جہلِ خرد نے دن يہ دکھائے
گھٹ گئے انساں، بڑھ گئے سائے
آداب و اصول مباحثت میں استدلال و منطق تو خیرجزو اعظم ٹھرا، لیکن کچھ خیال علم و ہنرکا بھی ہو تو نورعلی نور۔ اگلے روز سیارہ جات فلک کے طفیل اتصال کردہ انٹرنیٹ پر زمین کے ساکن ہونے کا مژدہ پڑا، طبعیت باغ باغ ہوگئ ۔ فلیٹ ارتھ سوسایٹی کا ایک ممبر تو پی ایچ ڈی میں ہمارا ہم جماعت بھی ہے لیکن وہ کچھ ازراہ تفنن کا سا معاملہ ہے۔یہاں تو بات ایمانیات و اعتقدانہ بزرگانہ پر ہے کہ سائینس ان کے گھر کی لونڈی اور علوم ریاضی و طبعیات میں انہیں وہ ملکہ حاصل ہے کہ گویا نیوٹن انہی کی سقہ کشی کے تلمذ سےباعث رشک عالم ٹھرا۔ زمین اگر گھوم رہی ہے تو ہم اسے محسوس کیوں نہیں کرتے اور اگر گول ہے تو نیچے والے لوگ اس کے کنارے سے گر کیوں نہیں جاتے، اس قدر جاندار دلائل ہیں کہ تمام علم انسانی، فلاسفہ، منطق، طبعیات و ریاضیات مل کر بھی اسکا جواب نہیں دے سکتے۔
یادش بخیر کہ راقم جماعت نہم کا طالبعلم تھا کہ جب ماہر طبعیات و نیوکلیات ڈاکٹر التمش کمال سے تعلق فیض و تلمیذ ہوا۔ ان کے طفیل مصنوعی ذہانت کے ابواب سے لے کر مرکز گریز و مرکز مائل قوتوں کی وجہ سے مصنوعی سیارچوں کے مدار میں رہنے کے مختلف موضوعات پرسائنسی دلائل و مشاہدات سے ابتدائ واقفیت ہوئ ، خصوصا اس جیولئر کہ جس کی بدولت یہ اجرام اس فلک میں تیر رہے ہیں خاصی دلچسپی کا باٰعث بنی۔ یہ ۱۹۹۲-۹۳ کی بات ہے جب ۲۴۰۰ باڈ کے موڈم ہوا کرتے تھے اور معلومات وکیپیڈیا کے بجائے برٹانیکا سے لی جاتی تھیں، اس دور میں ایم آی ٹی کے نیوکلیائ فزسسٹ سے جو تشکیک و سائنیسی طریقہ سیکھا وہ درس زیست ہے۔ بہرحال اسی دور میں زیر تبصرہ کتابچے کا بھی مطالعہ کیا تھا، پڑھا کہ حرکت یومیہ حرکت شمس سے ہے نہ کہ حرکت زمین سے اور یہ بھی ک ہرمسلمان پر فرض ہے کہ حرکت شمس و سکون زمین پر ایمان لائے۔ نہ نص میں اسکا کوئ حامی ملا کہ کُلّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ نا علم حدیث میں، اصول درایت پر جو پورا اترا اسے قبول کیا اور باقی رد۔ لیکن آج یہ تذکرہ عبث دیکھ کر رہا نا گیا کہ ضرور قلم اٹھایا جاے اور بشارتوں کے شور میں کوئ تو کہے کہ برادرم، اکیسویں صدی میں اسطرح کی باتیں کرنا اپنا مضحکہ اڑوانا ہے، لیکن لگتا ہے کہ یہ کوشش عبث ہوگی کہ جو لوگ یہ باتیں کرتے ہیں انہیں اپنی یا مسلم امہ کے عزت و وقار کی کیا فکر، انہیں تو مطلب ہے فرقہ و گروہ بندی سے، علمی روایتوں کے تغیر و تذلل سے اور حدث و جاہلیت سے۔
