فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

October 7, 2012

قصہ شہر فرشتگاں کے اردو مشاعرے کا

Filed under: ادبیات,شاعری,طنزومزاح — ابو عزام @ 10:22 pm

اب آغاز قصے کا کرتا ہوں

ذرا کان دھرکو سنو اور منصفی کرو

دو درویش پہنچے مومن لاج پیرزادہ کا ترنم سننے

دیکھا ہمارے وی سی صاحب تو غائب ہیں

شاید کچھ تنظیمی کام آن پڑے ہوں

پرحسیں ہاتھ کے کنگن والے وصی شاہ موجود

سنا کہ موے فرنگیوں نے قاسم صاحب کو ویزا نہ دیا

ہم سوچتے رہے پھرشاہ صاحب کو کیونکر ملا

کہ وہ تو حواس انسانی و اردو ادب کے جرائم کیلئے

ہیگ میں مطلوب ہیں

پھر یکایک راشد بھائ گویا ہوے کہ

تجھے قسم کہ اگر یہاں بیٹھا تو

 تعلق رفتگاں میں ایسی دراڑ پڑے گی کہ۔۔۔

بس پھر الٹے پانوں لوٹ آے


ایک نہائت آزاد نظم بقلم خود

Share

October 3, 2012

اردو مرکز لاس اینجلس میں مشاعرہ

Filed under: ادبیات — ابو عزام @ 10:36 am

ہفتہ چھ اکتوبر کو مومن لاج، ٹارینس میں ہونے والے مشاعرے کا اشتہاری دعوت نامہ

Share

September 16, 2012

پیغمبر اسلام از ڈاکٹرمحمد حمید اللہ

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 5:15 pm

 ڈاکٹر حمید اللہ کی تحریر کردہ فرانسیسی سیرت طیبہ کی کتاب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اردو ترجمہ پروفیسر ڈاکٹر خالد پرویز  نے کیا ہے جس سے ایک اقتباس پہلے اس بلاگ پر پیش کیا جا چکا ہے۔ تقریبا ۷۰۰ صفحات کی یہ کتاب سیرت طیبہ پر لکھی جانے والی دیگر کتب کی طرح تاریخی واقعات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات مبارکہ، بعثت سے پہلے اور بعد ازاں دونوں کا بخوبی احاطہ کرتی ہے لیکن اس کی جداگانہ خصوصیت ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کا خصوصی انداز ہے۔ انہوں نے مغربی قاری کو مدنظر رکھتے ہوے حوالہ جات کی مدد سے ایک نہایت عمدہ متن ترتیب دیا ہے جس میں جا بجا مستشرقین کے اعتراضات کا سیر حاصل جواب دیا گیا ہے اور پوری کتاب کو ایک عدد شماری کے طور پر برجسته  نقاط کے طور پر لکھا گیا ہے جس سے تلاش اور حوالہ جات میں نہائت آسانی ہوتی ہے،۔

سیرت طیبہ تصنیف و تالیف کا ایک ایسا شعبہ ہے جس میں جتنا کام ہو کم ہے۔ الرحیق المختوم جیسی سیرت طیبہ کی کتاب کے بعد اگر آپ پیغمبر اسلام کو پڑھیں گے تو آپ کو انداز بیاں کا واضع فرق معلوم ہوگا۔ ۵۱ ابواب کی یہ کتاب نہائت محققانہ دیانت سے تحریر کی گئی ہے اور اس میں جا بجا لسان العرب سے لے کر دیگر مغربی محققین کی کتب و رسائل کے حوالہ جات موجود ہیں۔ مثلا نقطہ۵۲۴ میں نجاشی کے نام مکتوب پر طویل مدلل گفتگو کے بعد غير مقنع نتیجے کی بابت لکھتے ہیں۔

“اس طرح ہم یہ نتیچہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اس دستاویز کی ثقاہت و حقانیت اور اصابت شک و شبہ کے ساے سے کبھی بالا نہیں ہو پاے گی، بلکل اسی طرح اس دستاویز کے متعلق اٹھاے جانے والے جملہ اعتراضات بھی جو اسے مشتبہ قرار دیتے ہیں قابل یقین و تسلیم نہیں۔

اسطرح کی مدلل علمی بحث، تنقیدی تقابل اور علمی دیانت آپکو اسلامی تاریخ کی  بیشتر کتب میں شاذ و نادر ہی مل سکے۔  اس کتاب کے ابواب مندرجہ زیل ہیں۔

پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کیوں کیا جاۓ ؟
مادری اور بنیادی زرائع
احول اور حالات 
مقام کا انتخاب
مکہ کا بحیثیت مرکز کا انتخاب
اعلیٰ خدائی مشن کے لیے محمّد صلی الله علیہ وسلم کا انتخاب
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے آباءو اجداد 
حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش
یتیم اپنے چچا کے گھر میں
حرف فجار اور حرف الفضول
آزادی کی زندگی 
شادی اور خاندانی زندگی 
مذہبی ضمیر کی بیداری 
مشن کا آغاز 
الله تعالیٰ کے پیغام کی تبلیغ و اشاعت
ہجرت حبشہ 
معاشرتی بائیکاٹ 
جاۓ پناہ کی تلاش
معراج اور معجزات
مدینہ میں اشاعت اسلام
اسلام میں خواتین کا کردار قبل ازہجرت 
مدینہ میں ابتدائی اقدامات
قومی شیرازہ بندی
آئین ریاست
قریش مکّہ کے ساتھ تعلقات
احا بیش قبائل
حبشہ سے تعلقات 
نجاشی کے نام آنحضور صلی الله علیہ وسلم کا اصل مکتوب 
مصر کے ساتھہ تعلقات
مقوقس کے نام اصل خط
بازلطینی سلطنت کےساتھہتعلقات 
ہرقل کے نام اصل خط
ایران سے تعلقات
کسریٰ کے نام آنحضور صلی الله علیہ وسلم کا اصل خط
ایرانی مقبوضات کےساتھہ تعلقات 
المنزر کے نام آنحضور صلی الله علیہ وسلمکا نامہ مبارک 
عرب میں دیگر ایرانی مقبوضات
شاہان عمان، حیفر اور عبد کے نام رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے نامہ مبارک کا اصل مسودہ 
خطہ کے عرب قبائل
سفیر بینظیر عمرو ابن امیہ رضی الله تعالیٰ عنہ
دوسرے عرب قبائل
قبیلہ ہوازن اور شہر طائف 
دوسرے قبائل
مشرکین کےساتھہاتحادی معاہدات کی تنسیخ
فتنہ ارتداد اور قبائل کی بغاوت
یہودیوں سے تعلقات
بیرون مدینہ کے یہودی
عیسایوں کےساتھہتعلقات
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور عیسائیت. قرآن کی روشنی میں
دیگر مذاہب
بنیاد سے وصال تک
ورق تمام ہوا،اور مدح باقی ہے

ان ابواب کے جملہ عنوانات سے واضع ہے کہ یہ کتاب سیاست امور خارجہ و سفارت کےابواب کو اسی طرح اہمیت سے پیش کرتی ہے جس طرح سے ثور و بدر کو۔ سیرت طیبہ کے ہر طالبعلم کے لئے اسکا مطالعہ نہائت اہمیت کا حامل ہے اللھم صل علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی اِبراھیم وعلٰی آل اِبراھیم اِنک حمید مجید ہ اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی اِبراھیم وعلٰی آل اِبراھیم انک حمید مجید ہ

