فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

December 31, 2011

سال نو اور فیض

Filed under: ادبیات — ابو عزام @ 7:24 am

چند گھنٹے اور باقی ہیں اور پھر یہ برس بھی ہمارے گرد آلود کی روز میں مل کر خاک ہو جائے گا۔ شائد اسی وجہ سے اس دن کے لئے کوئی جذبہ دل میں محسوس نہیں ہوتا۔ نہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ جادہ وقت میں یہ دن کوئی اہم سنگ میل ہے، یہ دن ویسا ہی ہے جیسے جیل خانے کے باقی دن ہیں جن سے صرف اتنا اندازہ ہوتا ہے کہ پیمانہ عمر میں بے رونقی کی مہ ایک درجہ اور نیچے اتر آئی ہے۔ جب ساے ڈھلنے لگیں گے تو شائد یہ تاثر بدل جاے اور اس دن کی کچھ اسطرح شناخت ہو سکے کہ یہ آخری درد کے آخری سال کا آخری دن ہے۔ آخری درد اس لئے کہ ہر خوشی کی طرح ہر درد بھی اپنی جگہ آخری ہوتا ہے جو گذر جائے تو پھر پلٹ کر نہیں آتا، پھر یہ درد صرف یاد میں واپس آسکتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر درد کی یاد سے کچھ محسوس ہو، جیسے یہ ضروری نہیں کہ جو بھی خوشی یاد کی جائے اس سے راحت پہنچے۔

آج اک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے خیال
مد بھرا حرف کوئی، زھر بھرا حرف کوئی
دلنشیں حرف کوئی، قہر بھرا حرف کوئی

حرف نفرت کوئی، شمشیر غضب ہو جیسے
تاابد شہر ستم جس سے تباہ ہوجائیں۔
اتنا تاریک کہ شمشان کی شب ہو جیسے

لب پہ لاؤں تو مرے ہونٹ سیاہ جائیں۔

آج ہر سُر سے ہر اک راگ کا ناتا ٹوٹا
ڈھونڈتی پھرتی ہے مطرب کو پھر اُس کی آواز
جوششِ درد سے مجنوں کے گریباں کی طرح
چاک در چاک ہُوا آج ہر اک پردۂ ساز
آج ہر موجِ ہوا سے ہے سوالی خلقت
لا کوئی نغمہ، کوئی صَوت، تری عمر دراز
نوحۂ غم ہی سہی، شورِ شہادت ہی سہی
صورِ محشر ہی سہی، بانگِ قیامت ہی سہی

فیض احمد فیض

Share

December 30, 2011

وہ دن ہوا ہوئے

Filed under: ادبیات,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 12:17 pm

کرٹکل تھنکنگ بڑی بری بلا ہے کہ زندگی سے افسانویت اور واقعہ سے نقش خیال چھین لیتی ہے۔ اب حکایاتوں و کہانیوں سے مزا اٹھ سا گیا ہے کہ اگر منہ سے آگ اگلتے اژدھوں، بولتے مرغوں یا ڈاکٹر کی ممکنہ ندامت کے خوف سے غلط داڑھ نکلوا لینے والے نوابین کے حسن سلوک کے قصے سنتے ہیں تو فورا لیفٹ برین چلا اٹھتا ہے کہ لو جی یہ بھی بھلا کوئ بات ہوئ؟ جوے شیر کیا، سلوک کیا، منصور کی سولی کیا۔۔۔یہ استدلالی و عقلی و منطقی و پر مغز سوچ تجرید کا گلا کچھ اس طرح گھونٹنے لگتی ہے کہ تخلیقی فکر کا دم گھٹتا ہے۔

یادش بخیر کیا دن تھے کہ تجسس و تخیل کی اڑانیں غیر مقید ہوا کرتی تھیں۔ جب استفسار سے پہلے جواب معلوم ہونا تو درکنار، معلوم کی سرحد کی موجودگی ہی بے معنی تھی۔ جب منطق و استدلال نے گمان کے پر نا کترے تھے۔ جب اشیا میں نیا پن تھا اور چھنگلی کے کھودنے سے بونے نکل آیا کرتے تھے، جب ہر سفر، ہر عمارت، ہر پہاڑ اور ہر قریہ جدید و بے نظیر و تازہ دکھائ دیتا تھا، مماثل نہیں کہ بین دیر ڈن دیٹ کی مانند ہو۔

 اب تو بس سائنس، ترقی، ہایڈرالکس کے قوانین، حر حرکیات کے قوانین، اس کا نظریہ، اس کا قانون باقی رہ گئے ہیں۔۔۔ اس دنیا میں اب عمروعیار کی زنبیل کی کوئ جگہ نہیں، کسی کو عثمان جاہ کے انناسوں کے مرتبانوں سے، افراسیاب سے، صرصر سے، انکا و اقابلا سے کوئ التفات و تلمذ نہیں، ہاں بازرگانی ہے، سرقہ ہے، اور تجارت ہے کہ باقی سب تو لڑکپن کے کھیل ٹھرے، اذہان رشد و پختہ تو فقط استدلال سے کلام رکھتے ہیں۔

