فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

June 27, 2013

عشاق کانفرنس

Filed under: ادبیات,طنزومزاح,کتابیات — ابو عزام @ 5:23 am

عشاق کانفرنس از محمد طارق طور

مرزا صاحب کے ساتھ صرف علیک ، سلیک ہی کسی کو دکھی اور پریشان حال کرنے کے لئے کافی ہے اور میری بد قسمتی دیکھئے کہ موصوف میرے بے تکلف دوست ہیں. ان کی دوستی کا یہ زہر قاتل میں بچپن سے پی رہا ہوں اور میری سخت جانی دیکھئے کہ ابھی تک زندہ ہوں. اب کیا عرض کروں، بس یوں سمجھئیے کہ مرزا صاحب کی شخصیت  اور عادات مخصوصہ کو الفاظ کی زنجیر پہنانا جوۓ شیر لانے سے تو کم ہی ہوگا. مگر اس خاکسار کے بس کی بات نہیں. اگر ایسا ہو سکتا تو میں کبھی کا مر چکا ہوتا اور طنزو مزاح کی کتابوں کی صف میں ایک شاہکار کا اضافہ ہو چکا ہوتا (آپ جانتے ہیں کہ ابھی تک ایسا نہیں ہوا ہے). ہمارے گھر میں مرزا صاحب کا اکثر آنا جانا رہتا ہے

اور مرزا حضور جب بھی قدم رنجہ فرماتے ہیں. ہمارا گھر گھر نہیں رہتا مرزا خانہ بن جاتا ہے. مثال کے طور پر نوکروں کے طور طریقے بدل جاتے ہیں انکے چہرے مسخرانہ ہو جاتے ہیں اور غٹرغوں غٹرغوں کرتے پھرتے ہیں.  بلائیں تو غائب!  تلاش بسیار کے بعد اگر کہیں سے برآمد ہو جائیں تو جواب ملتا ہے کہ مرزا صاحب کے پاس ان کے اشعار اور شکار کی داستانیں سن رہے تھے. بچے اسکول جانے سے انکار کر دیتے ہیں کہ گھر میں مرزا انکل سے کرکٹ کا میچ طے ہے. ڈرائیور مرزا صاحب کے ہاتھہ پر ہاتھہ مارتے ہوئے کئی بار حادثات کر چکا ہے. بس ایک ہماری بیگم ہیں جن سے ہم دل کی بات کر سکتے ہیں لیکن مرزا صاحب کے گھر میں دارد ہوتے ہی بیگم ہمیں خانے کو دوڑتی ہیں اور جب تک مرزا صاحب گھر میں براجمان رہتے ہیں ہمارے مرزا خانہ میں توپ خانہ خلا رہتا ہے.

مرزا صاحب جب بھی تشریف لاتے ہیں، اپنے درباریوں اور حواریوں کی ایک فوج کے ساتھہ آتے کم ہیں اور حملہ آور زیادہ ہوتے ہیں، پچھلے ماہ جب مرزا صاحب تشریف لاۓ تو ہمارا ماتھا ٹھنکا کہ اس مرتبہ کوئی خاص بات ہے کہ اکیلے تشریف لاۓ ہیں. جب گھر میں داخل ہوئے تو چند مہمان بھی ڈرائنگ روم میں براجمان تھے مرزا صاحب میرے کان کے قریب آ کر بولے: یہ لوگ کب جائیں گے ؟ ایک ضروری بات کرنا ہے”

میں نے عرض کیا : فرمائیے! یہ اپنے ہی لوگ ہیں”

تنک کر بولے: تمہیں کبھی عقل نہیں آئیگی بہت ہی ذاتی سامسلہ ہے”. ہماری یہ کانا پھوسی سن کر مہمان شاید تاڑ گۓ کہ اگر مجھے نہیں تو کم از کم مرزا صاحب کو تخلیہ درکار ہے لہٰذا انہوں نے فورا نو دو گیارہ ہونے کی ٹھانی. انہیں خدا حافظ کہنے کو گیٹ کی طرف نکلے تو اپنے ڈرائیور کو سخت پریشانی کے عالم میں پایا او! صاحب جی میں مرزا صاحب کو لیکر آرہا تھا کہ راستے میں گاڑی کھمبے سے لگ گئی”

میں تو بس آہ کر کے رہ گیا، مرزا صاحب کے ساتھہ گاڑی کو بھیجنا کبھی خطرے سے خالی نہیں ہوتا.