Share

September 10, 2012

تخلیق، ایک جزو لاینفک

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 5:26 pm

ہم کو گھڑے گھڑائے نقلی آدمیوں کی ضرورت نہیں ہے جو کسی ادبی یا پیشہ ورانہ کم کے لائق ہو بلکہ کچھ ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو اپنی قوت ارادی کے بل پر کسی بھی کام میں ہاتھ ڈال سکتے ہوں دنیا میں جو بہترین کارنامے وقوع پذیر ہوئے. یعنی طباع و دراک لوگوں کے کارنامے. جن پر کبھی کوئی لاگت نہیں آئی. اور نہ ہی ان کی کبھی کوئی قیمت ادا کی گئی. اور نہ تو ان کے لئے کوئی مشقت اٹھائی گئی. بلکہ یہ تو فکر کے بے ساختہ دھارے ہیں. شیکسپیئر نے ہیلمٹ اتنی آسانی سے لکھ ڈالا تھا، جتنی آسانی سے کوئی پرندہ اپنا گھونسلا بنا لیتا ہے. بڑی بڑی نظمیں بغیر کسی توجہ کے سوتے جاگتے لکھی گئی ہیں. عظیم مصوروں نے حصول مسرت کے لئے تصویریں بنائیں اور انہیں یہ خبر تک نہ ہی کہ ان کی شخصیت نے”خبر” کو جنم دیا ہے. و گرنہ شاید وہ اس سوجھ بوجھ کے ساتھ ایسی تصویریں ہر گز نہ بنا پاتے عظیم شعراء نے بھی اپنے نغمات کچھ اس طرح تخلیق کئے. یہ تخلیق نفیس و لطیف قوتوں کی بڑی حسین شگفتگی ہے. فرانسیسی خواتین کے خطوط کے بارے میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ یہ خطوط ان کے دلربا وجود کا دلربا حادثہ ہیں.ایک شاعر اپنے نغمات کے حق میں کبھی مفلس نہیں ہوتا. ماحول میں جب تک عمدہ اور آزادانہ نہ ہو کوئی گیت، گیت نہیں ہوتا. میں نے آج تک کوئی ایسا مغنی نہیں دیکھا جو فرض سمجھ کر گاتا ہو. یا دیگر راہیں مسدود پا کر مجبوراً گاتا ہو. نیند تو صرف انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو سونے کے لئے بیتاب نہ ہوں اور بلاشبہ وہی لوگ بہتر طور پر لکھ یا بول سکتے ہیں، جو لکھنے یا بولنے کے لئے خواہ مخواہ فکر مند نہ رہتے ہوں. مقام فضلیت”آموزوں” کو ہی حاصل ہوا کرتا ہے

ایمرسن – ترجمہ پروفیسر وقار عظیم

Share

September 2, 2012

کون ہے جان گالٹ، سوز درون کائنات؟

Filed under: ادبیات,سیاست,مذہب — ابو عزام @ 8:03 am

دروغ برگردن راوی پر کسی نے آئن رینڈ سے پوچھا کہ آپکی تصنیف آیٹلس شرگڈ بارہ سو صفحات کی ایک نہائت ضخیم کتاب ہے، آپ نے اس کو کبھی مختصر کرنے کا  سوچا؟ انسانی انفرادیت و آزادی کی طاقت اور جاہ حشمت کی نام نہاد علمبردار نے نہائت نخوت سے جواب دیا، کیا کبھی کسی نے یہ کہا ہے کہ انجیل ایک طویل کتاب ہے  اور اسکو مختصر ہونا چاہیے؟

تخلیقی انفرادیت کے لبادے میں چھپا کر جس بنیاد پرست انفرادیت کو آئن رینڈ ہوا دیتی نظر آتی ہے وہی ہمیں نطشے کے اوبیرمنش فوق البشر میں نظر آتا ہے سواے اسکے کہ یہاں اسکی اخلاقی قراردادو قابلیت کچھ اختیاری سی معلوم ہوتی ہے ۔سرمایہ دارانہ نظام اور انفرادیت کی اخلاقیات کا وہ علمبردار، کلاسیکی ادب میں دانتے و ملٹن و گوئٹے کے تصور ابلیس سے کچھ خاص مختلف نہیں، لیکن اس تفاوت کی صحیح توضیح و فرق ہمیں اقبال کے سوز درون کائنات ‘ابلیس’ اور مرد مومن کے  تجرباتی و متحرک کردار میں ہی صحیح طور پر عیاں نظر آتی ہے کہ ۔

می تپداز سوزِ من ، خونِ رگ کائنات
من بہ دو صرصرم ، من بہ غو تندرم

فکر نطشے کی طرح رینڈین ہیرو و ولن کا تصوربھی ان تخیلاتی سریع الفکر، صحیح النظر اور صائب الرائے افراد کے گرد اسی طرح مطوف ہے کہ سرحد ابلیس و یزداں  کا کوئ وجود نہیں۔ اقبال کے مرد مومن و ابلیس میں لیکن یہ خط تفریق نہائت عمدگی سے بنائ گئ ہے

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

کہ  جذبہ مسابقت و فوقیت  کی حدود پال ریان کے جاب کریٹرزسے ما سوا ہوں۔ افسوس یہ کہ ساری عمر معاشرتی زندگی و اشتراکی فوائد کے خلاف جنگ کرتی یہ مضطرب العقل خاتون جب خود پھیپڑوں کے سرطان میں مبتلا ہوئ تو سوشل سیکیورٹی لینے میں کچھ عار نا محسوس کی۔

بس یہی جان گالٹ موجودہ ریپبلکن پارٹی اور لبرٹیرنزم کی سوچ کا مختصر نوحہ ہے۔

Share

August 10, 2012

دیسی لبرل کا تضاد، ایک خط

Filed under: ادبیات,طنزومزاح — ابو عزام @ 7:43 pm

برادرم ابوعزام

آداب و تسلیمات

آپ کا پچھلا خط ملا، پڑھ کر دل باغ باغ ہوگیا، کیاکہنا ایسی آزادانہ فصاحت و بلاغت کا، قربان جائیے۔ قبلہ پاپوش میں لگائ کرن آفتاب کی، آپ کے علم وہنر  کے تو ہم قتیل ٹھرے، مگر بس یہ بات ہمارے درمیان ہی رہےکہ مسلک ہاے دیسی لبرلیت میں تعقل مستعار کی انفرادیت صرف مغربانہ گردانوں سے ثابت ہوتی ہے، اپنے علما وفضلا و فصحا تحصیل علم و ہنر میں اپنی زندگیاں کھپا بیٹھے، ہم نے کبھی غلطی سے بھی نا سوچا کہ انکے افکار و تشریحات کا مطالعہ کریں، ان کو سمجھے خدا کرے کوئ، تپائ پر کتاب فرقان دھری ہو اور قران کا کا مہینہ گذر جاے پر ہمارے لیے تو بس ڈاکنس کا سہارا کافی ہے باقی تو پی ٹی آی کےجلسے کے شرکا سے ذہنی ہم آہنگی بڑی ضروری ٹھری کہ کیا خوب کہا تاباں نے

یا تنگ نہ کر ناصح ناداں، مجھے اتنا
یا چل کے دکھا دے ، دہن ایسا، کمر ایسی

ارے قبلہ، ایک بات لطیفے کی سنیں۔ حال ہی میں پتا چلا کہ مملکت خداداد میں ایک فرد نے پانی نے گاڑی چلانے کا دعوی کیا۔ ہونا کیا تھا، خوب گھمسان پڑا، سائنسدانوں کو راے زنی کے لئے بلایا گیا اور انہوں نے عرض کی کہ یہ طبعیات کے قوانین کے ٘قطعی مخالف بات ہے، اور توانائ کے تحفظ کا قانون اس  بات کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔ ہر ایک نے ان صاحب علم افراد کی باتوں کو غور سے سنا اور تسلیم کیا، کسی اینکر و تبصرہ نگار نے یہ کہنے کی کوشش نا کی کہ جناب عالی، سائنس اور اسکے قوانین  تو یہ ہیں لیکن میں ان سے متفق نہیں۔ میری راے میں حر حرکیات کے پہلے قانون کا ڈیلٹا درحقیقت ڈفرینشیل نہیں، بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اینٹروپی کا گھٹنا بڑھنا ایک تمثیلی شے ہے، اس کی توجیح یوں کی جا سکتی ہے کہ ۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ تذبذب شائد اس لئے کیونکہ سائنس کے علما، جنہوں نے اس علم میں اپنی عمر لگائ اور ان تمام قوانین کو سمجھا اور اس کے بعد قانون کا اس خاص مسئلے پر اطلاق بتلایا کی راے موجود ہے، اب اس کے خلاف کرنے والا اپنے  آپ کو نکو بنوانے کے سوا کچھ اور حاصل نا کرے گا کہ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں۔