Share

December 18, 2011

انسٹنٹ سٹی از اسٹیو انسکی کا مختصر تعارف

Filed under: ادبیات,پاکستان — ابو عزام @ 11:55 am

این پی آر، پبلک ریڈیو اور بیرونی میڈیا کے سامعین کے لئے اسٹیو انسکی کا نام نیا نہیں۔ مارننگ شو جو امریکہ میں‌ سب سے زیادہ سننے والا خبروں‌ کا پروگرام ہے، اسکے کو ہوسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اسٹیو این پی آر کے مستقل معاون بھی ہیں۔ اسٹیو کی صحافتی زمہ داریوں میں‌افغانستان کی جنگ کی کوریج کے علاوہ پاکستان اور عراق کے اہم واقعات کی خبروں کو پیش کرنا شامل ہے۔ انہیں ‘افریقی تیل کی قیمت’ کے نام سے نایجیریا میں ہونے والے فسادات کے بارے میں ایک سیریز کرنے پر رابرٹ ایف کینیڈی ایوارڈ بھی دیا جاچکا ہے۔

انسٹنٹ سٹی یا فوری شہر نامی یہ تقریبا تین سو صفحات کی کتاب پینگوئن پبلشرز نے شائع کی ہے۔ کراچی کے بارے میں اسٹیو انسکی کی یہ تصنیف کسی لاعلم فرد کا ڈرائنگ روم سے لکھا گیا مکالمہ نہیں۔ مثل مشہور ہے کہ اکثر بہت قریب ہونے کی وجہ سے ہم وہ چیزیں نہیں دیکھ پاتےجس کو بیرونی رائے سے اجاگر کیا جا سکتا ہے۔تقریبا تیس صفحات پر ذرائع اور نوٹس کی شکل میں کتاب کے تمام مواد کے بارے میں تحقیقی معلومات اکھٹی کر دی گئی ہیں جن سے کتاب کی صداقت کو جانچا جا سکتا ہے۔ اس کتاب میں انسکی نے ایک تحقیقاتی صحافی کی طرح اپنے قلم کو زمینی حقائق سے قریب رکھتے ہوئے حالات و واقعات کے تانے بانے کچھ اس طرح سے بنے ہیں کہ یہ ایک بیزار کردینے والے مقالے کے بجائے ایک دلچسپ پیج ٹرنر وجود میں آگئی ہے۔

انسکی نے اس کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ جناح روڈ، مقامات، نیو کراچی اور تجدید کراچی جو کتاب کے مضمون و ترکیب کو بہت اچھے طریقے سے بیان کرتے ہیں۔ انسٹنٹ سٹی کل پندرہ ابواب پر مشتمل ہے جو پاکستان بننے سےلے کر آج کے کراچی تک کے مختلف ادوار کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس کتاب کو اینکڈوٹس کا ایک خوبصورت مجموعہ کہا جائے تو کچھ غلط نا ہوگا۔ تاریخ کے بیان کے باوجود یہ تاریخ کی کتاب نہیں، معاشی ناہمواریوں، فسادات و خونریزیوں کی داستانوں کے باوجود یہ سماجی تفسیر ہونے کا دعوی نہیں کرتی۔ اس کتاب میں ایدھی بھی ہیں اور ایوب خان بھی، شیعہ زائر محمد رضا زیدی بھی ہیں اور اردشیر کاوس جی بھی، سوات کا افریدی بھی اور مصطفی کمال بھی، جلتی ہوئی بولٹن مارکٹ بھی اور ستر کلفٹن بھی، لینڈ مافیا کے قصے بھی ۔ غرضیکہ کہ گٹر باغیچہ سے ڈریم ورلڈ کے درمیان بستے کراچی کی طرح یہ کتاب بھی بڑی مختلف النوع اور کوسموپولیٹن ہے۔

اس کتاب کا مرکزی خیال کراچی کے مسائل پر تحقیق اور اس کی دیرینہ وجوہات کی تلاش ہے۔ انسکی نےان مسائل کی بنیادی وجوہات کو مختلف نظریات سے جوڑنے کی کوشش کی ہے اور پڑھنے سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ ہر مسئلے کو تہ دل سے بنیادی مسئلہ سمجھتے رہے ہیں۔ انہیں بانی پاکستان سے شکایت ہے کہ انہوں نے دو قومی نظریے پر بننے والے ملک میں اقلیتوں کےلئے حقوق کا ایک واضع فریم ورک نہیں دیا جس کی وجہ سے کراچی جس میں آزادی کے وقت اقلیتوں کے تعداد اکیاون فیصد سے زیادہ تھی، آج ان کی املاک اور آبادی ایک مارجنالائز طبقہ بن کر رہ گئی ہے۔ انہیں ایوب خان سے شکایت ہے، کراچی کی بلا منصوبہ بندی بڑھنے سے شکایت ہے اور سب سے بڑھ کر عوام سے شکایت ہے کہ وہ وسیع ترین عوامی مفاد پر انفرادی مفادات کو کیوں ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن کراچی کے لوگوں میں ریزییلینس یا لچک و استحکام کو موضوع بحث رکھتے ہوئے اسٹیو ان مسائل و شکائتوں کو اس طرح الفاظ کے جامے میں‌‌ ڈھالتے ہیں کہ سرنگ کے دوسرے سرے پر روشنی صاف دکھائی دیتی ہے۔

