قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ – قُلْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْكَافِرِينَ- آل عمران ۳۱-۳۲
اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ، اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میر ی پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ اُن سے کہو کہ اللہ اور رسول کی اطاعت قبول کر لو پھر تم اگر وہ تمہاری دعوت قبول نہ کریں، تو یقیناً یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے، جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں۔
از حامد کمال الدین، شرک اکبر کا بیان
‘عبادت’ کا تصور اسلام میں بہت وسیع ہے۔ اور بہت واضح ہے۔ عبادت کا لفظ اسلام میں صرف ‘پوجا پاٹ’ پر صادق نہیں آتا۔ عبادت محض نذر نیاز اور چڑھاوا نہیں۔ عبادت صرف منتیں ماننے یا ماتھے ٹیکنے کا نام نہیں۔ سجدہ ورکوع اور طواف وذبیحہ وغیرہ عبادت کی ایک صورت ضرور ہے اور اسی لیے یہ رب العالمین کےلیے مخصوص ہے؛ مگر عبادت ایک بہت وسیع حقیقت ہے۔ اسلام نے عبادت کا جو مفہوم دیا ہے اُس میں بلاشبہ اطاعت بھی آتی ہے، گو آج کے دور میں بہت سے مذہبی وغیرمذہبی طبقے عبادت کا یہ مفہوم متروک کروادینے پر پورا زور صرف کررہے ہیں۔
رب العالمین کے مقابلے میں کسی کی بات یا کسی کا حکم تسلیم کرنا اور اس كو برحق جاننا دراصل اس ہستی کی عبادت ہے۔ معبود صرف وہی نہیں ہوتا جس کو آپ حاجت روا یا مشکل کشا مانیں؛ بلکہ جس ہستی کی آپ مطلق اطاعت کا دم بھرتے ہوں یوں کہ خدا کے ہاں سے اتری ہوئی کسی بالاتر سند سے مطلق آزاد وہ آپ کا مطاع وپیشوا ہو اور آپ اس کے حکم وقانون کو تسلیم کرتے ہوں تو دراصل وہ آپ کا رب اور معبود ہے چاہے آپ اس کے لیے ‘رب’ یا ‘خدا’ یا ‘معبود’ ایسے الفاظ استعمال نہ بھی کرتے ہوں اور چاہے اپنے اس فعل کو آپ ‘عبادت’ نہ کہتے ہوں۔
‘عبادت’ کے بارے میں یہ غلط فہمی جو آج مسلمانوں کی کثیر تعداد کو ہو چکی ہے عین یہی غلط فہمی صحابیِ رسول عدی رضی اللہ تعالی عنہ بن حاتم کو بھی لاحق ہوئی تھی جب وہ رسول اللہﷺ کے پاس اسلام قبول کرنے آئے تھے:
عَنۡ عَدِيٍّ بۡنِ حَاتِمٍ أنَّہٗ سَمِعَ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم یَقۡرَأُ ھٰذِہِ الآیۃَ (اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ) الآیۃ، فَقُلۡتُ لہٗ: إنَّا لَسۡنَا نَعۡبُدُھُمۡ قَالَ: ألَیۡسَ یُحَرِّمُوۡنَ مَا أحَلَّ اﷲُ فَتُحَرِّمُوۡنَہٗ، وَیُحِلُّوۡنَ مَا حَرَّمَ اﷲُ فَتُحِلُّوۡنَہٗ؟ فَقُلۡتُ: بَلیٰ، قَالَ: ’’فَتِلۡکَ عِبَادَتُہُمۡ‘‘ (رواہ احمد والترمذی وحَسَّنہ)
”عدی رضی اللہ تعالی عنہ بن حاتم (طائی) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ کو (سورہ توبہ کی) یہ آیت (۳۱) پڑھتے ہوئے سنا ”انہوں نے اپنے احبار اور رہبان کو اللہ کے سوا رب بنا لیا ہے” (عدی کہتے ہیں) تو میں نے کہا: ہم ان کی عبادت تو نہیں کرتے۔ آپؐ نے فرمایا: جب وہ خدا کے حلال ٹھہرائے ہوئے کو حرام ٹھہراتے تو تم اس کو حرام نہیں ٹھہراتے اور جب وہ خدا کے حرام کردہ کو حلال کر لیتے ہیں تو تم ان کوحلال نہیں ٹھہراتے؟ میں نے کہا: یہ تو ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: تو پھر یہی تو ان کی عبادت ہے”۔
چنانچہ کسی کو حلال اور حرام کا تعین کرنے کا حق دینا دراصل اس کو خدا بنانا ہے اور اس کے حکم وقانون کو تسلیم کرنا درحقیقت اس کی عبادت کرنا۔ انسان کا انسان پر خدا بن بیٹھنا دراصل یہی ہے۔ وَلا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضاً أرۡبَاباً مِّنۡ دُوۡنِ اﷲِ (آل عمران:٦٤) یہ وہ دعوت تھی جس کو ازروئے قرآن رسول اللہﷺ اہل کتاب کو دینے پر مامور تھے یعنی ”ہم ایک دوسرے کو اپنا خدا نہ بنا لیں” جبکہ ظاہر ہے اہل کتاب اس انداز سے اپنے بڑوں کی عبادت نہ کرتے تھے جو بادیٔ النظر عدی رضی اللہ تعالی عنہ بن حاتم طائی نے سمجھا (یعنی پوجاپاٹ)۔ انسانوں کے ایک دوسرے پر خدا بن بیٹھنے سے یہاں مراد یہ ہے کہ کوئی انسان دوسرے پر اپنا حکم چلائے اور یہ کہ سب کے سب اطاعت وبندگی کی صورت میں ایک خدائے رب العالمین کی عبادت نہ کریں۔
آپ نے ماشاء اللہ اچھا لسلہ شروع کر رکھا ہے ۔ اللہ جزائے خیر دے
Comment by افتخار اجمل بھوپال — July 17, 2013 @ 4:39 am