فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

March 7, 2012

خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ

Filed under: تحقیق,مشاہدات — ابو عزام @ 1:39 am
“حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آپ کے جسم میں ہر ایٹم ایک منفجر یا پھٹے ہوے ستارے سے آیا ہے،  آپ کےبائیں ہاتھ میں جو ایٹم ہیں وہ شاید وہ کسی دوسرے ستارے سے آے ہوں اور  دائیں ہاتھ  کے جوہر کسی مختلف ستارے کی باقیات ہوں. طبعیات میں یہ واقعی سب سے زیادہ شاعرانہ بات ہوسکتی ہے جو میرے علم میں ہے۔۔۔ آپ سب ستاروں کی مٹی ہیں۔”

Share

March 6, 2012

وسعت کائنات کی ایک جھلک

Filed under: تحقیق,مشاہدات — ابو عزام @ 10:34 pm

وسعت کائنات کی ایک نہایت خوبصورت تصویری جھلک۔

فبای الا ربکما تکذبان

Share

March 4, 2012

آپ کیوں پروا کریں ہیں کہ لوگ کیا سوچتے ہیں” از رچرڈ فائنمن”

Filed under: ادبیات,تحقیق,کتابیات — ابو عزام @ 11:57 am

 ہفتوں میں ۵۲ کتابیں  پڑھنے کا جو بار گراں ہم نے اٹھایا تھا اس کو پورا کرنے کی ایک ہی صورت نظر آتی ہے کہ کتب ہاے مطالعہ مختلف اشکال میں ہر وقت موجود رہیں،  یعنی صوتی، برقی   اور ورقی۔ اسی طرح سے ہم اینڈرز گیم بھی ختم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے کہ جہاں سے ورقی کتاب کا تعطل ٹوٹا، وہاں سے دوران سفر سیارہ صوتی کتب پر منتقل کیا اور جب کتاب تک دسترس نا رہی تو کنڈل نکال لیا ۔ اب نوبل انعام یافتہ ڈاکٹررچرڈ فائنمن” کی کتاب  “آپ کیوں پروا کریں ہیں کہ لوگ کیا سوچتے ہیں” کا مطالعہ بھی کچھ اسی طرح ختم ہوا۔

رچرڈ فائنمن کا شمار دور جدید کی طبعیات کے موجدین میں کیا جاتا ہے خصوصا کوانٹم کمپیوٹنگ پر انکا کام سیمینری یا مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے سے پیشتر “آپ یقینا مزاق کر رہے ہیں مسٹر فائنمن” پڑھ لیں تو بہت بہتر ہوگا کیونکہ آپ کیوں پروا کریں ہیں کہ لوگ کیا سوچتے ہیں” از رچرڈ فائنمن” میں اس پچھلی کتاب کے کئی حوالہ جات استعمال کئے گئے ہیں ۔مزاح، سائنسی تراکیب اور سوانح پر مبنی  یہ کتاب بنیادی طور پر دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلا حصہ جہاں   ڈاکٹرفائنمن اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں زندگی میں پیش آنے والے مختلف مشاہدات پر بات کرتے نظر آتے ہیں اور دوسرا حصہ خلائ جہاز چیلینجر کی تباہی کے اسباب کی تلاش میں بننے والے کمیشن کی رپورٹ اور اس کے دوران فائنمن کو پیش آنے والے مختلف واقعات پر مشتمل ہے۔ اس دوسرے حصے میں خصوصی طور پر ایک سائنسدان کی حکومت کی افسر شاہی کے طور طریقوں پر تنقید  قابل  مطالعہ ہے۔ یہ کہنا کچھ غلط نا ہوگا کہ یہ کتاب ڈاکٹر فائنمن کی پہلی کتاب کے مقابلے میں کم دلچسپ ہے اور اسکی بنیادی وجہ اسی رپورٹ کی شمولیت ہے۔ نیز اس میں دوسروں کے کچھ خطوط بھی شامل کر دئے گئے ہیں جو فائنمین کے طریقہ تصنیف سے میل نہیں کھاتے۔ لیکن اس کتاب کے آخر میں موجود ایک مضمون جو کہ سائنسدانوں کے سماجی  رجحانات یا “ویلیو آف سائنس” کے موضوع پر لکھا گیا ہے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

رچرڈ فائنمن کا کسی چیز کو سمجھانے کا انداز بہت سہل انگیز ہے۔ ان کا نظریہ تھا کہ آسان طریقہ اپنانے سے جو نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں اس کو زبردستی مشکل بنا کر پیش کرنا، صرف اس لئے کہ وہ دقیق لگنے کی وجہ سے اہم لگے، سائنس کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اس کتاب میں فائنمن نے اپنے اسی نظریے کو  خلائ جہاز چیلینجر کی تباہی کے اسباب کی تلاش میں  استعمال کیا  ہے۔اس کتاب کی ابتدا انکی منگیتر آیرین کے ٹی بی میں مبتلا ہونے اور خاندان کی مخالفت کےباوجود فائنمن کی اپنی لڑکپن کی محبت سے شادی سے ہوتی ہے۔فائنمین کے والد کا کہنا تھا کہ کسی فرد کی ناکامی کا سبب تلاش کرنا ہو تو عورت کو تلاش کرو، لیکن فائنمین نے ان کا کہا غلط ثابت کر دکھایا۔ اس وقت فائنمن پرنسٹن میں پی ایچ ڈی کے طالبعلم تھے اور نہایت کسمپرسی کی زندگی گذار رہے تھے۔ اس عظیم سائنسدان نے اپنے  ہوٹل میں ٹھرنے کے پیسے نا ہونے کی وجہ سے سردی میں  کچرے کے ڈھیر پر سونے کی داستان اتنے آرام سے بیان کی   جیسے یہ کوئ خاص واقعہ ہی نا ہو۔ اس کے بعد فائنمن کامینہٹن پراجیکٹ پر کام، ، کچھ نسوانی حقوق کے علمبرداروں کا انہیں خواتین کو طبعیات کی ایک مثال میں تیز گاڑی چلانے کے لئے استعمال کرنے پر لعن طعن کرنا، فائنمن کا سستا ہوٹل تلاش کرنے کے طریقوں کا بیان وغیرہ شامل ہیں۔ اس کتاب کو پڑھنے سے پتا  چلتا ہے کہ ایک عظیم سائنسدان اور اس صدی کے ذہین ترین افراد میں سے ایک فرد عام زندگی میں ہمارے اور آپ کے جیسا ایک انسان ہوتا ہے جو ہماری طرح غلطیاں کرتا ہے اور ان سے سیکھتے ہوے ایسے کام کر گذرتا ہے کہ دنیا اسے طویل عرصے تک یاد رکھتی ہے۔ فائنمن اس کتاب میں ہمیں بتاتے ہیں کہ ایک سائنسدان جب سماجی و معاشرتی چیزوں پر بات کرتا ہے تو وہ اس بارے میں اتنا ہی غلط ہوتا ہے جتنا کہ کوئ عام آدمی، کیونکہ سماجی ومعاشرتی مسائل کا کوئ سائنسی پیمانا نہیں ہوتا، اس لئے اس پر سائنسی طریقہ کار کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔

فائنمین کو بچوں سے خصوصی لگاو تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ سائنسی تجسس بچپن سے بیدار کرنے کی چیز ہے۔ اگر کوئی بچہ کسی سائنسی مسئلے کو عام حالات میں مشاہدے کی بنیاد پر دلچسپ سمجھتا ہے تو جان لیں کہ وہ ایک سائنسدان بننے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔کتاب میں لکھے گئے ایک واقعے کے مطابق انہوں نے ایک بچے کو لاامتناہیت کا نظریہ سمجھاتے ہوے کہا کہ تم مجھے کوئ بھی عدد بتاو، میں تمہیں اس سے تین گنا بڑا عدد بتاتا ہوں اور اس طرح سے کھیل کھیل میں مختلف مثالوں سے اس بچے کو لاامتناہی اعداد کے مشکل نظریے سے روشناس کرایا۔  ایک ملحد ہونے کے باوجود فائنمن کا وجود خداوندی، مذہب اور سائنس کے تقابل کے بارے میں رویہ و طریقہ کار آج کل کےملحدین کے لئے مشعل راہ ہے۔  اگناسٹک اور ایتہیسٹ کے درمیان اگر آپ  کو فرق معلوم کرنا ہو تو فائنمین کے لیکچرز کا مطالعہ مفید ہے۔ بڑی آسان زبان میں وہ مذہب و سائنس کا فرق بیان کرتے ہوے کہتے ہیں

طریق مذہب، ایمان۔ طریق سائنس، تشکیک

انکا سفر جاپان اور شاہی خاندان سے تعارو ، نوبل انعام کے وقت بادشاہ سے ملاقات اور انکی بے وقوفانہ حرکات کا بیان نہایت دلچسپ ہے جس میں انہوں نے بادشاہ سے ملانے کے لئے ہاتھ بڑھا دیا جو کہ روایات و آداب کے سخت خلاف ہے۔ اس کتاب میں فائنمین کے  بارے میں لکھے کچھ خطوط اور ان کےاپنے لکھے ہوئے چند خطوط جن میں وارسا سے لکھا گیا ایک خط شامل ہے لائق مطالعہ ہیں۔ فائنمین  کے کردار کی خاص بات تشکیک کو خصوصی اہمیت   دینا اور اتھارٹی پر عدم اطمینان رکھنا ہے جو کہ ان کی تحاریر میں  بدرجہ اتم ملتا ہے۔  صاحب کتاب کی تعریف میں کیا کہوں، ان کی دوسری اہلیہ کے نے اپنی طلاق  کی درخواست میں وجہ علیہدگی پر لکھا

 یہ صاحب صبح اٹھتے ہی کیلکلس کے مسائل پر سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر گاڑی چلاتے وقت بھی یہی کرتے ہیں اور کمرے میں بیٹھ کر بھی، اور رات کو بستر پر لیٹ کر بھی کیلکلس کے مسائل پر ہی غورو فکر کرتے ہیں

Share

February 28, 2012

نیلی آنکھیں، ایک منطقی معما

Filed under: تحقیق,عمومیات — ابو عزام @ 8:44 pm

کمپوٹر سائنس کے طالبعلموں کے لیے جان کونوے اور اسکے گیم آف لایف کا نام جانا پہچانا ہے۔ لیکن جان کونوے کے بیان کردہ کامن نالج یا عمومی علم نامی حسابی انطباق پر مبنی اس نیلی آنکھوں والی پہیلی کو دنیا کے مشکل ترین منطقی معموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ذہن لڑایں اور دیکھیں کہ کیا آپ اسے حل کرسکتے ہیں؟

مختلف رنگ کی آنکھوں کےافراد کا ایک گروہ ایک دور پرے جزیرے پر رہتا ہے۔ یہ تمام افرد علم منطق میں طاق ہیں اور اگر کسی بات کا منطقی نتیجہ ہو تو اسکا فورا استنباط کرسکتے ہیں۔ ان میں سے کوئی فرد اپنی آنکھوں کا رنگ نہیں جانتا۔ ہر رات آدھی رات کے وقت، ایک کشتی جزیرے پر آ کر رک جاتی ہے. جزیرے پر جس شخص کو اپنی آنکھوں کا رنگ معلوم ہو وہ جزیرہ چھوڑ کر جاسکتا ہے۔ اس جزیرے کا ہر شخص ہر وقت دوسرے تمام افراد کو دیکھ اور گن سکتا ہے اور وہ ہر دوسرے شخص کی آنکھوں کا رنگ (خود کوچھوڑ کر) جانتا ہے۔ لیکن کوئی بھی کسی کو کسی کی آنکھ کا رنگ نہیں بتا سکتا اور نا ہی کوئی کسی سے پوچھ سکتا ہے۔ اس جزیرے پر موجود ہر شخص ان تمام قوانین سے واقف ہے اور نہایت قانون پسند ہے۔

اس جزیرے پر ۱۰۰ نیلی آنکھوں والے لوگ ہیں، ۱۰۰ لوگ بھوری آنکھوں والے لوگ ہیں اور ایک سردار ہے جس کی آنکھیں ہری ہیں۔ لیکن کس رنگ کی کتنی آنکھوں والے لوگ موجود ہیں، یہ تعداد لوگوں کے علم میں نہیں۔ مثلا کوئی بھی وہ شخص، جس کی نیلی آنکھیں ہوں ایک وقت میں ۹۹ نیلی آنکھوں والوں، ۱۰۰ بھوری آنکھوں والوں اور ایک سبز آنکھوں والے فرد کو دیکھ سکتا ہے۔ لیکن اس طرح اسے اپنی آنکھوں کا رنگ نہیں پتا چل سکتا کیونکہ اس کی دانست میں ۱۰۱ بھوری آنکھوں بھی ہوسکتے ہیں، دو ہری آنکھوں والے بھی اور ۱۰۰ نیلی آنکھوں والے بھی کیونکہ اسے اپنی آنکھوں کا رنگ نہیں معلوم۔

ایک دوپہر سردار نے میں آنکھوں کا رنگ نا بتانے کے قانون کو صرف ایک مرتبہ توڑتے ہوے کہا

“میں دیکھ سکتا ہوں کہ تم میں سے کم از کم ایک فرد کی آنکھیں نیلی ہیں”

اب بتایں کہ کتنے لوگ جزیرہ چھوڑ کر جایں گے اور کس رات کو؟

نیز اس جزیرے پر کوئی عکس یا عکاسی کرتی سطحیں یا پانی یا آینہ موجود نہیں۔ اس پہیلی کا جواب کوئی چال نہیں بلکہ منطقی انطباق ہے۔ اس میں انداذہ لگانے یا جنیات وغیرہ سے جواب ثابت نہیں ہوگا۔ سردار کسی خاص فرد کو نہیں بتا رہا کہ اس کی آنکھوں کا رنگ نیلا ہے بلکہ سب سے کہ رہا ہے کہ میں نے کم از کم ایک شخص کی آنکھیں نیلی دیکھی ہیں۔ اور اس کا جواب یقینا یہ بھی نہیں ہے کہ کوئی بھی جزیرہ چھوڑ کر نہیں جاے گا۔

!بوجھو تو جانیں

Share

February 24, 2012

کولیٹز کنجیکچر، ابن عربی اور وحدت الوجود

Filed under: ادبیات,تحقیق,طنزومزاح — ابو عزام @ 1:09 am

مطالعہ کتب ہاے مقالہ جات و فصوص الحکم از ابن عربی و متحرک الگارتھمز کی روز و شب تفکیر سے درج زیل تھیورم عدم سے وجود میں آیا ۔ شائد ادراک محاورہ جات اہل تصوف و حسابی تکنیکی استعداد کے بغیر استفادہ ممکن نا ہو۔

