تازہ خبر ہے کہ ‘صدر نے وزیرِ داخلہ کی سزا معاف کر دی‘۔
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
اس شعر کے مصداق صدارتی اختیارات کے تحت رحمن ملک صاحب آزاد ہیں کہ آج روپوشی کی سزا ‘معاف’ ہوئی ہے تو کل کلاں بدعنوانی کے ریفرینس بھی ختم کر دیے جایئں گے۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔
ہم توبس اس بات کو جاننے کی تگ و دو میں ہیں کہ کہ یہ صدارتی اختیارات براے ‘دست برداری’ امیونٹی اور معافی کی ابتدا مقننہ میں کہاں سے ہوئی۔ مملکت کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان، اور پیغمبراسلام، علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ عمل کہ عامل ریاست ہونے کے باوجود ایک یہودی آکر گریبان تھامے اور اپنا حق مانگ سکے۔ اسلامی ریاست کے خلیفہ ثانی کا یہ عمل کہ ایک عام شہری کرتے کے کپڑے کا حساب مانگ لے اورامیر المومنین علی رضی اللہ تعالی عنہ اپنی کمان ایک یہودی کہ ہاتھ شرعی عدالت میں ہار جائیں۔ اگر یہ قرون اولی کی مثالیں ہیں تو اسکی موجودہ دور میں تعمیل کا فرض کس کی ذمہ داری ہےِ؟ صرف حکمرانوں کی یا گریبان پکڑنے کی جرات رکھنے والی رعایا کا بھی کوئی فرض بنتا ہے؟
اور چلیں اگر آپکا قبلہ لندن و امریکہ ہے تو انکی مثالیں ہی اپنا لیں۔ کینتھ لے بھری عدالت میں اسوقت کے حاضر امریکی صدر بل کلنٹن کو رسوا کرتا ہے، امریکی ایوان سینٹ میں قرارداد پیش کی جاتی ہے اور برطرفی ‘امپیچمنٹ’ کا ٹرائل کیا جاتا ہے۔ وقت کا صدر نکسن اپنے مخالفین کی باتیں ریکارڈ کرنے کے الزامات کے تحت ‘واٹر گیٹ’ اسکینڈل میں ملوث ہونے پراستعفی دیتا ہے اور اینڈریو جیکسن سے لے کر صدر اوباما تک لوگ انصاف کے نام سے تھراتے ہیں۔ گونروں، سینٹروں اور کانگریس کے ممبران تو کسی گنتی میں ہی نہیں کہ انصاف کا ہتھوڑا سب پر یکساں پڑتا ہے۔ معافی یا کلیمنسی کی مثالیں انکی تاریخ میںبھی ملتی ہیں مثلا ہنری فورڈ کا نکسن کو صدر بننے کے بعد معاف کرنا لیکن میری ناقص معلومات میں زرداری جیسی ‘حاضر’ معافی کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ہاں صدر بش پر لاکھوں بے گناہوں کے خون کا مقدمہ چلنے کا انتظار ہے کہ انصاف کی جے جے کار ہو پر کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک۔
بہرحال، کہتے ہیں رچرڈ شیر دل نے اپنے قاتل کو معاف کر دیا تھا، رحمان ملک تو خیر اپنے ہی آدمی ہیں۔ پچاس ہزار میٹرک ٹن تیل کا کوٹا کیا چیز ہے، اختیارات ہوںاوراستعمال نا کئے جائیں تو انکو زنگ لگ جاتا ہے۔ ہم تو ‘انوسنٹ ٹل پروون گلٹی’ یا ‘معصوم تا ثبوت گناہ’ کے نظریہ کے حامی ہیں پر کیا کریں، تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے۔
باقی یار زندہ، صحبت باقی۔
جناب یہ افراد کا وہ گروہ ہے جو جیل اور ایوان صدر کے بیچ زندگی گزارتا ہے۔۔ جو لوگ پانچ سال پروٹوکول دیتے ہیں اگلے پانچ سال وہی رسوا کرتے ہیں۔ تو ایسے لوگوں سے اعلی اقدار کی توقع ہی کیا رکھنا۔
Comment by راشد کامران — May 20, 2010 @ 9:48 pm