مزاح کے عہد یوسفی میں رہنے اور یوسفی پڑھ لینے کے بعد اکثر یہ بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ ایرے غیرے کسی مزاح نگار کو خاطر میں لانے کا قطعی دل نہیں چاہتا اور وہ بھی ایک سابق فوجی کو، بھلا فوج اور مزاح کا کیا ربط۔ لیکن جینٹلمین بسمہ اللہ از اشفاق حسین اگر ادب کا کوئ شاہکار نہیں تو کوئ ایسی بری کتاب بھی نہیں۔ پاپ کورن فلم کی طرح اسے پاپ کورن کتاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ہم نے اپنے کئ دوستوں کو آی ایس ایس بی کی امید میں جس لگن سے تیاری کرتے دیکھا، اکر وہ یہ کتاب پڑھ لیتے توشائد نتائج مختلف ہوتے۔
تو کچھ ایسا ہوا کہ ۵۲ ہفتوں میں ۵۲ کتابوں کے عہد میں ہم نے دو چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں کر لیں۔ ایک تو یہ کہ فصوص الحکم کو ایک ہفتے کے بجائے ابھی تک پڑھ رہے ہیں کہ یہ متن کا تقاضہ ہے نیز کیرن ٓآرمسٹرانگ کی کتاب کی جگہ ہم نے فائنمین کی کتاب اور اگاتھا کرسٹی کی جگہ جینٹلمین بسم اللہ پڑھ لی۔ جینٹلمین بسم اللہ چھوٹی سی کتاب ہے اور روانی سے جلد ہی پڑھی جاسکتی ہے۔ آدھی کتاب بعد از عشا ختم کی اور پھر فجر کے بعد ناشتے سے پہلے بقایا، لہذا اگر نیند کا وقفہ نکال دیں تو ایک نشست میں ختم کی جا سکتی ہے۔
تقریبا دو سو صفحات کی اس کتاب کو کرنل اشفاق حسین کی ابتدای فوجی سوانح عمری قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب کوی ادبی شاہکار نہیں اور نا ہی اس میں مزاح کی کوی ندرت خیال کا عنصر شامل ہے۔ جینٹلمین بسمہ اللہ میں سولہ عدد مضامین شامل ہیں جن کے نام بالترتیب باعث تحریرآنکہ، پہلی ملاقات۔ بورڈ یاترا، آغاز سفر… انجام تمنّا، ذائقوں کا ورثہ، گردش وقت یہاں آن کر تھم جاتی ہے، لہو گرم رکھنے کے سو سو بہانے، آنچل کے سایوں سے پیڑوں کی چھاؤں تک ،دل مردہ دل نہیں ہے ،جنٹلمین!بسم الله!!، آداب فلم بینی، معمولات کیڈٹ، یہ تھے ہمارے اساتذہ کرام، دکھوں کے ساجھی، ہوا بردوش، اڑنے نہ پائے تھے کہ اور تھینک یو! الله میاں ہیں۔
کتاب کی جلد پر اشفاق حسین صاحب کا تعارف کچھ یوں ہے کہ انکا تعلق لاہور سے ہے. پنجاب یونیورسٹی سے صحافت اور انگریزی ادب میں ایم اے کرنے کے علاوہ وہ انٹرنیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجیز سے عربی میں ایڈوانس لیول انٹر پریٹر شپ کے ڈپلومہ ہولڈر ہیں. تقریباً ۲۹ سال پاک فوج سے وابستہ رہے اور مختلف حیثیتوں میں، مختلف فارمیشنز اور آئی ایس پی آر میں تعینات رہے. کالج آف آرمی ایجوکیشن، اپرٹوپہ اور ملٹری کالج جہلم میں تدریسی فرائض انجام دینے کے علاوہ وہ سعودی عرب میں بطور مترجم بھی تعینات رہے. ٢٠٠٢ء میں انٹر پبلک ریلیشنز کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے. جناب والا سات عدد کتابیں لکھ چکے ہیں. جن میں طنزومزاح کی شگفتہ کتابیں،جنٹلمین بسم اللہ جنٹلمین الحمدالله، جنٹلمین الله الله اور جنٹلمین سبحان الله شامل ہیں. ان کی کتابوں کے اب تک پینسٹھ سے زائد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ آئی ایس پی آر میں رہتے ہوئے، انہوں نے فوج کے لئے مختلف دستاویزی فلمیں اور فوجی زندگی پر ڈرامے تیار کئے. اٹلی میں ہر سال ہونے والی مسلح افواج کی دستاویزی فلموں کی نمائش میں ان کی تین دستاویزی فلموں کو بین الاقوامی انعامات سے نوازا گیا. میجر شبّیر شریف شہید پر ان کی کتاب “فاتح سبونہ” پر مبنی طویل دورانیے کا ایک کھیل پروڈکشن کے آخری مراحل میں ہے.
