فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

February 10, 2014

برادرم جعفر کی کتاب حال دل کا تعارف

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 9:28 pm

ادب معاشرے کی امنگوں و احساسات کا عکاس ہوتا ہے، ڈائجسٹی ادب کو ادب عالیہ کے سنگھاسن پر براجماں پروہتوں نے کبھئ درخور اعتنا نا جانا لیکن اس میں کوئ کلام نہیں کہ اسی عام فہم ادب اپنے لاکھوں قارئین کو اردو زبان، بین القوامی ترجموں، افسانوں، جرم سزا اور زندگی سے قریب تر کہانیوں سے روشناس کرایا۔ ابن صفی کو یہ غم کھا گیا کہ انکے تخلیق کردہ اعلی پاے کے سری ادب کو معاصرین نے آرتھر کینن ڈائل اور آگاتھا کرسٹی کا ہم پلہ تو کیا جاننا تھا،ابن خصی کی تصانیف کا مقرب بھی نا گردانا، یہ سرقہ جات پر انکے اپنے الفاظ ہیں، میری اتنی جرات کہاں۔ جس طرح ‘جو دل پر گذرتی ہے رقم کرتے رہیں گے’ کا جذبہ منٹو و عصمت کا حرف و اہنگ ٹھرا تھا، استاد جعفر کی “حال دل” بلاگیات میں بھی وہی نداعام نظر آتی ہے۔ اگر آپ بلاگ کی صنف میں طنز و مزاح کا صحیح استعمال دیکھنا  چاہتے ہوں تو جعفر حسین کی تصنیفات سے استفاذہ کئے بغیر کوئ چارہ نہیں۔ جعفر کے استعارے میں جو تنوع ، حقیقت پسندی اور عام محاورے کی کاٹ ہے، اسکی مثال اردو بلاگستان میں خصوصا اور عصری ادب میں عموما شازونادر ہی دکھائ دیتی ہے۔ جعفر کا زخیرہ الفاظ اردو زبان کی طرح لامحدود ہے،اس میں آپکو پنجابی اسٹیج ڈرامے سے لے کر رومی و جامی و شیکسیئر تک سب ہی  دکھائ دینگے۔ خالده- کوئی نئیں تیرے نال دا کا ‘مقطع’ ایگزیبٹ اے کے طور پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

غلط العوام خیال یہی ہے کہ اگر مصنف یا اسکی زبان عام فہم ہو تو وہ تحریر یقینا ‘عامیانہ’ ہوگی؛مجھے یہ کہنے میں کوئ عار نہیں کہ یہ مثال جعفر کی تحریروں پر بلکل صادق آتی ہے کہ وہ عام انداز سے لکھتا ہے، گنجلک فقروں سے یا بے محابہ ترکیبوں سے اپنی تحاریر کو آلودہ نہیں کرتا لیکن اس کے باوجود اس کے مزاح کی کاٹ، الفاظ کی گرفت اور ندرت خیال میں اس عام فہم انداز بیاں سے چنداں کوئ فرق نہیں پڑتا۔ جعفر جس طرح لکھتا ہے وہ ہم سب کے لئے باعث رشک و حسد ہے کیونکہ ہم سب اسی طرح لکھنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں یہ خوف کھائے جاتا ہے کہ کہیں کوئ اسے سوقیانہ ادب نہ کہ دے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم الفاظ کے کھوکھلے قصر تعمیر کرتے ہیں اور اپنی سوچوں کو ان محلات کے زندانوں میں زندہ دفن کر دیتے ہیں۔ جعفر اپنے تخیل پر پہرے نہیں بٹھاتا، بلا جھجک جو سوچتا ہے وہ لکھتا ہے اور بہت خوب لکھتا ہے، اس کی سنسر شپ صرف سیلف سینسر شپ ہے یا شائد وہ بھی نہیں۔ چاہے وہ پسران بوم ہو یا ‘پریشاں ہیں پنڈ کی جھلیاں’ جیسے خاکے، انتقام ہو یا زہریہ ٹاون جیسی سنجیدہ تحاریر، یا پھر گنجے دت کی طرح ماضی کے دریچوں کی سیر کرائ جارہی ہو، استاد جعفر ‘بزبان خود شیعہ نہیں’ حسین، کا جداگانہ انداز تحریر قاری کو ہمیشہ ہل من مزید کی صدا بلند کرنے پر مجبور کئے رکھتا ہے۔

