فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

November 1, 2010

وجود خداوندی، سائنس اور اسٹیفن ہاکنگ

Filed under: تحقیق,مذہب — ابو عزام @ 12:00 pm
قران سائنس کی کتاب نہیں، اسی طرح جس طرح قران فلسفے، منطق یا تاریخ کی کتاب نہیں حالانکہ اس سر چشمہ ہدایت میں بہت سے مختلف النواع مضامین کا بیا ن ہے ۔ یہ الہامی احکامات  کا وہ سرچشمہ ہے جس سے ہدایت حاصل کرنے کے لئے ایک بنیادی شرط لگائی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ
هُدىً لِلْمُتَّقِينَ –  الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ
ہدایت ہے ان پرہیزگار لوگوں کے لئے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔۔البقرہ
ان غیوب میں سب سے بڑا غیب اللہ سبحان تعالی کی ذات باری ہے۔ اگر اللہ تعالی چاہتا، جیسا کہ قران میں‌بھی ذکر ہوتا ہے، تو سارے انسان ایک طرح کے ہو سکتے تھے، اتباع اور وہ بھی بغیر دیکھے آمنا و صدقنا کہنا ہی تو اصل دار المتحان ہے۔ اگر آسمان پر کلمہ طیبہ لکھا آجائے تو کٹا  کافر بھی شائد مسلمان ہونے میں کچھ تامل نا کرے لیکن یہ منشا خداوندی نہیں کہ لوگوں پر غیب کو مطلع کر دیا جائے کہ پھر تو معرکہ حق و باطل و آزمایش میں غیب کا پرتو نا رہا اور ایمان بالغیب کی شرط پوری نا ہو پائی۔
دور حاضر کے عصری علوم خصوصا سائنس ایک تجزیاتی و تجرباتی علم ہے جہاں ہر چیز کو تجربے کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ اگر کوئی چیز موجودہ تجرباتی آلات سے نہیں ناپی جا سکے تو علم ریاضی کا سہارا لیا جاتا ہے کہ اس کی مدد سے سیمیولیشن ‘نقلیت’ کے ذریعے ایسی چیزوں کا پتا چلایا جا سکتا ہے جو انسانی تجربے یا سطحی تخیل سے بظاہر ماورا ہوں مثلا کوانٹم طبعیات کی تین سے ذائد ڈایمنشنز  یا کوارک کے باہمی قوانین یا ایم تھیوری وغیرہ۔ لیکن صرف اس وجہ سے کہ سائنس آج اس بات کو نہیں جان سکی اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ مستقبل کے انسانی علوم کے اضافے اس فرق کو مٹا نا دیں گے اور انسانی علوم مزید ترقی نا کرتے رہیں گے۔ لیکن ایک بات نہایت صاف ہے کہ سائنس جو کہ ایک تغیراتی اور تجرباتی علم ہے، کبھی خدا کے وجود کو تجربے کی بنیاد پر ثابت نہیں کر سکتا کیونکہ وجود خداوندی کا تعلق غیب سے ہے جو انسان پر مطلع صرف اس وقت ہوگا جب کہ مشیت الہیہ ہو اور یوم الدین کا ظہور ہو۔
گزشتہ دنوں اس بات پر بڑی ہا ہا کا ر مچی کہ اسٹیون ہاکنگ نے خدا کے وجود کا انکار کردیا۔ میرا ناقص علم تو یہ کہتا  ہے  اگر کوئی سائنسدان خدا کے وجود کااقرار کرے یا اسے تجرباتی طور پر ساینسی بنیادوں پر ثابت کرنے کی بات کرے تو اس کے اس دعوے کو شبہ کی نظر سے دیکھنا زیادہ حق بجانب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر خدا کا وجود کسی عقلی و تجرباتی پیٹری ڈش کے ذریعے ثابت کیا جا سکے تو غیب کا پردہ اور الحاد کا چیلنج ہی نا رہے۔