اس کتاب کا ایک اقتباس مندرجہ زیل ہے۔
دل مردہ دل نہیں ہے …..
دوسرے روز اکیڈمی پہنچے. بسوں سے اتر کر ہمارا ارادہ سیدھا کمروں کی جانب جانے کا تھا.لیکن بسوں کو گھیر رکھا تھا انسٹرکروں نے. نیچے اترتے ہی انہوں نے ہمیں فالن کیا اور لیفٹ رائٹ لیفٹ رائٹ کراتے ہوئے سیدھا ڈرل سکیئر میں لے گئے. تمام سامان پشت پر لدا ہوا تھا. تھکن سے ہم لڑکھڑائے جاتے تھے لیکن اسٹاف تھے کہ چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھاۓ ہوئے تھے”صاب بازو پورا ہلائیں” “گھٹنا بیلٹ لیول تک اٹھائیں”. ہم حیران ہو کر کبھی اپنے بازوؤں کو دیکھتے اور کبھی پریشن ہو کر صوبیدار میجر کی طرف ک ڈرل کروانے کا نشہ یہ کسی اور وقت پورا نہیں کر سکتے؟ خدا خدا کر کے ڈرل سے جن چھوٹی لیکن کمروں میں جانے کی اجازت اب بھی نہیں تھی.حکم لگا کہ پہلے رائفلوں کی صفائی ہوگی. فوجی کی زندگی میں اس بات کو ایمان کا درجہ حاصل ہے کہ وہ خود کتنا ہی خستہ کیوں نہ ہو اس کا ہتھیار ہر وقت تروتازہ رہنا چاہیے. رائفلوں کی صفائی کر کے کمروں میں پہنچے تو ہمیں بستروں سے دور رکھنے کا ایک اور بہانہ بتایا گیا. یہ دلچسپ بھی تھا اور کامیاب بھی.
سینئروں نے بتایا کہ پرموک مشق کے اختتام کی روایت ہے کہ تمام سینئر کیڈٹ چند گھنٹوں کے لیے خود کو جونیئر قرار دیتے ہیں اور جونیئر کیڈٹوں کو اختیار ہوتا ہے کہ ان سے جو چاہیں سلوک کریں.اعلان کیا گیا کہ تمام سینئر کیڈٹ شام سات بجے تک جونیئر رہیں گے. یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح تمام جونیئر کیڈٹوں میں پھیل گئی.بس پھر کیا تھا کسی کو یاد نہ رہا کہ گزشتہ پانچ دنوں کی صحرا نوروی نے پیروں میں ابلے ڈال رکھے ہیں نیندیں حرام ہونے سے آنکھیں غبار آلودہ ہیں. بستر کو مسکن بنایا جاۓ.بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ اس مختصر سی مہلت میں سینئر کیڈٹوں کو ہر اس سلوک سے نواز دیا جاۓ جو انہوں نے ہم پر روا رکھا تھا.
ایک کمپنی کا کیڈٹ سی ایس ایم(کمپنی سارجنٹ میجر) ہاتھ آگیا. موصوف کمپنی میں ڈسپلن قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں. ظاہر ہے بلحاظ عہدہ ان کی زبان میں تھوڑی سی ترشی ضروری ہے. اور آنکھ میں سرخ ڈوروں کا ہونا معمولی بات. لیکن یہاں معاملہ یہ نہیں تھا کہ وہ اپنی حرکتوں میں حق بجانب تھے یا نہیں ‘ان کا قصور یہ تھا کہ وہ ان سینئروں میں شامل تھے جنھیں آج جوںیئر قرار دے دیا گیا تھا. کسی کو یاد نہ رہا کہ چند گھنٹوں بعد انہیں پھر سی ایس ایم کے روپ میں آجانا ہے.
جونیئر کیڈٹوں نے درزی کے تعاون سے کچھ رنگین کپڑے ادھار منگواۓ. سی ایس ایم کو پہناۓ گۓ. رخساروں پر غازہ’ ہونٹوں پر سرخی اور آنکھوں میں کاجل اتارا گیا.اور پھر آنکھوں پر عینکیں چڑھا انہیں کمپنی میں گھمایا گیا. اس سری تیاری کے دوران ایک شور تھا کہ کانوں کے پردے پھاڑ ڈالتا تھا. جونیئرکیڈٹ امڈے چلے آتے تھے.کوئی اس “نازنین” کے آٹوگراف لینے کو ٹوٹا پڑتا تھا، کوئی اس سے شام کی کسی حسین ساعت میں مونا لیزا ریسٹورنٹ میں ملنے کا وعدہ لینے پر بضد تھا. کوئی اس کے لیے “جھانجھراں” منگا دینے کو تیار تھا بشرطیکہ وہ “ہاں” کر لے اور کوئی اس کے مربعوں پر منشی ہو جانے کو زندگی کی آخری خواہش قرار دے رہا تھا. بیچاری دوشیزہ ٹکر ٹکر کبھی اس مضطرب کو دیکھتی جو چیخ چیخ کر اپنی وفاؤں کا یقین دلا رہا تھا تو کبھی اس مرغ بسمل کو’ کہ اس کے قدموں میں لوٹا جاتا تھا اور پکار پکار کر کہتا تھا…
اکیلے نہ جانا’ ہمیں چور کر تم
تمہارے بنا ہم’ بھلا کیا جئیں گے
باقی سینئر کیڈٹوں کے حلیے تو بدلتے رہے لیکن سی ایس ایم کی دوشیزگی کو آخر وقت تک برقرار رکھا گیا.