اس امر کلی موجود خارجی کا وجود ترتیب اثر میں محتاج ہے اور  موجود خارجی امر کلی کا تعقل و فہم میں محتاج ہے۔ اسی بنا پراسرار خودی میں پیہم ہے کہ دوی کے مماثل  کو بریدہ علی النصف کرو

f(n) = n/2

 اور تثلیث پر اضافہ واحد کہ یہ ممتنع بالذات و ممکن بالذات بنا اور یہی اس کا اقتضا ہے

f(n) = 3n + 1

 اب ہر شے کا ٹھکانا عددی برتری سے سوا وحدت یکتا ہی ہے کہ ہر عدد کا مقصود و مطلوب واحد

۱

۱

۲

۲, ۱

۳

۳, ۵, ۸, ۴, ۲, ۱

۴

۴, ۲, ۱

۵

۵, ۸, ۴, ۲, ۱

۶

۶, ۳, ۵, ۸, ۴, ۲, ۱

۷

۷, ۱۱, ۱۷, ۲۶, ۱۳, ۲۰, ۱۰, ۵, ۸, ۴, ۲, ۱
فقیر عدد بڑھا اور ترتیب اعیان میں ظہور دیکھ،

۱۳ -> ۴۰ -> ۲۰ -> ۱۰ -> ۵ -> ۱۶ -> ۸ -> ۴ -> ۲ -> ۱

تیری بساط کیا ہے کہ موجودات خارجہ سے ذوات واعمان خارجیہ ہیں، واحد ہی واحد ہے۔

 ۶, ۳, ۱۰, ۵, ۱۶, ۸, ۴, ۲, ۱.

۱۱, ۳۴, ۱۷, ۵۲, ۲۶, ۱۳, ۴۰, ۲۰, ۱۰, ۵, ۱۶, ۸, ۴, ۲, ۱

اس کلیے میں میں نے صرف ان حکمتوں پر اقتصار و انحصار کیا ہے جو فصوص علمیہ و یادگیری مشین و واستخراج البيانات پر مبنی و محدود و متعین ہیں۔ جو مقدر تھا اس کی بجاآوری کی اور جو حد معین تھی وہیں ٹہر گیا۔ اگر میں اثبات قضیه  چاہتا بھی تو اس کی استطاعت و طاقت نہ ہوتی کیونکہ اس وقت عالم کا اقتضا مانع ہوتا ہے۔

Share

February 16, 2012

زمین ساکن ہے

Filed under: تحقیق,طنزومزاح,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 5:30 am

جہلِ خرد نے دن يہ دکھائے

گھٹ گئے انساں، بڑھ گئے سائے

آداب و اصول مباحثت میں استدلال و منطق تو خیرجزو اعظم ٹھرا، لیکن کچھ خیال علم و ہنرکا بھی ہو تو نورعلی نور۔ اگلے روز سیارہ جات فلک کے طفیل اتصال کردہ   انٹرنیٹ پر زمین کے ساکن ہونے کا مژدہ پڑا، طبعیت باغ باغ ہوگئ ۔ فلیٹ ارتھ سوسایٹی کا ایک ممبر تو پی ایچ ڈی میں ہمارا ہم جماعت بھی ہے لیکن وہ کچھ ازراہ تفنن کا  سا معاملہ ہے۔یہاں تو بات ایمانیات و اعتقدانہ بزرگانہ پر ہے کہ سائینس ان کے گھر کی لونڈی اور علوم ریاضی و طبعیات میں انہیں وہ ملکہ حاصل ہے کہ گویا نیوٹن انہی کی  سقہ کشی کے تلمذ سےباعث رشک عالم ٹھرا۔ زمین اگر گھوم رہی ہے تو ہم اسے محسوس کیوں نہیں کرتے اور اگر گول ہے تو نیچے والے لوگ اس کے کنارے سے گر کیوں نہیں جاتے، اس قدر جاندار دلائل ہیں کہ تمام علم انسانی، فلاسفہ، منطق، طبعیات و ریاضیات مل کر بھی اسکا جواب نہیں دے سکتے۔

یادش بخیر کہ راقم جماعت نہم کا طالبعلم تھا کہ جب ماہر طبعیات و نیوکلیات ڈاکٹر التمش کمال سے تعلق فیض و تلمیذ ہوا۔ ان کے طفیل مصنوعی ذہانت کے ابواب سے لے کر مرکز گریز و مرکز مائل قوتوں کی وجہ سے مصنوعی سیارچوں کے مدار میں رہنے کے مختلف موضوعات پرسائنسی دلائل و مشاہدات سے ابتدائ واقفیت ہوئ ، خصوصا اس جیولئر کہ جس کی بدولت یہ اجرام اس  فلک میں تیر رہے ہیں خاصی دلچسپی کا باٰعث بنی۔ یہ ۱۹۹۲-۹۳ کی بات ہے جب ۲۴۰۰ باڈ کے موڈم ہوا کرتے تھے اور معلومات وکیپیڈیا کے بجائے برٹانیکا سے لی جاتی تھیں، اس دور میں ایم آی ٹی کے نیوکلیائ فزسسٹ سے جو تشکیک و سائنیسی طریقہ سیکھا وہ درس زیست ہے۔ بہرحال اسی دور میں زیر تبصرہ کتابچے کا بھی مطالعہ کیا تھا، پڑھا کہ حرکت یومیہ حرکت شمس سے ہے نہ کہ حرکت زمین سے اور یہ بھی ک ہرمسلمان پر فرض ہے کہ حرکت شمس و سکون زمین پر ایمان لائے۔ نہ نص میں اسکا کوئ حامی ملا کہ  کُلّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ نا علم حدیث میں، اصول درایت پر جو پورا اترا اسے قبول کیا اور باقی رد۔ لیکن آج یہ تذکرہ عبث دیکھ کر رہا نا گیا کہ ضرور قلم اٹھایا جاے اور بشارتوں کے شور میں کوئ تو کہے کہ برادرم، اکیسویں صدی میں اسطرح کی باتیں کرنا اپنا مضحکہ اڑوانا ہے، لیکن لگتا ہے کہ یہ کوشش عبث ہوگی کہ جو لوگ یہ باتیں کرتے ہیں انہیں اپنی یا مسلم امہ کے عزت و وقار کی کیا فکر، انہیں تو مطلب ہے فرقہ و گروہ بندی سے، علمی روایتوں کے تغیر و تذلل سے اور حدث و جاہلیت سے۔

ہمیں تو سیدھی سے بات ہے لبرلوں پر رحم آتا ہے کہ ان کے لیے پنڈولم دوسری طرف لے جانے کی نوبت شاید باشعور و تعلیم یافتہ مذہبی طبقے کی وجہ سے نا آئ ہوگی بلکہ اس کا مژدہ تو ضرور زمین کے سکون نے سنایا ہوگا۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ انسان میں خدا کی محبت بچانے کے لئے یہ تہمت اٹھانا ضروری ہو گیا توایسا لگتا ہے کہ شاید زمین کا سکون ہی ان تمام فکری جنجہلاہٹوں کا صریر خامہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان اغلاط پر ایمان ضروریات دین میں سے ہے؟ اور کیا ان کے غلط تسلیم کرنے سے فاضل مولوی کی شان میں کوئ فرق آے گا؟ کہ جب شارع صلی اللہ علیہ وسلم نے انتم اعلم باموررادنیا کم فرما دیا تو اب ہما شما کا تذکرہ ہی کیا۔ لیکن وہ بالک ہٹ  ہی کیا کہ امام کی اغلاط حصہ دین نا ہوجایئں اور یک جنبش قلم سے وہ ماہر طبعیات و کیمیا و فلیکیات و حسابیات نا ہوجاویں کہ علم لدنی کا شمار سے کیا تعلق۔ آج شب  کچھ گلیلیو و کوپرنیکس کا غلبہ ہے، غم تو یہ ہے کہ نص کے عدم رد کے باوجود نادان دوست کلیسا کی پیروی کرنے پر تلے ہیں۔

