نکولس کار اپنی نئی کتاب ‘انٹرنیٹ ہمارے دماغوں کے ساتھ کیا کر رہا ہے- سطحی پن‘ میں اطلاعاتی دور کے انسانی ذہنوں پر ہونے والے اثرات پرگفتگو کرتے ہیں۔ انہوں نے اسی زمن میں اپنے ایک مقالے، ‘کیا گوگل ہمیں کم عقل بنا رہا ہے’ کے عنوان سے انٹرنیٹ کے انسانی زہن کی غوروفکر اور سمجھ بوجھ ‘کاگنیٹیو صلاحیتوں’ پر ہونے والے مضر اثرات کا مطالعہ کیا ہے۔ نکولس کار انٹرنیٹ اور ورلڈ وائڈ ویب کو ارتکازی کمی کا موجب قرار دیتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ ‘ہم نے تنہائی میں ، مکمل یکسوی و توجہ کی علمی روایت کو جھٹلا دیا ہےجو کہ مطالعہ کتب سے حاصل ہوتی ہے’۔ وہ ارتکاز کی اس کمی کو ایک بڑی معذوری قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘نیٹ ہماری ارتکاز، معلومات کو یکسوئی سے ذہن میں جمع کرنے اور غورو فکر کرنے کے لئے اپنی صلاحیتوں کو گھن کی طرح کھا رہا ہے’۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘انفارمیشن ٹیکنالوجی اور تخلیق کے اس دور میں ایک بہت بڑی کمی موجود ہے کہ ہم اتلے، سطحی یا کم گہرے بن رہے ہیں’۔
نکولس اس سوچ میں تنہا نہیں۔ ترقیاتی ماہر نفسیات میری این ولف شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ بچوں کے ، جو انٹرنیٹ کی بھاری صارفین ہوں،’ وہ صرف ‘ڈیکوڈر’ ہیںجن میں اس بات کی کوئی جستجو نہیں پائی جاتی کہ وہ محض ان معلومات سے جو انکی گوگل کائنات میں موجود ہوں،آگے سوچیں’ ڈاکٹر ولف کہتی ہیں کہ ‘فوری طور پر بہت سی معلومات کی دستیابی کا مقابلہ صحیح علم سے نہیں کیا جانا چاہئے’۔
اس نظریے کے نقاد کہتے ہیں کہ انسان کبھی تبدیلی کو پسند نہیں کرتا اور حیلے بہانوں سے اس پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد پرپندرہویں صدی عیسوی میں وینس کا ایک مدیر ہایرونیمو کہتا تھا کہ کتابوں کی بہتات انسان کو کم علم بنا دیتی ہے۔ کیا یہ جنگ کثرت یا بہتات کے نئے رجہان خلاف ایک فطری عمل ہے یا اس کا کوئی حقیقی نقصان بھی ہے؟ ایک اکیڈمک ہونے کی حیثیت سے میرا فرض بنتا ہے کہ میں بتاتا چلوں کہ نکولس کار اور ولف وغیرہ کے نظریات ساینسی طور پر ثابت شدہ نہیں اور محض خیالات کا درجہ رکھتے ہیں لیکن راقم الحروف کے اپنے مشاہدات بھی کچھ اس سے مختلف نہیں جن کو برسبیل تذکرہ لکھتا جاتا ہوں۔ ہم انسانی ترقی کو عموما تین بنیادی انقلابی ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
١ ۔ ساینسی طریقے کا انقلاب جب انسان نے ‘ساینٹفک میتھڈ’ سے چیزوں کو پرکھنا سیکھا
٢ ۔ صنعتی و میکانیکی انقلاب جب کہ انسان کے طرز حیات میں پہیے اور مشینوں سے بنیادی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں۔
٣ ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی یا علم اطلاعات کا انقلاب جب دینا کو انٹرنیٹ کے ذریعہ ایک عالمی گاوں بنانے کی سعی کی گئی اور دنیا بھر کی متنوع اقسام کی معلومات آسان دسترس میں آ گئیں۔