یوسفی کو پڑھنے کا واقعی یہ نقصان ہے کہ اس کے بعد کسی اور مزاح نگار کی تحریر پڑھنے کا لطف کم آتا ہے ور شاید وہ نظم بھی اسی کتاب میں شامل ہے
ہر لڑکی مجھ پہ مرتی ہے
Comment by محمد ریاض شاہد — March 11, 2012 @ 3:36 am
تبصرے کا شکریہ ریاض صاحب، وہ نظم تو میری نظر سے نہیں گذری، شاید مصنف کی کسی اور کتاب میں ہو۔
Comment by ابو عزام — March 15, 2012 @ 11:58 am
بہت ہی عمدہ کتاب ہے۔ مزاح مزاح ہے خواہ پطرس سا لطیف ہو یا عزیزی سا بھونڈا ۔انسانیت کو قبیلوں میں بانٹ کر لوگ تحریروں کو بھی معاشرتی مرتبوں میں بانٹنے چاہتے ہیں۔
ہمیں تو بھئی جنٹلمین یوسفی سے زیادہ مزیدار لگی کر لو جو کرنا ہے
Comment by علی — March 11, 2012 @ 4:09 am
تبصرے کا شکریہ علی صاحب، پسند اپنی اپنی
🙂
Comment by ابو عزام — March 15, 2012 @ 11:59 am
یہ ایک عمدہ کتاب ہے ہم نے 2005-6 میں پڑھی تھی!!۔
Comment by شعیب صفدر — March 11, 2012 @ 4:39 am
تبصرے کا شکریہ شعیب صاحب، یہ کافی پرانی کتاب ہے، مجھے لیکن پڑھنے کا ابھی موقع ملا
Comment by ابو عزام — March 15, 2012 @ 12:00 pm
اُس ہی دور میں اہم نے ایس کتاب سے ایک اقتباس اپنے بلاگ پر بھی شیَر کیا تھا جس کا لنک ذیل میں ہے
http://pensive-man.blogspot.com/2005/09/blog-post_25.html
Comment by شعیب صفدر — March 11, 2012 @ 4:51 am
بہت خوب اقتباس ہے۔ شکریہ
Comment by ابو عزام — March 15, 2012 @ 12:00 pm
معذرت میں نے الحمداللہ کا اقتباس لکھا تھا
Comment by شعیب صفدر — March 11, 2012 @ 4:54 am
یہ چاروں کتابیں میٹرک میں پڑھی تھیں شاید۔ اچھی لگیں تھیں۔ ہمارا لائبریرین بتایا کرتا ہے کہ جنٹلمین استغفراللہ بھی لکھی پڑی ہے، جو کارگل کا کچہ چٹھہ کھولتی ہے تاہم یہ مصنف کی وفات کے بعد شائع کی جائے گی۔
Comment by دوست — March 11, 2012 @ 6:07 am
اس سلسلے کی پہلی دو کتب ہی پڑھ رکھی ہیں۔ وہ بھی پندرہ سولہ برس ہونے کو آئے۔
Comment by عثمان — March 11, 2012 @ 11:59 am
قبلہ یہ کتاب تو آپ کو اشتیاق احمد کے ناولوں کے ساتھ ختم کرلینی چاہیے تھیں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کا اشتیاق احمدی دور ختم ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا لیکن یہ کتاب اس وقت مزاح محسوس ہوتا ہے جب انسان نے مزاح پڑھ نا رکھا ہو۔ یہ مزاحیہ صورتحال کا بیان تو ہے لیکن مزاح نہیں۔
Comment by راشد کامران — March 11, 2012 @ 9:08 pm
برادرم راشد، کتاب پڑھنے کے بعد تبصرہ کرتے تو بہت بہتر ہوتا
🙂
Comment by ابو عزام — March 15, 2012 @ 12:01 pm
میں نے ایک جینٹلمین پڑھ رکھی ہے
🙂
لیکن یہ صحیح ہے کہ تبصرہ کتاب پڑھنے کے بعد کرنا چاہیے۔
Comment by راشد کامران — March 22, 2012 @ 9:31 pm