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں

ہو رہے گا کچھ نا کچھ گھبرایں کیا

Share

January 1, 2012

عصری ادب اور سماجی رجحانات از ڈاکٹر روف پاریکھ کا تعارف

Filed under: ادبیات,تحقیق — ابو عزام @ 8:36 am

پچھلے ماہ کراچی ارٹس کونسل میں اردو کی عالمی کانفرنس میں ماہر لسانیات اور اردو لغت بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر روف پاریکھ کو پہلی مرتبہ سننے کا اتفاق ہوا۔ موصوف کا مقالہ غالب کی اردو لغت پر تھا جس میں ان کا مدلل و پر مغزانداز تحریر نمایاں نظراتا تھا۔ تقریرنہایت ہی عمدگی سے کی جس میں کوئی بات بھرتی کی نا تھی، نہایت قابل ادمی ہیں اور قحط الرجال کے اس دور میں جہاں عمومی طور پر رسائل و جرائد میں سرقے کا رواج اور تحقیق کا فقدان ہے، امید کی اخری کرنوں میں سے ایک کرن۔ کانفرنس کے بعد حسب عادت ہم جیب ہلکی کرنے باہر موجود کتابوں کے اسٹالز پر جا پہنچے تو وہاں روف پاریکھ صاحب کی کتاب عصری ادب اور سماجی رجحانات نہائت مناسب داموں میسر تھی،فورا خریدی اور ایک ہی نشست میں ختم بھی کرلی، اسی کا تعارف درج زیل ہے۔

اکادمی بازیافت کی شائع کردہ تقریبا دو سو صفحات کی یہ کتاب عصری ادب اور سماجی رجحانات، ڈاکٹر صاحب کے مختلف کتابوں پر کئے گئے تبصرہ جات کا مجموعہ ہے، یعنی کتاب برائے کتابیات یا میٹا بک۔ اس میں تقریبا تیس کے قریب مختلف النوع کتب پر تبصرے شامل ہیں لیکن یہ محظ تبصرے نہیں بلکہ اردو لغت، الفاظ کے چناو، فن تحریر، موجودہ ادبی و ثقافتی رجحانات، سماجی عناصر اور دیگر ادبی عوامل پر سیر حاصل مباحث کا نادر مجموعہ ہے۔ اس کے چیدہ چیدہ مضامین میں اردو میں عربی الفاظ کا تلفظ ایک جائزہ، الفاظ کی سرگزشت، محمد حسین ازاد کا کتب خانہ، عورت اور اردو زبان ایک جائزہ، مجید لاہوری کی حرف و حکایت ایک جائزہ، زکر راجا بھوج اورمولوئ مدن کا اور عنائتیں کیا کیا شامل ہیں۔

عام ناقدین کی طرح ڈاکٹر صاحب تعریف میں بخل سے کام نہیں لیتے لیکن انکی تنقید کا نشتر بھی کسی مصلحت کا قائل نہیں، وہ موجودہ دور کی سریع التحریر پیڈ پبلشنگ کی روش سے سخت نالاں ہیں اور اپنی تحاریر میں اس کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ مثلا موصوف نامی ایک کتاب کے بارے میں کہتے ہیں

“موصوفہ”کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مشتاق احمد یوسفی سے متاثر ہیں (لیکن اس طرح نہیں جس طرح یونس بٹ یوسفی سے متاثر ہیں.کیوں کہ اب تو یوسفی صاحب یونس بٹ سے متاثر ہو گئے ہیں یعنی بلکل اس طرح جیسے مظلوم عوام سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں)مگر اس متاثر ہونے کے باوجود موصوفہ نے یوسفی صاحب سے کوئی سبق نہیں سیکھا. یوسفی صاحب آج اردو کے عظیم ترین مزاح نگاروں میں شمار ہوتے ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ہر لفظ سوچ سوچ کر اور سطر تول تول کر لکھتے ہیں.بلکہ لکھنے سے پہلے سو بار مٹاتے ہیں اور غالباً اسی لیے پنسل سے لکھتے ہیں کے مٹانا تو پڑے گا ہی.”آب گم “کے دیباچے میں خود ایک جگہ لکھا ہے کہ”خاکے اور مضامین لندن میں بڑی تیز قلمی سے لکھ ڈالے اور حسب عادت پال میں لگا دیے کے ڈیڑھ دو سال بعد نکل کر دیکھیں گے کہ کچھ دم ہے بھی”. اس میں”حسب عادت “کے الفاظ غور طلب ہیں.جو شخص اتنا تردد کرے اسے بڑا نثرنگار تو بننا ہی ہے.لیکن رفعت ہمایوں صاحبہ کو شاید مصنفہ بننے کی جلدی تھی لہٰذا مضامین کو پال میں لگا نے کی بجاۓ کچے ہی دستر خوان پر سجا دیے کہ قاری جانے اور اس کا ہاضمہ!

مندرجہ بالا پیراگراف جامع طریقے سے ایک پریشان کن رجحان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جسے استاد جعفر نے اپنے تازہ مضامین میں یہاں اور یہاں بڑی خوبصورتی سے نشتر خامہ کا نشانہ بنایا ہے۔ڈاکٹر صاحب کو الفاظ سے بڑی محبت ہے۔ الفاظ کی سرگزشت نامی مضمون میں لکھتے ہیں

اس پر ہمیں خیال آیا کہ ہر زبان میں کچھ ایسے الفاظ ہوتے ہیں جو اس خطّے کے تہذیب و تمدن اور معاشرتی تصورات کو آشکارا کرتے ہیں.غیر قوم یا دوسرے کلچر کے لوگ ان کے لئے کوئی لفظ یا کوئی مترادف اپنے ہاں نہیں رکھتے اور اگر کوئی لفظ ہوتا بھی ہے تو اس مفہوم کو صحیح طور پر ادا نہیں کرتا.مَثَلاً فرانسیسی اور جرمن زبان میں بعض تہذیبی تصورات کے لئے جو لفظ ملتے ہیں ان کا ٹھیک ٹھیک انگریزی مترادف دستیاب نہیں ہوتا اور ان کی وضاحت میں ایک دو سطریں لکھنی پڑتی ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ محض لفظ نہیں ہوتے بلکہ”تصورات”اور”خیالات”ہوتے ہیں اسکی مثال کے طور پا پر لفظ”عصمت”کو لے لیں،ہمارے ہاں عصمت و عفت کا جو تصور ہے وو مغربی تہذیب میں ناپید ہے.یہی وجہ ہے کہ انگریزی میں اس مفہوم کی ادائیگی کے لئے جو لفظ ملتے ہیں(مَثَلاً,purity,modesty chastity,integrity وغیرہ)وہ اسکے اصل مفہوم کو اور عصمت کے تصور کو صحیح معنوں میں ادا کرنے سے قاصر ہیں.کچھ یہی کیفیت ہماری اشیاۓ خوردو نوش اور رسم و رواج کی ہیں.مَثَلاً پان کو لیجئے،اسکے لوازمات ،خصوصیات اور اہمیت پر انگریزی میں ایک مضمون لکھ ڈالیے، لیکن جس انگریز نے زندگی بھر پان نہیں کھایا وہ خاک بھی نہیں سمجھے گا کہ پان ہوتا کیا ہے.ہاں اسے ایک عدد گلوری، سونف خوشبو اور مشکی قوام والے پان کی کھلا دیجیے اور پھر قدرت کا تماشا دیکھیں.انشاء الله دریاۓ ٹیمز کی دھلی ہوئی انگریزی میں پان پر لیکچر دیگا اور پھر لکھنوی لہجے میں آداب و تسلیمات کے بعد بیٹل لیف (betel leaf ) کی بجاۓ پان (paan) کہنے پر اصرار کریگا.(اگر بیہوش نہ ہوا ہوگا تو!)کیوں کہ پان محض کھانے کی چیز نہیں ایک تہذیب کہ نام ہے.

