مروجہ ایام ہالمارک کے کنزیومرزم، سرمایہ کاری نظام اوراستعماریت کے نقصانات پرمدلل مباحث کے باوجود، جب میرے آٹھ سالہ بیٹے علی نے فادرز ڈے کا اپنے ہاتھ سے بنا کارڈ دیا تو میرا انبساط بہرحال دیدنی تھا۔
رَبِّ اجْعَلْنِی مُقِیمَ الصَّلَوةِ وَمِن ذُرِّیَّتِی رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِ
شائد یہ شادمانی اسی لحظہ ممکن رہی کیونکہ اسوقت ریستہاے متحدہ امریکہ اور اسکی جنوبی سرحد پر موجود تارکین وطن کے قافلے میری نظروں سے اوجھل ہیں۔ میں ۲۰۰۰ سے زائد معصوم بچوں کی وہ دلخراش چیخیں نہیں سن سکتا جو روزانہ اپنے والدین سے علیہدہ کئے جارہے ہیں۔ بے جان سرحدی لکیروں کے حقوق کی پاسداری کے نام پر، ڈیٹرینس کے اس ظالمانہ حربے کے طور پر ان پھول جیسے بچوں کا استحصال ایک پالیسی موقف بنادیا گیا ہے کہ انکے والدین جوجنوبی امریکہ کی سفاکانہ گینگ وار کا شکار، غربت و افلاس کے مارے مفلوک الحال پناہ گزین ہیں، امن و سکون و بہتر مستقبل کی تلاش میں شمال کا سفر کرنے کا خیال بھی دل میں نا لائیں۔
اور نا ہی میں مونوز کی پتھرائئ ہوئئ ان آنکھوں کو دیکھ سکتا ہوں جو اپنے تین سالہ بچے کی راہ تکتے ساکت ہوگئیں۔ ایک باپ جس سے اس کا لخت جگر جدا کردیا گیا، جس نے ریو گرانڈ کی وادی میں اپنے خاندان کی عافیت کی راہ دیکھنی چاہی لیکن ۷ مئ کو اسے نا صرف گرفتار کر کے پابند سلاسل کیا گیا بلکہ والدین کو بچے سے علیہدہ کرنے کی ظالمانہ حکمت عملی کے تحت اس کے تین سالہ بچے اور اہلیہ کو اس سے الگ کر کر قید کردیا، نتیجتاً ۱۲ مئی کو صدمے سے نڈھال مونوز نے خودکشی کرلی۔
میں شام کے اجڑے گھروں کا ماتم کس منہ سے کروں کہ میری اپنی جمہوری ریاست میں، جہاں ہر لحظہ انسانی اقدار کی جے جے کار کی جاتی ہو، مخالفانہ خاکوں کی قیمت پیولٹزر انعام جیتنے والے خاکہ نگار بھی اپنی ۲۵ سالہ نوکری سے برطرفی کی صورت میں چکانے لگیں۔
جہاں کمانڈر انچیف خلائی فورس کی تشکیل کا حکم دیتے ہیں اور زمین پر انسانیت انسانوں کا منہ تکتی ہے۔