ڈاکٹر ہو کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر انکی ٹائم مشین استعمال کرتے ہوئے ہم نے مرزا نوشہ کو یوم تشکر یعنی تھینکس گیونگ پر ایک عدد ٹرکی بھجوائ۔ اس کا جواب موصول ہوا۔ پڑھیے اور مرزا کی ذائقہ شناسی پر سر دھنئے۔
بنام
میان عدنان مسعود
جود و کرم کے دسترخوان کا یہ ریزہ خوار عرض کرتا ہے کہ یہ امریکی مرغابی نما جانور کا خوان مع لوازمات، بزبان فرنگ ٹرکی. وصول پایا اور کام جان کو محبوبوں کے تبسم شور انگیز کی لہر میں لوٹ پوٹ کر دیا۔ دماغ کو بھی طاقت دی اور ہاتھ پاوں کو بھی توانائ بخشی۔ اس کا گودہ اپنے خمیر کی لطافت میں قواے نفسانی کے اضافے کا سرمایہ، نہیں نہیں میں نے غلط کہا، زندگی کے چراغ کے تیل کا مادہ ہے۔ فم معدہ اس کے شوربے المعروف زبان فرنگ گریوی، کی روانی کا ثنا خوان ہے۔ اور آنتیں اسکے کفچوں کے لذت کے شمار کی تسبیح پڑھ رہی ہیں۔ مکئی کی روٹی نے جب اسکے شوربے کے معیار کو پہچانا تو پہلے حملے میں ہی خوف سے سپر ڈال دی اور جب زبان اس کی روانی کی لذت کی شکرگذاری میں مشغول ہوئ تو شوربے کے آپ حیات کی موج اسکے سر پر سے گذری، اسکی ہڈیوں کے نظر فریب جلوے پر ہما دیوانہ ہو گیا ہے اور اسکے بہتے ہوئے شکرخند و سیب زمینی کے حسن پر عقل فریقتہ ہو گئی ہے۔ اور اسکے مصالحے کے مزے کی تیزی محبوبوں کی اداے عتاب کی طرح گلوسوز تو نا تھی پر کچھ ایسی انجان بھی نہیں، اور اسکی ہڈیوں کے چٹخنے کی آواز چنگ و رباب کے نغمے کی طرح سامع نواز تھی ۔ میں تو بات کو طول دینا اور اس نعمت کے بعد صاحب نعمت کا شکر ادا کرنا چاہتنا تھا کہ اچانک میرے جبڑے نے مجھے ناز کے ساتھ آنکھ کا اشارہ کیا اور اپنے سر کی قسم دے کر گویا ہوا کہ اپنے ہاتھ سے قلم فورا رکھ اور سیب کے مربے و احمر قره قاط کی لطافت کا مزا چکھ۔
چونکہ مجھے اسکی خاطرداری منظور تھی اور اسکی قسمت پرمایہ تھی لہذا تعمیل کے علاوہ اور کوئ چارہ نا تھا
دعاوں کا طالب
غالب
دلی، نومبر ۱۸۴۵
ایضا، یہ مضمون مرزا نوشہ کے نومبر ۱۸۴۸ کے ایک خط میں یوم تشکر کی رعائت کر کے تصنیف کیا گیا ہے،،
ذہن میں بشاشت اور قلب مین سرور نے کروٹیں لیں عبارت پر نطر ڈالتے گویا کہ ایک صدی پیچھے کے لکھنؤ میں جا پہچے ۔ اس زمانے مین کہاں ایسی شُستہ گفتگو اور کہاں لطافتین ۔ انسان خود مشین ہو گیا مشینوں کی ترویج کرتے ۔
خوش رہیئے
Comment by افتخار اجمل بھوپال — November 28, 2013 @ 8:37 pm
انسان خود مشین ہو گیا مشینوں کی ترویج کرتے کرتے، بہت خوب کہا
شستہ گفتگو اور آداب کلام کے بارے میں آپ کا مشاہدہ بلکل درست ہے،صحیح اردو زبان کی طرح دونوں معدوم ہوتے جارہے ہیں، اب تو انگریزی کے اس ملغوبے کو بنام اردو سننا پڑتا ہے۔
تبصرے کا شکریہ۔
Comment by ابو عزام — December 1, 2013 @ 8:29 am
ٹرکی کی بجائے کے ایف سی کا زنگر، ٹوسٹر یا کوئی میل ڈیل بھیجتے تو غالباً جواب پڑھنے کا مزہ زیادہ ہوتا۔
Comment by جواد احمد خان — November 29, 2013 @ 1:09 am
قبلہ مضمون بنسبت ہوم تشکر تھا لیکن خیال برا نہیں۔ تبصرے کا شکریہ۔
Comment by ابو عزام — December 1, 2013 @ 8:29 am
واہ جی واہ
کافی عرصہ ہوگیا ان کا کلام پڑھے اگلی بار کوئی تازہ غزل کی فرمائش بھی تحفے کے ساتھ کر دیجے گا
Comment by علی — December 3, 2013 @ 3:06 am
بالکل جناب، ضرور کرتے ہیں۔
Comment by ابو عزام — December 18, 2013 @ 4:56 pm