ہماری طرح ڈاکٹر صاحب بھی ماہنامہ افکار کے بند ہونے سے بڑے افسردہ تھے اور عمومی طور پر ادبی رسائل کی طرف لوگوں کے عدم توجہی کے رجحانات پرسیخ پا۔ لیکن اس میں وہ بڑا قصور ان ناشرین کا گردانتے ہیں جنہوں نے قیمتیں بڑھا بڑھا کر ادب کو لوگوں کی پہنچ سے دور کر دیا ہے۔ اس ضمن میں وہ پرانی کتابوں کے ٹھیلوں کی مثال دیا کرتے ہیں جہاں لوگوں کا ہجوم لگا ہوتا ہے کیونکہ لوگ پڑھنا چاہتے ہیں اور سستی کتابیں جو ان کی قوت خرید میں ہوں وہی لے سکتے ہیں اب وہ کسی بھی معیار کی ہوں۔ اپنے مضمون ادبی رسائل کا سیاپا میں رطب اللسان ہیں

ایک زمانہ تھا کہ اردو کے ادبی رسائل بڑی دھوم سے نکلا کرتے تھے اور ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے تھے.پاکستان بننے کے بعد بھی کوئی بیس پچیس سال تک یہ عالم تھا کہ کسی ادبی پرچے میں کوئی اچھا مضمون یا افسانہ شائع ہوتا تو اسکا چرچا ہوا کرتا تھا.کافی ہاوس یا چاۓ خانے میں ہونے والی غیر رسمی ادبی نشستوں میں ان پر گفتگو ہوتی تھی لیکن رفتہ رفتہ منظر بدلتا گیا.ادبی رسائل کہ بازار سرد ہو گیا،انکے خریدار نہ رہے،ادب سے لوگوں کی دلچسپی کم ہوتی گئی.ادب محض تعلقات عامہ،فوائد کے حصول اور وقتی شہرت کاذریعہ بن گیا.حد سے حد مٹھی بھر لوگ ایسے رہ گئے جن کو ادب سے واقعی اور حقیقی دلچسپی ہے،بلکہ کچھ لوگوں کا تو خیال ہے کہ ہم لوگ ادب سے دلچسپی رکھنے والی آخری نسل کے افراد ہیں.

لیکن عام رجحان کے برعکس صاحب کتاب ٹیکنالوجی کو مورد الزام نہیں ٹہراتے۔ مزید لکھتے ہیں۔

ادب کی اس کساد بازاری پر بعض حضرات سائنس اور ٹیکنالوجی کو بھی صلواتیں سناتے پائے گئے ہیں.انکا خیال ہے کے ٹی وی ،وی سی آر،ڈش اینٹینا،ویڈیو گیمزاور انٹرنیٹ کے اس دور میں اگر کسی کے پاس ادب کے لیے وقت ہے تو وہ اسے زیادہ دلچسپ اور رنگوں اور روشنیوں میں نہائ ہوئی مصروفیات میں گذارنا چاہتا ہے.جب سے سائنس کو عروج ہوا ہے،ادب زوال پذیر ہو گیا ہے .لہٰذا سائنسی ترقیوں کو ادب کا دشمن سمجھنا چاہیے وغیرہ .

مزید لکھتے ہیں کہ

لیکن اگر ہم مغرب پر نظر ڈالتے ہیں تو حیران کن نظارہ سامنے آجاتا ہے سائنس اور ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر وغیرہ میں ہم سے دو سو سال آگے چلنے والی اقوام کو مطالعے سے بےپناہ شغف ہے.کچھ عرصے قبل ہیری پوٹر کے سلسلے کی نئی کتاب منظر عام پر آئ،مغربی معاشرے مے گویا زلزلہ آگیا.کئی روز تک خبروں کا موضوع بننے والی اور فروخت کے نۓ ریکارڈ قائم کرنے والی یہ کتاب بَچوں کا ناول ہے،جس کا ہیرو ہیری پوٹر جادو سے واقف ہے.انٹرنیٹ پر چند ماہ قبل ہی سے اس کتاب کی خبریں آرہیں تھیں.اسے آٹھ جولائی کو رات بارہ بجے کتابوں کی دوکان سے باہر کیا بچے ،کیا بڑے قطار لگاے کھڑے تھے.
کہاں ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کے کمپیوٹر کی وجہ سے کتاب نہیں بکتی؟کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی وجہ سے کتابوں کی فروخت میں خاصا اضافہ ہوا ہے کیوں کہ انٹرنیٹ پر کتابوں کی خبروں اور ان پر تبصروں نے کتاب کی مانگ میں اضافہ کیا ہے.ہیری پوٹر کی کتابوں کی مصنفہ جے کے رولنگ کو معاوضے کے طور پر کئی ملین ڈالرمل چکے ہیں اور اس سلسلے کی آخری کتاب یعنی”ہیری پوٹر اینڈ دی گو بلٹ آف فائر” کی صرف دو دن میں پانچ لاکھ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہو گی ہیں اور ان میں سے تقریبن ایک لاکھ کاپیاں انٹرنیٹ کےذریعے بکی ہیں.یہ کتابیں اڑتالیس لاکھ کی تعداد میں شائع ہوئی ہے اور خیال ہے کے مزید بیس لاکھ کاپیاں فوری طور پر چھاپنی پڑینگی. یہ ہے سائنسی طور پر ترقی یافتہ معاشرے میں کتاب کی اہمیت اور قدرو قیمت کا حال.

اور اس کی بنیادی وجہ فاضل مصنف کے نزدیک یہ ہے کہ

لیکن یہ تو مغربی معاشرے کی بات ہے.ہمارے ہاں کتابوں کی فروخت تیزی سے کم ہو رہی ہے.اسکی ایک بری وجہ مہنگائی،اقتصادی بدحالی اور ناشرین کی لوٹ کھسوٹ ہے جو کتابوں کی قیمتیں اتنی زیادہ رکھتے ہیں کہ جو پڑھنا چاہتا ہے وہ بھی کتاب خریدنے کی ہمّت نہیں کر سکتا.ان پڑھ لوگوں یا پڑھے لکھےبد زوقوں کا تو ذکر ہی جانے دیجئے .

محترم ماہر لسانیات کو اگلے ناقدین سے بڑی انسیت ہے، خصوصا کلیم الدین احمد جو نقوش کے میں لکھا کرتے تھے ان کا ایک اقتباس بطور دلیل شامل کرتے ہیں کہ “نقوش” کے طنز و مزاح نمبر میں انہو نے لکھا:

“شوکت تھانوی اور عظیم بیگ چغتائی اپنی شہرت کے باوجود بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتے اصل یہ ہے کہ دونوں کی ذہنیت ترقی کے مدراج طے کرنے کے دوران ایک خاص مقام پر پہنچ کر رک گی ہے اور یہ ذہنیت وہی ہے جسے”انڈرگریجویٹ”ذہنیت کہتے ہیں.دونوں استعداد بہم پہچانے سے پہلے مصنف بن بیٹھے.ان کے کارناموں کو اگر کسی طالب علم کہ کارنامہ شمار کیا جاۓ تو لائق تحسین ہے.اس سے زیادہ وقعت دینا تنقید اور مذاق صحیح پر دانستہ ظلم کرتا ہے”مزید لکھتے ہیں کے :”انہیں لازم تھا کہ جو کچھ لکھتے اسے محض مشق سمجھتے.لکھتے اور لکھ کر پھاڑ دیتے اور آہستہ آہستہ مطالعہ، مشاہدہ، غوروفکر میں وسعت، باریکی اور گہرائی پیدا کرنے کی کوشش کرتے”.

