فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

January 22, 2011

تھامس جیفرسن کےنسخہ ترجمہ قران کے تعاقب میں – ایک تصویری کہانی

Filed under: تحقیق,سفر وسیلہ ظفر — ابو عزام @ 12:00 am
ہائیں؟ کیا مطلب جیفرسن کا نسخہ قران یہاں موجود نہیں؟
Library of Congress
عالم حیرت میں انگشت بدنداں یہ بات ہم نے لائبرری آف کانگریس میں ہونے والی تھامس جیفرسن کے کتب خانے کی نمائش کی نگرانی پر مامور سیکورٹی گارڈ سے پوچھی ۔ واشنگٹن ڈی سی میں واقع لائبرری آف کانگریس دنیا کی سب سے بڑی لائبرری سمجھی جاتی ہے۔ یہاں پر تھامس جیفرسن، امریکہ کے تیسرے صدر کے زیر استعمال ہونے والا وہ تاریخی ترجمہ قران موجود ہے جو برطانوی محقق و مترجم جارج سیل نے 1734 میں کیا تھا۔ اس ترجمہ قران کو پہلا انگریزی علمی ترجمہ سمجھا جاتا ہے۔اس سے پہلے الیگزینڈر راس کا ترجمہ قران درحقیقت ایک فرانسیسی ترجمے کا انگریزی ترجمہ تھا۔اسی نادر و نایاب ترجمہ قران پر امریکہ کے پہلے مسلم کانگریس ممبر کیتھ ایلیسن نے حلف اٹھایا تھا اور اسی کی تلاش ہمیں کشاں کشاں اس کتب خانے تک کھینچ لائی تھی.ہماری طرح  صدر تھامس جیفرسن کو کتابیں پڑھنے اور جمع کرنے کا بہت شوق تھا۔ اس نے ایک دفعہ ایک مشہور امریکی سیاستدان جان ایڈمز سے کہا تھا کہ ‘میں .کتابوں کے بغیر نہیں جی سکتا’۔راقم نے بھی راشد بھائی سے ایک دفعہ بلکل یہی بات کہی تھی لیکن جب انہوں نے ہمارا یہی قول حیدرآبادی بریانی پر بھی صادق بتایا تو ہم نے اصرار کرنا مناسب نا سمجھا۔ یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا، بہرحال بات ہو رہی تھی کہ اگر یہ ترجمہ اس نمائش میں موجود نہیں تو آخر گیا کہاں؟

Jefferson's Library

۔ کمپیوٹر کے مطابق یہ ترجمہ قران بلکل سامنے والے شیلف کی تیسری دراز میں ہونا چاہئے تھا لیکن ہماری حیرت کی انتہا نا رہی کہ جب کمپیوٹر کے کیٹالاگ کے برخلاف مصحف اس دراز میں نا نظر آیا؟

Library of Congress Jefferson's Quran

اگر کسی نے اسے پڑھنے کے لئے نکلوایا ہو تو دنیا کی سب سے بڑئی لائبرری سے کم از کم یہ تو توقع کی جاسکتی ہے کے وہ اپنے کیٹالاگ کو درست حالت میں رکھے ۔ اب ہمیں یہ کھٹکا ہوا کہ یہ نسخہ قران کہیں کسی اسلام دشمنی کی وجہ سے تو نہیں‌ہٹا دیا گیا؟ پاکستانی ہونے کے ناطے اتنی کانسپیریسی تھیوری بنانے کا حق تو ہمیں حاصل ہے۔ تو پھر کیا تھا، ہم نے اس بات کی ٹھان لی کہ آج اس نسخہ ترجمہ قران کی تلاش کر کر رہیں گے چاہے ہمیں گنتناموبے ہی کیوں نا بھیج دیا جائے، غضب خدا کا۔

Library of Congress Jefferson's Quran

جب سیکیورٹی گارڈ سے کوئی خاص مدد نا مل سکی تو ہم نے کسی ثقہ لائبریرین کی تلاش شروع کی۔ ایک والنٹیر کتب خانے کا نگران نظر آیا تو اس سے اس بابت دریافت کی۔ مرد ابیض بولا کہ شائد یہ مصحف آپکو نایاب کتب کے خصوصی کمرے میں ملے ۔ ہم نے راستہ پوچھا تو اس نے کہا کہ نایاب کتب کی دسترس کے لئے محقق ہونا شرط ہے اور ایک کارڈ بنوانا پڑتا ہے۔ کانسپریسی تھیوری کے پکوڑوں کی خوشبو اب زور پکڑنے لگی تھی۔ ہم نے پوچھا اے درویش، کارڈ بنوانے کا پتا بتا، اس نے کہا سڑک پار کرو اور جیمز میڈیسن والی عمارت کے کمرہ نمبر 140 میں جا کر ایک ایشیائی نژاد محققہ سے ملو تو شائد مراد بر آئے ۔

Madison Building

اندھا کیا چاہے لائبرری کارڈ، ہم نے آو دیکھا نا تاو، ظہر و عصر کی قصر ادا کرتے کے ساتھ ہی سیدھا لائبرری آف گانگریس کی دوسری عمارت کی راہ لی۔ چشم تصور میں‌ ہمیں‌ ڈین براون کی کتابوں کے ہیرو رابرٹ لینگڈن سے ہو بہو مشابہت تھی جو کہ لاسٹ سبمل کے دوران ڈی سی کی خاک چھانتا پھرتا ہے، کمرہ نمبر 140 بھاگتے دوڑتے پہنچے

Reading Registration - Madison Building

جب وہاں‌ دیکھا تو لکھا تھا کہ لائبرری کارڈ صرف محققین کو جاری کئے جاتے ہیں۔ ہم پی ایچ ڈی کے ظالبعلم تو ہیں لیکن بایزین بیلیف نیٹورک اور مشین لرننگ کا نادر کتابوں سے کوئی دور کا تعلق نہیں لیکن پھر بھی ہم نے قسمت آزمائی کا سوچا کہ شائد یاوری کرئے۔

Reading Registration - Madison Building 2.JPG

پہلا مرحلہ شناخت کاتھا، پھرکپمیوٹر پر فارم بھرنے کے بعد ایک خاتون نے کتب خانے کے کارڈ کےلئے تصویر لی اور کارڈ ہمارے ہاتھ میں تھماتے ہوئے نوید دی کہ اب ہم دو سال تک اب کتب خانے کے بیشتر کمروں میں جانے کے اہل ہیں۔

Registration for Library Card - Madison Building

اتنی جلد تو ہمیں ہماری عزیز لیاقت نیشنل لائبرری کا کارڈ تو کیا بس کا رعایتی کارڈ بھی پرنسپل کے دفتر سے نا ملا

Library Card

. بہرحال، انکا شکریہ ادا کرتے ہوئے اگلے مرحلے کی طرف بڑھے جو ریسرچ اسسٹنٹ سے ملنے کا تھا. ہم نے ریسرچ اسسٹنٹ سے ترجمہ قران کے محل و وقوع کے بارے میں پوچھا تو اس نے اپنے کمپیوٹر میں ڈھونڈنا شروع کیا اور کچھ دیر میں‌بتایا کہ یہ نادر کتابوں کے کمرئے میں موجود ہے لیکن فون کر کے کنفرم کر لیتے ہیں ۔ محترمہ نے فون گھمایا اور ہمیں تھما دیا ۔ اب جب ہم نے دوسری طرف موجود لایبریرین سے پوچھا کہ کیا ہم جیفرسن کے قران کا مطالعہ کر سکتے ہیں تو انہوں نے ٹکا سا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم 4:15 کے بعد کتابوں‌کو نہیں نکالنے۔ یاد رہے کہ نادر کتابوں کے کمرے کا وقت 5:00 بجے ختم ہو جاتا ہے۔ہمیں بڑی مایوسی ہو چلی تھی لیکن آخری حربے کے طور پر التجائی لہجے میں‌درخواست کی کہ جیسے جامعہ میں محتمن سے ایک ایک نمبر کے لئے دست سوال دراز کیا جاتا تھا ۔ گویا ہوئے کہ محترمہ، ہم مغرب کے گرم پانیوں کی سنہری ریاست سے آپ کے اس یخ بستہ برف کے تندور میں‌آئے ہیںاور کل صبح روانگی ہے، اگر آپ کی نظر عنائت ہو توفدوی عمر بھر مشکور رہے گا۔بقول یوسفی خمری کو فون پر ہی ہمارئ مسکین صورت پر رحم آگیا اور بلا سوال و جواب اس نے ہمیں‌ کہا کہ فورا پہنچو۔ ہم نے اسسٹنٹ ریسرچر سے کمرے کا راستہ پوچھا تو اس نے ہمیں سرنگ کا شارٹ کٹ بتاتے ہوئے نقشہ دیا اور ہم بھاگتے ہوئے نادر کتابوں کے سیکشن کے طرف روانہ ہوئے۔

Jefferson's Library -Rare Books Section - tunnel

واشنگٹن ڈی سی میں بہت سی سرکاری اور وفاقی عمارتوں کو ایک دوسرے سے سرنگوں کے ذریعے جوڑا گیا ہے۔ یہ سرنگیں واضع نشانیوں کی عدم موجودگی میں تو شائد بھول بھلیوں کا کام دیں لیکن قسمت نے یاوری کی اور ہم نشانات دیکھتے ہوئے بغیر جی پی اسی کی مدد کے آسانی سے نادر کتب کے فلور پر پہنچ گئے