اس کتاب کے کلف نوٹس یا خلاصہ نہایت مشکل امر ہے، آپ مصنف کی باتوں سے اختلاف کریں یا اتفاق، اسکی تحقیقی جانفشانی کی داد ضرور دیں گے۔ میں نے یہ کتاب لبرٹی پر دیکھی تھی، اگر موقع ملے تو ضرور پڑھئے اور اپنی رائے سے آگاہ کریں۔

Share

December 13, 2011

آج نہیں تو کبھی نہیں از بشیر جمعہ کا مختصر تعارف

Filed under: ادبیات,پاکستان — ابو عزام @ 7:08 am

 طارق روڈ پر واقع دارالسلام کے دفتر کے ایک تازہ چکر کے دوران ہم نے جہاں کئی دوسری کتابیں خریدیں وہاں محمد بشیر جمعہ صاحب کی

آج نہیں تو کبھی نہیں،
سستی کاہلی اور تن آسانی، تعارف وجوہات اور علاج

 کے نام سے موجود ایک کتاب بھی لے لی۔ اردو میں ٹائم مینیجمنٹ اور سیلف ہیلپ کی اچھی کتابیں‌ شاز و نادر ہی نظر آتی ہیں، انگریزی کتابوں کے تراجم البتہ مل جایا کرتے ہیں ۔ اس تقریبا ستر صفحات کی کتاب جسے کتابچہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا نے خاصا متاثر کیا۔ اپنی مدد آپ یا سیلف ہیلپ کی کتابوں کی طرز پر لکھی گئی یہ کتاب مختصر تجاویز، حکایات، عملی منصوبہ جات سے مزین ایک ورک بک ہے جو کہ تساہل کی کئی بنیادی وجوہات پر نا صرف روشنی ڈالتی ہے بلکہ اس سے نبرد آزما ہونے کے طریقے بھی بتاتی ہے۔

اس میں ایک پیراگراف بڑاحسب حال تھا، اقتباس کے لئے موزوں لگا لہذا درج زیل ہے۔

چونکہ ہماری قومی زندگی میں بنیادی فلسفے۔ تصور حیات، پالیسی، متعلقہ منصوبہ بندی اور افرادکار کے بہتر استعمال کی صلاحیت کی کمی ہے، لہذا قومی مزاج ہنگامی اور ایڈہاک ازم کا شکار ہوگیا ہے۔ حکومتیں‌اور ادارے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے اجتماعی قومی نقصان کو نظر انداز کرتے اہم اقدامات کرلیتے ہیں جو ان کے وجود کو فوری طور پر قائم رکھتے بحیثیت قوم ہم اپنی بنیادوں کو تباہ کر لیتے ہیں۔

 اس کتاب کی قیمت ستر روپے ہے۔ جن اصحاب کو ڈیوڈ ایلن کی گیٹنگ تھنگس ڈن پسند ہے انہیں یہ مختصر اور پر اثر کتابچہ ضرور پسند آئے گا۔

Share

November 24, 2011

چوتھی عالمی اردو کانفرنس

Filed under: ادبیات,پاکستان — ابو عزام @ 6:02 am

آج چوتھی عالمی اردو کانفرنس میں‌ امجد اسلام امجد، روف پاریکھ اور افتخار عارف اور دیگر کے مضامین، مقالاجات و خیالات سن کر بے حد مزا آیا ۔ غالب عہد آفرین، کل کانفرنس کا آخری دن ہے، کراچی آرٹس کونسل میں‌، ضرور شرکت کریں۔ کل مشتاق احمد یوسفی بھی موجود ہونگے۔ پراگرام اوقات کار مندرجہ ذیل ہے۔

Share

October 3, 2011

شہر فرشتگان میں انٹرنیشنل مشاعرہ

Filed under: ادبیات — ابو عزام @ 5:44 pm

کچھ اردو کے عقیدت مندوں، یا راشد بھائی کے بقول اعداء ریختہ نے براے انتقام انہی کے شہر میں‌ ایک انٹرنیشنل مشاعرے کا انتظام کیا ہے۔محترم کا کہنا ہے کہ نا تو تقدیم و تاخیر کا خیال رکھا جائے گا نا ہی نامی گرامی شعرا تشریف ہی لائیں گے۔ باقی جن کا اوزان سے وہی تعلق ہے جو مصحفی کی بکری کا کا ہوا کرتا تھا، بارے انکے خوشی سے مر نا جاتے والی نسبت ہی ٹھرئے گی۔ بہرطور، اردو کی محبت میں‌ہم آشفتہ سروں نے، وہ مشاعرے بھی نبھائے ہیں‌جو واجب بھی نہیں تھے کے مصداق حاضری تو ضروری ٹھری،راشد بھائی کو بھی کھینچ تان کر لے جائیں گے، بس بریانی اچھی ہونی چاہئے۔

