تمثیل کروں تو اردو مشاعروں میں تقدیم و تاخیر کی ایک تہذیبی قدر ہے جس کا ادبی لوگ اتباع کرتے ہیں۔ اب یہ کوئی قانون نہیں کہ توڑنے پر سزا ہو مگرعرفا شرفا میں ادبی قد کی پیمائش کے لئے امر مستعمل ہے۔ جب علی ظفرصاحب نے استاد جمن کی یار ڈاڈی عشق آتش کے گلے پر کند استرا چلایا تب بھی ہم خاموش رہے کہ نرود میخ آھنین در سنگ۔ مگر اب یہ جو دیدہ دلیری کے ساتھ غلام فرید صابری کی مشہور و معروف قوالی تاجدار حرم پر عاطف اسلم کا سرقہ وارد ہوا ہے تو ہم سے چپ نا رہا گیا، بخدا دل مغمموم ہے کہ کیا کہیے۔
ِ
ارے میاں، نقل کے لئے عقل چاہیے۔ اگر آواز میں پاٹ نہیں، لے اٹھانے کا حوصلہ المعروف تپڑ نہیں، نا قوالی کا ماحول بنا سکنے کا اعجاز، نا گلو نا عقیدت نا سوز، نا سر نا تال، تو کیوں ایسی دشوار صنف میں کی اوکھلی میں سر ڈالتے ہو؟ خصوصا ایسے کلام پر جس میں اساتذہ نے ساز توڑ دیے اور سازندوں نے انگلیاں ۔ جناب، کلاسیکی قوالی نا آپکا انڈین آئڈل ہے، اور نا ہی .جینے لگا ہوں کی ٹریبل بھری آٹو ٹیون تکرار۔ آپ کے یہاں تو قوالی کے لئے لازم و ملزوم آواز کے زیروبم سے لے کر سر اور تال اور لے کی موسیقی کی دھند ہی مفقود ہے، کبھی نمی دانم چہ منزل بود یا مینڈا عشق جیسے کلاسکس سنیں توکچھ اندازہ ہوکہ ریو اور جذب حال میں کیا تفاوت ہے۔
مقصود نئی موسیقی یا تجربات پر تنقید نہیں۔ خانصاحب نے بھی تجربات کئے اور کچھ بہت خوب کئے، جبکہ کچھ کمرشلائزڈ رہے۔ ابھی حال ہی میں فرید ایاز اور ابو محمد کا بھی اچھا تجربہ تھا لیکن تاجدار حرم جیسے کلاسک کی ری برانڈنگ کی مثال بعذر “ہلکی پھلکی جدید قوالی” تو وہی رہی کہ
بر دوشِ غیر دست نہاد از رہِ کرم
ما را چو دید لغزشِ پا را بہانہ ساخت
راقم کو پورا یقین ہے کہ نا تو گانے والے نے، اور نا سن کر پسند کرنے والوں میں سے کسی نے آجتک محفل سماع میں شرکت کی ہوگی، اور نا ان کو حال کی کیفیت و تکرار سے کچھ آگہی کا معاملہ ٹھرا ،بلکہ ہمارا تو غالب گمان ہے کہ ان کوبین الصنف (کراس جینرا) موسیقی سے بھی اتنی ہی واقفیت نا ہوگی جتنی کہ مصحفی کی بکری کو ضحافات سے تھی۔
تو بھائئ عاطف، اگر آواز برٹنی سپئرز کی ہو تو اڈیل یا ڈیانہ کرال بننے کی کوشش نہیں چاہیے۔ اگر استاد محاورة قلم توڑ دے تو عزت اس میں ہوتی ہے کہ دہلیز کو چوم کے چھوڑ دیا دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے، نا کہ ڈومنی گاوے تال بے تال۔ باقی جو مزاج یار میں آئے۔