Jefferson's Library -Rare Books Section



Jefferson's Library - Quran - Rare Books Section - Locker

Jefferson's Library - Rare Books Section - Locker

یہاں پہنچ کہ پتا چلا کہ ابھی تو ایک اور فارم بھرنا ہے اور اپنی ہر چیز کو ایک عدد لاکر میں رکھنا ہے۔ حکمِ صیّاد ہے تا ختم، ایک بڑی سی کنجی والے لاکر میں تمام بوریا بستر ڈالا اور سنہرے دروازے والے نادر کتب کے کمرے تک جا پہنچے

Jefferson's Library - Quran - Rare Books Section

وہاں دعا مانگتے ہوئے اور ڈرتے ڈرتے داخل ہوئے کہ کہیں وقت کو بہانہ بنا کر لائبریرین داغ مفارقت نا دے دے لیکن محترمہ وعدے کی پکی تھیں انہوں نے ہم سے ایک فارم بھروایا کہ اگر ہم نے کسی نادر کتاب کو کسی قسم کا نقصان پہنچایا یا کوئی چیز خراب کی تو جو چور کی سزا وہ ہماری۔

Jefferson's Library - Quran - Rare Books Section

ان تمام کاغذی کاروایوں سے فارغ ہونے کے بعد اب ہم ریڈنگ روم میں میز کرسی پر جا بیٹھے۔ لایبریرین ایک رحل لایا اور اس کے ساتھ ترجمہ قران کے دو نسخے، جلد اور اور دوم۔ مرد بیضا کے ہاتھ میں رحل دیکھی تو وہ کچھ مسلمان مسلمان سا لگنے لگا لیکن جب آس پاس نظر دوڑای تو پتا چلا کہ نادر کتب کے لئے یہی رائج طریقہ مطالعہ ہے کہ کتاب کو کم سے کم ہاتھ لگے۔ اس نے پھر ایک کپڑے کی پٹی سی جس کے دونوں طرف ہلکے اوزان بندھے تھے ترجمہ کھول کر اس پر ڈال دی اور خاموشی سے اپنی میز پر جا کر مطالعے میں منہمک ہو گیا۔

Jefferson's Library - Quran

اس نادر نسخے کو اتنے قریب سے دیکھنے اور آخرکار ہاتھ لگانے سے ہم پر شادی مرگ کی سی کیفیت طاری تھی، اس اولین نسخہ ترجمہ قران میں ایک طویل تمہید ‘پریلمنری ڈسکورس’ کے نام سے موجود ہے جو عرب اور اسلام کے ابتدائی حالات کے بارے میں ایک مفصل مضمون ہے۔ اس ترجمے پر کئی اعتراضات اٹھائے جا چکے ہیں جن میں‌سے بنیادی اعتراض اس بات پر ہے کہ اس زمانے کے تراجم نے اسلام کو یہودیت اور عیسائیت کی طرح ایک الہامی مذہب کے بجائے ایک گروہ یا ‘کلٹ’کی طرح پیش کیا جاتا ہے جس کی ایک رمق جارج سیل کے اپنے مقولے سے ملتی ہے جس میں وہ کہتے ہیں۔

” محمد نے عربوں کو وہ بہترین‌ دین دیا جو کہ کم از کم ان بت پرستوں کے قانون دانوں کے دئے گئے ضابطوں سے بہت بہتر تھا۔ مجھے علم نہیں کہ انکو اس طرح کی عزت و احترام کے برابر کیوں نا سمجھا جائے جیسا کہ ماینوس اور نوما (یونانی اور رومی فلاسفر بادشاہوں) کو دیا جاتا ہے لیکن یہ عیسی اور موسی کے ہرگز برابر نا ہوگا کہ انکے قوانین الہامی تھے۔ انکو ایک ایسے عالم کے طور پر ضرور ماننا چاہئے کہ جس نے بت پرستی کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک خدا کے لئے دین کی داغ بیل ڈالی اور پہلے سےبنے قوانین صنم پرستی کے ذریعے پادشاہت کی آرزو نا کی۔”

صلی اللہ علیہ والہ وسلم

بہرطور، جارج سیل کے ترجمے پر کئی رائے ہو سکتی ہیں جو کہ ایک ماہر تراجم اور ایک اور مضمون کی متقاضی ہیں لیکن ہمیں اسکی تلاش اور مطالعے میں بے حد لطف آیا۔ باہر نکلے تو شام کا وقت تھا اور کیپٹل بلڈنگ کی عمارت پر سے سورج اپنی روشنی سمیٹتا نظر آیا۔ ہم نے ستارئے سفر کے ڈھونڈنا شروع کئے کہ ایمسٹرڈم فلافل پر رش نا بڑھ جائے۔بھوک زوروں پر ہے۔

Jefferson's Library -Capitol Building

مضمون کے حوالہ جات

قران کے انگریزی تراجم کا علمی جائزہ

جارج سیل

جارج سیل کا ترجمہ قران – گٹن برگ پراجیکٹ

مسلم کانگریسمین کا قران پر حلف – این پی آر

ایلیسن کا قران پر حلف – اسنوپس

لایبرری آف کانگریس – جیفرسن کا ترجمہ قران

Share

November 1, 2010

وجود خداوندی، سائنس اور اسٹیفن ہاکنگ

Filed under: تحقیق,مذہب — ابو عزام @ 12:00 pm
قران سائنس کی کتاب نہیں، اسی طرح جس طرح قران فلسفے، منطق یا تاریخ کی کتاب نہیں حالانکہ اس سر چشمہ ہدایت میں بہت سے مختلف النواع مضامین کا بیا ن ہے ۔ یہ الہامی احکامات  کا وہ سرچشمہ ہے جس سے ہدایت حاصل کرنے کے لئے ایک بنیادی شرط لگائی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ
هُدىً لِلْمُتَّقِينَ –  الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ
ہدایت ہے ان پرہیزگار لوگوں کے لئے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔۔البقرہ
ان غیوب میں سب سے بڑا غیب اللہ سبحان تعالی کی ذات باری ہے۔ اگر اللہ تعالی چاہتا، جیسا کہ قران میں‌بھی ذکر ہوتا ہے، تو سارے انسان ایک طرح کے ہو سکتے تھے، اتباع اور وہ بھی بغیر دیکھے آمنا و صدقنا کہنا ہی تو اصل دار المتحان ہے۔ اگر آسمان پر کلمہ طیبہ لکھا آجائے تو کٹا  کافر بھی شائد مسلمان ہونے میں کچھ تامل نا کرے لیکن یہ منشا خداوندی نہیں کہ لوگوں پر غیب کو مطلع کر دیا جائے کہ پھر تو معرکہ حق و باطل و آزمایش میں غیب کا پرتو نا رہا اور ایمان بالغیب کی شرط پوری نا ہو پائی۔
دور حاضر کے عصری علوم خصوصا سائنس ایک تجزیاتی و تجرباتی علم ہے جہاں ہر چیز کو تجربے کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ اگر کوئی چیز موجودہ تجرباتی آلات سے نہیں ناپی جا سکے تو علم ریاضی کا سہارا لیا جاتا ہے کہ اس کی مدد سے سیمیولیشن ‘نقلیت’ کے ذریعے ایسی چیزوں کا پتا چلایا جا سکتا ہے جو انسانی تجربے یا سطحی تخیل سے بظاہر ماورا ہوں مثلا کوانٹم طبعیات کی تین سے ذائد ڈایمنشنز  یا کوارک کے باہمی قوانین یا ایم تھیوری وغیرہ۔ لیکن صرف اس وجہ سے کہ سائنس آج اس بات کو نہیں جان سکی اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ مستقبل کے انسانی علوم کے اضافے اس فرق کو مٹا نا دیں گے اور انسانی علوم مزید ترقی نا کرتے رہیں گے۔ لیکن ایک بات نہایت صاف ہے کہ سائنس جو کہ ایک تغیراتی اور تجرباتی علم ہے، کبھی خدا کے وجود کو تجربے کی بنیاد پر ثابت نہیں کر سکتا کیونکہ وجود خداوندی کا تعلق غیب سے ہے جو انسان پر مطلع صرف اس وقت ہوگا جب کہ مشیت الہیہ ہو اور یوم الدین کا ظہور ہو۔
گزشتہ دنوں اس بات پر بڑی ہا ہا کا ر مچی کہ اسٹیون ہاکنگ نے خدا کے وجود کا انکار کردیا۔ میرا ناقص علم تو یہ کہتا  ہے  اگر کوئی سائنسدان خدا کے وجود کااقرار کرے یا اسے تجرباتی طور پر ساینسی بنیادوں پر ثابت کرنے کی بات کرے تو اس کے اس دعوے کو شبہ کی نظر سے دیکھنا زیادہ حق بجانب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر خدا کا وجود کسی عقلی و تجرباتی پیٹری ڈش کے ذریعے ثابت کیا جا سکے تو غیب کا پردہ اور الحاد کا چیلنج ہی نا رہے۔
ایسا نہیں کہ سائنسدانوں کے خدا کے وجود کو ڈھونڈنے کی سعی نہ کہ ہو۔ گرینڈ ڈیزاین میں ہاکنگ خود لکھتا ہے کہ نیوٹن اور اس سے پہلے کئی علم طبعیات کے اکابرین خدا کے وجود بلکہ معجزات  کے قائل رہے ہیں۔ آینسٹاین کا کوانٹم طبعیات پرقول مشہور ہے کہ ‘خدا پانسے نہیں کھیلتا’ کیونکہ وہ کوانٹم میکانیات کے احتمالی قوانین سے مطمئن نا تھا – سائنسدان تھامس بائس جس کا بایس تھیورم آپ روزانہ اپنی ای میل میں جنک فلٹریشن کے لئے استعمال کرتے ہیں درحقیقت پادری تھامس بائس کی خدا کے وجود اور اس کی منشا کو ثابت کرنے کی ایک کاوش  تھی۔دوسری طرف سائنسدانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ ہے کو کسی ماورا طبعی شے کے وجود کو ماننے میں حد درجے کا نالاں ہے۔ اسی کے رد میں مشہور زمانہ ایم آی ٹی کے فزکس پی ایچ ڈی فرینک ٹپلر نے اپنی کتاب ‘فزکس آف ایمورٹیلیٹی‘ لکھی جو کہ آج کل راقم کے زیر مطالعہ ہے۔
اس کتاب میں  فرینک ٹپلر نے اومیگا پاینٹ تھیوری کے نظریے کے مطابق حیات بعد الموت کے نظریے کی سائنسی بنیادوں پر توجیح و تشریح کی ہے نیز بعد میں اسے کوانٹم طبعیات سے بھی نتھی کیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس کتاب پر ساینسدانوں کی طرف سے جا بجا اعتراضات اٹھائے گئے ہیں لیکن  فرینک ٹپلر ایک قد آور ساینسدان ہے، کوئی ہاتھ دیکھنے والا پروفیسر نہیں۔ اس کے باوجود بھی کہ اگر بہت سے ساینسدان اپنے اطراف میں جگہ جگہ خدا کی موجودگی کے اثرات دیکھتے ہیں اور غور و فکر کرنے والوں کی حیثیت میں‌متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، سائنس کا بحیثیت تجرباتی علم، خدا کی موجودگی کی دلیل بنانا، غیب کے برخلاف ہوگا اور بر بنائے تعریف ناممکن۔
میں نے اسٹیفن ہاکنگ کی کتاب گرینڈ ڈیزاین کا مطالعہ کرنے سے پہلے یہ تحریر لکھنا مناسب نا سمجھی تھی  لیکن اب میں قارئین کو اس بات کی دعوت دوں گا کہ گرینڈ ڈیزاین خصوصا ساتویں باب، ‘اپیرینٹ مریکل’ یا واضح معجزہ کا مطالعہ کریں اور خود دیکھیں کہ رب العالمین نے کس نازک طریقے سے ‘کانسٹینٹس’ کو طے فرمایا ہے کہ اس میں سے زرا سی کمی بیشی انسانی زندگی اور نسل انسانی کے ہونے یا نا ہونے پر منتج ہو سکتی تھی۔
ان تمام باتوں کو لکھنے کے بعد بھی ہاکنگ علم احتمال و کوانٹم طبعیات کی رو سے بضد ہے کہ یہ سب بغیر خدا کے عین ممکن ہے۔ کہ خدا ، وقت اور چیزوں کا وجودکسی ابتدا اور انتہا کا محتاج نہیں اور یہ کہ ابتدا اور انتہا خود ایسے نظریات ہیں جو بگ بینگ کے بعد ‘ایکسپینشن’ کی وجہ سے پیدا ہوئے تو وہ سائنسی بنیادوں پر برحق ہے کہ ایمان و ایقان کا تعلق تجزیے و تجربے پر نہیں بلکہ وہ تو خدا کے عطا کردہ فہم و شعور کو استعمال میں‌لا کر  ایمان بالغیب کی جست کا نام ہے۔
راقم کی ناقص  رائے میں سائنسی تغیر پزیر تجزیات پر غیر تغیراتی الہامی کلام کو پرکھنا اور قران سے ان چیزوں کی توجیحات نکالنا کسی طرح موزوں نہیں۔نیز ساینسی علوم پر خدا کے ہونے یا نا ہونے کے علم کا دارومدار رکھنا گمراہی کا سبب ہے کہ
ذہن میں جو گھِر گیا لا انتہا کیوں کر ہوا
جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خُدا کیوں کر ہوا