مشاعرے کے بعد روداد سے آگاہ کریں‌ گے، یار زندہ صحبت باقی۔

روداد مشاعرہ قبل از مشاعرہ
روداد مشاعرہ قبل از مشاعرہ

 

 

 

Share

September 9, 2011

تجریدی خیال اور پکاسو

Filed under: ادبیات,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 7:06 am

سیتھ گوڈن کو دور جدید کا ڈیل کارنیگی قرار دیا جائےتو کچھ غلط نا ہوگا۔ان کی نئی ٹکنالوجی اور جدید کاروباری نظریات پر گہری نظر ہے جس کا اثر ان کی تحاریر میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ سیتھ ایک متاثر کن مصنف اور مقرر ہیں‌ جن  کی ندرت خیال اور صاف سیدھی بات کرنے کا ہنر انہیں دور جدید کے دیگر ‘بزنس آف سافٹویر’ اور مارکٹنگ کے مصنفین سے جدا کرتا ہے۔ ان کی ایک نئی کتاب ‘لنچ پن’ راقم کے زیر مطالعہ ہے جس میں‌ سے ایک مختصر اقتباس کا ترجمہ پیش کرتا ہوں۔ یہ پرسپشن یا کسی چیز کے حسی ادراک کے بارے میں ایک بڑا اثر انگیز نظریہ ہے ۔

ایک شخص اسپین میں‌ٹرین کے درجہ اول کے ڈبے میں سفر کر رہا تھا۔ ٹرین اپنی منزل مقصود کی طرف رواں دواں تھی کہ جب اس نے دیکھا کہ ڈبے میں اس کا ہمسفر کوئی اور نہیں مشہور زمانہ مصور پابلو پکاسو ہے۔ اس شخص نے اپنی تمام ہمت مجتمع کرتے ہوئے کہا کہ،

” محترم پکاسو، آپ ایک عظیم مصور ہیں۔ تو پھر آپ ایسی مخدوش و مسخ شدہ تصویریں‌ کیوں بناتے ہیں جن پر تحریف کا گمان ہوتا ہے۔ جدید آرٹ اتنا عجیب و غریب کیوں ہے؟ آپ صحیح طور پر حقیقی تصویریں کیوں نہیں بناتے؟”

پکاسو نے ایک لمحے کے سکوت کے بعد پوچھا، “تمہارا کیا خیال ہے، حقیقت کیسی ہوتی ہے؟”

اس شخص نے اپنے بٹوے سے بیوی کی تصویر نکالی اور کہا، “یہ دیکھئے، یہ میری اہلیہ ہیں “۔

پکاسو نے مسکرا کر کہا، “اچھا، یہ آپ کی اہلیہ تو بہت چھوٹی اور سپاٹ ہیں”۔

حقیقت اور اسکے مادی ادراک کی یہ ایک اچھی تمثیل ہے۔ سیتھ گوڈن کی کتاب یہاں سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

Share

January 28, 2011

بارے مستعار لی گئ کتابوں کا بیان – ایک مختصر فکاہیہ

Filed under: ادبیات,طنزومزاح — ابو عزام @ 9:00 pm

ہمارئے جامعہ کے ایک عزیز دوست ہر سوال اسی طرح شروع کیا کرتے تھے مثلا ایک دن پوچھنے لگے، تو کیا کہتے ہیں علمائے دین شرح متین بیچ مستعار لی گئی کتابوں کے مسئلے کے؟

جوابا عرض کی کہ قبلہ، ہمیں ان پاکیزہ ہستیوں کی رائے کا تو چنداں علم نہیں لیکن ہماری ناقص رائے سراسر اس مشہور مقولے پر مبنی ہے جس کے مطابق کتاب دینے والا بے وقوف اور لے کر واپس کرنے والا اس سے بڑا بے وقوف۔ یوسفی نے بھی منٹوانہ لہجے میں اس کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ‘کتاب خوبصورت بیوی کی طرح ہوتی ہے – دور سے کھڑے کھڑے داد دینے کے لئے، بغل میں دبا کر لے جانے کے لئے نہیں’ لیکن چونکہ آجکل آیکنوکلاسٹ ہونا تہذیب پسندی کی دلیل ٹہری، تو ان مقولہ جات کو بزبان فرنگ نمک کی چٹکی کے ساتھ لیا جائے۔