وہ ڈرائیور کے ساتھہ خوش گپیوں میں ہاتھہ پر ہاتھہ مارنے کے عادی ہیں. ہر بار ڈرائیور کی طرف اپنا ہاتھہ پھیلا دیتے ہیں. اب بے چارہ ڈرائیور ان کے ہاتھہ پر ہاتھہ مارے گا تو گاڑی کسی اور چیز سے مارے گا. خیر مہمانوں کو رخصت کیا تو میرے بچے اپنے بچپن کی سرحدیں پھلانگتے ہوئے مرزا جی کے گرد جمع ہو گئے کہ انکل آئیے کرکٹ کھیلتے ہیں. میں نے بچوں کو مخاطب کرکے مرزا صاحب کو ڈانتے ہوئے کہا کہ ابھی تو پچھلے “مرزا بینیفٹ میچ کے دوران ٹوٹے ہوئے شیشے اور گملے ہی تبدیل نہیں ہوئے. آج پھر سے توڑ پھوڑ کا عنوان بنتے جا رہے ہیں.”

مرزا صاحب کو جیسے میری حالت پر ترس آ گیا اور کرکٹ کا یہ میچ بن کھیلے ہی ڈرا ہوگیا.

مرزا نے کمرے کے سب دروازے بینڈ کرلئے اور مجھہ سے کہنے لگے یار میں نے اخبار میں کہیں پڑھا ہے کہ ضلع گجرات میں دریاۓ چناب کے کنارے اس ماہ کی چودھویں کو آل پاکستان عشاق کانفرنس منعقد ہو رہی ہے تمام سابقہ اور موجودہ عاشقوں کو شرکت کی دعوت عام ہے

کیا خیال ہے؟”

“کیا مطلب؟

“مطلب یہ کہ میں نے پرگرام بنایا ہے کہ ہم دونوں اس کانفرنس میں حصّہ لیں گے اور بس” “یار مرزا، کچھہ عقل کے ناخن لو! یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے”؟

“اس عمر میں یہ لچھن !بچے کیا سوچیں گے اور پھر ہم کون سے عاشق ہیں”؟

“یار کیا کہتے ہو! اعلان کے مطابق سابقہ عشاق حضرات بھی آ سکتے ہیں اور پھر تم ____وہ یونیورسٹی میں _____بچو! اب سارے چکر بھول گئے ہو!”

قصّہ مختصر دو گھنٹے کی بھونڈی بحث کے بعد مرزا مجھے قائل بلکہ مجبور کر چکے تھے کہ ہمیں اس کانفرنس میں شرکت کرنی چاہئیے. فوری طور پر انہوں نے اپنی جیب سے جنتری نکال کر حساب لگایا کہ چاند کی چودھویں کس دن ہے تاکہ مناسب وقت پر رخصت سفر باندھا جا سکے. آل پاکستان عشاق کانفرنس میں پہنچنا ایک علیحدہ داستان بنے جس کا ذکر یہاں مناسب نہیں کیونکہ

ایسا کرنے سے یہ ہلکا پھلکا مضمون ایک سفر نامہ بن جاۓ گا.

کانفرنس میں پہنچے تو کیا سماں تھا. دریا کے کنارے کھلے آسمان کے نیچے شامیانے لگے ہوئے تھے اور درمیان میں ایک پنڈال بنا ہوا تھا. یہ سارا نظام حاجی مولا بخش اینڈ سنز کا تھا. مولا بخش اینڈ سنز کے مالک حاجی مولا بخش ٹینٹ والے بڑے نامور عاشق تھے. اپنے آپ کو شہزادہ سلیم کے خاندان کا چشم وچراغ ظاہر کرتے تھے. اور سنا ہے کہ شروع شروع میں وہ مجنوں کے خاندان سے ہونے کے دعویدار تھے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ مجنوں کی شادی نہ ہو سکی تھی، اس لئے نسل چلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا) لاؤڈ اسپیکر وغیرہ کا انتظام بھی حاجی صاحب نے ہی کیا ہوا تھا. کانفرنس اگلے دن شروع ہونا تھی لیکن تمام عشاق کس اجتماع ہو چکا تھا.