بس اس بات پرتعارف تمام کرتا ہوں کہ اگر پطرس بلاگ لکھتے تو جعفر جیسا لکھتے۔

کتاب پڑھنے کے لئے اس ربط پر کلک کریں ۔

Share

February 4, 2014

بے حسی کا خراج

Filed under: پاکستان,سیاست,مشاہدات — ابو عزام @ 11:23 am

 کل دن دہاڑے میرے چھوٹے بھائی کو یونیورسٹی روڈ پر صفورا چورنگی کے پاس ایک اے ٹی ایم سے پیسے نکالتے ہوئے اسلحے کے زور پر لوٹ لیا گیا۔

دو عدد موٹرسائکل سوار ڈاکووں نے جنہیں بظاہر کسی بات کی جلدی  نا تھی، نہایت آرام سے اس سے تمام پیسے  چھینے، مزید جتنی نقدی مشین سے نکلوا سکتے تھے وہ بھی نکلوائی اور پھر اس کے دفتر کا دیا ہوا موبائل فون، اور ایک آئ فون جو میں نے اسکی ۲۵ ویں سالگرہ کے موقع پر اسے دو ماہ پہلے ہی تحفتا دیا تھا، چھین کر لے گئے۔ اللہ کا بڑا شکر ہے کہ میرا بھائی اس واقعہ میں محفوظ رہا۔ الحمدللہ رب العلمین

ـ اللهم رب الضالة هادي الضالة، تهدي من الضلالة رد علي ضالتي بقدرتك وسلطانك فإنها من عطائك وفضلك.

 یہ انسان کی فطرت ہے کہ اسے اپنا نقصان اور اپنا غم سب سے شدید لگتا ہے۔ روشنیوں کے شہر میں روزانہ خون کی ندیاں بہتی رہیں، چوریوں، ڈکیتیوں اور لوٹ مار کا بازار گرم ہو، لیکن جب تک کوئی مصیبت اپنے سر نا پڑے، راوئ عیش ہی عیش لکھتا ہے۔ ہم دونوں بھائیوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ سندھی اور بلوچ اکثریتی علاقے میں گذارا اور انہیں نہائت مخلص اور بے لوث پڑوسی پایا ۔ میں نہیں جانتا کہ ان دو بلوچ راہزنوں کا کیا المیہ تھا جس نے انہیں اس واردات پر مجبور کیا لیکن یہ سطریں لکھتے ہوے مجھے اس بات کا ضرور احساس ہے کہ اگر میرے بھائی کامران کے بجاے اللہ وچائو گوٹھ سے میرے دوست ابراہیم بلوچ، عبدالغنی اورعبدالمجید خاصخیلی بھی ہوتے تو انکے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا کہ غالبا راہزن کوئ مذہب، کوئ شناخت،  کوئ قومیت نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے جو لوگ کئی بار موبائیل چھین چکے ہیں وہ تو اپنے ہم زبان ہی تھے۔

اور ظاہر ہے کہ پھر اس دور نارسائ میں خود کو الزام دینا بھی بہت ضروری ہے

بے وقوف اے ٹی ایم پر کیا کر رہا تھا، کارڈ سے شاپنگ کرنی چاہئے
بے وقوف، آئ فون لے کر کون گھومتا ہے اس شہر میں، گھر پر رکھ کر آنا تھا
پاگل آدمی کو چاہئے تھا کہ پیسے نکلوانے کسی کو ساتھ لے جاتا، چلو جان کا صدقہ گیا۔

لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ درحقیقیت  ہمارئ  اجتماعی بے حسی کا خراج ہے ، جو ہم سے ایک محروم و مجروح طبقہ لے رہا ہے۔ اس سے مراد چوری و ڈکیتی کی توجیح پیش کرنا قطعی نہیں لیکن اس حقیقت سے فرار بھی ممکن نہیں کہ جس شہر میں روزگار کے مواقع کم سے کم ہوتے جائیں، جہاں امن و امان یرغمال اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی حفاظت کے لئے بے بس ہوں، وہاں جنگل کا قانون ہی چلتا ہے۔اس کی ذمہ داری جس قدر صاحبان اقتدار کی ہے، اسی قدر عوام کی بھی ہے کہ إن الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم

 میرا بھائی ایک دینداراورمحب وطن شخص ہے۔ اس کو اپنی مٹی سے بڑئ محبت ہے لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ امن و آمان کی مخدوش صورتحال اور راہزنی کی پے درپے وارداتوں نے اسکی اس محبت کو شائد گہنانا شروع کردیا  ہے۔ لیکن اب بھی وہ کم از کم مجھ سے تو زیادہ  محب وطن ہے کیونکہ میں نے  ۱۹۹۸ میں اپنے گھر میں ہونے والی مسلح ڈکیتی کے بعد ۱۸ سال کی عمر میں یہ تہیہ کرلیا تھا کہ اس ملک میں جہاں میرے باپ کو کلاشنکوف کے بٹ  مار کر اس کی محنت کی جمع پونجی چھین لی جاے، میں تو ہرگز نہیں رہ سکتا۔ وہ ملک جہاں کا تھانیدار آپ کو ڈرا کر کہے کہ “اگر ایف آئ آر  درج کرائ تو شناخت کرنے آنا ہوگا اور پھر کیا پتا کون کس کو شناخت کر لے، بس روزنامچہ بہت ہے”۔ بادئ نظر میں شائد یہ بات کافی بچکانہ سی معلوم ہوتی ہو لیکن وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ کی انسانی زندگی میں بڑئ وقعت ہے۔

یہ سب  باتیں شائد صحیح ہوں لیکن پھر مجھے اپنے عزیز دوست اور کلاس فیلو عبدالرحمن المعروف مانی کا وہ پیٹریاٹک فقرہ  یاد آتا ہے جو شائد اسے اسکی عسکری وراثت  میں ملا ہے

ابے یار، اگر تو تبدیلی نہیں لائے گا تو اور کون کچھ کرے گا؟ تم سالے سب یہاں سے ملک چھوڑ کر بھاگ گئے ہو۔۔۔۔

——

أذكـــــار وأدعية عند ضياع أو فقدان شيء

ـ اللهم رب الضالة هادي الضالة، تهدي من الضلالة رد علي ضالتي بقدرتك وسلطانك فإنها من عطائك وفضلك.

ـ يا جامع الناس ليوم لا ريب فيه رد علي ضالتي.

– أو يتوضأ ويصلي ركعتين، ثم يتشهد، ثم يقول: اللهم راد الضالة، هادي الضالة، تهدي من الضلال رد علي ضالتي بعزك وسلطانك فإنها من فضلك وعطائك.

– ,الدعاء الذي يدعو به صاحب الشيء المفقود، هو ما جاء عند ابن أبي شيبة في مصنفه والطبراني من حديث ابن عمر رضي الله عنهما ما معناه: أن من ضاع له شيء فليتوضأ وليصل ركعتين وليتشهد وليقل: “بسم الله يا هادي الضلال وراد الضالة اردد علي ضالتي بعزتك وسلطانك فإنها من عطائك وفضلك” قال الحاكم رواته موثقون مدنيون لا يعرف واحد منهم بجرج.

Share

Powered by WordPress