لیکن حضرت، یہ سن کر آپکو چنداں حیرت نا ہو کہ ہماری جماعت دیسی لبرلین کی دانست میں دین کا معاملہ بلکل اس کے برعکس ہے۔ ہمارا مسلک تو یہ ہے برادرم موجد باب فصاحت، کہ ہر دینی و فقہی مسئلے پر ہر فرد کو، چاہے کتنا ہی کم علم کیوں نا ہو، اظہار راے کی کھلی چھٹی حاصل ہے، روایت و درایت کا کیا لحاظ اور تقدیم و تاخیرکا کیا بھروسہ۔آپ کے پاس ایک عدد آی فون ہونا چاہیے۔ اسلامی حکومت، اخلاقی قدریں، معیشیت و معاشرت سے لے کر علم حدیث،  فقہ اور  منطق تک کے دقیق مسائل پر لبرلی ٹوئٹوں کا انبار لگانا ہو تو ہم گوگلی علم و ہنر کے ہرکارے حاضر ہیں۔ یعنی کہ محترم، آپ اسے تضاد کیوں سمجھے، یہ تو عین حق ہے، کچھ حاسدین اسے دوغلے پن سے تعبیر کرتے ہیں، انکی ذرا نا سنیں، غالب برا نا مان جو واعظ برا کہے، ہنہہ، بھلا بتائیں، ہم تو اسی دعوے سے کہتے ہیں اس کا اگلا مصرعہ ہے کہ  کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا ۔دیسی لبرل گیم بک کا کہنا ہے جب کوئ تہمت منافقت لگاے تو فورا بات فرقہ بندی، مسالک ومذاہب کے اختلافات پر ڈال دی جاے کیونکہ جناب، سب بولئن والے جانتے ہیں کہ دو غلط جمع ہوں تو بات صحیح ہو جاتی ہے۔

سائنس کے قانون پر بات کرنے سے ہر ایک ڈرتا ہے لیکن خدا کے قانون کے لئے ہر ایک کے پاس واثق راے موجود ہے۔

۔خط تو بڑی محبت اور ارادت کا لکھا ہے،  ساتھ ہی ایک حسب حال ‘م‘ بھی منسلک ہے، دیکھیں آپ کا کیا مدعا بنتا ہے

نیازمند

ایک دیسی لبرل

Share

July 7, 2012

فارنہائٹ 451 از رے بریڈبیری

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 3:08 pm

رے بریڈ بیری کی کتاب حالانکہ فارنہاٹٹ ۴۵۱  میری باون ہفتوں میں باون کتابوں کی فہرست میں موجود نہیں لیکن پھر بھی اس پر مختصر تبصرہ اس لئے ضروری سمجھا کیونکہ رے بریڈ  بیری کی حال میں ہی وفات ہوئی ہے اور انکی یہ کتاب ماضی میں میرے زیر مطالعہ رہی ہے۔ ان کی دو کتابیں  فارنہائٹ۴۵۱ اور مارشین کرانکل سائنس فکشن اورسماجی تبصرہ نگاری میں خاصی اہمیت کی حامل ہیں۔

فارنہایٹ ۴۵۱ رے بریڈبیری کیے طرز تحریر کی نمائندہ تصنیف ہے جو 1953 میں لکھی گئی لیکن آج کے ۲۴ گھنٹے کے میڈیا دور میں خصوصا بڑی اہم اہمیت کی حامل ہے۔ اس کتاب کو سائنس  فکشن کے ساتھ مستقبل کی سوشل کامینٹری یا معاشرتی تجزیے کا بہترین امتزاج کہا جا سکتا ہے۔ رے بریڈ بیری نے اس کہانی کا پلاٹ سائنس فکشن، تاریخ، معاشرتی رجحانات کو ایک فیوچریسٹک یا مستقبل کےایسے معاشرے میں قائم کیا ہے جہاں پر لوگ کتابیں نہیں پڑھتے بلکہ ٹی وی اور ریڈیو کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں کتابیں پڑھنا جرم  ہے اور حکومت وقت کی جانب سے حکم ہے کہ ہر کتاب کو اسکے پاے جانے کے ۲۴ گھنٹوں کے اندر جلا دیا جاے۔ لیکن یہ رجحان عوام الناس میں کچھ اسطرح سرائیت کر گیا ہے کہ اب وہ بھی کتابوں کو اپنا دشمن گردانتے ہیں۔

 جس طرح جارج ارویل کی ائنیمل فارم اور ۱۹۸۴  تمثیلی انداز میں معاشرتی برائیوں کے بخیے ادھیڑتی نظر آتی ہے،اسی طرح فارنہاٹٹ ۴۵۱ بھی کسی زندہ معاشرے میں کتاب کی اہمیت پر ایک اہم تصنیف ہے۔ اس کتاب کی وجہ تسمیہ اس درجہ حرارت کی نسبت ہے جس پر کاغذ بھڑک اٹھتا ہے۔ فارنہایٹ ۴۵۱  کا مرکزی خیال ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں کتابوں کو جلا  دیا جاتا ہے اور اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس معاشرے میں باغیانہ خیالات یا ایسے افکار جو عمومی راے سے ہٹ کر ہوں انہیں پنپنے کا موقع نا ملے۔ نیز ایسے افکار جو ریاست کی سوچ سے  متضادانہ روش کے حامل ہوں انہیں کتابوں اور دانشورانہ گفتگو کی مدد سے پروان نہ چڑھنے دیا جاۓ بلکہ انکو وہیں پردبا دیا جاۓ۔ اس آتش زنی کے ذریعےباغیانہ رویے کو روکا جاۓ اور لوگوں کی سوچ پر لا محالہ اسطرح سے پہرے بٹھاے جائیں کہ نئے افکار پھلنے پھولنے سےرک جائیں۔ جب لوگوں کا کتاب پڑھنے، دانشورانہ گفتگو و تبادلہ خیال کا موقع نہ دیا جاے گا تو لازما انکی آزادانہ سوچ کا راستہ رک جاۓ گا. یہ کتاب ایک فکری تجربہ ہے اس بات کا کہ کتابوں کو جلانے سے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

 زیر تبصرہ کتاب کا مرکزی کردار مونٹاگ ایک فائرمین  ہے جوآگ کے محکمے میں کام کرتا ہےاور اس کا کام ہے کہ وہ کتابوں کو آگ لگاے۔ مستقبل کے ایک امریکی شہر کے گرد گھومتی یہ کتاب متضادات سے تعلق رکھتی ہے۔ یہاں فائر مین کا کام یہ ہے کہ وہ آگ لگاۓ،  بجاۓ اس کے کہ وہ آگ بجھاۓ، اس معاشرے کا حال یہ ہے کہ اس میں لوگ کتابیں نہیں پڑھتے ، نہ وہ فطرت سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور نہ قدرتی مناظرسے حظ اٹھاتے ہیں۔ نہ ہی وہ سوچ و بچار میں وقت صرف کرتے ہیں اور نہ ہی  آزادانہ سوچ کے حامل  ہیں۔ انکی پسند ہے تیز گاڑیاں،  ٹیلیویژن دیکھنااور ریڈیو سننا۔ مصنف ہیڈ فون کی طرز کے آلے کو گھونگے کے خول کا ریڈیو کہتے ہیں، واضع رہے کہ یہ کتاب  1953میں لکھی گئی تھی جب تک آی پاڈ اور والک مین  کا وجود نا تھا۔ یہ کتاب بہت پہلے لکھی گئی ہے لیکن اگر سوچیں تو اس میں سے بہت ساری باتیں آج سچ ثابت ہوتی ہیں کہ کتنے فیصدی لوگ آج کتابیں پڑھتے ہیں اور اسکی بنسبت کتنے لوگ ٹی وی دیکھتے ہیں یا ریڈیو سنتے ہیں۔ لہذا بنیادی طور پر جس مستقبل کے بارے میں رے بریڈ بیری نے یہاں بات کی ہے وہ ١٩٥٣ میں جب یہ کتاب لکھی گئی تھی اس وقت خلائی اور افسانوی بات تھی لیکن اب 2012  میں یہ بات بہت حد تک درست ثابت ہوچکی ہے۔