خیر، بات یہ ہو رہی تھی کہ ہمارئے تمام دوست کتابیں مستعار دینے کے بارئے میں‌بڑے سخی واقع ہوئے ہیں، انہوں نے خود کبھی یہ بات نہیں کہی لیکن چونکہ بزرگ خاموشی کو نیم رضامندی قرار دیتے ہیں، ان ‘ڈیمسلز ان ڈسٹریس’ پر تہمت سخاوت مہجور ہے۔ کچھ حاسد اسے لوگوں کی فطری شرافت سے فائدہ اٹھانا بھی کہتے ہیں لیکن کراچی کے بیلٹ بکس کی طرح گمان غالب ہے کہ یہ تعداد اسٹیٹسٹکلی سگنیفکنٹ نہیں۔ اب برادرم بن یامین کو ہی دیکھیے، ان کے گھر ہم نے اپاچی لوسین کی دو عدد کاپیاں دیکھیں تو جھٹ مواخات کا تقاضہ یاد دلایا، اگلے ہفتے کتاب ڈاک سے وصول پائی۔ مرد اوقیانوسی کی یہی مثال بار بار برادرم راشد کامران کو دئے کر ان سے کتابیں مستعار لیتے ہیں۔ غالب گمان ہے کہ اسی وجہ سے وہ اب برقی کتب کے بڑے مداح ہوتے چلے ہیں۔

موئی برقی کتب، یہ بھی بڑی بلا ہے اور دور جدید کے فتنوں میں سے ایک فتنہ۔ اب کنڈل یا آئی پیڈ پر کوئی بھلا کیسے بتا سکتا ہے کہ بھلا آپ پارک کی بینچ پر بیٹھے ہکل بیری فن پڑھ رہے ہیں یا وصی شاہ کے الفاظ کا ملغوبہ، نسیم حجازی کی تاریخ دانی کے ڈالڈے پر سر دھن رہے ہیں یامیر کے آہو رم خوردہ کی وحشت سامانی پر تحقیق کا حق ادا کر رہے ہیں۔ بھلے زمانوں میں تو کتاب کی ضخامت اور جلد سے آدمی کے کردار اور چال چلن کا اندازہ لگا لیا جاتا تھا کہ حضرت کس قماش کے ہیں۔ میر امن کے مداح ہیں یا رجب علی سرور کی بناوٹی نثر کے اسیر۔نیک بیبیاں ‘پاکیزہ’ چھپا چھپا کر پڑھتی تھیں، اوروں کا کیا کہنا ہم نے خود سب رنگ ہاورڈ اینٹن کی کیلکلس اینڈ انالیٹکل جیومٹری میں چھپا کر پڑھے ہیں شائد اسی وجہ سے انٹیگرل نکالتے ہوئے ہمیں ہمیشہ الیاس سیتا پوری کی یاد آجاتی ہے۔ بہرحال اب اس ‘آئ دور’ میں عوام الناس کو یہ بتانے کے لئے کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں بلاوجہ زور زور سے کہنا پڑتا ہے کہ ‘ ارے میاں شیکسپیر ، تم کس قدر مزاحیہ ہو اتنا نا ہنسایا کرو ، ہا ہا ہا’ ۔

کتابیں چوری کرنا سخت بری بات ہے۔ کتاب کبھی چوری نہیں کرنی چاہئے، ہمیشہ مانگ کر پڑھنی چاہیے۔ کاپی رائٹ کی خلاف ورزی بھی چوری ہی ہے جو بڑی بری بات ہے۔ راشد بھائی تو کاپی رائٹ کے اسقدر کٹر حامی ہیں کہ کبھی کسی بل بورڈ ، رکشے یا بس پر بھی کوئی طویل عبارت پڑھ لیں تو کنڈیکٹر سے آی ایس بی این پوچھنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ایمیزن سے خرید کر عنداللہ ماجوز ہوں ۔ یہ اور بات ہے کہ اس استفسار پر کنڈیکٹر انہیں جن الفاظ سے نوازتا ہے وہ یا تو کھوکھر صاحب کی تحریر میں مل سکتے ہیں یا محترمہ ناز کے مضمون پر کئے گئے تبصرہ جات کی چاشنی میں۔

چلیں اب اجازت، باہر لائبرری والے آئے ہیں جن کا اصرار ہے کہ یا تو میں مستعار لی گئی کتابیں واپس کروں یا پھر وہ غریب خانے کو سب لائبرری کا درجہ دیتے ہوئے اس پر بورڈ لگا دیں۔ آپ قارئین کا کیا خیال ہے؟

Share

July 10, 2010

مجھے میرے بلاگر دوستوں سے بچاو

Filed under: ادبیات,طنزومزاح — ابو عزام @ 12:55 am

جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، یہ مضمون بلاشبہ پطرس و یوسفی کی زمین میں لکھا گیا ہے لہذا اس کی تمام  ارضی و سرقی خصوصیات محض اتفاقی نہیں ہیں اور نا ہی تمام کردارو واقعات مکمل طور پر فرضی ہیں،کسی بھی قسم کی اتفاقی مماثلت پر ادارہ مکمل طورپرذمہ دارہوگا۔