لاؤڈ اسپیکر پر خواجہ میر درد اور میر تقی میر کی غزلیں سنائی جا رہی تھیں. کبھی کبھی ہیر وارث شاہ اور مرزا صاحباں کا قصّہ بھی سنایا جا رہا تھا. عین اس جگہ جہاں مہینوال نے اپنی ران کو کباب سوہنی کو کھلاۓ تھے وہاں بکرے کی ران کے کباب بھونے جا رہے تھے اور عشاق شوق اور عقیدت سے کھاتے جا رہے تھے. دریا کے اندر تیرا کی میں ماہر چند خواتین گھڑوں پر تیر کر سوہنی کی یاد کو تازہ کر رہی تھیں، انہیں دیکھنے اور داد دینے کے لئے لوگ کنارے پر کھڑے رالیں ٹپکا رہے تھے.

اگلے ہی روز یعنی چاند کی چودھویں تاریخ کو آل پاکستان عشاق کانفرنس کا پہلا اجلاس شروع ہوا. پنڈال پر ایک ہی کرسی رکھی گئی تھی. جو صدر صاحب کے لئے تھے. اجلاس شروع ہوتے ہی اس اجلاس کے صدر صاحب کو پالکی میں بیٹھا کر سٹیج پر لایا گیا. جونہی صدر صاحب باہر نکلے،دو نوجوان عاشقوں نے انہیں اٹھا کر کرسی پر رکھا. صدر کانفرنس کی حالت کافی نازک لگ رہی تھی، بس یوں لگتا تھا جیسے کسی میڈیکل کالج کی کلاس کے سامنے انسانی ڈھانچہ رکھا جاۓ صدارتی کرسی بھی عجیب سی تھی. کرسی کی چاروں ٹانگیں ایک کمان پر لگی ہوئی تھیں. ایسی کرسیاں گھروں میں اکثر بوڑھے لوگ آرام کرنے کیلئے

استعمال کرتے ہیں (انگریزی زبان میں اس کرسی کو روکنگ چیئر) کہتے ہیں کرسی پر بیٹھہ کر جھولتے رہتے ہیں.

صاحب صدر کو کرسی پر رکھا گیا تو کرسی نے آگے پیچھے حرکت کرنا شروع کردی. اسٹیج سیکرٹری نے مائیک پر آکر صاحب صدر سے اجلاس شروع کرنے کی اجازت مانگی جو انہوں نے کرسی کو تھوڑا سا تیز ہلا کر دےدی. سٹیج سیکرٹری نے سب سے پہلے تو صدر صاحب کا تعارف کرانے کی کوشش کی، جس میں انہوں نے کہا کہ صدر صاحب کرسی صدارت کے بارے عاشق ہیں. اور پچھلے بیس سال سے کسی نہ کسی طرح کرسی صدارت پر برا جمان چلے آ رہے ہیں.اب تقریبا مفلوج ہو چکے ہیں، بات نہیں کر سکتے، چلنے پھرنے سے قاصر ہیں. لیکن گو ہاتھہ میں جنبش نہیں، آنکھوں میں تو دم ہے، کہ مصداق ابھی قائم و دائم ہیں. ماشاالله ! اس کے بعد انہوں نے اپنا تعارف کرایا، جس میں انہوں نے اپنے آپ کو آل پاکستان عشاق ایسوسی ایشن کا کرتا دھرتا ثابت کرنے کی کوشش کی اور اپنا شجرہ نسب مغلیہ خاندان سے ملاتے ہوئے بہت ڈینگیں ماریں.

اس کے بعد انہوں نے اپنی ایسوسی ایشن کی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین کو دعوت تقریر دی.

ایکشن کمیٹی کے چیئرمین صاحب کافی جوش سے سٹیج پر تشریف لاۓ اور یوں شعلہ بیانی شروع کی.

“عشاق گرامی!” ملک بھر کے عشاق کا اتنا بڑا اجتماع دیکھہ کر میرا کلیجہ دوگنا ہو گیا ہے.

ممجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اب ہمارے پاس بھی پاور ہے (پاورمین سے بنتی ہے)میرے لیے ایکشن لینا اب آسان ہو گیا ہے. افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری برادری کے چند لوگ ہمارا خیال نہیں کرتے. اگر وہ ایسا کریں، تو میں آپ کو یقین دلا سکتا ہوں کہ کوئی مسلہ ہی نہ رہے. اتنے بڑے بڑے لوگ ہماری برادری میں ہیں کہ بس یوں سمجھئیے حکومت ہی اپنی ہے لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سب ان لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑیں اور کہیں کہ اٹھو، اپنی برادری کے نصیبوں کو جگادو”.