Share

August 14, 2010

پی ایچ ڈی کا کیا مفہوم ہے؟

Filed under: تحقیق — ابو عزام @ 7:29 am

کمپیوٹر سائنس میں ڈاکٹریٹ کا طالبعلم ہونے کی بنا پراحباب یہ سوال اکثر پوچھا کرتے ہیں۔ مندرجہ ذیل تصویری مثال پی ایچ ڈی کے مرکزی خیال کو بہت اچھے طریقے سے اجاگر کرتی ہے۔ یہ تصویری مضمون ڈاکٹر میٹ مائٹ، اسسٹنٹ پروفیسر دارلعلوم کمپیوٹنگ، جامعہ یوٹاہ کی تحریری اجازت سے ترجمہ کر کے اس بلاگ پر شائع کیا جا رہا ہے۔ انگریزی متن یہاں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

تصور کریں‌کہ مندرجہ ذیل دائرہ تمام موجودہ انسانی علم کو ظاہر کرتا ہے۔

جب آپ پرائمری اسکول ختم کرتے ہیں تو آپ کواس علم کا تھوڑا سا حصہ حاصل ہوتا ہے۔


جب آپ کالج کی تعلیم ختم کرتے ہیں تو آپ کا دائرہ علم مزیدبڑھ جاتا ہے۔

بیچلرز کی ڈگری کے ساتھ آپ کسی ایک ‌خصوصی مضمون میں مہارت حاصل کر لیتے ہیں۔

ماسٹرز کی ڈگری اس مضمون کی خصوصی مہارت کو مزید بڑھا دیتی ہے

تحقیقی مقالہ جات اور مضامین کا مطالعہ آپ کو اس خصوصی مضمون کے بارے میں موجودہ انسانی معلومات کی حد پر لے جاتا ہے۔

اس نہج پر پہنچ جانے کے بعد آپ اپنی توجہ اس حد پر مرکوز کر دیتے ہیں

آپ اس حد کو پار کرنے کے لیئے کچھ سال تک محنت و مشقت کرتے ہیں۔

کہ ایک دن، وہ حد اپنی جگہ سے ہٹ جاتی ہے

پی ایچ ڈی

اور اس دائرہ میں جو نشان پڑتا ہے اسے پی ایچ ڈی کہا جاتا ہے

اب آپکو دنیا مختلف لگتی ہے، اپنے دائرہ علم کے نشان کی مانند

اسی لئے ‘بگ پکچر’ یا عمومی دائرہ علم کی بڑی حقیقت کو فراموش نا کریں

علوم انسانی کی حدود کو پار کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔

Share

July 29, 2010

خطبات بہاولپور از ڈاکٹر حمید اللہ کا مختصر تعارف

Filed under: تحقیق,مذہب — ابو عزام @ 10:41 pm
اسلامی تاریخ کے طالبعلموں کے لئے ڈاکٹر حمید اللہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ڈاکٹر صاحب ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے کہ جن کی تحقیقی اور دعوت دین کے لئے کی جانے والی خدمات کا مقابل عصر حاضرمیں شاید ہی کوئی مل پائے۔ ڈاکٹر حمیداللہ نے جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن سے ایم اے، ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد جرمنی کی بون یونیورسٹی سے اسلام کے بین الاقومی قانون پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈی فل کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں فرانس کی سوبورن یونیورسٹی پیرس سے عہد نبوی اور خلافت راشدہ میں اسلامی سفارت کاری پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹر آف لیٹرز کی سند پائی۔ جامعہ عثمانیہ کے علاوہ جرمنی اور فرانس کی جامعات میں درس و تدریس کے فرایض انجام دینے کے بعد ڈاکٹر حمیداللہ فرانس کے نیشنل سینٹر آف ساینٹفک ریسرچ سے تقریبا بیس سال تک وابستہ رہے۔ آپ اردو، فارسی، عربی اور ترکی کے علاوہ انگریزی، فرانسیسی، جرمن ، اور اطالوی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے۔ آپ کی کتابوں اور مقالات کی تعداد سینکڑوں میں ہے جس میں فرانسیسی زبان میں آپ کا ترجمہ قران ، اور اسی زبان میں‌دو جلدوں میں سیرت پاک ، قران کی بیبلیوگرافی ‘القران فی کل اللسان’ کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی پر محققانہ تصانیف ‘بیٹل فیلڈز محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘ ، ‘مسلم کنڈکٹ آف اسٹیٹ’ اور ‘فرسٹ رٹن کانسٹیٹیوشن’  خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
Khutbat bahawalpur
ڈاکٹر صاحب کی تحریر کی خوبی آپ کا آسان، عام فہم اور دعوتی انداز بیاں ہے۔ آپ کی تحریروں میں عالمانہ انکسار اور افہام و تفہیم کا جز جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی تحریر و تقریر میں جارحانہ انداز بیاں کو کہ آجکل کے علما کا خاصہ ہے ذرا نظر نہیں آتا۔ آپ تحقیق کا نچوڑ اور متقابل قاری کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور اپنی راے بیان کر کے قاری کو اپنی راے متعین کرتنے کا موقع دیتے ہیں۔ یہ انداز جدید دور کے قاری کے لئے نہایت متاثر کن ہے۔ آپ کی عمر کا ہر لمحہ علمی تحقیق اور طلب علم میں‌گذرا ۔ 17 دسمبر 2002 کو اسلام کا یہ فرزند اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ فرانس میں‌قیام کے دوران ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کا اشتیاق رہا لیکن شومی قسمت سے وہ جب تک صحت کی خرابی کی وجہ سےامریکہ منتقل ہو چکے تھے۔ اب جیکسن ول فلارڈا میں‌ہارڈیج گنز فیونرل ہومز میں منوںمٹی کے نیچے آرام فرما ہیں اور آپکا صدقہ جاریہ، کتابیں اور تحقیقی مقالہ جات دین کے طالبعلموں‌کے لئے زاد راہ ہیں۔
خطبات بہاولپور آپ کے مارچ 1980 میں جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں‌ دئے جانے والے لیکچرز کی جمع کردہ کتابی شکل ہے۔ ان  تیرہ عدد خطبات میں مندرجہ زیل موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے۔ تاریخ قران مجید، تاریخ  حدیث شریف، تاریخ فقہ، تاریخ اصول فقہ و اجتہاد، قانون بین الممالک، دین عقائد عبادات تصوف، مملکت اور نظم و نسق، نظام دفاع اور غزوات، نظام تعلیم اور سرپرستی علوم، نظام تشریع و عدلیہ، نظام مالیہ و تقویم، تبلیغ اسلام اور غیر مسلموں سے برتاو۔ یہ کتاب عام فہم انداز میں تحریر کردہ ہے لیکن موجودہ دور کے کئی پیچیدہ سوالوں کے عام فہم اور با معنی جوابات کے لئے اس کا مطالعہ نہایت اکثیر ہے اور اس میں ہمارے لئے فروعات سے نکل کر اصول کی پیروی کرنے کے لئے بہت خوب نصیحت ہے۔
سوال جواب کے حصے سے ایک مختصر ٹکڑا یہاں پر مثال کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔ ایک نہایت دقیق اور مشکل مسئلہ کے آسان اور جامع جواب کو ہی شائددریا کو کوزے میں بند کرنا کہتے ہیں۔ آپ ڈاکٹر حمیداللہ کیے نقطہ نظر سے متفق ہوں یا نا ہوں، انکی علمی استعداد اور عام فہم انداز میں صلاحیتوں کے ضرور معترف ہو جا ئیں گے۔
Share