پچھلے زمانوں کے شاعر لوگ تو بلاوجہ بدنام تھے کہ ہر آنے جانے والے کو اپنا تازہ کلام سنانے کی کوشش کرنے کی بے جا تہمت اٹھاتے تھے، سچ پوچھیں تو آج کے اردو بلاگران اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ اب تو چرغ نیلوفری کی گردشوں نے برقی رابطوں کی ایسی زنجیر باندھ دی ہے کہ ادھر پکسلز کی سیاہی خشک نا ہوئی اور ادھر تبصرے کی طلب؛ چاروناچار بستر مرگ پر بھی ایک صاحب کو ٹویٹ کا جواب دیتے دیکھا اور لواحقین کو قلق ہونے لگا کہ سنبھالا نا ہو۔
بہرحال اسی زمن میں ہم نے اپنے دیرینہ دوست راشد کامران سے تذکرہ کیا کہ ہر بڑے ادیب و مزاح نگار کا ایک مرزا نامی دوست  ضرور ہوتا ہے، اور ہم اپنی بلاگیات کو نیویارک ٹایمزکے صفحہ اول پر نا پانے کا سبب اس بات کو گردانتے ہیں کہ ہمارا کوئی ہمدم دیرینہ با اسمِ مرزا نہیں۔ انہوں نے دبے لفظوں میں فنی خرابیوں اور معیار تحریرکی اہمیت پر کچھ کہنا چاہا ہی تھا کے  ہم نے انہیں بپتسمے کی خوشخبری سناتے ہوئے بتایا کہ آج سے بلاگستان میں وہ ہمارے گمشدہ دوست ‘مرزا’ کے نام سے جانے پہچانے جایئں گے۔ (ہوشیار باش۔ اشتہار شور و غوغا –  منادی کی جاتی ہے کہ ہماری تحریروں میں مرزا کی جو شدید کمی محسوس کی جارہی تھی وہ تمام ہوتی ہے)۔ یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا بات ہو رہی تھی اردو بلاگران دوستوں کی، خدا جھوٹ‌ نا بلواے، اردو بلاگران سے دوستی کو جب تک  لمبے لمبےتبصروں کے خون سے نا سینچا جائے وہ پروان نہیں چڑھتی۔ اب مرزا کو ہی لے لیں، ادھر تحریر لکھی نہیں ادھر اشاروں کنائوں میں تبصروں کی فرمائش شروع ۔ آر ایس ایس، ای میل اور چہرہ کتاب پر تشہیرکے بعد طبعیت معلوم کرنے کے بہانے فون کرکے فرمانے لگے، تمہارا انٹرنیٹ تو چل رہا ہے نا؟ یہ ٹایم وارنر والے نہیایت واہیات لوگ ہیں، میں نے سوچا کہ ذرا خیریت پوچھ لوں، صبح سے تمہارا آی پی نہیں نظر آیا، نا اینالیٹکس پر کوئی سرگرمی، کہیں دشمنوں کی طبعیت ناساز تو نہیں؟ ساتھ ہی دبے الفاظ میں دھمکی بھی دے دیں گے کہ ‘ اگرکہو تو کل کی ورلڈ کپ کے فاینل پر ناشتے کی دعوت کینسل کر دیتے ہیں’۔ اب یہ بھی کوئ شرافت ہے بھلا۔ بزبان پطرس ‘خدا کی قسم فرنگی بلاگران میں وہ شائستگی دیکھی ہے کہ عش عش کرتے لوٹ آئے ہیں۔ جوں ہی ان کی پوسٹ شایع ہوئ، گوگل آر ایس ایس نے کھڑے کھڑے ہی ایک ہلکی سی “ٹنگ” کردی ۔ ہم مصروف ہو گئے تو دو چاردن بعد اس نے بھی ایک نازک اور پاکیزہ آواز میں یاد دلادی – یاددہانی کی یاددہانی، تہذیب کی تہذیب۔ ہمارے بلاگر ہیں کہ راگ نہ سُر۔ نہ سر نہ پیر۔ تان پہ تان لگائے جاتے ہیں، بےتالے کہیں کے نہ موقع دیکھتے ہیں، نہ وقت پہچانتے ہیں، گل بازی کيے جاتے ہیں۔ گھمنڈ اس بات پر ہے کہ وہب جلوی اسی ملک میں تو پیدا ہوا تھا’۔
گفت وشنید میں کوئی بھی مضمون ہو، کوئی محفل، ملاقات، اور داستاں انکے بلاگ کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں۔ ایک سے زائد جمع ہو جائیں تو کیا کہنے۔ پچھلےدنوں ایک جنازے کا ذکر ہے، مرزا کے ساتھ بیٹھے تھے کہ وہ تغیر میں آ کر کہنے لگے حال کی کیفیت ہے، بلاگ اتر رہا ہے۔ ہم نے سوچا کہ شائد مرحوم کو ممدوح بنانے کا نیک ارادہ ہے ورنہ انکی احتیاط کا یہ عالم ہے کہ جب تک چہلم نا ہوجائے مردے کے بارے میں کوئ اچھی بات نہیں کہتے۔ لہذا ڈرتے ڈرتے پوچھا، مرزا کس بارے میں ہے کچھ بتاو تو سہی، کہنے لگے ہمارا صریر خامہ ١٤.٤ باڈ کا موڈم ہے ۔ ابھی تو صرف ٹیگس اترے ہیں، کچھ بات واضع نہیں ہو رہی۔
موقع پر شریک پہلا درویش گویا ہوا ۔ ‘آپ نے مایکل پالن کو پڑھا، جدید کھانوں میں غذائیت پر۔۔۔’
مرزا۔ ‘بلکل بلکل، کل ہی اپنے آی پیڈ پر پڑھ رھا تھا۔ کیا غضب لکھتا ہے اور خصوصا آی پیڈ پرپڑھیں تو اوربھی اچھا لکھتا ہے، تحریر کی خوبیاں کھل کر سامنے آجاتی ہیں۔ میں نے اسی بات کا تذکرہ اپنے بلاگ پر اپنے پچھلے مضمون میں کیا تھا .۔۔’۔
اللہ کا بندہ دوسرا درویش- ‘کیا بات ہے جناب، اس پر مجھے اپنی جنوری کی بلاگ پوسٹ پر کیا جانے والا باتمیزتبصرہ یاد آگیا. ویسے یہ سب تو ولائت والے بھائی کی کرامات ہیں، جلنے والوں کا منہ کالا۔ ویسے کوئی کچھ بھی کہے ہم تو حقوق نسواں کے بڑے علمبردار ہیں, جگت بھائی…’
