جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، یہ مضمون بلاشبہ پطرس و یوسفی کی زمین میں لکھا گیا ہے لہذا اس کی تمام ارضی و سرقی خصوصیات محض اتفاقی نہیں ہیں اور نا ہی تمام کردارو واقعات مکمل طور پر فرضی ہیں،کسی بھی قسم کی اتفاقی مماثلت پر ادارہ مکمل طورپرذمہ دارہوگا۔
پچھلے زمانوں کے شاعر لوگ تو بلاوجہ بدنام تھے کہ ہر آنے جانے والے کو اپنا تازہ کلام سنانے کی کوشش کرنے کی بے جا تہمت اٹھاتے تھے، سچ پوچھیں تو آج کے اردو بلاگران اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ اب تو چرغ نیلوفری کی گردشوں نے برقی رابطوں کی ایسی زنجیر باندھ دی ہے کہ ادھر پکسلز کی سیاہی خشک نا ہوئی اور ادھر تبصرے کی طلب؛ چاروناچار بستر مرگ پر بھی ایک صاحب کو ٹویٹ کا جواب دیتے دیکھا اور لواحقین کو قلق ہونے لگا کہ سنبھالا نا ہو۔
بہرحال اسی زمن میں ہم نے اپنے دیرینہ دوست
راشد کامران سے تذکرہ کیا کہ ہر بڑے ادیب و مزاح نگار کا ایک مرزا نامی دوست ضرور ہوتا ہے، اور ہم اپنی بلاگیات کو نیویارک ٹایمزکے صفحہ اول پر نا پانے کا سبب اس بات کو گردانتے ہیں کہ ہمارا کوئی ہمدم دیرینہ با اسمِ مرزا نہیں۔ انہوں نے دبے لفظوں میں فنی خرابیوں اور معیار تحریرکی اہمیت پر کچھ کہنا چاہا ہی تھا کے ہم نے انہیں بپتسمے کی خوشخبری سناتے ہوئے بتایا کہ آج سے بلاگستان میں وہ ہمارے گمشدہ دوست ‘مرزا’ کے نام سے جانے پہچانے جایئں گے۔ (ہوشیار باش۔ اشتہار شور و غوغا – منادی کی جاتی ہے کہ ہماری تحریروں میں مرزا کی جو شدید کمی محسوس کی جارہی تھی وہ تمام ہوتی ہے)۔ یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا بات ہو رہی تھی اردو بلاگران دوستوں کی، خدا جھوٹ نا بلواے، اردو بلاگران سے دوستی کو جب تک لمبے لمبےتبصروں کے خون سے نا سینچا جائے وہ پروان نہیں چڑھتی۔ اب مرزا کو ہی لے لیں، ادھر تحریر لکھی نہیں ادھر اشاروں کنائوں میں تبصروں کی فرمائش شروع ۔ آر ایس ایس، ای میل اور چہرہ کتاب پر تشہیرکے بعد طبعیت معلوم کرنے کے بہانے فون کرکے فرمانے لگے، تمہارا انٹرنیٹ تو چل رہا ہے نا؟ یہ ٹایم وارنر والے نہیایت واہیات لوگ ہیں، میں نے سوچا کہ ذرا خیریت پوچھ لوں، صبح سے تمہارا آی پی نہیں نظر آیا، نا اینالیٹکس پر کوئی سرگرمی، کہیں دشمنوں کی طبعیت ناساز تو نہیں؟ ساتھ ہی دبے الفاظ میں دھمکی بھی دے دیں گے کہ ‘ اگرکہو تو کل کی ورلڈ کپ کے فاینل پر ناشتے کی دعوت کینسل کر دیتے ہیں’۔ اب یہ بھی کوئ شرافت ہے بھلا۔ بزبان پطرس ‘خدا کی قسم فرنگی بلاگران میں وہ شائستگی دیکھی ہے کہ عش عش کرتے لوٹ آئے ہیں۔ جوں ہی ان کی پوسٹ شایع ہوئ، گوگل آر ایس ایس نے کھڑے کھڑے ہی ایک ہلکی سی “ٹنگ” کردی ۔ ہم مصروف ہو گئے تو دو چاردن بعد اس نے بھی ایک نازک اور پاکیزہ آواز میں یاد دلادی – یاددہانی کی یاددہانی، تہذیب کی تہذیب۔ ہمارے بلاگر ہیں کہ راگ نہ سُر۔ نہ سر نہ پیر۔ تان پہ تان لگائے جاتے ہیں، بےتالے کہیں کے نہ موقع دیکھتے ہیں، نہ وقت پہچانتے ہیں، گل بازی کيے جاتے ہیں۔ گھمنڈ اس بات پر ہے کہ