لیکن کیا معلومات کا یہ سمندر واقعی کسی با معنی علمی اہمیت کا حامل ہے؟ یہ سوال سنجیدہ ساینسی تحقیق کا متقاضی ہے۔ لیکن، کیا ایسا نہیں لگتا کہ آج کے ارتکازی قوت سے محروم انسان کے پاس گفتگو کرنے کے لاکھوں ذرائع موجود ہیں لیکن مکالمے کی صلاحیت نہیں۔ مین بکر انعامات سے لبریز کتب خانے تو موجود ہیں لیکن قاری نہیں، کسی کو صریر خامہ کے نوائے سروش ہونے کی نوید دیں تو وہ منہ تکے اور جذبات سے لبریز نفوس سے نظریات پر گفتگوکی جائے تو نہ انہیں قدیمی خلق القران کے فتنے کا علم ہو اور نہ جدیدی اشتراکیت پر سیر حاصل معلومات، گوگل لیکن جتنا چاہے کروالو لیکن ‘اینکڈوتل ایوڈنس’ یا سطحی معلومات سے اوپر سوچ کے دریچے بند ہیں۔ مستعار عقل و نظریات کے حامل ان طفیلیوں’پیسٹس’ کے لئے ذندگی ایک میکانیکی حرکات کا مجموعہ ہے جس میں کسی قسم کی گہری سوچ اور نظریات کی موجودگی شجر ممنعوعہ ہے۔
عصر حاضر کے انسان کے پاس ذرائع علم تو ہیں لیکن علم نہیں- وکیپیڈیا اور گوگل سے مستعار لی گئی عقل کے ڈانڈے ‘ہائو مائنڈ’ یا ‘چھتے کی سوچ’ سے جا ملتے ہیں جہاں اتباع تو ہے، انفرادیت نہیں۔ کسی مباحثے کا رد اس امر میں پنہاں ہے کہ اس کو کس قدر مہارت سے گوگل کیا جاسکتا ہے۔ یوں تنقیدی سوچ اور معلومات کو ‘آوٹ سورس’ کرکے دور جدید کے انسان نے اپنے لئے مذہب، روحانیت، علم الکلام، کاگنیشن، ارتکاز، ادب، آرٹ، فلسفہ، منطق اور دیگر کئی علوم و فنون کے دروازے بند کرنا شروع کر دئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ذہنی ارتقا کی ہزاروں سالہ ‘تجرباتی’ روش کو تبدیل کرنا انسانی مفاد میں ہے؟ کیا اب کوئی ورڈسورتھ، ٹینیسن، حافظ اور ولی دکنی غزل سرا نا ہونگے۔ موجودہ تجزیہ نگاری بھی اسی طوفان ‘معلومات’ علم بود کا شاخسانہ ہے تو کیا ہم ‘اوور انیلازیشن’ یا بے معنی تجزیوں کی دلدل میں مزید دھنستے چلے جائیں گے جہاں قرار واقعی خیالات نا پید ہوں اور بولنے کو مواد کی کوئ کمی نا ہو۔ جاس وھیڈن ، دس امریکن لایف کے ایک پروگرام میں اس تجزیہ نگاری اور قصہ خوانی کی موت پر بہت بہترین طنز کرتا ہے۔ انگریزی میں سننے میں بہتر لگتا ہے لیکن ہم اس کا ترجمہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک غار کے انسان نے دیوار پر تصویر بنائی
تھا یہ ایک بائسن ‘نیل گاے’
دوسرے غار کے لوگوں نے اسے پسند کیا
اس سے نہیں پوچھا کہ بایسن کیوں بنایا؟
اگر یہ مر چکا ہے تو اسے کیوں بنایا؟
آپ نے رنگ سرخ کیوں منتخب کیا؟
تمہارے دماغ سوچ و بچار کاعمل کیا گیا؟
اس نے کہانی سنائی
اس سے قبل کیا ہوا اور بعد میں کیا ہوا نہیں بتایا
بتانے کی ضرورت نہیں تھی۔
ہومر کی اوڈسی کا تھا اپنا رنگ
کچھ دوستوں کی کہانی
جنہوں نے بہت ہی مشقت کے سفر کئے
ہومر نےکہانی سنائی لیکن اس نے نہیں بتایا
کی اس کا کیا مطلب ہے؟
اور یہ کچھ خارج کردہ ‘سینز’ ہیں۔
اس کہانی کو کم عمر کے لوگوں نے پسند کیا ہے
لیکن وہ صرف ایک کہانی ہے
وہ صرف ایک دروازہ ہے جو ہم کھولتے ہیں اگر
ہماری زندگی کو اسکی ضرورت ہو
لیکن اب ہمیں کہانی کو کھولتے ہیں،
چیرتے پھاڑتے ہیں، ٹٹولتے ہیں۔
اسے کھولو تلاش کریں
