فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

August 18, 2015

صنف قوالی کی مجلس عزا بشکریہ کوک اسٹوڈیو

Filed under: ادبیات,شاعری,مشاہدات — ابو عزام @ 9:00 pm

تمثیل کروں تو اردو مشاعروں میں تقدیم و تاخیر کی ایک تہذیبی قدر ہے جس کا ادبی لوگ اتباع کرتے ہیں۔  اب یہ کوئی قانون نہیں کہ توڑنے پر سزا ہو مگرعرفا شرفا میں ادبی قد کی پیمائش کے لئے امر مستعمل  ہے۔  جب علی  ظفرصاحب نے استاد جمن  کی یار ڈاڈی عشق آتش  کے گلے پر کند استرا چلایا تب بھی ہم خاموش رہے کہ نرود میخ آھنین در سنگ۔ مگر اب یہ جو دیدہ دلیری کے ساتھ غلام فرید صابری کی مشہور و معروف قوالی تاجدار حرم پر عاطف اسلم کا سرقہ وارد  ہوا ہے تو ہم سے چپ نا رہا گیا، بخدا دل مغمموم ہے کہ کیا کہیے۔

ِ
 

 ارے میاں، نقل کے لئے عقل چاہیے۔  اگر آواز میں پاٹ نہیں، لے اٹھانے کا حوصلہ المعروف تپڑ نہیں، نا قوالی کا ماحول بنا سکنے کا اعجاز، نا گلو نا عقیدت نا سوز، نا سر نا تال،  تو کیوں ایسی دشوار صنف میں کی اوکھلی میں سر ڈالتے ہو؟ خصوصا ایسے کلام پر جس میں اساتذہ نے ساز توڑ دیے اور سازندوں نے انگلیاں ۔ جناب، کلاسیکی قوالی نا آپکا انڈین آئڈل ہے، اور نا ہی .جینے لگا ہوں کی ٹریبل بھری آٹو ٹیون تکرار۔ آپ کے یہاں تو قوالی کے لئے لازم و ملزوم آواز کے زیروبم سے لے کر سر اور تال اور لے کی موسیقی کی دھند ہی مفقود ہے، کبھی نمی دانم چہ منزل بود یا مینڈا عشق جیسے کلاسکس سنیں توکچھ  اندازہ ہوکہ ریو اور جذب حال میں کیا تفاوت ہے۔

 مقصود نئی موسیقی یا تجربات پر تنقید نہیں۔ خانصاحب نے بھی تجربات کئے اور کچھ بہت خوب کئے، جبکہ کچھ کمرشلائزڈ رہے۔ ابھی حال ہی میں فرید ایاز اور ابو محمد کا بھی اچھا تجربہ تھا لیکن تاجدار حرم جیسے کلاسک کی ری برانڈنگ کی مثال بعذر “ہلکی پھلکی جدید قوالی” تو وہی رہی کہ

بر دوشِ غیر دست نہاد از رہِ کرم
ما را چو دید لغزشِ پا را بہانہ ساخت

راقم کو پورا یقین ہے کہ نا تو گانے والے نے، اور نا سن کر پسند کرنے والوں میں سے کسی نے آجتک محفل سماع میں شرکت کی ہوگی، اور نا ان کو حال کی کیفیت و تکرار سے کچھ آگہی کا معاملہ ٹھرا ،بلکہ ہمارا تو غالب گمان ہے کہ ان  کوبین الصنف (کراس جینرا)  موسیقی سے بھی اتنی ہی واقفیت نا ہوگی جتنی کہ مصحفی کی بکری کو ضحافات سے تھی۔

تو بھائئ عاطف، اگر آواز برٹنی سپئرز کی ہو تو اڈیل یا ڈیانہ کرال بننے کی کوشش نہیں چاہیے۔ اگر استاد محاورة قلم توڑ دے  تو عزت اس میں ہوتی ہے کہ  دہلیز کو چوم کے چھوڑ دیا دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے، نا کہ ڈومنی گاوے تال بے تال۔  باقی جو مزاج یار میں آئے۔