وہب جلوی اسی ملک میں تو پیدا ہوا تھا’۔
گفت وشنید میں کوئی بھی مضمون ہو، کوئی محفل، ملاقات، اور داستاں انکے بلاگ کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں۔ ایک سے زائد جمع ہو جائیں تو کیا کہنے۔ پچھلےدنوں ایک جنازے کا ذکر ہے، مرزا کے ساتھ بیٹھے تھے کہ وہ تغیر میں آ کر کہنے لگے حال کی کیفیت ہے، بلاگ اتر رہا ہے۔ ہم نے سوچا کہ شائد مرحوم کو ممدوح بنانے کا نیک ارادہ ہے ورنہ انکی احتیاط کا یہ عالم ہے کہ جب تک چہلم نا ہوجائے مردے کے بارے میں کوئ اچھی بات نہیں کہتے۔ لہذا ڈرتے ڈرتے پوچھا، مرزا کس بارے میں ہے کچھ بتاو تو سہی، کہنے لگے ہمارا صریر خامہ ١٤.٤ باڈ کا موڈم ہے ۔ ابھی تو صرف ٹیگس اترے ہیں، کچھ بات واضع نہیں ہو رہی۔
موقع پر شریک پہلا درویش گویا ہوا ۔ ‘آپ نے مایکل پالن کو پڑھا، جدید کھانوں میں غذائیت پر۔۔۔’
مرزا۔ ‘بلکل بلکل، کل ہی اپنے آی پیڈ پر پڑھ رھا تھا۔ کیا غضب لکھتا ہے اور خصوصا آی پیڈ پرپڑھیں تو اوربھی اچھا لکھتا ہے، تحریر کی خوبیاں کھل کر سامنے آجاتی ہیں۔ میں نے اسی بات کا تذکرہ اپنے بلاگ پر اپنے پچھلے مضمون میں کیا تھا .۔۔’۔
اللہ کا بندہ دوسرا درویش- ‘کیا بات ہے جناب، اس پر مجھے اپنی جنوری کی بلاگ پوسٹ پر کیا جانے والا باتمیزتبصرہ یاد آگیا. ویسے یہ سب تو ولائت والے بھائی کی کرامات ہیں، جلنے والوں کا منہ کالا۔ ویسے کوئی کچھ بھی کہے ہم تو حقوق نسواں کے بڑے علمبردار ہیں, جگت بھائی…’
اسی اثنا میں مولانا نے میت کی مغفرت کے لئے دعا شروع کی تو ان کی گفتگودرمیان میں رہ گئی ۔ بعد ازاں ان گناہگار کانوں نے مرزا نے قبرستان میں وائ فائ کی عدم موجودگی کو صاحب لحد کی محرومی اور اس پرایک بلاگ داغنےکی قسم کھاتے سنا۔
بات تبصروں کی ہو رہی تھی۔ مرزا کے علاوہ بھی ہمارے بلاگر دوست ہیں جو اس معاملے میں خاصے شدت پسند واقع ہوئے ہیں۔ برادر ابوکامل کو مرزا داہنے بازو کا بلاگر گردانتے ہیں لیکن محترم عتیق شاز کا کہنا ہے کہ الٹا سیدھا سب کاربن کا مایا جال ہے۔ چاہے لوگ اسے دائیں بازو کی انتہا پسندی کہتے رہیں لیکن مرزا کے بقول ابوکامل کا کہنا ہے کہ انکے بلاگ پر جانتے بوجھتے تبصرہ نا کرنے والے کو احتیاطا نکاح دوبارہ پڑھوالینا چاہیے۔ اسی طرح اگر آپ شریف مصدر صاحب کے بلاگرانہ لطیفوں پر تحریری قہقہ نا لگائیں تو وہ مرنے مارنے پر تل آنے ہیں اور یاور گوہر کو آپکی ذات کے بارے میں جھوٹی خبریں دینے کی دھمکی دے ڈالتے ہیں جو کہ ہر شریف آدمی کہ لئے ایک لمحہ فکریہ ہے کیونکہ یاور گوہر کے بلاگ سے اگر حروف مغلظات نکال دیئے جائیں توصرف ہیڈراورفٹر باقی رہ جاتا ہے۔ باقی ایک اورمقابل بلاگر صاحب کے بارے میں مرزا کو یہ کہتے سنا ہے کہ تیشے بغیر مر نا سکا کوہکن اسد، اگر زرا انتظار کر لیتا تو میں تیشہ لے کر آ رہا تھا۔