ہمیں تو سیدھی سے بات ہے لبرلوں پر رحم آتا ہے کہ ان کے لیے پنڈولم دوسری طرف لے جانے کی نوبت شاید باشعور و تعلیم یافتہ مذہبی طبقے کی وجہ سے نا آئ ہوگی بلکہ اس کا مژدہ تو ضرور زمین کے سکون نے سنایا ہوگا۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ انسان میں خدا کی محبت بچانے کے لئے یہ تہمت اٹھانا ضروری ہو گیا توایسا لگتا ہے کہ شاید زمین کا سکون ہی ان تمام فکری جنجہلاہٹوں کا صریر خامہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان اغلاط پر ایمان ضروریات دین میں سے ہے؟ اور کیا ان کے غلط تسلیم کرنے سے فاضل مولوی کی شان میں کوئ فرق آے گا؟ کہ جب شارع صلی اللہ علیہ وسلم نے انتم اعلم باموررادنیا کم فرما دیا تو اب ہما شما کا تذکرہ ہی کیا۔ لیکن وہ بالک ہٹ ہی کیا کہ امام کی اغلاط حصہ دین نا ہوجایئں اور یک جنبش قلم سے وہ ماہر طبعیات و کیمیا و فلیکیات و حسابیات نا ہوجاویں کہ علم لدنی کا شمار سے کیا تعلق۔ آج شب کچھ گلیلیو و کوپرنیکس کا غلبہ ہے، غم تو یہ ہے کہ نص کے عدم رد کے باوجود نادان دوست کلیسا کی پیروی کرنے پر تلے ہیں۔
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نا کچھ گھبرایں کیا
گویا نیوٹن انہی کی سقہ کشی کے تلمذ سےباعث رشک عالم ٹھرا ۔
یہ فقرہ اس پوسٹ کی جان ہے
Comment by محمد ریاض شاہد — February 16, 2012 @ 8:21 am
تبصرے کا بہت شکریہ ریاض شاہد صاحب، اگر آپ بھی ان عقیدت مندوں کی باتیں سن لیتے تو بعینہ یہی کہتے۔
Comment by ابو عزام — February 16, 2012 @ 12:51 pm
اس شرط پہ کھیلوں گی پیا عشق کی بازی
جیتوں تو تجھے پاؤں ہاروں تو پیا تیری
یار لوگ اسے مسافر شاعری گردانتے ہیں؛ درویش کہتے ہیں فلسفہ۔ یہ ان مباحثوں کا سنہرا اصول بھی ہے، ۔ جہاں آپ ریاضی، شماریات اور فلکیات کو سائنس قرار دینے پر مصر کود پڑے ہیں۔جب مراقبہ سے سمندر کی گہرائ ناپی جاسکتی ہے تو کون دریا میں اترتا گوہر دیکھتا
قبلہ اصطلاح وضع کرنے میں لگتا ہے آپ دو منفیوں کے ملنے سے مثبت مراد والے کلیے پر عمل کررہےہیں۔ کیا پھڑپھڑاتی اصطلاح وضع کی ہے۔
“باشعور و تعلیم یافتہ مذہبی طبقے”
یونی کارن والوں کو پہلے کیوں نا سوجھی
Comment by راشد کامران — February 16, 2012 @ 10:55 am
برادرم راشد، تبصرے کا شکریہ۔ اگر ازراہ تفنن کے ٹیگز کا علم نا ہوتا تو توپوں کا رخ مغربی سمت موڑنے میں زرا دیر نالگتی
یونی کارن والوں کو پہلے کیوں نا سوجھی
کیا خوب الہ ابادیات کو یورپی رینیسانس سے ہم نوالہ و ہم پیالہ کیا
قبلہ، کافی عرصہ ہوا اچھی تحریر پڑھے، اب کچھ لکھیں، ہماری طرح لکھنے کا ہیضہ نا ہو توآپکی طرح قبض بھی تو نا ہو 🙂
Comment by ابو عزام — February 16, 2012 @ 12:58 pm
یہ اُردو پڑھ کر ذہن پانچ دہائیاں پیچھے چلا گیا جب ایسی اُردو پڑھنے کو عام ملا کرتی تھی ۔ عصرِ حاضر کی تحریر پڑھتے تو تھکاوٹ ہو جاتی ہے
Comment by افتخار اجمل بھوپال — February 21, 2012 @ 1:42 am
افتخار صاحب، تبصرے و پسندیدگی کا شکریہ۔ اکثر احباب ہماری نثر کے دقیق وقدیم ہونے پر سیخ پا رہتے ہیں، چلیں کسی کو تو یہ انداز تحریر پسند آیا
🙂
Comment by ابو عزام — February 21, 2012 @ 6:38 am