ایک دل کی ٹک ٹک ٹک
اس کہانی کا دل ، کھولنے سے ٹوٹا ہو دل
قصہ بار بار دکھاے جانے کے بوجھ سے ٹوٹ چکا ہے
انٹرنیٹ کی اقساط سے
پہلے اور بعد کے تجزیات سے،
کھیلوں سے اور کوڈز سے
قصہ مر جاتا ہے
کھنچ کھنچ کر، شکستہ و بوسیدہ
ارے ، اس مزے کو بگاڑنے کا انتباہ
لیکن اب ہمیں کہانی کو کھولتے ہیں،
چیرتے پھاڑتے ہیں، ٹٹولتے ہیں۔
اسے کھولو تلاش کریں
ایک دل کی ٹک ٹک ٹک
اس کہانی کا دل ، کھولنے سے ٹوٹا ہو دل
جیڈ کہتا ہے۔
جاش، تم بزنز کے خلاف باتیں کیوں کر رہے ہو
یہاں سب اسی طرح چلتا ہے
تم ہر شخص کو پریشان کر رہے ہو
جیک کہتا ہے۔
یہ تو پرانا آؤٹ آف ڈیٹ فلسفہ ہے دوست
کھانے کی میز کے لئے ، براہ مہربانی وہیں یہ باتیں کیا کرو
ہم نے یہاں ڈی وی ڈی بیچنی ہے۔
تم جن چیزوں کو لات مار رہے ہو انکے بغیر
کوئ شو بز میں تمہارا نام لیوا نہ ہوگا۔
تم نظر انداز کردئے جاو گے، ہر موڑ پر
جاس دوبارہ گاتا ہے:
میں نے کچھ غلط چیزوں کے بارے میں گایا تھا،
میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا
ٹھیک ہے ، چلواب اس اداکار کے انداز کلام کے بارے میں بات کریں
اوہ یہ ہے اچھا نہیں ہے
چلو اس سین کا خوب تجزیہ کریں
اب ہمیں کہانی کو کھولتے ہیں،
چیرتے پھاڑتے ہیں، ٹٹولتے ہیں۔
اسے کھولو تلاش کریں
ایک دل کی ٹک ٹک ٹک
اس کہانی کا دل ، کھولنے سے ٹوٹا ہو دل
دل کے..
یہ بات تو درست ہے کہ انٹرنیٹ پر دستیاب معلوماب کی فراوانی نے انسانوں کو سہل بنا دیا ہے مگر یہ انٹر نیٹ کے استعمال کنندہ پر منحصر ہے کہ وہ صرف گوگل پر بھروسہ کرتا ہے یا ان کتابوں کی طرف بھی رجوع کرتا ہے جو اسی گوگل کمپنی اور پروجیکٹ گٹن برگ وغیرہ نے ہزاروں کے حساب سے سکین کر کے ڈال رکھی ہیں ۔ مثال کے طور پر مجھے اسلامی سپین کی تاریخ سے دلچسپی ہے اور مجھے اسی نیٹ پر گوگل کرنے سے ایسی نایاب کتابیں مفت دستیاب ہو گئیں جو کسی دوسرے طریقے سے شاید مجھے حاصل کرنے میں برسوں لگتے۔
رہی بات فارغ وقت مین غوروفکر کی تو یہ بات شاید صنعتی معاشرون کے لئے ٹھیک ہو جہاں نیٹ ہر ایک کی دسترس میں ہے ۔اور اس کے علاوہ دوسری تفریحات بے پناہ دستیاب ہیں کہ انسان کے پاس وقت نہین بچتا کسی سنجیدہ چیز کے لئے ۔ مگر بہر حال حقیقی دانش کا کام ابھی بھی جاری ہے صرف بات یہ ہے کہ ہمارا مزاج اس دور میں شاید کچھ چند موضوعات پر مرتکز ہو کر رہ گیا ہے
Comment by محمد ریاض اہد — July 4, 2010 @ 3:38 am
آپ نے زبردست اور بروقت تحرير لکھی ہے ۔ انسان ماحول کے زيرِ اثر کاہل يا چُست ہوتا ہے پچھلی آدھی صدی کا جائزہ بتاتا ہے کہ نئی ايجادات نے ايک طرف تو قتلِ عام آسان بنا ديا ہے اور دوسری طرف سہوليات کی بھرمار ہے جس نے آدمی کو تن آسان بنا ديا ۔ اس کے ساتھ ہی انٹر نيٹ نے آدمی کی سوچ بدل دی ہے اُسے اپنی نسبت انٹرنيٹ پر زيادہ اعتماد ہوتا جا رہا ہے جس کے نتيجہ ميں انسانی احساسات ختم ہوتے جا رہے ہيں اور آدمی مشين بنتا جا رہا ہے
Comment by افتخار اجمل بھوپال — July 4, 2010 @ 10:05 am