 گاے مونٹاگ کا مرکزی کردار اپنی بیوی کی خودکشی کی کوشش پر دلشکستہ ہے جو زندگی کی یکسانیت اور عامیانہ پن سے تنگ آکر خودکشی کرنا چاہتی ہے۔  وہ اس کے بعد ایک خاتون کلیرس  مکلین سے ملتا ہے جو خاصی زندہ دل ہے اور اس کے سوالات زیادہ تر کیوں کے بارے میں ہوتے ہیں کہ کہ  کیسے۔ اس تجسس کی پڑیا سے ملاقات سے مونٹاگ کے دل میں بھی زندگی کو مکمل طور پر جینے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے اور اسے بھی بہت سی چیزوں سے تجسّس آمیز رشتہ جوڑنے کا موقع ملتا ہے۔ اسی دوران اسے کتابیں پڑھنے کا شوق چراتا ہے اور پھر ایک دن جب وہ اپنے کام پر نہیں جاتا تو اس کا باس جو کہ کتابوں کا دانشوارانہ انداز میں نہایت سخت مخالف ہے، اس کے گھر آکر اس سے کہتا ہے کہ اگر تمہیں یہ  کتابیں پڑھنی ہیں تو تمہارے پاس چوبیس گھنٹوں کا وقت ہے۔ اس دوران وہ کتاب کی مخالفت میں اور کتاب جلانے کی حمایت میں ایک لمبی سی تقریر کرتا ہے جو کہ لائق مطالعہ ہے۔ اس کے بعد مونٹاگ 24 گھنٹوں میں بہت سی کتابیں پڑھنے کی کوشش شروع کرتا ہے اور جب مطالعہ میں بیوی کی مدد طلب کرتا ہے تو اسکی بیوی ٹکا سا جواب دیتے ہوے کہتی ہے کہ تمہیں یہ کتابیں پڑھنے کی کیا ضرورت ہے، ٹی وی دیکھو جو زیادہ مزیدارکام ہے۔اس اثنا میں اسکی ملاقات انگریزی کے پروفیسر فیبر سے ہوتی ہےجو اسے سمجھاتا ہے کہ کتاب کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے ایک ماحول درکار ہوتا ہے۔ تمہارے پاس کتابیں سمجھنے اور اس سے جو آگاہی حاصل ہو اس پہ عمل کرنے کا اختیار موجود ہونا چاہیے ۔انفرادی طور پر سوچنے   کی آزادی اگر موجود ہو تو  کتابیں فائدہ مند ہوتی ہیں۔خالی رٹو طوطے کی طرح پڑھنے سے کچھ خاص فائدہ نہیں مل سکتا۔ اس کے بعد کہانی مونٹاگ کی آگہی، اس کے ارباب اختیار سے ٹکراو اور بلاخر اس کے مجرم ٹھرنے پر منتج ہوتی ہے۔ مونٹاگ کی کتب بینوں اور دانشور گروہ کی تلاش، نیوکلائ ہتھیاروں کی مخالفت اور معاشرے کی ازسر نو تشکیل اس تصنیف کے اہم پہلو ہیں۔ اس دوران کئی سائنسی ایجادات کے روز مرہ استعمال کا تذکرہ ہے اور راقم کا غالب گمان ہے کہ اس پر تجسس ناول کا  مطالعہ آپ کو قطعی طور پر بور نا ہونے دے گا، لیکن ہوسکتا ہےکہ یہ مختصر جائزہ آپ کو سلا دے 🙂

اس ناول کے مندرجہ بالا مختصر خلاصے سے اپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ رے بریڈبیری کے خیالات عام ڈگر سے ہٹ کر ہوا کرتے ہیں۔ مثلا  تعلیمی نظام کے بارے میں انکا نقطہ نظر یہ تھا۔

لائبریریوں نے مجھے پالا ہے. میں کالجوں اور یونیورسٹیوں پر یقین نہیں ہے. میں لائبریریوں پر یقین رکھتا ہوں کیونکہ زیادہ تر طالب علموں کے پاس پیسہ نہیں ہوتا. جب میں نے ہائی اسکول سے گریجویشن کیا، یہ کساد بازاری کا دور تھا اور ہمارے پاس بلکل پیسہ نہیں تھا. میں کالج جا نہیں سکتا تھا لہذا میں دس سال تک ہر ہفتے تین دن لائبرری جا کر تعلیم حاصل کرتا رہا۔

Share

June 4, 2012

معمول – اداس نسلیں از عبداللہ حسین سے ایک اقتباس

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 5:08 am

“وہ عظیم شخصیت جو جنم نہ لے سکیں. جنہیں گھر باہر کے’ روز مرہ کے چھوٹے بڑے کام کرنے پڑے ‘ جن کا وقت اسی طرح ضائع ہو گیا. ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ ضابطہ جو ہم نے اپنے اوپرعائد کر لیا ہے اور جس کے تحت ہم زندگی بسر کرتے ہیں کس کام کا ہے. حصول مسرت کا یہ معیار  جو ہم نے قائم کیا ہے یا جو قائم کیا کرایا ہمیں ملا ہے کس حد تک صحیح ہے. ہم جو اتنا دکھ سہتے ہیں’اتنی محنت کرتے ہیں’ اتنے جھوٹ بولتے ہیں’ اتنی چاہتیں اتنی حسرتیں دل میں دباۓ رکھتے ہیں’ اتنی طاقتور خواہشیں پوری نہی کر سکتے کہ دل و دماغ کے روگی ہوں جاتے ہیں’ اتنی اخلاقی قدروں کو سمیٹتے ہیں’ اتنی اخلاقی قدروں کو قربان کرتے ہیں…. وقت کی کمی کی وجہ سے ان لوگوں سے نہیں مل سکتے جن سے بہت ملنا چاہتے ہیں’ دوستی کرنا چاہتے ہیں یا ہمدردی کی توقع رکھتے ہیں یا ایسے لوگوں کو نہیں مل پاتے جن کو ہم نہیں جانتے لیکن جن سے مل لیتے تو بہت خوش ہوتے.ان جگہوں پر نہیں جا سکتے جن کا صرف نام سن رکھا ہے’ جو کچھ سوچتے ہیں کہہ نہیں سکتے’ جو کہتے ہیں کر نہیں سکتے’ قطعی طور پر برے آدمی سے قطع تعلق اور اچھے آدمی سے دوستی نہیں کر سکتے’ غرض یہ کہ کسی ڈھنگ سے بھی زندگی کو بہتر طور پر بسر نہیں کر سکتے حالانکہ ہم میں سے کتنے ہی ہیں جو وہ سب کرنا چاہتے ہیں جو نہیں کر سکتے اور وہ سب کچھ نہیں کرنا چاہتے جو کر رہے ہیں’ تو چاہنے اور کرنے میں یہ تضاد’ یہ بعد کیوں ہے؟ اور اس سے کیا حاصل ہے اور یہ مصنوعی ہے یا حقیقی؟کیا یہ سب کچھ جو ہم بھگتتے ہیں محض اس لئے ہے کہ ہم اپنے گھر کو’ جو چند دیواروں اور کھڑکیوں کا مجموعہ ہوتا ہے’ سلامت رکھنا چاہتے ہیں’ یا اپنے خاندان کو جو چند افراد پر مشتمل ہوتا ہے’ یکجا رکھنا چاہتے ہیں یا اپنی جائداد کو جس میں کھانا پکانے کے برتن’ کپڑے اور چند آسائش کی اشیاء ہوتی ہیں’ قبضے میں رکھنا چاہتے ہیں. کیا ہم اپنی شخصیت کو محض اس لئے نظر انداز کر دیتے ہیں کہ بنیادی ضرورتوں کو پورا کر سکیں’ اپنی علیحدگی’ اپنی انفرادیت کو محض اس لئے ضائع کردیتے ہیں کہ کمتر انسانی جذبوں کی تسکین کر سکیں. کیا ہمیں ادنیٰ اور اعلیٰ کا فرق معلوم ہے؟ کیا ہم مسرت کا مطلب جانتے ہیں’ علم اور جہالت میں کیا ہم تمیز کر سکتے ہیں؟ کیا ہم محض اس لئے اس قدیم’ انسان کش ضابطے کو برقرار رکھے ہوئے ہیں کہ اس سے شخصی غرور کو جلا ملتی ہے؟ کہ ہم اپنے حقیر گھروں اور خاندانوں میں ایک کھوکھلی’ مغرور اور محتاط زندگی بسر کرتے رہیں. یا وہ نوجوان’ جو ابھی زندگی میں قدم رکھ رہے ہیں’ اپنے مکان کو گرنے سے بچانے اور کنبے کو خوراک مہیا کرنے کی خاطر روزانہ زندگی کے چھوٹے موٹے کام کرتے رہیں اور خوشی کے بجاۓ غرور اور تنفر حاصل کریں. ائر پھر ہم میں سے چند ایک ان کاموں میں کمال حاصل کر لیں اور نمایاں مقام پر پہنچیں اور حاسدانہ عزت کی نگاہ سے دیکھے جائیں اور اس طرح زیادہ مغرور اور زیادہ ناخوش ہو جائیں اور اپنے ساتھی لوگوں میں گھلنے ملنے کی بجاۓ انہیں مرعوب کرنے کی طرف مائل ہوں اور بدلے میں ان سے حقارت حاصل کریں. عوامی زندگی کے یہ نمایاں لوگ’ سیاست دان اور تعلیمی اداروں کے سربراہ اور بڑی عدالتوں کے منصف’ ان کی زندگی بھر کی کمائی کیا ہے؟ حقارت اور عمومیت! کیا وہ بس ان دو چیزوں کے لئے ایک انتہائی مردہ دل اور پر کوفت زندگی بسر کرتے ہیں؟

