فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

September 5, 2016

ایسے ناداں بھی نہ تھے جاں سے گزرنے والے

Filed under: خبریں,سیاست,مذہب — ابو عزام @ 10:58 am

یہ اسی کی دہائی کی بات ہے کہ جب روشنیوں کے شہر میں ایم کیو ایم کا طوطی بول رہا تھا، جب شہر کے بام و در قد آدم پتنگوں اور اور “قائد تحریک” کی تصاویر سے مزین تھے اور اس فرد واحد کے ون ٹو تھری کہنے پر تین ہٹی سے عزیز آباد، اور دس نمبر سے عائشہ منزل تک ہزاروں کے مجمع کو سانپ سونگھ جایا کرتا تھا۔ یہ اس وقت کا قصہ ہے جب بانیان پاکستان کی اولادوں میں تعصب کی وہ فصل بوئی جارہی تھی جس کوکاٹنے اور اسکا سدباب کرنے کی سعی لا حاصل میں اگلی کئی دہائیاں صرف ہونے والی ہیں۔ اس کڑے وقت میں عصبیت کے اس سیلاب کے آگے شہر میں مٹھی بھر دہان پان سے نوجوان، جن میں سے کچھ کی مسیں بھی نا بھیگی ہونگی، شہر نا پرساں کے در و دیوار پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث چسپاں کرتے نظر آتے تھے

لیس منا من دعا الی عصبیۃ ولیس منا من قاتل عصبیۃ ولیس منا من مات علی عصبیۃ۔ رواہ ابوداؤد
جس نے عصبیت کی طرف دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں،
جس نےعصبیت کے لیے جنگ کی وہ ہم میں سے نہیں،
جو عصبیت پر مرا وہ ہم میں سے نہیں ہے

اس پیغام کی سزا کیا تھی؟ عقوبت خانے، مہاجر خیل، اور ڈرل شدہ نعشیں۔ سعد بن صلاح اور غیور انور

لیکن وہ یہ کہتے رہے کہ شہادت حق کی یہ باتیں تو بس کتابی باتیں ہیں، رموز سیاست و مملکت تو ہم جانتے ہیں۔

آج جس فرعون صفت کو شہر میں لب کشائئ کی اجازت نہیں، کل اسی کی مدح سرائئ میں سارا شہر گم تھا، جب کچھ کفن پوش یہ کہتے پھرتے تھے کہ یہ کیا دور جاہلیت کی بات ہے کہ کلمہ گو بھائئ کی تقسیم اس بنیاد پر کی جائے کہ وہ مقامی ہے یا غیر مقامی، اسکی زبان کیا ہے، وہ یوپی سی پی کا ہے، دکنی ہے، پنجابی ہے، یا اس کی رگوں میں کسی بلوچ یا پٹھان کا خون دوڑ رہا ہے؟ جبکہ میرے آقا و مولا نے یہ بات ۱۴۰۰ سال پہلے اپنے آخری خطبے میں واضع طور پر کہہ دی تھئ کہ

یایہا الناس ا لا ان ربکم واحد وان اباکم واحد الالافضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لأسود علی احمر ولا لأحمر علی اسود الا بالتقوی۔(مسند احمد)
اے لوگو!خبردارتمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے خبر دار!کسی عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر یا کالے کو سرخ پر اور نہ سرخ کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے سوائے تقویٰ

لیکن وہ یہ کہتے رہے کہ شہادت حق کی یہ باتیں تو بس کتابی باتیں ہیں، رموز سیاست و مملکت تو ہم جانتے ہیں۔