July 18, 2010

تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ سوم

Filed under: پاکستان,تحقیق,مذہب — ابو عزام @ 1:56 am
گذشتہ کچھ عرصے سے مشاہدے میں آیا ہے کہ تہذیبی نرگسیت کا باطل نظریہ خام ذہنوں میں مستقل شکوک و شبہات کا باعث بن رہا ہے۔ خصوصا لبرل اور لادینی عناصر اپنی تحاریر اور گفتگو میں اس کتاب کا اکثر حوالہ دیتے رہتے ہیں۔ نئے ناپختہ اذہان اس فتنے سے متاثر نا ہوں، اس لئے ہم نے پچھلے دو حصوں میں بتدریج اس فتنے کے بنیادی تضادات، نصوص قطعیہ پر مصنف کے اعترضات اور اسلام کے مکمل ضابطہ حیات ہونے کے متعلق قران و حدیث سے دلائل پیش کئے ہیں ۔ اس تیسرے حصے میں ہماری کوشش ہوگی کہ اس خود ساختہ ‘نرگسیت’ کی حقیقت اور غلبہ اسلام کے بارے میں‌ نصوص قطعیہ سے اتمام حجت کریں اور اس فتنے کے علمی سرقے پر کچھ روشنی ڈالیں ۔ نیز ہم یہ بات واضع کرتے چلیں کہ اس مضمون اور اس کے پہلے دو حصوں کے مخاطب وہ شعوری مسلمان ہیں جو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو تہ دل سے تسلیم کرتے ہیں اور اس نرگسی فتنے کے اسباب و حقایق پر اپنی تشفی قلب کے لئے مزید معلومات کے خواہاں ہیں۔ آپ نے اگر پچھلے دو حصوں کا پہلے مطالعہ نہیں کیا تو برائے مہربانی اس مضمون کو شروع کرنے سے پہلے ان دونوں حصوں کو ضرور پڑھ لیں۔

