مندرجہ ذیل تبصرہ ، ۔ کنڈل، پیپروائٹ، آئ پیڈ، نک، وغیرہ کے بارے میں یہ راے ہماری ای بک ریڈرز کے ساتھ کئی سالوں کی رفاقت و رقابت کے تجربوں کا نچوڑ ہے اور قاری کا نشان میل بالکل مختلف ہوسکتا ہے۔
برقی کتاب یا ای بک سے ہماری دیرینہ عداوت کوئ ڈھکی چھپی پات نہیں۔ جس کتاب کو لائبریری سے اٹھنی میں مستعار لے کراور درسی کتابوں میں چھپا کر نا پڑھا جاسکے، جس کے صفحات نا مروڑے جا سکیں اور پسند نا آنے پر دوست کے سر پر نا مارا جاسکے، وہ موئ کتاب ہی کیا۔ اب تو سائنسدانوں کا بھی یہ کہنا ہے کہ دماغ کو کتاب کے لمس و زماں سے بڑی انسیت ہے۔ گئے دنوں کی بات ہے کہ پی آئ بی کالونی میں “آپ کی لائبریری” سے کتابیں لایا کرتے تھے، پھر فایف سی فور نارتھ کراچی میں ایک خوب لائبریری ملی، پڑھائ کے لئے لیاقت نیشنل لائبریری کی بھی کیا ہی بات تھی، پھر ہمارے اور عبدالقدیر خانصاحب کے المامیٹر ڈی جے کالج کی لائبریریاں بھی اپنی مثال آپ تھیں۔ جامعہ کراچی میں تو ڈپارٹمنٹ کی سیمینار لائبریری (راشد بھائ کا اصطلاح یاد دلانے کا شکریہ) اور محمودالحسن لائبریری موجود تھیں اور پھر بعد میں ہم نے لائبریری آف کانگریس اور برٹش نیشنل لائبریری کی رکنیت بھی حاصل کی۔ غرضیکہ کتابیں پڑھیں یا نا پڑھیں، کتابوں کے درمیان رہنے کا سامان ہمیشہ میسر رہا جیسا کہ جون ایلیا نے کہا
میرے کمرے کو سجھانے کی تمنا ہے تمھیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
مگر یہ تو جناب جملہ معترضہ تھا، ٓآتے ہیں اصل بات کی طرف
۔پھر یہ ہوا کہ ائ بکس کا چلن شروع ہوا کہ مالیکیولز کی نسبت الیکٹرونس کو حرکت دینا کفایت شعاری ہے۔ ہم نے بھی بقیہ تمام کرمکین حاسب کی طرح پہلے پہل پی ڈی ایف کمپیوٹر پر پڑھیں۔ ہمارا پہلا باقاعدہ ای بک ریڈر آی پیڈ فرسٹ جینیریشن تھا۔ یہ تجربہ مگر کچھ زیادہ کامیاب نا رہا کیونکہ آئ پیڈ میں دیگر ایسے خلفشار ذہن موجود ہوتے ہیں کہ مطالعہ کا سکون میسر نہیں ہوتا۔ پھر ہم نے تقریبا دو سال قبل کنڈل فرسٹ جینیریشن خرید کر اس پر کتابیں پڑھنا شروع کیں۔ کنڈل پر کتاب پڑھنا شروع میں تو مشکل لگا لیکن جب ہم نے اسکا استعمال گھر سے باہر خصوصا ساحل سمندر پر کیا تو کتابیں اٹھا اٹھا کر نا پھرنے کی سہولت کچھ اچھی لگی
لیکن پھر بھی درخت خشکیده کی کتابیں ہمیشہ ترجیح رہیں کہ چھٹتی نہیں منہ سے یہ کافر۔ کنڈل میں پی ڈی ایف پڑھنا خصوصا ایک جنجال ہوتا ہے۔ فانٹ ایڈجسٹ کرنے میں اور صفحات کو صحیح طور پر دیکھنا خصوصا اگر کتاب تکنیکی ہو اور تصاویر یا کوڈ پڑھنا ہو تو آئ پیڈ یا کمپیوٹر کی بڑی اسکرین ہی بہتر حل نظر آیا۔
ان تمام تجربات کے دوران ہم نے صوتی کتب کا استعمال نا چھوڑا۔ اکژ ایسا ہوتا کہ گھر پر ایک کتاب شروع کی، دفتر جاتے ہوے راستے میں اسی کا صوتی ورژن گاڑی میں سنا، لنچ بریک میں اسی کتب کو کنڈل پر پڑھا، طویل بے مقصد میٹنگز کی بوریت مٹانے کے لئے اسی کو لیپ ٹاپ یا آئ پیڈ میں پڑھتے رہے اور دفتر سے واپسی پر صوتی کتاب اور پھر اصل کتاب رات کو۔ فکشن کتب کے ساتھ یہ خوب چلتا ہے جیسا کہ اوپر والی تصویر میں ڈین براون کی انفرنو کو مختلف اشکال کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔
