فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

October 21, 2013

پہلی صف اور دوسری کہانیاں از عمر بنگش

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 12:10 pm

برادرم عمر بنگش کی تحریر کے بارےمیں جاننے کے لئے راقم و دیگر تبصرہ نگاروں کے کلیشے تبصرہ جات پڑھنے سے اچھا ہے کہ آپ صاحب کتاب کا ایک افسانہ خود ہی پڑھ لیں۔ اگر آپ کو شوکی کا کردار “آرگینک” نا لگے، گاوں کی منظر کشی سے مٹی کی سوندھی خشبو نا آے، موتیے کے میلے گجروں کی بساند ہر سانس میں محسوس نا ہو، پہلی صف میں چھوڑا اکبر خان کا خلا پر کرنے کی ہمت پیدا ہو جاے یا چوکیدار کاکے کو پڑھ کر آنکھیں سوکھی رہیں تو بے شک اس برقی کتاب کو چھوڑ کر بابا صاحبا اٹھا لیں کہ معاشرے کے آئنے کا یہ تقلیدی، پر حقیقت پسند زنگار آپکو بڑا بھدا لگے گا۔

umar-bangash-afsanay

عمر احمد بنگش کا قلم اصناف کے اعتبار سے رجعت پسند ہے۔ اس نے تئیس میل کا طے تو کیا مگر ادبی مشاہیر کے کندھوں پر، معاصرین میں بنگش صاحب کا اسلوب جداگانہ تو ٹھرا مگر تحریر میں ندرت خیال خال خال دکھائ دیتی ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اردو افسانہ کب طوائفوں کے کوٹھوں اور کالی شلواروں اور وڈیرے کی چارپائیوں سے باہر نکلے گا اور کب ہمیں الکیمسٹ کا سانتیاگو، فٹزجیرالڈ کا گاٹسبی، ناباکو کی لولیٹا، یا ہارپر لی کا دیسی فنچ ملے گا؟ بنگش صاحب کا قلم رواں ہے، دیکھیں کب وہ روایات کے حصاروں کو توڑتا ہے اور قارئین کو صریر خامہ سے نواے سروش ہیش ٹیگ #تغیر کے ساتھ سنائ دیتی ہے۔

 

Share

5 Comments »

  1. نوازش آپکی صاحب۔
    آپ کی بات بالکل بجا ہے، اردو افسانہ کو جدت کی جانب نکلنے کی اشد ضرورت ہے، روایت سے ہٹ کر کچھ تخلیق ہونے کا ساماں ہونا چاہیے۔ دیکھیں، کیا رنگ نکلتا ہے۔ 🙂

    Comment by عمر احمد بنگش — October 21, 2013 @ 10:12 pm

  2. عمر بنگش صاحب کی تحاریر میں پڑھتا آرہا ہوں اتنی عمر میں قلم پر ایسی گرفت قابل تحسین ہے۔ آپکا یہ خیال کہ انکا قلم کچھ رجعت پسند سا ہے ، بجا ہے۔ شاید اسکی وجہ عمر کی پختگی اور زندگی کے وہ تجربات جو ایک ادیب کے قلم میں ندرتیں اور جدتیں پیدا کرتے ہیں ، نا ہونا ہو۔
    شوکی جیسے کرداروں پر طبع آزمائی کے لیے بڑا جگر چائیے۔بڑی بڑی تہمتوں کو دعوت دینا پڑتی ہے، ۔ سرخ بتی والی جگہوں کو بہت قریب سے دیکھنا پڑتا ہے۔ جو شاید عمر بنگش صاحب کے لیے آسان نا ہو۔۔ انکا افسانہ کنواں کود لوں ایک نہایت عمدہ کوشش تھی۔
    امید ہے کہ وہ افسانہ کے پرانے اور روایتی ماحول کو چھوڑکر کچھ نیا کرنے کی کوشش کریں گے۔

    Comment by جواد احمد خان — October 22, 2013 @ 1:25 am

  3. مستقبل میں اچھی امید ہے ، ابھی بچے کی عمر ہی کیا ہے جی

    Comment by محمد ریاض شاہد — October 22, 2013 @ 9:07 am

  4. بہت شکریہ جناب
    تنقید نگار کا کیا کام ہوتا ہے جناب، بس بے پرکی اڑانا، اچھی خاصی تخلیقات میں خامیاں نکالنا۔ خود تو کچھ بنا نہیں سکتے ہم، دوسروں کے کام میں ہی غلطیان نکال کر خوش ہوتے ہیں کہ بڑا تیر مار لیا۔ ان موئے نقادوں سے اللہ سمجھے!
    عمر بنگش کا کنواں کود لوں اگر پوٹینشیل کی کوئ شہادت ہے تو یہ صاحب بہت دور جائیں گے، بس ہماری خواہش ہے کہ اہل چمن تازہ بستیاں آباد کریں

    Comment by عدنان مسعود — October 22, 2013 @ 10:22 am

  5. یہ تو کھلی زیادتی ہوئی جناب
    ہمارے تبصرے کیوں نہ پڑھیں
    بھائیو ان کی باتون پر نہ جانا میں تو کہتا ہوں افسانے پڑھیں نہ پڑھیں ہمارے تبصرے لازم پڑھ لینا
    پلیز

    Comment by علی — October 25, 2013 @ 4:06 am

RSS feed for comments on this post. TrackBack URL

Leave a comment

Powered by WordPress