بابائے بلاگران کے نام سے جانے جاتے ہمارے دوست ارتفاق امجد سرتال بھی اس معاملے میں کچھ پیچھے نہیں- مرزا کا کہنا کہ کہ سرتال صاحب کی مستقل رہائش صیغہ ماضی میں ہے۔ دروغ برگردن قاری، اس زمن میں سرتال صاحب یہ کہتے بھی پاے گئے ہیں کہ بقول یوسفی”یادش بخیر کی بھی ایک ہی رہی، اپنا تو عقیدہ ہے کہ جسے ماضی یاد نہیں آتا اس کی زندگی میں شائد کبھی کچھ ہوا ہی نا ہو لیکن چو اپنے ماضی کو یاد ہی نہیں کرنا چاھتا وہ یقینا لوفر رہا ہوگا’۔ یہ کہ کر انہوں نے ہماری طرف ایک معنی خیز نظر ڈالی اور دوبارہ یادش بخیر ڈزلڈوف کے مرغزاروں کی سیر کو نکل گئے جہاں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر بیوی اور شوہر کی لڑائوں کا بگ برادر براڈکاسٹ دیکھنے آیا کرتے تھے جس کی سرگذشت ہم آج بھی ان کے بلاگ پر پڑھتے ہیں اور سر دھنتے ہیں، مرزا کا۔
پچھلے دنوں مرزاکے گھر کھانے پر جانا ہوا تو وہ کچھ اکھڑے اکھڑے سے ملے۔ پوچھا کیا حال ہے تو کہنے لگے کہ ‘ارےمیاں دعوتیں تم یہاں اڑاتے ہو اور تبصرے کسی اور کے بلاگ پر۔ ہمارے لئے دو لفظی تبصرہ اور دوسروں کے لئے تبصروں میں پورا پورا بلاگ؟، آخری دعوت کی مرغی کی ٹانگیں تو حلال کی ہوتیں جو تم بلا ڈکار ہضم کر گئے’۔ ہم نےمودبانہ عرض کی کہ مرزا،’ تبصرے کی لمبائی تو کچھ موضوع مضمون پر منحصر ہے اور وہ تو پھر ایوارڈ یافتہ بلاگ ہے’ ۔ اس جواب پر بڑے جزبز ہوےاور ہمارے ہاتھ سے رکابی کھینچتے ہوے بولے کہ ‘اس بریانی کی مقدار کا بھی بلکل یہی عالم ہے۔ جاو جاکراپنے ایوارڈی عزیز ابوکامل کے ساتھ جا بیٹھو’۔ ہم نے بات سنبھالتے ہوے کہا کہ ‘ارے مرزا، آپ تو بلا وجہ ناراض ہوتے ہیں، کل یہ ایوارڈ آپکے پاس تھا، آج کسی اور کے پاس ہے تو کل پھر آجائے گا، آپکا بلاگ تو لاکھوں میں ایک ہے۔ ہم تو مبتدی ہیں، سوچتے ہیں کہ کہیں ہمارے تبصروں سے لوگوں کو ایسا نا لگے کہ اگر آپ کا مضمون ہماری سمجھ میں آگیا تو ضرور سطحی ہوگا’۔ یہ سن کر انکا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوا۔ اپنی رومانوی زبان بہاری میں گویا ہوئے کہ صبح سے موا انٹرنیٹوا خاصا سست ہے، زرا راوٹر کو ہلانا کہ کہیں کوئی تبصرہ پھنسا ہوا نا ہو۔
کچھ عرصے سے ہم جب بھی مرزا سے تحریر کی معنویت و گہرائ پر داد طلبی کا قصد کرتے ہیںوہ توکہنے لگتے ہیں کہ نیند نا آنے کی تشخیص کی صورت میں معالج آجکل تمہارے بلاگ کا مطالعہ تجویز کر رہے ہیں۔ راقم کی طبیعت یہ سن کر کچھ مردہ سی ہوگئی ہے لہذا اب ان تمام تجربوں کے بعد اب ہم نے بھی تہیہ کر لیا ہے کہ ایسے تمام طوطاچشم بلاگر دوستوں سے دور رہیں گے جو ہم سے فقط تبصروں کے لئے دوستیاں گانٹھتے ہیں اوراس برقی مایا جال سے دور سکون کی زندگی گذاریں گے ۔اب اپنی ہر نئی بلاگ پوسٹ کے بعد تبصروں کی ائی میل کے لئے اپنی کالی بیری کو راہ محبوب کی طرح تکنے کے بجاے صرف ہر دس منٹ بعد دیکھا کریں گے نیز ہوسٹنگ کمپنی کو ہر گھنٹے کال کر کر سروس کی کارکردگی اور اپ ٹایم بتانے پر مجبور نہیں کریں گے۔ آپ دیکھیں تو سہی،