 ” اگر ہم ایک اونچی چٹان پر اکیلے بیٹھ کر سوچیں تو ہمیں پتا چلے گا کہ خوشی تو ایک معمولی شے  ہے اور اسے حاصل کرنا تو بڑا آسان ہے’ یعنی آپ اسے محض چٹان پر چڑھ کر بھی حاصل کر سکتے ہیں جب کہ آپ تنہا ہیں اور آپ کے ساتھ آپ کی ساری شخصیت ہے ساری انفرادیت ہے’ آپکی عظمت اور نیکی اور عقل ہے اور آپ ہر لحاظ سے مکمل ہیں اور قطعی طور پر مطمئن اور خوش قسمت ہیں اور آپکو بھوک نہیں لگ رہی چناچہ آپ ابھی کچھ دیر اور یہاں رک سکتے ہیں اور زندگی کے عظیم مقدس مسائل پر’ محبت اور موت پر غور کر سکتے ہیں اور دیانت داری سے اپنی راۓ وضع کر سکتے ہیں. اس وقت آپ کے پاس وہ بیش بہا آزادی کا احساس ہوتا ہے جس کے لئے’ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے’ کہ ہم پیدا کئے گئے ہیں اور ہم سوچتے ہیں کہ تھوڑی دیر میں نیچے جائیں گے اور فلاں فلاں کام کرینگے یا نہیں کرینگے کہ ان کا کرنا نہ کرنا ہمارے اختیار میں ہے…..مگر خوفناک بات یہ ہے کہ جب ہم نیچے جاتے ہیں تو ایک ایک کر کے ساری چیزیں ساتھ چھوڑ جاتی ہیں اور آخیر میں ہماری وہی پرانی’ کمزور’ گمنام شخصیت رہ جاتی ہے جس کے سامنے روزانہ معمول کے ایسے کام ہوتے ہیں جو ہر حالت میں کرنا ہوتے ہیں اور اپنے معمولی پن کے باوجود ہمارے اختیار سے باہر ہوتے ہیں. اس طرح ہم آنا فانا عمومیت کے اس سمندر میں گم ہو جاتے ہیں اور ہجوم سے الگ ہماری کوئی شخصیت’ کوئی آزادی نہیں رہتی. ہم خوشی کے اس معیار کو بھی بھول جاتے ہیں جو کچھ دیر قبل ہم نے قائم کیا تھا’ اور ایک دوسری قسم کی مسرت’ جو تقابل اور کبر نفس سے پھوٹتی ہے’ ہم پر قبضہ کر لیتی ہے. یہ زندگی کی سفا کی کا ایک منظر ہے کہ ہم جانے بوجھے اور محسوس کیے بغیر’ تیزی کے ساتھ اعلیٰ سےادنیٰ کی طرف سفر کرتے ہیں..

 “تو کیا طمانیت اور عقل و دانش کی یہ قربانی جو دی جاتی ہے حق بجانب ہے؟ وہ بے پناہ جور وستم جو ہم جھیلتے ہیں’ کیا ہماری زندگی’ ساری انسانی زندگی اس قابل ہے کہ اس کے لئے اتنی دل شکنی قبول کی جاۓ’ بتاؤ کیا ساری انسانی زندگی کی کوئی وجہ ہے؟”

اداس نسلیں از عبداللہ حسین

Share

May 31, 2012

سفر حیات، اداس نسلیں از عبداللہ حسین سے ایک اقتباس

Filed under: ادبیات,کتابیات,مشاہدات — ابو عزام @ 1:31 am

ہم باتیں کرتے ہیں اور باتیں اور باتیں حتی کہ ایک روز بیٹھے بٹھاۓ ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ اس قدر بے سود ہے اور یہ احساس بڑا خوفناک ہوتا ہے. تمہیں کبھی ہوا ہے؟ اس کے باوجود ہم چلتے جاتے ہیں. منزل سے منزل کی طرف’ چہرے سے چہرے کی طرف ‘ بات سے بات کی طرف حتی کہ ہم تھک جاتے ہیں اور اداس ہو جاتے ہیں اور ہمارے دل سے امن غائب ہو جاتا ہے. پھر خاموش جنگلوں کی آرزو پیدا ہوتی ہے. تمہیں پتا ہے دل میں کسی آرزو کا پیدا ہونا سکون کے کھو جانے کی نشانی ہے؟ آرزو جو کبھی نہ کبھی حسرت بن جاتی ہے. خاموش جنگل اور ساتھی کے طور پر ایک گھوڑا یا کتا’ اور چمکدار موسم’ اور خیال آرائی’ تاکہ ہم چلے جائیں چلے جائیں اور بڑی بڑی عظیم مقدس باتوں کے بارے میں سوچیں . اس وقت ان بیشمار چھوٹی چھوٹی غیر ضروری باتوں کے لئے ہمارے دل میں نفرت پیدا ہو جاتی ہے جن میں ہم عمر بھر مصروف رہے اور ہم عظیم فکر کے لئے تڑپتے ہیں جو کبھی ہمارے ذہن میں پیدا نہ ہوئی. ایک وقت اتا ہے جب ماضی کی چھوٹی سے چھوٹی بات ہمیں اداس کر دیتی ہے. کوئی چہرہ’ کوئی لفظ’ کوئی پرانی دھن جو ہم نے کسی غیر آباد گلی میں سے گزرتے ہوئے دور سے سنی تھی. ہم اس بچے کی طرح محسوس کرتے ہیں جو ہر وقت رونے کے لئے تیار رہتا ہے..

