰہیات کی ترقی درجہ کمال کو پہنچ جاتی ہے. غزالی نے جی تین مسائل کو بلخصوص موجب تکفیر جانا ہے وہ یہ ہیں :-
١- یوم حشر میں اجسام اٹھاۓ نہیں جائیں گے.
٢- الله کا علم صرف کلیات کا ہی احاطہ کئے ہوئے ہے جزیات کا نہیں.
٣- یہ کارخانہ’ عالم ازل تا ابد یونہی قائم و دائم رہے گا.
اقتباس از ے قاضی قیصر السلام، فلسفے کے بنیادی مسائل
پڑھ لی ہے تاکہ اگر کل کوئی پوچھ لیے تو کہہ سکیں غزالی کو پڑھا ہوا ہے۔
سمجھ البتہ نہیں آئی یہ الگ بات ہے۔ سمجھ تو علت و معلول جیسے الفاظ کی بھی تھوڑی تھوڑی ہی آئی ہے۔
Comment by دوست — May 15, 2013 @ 4:09 am
بہت ہی اعلیٰ
Comment by علی — May 15, 2013 @ 4:02 pm
عدنان صاحب بہت شکریہ کہ آپ نے وقت نکال کر اس موضوع پر اقتباس شیئر کیا ۔ معلوماتی ہے
Comment by محمد ریاض شاہد — May 16, 2013 @ 11:02 am