عشاق کرام ! پچھلے سال جو کانفرنس تخت ہزارہ کے مقام پر ہی تھی اس میں ایک ورکنگ کمیٹی بنائی گئی تھی. اس کمیٹی کے اس خاکسار سمیت پانچ رکن تھے. ایک رکن نے تو چند دن بعد ہی خودکشی کرلی تھی، دوسرا رکن ٹی بی کے عاشقانہ مرض میں مبتلا ہو کر چل بسا، تیسرا رکن جذبات عشق کی شدت سے لاہور کے دماغی امراض کے ہسپتال میں زیر علاج ہے. چوتھا رکن جو کہ اس ورکنگ کمیٹی کا پروپیگنڈہ سیکرٹری بھی ہے. اپنے محبوبہ کو بھگا لے جانے کے جرم میں قید ہے. لے دے کر یہی خاکسار باقی بچا ہے گویا اس ورکنگ کمیٹی کو آپ ایک رکنی کمیٹی کہ سکتے ہیں. چونکہ اس کا اور کوئی رکن نہیں ہے، اس لئے میں اسکا چئیرمین بھی ہوں پچھلے سال کے اجلاس میں جو قرارداد عشق اکثریت کی عاشقانہ راۓ سے منظور کی گئی تھی، میں وہ دوبارہ آپ کی خدمت میں پیش کر چاہتا ہوں تا کہ ہمیں اس سال کی قرارداد مرتب کرنے میں آسانی رہے.

 

قراداد عشق ١٩٨٣،

آل پاکستان عشاق کانفرنس کا یہ اجلاس مندرجہ ذیل قرارداد بھری اکثریت سے منظور کرتا ہے:

١- ہمارا مطالبہ ہے کہ ہماری یونین کو رجسٹر کیا جاۓ. ہم نے سالہا سال سے آل پاکستان عشاق یونین کو رجسٹرڈ کروانے کی کوشش کر رہے ہیں. لیکن متعلقہ حکام جن میں سے اکثر خفیہ طور پر ہمارے رکن ہ ہیں. اسے رجسٹرڈ کرنے میں حیل و حجت سے کام لے رہے ہیں. ان کے خیال میں ایسی یونین رجسٹرڈ کرنے سے قوم کا اخلاق تباہ ہو جاۓگا اور لوگ سرعام عشق وغیرہ کرنے لگیں گے..

 ٢- یہ کانفرنس اسد الله غالب نامی ایک شاعر کے بعض اشعارپر پرزور احتجاج کرتی ہے. ہمارے علم میں یہ بات لائی گئی کہ اس غالب نامی شخص نے اپنے اشعار میں جا بجا چند نامور. 

 عشاق کی شان میں گستاخی کی ہے مثال کے طور پر ایک شعر میں اس نے بادشاہ عشق، شہزادہ محبت و الفت، دیوانہ شیریں، جناب فرہاد ایرانی کی شان پر بہار میں یوں غیرپارلیمانی ریمارکس دیۓ ہیں:

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد 

اب آپ خود اندازہ کریں کہ اس عظیم عاشق کی موت کا مذاق اڑانا اگر توہین عشاق نہیں تو پھر اور کیا ہے ؟ غالب نامی اسی شاعر نے اپنے ایک اور سفر میں ہماری پوری برادری کو گالی دی ہے کہتا ہے”-

کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا 

اب ذرا سوچیے کہ یہ کس قدر زیادتی ہے. ہماری دعا ہے کہ یہ شخص اگر زندہ ہے تو ……….اگر اور کچھہ نہ ہوتا ہو تو خدا کرے کہ اس کی محبوبہ کی شادی کسی اور سے ہو جاۓ. 