دراصل ہم تھک چکے ہوتے ہیں’ اس مستقل عجلت سے جو ہماری زندگی میں راہ پا جاتی ہے’ جو مسلسل ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے پر مجبور کرتی ہے’ ان جگہوں پر لے جاتی ہے جہاں جا کر ہم کبھی خوش نہیں ہوتے. دراصل ہم محض اکتا چکے ہوتے ہیں’ عمر بھر سے جو ہم نے جہالت میں بسر کی’ وہ گئے گزرے زمانے جو ہم نے ضائع کر دیئے’ ہمارے خوف’ ہمارے جذبے’ ہماری اپنی جوانی اور بڑھاپا جو ہم نے بچوں کی طرح گزارا’ یا احمقوں کی طرح. اس وقت سڑک پر جاتی ہوئی ایک بس بھی ہمیں سارا وقت یاد دلا دیتی ہے کہ ہم ایک گاڑی کی طرح سرگرداں رہےجو اپنی لائنوں پر چلے جاتی ہے’ چلے جاتی ہے’ لائنیں جو اسے لئے جاتی ہیں’ پوچھے بغیر’ جانے بغیر’ پہچانے بغیر’ ہمیں ہانکا جاتا ہے’ ہم ہنکے جاتے ہیں. اپنی خوراک’ اپنی باتوں اور اپنے جذبوں کا بوجھ اٹھاۓ ہوئے. ہماری کتابیں’ ڈگریاں’ بہترین درزیوں کے ہاں کے سلے ہوئے سوٹ جن کا ذکر کرنے سے ہم کبھی نہیں چوکتے’ خوشنما رنگوں کی ٹائیاں’ ٹوپیاں اور خوشبوئیں جو ہم نے اعلیٰ درجے کی دوکان سے خریدیں’ سب کو کندھے پر لادے’ اپنی ساری امارت کو اٹھاۓ’ ہر قسم کے خیال کو قبول کرتے ہوئے….. خیال جو پڑاؤ سے پڑاؤ تک غائب ہو جاتا ہے…. کھاتے کھاتے اور کھاتے ہوئے’ اور باتیں کرتے ہوئے. باتیں؟ ان جگہوں کی جو ہم نے دیکھیں’ ان چیزوں کی جو ہماری ملکیت ہیں’ ہماری رائیں اور قیاس آرائیاں جن کا کوئی وجود نہیں ہوتا’ جو کسی کے لئے اہمیت نہیں رکھتیں’ ہمارے اپنے لئے بھی نہیں.. اس کے باوجود انہیں اخلاق اور توجہ کے ساتھ سنا جاتا ہے اور جواب میں جو کچھ کہا جاتا ہے اسے ہم توجہ اور اخلاق کے ساتھ نوٹ کرتے ہیں’ انہیں اہمیت دیئے بغیر’ ان کی پرواہ کئے بغیر.

تمہیں پتا ہے دنیا میں ہم کتنی نرمی’ کتنے اخلاق’ کتنی مکّاری سے ایک دوسرے کے ساتھ پیش آتے ہیں. ہم دنیا بھر کا سفر کرتے ہیں اور رائیں قائم کر لیتے ہیں اور پھر انہیں وقت گزارنے یا ایک دوسرے کو مرعوب کرنے کے لئے ہتھیاروں کے طور پر استعمال کرتے ہیں. اور ہماری رائیں کیا ہوتی ہیں؟ یہی کہ روضہ تاج محل خوبصورت عمارت ہے اور چین کے مجلسی حالات بہتر ہو رہے ہیں یا نہیں ہو رہے ہے اور دنیا میں اچھے شاعر پیدا ہونے بند ہو گئے ہیں. ہم انہیں بار بار دوہراتے ہیں حتی کہ اپنی تقریر میں ماہر ہو جاتے ہیں’ ٹورسٹ گائیڈ کی طرح. پھر ہم اس کا استعمال شروع کرتے ہیں. ہر ایک کے پاس اپنا اپنا سکہ بند طریقہ ہے’ برسوں کے تجربے اور مشق کے بعد اپنایا ہوا رویہ’ غیر شخصی سرسری پن’ یا محتاط’ شخصی اور منہمک رویہ. ہم بہر حال ہر منزل پر’ ہر طریقے سے اپنے آس پاس کے لوگوں کو ہم خیال بنانے کی’ دوسرے لفظوں میں انہیں مرعوب کرنے کی انتہائی جدوجہد کرتے ہیں’ ان کی کوئی پرواہ کئے بغیر’ اور مستقل یہ جانتے ہوئے کہ ہماری زرہ برابر پروا ان کو نہیں ہے. ہم اپنی زندگی کے خلا کو چھوٹی موٹی باتوں سے پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں’ گفتگو جو تسکین بخش بھی اتنی ہی ہوتی ہے جتنی کہ گمراہ کن. اور پھر وہ وقت آتا ہے’ وہ جو ہم تھک جاتے ہیں اور پیچھے رہ جاتے ہیں اور بس کا تیل ختم ہو جاتا ہے اور ہمارا سارا بوجھ سڑک کے کنارے بکھر جاتا ہے’ کچھ مردہ کچھ نیم مردہ’ اور دفعتا حقیقت ہمارے سامنے آجاتی ہے’ کہ یہ سب اس قدر بے سود تھا’ سب! کہ بلآخر ہم وہاں پہنچ گئے ہیں جہاں سکون نہیں ہے اور ہم واپس نہیں جا سکتے’ کہ جہاں محض نقصان عظیم کا احساس ہے’ کہ ہم پرانی بس کی طرح بدصورت اور بیکار ہیں اور ان چاہے’ ان جانے سڑک کے کنارے کھڑے ہیں’ بختاور ہیں تو توڑ پھوڑ کر دوبارہ ڈھالے جائیں گے’ بد بخت ہیں تو محض نظر انداز کر دیئے جائیں گے..