جدید جاہلیت کے علمبرداراروں کا نعرہ ہے کہ نسل و رنگ و قبائل پر تقسیم فطری ہے لہذا اسے ختم کرنا فطرت سے جنگ ہے۔ ان کے لئے اطلاعا عرض ہے کہ اسلام دین فطرت ہے، اگر تعصب کی عینک ہٹا کر وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ کو پڑھیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہوگی کہ اسلام قومیت و گروہ کی شناخت کےفطری رجحان کوتسلیم کرتے ہوئے اس سے منسلک کسی امتیازی سلوک یا تفاوت کو رد کرتا ہے۔ دیسی لبرلوں کا حال یہ ہے کہ جب مغرب اسی تفاوت کا خاتمہ “افرمیٹیو ایکشن” یا اینٹی ڈسکریمینیشن کے قوانین کے ذریعے کرتا ہے تو آپ اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوتے ہیں لیکن جب اسلام پسند یہی کام کریں تو ان پر بنیاد پرستی کا لیبل چسپاں کرنے میں ایک منٹ کی دیر نہیں کرتے۔ آپ لوگوں کو بانٹنا چاہتے ہیں تاکہ ان کو اللہ کی بندگی سے نکال کر اپنی غلامی میں لا سکیں،جبکہ اسلام لوگوں کو جوڑنا چاہتا ہے۔ آپ لوگوں کو انکی جبلی خواہشات کا اسیر رکھنا چاہتے ہیں، جس تنوع سے خالق نے انہیں تخلیق کیا، اس کا مذاق اُڑاتے رہے ہیں، یہ باتیں کسی محراب و منبر سے تو نا سنیں ہونگی آپ نے کہ بہاری نا کپن یا پنجابی کوئئ زبان نہیں بولی ہے یا سندھی تو کاہل مفت خور ہیں اور بلوچ تو غار کے زمانے کے میلے کچیلے، سست جاہل جنگلی لوگوں سے زیادہ دور نہیں یا بنگالی، وہ تو کالے، چھوٹے قد والے ہیں، موسی چاول کھائے گا، اور پشتون، انکو تو ہم جنس اور بے وقوف ثابت کرنے کے لئے لطائف کا کثیر زخیرہ موجود ہے، جبکہ ہم اردو بولنے والے سب سے اعلی و ارفع ہیں کہ ہماری زبان و بیان کی قوتیں اس پر استدلال کرتی ہیں، فاعتبروا یا اولوالابصار۔ اس رب جس کے آگے ہم سب اپنئ پیشانیاں سرنگوں کرتے ہیں صاف الفاظ میں حکم کرچکا ہے کہ اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہو اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے یہ ان سے بہتر ہوں، اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو۔ الحجرات۔

لیکن وہ یہ کہتے رہے کہ شہادت حق کی یہ باتیں تو بس کتابی باتیں ہیں، رموز سیاست و مملکت تو ہم جانتے ہیں۔

تقسیم در تقسیم کا یہ عمل نہیں رکتا، آپ اپنی مصلحت کے تحت اس پر پی ایس پی و حقیقی و ثنا اللہ زہری کی کتنی ہی بینڈ ایڈز لگا لیں، جس شاخ نازک پر یہ آشیانہ بنایا جا رہا ہے وہ اسلامی شناخت کی اکائئ سے دوری ہے۔ جس ملک کی اساس اسلام ہے اس کوقومیتوں میں تقسیم کر کر پریشر گروپس کے ذریعے چلانا مسئلے کا حل نہیں۔ اگر یہ بات آپکو عجیب لگے تو جان لیں کہ آپ اکیلے نہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ اسلام اس حال میں شروع ہوا کہ وہ اجنبی تھاا ور عنقریب اجنبی ہوجائے گا۔ پس خوشخبری ہے اجنبی لوگوں کے لئے۔ عرض کیا گیا کہ اجنبی لوگ کون ہیں؟ فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جواسلام کی محبت میں قبیلوں سے علیحدہ ہوگئے۔( ابن ماجہ، ترمذی)

آج بھی وہ داعیان کلمة اللہ، وہ خواب دیکھنے والے ائیڈیلسٹ لوگ، وہ مواخات کا جذبہ رکھنے آپکے بہت قریب ہیں جو وحدت ملت کی بات کرتےہیں، جو اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کو نافذ کرنا چاہتے ہیں، جو تمام مسلمانوں کو ایک اکائئ جانتے ہیں ، ان کے مقابل عبداللہ بن اُبی کی مثل کے لوگ ہیں جس نے غزوہ بنی المصطلق کے موقع پر مسلمانوں کو باہم لڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ مہاجرین جب ہمارے ہاں آئے تھے تو بھوکے ننگے تھے۔ اور اس کے بعد پھر یہ حالت ہوگئی ہے کہ یہ انصار کے خلاف جری ہوگئے ہیں اور ان سے لڑنے کے لیے تیار ہیں،جدید جاہلیت اپنے آپ کو کتنا ہی نفیس و ممذوق سمجھ لے، جاہلیت کا ہر ریفرینس” جو ہم میں سے عزت والا ہے وہ ذلت والے کو نکال باہر کرے گا” سے ہی جا ملے گا۔

لیکن وہ یہ کہتے رہے کہ شہادت حق کی یہ باتیں تو بس کتابی باتیں ہیں، رموز سیاست و مملکت تو ہم جانتے ہیں۔

وما علينا إلا البلاغ المبين

Share

Powered by WordPress