کئی لوگوں نے اس کتاب کے حصول کے لئے پوچھا تھا، تو ان سے گذارش ہے کہ اس زمن میں اپنے لوکل کتب فروش سے رابطہ کریں، یہ کتاب سانجھ پبلیشرز نے شائع کی تھی اور یہ ایمیزون پر موجود نہیں لیکن آپ دکاندار ڈاٹ کام سے رابطہ کر کے آرڈر کر سکتے ہیں۔ حالانکہ میں اس کے متن سے شدید اختلاف رکھتا ہوں،لیکن اس کتاب کا ٹارنٹ ڈاونلوڈ چوری کے زمن میں آئے گا جو کہ ایک مسلمان کے قطعی شایان شان نہیں اور شرعا موجب گناہ ہے۔
پاکستان میں سیکولر اور لبرل طبقے کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ ہر انسانی مسئلے، پریشانی اور ناکامی کی بنیادیں مذہب سے جوڑنے پرمصر ہوتے ہیں اور اس کے لئے نت نئے اعتراضات تراشتے رہتے ہیں، نرگسیت کا بے معنی اعتراض بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ کیونکہ اس طبقے کی اپنی سوچ مغرب سے مستعار لی ہوئی ہوتی ہے، اسی لئے وہ علمی سرقے سے بھی گریز نہیں کرتے اور لی ہاورڈ ہاجزکے 2002 کے ‘دی ایرانین’ میں چھپنے والے مضمون ‘وکٹمالوجی’ میں میں تصرف کر کے کتابی شکل دے دیتے ہیں اور بیشتر پیراگراف من و عن ترجمے کر کے بغیر حوالے کے چھاپ دیتے ہیں۔ سرخے سے سرقے کا سفر شاید اتنا طویل نہیں۔ مزید تفصیل کے لیئے حوالہ جات ملاحظہ ہوں۔
بہرحال، یہ توہے ان لوگوں کے علمی دیوالیےپن کا حال ۔ مجھے غالب گمان ہے کہ اس نظریے کے حامی افراد ضرور کہیں گے کہ چلیں سرقہ ہی سہی، بات تو درست ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ لبرل تعصب کی پٹی ہٹا کر دیکھا جاے تو یہ باتیں علمی،عقلی و عملی بنیادوں پر بلکل پورا نہیں اترتیں۔ ہم مندرجہ زیل دس نکات میں یہ بات واضع کرتے چلیں گے۔
اولا – جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا تھا، درحقیقت اسلامی نرگسیت یا ‘مسلم  نارسسززم’ کی اصطلاح اسلام دشمن مستشرقین کی اختراع ہے، گوگل کی اس تکنیکی دنیا میں اس دعوی کی تصدیق کرنا کوئی مشکل نہیں، مسلم نارسسززم واوین ‘کوٹس’ میں لکھیں اور جو نتائج آئیں ان مضامین اور ان کے مصنفین کی جانبداری علمی پیرائے میں پرکھیں، آپ کو میرے ‘سازشی نظریات’ پر شائد یقین آجائے۔ اس اصطلاح کا استعمال اسلام دشمنی کے لئے تو نہیایت موزوں ہے، تجدد، خود تنقیدی اور بہتری کے لئے نہیں۔ نیز اس اصطلاح کا کریڈٹ بھی گمان  غالب ہے کہ لی ہاورڈ ہاجز ہی کو جائے گا، مبارک حیدر یا انکے حوارین کو نہیں۔
ثانیا – بقول مصنف نارسززم اپنے آپ کو، اپنے نظریات کو یا اپنے مذہب کو دیوانگی کی حد تک چاہنے کا نام ہے۔ مغرب میں مثل مشہور ہے کہ نرگسی فرد اپنے آپ سے اس قدر محبت کرتا ہے کہ اس کا بس نہیں چلتا کہ اپنی جنس تبدیل کرکے اپنے آپ ہی سے شادی کرلے۔ آج مصنف جس تہذیبی نرگسیت کو ام الخبایث قرار دے رہے ہیں، کیا وہ اس پیمانے پر پورا اترتی ہے؟ اسلامی تہذیب کی اساس توحید، رسالت، عبادت، پاکیزگی، تقوی،حسن سلوک، ایمانداری، اور اسوہ حسنہ پر عمل کرنے میں ہے۔ آج جن افراد کو آپ تہذیبی نرگسیت کا منبع قرار دینے پر مصر ہیں، کیا ان میں اسلامی تہذیبی رویوں کی کوئی ہلکی سی رمق بھی دکھائی دیتی ہے؟ اگر یہ حقیقتا اپنی تہذیب پر فخرواعزاز کا معاملہ ہوتا تویہ لوگ پہلےاپنی تہذیب کو اپناتے اور اس پر عمل کرتےنہ کہ اس کے قطعی مخالف اعمال کو اپنا وطیرہ بناتے۔
درحقیقت فکر و استنبطاط کی صلاحیتوں سے یکسر محروم مصنف اور انکی صنف کے لبرل تشدد پسند لوگ جابر و کرپٹ حکمرانوں، سماجی ومعاشرتی تفاوت سے پیدا ہونے والےرجحانات، نیو امپیریلزم اور بیرونی حملہ آوروں جیسے بڑے مسائل کے متشددانہ رد عمل کو فورا مذہب سے جوڑ دیتے ہیں کیونکہ شائد یہ آسان ترین شکار ہے۔نیز اگر کوئی مذہب کے نام پر تشدد کا درس دیتا ہے تو وہ وہ ایک قبیح فعل کر رہا ہے اور ہر مذہب اور معاشرے میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، اس کے لئے پوری مسلم امہ کو مورد الزام لگانا کیا معنی رکھتا ہے۔ اسی طرح جرائم یا قانون شکنی کے باعث ہونے والے واقعات کو بھی تہذیبی نرگسیت کے کھاتے میں ڈالنا ان لبرل متشددین کا نیا حربہ ہے جس کی کوئی منطقی وجہ ہماری عقل سے بالاتر ٹھری۔
ثالثا – غیرت دین، اپنے نظریے، وطن اور آبا سے محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے، اس کو نرگسیت قرار دینا نہایت بے اصل بات ہے۔ اگر مسلمان اپنے ماضی اور اپنی تہذیب پر فخر کرتے ہیں تو یہ کس قاعدے کی رو سے جرم ہے؟ مصنف مزید لکھتے ہیں
‘مسلمان کا ایمان اعلی، اخلاق اعلی، اس کی عبادت اعلی۔ اس کی دنیا داری اعلی۔ یہ دنیا اس کی، اگلا جہان بھی اس کا۔ باقی ساری دنیا جہنمی۔ باقی سارے انسان کفر اور جاہلیت پر رکے ہوے ‘ صفحہ 91
اپنے ایمان و ایقان پر اعلی و ارفعی ہونے کا گمان کرنا مصنف کے نزدیک نرگسیت کی علامت ہے جبکہ یہ بات مسلمان قران و حدیث کی تائید میں سمجھتے ہیں کہ ان کا ایمان اور انکا دین ہی واحد درست دین ہے (ان الدین عنداللہ السلام)۔ لبرلزم کی جس تحریک سے مصنف کا تعلق ہے اسکے نزدیک ایک کافر، ایک ہمجنس پرست، ایک بت پرست اور ایک موحد میں کوئی فرق نہیں۔ اگر ان سب کے دنیوی اعمال درست ہوں اور انہوں نے دنیا میں لوگوں کو نفع پہنچایا ہو یہ اس ‘خیالی’ جنت میں جانے کے برابر کے حقدار ہیں چاہے وہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے باغی ہی کیوں نا ہوں۔ ان نام نہاد جدت پسندوں کی سمجھ میں یہ سیدھی سی  بات نہیں آسکتی کہ اگر خالق کائنات پر ایمان رکھتے ہو تو جنت و دوزخ کے بارے میں اپنے گمان پر نا جاو بلکہ اللہ اور اسکے رسول کے فرمان کو درست جانو۔
“یقین جانو کہ کافروں کے لیے جوکچھ زمین میں ہے بلکہ اسی طرح اتنا ہی اوربھی ہو اور وہ اس سب کو قیامت کے دن عذاب کے بدلے فدیہ میں دینا چاہیں توبھی یہ ناممکن ہے کہ ان کا یہ فدیہ قبول کرلیا جاۓ ، ان کے لیے تو دردناک عذاب ہی ہے ۔ وہ چاہیں گہ وہ جہنم سے نکل بھاگیں لیکن وہ ہرگز اس میں نہیں نکل سکيں گے اوران کے لیے ہمیشگی والا عذاب ہوگا ” المائدۃ ( 36 – 37 )
اس ضمن میں میرا یہ ہرگز مقصد نہیں کہ مسلمانوں کو جنت کا کوئی ‘فری پاس’ مل گیا ہے بلکہ قران و‌حدیث کا مطالعہ رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ حقیقت اس سے بعید ہے۔ لیکن اگر مسلم امہ اپنی الہامی کتب کے مطابق اپنے عقیدہ توحید کی بنا پر اعمال کی بارگاہ الہیہ میں‌قبولیت  پر یقین رکھتی ہے تو اس سے لبرلزم کے ایوان کیوں لرزنے لگتے ہیں؟ کوئی باشعور مسلمان اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا کہ بے گناہوں کی جان لینے والےایک خودکش حملہ آور کا ‘ایمان اعلی، اخلاق اعلی، اس کی عبادت اعلی۔ اس کی دنیا داری اعلی۔ یہ دنیا اس کی، اگلا جہان بھی اس کا’ ہے بلکہ وہ ببانگ دہل یہ کہے گا کہ ایک مسلمان ایسا فعل کر ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ اسلامی تہذیب کے سراسر خلاف ہے۔ تہذیبی نرگسیت کا الزام لگانے والوں کو ایک مسلمان یہ ضرور یاد دلاے گا کہ اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی ہمیں سکھاتے ہیں کہ ایک انسان کا قتل تمام انسانیت کا قتل اور ایک انسان کی جان بچانا تمام انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے۔
اربعا – مصنف کے وضع کردہ اصول کی بنا پر کہ کسی تہذیب نے ساینسی و تخلیقی میدان میں سودو سو سال سے اگر کوئی سرگرمی نہ دکھائی ہو اسے ‘ترقی یافتہ’ تہذیب کا دین‌(طریقہ) اختیار کر لینا چاہئے، افریقہ کی تمام اقوام کو عرصہ دراز پہلے اپنے سفید فام حکمرانوں کی تہذیب و تمدن کا اپنا لینا لازم ٹھرا۔اپنی تہذیب اور شناخت پر فخر کرنا نرگسیت ٹہرا تودنیا کی ہر قوم اس ‘گروپ نارسسزم’ کا شکار قرار پائے گی۔ یہ مصنف کی خام خیالی ہے کہ یہ فطری رجحان ‘مردہ اقوام’ میں پایا جاتا ہے۔ اقوام عالم کی تاریخ اس فخروناز سے عبارت ہے۔
خامسا- یہ تمام کتاب ‘اینکڈوٹل ایوڈنسز’ یا واقعاتی شہادتوں سے بھرپور ہے جن کی کوئی علمی وتجرباتی اہمیت ہنیں۔ مثلا کسی مدرسے میں پڑھانے والے فرد کی کسی طالبعلم سےدست درازی کو ‘بلینکٹ اسٹیٹمنٹ’ بنا کر تمام علما، اساتذہ اور دینی مدارس کو رگیدنا ایک عام مثال ہے۔ مصنف کے مطابق چونکہ کچھ مفاد پرست لوگ غریب ملازمین کا استحصال کرتے ہیں اور اسوقت انہیں خدا یاد نہیں آتا، یہ تو یقینا اسلام و مسلمانوں کی مجموعی خامی ہے۔ اگر عرب ممالک اپنے مسلمان بھائیوں کو رہایش یا شہریت کا حق نہیں دیتے تو یہ مسلم اخوت کے نظریے کی خامی ہے (یہ نکتہ ہاورڈ ہاجز نے بھی بعینہ اٹھایا ہے) – اس طرح کی غیر حقیقت پسندانہ سوچ بڑی محرومی ہے اور کوئی باشعور مسلمان ان باتوں پراسلامی تہذیب کو مورد الزام نہیں ٹہرا سکتا۔
ستتہ- آحادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات واضع ہے کہ مسلمان ایک جسد کی طرح ہیں‌ جس کا ایک عضو تکلیف میں ہو تو دوسرا اس درد کو محسوس کرتا ہے۔ یہ امت مسلمہ کا خاصہ ہے کہ چین و عرب سے لیکر افریقہ اور جزائر پولینیشیا تک کے مسلمان ایک امت واحد کی لڑی میں پروے ہوے ہیں۔ جس نرگسیت کی طرف مبارک حیدر صاحب کا اشارہ ہے اور جو فکر ان کی سیکیولر ذہنیت میں کھٹکتی ہے وہ ملت بیضا کی اجتماعیت کا تصور ہے۔ انکی مرعوبانہ سوچ اس بات کا ادراک نہیں رکھتی کہ مسلمانوں کا عروج و زوال مادی ترقی سے نہیں بلکہ اسلام کے اصولوں پر عمل کرنے سے وابستہ ہے۔ اپنا قبلہ لندن و واشنگٹن کو بنانے اور حرم سے رشتہ کاٹنے کے بجاے ہمیں حکم ہے کہ ‘ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اس لیے بھیجا ہے کہ کہ حکم الہیٰ کے مطابق اس کی اطاعت کی جائے’  النسا۔ لیکن حیدر صاحب تو حج و عمرہ کو ‘ایک منافع بخش کاروبار’ اور نماز کو ‘میکانیکی حرکات’ سے کچھ زیادہ گرداننے سے سخت گریزاں ہیں۔
سبعہ۔ یہ فتنہ نرگسیت اور اس کے حوارین غلبہ اسلام کی اہمیت اور اقامت دین کی فرضیت پر اعتراض کرتے ہوئے اسے ایک من گھڑت بات قرار دیتے ہیں ۔ اس زمن میں مصنف نے ‘غلبہ اسلام کےمفروضے’ کے تحت ایک مستقل باب باندھا ہے؛ قران و حدیث کا بنیادی علم رکھنے والا ہر فرد یہ بات جانتا ہے کہ یہ بات نصوص قطعیہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے متواتر فعل سے ثابت ہے کہ اللہ کے نظام کے نفاذ کے لئے دامے درمے سخنے جدوجہد کرنا مسلمان پر لازم ہے۔
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّهِ فَإِنِ انتَهَوْاْ فَإِنَّ اللّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اور (اے اہلِ حق!) تم ان (کفر و طاغوت کے سرغنوں) کے ساتھ جنگ کرتے رہو، یہاں تک کہ کوئی فتنہ (باقی) نہ رہ جائے اور سب دین (یعنی نظامِ بندگی و زندگی) اللہ ہی کا ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بیشک اللہ اس (عمل) کو جو وہ انجام دے رہے ہیں، خوب دیکھ رہا ہے 08:39
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
عن ابن عمر رضي الله عنهما ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أمرت أن أقاتل الناس ، حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله ، وأن محمدا رسول الله ، ويقيموا الصلاة ، ويؤتوا الزكاة ، فإذا فعلوا ذلك عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحق الإسلام ، وحسابهم على الله تعالى )  رواه البخاري و مسلم .
مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں نے لوگوں سے لڑتا رہوں یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ ہیں اورنماز قائم کریں اور زکوة ادا کریں جب وہ یہ کام کریں تو انہوں نے مجھ سے اپنے خون اور مال محفوظ کر لئے مگر اسلام کے حق کے ساتھ ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے ۔ (بخاری و مسلم )
مصنف خود عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کی شرائط ثلاثہ (اسلام، جزیہ یا جنگ) کو نقل کرتے ہیں لیکن مغربی سوچ سے مرعوبیت کا یہ عالم ہے کہ وہ اسکو اسلامی سلطنت کے پھیلاو کا انسانی نا کہ الہامی رجہان قرار دینے میں دیر نہیں لگاتے جو کہ سراسر ایک بے بنیاد الزام ہے۔ مصنف کو قران کا یہ واضع حکم شائد نظر نہیں آتا کہ
قَاتِلُواْ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَلاَ يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُواْ الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ
(اے مسلمانو!) تم اہلِ کتاب میں سے ان لوگوں کے ساتھ (بھی) جنگ کرو جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ یومِ آخرت پر اور نہ ان چیزوں کو حرام جانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام قرار دیا ہے اور نہ ہی دینِ حق (یعنی اسلام) اختیار کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ (حکمِ اسلام کے سامنے) تابع و مغلوب ہو کر اپنے ہاتھ سے خراج ادا کریں۔ 9:29
ثمانیہ – جہاد فی سبیل اللہ کی مختلف اقسام میں دفاعی جنگ، قصاص، مظلوموں کی مدد، معاہدہ توڑنے کی سزا کے لئے لڑنا شامل ہیں لیکن ہر بار اس بات کی تاکید کر دی گئی ہے کہ مسلمان حدود اللہ کو پایمال نا کریں۔
وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اور ﷲ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بیشک ﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا 2:190
ان واضع قرانی احکامات و آحادیث کے ہوتے ہوئے غلبہ اسلام کے لئے جدوجہد کی فرضیت کو ایک من گھڑت بات وہی کہ سکتا ہے جس کے دل میں نا خوف خدا ہو اور نا عقلی و نقلی دلائل کا کوئی لحاظ۔۔
تسعتہ- تہذیبی نرگسیت سے اگر آپ کی مراد ‘وے آف لایف’ کو بحال رکھنے کی جدوجہد ہے تو یہ تو رحمانی اور شیطانی تہذیبوں کی جنگ ہے جو کہ روز ازل سے جاری ہے اور یوم الدین تک جاری رہے گی۔ ہر تہذیب اپنے وے آف لایف کو برقرار رکھنا چاھتی ہے۔ سابق امریکی صدر بش کا یہ کہنا تھا کہ ‘یہ لوگ ہمارے طریق زندگی، آزادی اور جمہوریت سے نفرت کرتے ہیں’ ، ہر قوم کی طرح امریکی قوم کو بھی اپنے طریق زندگی اور تہذیب سے محبت کرنے اور اس کی بقا کے لئے جان لڑا دینے کا پورا حق ہے۔ مبارک حیدر صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ کہتے کہ یہ نرگسیت آپ کو نقصان پہنچا رہی ہے، اسے تبدیل کرنے میں عافیت ہے، لیکن انہوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ سمجھوتا ہمیں نے کرنا ہے۔ لارا انگرم تو لباس کی قید سے آزادی کو اپنا وے آف لایف سمجھ کر اسکا دفاع کرے لیکن اگر ہم پردے کے بارے میں کچھ کہیں تو وہ نرگسیت کہلاے۔ فرانس آزادی رائے کا نام نہاد علمبردار حجاب پر پابندی لگانے میں حق بجانب ٹھرے لیکن اگر ہمارے لوگ شرعی سزاوں کے نفاذ پر زبان کھولیں تو اسے انتہا پسندی اور بربریت کا نام دیا جاے۔ جو نام نہاد نرگسیت ہمارے لئے ذہر قاتل ہے، یوروپ کے لئے اکثیر۔ سبحان اللہ۔
اربعہ۔ مذہب بیزار لوگ جو دین و دنیا کو علیحدہ علیحدہ کرنے کے لئے عرصہ دراز سے سرگرم ہیں‌، ان کی یہ نئی تحریکِ نرگسیت اس بات کے لئے صرف ایک بہانہ ہے کہ مسلمانوں کے مسائل کا منبع ان کی دینی حمیت اور وابستگی کو قرار دیا جائے۔ بے شک امت مسلمہ میں بگاڑ موجود ہے اور من الحیث القوم ہم بے شماربیماریوں کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعداد کی اکثریت کے باوجود سمندر کے جھاگ کی مانند ہماری کوئی اہمیت نہیں۔ لیکن اپنے دین سے محبت اور اسلامی تہذیب سے لگاو ان مسائل کی جڑ نہیں بلکہ اس سے نکلنے کا آخری ذریعہ ہے۔ بے شک مسلمانوں کو اپنے مسائل قران و سنت کی روشنی میں حل کرنے اور اپنی ترجیحات متعین کرنےکی ضرورت ہے۔ اسلامی ممالک میں ظالم نا اہل حکمرانوں سے نجات، کرپشن کا خاتمہ،جہالت سے جنگ اور تعلیم کا فروغ،  عصری علوم و فنون، فلسفہ، آرٹ و دیگر علوم کی ترویج اسلامی تہذیب کا حصہ ہیں، اس سے متصادم نہیں۔
یہ (منکرینِ حق) چاہتے ہیں کہ وہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (کی پھونکوں) سے بجھا دیں، جبکہ اللہ اپنے نور کو پورا فرمانے والا ہے اگرچہ کافر کتنا ہی ناپسند کریں 61 – الصَّفّ
اللہ سبحان تعالی ہمیں دور جدید کے ان فتنوں سے بچائے۔ آمین،
حوالہ جات۔
Share