پی ار کے شعبے پر چوٹ کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ

دراصل تعلقات عامہ کا شعبہ اب اتنا زور پکڑ گیا ہے کہ اسکے زور پر ٹین ڈبےوالے بھی آرٹ کاؤنسل کے کرتا دھرتا بن جاتے ہیں اور کہا یہ جاتا ہے کہ “جی ادب سے انہیں بہت لگاؤ ہے اس لیےبنا دیا ہے”. اس جلدی چھپنے،مصنف کہلانے اور صاحب کتاب بننے کے جنون نے بہت اچھے لکھنے والوں کو خراب و خوار کیا ہے

اور پھر جو انہوں نے لکھا تو ہماری اور راشد کامران بھائی کی دل کی بات لکھی جو یونس بٹ صاحب کی حالیہ کتب خرید کر پچھتا رہے ہیں۔

ڈاکٹر محمّد یونس بٹ کو ہی لیجیے،بہت اچھی اٹھان تھی.لگتا تھا کے اردو مزاح کے گلستاں میں ایک نو بہارناز کا اضافہ ہوا چاہتا ہے.لیکن ایک تو انھوں نے انگریزی مزاح اور مشتاق احمد یوسفی کے فقروں کو استعمال کرنا شروع کیا، دوسرے بسیار نویسی کے سبب خود کو بھی دہرانا شروع کیا اور تھوک کے بھاؤ لکھنے کی وجہ سے خود کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا لیا.

اور اخری اقتباس حاصل مضمون کے طور پر درج کرتا ہوں کہ

مرزا فرحت الله بیگ جیسے لکھنے والوں کو لوگوں نے زیادہ لکھنے پرطعنہ دیا تھا کہ انہیں لکھنے کہ ہیضہ ہو گیا ہے.جس پر انھوں نے کہا کہ بہت اچھا،اب مجھے لکھنے کہ قبض رہے گا.فرحت عبّاس شاہ کو تو خیر شاعری کہ ہیضہ ہو ہی گیا ہے اور ابھی بہت سے ایسے لکھنے والے ہیں کہ کم لکھیں تو اپنا، قارئین کا اور ادب کا سب کا بھلا کریں گے.برا ہوگا تو ناشرین کا جو فرحت عبّاس شاہ اور یونس بٹ وغیرہ کی کتابیں دھڑا دھڑ چھاپ کر نہال ہوئے جا رہے ہیں.

یہ تو جناب اس کتاب کا ایک نہائت سطحی سا تعارف تھا، اس تحریر کی تمام خرابیاں ہماری کم علمی اور نااہلی پر منطبق ہے، اس گوہر نایاب کتاب میں نہائت خوب علمی و ادبی بحثیں ہیں، الفاظ و املا کی ایسی نادر مثالیں ہیں کہ لفظوں سے محبت کرنے والے لوگ عش عش کر اٹھیں گے۔ ہدیہ ڈیڑھ سو روپے ہے اور امید ہے کہ لبرٹی یا اردو بازار سے یہ کتاب با اسانی مل سکتی ہے۔ اپنے تبصرہ جات سے ضرور اگاہ کیجئے گا۔

Share

September 25, 2011

کمپیوٹر سائنس – مشین لرننگ کس چڑیا کا نام ہے؟

Filed under: تحقیق — ابو عزام @ 12:20 am

اکثر احباب پوچھا کرتے ہیں کہ میرے پی ایچ ڈی کی تحقیق کا موضوع کیا ہے۔جب میں‌ بتاتا ہوں‌ کہ میری تحقیق کا دائرہ کار مشین لرننگ سے ملتا ہے تو کمپیوٹر سائنس سے نا آشنا افراد کے لئے یہ اکثر ایک نیا لفظ ہوتا ہے اور وہ نا دانستگی میں اسے میکینکل انجینئرنگ سے ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس  تحریر میں‌ یہ کوشش کی گئی ہے کہ عام فہم طریقے سے مشین لرننگ کے شعبے کو بیان کیا جائے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت حوالہ دینے کے کام آسکے۔

مشین لرننگ کمپیوٹر سائنس کا ایک شعبہ ہے جس کو شماریات اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا مصنوعی ذہانت کا اتصال کہا جاتا ہے۔ مشین لرننگ کی ایک سادہ اور جامع سی تعریف ہے کہ یہ وہ الگارتھم بنانے کا علم ہے جس کے ذریعے نامعلوم سے معلوم کو اخذ کیا جاتا ہے۔ ڈیٹا مایننگ کی تعریف بھی خاصی ملتی جلتی ہے لیکن بنیادی فرق دونوں میں یہ ہے کہ مشین لرننگ کے شعبے کی الگارتھم پر خصوصی توجہ ہوتی ہے جبکہ ڈیٹا مائننگ ایک خاصہ جامع موضوع ہے جو بزنس انٹیلیجنس سے لے کر ڈیٹا کی پیش پردازش تک کے بے شمار مضامین اپنے اندر سموے ہوئے ہے۔

الگارتھم کمپیوٹر سائنس کی اصطلاح میں‌ اوامر کے ایسےترتیبی مجموعے کو کہا جاتا ہے کہ جس میں کسی مسئلے کے حل یا کسی کام کو کرنے کا طریقہ بیان کیا گیا ہو۔ مثلا اگر آپ کسی ڈکشنری میں ایک لفظ ڈھونڈنا چاہتے ہوں‌ تو کونسا طریقہ استعمال کیا جائے گا، کتنی مرتبہ صفحات کو پلٹنے کے ضرورت پیش آئے گی اور لفظ ڈھونڈنے کا سب سے موثر ‘آپٹمائزڈ’ طریقہ کیا ہوگا، اسی طرح کے بنیادی سوالات و جوابات کی تلاش الگارتھم بنانے اور سمجھنے کے علم میں‌ کی جاتی ہے۔