اسی اثنا میں مولانا نے میت کی مغفرت کے لئے دعا شروع کی تو ان کی گفتگودرمیان میں رہ گئی ۔ بعد ازاں‌ ان گناہگار کانوں نے مرزا نے قبرستان میں وائ فائ کی عدم موجودگی کو صاحب لحد کی محرومی اور اس پرایک بلاگ داغنےکی قسم کھاتے سنا۔
بات تبصروں کی ہو رہی تھی۔ مرزا کے علاوہ بھی ہمارے بلاگر دوست ہیں جو اس معاملے میں خاصے شدت پسند واقع ہوئے ہیں۔ برادر ابوکامل کو مرزا داہنے بازو کا بلاگر گردانتے ہیں لیکن محترم عتیق شاز کا کہنا ہے کہ الٹا سیدھا سب کاربن کا مایا جال ہے۔ چاہے لوگ اسے دائیں بازو کی انتہا پسندی کہتے رہیں لیکن مرزا کے بقول ابوکامل کا کہنا ہے کہ انکے بلاگ پر جانتے بوجھتے تبصرہ نا کرنے والے کو احتیاطا نکاح دوبارہ پڑھوالینا چاہیے۔ اسی طرح  اگر آپ شریف مصدر صاحب کے بلاگرانہ لطیفوں پر تحریری قہقہ نا لگائیں تو وہ مرنے مارنے پر تل آنے ہیں اور یاور گوہر کو آپکی ذات کے بارے میں جھوٹی خبریں دینے کی دھمکی دے ڈالتے ہیں جو کہ ہر شریف آدمی کہ لئے ایک لمحہ فکریہ ہے کیونکہ یاور گوہر کے بلاگ سے اگر حروف مغلظات نکال دیئے جائیں توصرف ہیڈراورفٹر باقی رہ جاتا ہے۔ باقی ایک اورمقابل بلاگر صاحب کے بارے میں مرزا کو یہ کہتے سنا ہے کہ تیشے بغیر مر نا سکا کوہکن اسد، اگر زرا انتظار کر لیتا تو میں تیشہ لے کر آ رہا تھا۔
بابائے بلاگران کے نام سے جانے جاتے ہمارے دوست ارتفاق امجد سرتال بھی اس معاملے میں کچھ پیچھے نہیں- مرزا کا کہنا کہ کہ سرتال صاحب کی مستقل رہائش صیغہ ماضی میں ہے۔ دروغ برگردن قاری، اس زمن میں سرتال صاحب یہ کہتے بھی پاے گئے ہیں کہ بقول یوسفی”یادش بخیر کی بھی ایک ہی رہی، اپنا تو عقیدہ ہے کہ جسے ماضی یاد نہیں آتا اس کی زندگی میں شائد کبھی کچھ ہوا ہی نا ہو لیکن چو اپنے ماضی کو یاد ہی نہیں کرنا چاھتا وہ یقینا لوفر رہا ہوگا’۔ یہ کہ کر انہوں نے ہماری طرف ایک معنی خیز نظر ڈالی اور دوبارہ یادش بخیر ڈزلڈوف کے مرغزاروں کی سیر کو نکل گئے جہاں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر بیوی اور شوہر کی لڑائوں کا بگ برادر براڈکاسٹ دیکھنے آیا کرتے تھے جس کی سرگذشت ہم آج بھی ان کے بلاگ پر پڑھتے ہیں اور سر دھنتے ہیں، مرزا کا۔
پچھلے دنوں مرزاکے گھر کھانے پر جانا ہوا تو وہ کچھ اکھڑے اکھڑے سے ملے۔ پوچھا کیا حال ہے تو کہنے لگے کہ ‘ارےمیاں دعوتیں تم یہاں اڑاتے ہو اور تبصرے کسی اور کے بلاگ پر۔ ہمارے لئے دو لفظی تبصرہ اور دوسروں کے لئے تبصروں میں‌ پورا پورا بلاگ؟، آخری دعوت کی مرغی کی ٹانگیں تو حلال کی ہوتیں جو تم بلا ڈکار ہضم کر گئے’۔ ہم نےمودبانہ عرض کی کہ مرزا،’ تبصرے کی لمبائی تو کچھ موضوع مضمون پر منحصر ہے اور وہ تو پھر ایوارڈ یافتہ بلاگ ہے’ ۔ اس جواب پر بڑے جزبز ہوےاور ہمارے ہاتھ سے رکابی کھینچتے ہوے بولے کہ ‘اس بریانی کی مقدار کا بھی بلکل یہی عالم ہے۔ جاو جاکراپنے ایوارڈی عزیز ابوکامل کے ساتھ جا بیٹھو’۔ ہم نے بات سنبھالتے ہوے کہا کہ ‘ارے مرزا، آپ تو بلا وجہ ناراض ہوتے ہیں، کل یہ ایوارڈ آپکے پاس تھا، آج کسی اور کے پاس ہے تو کل پھر آجائے گا، آپکا بلاگ تو لاکھوں میں ایک ہے۔ ہم تو مبتدی ہیں، سوچتے ہیں کہ کہیں ہمارے تبصروں سے لوگوں کو ایسا نا لگے کہ اگر آپ کا مضمون ہماری سمجھ میں آگیا تو ضرور سطحی ہوگا’۔ یہ سن کر انکا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوا۔  اپنی رومانوی زبان بہاری میں گویا ہوئے کہ صبح سے موا انٹرنیٹوا خاصا سست ہے، زرا راوٹر کو ہلانا کہ کہیں کوئی تبصرہ پھنسا ہوا نا ہو۔
کچھ عرصے سے ہم  جب بھی مرزا سے تحریر کی معنویت و گہرائ پر داد طلبی کا قصد کرتے ہیںوہ توکہنے لگتے ہیں کہ نیند نا آنے کی تشخیص کی صورت میں معالج آجکل تمہارے بلاگ کا مطالعہ تجویز کر رہے ہیں۔ راقم کی طبیعت یہ سن کر کچھ مردہ سی ہوگئی ہے لہذا اب ان تمام تجربوں کے بعد اب ہم نے بھی تہیہ کر لیا ہے کہ ایسے تمام طوطاچشم بلاگر دوستوں سے دور رہیں گے جو ہم سے فقط تبصروں کے لئے دوستیاں گانٹھتے ہیں اوراس برقی مایا جال سے دور سکون کی زندگی گذاریں گے  ۔اب اپنی ہر نئی بلاگ پوسٹ کے بعد تبصروں کی ائی میل کے لئے اپنی کالی بیری کو راہ محبوب کی طرح تکنے کے بجاے صرف ہر دس منٹ بعد دیکھا کریں‌ گے نیز ہوسٹنگ کمپنی کو ہر گھنٹے کال کر کر سروس کی کارکردگی اور اپ ٹایم بتانے پر مجبور نہیں کریں گے۔ آپ دیکھیں تو سہی،