اس کے بعد ہم نے کنڈل فائر کو بھی کچھ عرصہ استعمال کیا لیکن یہ ٹیبلٹ محض ایک کم قیمت و کم ظرف آئ پیڈ ہے اور اپنے پیشرو کنڈل کی طرح مطالعے کے لئے کوئ خاص سہولت نہیں دیتا۔ اسکی اسکرین چونکہ سادہ کنڈل کی طرح ای انک نہیں لہذا ہم نے اسے نا تو اچھا ای ریڈر پایا اور نا ہی ڈھنگ کا ٹیبلٹ۔ بارنس انینڈ نوبل کا نک بھی کچھ دنوں استعمال کیا کہ ہمارے ایک عزیز اس کے پراڈکٹ مینیجر ہیں۔ ان کی دل آزاری مقصود نہیں لیکن نک کے لئے آسان الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا۔ یہی کچھ میں نوٹ ۲ اور دیگر فیبلیٹ متعلقین کے بارے میں بھی کہوں گا۔
نان فکشن کتب بمع السٹریشنز، ریسرچ آرٹیکلز اور درسی کتب کے لئے بھرحال ابھی تک ہمیں آئ پیڈ اور کاغذی کتاب کا کوئ اچھا متبادل نہیں ملا۔ خصوصا جب سے راقم نے “نیا آئ پیڈ” ریٹینا ڈسپلے استعمال کرنا شروع کیا۔ مثلا اگر آپ کو پائتھن فار ڈمیز پڑھنی ہے تو اسکی عکاسی و اشکال کے بہتر مطالعے کے لئے آئ پیڈ یا کاغذی کتاب ہی درست وسیلہ ہے۔ حال ہی میں ہم نے اپنا پرانا کنڈل ایک دوست کو ہدیہ کیا اور نیا کنڈل پیپر وائٹ استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ ابھی تک اس پر دو تین کتابیں ہی پڑھی ہیں اور پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ “انٹرپریٹیشن آف اے مرڈر” کی کاغذی کاپی کے بجاے اس کی کنڈل شکل کو ترجیہ دی ہو۔ اس کی تین اہم وجوہات تھیں۔ ایک تو اس کی اسکرین آئ پیڈ کی طرح کچھ دیر بعد آنکھوں کو نہیں چبھتی ، دوسرا یہ کہ اس کی بیک لٹ کی وجہ سے اسے رات کے وقت سونے سے پہلے اندھیرے میں بھی دوسروں کو تنگ کئے بغیر (عقلمند کے لئے اشارہ کافی) اچھی طرح پڑھا جاسکتا ہے، اور تیسرا یہ کہ فانٹ سائز تبدیل کرنا اسکے ٹچ اسکرین ہونے کی وجہ سے نہایت آسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مارک رسانوچ کی ٹروجن ہارس کا مطالعہ بھی راقم اسی طرح کر رہا ہے۔
اس نئے کنڈل کا گرویدہ بننے کی ایک اور وجہ وسپر سنک کا استعمال ہے۔ راقم آجکل محترمہ مریم جمیلہ پر لکھی گئی کتاب “اے کنورٹ” کا دوبارہ مطالعہ یا رفریشر چل رہا ہے۔ اب میں جہاں پر کنڈل میں اسے چھوڑتا ہوں، آڈیبل کی صوتی کتاب اسے وہیں سے دوبارہ شروع کردیتی ہے اور پھر جہاں سے سننا ختم ہوتا ہے، کنڈل اسے دوبارہ اسی صفحے پر “سنک” کردیتا ہے۔
صوتی کتب اور ائ بکس میں بحرحال مومینٹو کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل نیٹوز کا تو نہیں پتا لیکن ہم پرانے لوگ تو کتاب کے لمس سے، صفحات پر سالن کے دھبوں سے اور دیگر زمانی و مکانی نشانیوں سے چیزوں کو یاد رکھتے ہیں۔ مومینٹو کی کمی ہمیشہ اس بات کا شدید احساس دلاتی ہے کہ آپ زمان و مکاں کی حدود سے دور کہیں الیکٹرونز کی سرزمین پر بے وزنی کی کیفیت میں ہیں جہاں کتابوں کی ابتدا و انتہا و درمیان سب ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔ مثلا کتاب “پطرس کے مضامین” کے میرےمطالعے میں آنے والے پہلے نسخے میں جسے راقم نے بلامبالغہ ہزار مرتبہ پڑھا ہوگا، میبل اور میں کے دو صفحات غائب تھے، جب میں نے پہلے دفعہ انہیں کہیں اور سے پڑھا تو کچھ عرصے تک یقین نا آیا کہ یہ اسی مضمون کا حصہ ہیں، وہ تشنگی مضمون کا حصہ بن کر رہ گئی تھی, اب سوکھے ہوے پھول ای بکس میں تو نہیں مل سکتے نا قبلہ، بہرحال۔
قصہ مختصر، راقم کا کلیہ مطالعہ کچھ یوں ہے۔
فکشن کتب : صوتی کتاب، کنڈل
نان فکشن اور درسی کتب مع تصاویر: آئ پیڈ، لیپ ٹاپ یا کاغذی کتاب
نان فکشن کتاب بغیر تصاویر و کوڈ : کنڈل
ابھی تک کنڈل پیپر وائٹ کو بہرحال بہترین ریڈر پایا ہے۔ قارئین کا تجربہ جاننے کا متمنی رہوں گا۔
ما ز آغاز و زنجام جہاں بے خبریم
اوّل و آخرِ ایں کہنہ کتاب افتادہ است