کچھ عرصے سے جارج ثانی کا خط بنام خلیفہ اندلس -مختلف گروپوں وغیرہ میں پوسٹ ہوتا رہا ہے، اور ہم بڑے فخر کے ساتھ مطیع و فرمانبردار جارج ثانی کو هشام الثالث کی داخلے کی درخواست کو شئیر کرتے ہوئے اپنے تابندہ ماضی کو یاد کرتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ اسکی بابت عرض کرتا چلوں کہ یہ جعل سازی ہے.اس میں متن اور تاریخی طور پر کافی سقوم موجود ہیں اور راقم کی ناقص تحقیق و مطالعے کے مطابق مندرجہ بالا خط خلاف حقیقت لگتا ہے۔ اس کے رد میں عربی وکیپیڈیا میں ایک مقالہ موجود ہے جس میں اس کی تاریخ اشاعت وغیرہ کا حوالہ موجود ہے جو کہ یہاں دیکھا جاسکتا ہے۔ رسالة جورج الثاني إلى خليفة الأندلس
اول تو یہ کہ انگلستان کے بادشاہ کا من خادم المطیع لکھنا ایک عجیب سی بات ہے ، لیکن سب سے بڑی تاریخی غلطی یہ ہے کہ خلیفہ ہشام سوم 1026 – 1031 کے دوران قرطبہ کا خلیفہ تھا، لیکن جارج دوم 1727-1760 کے دوران انگلینڈ، فرانس اور آئرلینڈ کا بادشاہ تھا اس لیے اس خط کے تاریخی اوقات ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔
دوم یہ کہ برطانوی بادشاہوں کا ناروے یا سویڈن کے تختوں پر دعویٰ بہت مختصر وقت کے لئے تھا، اورفرانس کو “غال” کہا جانا رومن دور میں ہوا کرتا تھا، قبل مسیح ،”شہزادی ڈوبانٹ” کا بھی کوئی برطانوی شاہی لقب نہیں ہے بلکہ برطانوی بادشاہت میں شہزادی رویال کا خطاب ہوا کرتا ہے ،
سوم یہ کہ یہا ں عربی میں بھی کچھ جدید اصطلاحات مستعمل ہیں، جیسے معاهد العلم والصناعات في بلادكم العامرة،یہ سائینس اور ٹیکنالوجی کی اصطلاح اس زمانے کی عربی میں اس طرح استعمال نہیں کی جاتی تھی۔نیز اسکی اشاعت کا کوئِی ریفرینس موجود نہیں، ملاحظہ ہو رسالة جورج الثاني إلى خليفة الأندلس
چہارم یہ کہ باقی سوچیں ذرا، کون بادشاہ ایسی بات بولتا ہے اپنے ملک کے بارے میں؟ في بلادنا التي يسودها الجهل من أربعة أركان،