July 3, 2010

دور جدید کا انسان – سطحیت کا فروغ اور ارتکاز کا تنزل

Filed under: تحقیق,مشاہدات — ابو عزام @ 11:23 pm

نکولس کار اپنی نئی کتاب ‘انٹرنیٹ ہمارے دماغوں کے ساتھ کیا کر رہا ہے- سطحی پن‘ میں اطلاعاتی دور کے انسانی ذہنوں پر ہونے والے اثرات پرگفتگو کرتے ہیں۔ انہوں نے اسی زمن میں اپنے ایک مقالے، ‘کیا گوگل ہمیں کم عقل بنا رہا ہے’ کے عنوان سے انٹرنیٹ کے انسانی زہن کی غوروفکر اور سمجھ بوجھ ‘کاگنیٹیو صلاحیتوں’ پر ہونے والے مضر اثرات کا مطالعہ کیا ہے۔ نکولس کار انٹرنیٹ اور ورلڈ وائڈ ویب کو ارتکازی کمی کا موجب قرار دیتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ ‘ہم نے تنہائی میں ، مکمل یکسوی و توجہ کی علمی روایت کو جھٹلا دیا ہےجو کہ مطالعہ کتب سے حاصل ہوتی ہے’۔ وہ ارتکاز کی اس کمی کو ایک بڑی معذوری قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘نیٹ ہماری ارتکاز، معلومات کو یکسوئی سے ذہن میں جمع کرنے اور غورو فکر کرنے کے لئے اپنی صلاحیتوں کو گھن کی طرح کھا رہا ہے’۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘انفارمیشن ٹیکنالوجی اور تخلیق کے اس دور میں ایک بہت بڑی کمی موجود ہے کہ ہم اتلے، سطحی یا کم گہرے بن رہے ہیں’۔

نکولس اس سوچ میں تنہا نہیں۔ ترقیاتی ماہر نفسیات میری این ولف شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ بچوں کے ، جو انٹرنیٹ کی بھاری صارفین ہوں،’ وہ صرف ‘ڈیکوڈر’ ہیںجن میں اس بات کی کوئی جستجو نہیں پائی جاتی کہ وہ محض ان معلومات سے جو انکی گوگل کائنات میں موجود ہوں،آگے سوچیں’ ڈاکٹر ولف کہتی ہیں کہ ‘فوری طور پر بہت سی معلومات کی دستیابی کا مقابلہ صحیح علم سے نہیں کیا جانا چاہئے’۔

اس نظریے کے نقاد کہتے ہیں کہ انسان کبھی تبدیلی کو پسند نہیں کرتا اور حیلے بہانوں سے اس پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد پرپندرہویں صدی عیسوی میں وینس کا ایک مدیر ہایرونیمو کہتا تھا کہ کتابوں کی بہتات انسان کو کم علم بنا دیتی ہے۔ کیا یہ جنگ کثرت یا بہتات کے نئے رجہان خلاف ایک فطری عمل ہے یا اس کا کوئی حقیقی نقصان بھی ہے؟ ایک اکیڈمک ہونے کی حیثیت سے میرا فرض بنتا ہے کہ میں بتاتا چلوں کہ نکولس کار اور ولف وغیرہ کے نظریات ساینسی طور پر ثابت شدہ نہیں اور محض خیالات کا درجہ رکھتے ہیں لیکن راقم الحروف کے اپنے مشاہدات بھی کچھ اس سے مختلف نہیں جن کو برسبیل تذکرہ لکھتا جاتا ہوں۔ ہم انسانی ترقی کو عموما تین بنیادی انقلابی ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

١ ۔ ساینسی طریقے کا انقلاب جب انسان نے ‘ساینٹفک میتھڈ’ سے چیزوں کو پرکھنا سیکھا

٢ ۔ صنعتی و میکانیکی انقلاب جب کہ انسان کے طرز حیات میں پہیے اور مشینوں سے بنیادی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں۔