Share

June 17, 2010

حساب سود و زیاں

Filed under: ادبیات,طنزومزاح — ابو عزام @ 7:27 am
میں یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں‌ کر رہا کہ اگر سن پیدائش یاد رکھنے کا رواج بیک گردش چرخ نیلوفری اٹھ جائے تو بال سفید ہونا بند ہو جائیں گے۔ یا اگر کیلنڈر ایجاد نہ ہوا ہوتا تو کسی کے دانت نا گرتے۔ تاہم اس میں کلام نہیں کہ جس شخص نے بھی ناقابل تقسیم رواں دواں وقت کو پہلی بار سیکنڈ، سال۔ اور صدی میں تقسیم کیا، اس نے انسان کو صحیح معنوں میں پیری اور موت کا زائقہ چکھایا۔ وقت کو انسان جتنی بار تقسیم کرے گا، زندگی کی رفتار اتنی تیز اور نتیجتہ موت  اتنی ہی قریب ہوتی چلی جاے گی۔ اب جب کہ زندگی اپنے آپ کو کافی کے چمچوں اور گھڑی کی ٹک ٹک سے ناپتی ہے، تہذیب یافتہ انسان اس لوٹ کر نا آنے والے نیم روشن عہد کی ظرف پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتا ہے جب وہ وقت کا شمار دل کی دھڑکنوں سے کرتا تھا اور عروس نو رات ڈھلنے کا اندازہ کانوں کے موتیوں کے ٹھنڈے ہونے اور ستاروں کے  جھلملانے سے لگاتی تھی
نہ گھڑے ہے واں نہ گھنٹہ    نہ شمار  وقت و ساعت
مگر اے چمکنے والو!     ہو تمہیں انہیں سجھاتے
کہ گئی ہے رات کتنی
از مشتاق احمد یوسفی، چراغ تلے ‘سنہ’
Share
« Newer PostsOlder Posts »

Powered by WordPress