انسان کا ایک مشترکہ مسئلہ رہا ہے کہ محمود و ایاز کو ایک صف میں کھڑے کرنے کی نظریاتی باتیں تو خوب کی جاتی ہیں لیکن جب ایسا حقیقتا ہوجائے تو صفوں کی ترتیب اور ان کی دھلائی کا شور اٹھا دیا جاتا ہے۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا ہم نے علم حاصل کرنے کے بنیادی کلیے میں انٹرنیٹ کی وجہ سے کوئی جوہری تبدیلی قبول کرلی ہے؟ آپ دیکھیں گے کہ مشاہدہ، استنباط ، تجربات اور نتائج کا بنیادی چکر اپنی جگہ قائم ہے اور تبدیلی محض ان مراحل کے فوری مکمل کرلینے میں برپا ہوئی ہے ۔ہاتھ سے لکھی کتابیں، میلوں کا سفر طے کرکے جمع کیے جانے والے اعدودشمار اگر اب محض سیکنڈوں میں دستیاب ہیں بلکہ ان کی صحت بھی فوری جانچی جاسکتی ہےتو ایسی صورت حال بنیادی طور پر اس دانش کے لیے خطرہ ہے جو گوگل کی پھرتی کے آگے اپنے قیاس کو علم قرار دینے میں شدید مشکل کا شکار ہ ے۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ انفارمیشن یا اطلاع بنیادی طور پر علم کا متبادل نہیں لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ابلاغی ذرائع جو بنیادی طور پر اطلاعات کی فوری ترسیل کے لیے ایجاد کیے جاتے ہیں غیر محسوس طورپر علم کی ترسیل کے بنیادی ذرائع بھی بن جاتے ہیں اور علم حاصل کرنے کے ایسے غیر روائتی طریقوں کو جنم دیتے ہیں جو ہر ایک کے لیے ہضم کرنا دشوار ہوتا ہے۔ سطحیت پہلی صدی میں بھی موجود تھی، سولہویں میں بھی اور اکیسویں میں بھی اور مستقبل میں موجود رہے گی۔۔ اہم بات یہ ہے کہ کس موضوع پر کس حلقے میں تبادلہ خیال کیاجارہا اور کس جواب کی توقع کی جارہی ہے۔۔۔ جب بھی درست طور شماریاتی تجزیہ کیا جائے گا یہ نظریہ باطل قرار پائے گا۔۔ یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ اجتماعی دانش یا کللیکٹو انٹیلیجنس کی تحریک نے کئی لوگوں کو بے چین کررکھا ہے اور وہ ہر گامے ماجے کی تھوڑی سی شمولیت پر علم کے اتنے بڑے حصے کے حاصل کرلینے پر بہت چراغ پا ہیں۔ مجموعی طور پر انسانی شعور اور برداشت نے آگے کی طرف کا سفر کیا ہے۔۔
Comment by راشد کامران — July 4, 2010 @ 11:29 am
محمد ریاض صاحب، افتخار صاحب اور راشد بھائی , آپ حضرات کے تبصروں کا شکریہ
اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ انٹرنیٹ نے معلومات کا حصول آسان بنایا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ زہنی ارتکاز پر اسکے جو اثرات ہیں وہ کس قدر دور رس ہیں اور کیا یہ عمومی طور پر سطحی سوچ کو فروغ دے رہا ہے؟ رچرڈ فاین مین جو فزکس میں نوبل انعام رکھتے تھے اور مجھے ان سے خاص عقیدت ہے کہتے تھے کہ کمپیوٹر استعمال کرنے والوں کو ایک شدید بیماری ہوجاتی ہے کہ وہ اس سے کھیلنے لگتے ہیں یعنی بجاے اسکے کہ اسکو کام کے لئے استعمال کریں، وہ خود کام بن جاتا ہے۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا، جیسے ہی میرے علم میں اس موضوع پر کوئی شماریاتی ساینسی تجزیہ آتا ہے، اس کے نتائج کو اپنے بلاگ پر ضرور شائع کریں گے۔
Comment by ابو عزام — July 9, 2010 @ 2:16 am