Share

August 3, 2015

حیدرآبادی بریانی اور شروڈنگر کی بلی

Filed under: ادبیات,سائینس و ٹیکنالوجی,طنزومزاح — ابو عزام @ 8:29 am

طبعیات کا ایک مشہور لطیفہ ہے کہ ایک دفعہ سائنسدان ہائزنبرگ، شروڈنگر اور اوھم گاڑی میں جارہے تھے۔ ہائزنبرگ گاڑی چلا رہا تھا کہ ایک ٹریفک پولیس والے نے انکو تیز رفتاری کرنے پر روک لیا۔ پولیس افسر نے ہائزنبرگ سے پوچھا۔

پولیس افسر: جناب، آپکو علم ہے کہ آپ کس رفتار سے سفر کر رہے تھے؟
ہائزنبرگ: جی نہیں، لیکن مجھے اس بات کا ضرور علم ہے کہ میں کہاں موجود ہوں۔
پولیس افسر: آپ ۳۵ کی رفتار والے زون میں ۵۵ کی رفتار سےگاڑی چلا رہے تھے
ہائزنبرگ: بہت خوب بے وقوف آدمی، چونکہ اب تم نے مجھے میری رفتار بتا دی ہے لہذا اب مجھے نہیں پتا کہ میں کہاں موجود ہوں!
پولیس والے کو ان کی پراسرار  باتوں سے کچھ شک ہونے لگا تو اس نے ڈگی کھولنے کا حکم دیا۔ ڈگی کے معائنے پر اس نے وہاں ایک ڈبہ دیکھا جس میں ایک مری ہوئئ بلی موجود تھی۔
پولیس افسر: آپ لوگوں کو علم ہے کہ ڈگی میں ایک عدد مری ہوئئ بلی ہے؟
شروڈنگر: نہیں الو کی دم، لیکن آپکی مہربانی کہ اب ہمیں پتا چل گیا ہے!
پولیس افسر انہیں بدتمیزی کرنے پر گرفتارکر کر لے جاتا ہے۔ صرف اوھم مزاحمت کرتا ہے۔

 بہرحال،  اگر آپ کو اس لطیفے پر ہنسی نا آے تو آپ کی حس طبعیات یا حس مزاح میں سے کوئئ ایک حس مفقود ہے لیکن بہتر ہوگا کہ علمیت کا رعب ڈالنے کے لئے ہنسنا شروع کردیں، ہم نے بھئ یہی کیا تھا۔

Schrodingers-Cat

بہرطور، بات ہورہی تھی شروڈنگر کی بلی کی۔ اس ویکینڈ پر ہمارے ایک عزیز کچی یخنی کی حیدرآبادی بریانی لائے۔ اس بریانی کو بنانے کا طریقہ انہوں نے یہ بتایا کہ اس میں گوشت، مصالحہ جات اور چاول سب ایک ساتھ رکھ دئے جاتے ہیں اور دیگ یا پتیلے کو آٹے سے سیل کر دیا جاتا ہے۔ پھر اسکو پکنے دیا جاتا ہے اور دعا کی جاتی ہے کہ گوشت گل جائے اور چاول زیادہ نا گل جائیں۔ اس دوران پتیلا نہیں کھولا جاسکتا لہذا آپ کو علم نہیں ہوتا کہ بریانی بن گئی ہے یا نہیں جب تک کہ پتیلے کا ڈھکن نا ہٹایا جائے۔

جی ہاں، آپ نے درست پہچانا، اس سے مراد یہ ہے کہ ارون شروڈنگر کی بلی کا تھاٹ ایکسپیرمنٹ تو ہم حیدرآبادی لوگاں صدیوں سے کرتے آرہے ہیں۔  یہ مغرب کی سازش ہے کہ ہماری تمام ایجادات کو لے کر اپنا نام لگا کر نوبل انعامات لے جاتا ہے،  بیہودہ لوگ، شروڈنگر کا بینگن!

Share

Powered by WordPress