٣ ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی یا علم اطلاعات کا انقلاب جب دینا کو انٹرنیٹ کے ذریعہ ایک عالمی گاوں بنانے کی سعی کی گئی اور دنیا بھر کی متنوع اقسام کی معلومات آسان دسترس میں آ گئیں۔

لیکن کیا معلومات کا یہ سمندر واقعی کسی با معنی علمی اہمیت کا حامل ہے؟ یہ سوال سنجیدہ ساینسی تحقیق کا متقاضی ہے۔ لیکن، کیا ایسا نہیں لگتا کہ آج کے ارتکازی قوت سے محروم انسان کے پاس گفتگو کرنے کے لاکھوں ذرائع موجود ہیں لیکن مکالمے کی صلاحیت نہیں۔ مین بکر انعامات سے لبریز کتب خانے تو موجود ہیں لیکن قاری نہیں، کسی کو صریر خامہ کے نوائے سروش ہونے کی نوید دیں تو وہ منہ تکے اور جذبات سے لبریز نفوس سے نظریات پر گفتگوکی جائے تو نہ انہیں قدیمی خلق القران کے فتنے کا علم ہو اور نہ جدیدی اشتراکیت پر سیر حاصل معلومات، گوگل لیکن جتنا چاہے کروالو لیکن ‘اینکڈوتل ایوڈنس’ یا سطحی معلومات سے اوپر سوچ کے دریچے بند ہیں۔ مستعار عقل و نظریات کے حامل ان طفیلیوں’پیسٹس’ کے لئے ذندگی ایک میکانیکی حرکات کا مجموعہ ہے جس میں کسی قسم کی گہری سوچ اور نظریات کی موجودگی شجر ممنعوعہ ہے۔

عصر حاضر کے انسان کے پاس ذرائع علم تو ہیں لیکن علم نہیں- وکیپیڈیا اور گوگل سے مستعار لی گئی عقل کے ڈانڈے ‘ہائو مائنڈ’ یا ‘چھتے کی سوچ’ سے جا ملتے ہیں جہاں اتباع تو ہے، انفرادیت نہیں۔ کسی مباحثے کا رد اس امر میں پنہاں ہے کہ اس کو کس قدر مہارت سے گوگل کیا جاسکتا ہے۔ یوں تنقیدی سوچ اور معلومات کو ‘آوٹ سورس’ کرکے دور جدید کے انسان نے اپنے لئے مذہب، روحانیت، علم الکلام، کاگنیشن، ارتکاز، ادب، آرٹ، فلسفہ، منطق اور دیگر کئی علوم و فنون کے دروازے بند کرنا شروع کر دئے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا ذہنی ارتقا کی ہزاروں سالہ ‘تجرباتی’ روش کو تبدیل کرنا انسانی مفاد میں ہے؟ کیا اب کوئی ورڈسورتھ، ٹینیسن، حافظ اور ولی دکنی غزل سرا نا ہونگے۔ موجودہ تجزیہ نگاری بھی اسی طوفان ‘معلومات’ علم بود کا شاخسانہ ہے تو کیا ہم ‘اوور انیلازیشن’ یا بے معنی تجزیوں کی دلدل میں مزید دھنستے چلے جائیں گے جہاں قرار واقعی خیالات نا پید ہوں اور بولنے کو مواد کی کوئ کمی نا ہو۔ جاس وھیڈن ، دس امریکن لایف کے ایک پروگرام میں اس تجزیہ نگاری اور قصہ خوانی کی موت پر بہت بہترین طنز کرتا ہے۔ انگریزی میں سننے میں بہتر لگتا ہے لیکن ہم اس کا ترجمہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایک غار کے انسان نے دیوار پر تصویر بنائی
تھا یہ ایک بائسن ‘نیل گاے’
دوسرے غار کے لوگوں نے اسے پسند کیا
اس سے نہیں پوچھا کہ بایسن کیوں بنایا؟
اگر یہ مر چکا ہے تو اسے کیوں بنایا؟
آپ نے رنگ سرخ کیوں منتخب کیا؟
تمہارے دماغ سوچ و بچار کاعمل کیا گیا؟
اس نے کہانی سنائی
اس سے قبل کیا ہوا اور بعد میں کیا ہوا نہیں بتایا
بتانے کی ضرورت نہیں تھی۔

ہومر کی اوڈسی کا تھا اپنا رنگ
کچھ دوستوں کی کہانی
جنہوں نے بہت ہی مشقت کے سفر کئے
ہومر نےکہانی سنائی لیکن اس نے نہیں بتایا
کی اس کا کیا مطلب ہے؟
اور یہ کچھ خارج کردہ ‘سینز’ ہیں۔
اس کہانی کو کم عمر کے لوگوں نے پسند کیا ہے
لیکن وہ صرف ایک کہانی ہے
وہ صرف ایک دروازہ ہے جو ہم کھولتے ہیں اگر
ہماری زندگی کو اسکی ضرورت ہو

لیکن اب ہمیں کہانی کو کھولتے ہیں،
چیرتے پھاڑتے ہیں، ٹٹولتے ہیں۔
اسے کھولو تلاش کریں
ایک دل کی ٹک ٹک ٹک
اس کہانی کا دل ، کھولنے سے ٹوٹا ہو دل

قصہ بار بار دکھاے جانے کے بوجھ سے ٹوٹ چکا ہے
انٹرنیٹ کی اقساط سے
پہلے اور بعد کے تجزیات سے،
کھیلوں سے اور کوڈز سے
قصہ مر جاتا ہے
کھنچ کھنچ کر، شکستہ و بوسیدہ
ارے ، اس مزے کو بگاڑنے کا انتباہ

لیکن اب ہمیں کہانی کو کھولتے ہیں،
چیرتے پھاڑتے ہیں، ٹٹولتے ہیں۔
اسے کھولو تلاش کریں
ایک دل کی ٹک ٹک ٹک
اس کہانی کا دل ، کھولنے سے ٹوٹا ہو دل

جیڈ کہتا ہے۔

جاش، تم بزنز کے خلاف باتیں کیوں کر رہے ہو
یہاں سب اسی طرح چلتا ہے
تم ہر شخص کو پریشان کر رہے ہو

جیک کہتا ہے۔

یہ تو پرانا آؤٹ آف ڈیٹ فلسفہ ہے دوست
کھانے کی میز کے لئے ، براہ مہربانی وہیں یہ باتیں کیا کرو
ہم نے یہاں ڈی وی ڈی بیچنی ہے۔

تم جن چیزوں کو لات مار رہے ہو انکے بغیر
کوئ شو بز میں تمہارا نام لیوا نہ ہوگا۔
تم نظر انداز کردئے جاو گے، ہر موڑ پر

جاس دوبارہ گاتا ہے:

میں نے کچھ غلط چیزوں کے بارے میں گایا تھا،
میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا
ٹھیک ہے ، چلواب اس اداکار کے انداز کلام کے بارے میں بات کریں
اوہ یہ ہے اچھا نہیں ہے
چلو اس سین کا خوب تجزیہ کریں

اب ہمیں کہانی کو کھولتے ہیں،
چیرتے پھاڑتے ہیں، ٹٹولتے ہیں۔
اسے کھولو تلاش کریں
ایک دل کی ٹک ٹک ٹک
اس کہانی کا دل ، کھولنے سے ٹوٹا ہو دل

دل کے..

Share

April 12, 2010

کمپیوٹرسائنس میں اردو زبان پر تحقیقاتی کام

Filed under: تحقیق — ابو عزام @ 10:57 pm

تحقیق و تحریر کی دنیا میں اردو زبان کی تاریخ، اردو ادب کے ارتقا،اردو زبان کے وسیع پیمانے پرمستعمل ہونے اور اس پر دیگر زبانوں کے اثرات،اردو کے رسم الخط اور طریق وغیرہ پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے. میری اس تحریر کا مقصد علم کمپیوٹر میں اردو زبان میں ہونے والی تحقیق خاص طور پر ڈیٹا مایننگ یا مشین لرننگ کی دنیا میں لکھے جانے مقالہ جات کا مختصر تعارف کرانا ہے .اس زمن میں میری مرکزی توجہ سن ٢٠٠٠ کے بعد سے ہونے والے تحقیقی سرگرمیوں خاص طور پر ماسٹرز. ڈاکٹریٹ یا پی ایچ ڈی کے ان مقالہ جات پر ہوگی جو یو ایم ائی  پروکوویسٹ پر چھپ چکے ہیں.

کمپیوٹر سائنس  میں اردو کا زیادہ تر کام اس کے رسم الخط ، شناخت برائے بصری الفاظ اور الفاظ کی پہچان پر ہے مثلاّ

Robust Urdu character recognition using Fourier descriptors
by Lodhi, Saeed M., Ph.D., University of Denver, 2004, 190 pages

AlphaRank: A new smoothing algorithm based on combination of link analysis techniques and frequency based methods
by Mukhtar, Omar, M.S., State University of New York at Buffalo, 2009, 81 pages; AAT 1469108

Arabic handwriting recognition using machine learning approaches
by Ball, Gregory Raymond, Ph.D., State University of New York at Buffalo, 2007, 107 pages

لیکن اس کے علاوہ  دیگر کئی موضوعات بھی معدودے چند ملتے ہیںمثلاّ مشینی تراجم ، اردو گرامر یعنی قوائد کی تلاش، اردوزبان میں ڈومین، اردو املا کی درستگی مشینی طریقے سے، اردو میں تعدد الفاظ وغیرہ وغیرہ . مشین لرننگ کے حوالے سے یہ کہتے چلیں کے یہ مختلف پروگرامنگ کے قوائد یا  الگورتھم(جو کہ مسلم ساینسدان الخوارزمی کے نام سے معروف لفظ ہے) کو استعمال کرتے ہوے کمپیوٹر کے سیکھنے کا عمل ہے جس میں کمپیوٹر پروگرام پرانے ڈیٹا اور اس پر کیے گئے فیصلوں کو دیکھتے ہو ئے نئے فیصلے خود سے کرنا سیکھتا ہے. یہ ٹیکنالوجی  ، صوتی و بصری املا، گرامر اور اسپیل چیکنگ کے علاوہ کولیبریٹو فلٹرنگ جسے آسان الفاظ میں چیزوں کی پسندیدگی اور نا پسندیدگی کا پیمانہ ناپنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔

اس زمن میں یہ کہتے چلیں کہ مشین لرننگ میں اردو زبان پر عمومی طور پر کچھ زیادہ  قابل ذکر کام نہیں ہوا ہے یا میرے ناقص علم میں نہیں لیکن کچھ افراد جنہوں نے اس زمن میں کوششیں کی ہیں اس زمن میں اردو میں تعدّد الفاظ کی تحقیق میںقرۃالعین خان کا کام نظر آتا ہے .