٣- کانفرنس حکومت سے پر زور مطالبہ کرتی ہے کہ ہمیں حکومت میں نمائندگی دی جاۓ سنٹرل سیکرٹریٹ میں عشاق ڈویزن قائم کی جاۓ  اور قومی اسمبلی میں ہمارا کوٹہ مقرر کیا جاۓ 

٤- اب وقت آگیا کہ عشاق لوگ صحر انوردی کرتے پھریں. اب تو عشاق کو تکمیل عشق کو تکمیل عشق کی خاطر ہوائی جہاز میں سفر کرنا پڑتا ہے. ہمارا مطالبہ ہے کہ پی آئی اے کے کرایے میں ہمیں رعایت دی جاۓ اور ایئر پورٹ پر ایک علیحدہ عشاق کا کاؤنٹر قائم کیا جاۓ تا کہ مجذوب قسم کے عشاق کو کوئی پریشان نہ ہو.

٥-کہتے دکھ کی بات ہے کہ عشق کی تعلیم کا ہمارے ملک میں کوئی انتقام نہیں. ہم لوگ لیلے مجنوں، شیریں فرہاد اور ہیر رانجھا کے قصّے سنتے تو بڑے شوق اور فخر سے ہیں مگر کسی بھی بڑے عاشق کے حالات زندگی وغیرہ کسی بھی کلاس کے نصاب ،میں شامل نہیں، ہمارا  مطالبہ ہے کہ تعلیمی نصاب میں مضامین عشق کو شامل کیا جاۓ …… میں ایک شعبہ تعلیمات عشق بھی قائم کیا جاۓ، جس میں رانجھا اکیڈمی، فرہاد آڈیٹوریم، مہینوال ہال وغیرہ کے نام بھی رکھے جائیں.

٦- بعض عشاقان گرامی نے شکایت کی ہے کہ انہیں اپنی لائف انشورنس کروانے میں دشواریوں کا سامنا کرنہ پڑ رہا ہے، کیونکہ بعض انشورنس کمپنیاں عشاق کا بیمہ کرنے سے گریزاں ہیں. ہم ایسی بیمہ کمپنیوں کو آخری نوٹس دیتے ہیں کہ وہ راہ راست پر آجائیں ورنہ ہم اپنی ڈائی ہارڈ اسکواڈ کے عاشق ان کے پیچھے لگا دینگے.

تو معزز حاضرین ! یہ تھی پچھلے سال کی قرارداد نور چونکہ اس قرارداد پر ابھی تک عمل نہیں ہو سکا. اس لئے اس قرارداد کو ہم ایک بار پھر پیش کرتے ہیں اور میں آپ حضرات سے ملتمس ہوں کہ اسے بھری اکثریت سے پاس کریں، شاباش ہاتھہ کھڑے کیجیے، اوپر اور اوپر!

ایکشن کمیٹی کے چیئرمین کی تقریر ختم ہوئی تو صدر مجلس نے اپنی روکنگ چیئر پر جھوم کر انہیں داد تحسین پیش کی. کانفرنس کے باقی شرکاء نے بھی تالیاں بجا کر داد دی. اس کے بعد کانفرنس کے سیکرٹری نے ایک بزرگ عاشق بابا کرم دین طوفانی کو دعوت تقریر دی.

بابا جی مائیک ہاتھہ میں لے کر یوں کانفرنس سے مخاطب ہوئے.

معزز حاضرین! جیسا کہ آپ جانتے ہیں میرا شعبه موٹیویشن اینڈ ٹریننگ ہے. میں سارا سال لوگوں کو عاشق بننے کی ترغیب دیتا رہتا ہوں اور آج بھی یہی پیغام لے کر حاضر ہوا ہوں کہ آیئے ، عاشق بنئیے.

ہم جانتے ہیں کہ آپ میں سے اکثر خواتین و حضرات یہاں صرف اس لئے تشریف لاۓ ہیں کہ ہماری برادری میں شامل ہو سکیں. مجھے احساس ہے کہ آپ لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبھات بھی ہونگے، کی غلط فہمیاں آپ کے ذھن میں ہوں گی. جو آپ کو عاشق بننے سے روکے ہوئے ہیں مثال کے طور پر یہ غلط فہمی گردش عام میں ہے کہ عشق سخت آوارہ، نالائق، اچکے اور بیکار لوگوں کا مشغلہ ہے تو صاحب عرض ہے ک اگر عاشق کئی سال تک  برصغیر پر حکومت کر سکتا ہے (اور حکومت بھی ایک اچھے بھلے ٹہکے کے ساتھہ) تو پھر بھی آپ نے اس من گھڑت افواہ پر یقین کرلیا کہ عشاق بے کار آدمی ہوتے ہیں. آپ نے تاریخ کا مطالعہ ضرور کیا ہوگا اور اگر نہیں کیا تو سنا تو ضرور ہوگا کہ شاہ جہاں دنیا کے ایک عظیم شہنشاہ گزرے ہیں مگر عشاق برادری میں وہ ایک معمولی قسم کے عاشق کا مقام رکھتے ہیں. گویا عاشقی شہشاہیت سے افضل ہے ہان بھی تو رومیو نے اپنی جولیٹ سے کہا تھا..