ایسا نہیں کہ سائنسدانوں کے خدا کے وجود کو ڈھونڈنے کی سعی نہ کہ ہو۔ گرینڈ ڈیزاین میں ہاکنگ خود لکھتا ہے کہ نیوٹن اور اس سے پہلے کئی علم طبعیات کے اکابرین خدا کے وجود بلکہ معجزات  کے قائل رہے ہیں۔ آینسٹاین کا کوانٹم طبعیات پرقول مشہور ہے کہ ‘خدا پانسے نہیں کھیلتا’ کیونکہ وہ کوانٹم میکانیات کے احتمالی قوانین سے مطمئن نا تھا – سائنسدان تھامس بائس جس کا بایس تھیورم آپ روزانہ اپنی ای میل میں جنک فلٹریشن کے لئے استعمال کرتے ہیں درحقیقت پادری تھامس بائس کی خدا کے وجود اور اس کی منشا کو ثابت کرنے کی ایک کاوش  تھی۔دوسری طرف سائنسدانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ ہے کو کسی ماورا طبعی شے کے وجود کو ماننے میں حد درجے کا نالاں ہے۔ اسی کے رد میں مشہور زمانہ ایم آی ٹی کے فزکس پی ایچ ڈی فرینک ٹپلر نے اپنی کتاب ‘فزکس آف ایمورٹیلیٹی‘ لکھی جو کہ آج کل راقم کے زیر مطالعہ ہے۔
اس کتاب میں  فرینک ٹپلر نے اومیگا پاینٹ تھیوری کے نظریے کے مطابق حیات بعد الموت کے نظریے کی سائنسی بنیادوں پر توجیح و تشریح کی ہے نیز بعد میں اسے کوانٹم طبعیات سے بھی نتھی کیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس کتاب پر ساینسدانوں کی طرف سے جا بجا اعتراضات اٹھائے گئے ہیں لیکن  فرینک ٹپلر ایک قد آور ساینسدان ہے، کوئی ہاتھ دیکھنے والا پروفیسر نہیں۔ اس کے باوجود بھی کہ اگر بہت سے ساینسدان اپنے اطراف میں جگہ جگہ خدا کی موجودگی کے اثرات دیکھتے ہیں اور غور و فکر کرنے والوں کی حیثیت میں‌متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، سائنس کا بحیثیت تجرباتی علم، خدا کی موجودگی کی دلیل بنانا، غیب کے برخلاف ہوگا اور بر بنائے تعریف ناممکن۔
میں نے اسٹیفن ہاکنگ کی کتاب گرینڈ ڈیزاین کا مطالعہ کرنے سے پہلے یہ تحریر لکھنا مناسب نا سمجھی تھی  لیکن اب میں قارئین کو اس بات کی دعوت دوں گا کہ گرینڈ ڈیزاین خصوصا ساتویں باب، ‘اپیرینٹ مریکل’ یا واضح معجزہ کا مطالعہ کریں اور خود دیکھیں کہ رب العالمین نے کس نازک طریقے سے ‘کانسٹینٹس’ کو طے فرمایا ہے کہ اس میں سے زرا سی کمی بیشی انسانی زندگی اور نسل انسانی کے ہونے یا نا ہونے پر منتج ہو سکتی تھی۔
ان تمام باتوں کو لکھنے کے بعد بھی ہاکنگ علم احتمال و کوانٹم طبعیات کی رو سے بضد ہے کہ یہ سب بغیر خدا کے عین ممکن ہے۔ کہ خدا ، وقت اور چیزوں کا وجودکسی ابتدا اور انتہا کا محتاج نہیں اور یہ کہ ابتدا اور انتہا خود ایسے نظریات ہیں جو بگ بینگ کے بعد ‘ایکسپینشن’ کی وجہ سے پیدا ہوئے تو وہ سائنسی بنیادوں پر برحق ہے کہ ایمان و ایقان کا تعلق تجزیے و تجربے پر نہیں بلکہ وہ تو خدا کے عطا کردہ فہم و شعور کو استعمال میں‌لا کر  ایمان بالغیب کی جست کا نام ہے۔
راقم کی ناقص  رائے میں سائنسی تغیر پزیر تجزیات پر غیر تغیراتی الہامی کلام کو پرکھنا اور قران سے ان چیزوں کی توجیحات نکالنا کسی طرح موزوں نہیں۔نیز ساینسی علوم پر خدا کے ہونے یا نا ہونے کے علم کا دارومدار رکھنا گمراہی کا سبب ہے کہ
ذہن میں جو گھِر گیا لا انتہا کیوں کر ہوا
جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خُدا کیوں کر ہوا