” اب ہم پریشان ہیں’ تنہائی کے خوف سے ہراساں ہیں’ تنہا ہیں’ بے حد تنہا ہیں. کیوں؟ کیا ہم صرف اس دن کے لی اتنی مدت سے رہنے آرہے تھے؟ ہمارا نصب العین’ ہمارے الفاظ’ احساسات’ جذبات’ وہ کام برسہا برس کی مشق سے جن میں ہم نے مہارت حاصل کی’ دور دراز کے سفر’ دوست’ فہم جو ہم نے تقریر اور میل جول کے زریعے تیز کیا’ ہماری ہر دلعزیزی جو ہمارے ارد گرد اور ساتھ ساتھ چلتی تھی’ سب ختم ہو گیا؟ کیوں؟ کیوں؟ اب ہم سوچنے سے قاصر ہیں کہ کبھی سوچ ہی نہیں پاۓ. پر ہم جانتے ہیں’ جیسا کے ہم کئی اور باتیں جانتے ہیں’ کہ ہم نے جس چیز کی تلاش کی اسے پایا اور جس کے لئے اب حیران پریشان کھڑے ہیں اس کی تلاش ہی میں کبھی نہ نکلے’ صاف سیڑھی بات ہے. چناچہ اب تم چین کی بنسری بجاؤ اور قناعت سے بیٹھ کر خاتمہ بالخیر کا انتظار کرو’ انتظار کرو اور نچلے بیٹھو’ نچلے بیٹھو کہ یہی اصل مقام ہے. پر چین کی بنسری بجاۓ نہی بجتی اور ہم انتظار نہی کر سکتے. ہم جانتے ہیں کہ جتنے بھی انہماک اور لاپروائی اور صبر کے ساتھ انتظار کریں جب موت آ ئےگی تو ہمیں پریشان کر دیگی’ جیسے کہ ہر کسی کو کر دیتی ہے. باوجود ساری باتوں کے’ جب یہ آتی ہے تو خوف زدہ کر دیتی ہے. زندگی میں پہلی بار ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں… ایک چمکیلی خوشگوار صبح کو اپنے بائیں باغ میں کھڑا خرگوشوں اور مرغیوں کو ناشتہ کھلا رہا ہوں. پرانا کڑوا تمباکو پی رہا ہوں اور اپنے پوتے پوتیوں کو سبزے پر کھیلتے کودتے دیکھ رہا ہوں. میری طبعیت میں ٹھہراؤ اور ربودگی آ چکی ہے اور میں سنبھل سنبھل کر اطمینان سے چلتا پھرتا ہوں. نوجوان آدمی کام پرجاتے ہوئے پاس سے گزرتے ہیں اور جھک کر سلام کرتے ہیں….. “قابل عزت بزرگ. سلیقے سے بسر کی ہوئی زندگی” وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں. پھر سامنے ایک اور چلا آتا ہے. ایک سفید سر والا دانا شخص’ چھڑی کے سہارے اپنے اپ کو سنبھالے’ وقار اور اطمینان کے ساتھ چلتا ہوا. نوجوان آدمی جھک کر سلام کرتے ہیں اور پہلی والی بات آپس میں دوہراتے ہیں. وہ اخلاق سے مسکرا کر جواب دیتاہے اور میرے سامنے آکر چند منٹ کے لئے رک جاتا ہے. ہم ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں اور موسم کے متعلق اظہار رائے کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی صحت کے متعلق پوچھ گچھ کرتے ہیں’ پھر خاموش ہو جاتے ہیں. اب کہنے کے لئے کچھ نہیں ہے. ساری باتیں اتنی غیر ضروری معلوم ہوتی ہیں. خرگوشوں کا ناشتہ اور چمکدار موسم اور دو خوشنما’ سجے سجاۓ بڈھے’ خالی الذہن اور مطمئن’ ایک دوسرے کے ڈھونگ کو جانتے ہوئے اور چھپائے ہوئے’ بلا وجہ نادم اور خوش مزاج ……. پھر وہی بات کرنے کے انداز میں کھنکارتا ہے اور محض ہاتھ سے سلام کر کے چلا جاتا ہے. میں پیچھے مڑ کر نہی دیکھتا لیکن میں جانتا ہوں اور ذہن کی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں. نہایت سلیقے سے خالی کی ہوئی ایک زندگی’ بے وجہ’ بے جواز.. جانتا ہوں کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے. ہم دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح سے جانتے ہیں پر کبھی تسلیم نہیں کرتے

اداس نسلیں از عبداللہ حسین

Share

May 28, 2012

اداس نسلیں از عبداللہ حسین

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 2:42 pm

کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں پڑھنے کے بعد آپ کو کم از کم اس صنف میں موجود دیگر کتب انکےآگے ہیچ لگنے لگتی ہیں، اپنی کم علمی کم مائگی کا احساس بڑھتا جاتا ہے کہ میاں، تم نے تو اس شہرہ آفاق ناول کو آج تک نہ پڑھا تھا اور بلاوجہ اردو ادب سے واقفیت کی ڈینگیں مارتے رہے وغیرہ وغیرہ۔ عبداللہ حسین کا ناول ‘اداس نسلیں’ بھی اسی قسم کی ایک نہایت اہم و دلچسپ کتاب ہے جو فکشن اور نان فکشن کے درمیانے احاطے میں با آسانی چہل قدمی کرتے ہوئے تین نسلوں کی سرگذشت سناتی ہے۔ ۱۹۶۳ میں چھپنے والے  اس ضخیم ناول کو اکثر برصغیر کے بٹوارے کی داستاں گردانا جاتا ہے لیکن پیش منظر میں بہت سے دیگر نہایت اہم موضوعات  زیر بحث رہے جن میں مقصد حیات، طبقاتی تقسیم، غربت و استحصال، سماجی اقدار، مذہب و کلچر کا آپسیں رشتہ، مذہب، الحاد اور عقل کے باہمی تعلق پر مکالمے شامل ہیں۔ اس کتاب کو سنگ میل پبلشرز نے شائع کیا ہے اور اسکا انگریزی ترجمہ بھی ویری نیشنز کے نام سے ایمزن پر دستیاب ہے جس کے بارے میں سننے میں آیا ہے کہ وہ ایک مبتدی کی ایک ماہر ہنر کے کام کو نقل کرنے کی کوشش ہے۔، واللہ عالم،

‘اداس نسلیں’ کا مرکزی کردار نعیم نامی ایک شخص ہے جس کی زندگی کے مختلف ادوار برصغیر کے مختلف سماجی میلانات اور سیاسی ادوارکے متوازی حرکت کرتے ہیں۔ گاوں کی سادہ محنت کش زندگی سے ہونے والی ابتدا، پھر مراعات یافتہ طبقے میں پلنا بڑھنا، گاوں کی زندگی میں واپسی، جنگ عظیم میں شرکت اور جنگ کی تمام ہولناکیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا، اور پھر رومانویت کی ایک داستان جس میں طبقاتی تقسیم زوروں پر دکھائ دیتی ہے۔ عبداللہ حسین نے سیاسی و سماجی بھول بھلیوں میں بھٹکتے اس شخص کی زندگی کے اتار چڑھاو سے ایک ایسی داستاں کا جال بنا ہے کہ جو قاری کو مستقل اپنے شکنجے میں جکڑے رکھتا ہے۔

یہ ناول ایک ‘ایپک’ داستاں ہے اور مہابھارت سے لے کر ہومر سے لے کر ایپک کی ایک خوبی اسکی طوالت ہوتی ہے۔ ۴۵۰ صفحات کی اس کتاب کو ایک کنٹیمپرری ایپک کہا جاسکتا ہے جس کے مصنف نے نا تو خود سے بٹوارہ دیکھا اور نا ہی انکی مادری زبان اردو ہے لیکن مکالمہ سازی، پلاٹ، کردار سازی اور قصہ گوئ میں عبداللہ حسین کو جو ملکہ حاصل ہے وہ عالمی ادب میں چیدہ چیدہ مصنفین کے پاس ہی نظر آتا ہے۔ لائف آف پائ کی تمثیل تو شائد مہمل ٹھرے لیکن ۱۷۷۶ کے ڈیوڈ میکیلگ بھی عبداللہ حسین سے تنوع سیکھ سکتے ہیں۔ دو کسانوں کی باہمی عامیانہ گفتگو ہو، نعیم اور انیس کا فلسفیانہ مکالمہ ہو، روشن علی آغا کی غدر میں سنہرے بالوں والے انگریز کو جان ہتیلی پر رکھ کر  بچانے کی لرزہ خیز کہانی ہو یا اینی بیسنٹ کا مجلس خدام ہند پر تبصرہ، مصنف نے اس خوبی سے ان تمام موضوعات کو ایک جامع ناول میں یکجا کیا ہے کہ ہر ایک کردار جدا بھی ہے اور بڑے کینوس کا حصہ بھی۔

یہ ناول اشفاق حسین کی طرح ‘پریچی’ نہیں، منٹو کی طرح ‘ایکسپلسٹ’ نہیں اور بانو قدسیہ کی طرح ‘انکلسوڈ’ نہیں۔ انگریزی کے اصطلاحات استعمال کرنے کی معذرت لیکن اداس نسلیں کے مصنف نے بھی اس امر میں کوئ شرم محسوس نا کی۔ مذہب و الحاد پر جس قسم کی عمیق و جداگانا بحث ہمیں انکے یہاں ملتی ہے اس کا عشر عشیر بھی آج کے ترقی پسند لٹریچر میں نظر نہیں آتا۔ عبداللہ حسین کے اس ناول نے جدید واقعہ گوئ کو درویش کے قصوں سے ملا کر ایک ایک نئی صنف کی بنیاد ڈالی ہے۔ ایک مچھیرے کی روداد پر لکھتے ہیں

. نیند پھر بھی نہ آئی. میں اٹھ کر چٹائی آگ کے قریب لے گیا. مگر چند ہی سانس لئے ہونگے کہ گرمی کی شدّت سے بلبلا اٹھا. اب میں اکڑوں بیٹھا تھا اور اپنی جسمانی حالت پر غور کر رہا تھا کہ سوچتے سوچتے مجھے ایک تجویز سوجھی. میں نے ٹوکری اٹھائی اور گندی مچھلیوں کو چن چن کر ایک طرف رکھا. “نیند تو آتی نہیں. آؤ تم سے گپیں ماریں. میں نے کہا اور ایک سڑی  ہوئی مچھلی اٹھائی. مچھلی کی باچھیں کھلی ہوئی تھی.