میں تخت وتاج کو ٹھکرا کے تم کو پا لونگا

کہ تخت و تاج سے تیری گلی کی خاک بھلی

 

آپ شاید جانتے ہی ہونگے کہ دنیا میں فن سنگ تراشی کا بانی بھی ایک عظیم عاشق تھا. جس کا فن عاشقی کے علاوہ فن سنگ تراشی میں سنہری حروف سے لکھا گیا ہے’ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آگرہ میں عشق و محبت کا مینار تاج محل موجود ہے جس کی شہرت شعبه عشق پر تنقید کرنے والوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے. اب تو آپ مان گۓ ہوں گے کہ عشاق قطعی طور پر آوارہ اور نالائق قسم کے لوگ نہیں ہوتے ہیں

توعاشقان کرام! میری آپ سب سے بھی التماس ہے کہ آپ گھر گھر پیغام عاشقی پہنچائیں. اب میں آپ سے اجازت چاہوں گا. خدا حافظ ! “عشاق اتحاد زندہ باد”

باباۓ عشق کی تقریر ختم ہوئی تو مجمع تالیوں سے گونج اٹھا سٹیج سیکرٹری صاحب مائیک پر تشریف لاۓ اور داد طلب انداز سے نعرہ بازی شروع کردی. جس سے بہت شور برپا ہو گیا. ایک غزل سرا تھا تو دوسرا جگنی گا رہا تھا. کسی نے کان پر ہاتھہ دھرا ہوا تھا اور ہیر وارث شاہ گا رہا تھا. پنڈال کے ایک جانب لڈی اور ہے جمالو کی ٹولیوں کی بھنگڑ اور خٹک ناچ گروپ سے مقابلہ آرائی تھی. یہ ہنگامہ کافی دیر تک جاری رہا، اسی دوران صاحب صدر کی روکنگ چئیر کی حرکت روک چکی تھی. بعد میں معلوم ہوا کہ صاحب صدر اس شوروغل اور ہنگامے کو برداشت نہ کر سکے اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے، فوری طور پر تمام ڈاکٹر عشاق کو سٹیج پر بلایا گیا جنہوں نے آتے ہی صاحب صدر کی موت کی تصدیق کردی.

یہ سانحہ کیا ہوا. کانفرنس میں ایک بھگڈر سی مچ گئی، سب نے وہاں سے رفو چکّر ہونا شروع کر دیا کہ جیسے صدر صاحب کے بعد انکی باری ہو ان حالات میں میں اور مرزا بھی وہاں سے واپس ہوئے..

 

خدا رحمت کندایں عاشقان پاک طینت را

Share

June 24, 2013

نذر حیدرآباد کالونی، کراچی

Filed under: ادبیات,شاعری,طنزومزاح — ابو عزام @ 12:17 pm

 ریاست کا خومی ترانہ ہے یہ     سر راہ اک جیل خانہ ہے یہ
یہ نکڑ پہ اک سہ دری ٹین کی      یہ ڈسپنسری بھائ یاسین کی
یہ گھر ایک مرحوم استاد کا     علی اختر حیدرآباد کا
یہ ہر دل میں اسٹیٹ کا ولولہ    یہ ہر شیروانی کا چوڑا گلا
یہ کاڑی کی ڈبی پہ گاڑی کی چھاپ     نکو میری اماں، نکو میرے باپ
اگر چاہ تھی، چائے کو بولتے     تم ایسا بھلا کاے کو بولتے
حسینو میں شاعر ہوں مجھ سے ڈرو     مری شاعری سے بھی گوشہ کرو
میں سو پونڈ کا وزن گل کی ہو تم
میں ایک غیر ملکی ہوں، ملکی ہو تم

شاعر۔ نامعلوم

Share

Powered by WordPress