مشین لرننگ کا علم الگارتھم کے ذریعے کسی ڈیٹا سیٹ سے معلومات اخذ کرنے، اور اس کے بعد اس کا تجزیہ کر کر الگارتھم کے ذریعے معلومات سیکھنے کے عمل کو بہتر بنانے سے بحث کرتا ہے۔ اس کی ایک آسان سی مثال سادہ بیزین ترشيح ہے جس کو بہت سارے کمپیوٹر استعمال کرنے والے لوگ نا جاننے کے باوجود بھی روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ سادہ بیزین ترشيح ایک ایسا الگارتھم ہے جس کے مطابق آپ اشیا کا رجحان معلوم کرسکتے ہیں۔ اس کی روز مرہ کے استعمال کی صورت ای میل میں‌سے اسپیم یا اشتہاری مواد کو چھانٹنے کا خودکار عمل ہے۔ مائکروسافٹ کی 2009 کی ایک رپورٹ کے مطابق 97 فیصد ای میل جو انٹرنیٹ کے ذریعے بھیجی جاتی ہے، غیر مطلوب یا اسپیم کے زمرے میں آتی ہے۔ اس میں فارمیسی یعنی جعلی دواوں، جعلی یا دو نمبر اشیا، جنسی ، معاشی استحصالی، جعلی ڈگریوں، جوا وغیرہ سے متعلق مواد شامل ہوتا ہے۔ اتنی ساری ای میل کو پڑھنا اور اس میں سے اچھی اور خراب ای میل کو الگ کرنا انسانی وقت کا ضیاع ہے بلکہ بیشتر حالات میں‌ وقت کے لحاظ سے نا ممکنات میں شمار ہوتا ہے لہذا سادہ بیزین ترشيح کے الگارتھم کے ذریعے کمپیوٹر یہ یاد کرنے کی کوشش کرتا ہے غیر مطلوب ای میل کس طرح کی ہوتی ہے، اس میں کس طرح کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں، اس کا منبع و ماخذ کیا ہوتا ہے، اس میں‌استعمال ہونے والے حوالہ جات کی کیا شکل ہوتی ہے وغیرہ۔ جب سادہ بیزین ترشيح کا الگارتھم بہت سارے ایسے ای میل پیغامات کو پڑھ کر اس کا خلاصہ اپنی یادداشت میں‌بٹھا لیتا ہے تو جب وہ اس طرح کا کوئ بھی پیغام دیکھتا ہے مثلا ‘فوری ڈگری حاصل کریں’ یا ‘سستی گھڑیاں’ یا ‘آپ کا لاکھوں ڈالر کا انعام نکل آیا ہے’  تو اس کی درجہ بندی کرنا اس الگارتھم کے لئے ممکن ہوجاتا ہے اور یہی وہ سیکھنے کا عمل ہے جس کو مشین لرننگ کی اصطلاح سے یاد کیا جاتا ہے۔

۔ مشین لرننگ کا کوئی بھی الگارتھم غلطی سے مبرا نہیں ہوتا اور اسی لئے اسے مستقل سیکھنے یا لرننگ کا عمل کہا جاتا ہے۔ اسپیمرز کو اس الگارتھم سے لڑنے کے لئے نت نئے طریقے استعمال کرنے پڑتے ہیں مثلا نئے الفاظ کا استعمال، مبھم و پوشیدہ لنکس وغیرہ لیکن اس مستقل جنگ میں زیادہ تر فتح الگارتھم کی ہی ہوتی ہے۔

یہ تو تھی مشین لرننگ الگارتھم کی ایک مثال۔ مشین لرننگ کے الگارتھمز کو بنیادی طور پر دو حصوں میں‌تقسیم کیا جاتا ہے، نگراں سیکھنے والے اور بغیر نگرانی کے سیکھنے والے الگارتھ۔ ان دونوں‌کے درمیاں ایک سیمی سپروائزڈ حالت بھی پائی جاتی ہے۔ نگراں معرفت والے الگارتھم کسی انسانی ماہر یا ماہرانہ ڈیٹا سیٹ سے مدد لے کر اپنے آپ سیکھنے کے عمل کو بہتر بناتے ہیں۔ غیر نگراں‌معرفت والے الگارتھم خود سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں مثلا مجموعات بنانے کے زیادہ تر الگارتھم جس میں اشیا کے درمیان تعلق کے فاصلے کو ناپا جاتا ہے۔

مشین لرننگ کمپیوٹر سائنس کا ایک نہائت تیز رفتاری سے آگے بڑھنے والا شعبہ ہے۔ سرچ انجن، ٹیکسٹ مایننگ، سیاق الکلام میں الفاظ کی تلاش، سیاق و سباق سے جوابات تلاش کرنا، ہاتھ کی لکھائی اور آواز کو پہچاننا، کتابوں کی پسندیدگی کا مشورہ و سفارش ، بینک کے خرچہ جات میں تعلق اور فراڈ کی تلاش وغیرہ کچھ ایسے عام استعمال کی چیزوں کی مثالیں ہیں جن میں مشین لرننگ کے الگارتھمز کا وافر استعمال ہوتا ہے۔

مشین لرننگ، کمپیوٹر سائنس کا ایک بڑا شعبہ ہے اور ایک بلاگ میں اس کا  احاطہ کرنانہائت مشکل کام ہے لیکن امید ہے کہ یہ مختصر سا بنیادی تعارف آپ کے علم میں اضافے کا باعث بنا ہوگا۔ اگر آپ کا مشین لرننگ یا اس سے ملحقہ کسی تکنیکی مضمون کے بارے میں کوئی سوال ہو تو ضرور پوچھئے،  راقم اس کا سیر حاصل جواب دینے کی بھرپور کوشش کرے گا۔

Share

September 17, 2011

شائڈنفرائڈا، شماتت اور ٹیورنگ تعادل کا باہمی تعلق

Filed under: تحقیق — ابو عزام @ 8:43 am

مختلف زبانوں میں  تصورات کو متنوع طریقے سے بیان کیا جاتا ہے۔ لسانیات کا ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ افکار کا الفاظ سےتعلق راست متناسب ہوتا ہے۔ کسی زبان میں لفظ کی عدم موجودگی یا کثرت اسکے بولنے والوں کے سماجی رجحانات کا پتا دیتی ہے۔ مثلا ایسکیمو کے لئے برف  یا عربوں میں‌ گھوڑے کے لئے مستعمل الفاظ کا زخیرہ ان معاشروں کے سماجی میلانات کی طرف واضع اشارہ کرتا ہے۔ ہم معنویت یا ترادف کو لسانیات میں ‘سینونیمی’ کے نام سے جانا ہے جو کہ کسی لفظ کی برابری، نزدیکی اور مفتود ہونےکا علم ہے۔

کل دفتر سے واپسی پر اسکاٹ ہینسلمین کا پاڈکاسٹ برائے پولیگاٹ پراگرامنگ سن رہا تھا کہ اس میں‌اسی موضوع پر بات شروع ہوئی اور مثال کے طور پر لفظ شائڈنفرائڈا استعمال ہوا ۔ فراز کے دیوان میں بہت پہلے شماتت کا لفظ پڑھا تھا جو کہ اردو میں‌ فارسی سے مستعار لیا گیا ہے۔ اس کے معنی ہیں کسی اور کی مصیبت پر خوش ہونا یا شاد شدن به خرابی کسی۔ اس لفظ کا جرمن زبان میں‌ مترادف شائڈنفرائڈا ہے جو بلکل اسی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے لیکن انگریزی زبان میں اسکا لفظ واحد میں‌مترادف نہیں۔ اس طرح کے بہت سے الفاظ ہیں جن کی تفصیل میں‌جانا اس مختصر تحریر میں ممکن نا ہوگا۔

مقصود یہ بتانا تھا کہ اسی  اصول کا اطلاق کمپیوٹر کی زبانوں پر بھی ہوتا ہے۔ ہر وہ زبان جو ٹیورنگ کمپلیٹ ہو اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ اس میں‌ ٹیورنگ تعادل پایا جاتا ہے، اس کے معنی یہ ہیں‌ کہ فنکشنل ‘فعالی’ اور اٹریٹو ‘تکراری’ زبانیں بہت مختلف صیغہ جات پر کام کرتی ہیں لہذا اگر ایک زبان میں کوئی تصريح موجود ہو جو کسی کام کو نہائت آسانی سے کرسکتی ہو تو ضروری نہیں ہے کہ وہ دوسری زبان میں بھی موجود ہو۔ لیکن، ٹیورنگ کمپلیٹ ہونے کے ناتے دوسری زبان میں متنوع تصریحات، چاہے وہ ایک سے زیادہ ہوں، یہ کام کیا جا سکے گا۔