” میرا باپ زندہ ہوتا تو تمہیں مرنے سے پہلے ہی چھوڑ دیتا. لیکن میں تمہیں آسانی سے نہیں چھوڑنے کا کان کھول کر سن لو. میں نے کہا. “تم لکھ ہنسو’ لیکن تمہارے بچے اور دوسرے رشتہ دار تمہاری موت پر آنسو بہا رہے ہونگے.مچھلی اسی طرح ہنستی رہی. مجھے اس پر غصہ آگیا. ‘ تم سوتی نہیں؟ بے آرام جانور. تمھ مارے بھی ایک عرصہ ہو گیا پر بے دید آنکھیں اسی طرح کھلی ہیں. نہ خود سوتی ہیں نہ کسی کو سونے دیتی ہو لو…..’ یہ کہ کر میں نے اسے آگ میں اچھال دیا. تھوڑی ہی دیر میں خشک مچھلی تر ترا کر جلنے لگی. مگر اس کی آنکھیں اسی طرح کھلی تھی اور آگ میں پڑی ہوئی وہ ابھی تک ہنس رہی تھی. میں نے غصّے میں دوسری مچھلی کو بھی اٹھا کر آگ میں پھینکا. یہ مقابلتا سنجیدہ چہرے والی مچھلی تھی  لیکن یہ بھی جاگ رہی تھی. جلتی ہوئی مچھلی کی چربی کی بو ہر طرف پھیل رہی تھی جو کہ اگر تم نے کبھی سونگھی ہے بچو تو تمہیں پتا ہوگا کہ کافی اشتہاء آور ہوتی ہے مگر آدھی رات کے وقت میں نے زیادہ کھانا مناسب نہ سمھجا اور بھوک کو کسی اور وقت پر ٹال کر ایک اور مچھلی اٹھائی.
“تمہاری جلد بڑی خوبصورت اور نرم ہے. شاید کوئی گاہک مل جاۓ. تم آرام کرو.” یہ کہہ کر میں نے اسے ایک طرف رکھ دیا.
“یہ تجویز کارگر ثابت ہوئی اور کافی دیر تک اس کے ساتھ گپ شپ کرنے اور ناکارہ مچھلیوں کو جلانے کے بعد میں خود بخود سو گیا.

اور جلیانوالہ باغ کا سانحہ ایک عام فرد کی آنکھوں سے دیکھیں۔

“دروازے میں سے ابھی تک چلاتے ہوئے لوگ داخل ہو رہے تھے. مسلمان اپنے خدا اور مذہبی رہنماؤں کا نام لے کر اور ہندو اور سکھ اپنے اپنے خداؤں کو پکار پکار کر نعرے لگا رہے تھے. جب میں مڑا تو سب لوگ ایک سیاہ داڑھی والے شخص کی طرف دیکھ رہے تھے جو ایک اونچی جگہ پر کھڑا مجمعے کو چپ کرانے کے لیے ہاتھ پاؤں مر رہا تھا. اس کی داڑھی ہوا میں ہل رہی تھی لیکن وہ اپنی کوشش میں کچھ زیادہ کامیاب نہ رہا.دیکھتے ہی دیکھتے اس کے پیچھے ایک گورا نمودار ہوا جس نے فوجی افسروں کی وردی پہن رکھی تھی.اس نے دھکا دے کر کالی داڑھی والے کو نیچے گرا دیا اور اسی کی طرح ہاتھ ہلا ہلا کر کچھ کہنے لگا. ایک لمحے کے لیے خاموشی چھا گئ اور اس کی انتہائی غصیلی آواز ہمارے کانوں میں آئ. اس کی بات کسی کی سمجھ میں نہ آئی لیکن اسکی حرکات و سکنات سے ظاہر تھا کہ وہ ہمیں وہاں سے دفع ہو جانے کو کہہ رہا ہے. اچانک شور پھر بلند ہوا اور اسکی آواز دب گئی. ایک طرف سے کسی نے جوتا اتار کر اسکی طرف پھینکا. پھر ہر طرف سے جوتوں کی یلغار شروع ہوئی. ساتھ ساتھ مجمع مکمل حرکت میں تھا.کیونکہ اس دھکم پیل میں ایک جگہ روکنا سخت مشکل تھا. اب آس پاس سے ہزاروں نئے اور پرانے جوتے پھینکے جا رہے تھے اور ہوا میں جوتوں کی یلغار تھی جیسے دریا کی سطح پر سے مرغابیوں کی زار اڑ کر ایک لمحے کے لیے اندھیرا کر دیتی ہے……لیکن فوجی افسر کے ارد گرد کے لوگ ڈرے ہوئے چپ چاپ کھرے ہوئے تھے اور پیچھے سے آنے والے جوتے ان کے سروں پر گر رہے تھے. اس وقت میں نے ہوشیاری سے کام لے کر اپنے جوتے سنبھال کر رکھے کیونکہ  میرے پاس’ تم جانتے ہو بچوں کہ جوتوں کا صرف ایک ہی جوڑا ہے. جب جوتے ختم ہو گئے تو لوگوں نے اپنے کپڑے اتاراتار کر پھینکنے شروع کر دیئے. اب پگڑیوں ‘ قمیضوں اور بنیانوں کے گولوں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی اور جلد ہی آدھے سے زیادہ لوگ ننگے بدن ہو گئے بلکہ بعض تو بےحیائی سے کام لے کر سب کچھ ہی نکال کر پھرنے لگے. جب سب کچھ ختم ہو گیا تو صرف شور باقی رہ گیا جو کہ ہجوم اور وہ فوجی افسر مل کر مچا رہے تھے. اتنے میں میرے آگے کھڑا ہوا ایک شخص مڑا اور میری ٹوکری کی طرف بڑھا. میں پیچھے ہٹا تو عقب میں دس بارہ ہاتھوں نے ٹوکی گھسیٹ لی اور اس میں سے مچھلیاں اٹھا کر خونباز نظروں سے مجھے دیکھنے لگا. پھر پورے زور سے انہوں نے مچھلیاں ہزاروں انسانی سروں کے اوپر سے اس طرف کو پھینکیں. جن لوگوں پر وہ گریں انہوں نے اٹھا کر آگے پھینکیں’ پھر آگے’ اور آگے’ اور اسی طرح ایک مچھلی جا کر فوجی افسر کی آنکھوں کے درمیان لگی. اس نے وہیں پر اسے پکڑ لیا اور یل لحظے تک اسے دیکھتا رہا’ پر سر اٹھا لر مجمعے کو دیکھا’ پھر مچھلی کو ‘ پھر مجمعے کو. دفعتا اس نے مچھلی مچھلی سر سے بلند کی اور پوری طاقت سے اسے سامنے کھڑے شخص کے منہ پر کھینچ مارا. پھر اس نے بازو ہوا میں پھینکے اور پاگلوں کی طرح چیخ مار کر چلایا. اسی وقت گولی چلنی شروع ہوئی..

اس کتاب کو ختم کرنے میں وقت کی کم کی وجہ سے مجھے تقریبا ایک ہفتہ لگا۔ اگر آپ نے اردو ناول کے صف اول کی کتاب پڑھنی ہے تو اداس نسلیں آپ کی تپائ پر یقینا دھرا ہونا چاہیے۔

Share
« Newer PostsOlder Posts »

Powered by WordPress