A study of word frequency in written Urdu
by Khan, Quratulain H., M.A., University of Windsor (Canada), 2006, 40 pages;

خصوصی طور پر اردو میں نہیں لیکن ٹرانسلٹریشن پر ہندی، اردو اور دیگر جنوبی ایشیای زبانوں کی ‘اسٹیمنگ’ یا تناآوری پر یہ مقالہ اچھی روشنی ڈالتا ہے

Transliteration based Search Engine for Multilingual Information Access
Proceedings of CLIAWS3, Third International Cross Lingual Information Access Workshop, Bounder, Colorado.

اونٹولوجی بلڈنگ پر مندرجہ زیل مقالہ نیم اینٹیٹی پئر کی اردو میں‌اچھی مثال ہےجس کو استعمال کرتے ہوے اردو اونٹولوجی پر کام بڑھایا جا سکتا ہے۔ اونٹولوجی ایسے ذخیرہ الفاظ کو کہا جاتا ہے جو کہ کسی ربط کے تحت ایک دوسرے سے جڑے ہوں‌اور ان کے درمیان کوئی معنوی ربط کی کیفیت ہو

NE tagging for Urdu based on bootstrap POS learning
Human Language Technology Conference archive
Proceedings of the Third International Workshop on Cross Lingual Information Access: Addressing the Information Need of Multilingual Societies

منیسوٹا یونیورسٹی کے کاشف ریاض صاحب نے اس زمن میں کافی قابل قدر خدمات انجام دیں ہیں۔ انکا مقالہ اردو میں ذخیرہ الفاظ یا کورپس کی تعمیر اور اس پر معنوی تجزیہ ‘لیٹنٹ سمینٹک انالسسز’ پر روشنی ڈالتا ہے۔ اسکے علاوہ ایک اہم مشین لرننگ الگورتھم ‘ٹی ایف آی ڈی ایف’ کی اردو میں‌ تعمیل کی بھی تفصیلات فراہم کرتا ہے۔

Concept Search in Urdu
Kashif Riaz, University of Minnesota
PIKM’08, October 30, 2008, Napa Valley, California, USA.

اسٹیمنگ کو بیان کرتے ہوے کاشف ریاض لکھتے ہیں

“The state of the art search engines like Google and Yahoo are keyword-based. There are very few Urdu keyword-based search engines but they simply use word match technique and don’t use any stemming, stop word removal or language identification. Keyword-based engines score and rank documents based upon the presence of the query term along with other criteria like Page Rank in earlier versions of Google. Keyword searching increases information seeking time for the user. This manifests itself in two ways: First, keyword search retrieves a non-relevant document that contains a keyword e.g. the query tem plane could mean airplane or co-ordinate plane. Second, keyword search misses documents that are relevant but don’t contain the query term automobile and car.”

کاشف ریاض صاحب کے یہ دیگر دو مقالہ بھی اردو میں مشین لرننگ کے کام میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ابتدائی ذخیرہ الفاظ یا کورپس کی تعمیراور اردو میں ‘ائی آر’ انفارمیشن ریٹریول یعنی معلومات کا حصول سرچ انجن کی تعمیر اورالفاظ کی مشینی سمجھ بوجھ میں بڑا گہرا اور بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔

A study in Urdu corpus construction
International Conference On Computational Linguistics
Proceedings of the 3rd workshop on Asian language resources and international standardization – Volume 12

Baseline for Urdu IR evaluation
Conference on Information and Knowledge Management
Proceeding of the 2nd ACM workshop on Improving non english web searching

اردو زبان کا ذخیرہ الفاظ کارنیگی میلن یونیورسٹی نے بھی جمع کیا ہے جو کہ یہاں دستیاب ہے.

جیسا کہ اولا عرض کیا تھا کہ اس کاوش کا مقصد اردو زبان پر ہونے والے کمپیوٹر ساینس کے تحقیقاتی کام پر مختصر روشنی ڈالنا ہے جو کہ شائد محققین کے لئے کسی قدر سودمند ثابت ہو۔راقم تعلیمی لحاظ سے علم کمپیوٹر میں مشین لرننگ میں پی ایچ ڈی کا طالبعلم ہے ۔ حالانکہ میرا مقالہ اردو یا زبان و کلام کی صنف سے کافی جدا ہے لیکن اردو کی تحقییق کا کام ایک مشغلہ ٹھرا. اپنی رائے اور میری  غلطیوں  سے آگاہ کیجیے اور اگر کوئی اہم تحقیقی کام یہاں بیان نہیں ہوا تو ضرور بتائیں تاکہ راقم اصلاح کر سکے.

حوالہ جات

منظرنامہ » کیا اردو اپنا مقام حاصل کر سکے گی؟ آخری جز (از: راشد …

اردو زبان پر سن 2000 سے  چھپنے والے عمومی مقالہ جات کی نامکمل فہرست

  • D. Becker, B. Bennett, E. Davis, D. Panton, and K. Riaz. “Named Entity Recognition in Urdu: A Progress Report”.  Proceedings of the 2002 International Conference on Internet Computing. June 2002.
  • D. Becker, K. Riaz. “A Study in Urdu Corpus Construction.” Proceedings of the 3rd Workshop on Asian Language Resources and International Standardization at the 19th International Conference on Computational Linguistics. August 2002.
  • P. Baker, A. Hardie, T. McEnery, and B.D. Jayaram. “Corpus Data for South Asian Language Processing”. Proceedings of the 10th Annual Workshop for South Asian Language Processing, EACL 2003.
  • K. Riaz, “Challenges in Urdu Stemming” Future Directions in Information Access. Glasgow, August 2007
  • K. Riaz, “Stop Word Identification in Urdu” ,Conference of Language and Technology, Bara Gali, Pakistan, August 2007
  • An analysis of Urdu and English editorial coverage of the 2007 Emergency from Pakistani newspapers by Shoeb, Nadia Farrah, M.A., Georgetown University, 2008, 140 pages;
  • Mourning Indo-Muslim modernity: Moments in post-colonial Urdu literary culture by Naqvi, Syed Nauman, Ph.D., Columbia University, 2008, 244 pages;
  • Shifting dunes: Changing meanings of Urdu in India by Ahmad, Rizwan, Ph.D., University of Michigan, 2007, 242 pages;
  • The desert of continuity: N. M. Rashed, modernism, and Urdu poetry by Pue, A. Sean, Ph.D., Columbia University, 2007, 324 pages;
  • A literature of the sublime in late colonial India: Romanticism and the epic form in modern Hindi and Urdu by Sahota, Guriqbal S., Ph.D., The University of Chicago, 2006, 343 pages;
  • A study of word frequency in written Urdu by Khan, Quratulain H., M.A., University of Windsor (Canada), 2006, 40 pages;
  • Making a worldly vernacular: Urdu, education, and Osmania University, Hyderabad, 1883–1938 by Datla, Kavita Saraswathi, Ph.D., University of California, Berkeley, 2006, 214 pages
  • Negation in modern Hindi-Urdu: The development of nahII by Lampp, Claire M., M.A., The University of North Carolina at Chapel Hill, 2006, 48 pages
  • Peripheries in Kashmiri and Hindi-Urdu by Manetta, Emily Walker, Ph.D., University of California, Santa Cruz, 2006, 220 pages
  • Relocating the postcolonial self: Place, metaphor, memory and the Urdu poetry of Mustafa Zaidi (1930–1970) by Steele, Laurel, Ph.D., The University of Chicago, 2005, 519 pages
  • Education, the state and subject: Constitution of gendered subjectivities in/through school curricula in Pakistan. A post-structuralist analysis of social studies and Urdu textbooks for grades I—VIII by Naseem, Muhammad Ayaz, Ph.D., McGill University (Canada), 2004
  • Hemispheric differences during reading in Urdu by Adamson, Maheen Mausoof, Ph.D., University of Southern California, 2004, 229 pages
  • Robust Urdu character recognition using Fourier descriptors by Lodhi, Saeed M., Ph.D., University of Denver, 2004, 190 pages
  • Banaras, Urdu, poetry, poets by Lee, Christopher R., Ph.D., Syracuse University, 2002, 343 pages
  • The intertextuality of women in Urdu literature [micorform] : a study of Fahmida Riaz and Kishwar Naheed by Yaqin, Amina, Dr., University of London (United Kingdom), 2001
  • To die and yet live: Karbala in Urdu discursive landscapes by Hyder, Syed Akbar Adeel, Ph.D., Harvard University, 2000, 335 pages
Share
« Newer Posts

Powered by WordPress