Share

August 22, 2011

کمپیوٹر سائنس – این پی مسائل کیا ہیں؟

Filed under: تحقیق — ابو عزام @ 10:14 pm

پی اور این پی بتانے سے پہلے پہلے ایک چھوٹی سی تمہید باندھتے ہیں۔آپ نے وہ کہانی تو ضرور سنی ہوگی کہ ایک بادشاہ نے ایک درباری سے خوش ہوکر کہا مانگ کیا مانگتا ہے۔ وہ درباری بادشاہ کی شومئی قسمت سے ریاضی دان تھا جس نےمسکراتے ہوئے فرمائش کی کہ شطرنج کے پہلے خانے میں ایک اشرفی رکھی جائے پھر دوسرے میں دو  پھر دوسرے خانے میں موجود تعداد کو اسی تعداد سے ضرب دیا جائے ( یعنی ۲ ضرب ۲ =4) اور جواب تعداد ( 4) کو تیسرے خانے میں رکھا جائے پھر چوتھے خانے میں بھی یہی عمل دہرایا جائے ( یعنی ۴ضرب ۴ =16 ) اس حاصل ضرب تعداد کے برابر اشرفیوں کوچوتھے خانے میں رکھا جائےاسی طرح یہ عمل ہر خانے میں دہراتے ہوئے کل چونسٹھ خانے میں اشرفیاں رکھی جائيں اور وہ تمام اشرفیاں مجھے انعام میں دے دیا جائے۔
پہلے تو بادشاہ اس عجیب فرمائشی انعام پر ہنسا کہ اتنی سی مقدار میں خزانہ مانگ رہا ہے تو اس نے اپنے خزانچی کو حکم دیا کہ جس حساب سے یہ اشرفیاں مانگ رہا ہے اسے دے دیا جائے۔ خزانچی حساب لگانے اور اشرفیاں دینے کے لئے گیا مگر پھر واپس دوڑا ہوا آیا اور ڈرتے ڈرتے بتایا کہ اسی طریقے سے جو اشرفیوں کی مقدار بنتی ہے وہ تو ہمارے خزانےیا سلطنت میں تو دور کی بات پوری دنیا میں شائد اتنا سونا نا ہو کے اتنی اشرفیاں بنائی جا سکیں۔

اسے کامبنیٹرل ایکپلوژن کہا جاتا ہے اور یہ بولین سیٹسفایبلٹی پرابلم کی اساس ہے۔ پی اور این پی مسائل کا مطالعہ ایک نہائت مزیدار مضمون اور پی بمقابل این پی کمپیوٹر سائنیس کاایک نہایت دقیق غیر حل شدہ مسئلہ ہے جس کے حل پر ایک ملین ڈالر کا انعام رکھا گیا ہے۔ اس کو ایک اور کامبینیٹرل ایکپلوژن مثال سے اس طرح بتایا جاسکتا ہے کہ آپ جامعہ کراچی میں انڈر گریجویٹ طالب علموں کے سربراہ  ہیں اور آپ نے 1،000 طالب علموں کو  10 ڈپارٹمنٹوں یا شعبہ جات میں‌ داخلہ دینا ہے۔ ہر طالب علم ایک فہرست پیش کرتا ہے کہ وہ کن دیگر طالبعلموں کے ساتھ پڑھنا پسند یا ناپسند کرتا ہے۔ اس سادے سے مسئلے میں کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے طالب علموں کی ترجیحات کو مطمئن کر سکتے ہیں اور کیا  کمپیوٹنگ کا استعمال کرتے ہوئے اس مسئلے کو  حل کیا جا سکتا ہے؟

عام سا لگنے والا یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں۔  طالب علموں کے ممکنہ کامبینیشیز کی تعداد ایک نہایت ہی بڑا عدد بن جاتی ہے۔ یہ عدد ہے ایک کے بعد ایک ہزار صفر! یہ تعداد شاید کائنات میں بنیادی ذرات کی تعداد سے بھی ذیادہ ہے اس طرح اندازہ لگایئے کہ اگر ہم ایک ٹرلین کامبنیشنز یا تفاویض کوایک سیکنڈ میں چیک کرتے ہیں پھر بھی تمام اسائنمنٹس دیکھنے میں ٹریلین ، ٹریلین،  ٹریلین  سال لگ جائیں گے۔ اس طرح کی تلاش کو  جامع تلاش کہا جاتا ہے اور یہ کمپیوٹیشنلی بہت مہنگا پڑتا ہے!

 کسی بھی کمپیوٹر الگارتھم کی ایک اہم خصوصیت اس کی کمپلیکسٹی یا پیچیدگی کا پیمانا ہوتا ہے۔ اس پیمانے کو لینیر یا خطی، کواڈریٹک، لاگ، پولینومیل یا متعدد الحدود اور ایکسپونینشیل یا قوت نما کے پیمانوں سے ناپا جاتا ہے۔اس زمن میں اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ یہ الگارتھم جگہ اور وقت دونوں کے لئے بہتر طریقے سے اصلاح شدہ ہو۔  یعنی کوئی الگارتھم زیادہ میموری استعمال کر کر جلدی جواب لا دے تو اسکا استعمال چھوٹے ڈوایسز میں جن میں‌ میموری کی کمی ہوتی ہے آسانی سے نہیں ہوسکتا۔ یہی حال پراسسنگ پاور کا ہے کہ اگر ایک الگارتھم کم جگہ لیتا ہو لیکن جواب لانے کے لئے ٹیرا فلاپس میں ہدایات کو چلانا مقصود ہو تو اسکا استعمال بھی محدود ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی پرائم نمبر کے حل کی تصدیق تو نہایت آسان کام ہے لیکن اسے ڈھونڈنے کے لئے اس کو لاکھوں کروڑوں اعداد سے تقسیم کرنا ایک بروٹ فورس مرحلہ ہے جو ہر بڑھنے والے پرائم کے ساتھ مشکل ہوتا چلا جاتا ہے۔

پی مسائل ایسےہوتے ہیں جن کا پولینومیل ٹائم میں جواب ڈھونڈا جاسکتا ہے اور اس جواب کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ پولینومیل ٹایم سے عام الفاظ میں مراد اتنا وقت ہے جس کا اوپری باونڈ پولینومیل کلئے سے ظاہر کیا جا سکتا ہو۔  این پی یا ‘نان ڈٹرمنسٹک پولینومیل ٹایم’ مسئلے سے مراد ایسا مسئلہ  ہے جو کہ حل ہونے میں بہت وقت لیتا ہو اور اس کے حل کی تصدیق پولینومیل وقت میں ہوسکتی ہو۔ حل کی تصدیق درحقیقت یہاں تعریف کی اصل حقیقت ہے۔ این پی مسائل ناممکن نہیں ہوتے، صرف بہت مشکل ہوتے ہیں۔ ان کی فہرست یہاں دیکھی جا سکتی ہے۔

اکثر محققین کی حس مزاح کو گدگدانے والا  ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ کیا پی اور این پی برابر ہیں-یعنی کہ اگر کس مسئلے کی پولینومیل وقت میں تصدیق کی جاسکتی ہے تو کیا مستقبل میں انسانی علم اس قابل ہوسکتا ہے کہ اس مسئلے کو پولینومیل وقت میں حل بھی کیا جاسکے۔ اگر ہاں‌ تو اسکا حسابی ثبوت کیا ہے؟ یہ مسئلہ ساینسی اذہان کو پواینکیر کنچیکچر اور فرماٹ کے آخری تھیورم کے بعد سب سے ذیادہ مصروف رکھنے والا معمہ ہے۔ محققین کی ایک چھوٹی سی راے شماری کے مطابق ایک بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ پی اور این پی برابر نہیں۔ میرا خیال اسکے برعکس ہے لیکن ڈانلڈ نتھ کی طرح میری راے بھی اقلیتی ہے۔ 🙂

Share
« Newer PostsOlder Posts »

Powered by WordPress