Share

6 Comments »

  1. پہلا پیرا قابل توجہ اور نچوڑ ہے۔۔
    سائنس کی تو بھلائ اسی میں ہے کہ الہامی کتابوں کی جانچ پڑتال اور ردو اثبات کا کام نا کرے اور اپنی راہ چلے جس میں “رد” کا استحقاق عوامی ملکیت رہے ۔ لیکن توجیح نکالنے کی کوشش کوئی کرے تو حرج نہیں کم از کم اسپام سے تو نجات مل ہی رہی ہے۔ 🙂 کتابیں کب مستعار مل سکتی ہیں؟

    Comment by راشد کامران — November 1, 2010 @ 4:00 pm

  2. کتابیں انفرنو کے تاوان پر واجب الادا ہیں، تحریر کی پسندیدگی کا شکریہ

    Comment by ابو عزام — November 6, 2010 @ 12:26 pm

  3. ماشاء اللہ ۔ اچھی تحرير ہے
    سائنس اور دين کا موازنہ کم عِلم يا ناتجربہ کاری کا شاخسانہ ہوتا ہے
    سائنس وہ علم ہے جو مشاہدے پر قائم ہے ۔ يہ مشاہدہ درست بھی ہو سکتا ہے اور نظر يا سمجھ کا دھوکا بھی
    سائنس کے اصول تغير پذير ہو سکتے ہيں مگر اللہ کا قانون قرآن شريف کے نزول کے ساتھ ہی اٹل ہو چکا ہے
    ميں نے لڑکپن ميں سائنس کی کتاب ميں سر آئزک نيوٹن کا ايک جُملہ پڑھا تھا “انسان کے ہاتھ کے ايک انگوٹھے کی ايک پور کا مطالعہ ہی يہ باور کرنے کيلئے کافی ہے کہ خدا کا وجود ہے”
    آج کا انسان سائنس کی رٹ لگاتے ہوئے يہ بھول جاتا ہے کہ سائنس نے ہيکل کے يہودی رہنماؤں اور کليسا کے پادريوں کے دماغ ميں جنم ليا اور اسلام کے عُلماء دين کے دماغوں ميں باليدگی حاصل کی ۔ پہلے يہودی پھر عيسائی اور پھر مسلمان دنيا ميں گرفتار ہوئے تو سائنس بے دين لوگوں کا زيور بن گئی جنہوں نے بلاجواز دين کو جھٹلانے کی ناکام کوشش شروع کر دی کيونکہ اُن کی سمجھ پر ابليس غالب آ گيا تھا ۔ آج کے خود کو آزاد خيال اور تعليميافتہ سمجھنے والے مسلمانوں کی سمجھ پر بھی ابليس کا قبضہ ہے ۔ يہ عقل کا کرشمہ نہيں ہے ۔ عقل اور سمجھ کی وضاحت ميں نے کوئی ڈيڑھ سال قبل کی تھی ۔ اِن شاء اللہ ميں جلد اس تحرير کو اپنے بلاگ پر دوبارہ پيش کروں گا

    Comment by افتخار اجمل بھوپال — November 2, 2010 @ 10:13 pm

  4. تحریر کی پسندیدگی کا شکریہ۔ آپ کی تحریر کا انتظار رہے گا

    Comment by ابو عزام — November 6, 2010 @ 12:27 pm

  5. اگرچہ کافی تاخیر سے اس تحریر کو دیکھا لیکن بہ ہر حال بہت معلوماتی اور دل چسپ ہے۔

    Comment by عمار ابنِ ضیا — December 5, 2010 @ 4:59 am

  6. را قم کو تجزیاتی نا بلوغت کی داد دینے کے ساتھ ساتھ یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ تھامس بائس نے اپنے عہد میں موجود علم کی بنیاد پر را ئج وقت خدا کے نظریے کو رد کیا اور اسی بنیاد پر ایک ایسے قبرستان میں دفن ہوا جسے باغیوں کا آخری آرام گاہ کہا جاتا ہے- محترم ایک اور حوالہ میں ایم آی ٹی کے فزکس پی ایچ ڈی فرینک ٹپلر کی ذکر کیا – کیا ہی اچھا ہوتا کے وہ ایک اور فزکس کے نو بل انعام یافتہ سٹیون وینبرگ کا بھی ذکر کرتے -خیر اگر محترم ایمان ، جس کا تعلّق خرگوشی چھلانگ سے ہے ، کے قائل ہیں تو اور بھی کئی من پسند حوالاجات اپنے دلائل میں دے سکتے ہیں

    Comment by Imran — January 19, 2011 @ 11:10 am

RSS feed for comments on this post. TrackBack URL

Leave a comment

Powered by WordPress