فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

September 5, 2016

ایسے ناداں بھی نہ تھے جاں سے گزرنے والے

Filed under: خبریں,سیاست,مذہب — ابو عزام @ 10:58 am

یہ اسی کی دہائی کی بات ہے کہ جب روشنیوں کے شہر میں ایم کیو ایم کا طوطی بول رہا تھا، جب شہر کے بام و در قد آدم پتنگوں اور اور “قائد تحریک” کی تصاویر سے مزین تھے اور اس فرد واحد کے ون ٹو تھری کہنے پر تین ہٹی سے عزیز آباد، اور دس نمبر سے عائشہ منزل تک ہزاروں کے مجمع کو سانپ سونگھ جایا کرتا تھا۔ یہ اس وقت کا قصہ ہے جب بانیان پاکستان کی اولادوں میں تعصب کی وہ فصل بوئی جارہی تھی جس کوکاٹنے اور اسکا سدباب کرنے کی سعی لا حاصل میں اگلی کئی دہائیاں صرف ہونے والی ہیں۔ اس کڑے وقت میں عصبیت کے اس سیلاب کے آگے شہر میں مٹھی بھر دہان پان سے نوجوان، جن میں سے کچھ کی مسیں بھی نا بھیگی ہونگی، شہر نا پرساں کے در و دیوار پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث چسپاں کرتے نظر آتے تھے

لیس منا من دعا الی عصبیۃ ولیس منا من قاتل عصبیۃ ولیس منا من مات علی عصبیۃ۔ رواہ ابوداؤد
جس نے عصبیت کی طرف دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں،
جس نےعصبیت کے لیے جنگ کی وہ ہم میں سے نہیں،
جو عصبیت پر مرا وہ ہم میں سے نہیں ہے

اس پیغام کی سزا کیا تھی؟ عقوبت خانے، مہاجر خیل، اور ڈرل شدہ نعشیں۔ سعد بن صلاح اور غیور انور

لیکن وہ یہ کہتے رہے کہ شہادت حق کی یہ باتیں تو بس کتابی باتیں ہیں، رموز سیاست و مملکت تو ہم جانتے ہیں۔

آج جس فرعون صفت کو شہر میں لب کشائئ کی اجازت نہیں، کل اسی کی مدح سرائئ میں سارا شہر گم تھا، جب کچھ کفن پوش یہ کہتے پھرتے تھے کہ یہ کیا دور جاہلیت کی بات ہے کہ کلمہ گو بھائئ کی تقسیم اس بنیاد پر کی جائے کہ وہ مقامی ہے یا غیر مقامی، اسکی زبان کیا ہے، وہ یوپی سی پی کا ہے، دکنی ہے، پنجابی ہے، یا اس کی رگوں میں کسی بلوچ یا پٹھان کا خون دوڑ رہا ہے؟ جبکہ میرے آقا و مولا نے یہ بات ۱۴۰۰ سال پہلے اپنے آخری خطبے میں واضع طور پر کہہ دی تھئ کہ

یایہا الناس ا لا ان ربکم واحد وان اباکم واحد الالافضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لأسود علی احمر ولا لأحمر علی اسود الا بالتقوی۔(مسند احمد)
اے لوگو!خبردارتمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے خبر دار!کسی عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر یا کالے کو سرخ پر اور نہ سرخ کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے سوائے تقویٰ

لیکن وہ یہ کہتے رہے کہ شہادت حق کی یہ باتیں تو بس کتابی باتیں ہیں، رموز سیاست و مملکت تو ہم جانتے ہیں۔

جدید جاہلیت کے علمبرداراروں کا نعرہ ہے کہ نسل و رنگ و قبائل پر تقسیم فطری ہے لہذا اسے ختم کرنا فطرت سے جنگ ہے۔ ان کے لئے اطلاعا عرض ہے کہ اسلام دین فطرت ہے، اگر تعصب کی عینک ہٹا کر وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ کو پڑھیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہوگی کہ اسلام قومیت و گروہ کی شناخت کےفطری رجحان کوتسلیم کرتے ہوئے اس سے منسلک کسی امتیازی سلوک یا تفاوت کو رد کرتا ہے۔ دیسی لبرلوں کا حال یہ ہے کہ جب مغرب اسی تفاوت کا خاتمہ “افرمیٹیو ایکشن” یا اینٹی ڈسکریمینیشن کے قوانین کے ذریعے کرتا ہے تو آپ اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوتے ہیں لیکن جب اسلام پسند یہی کام کریں تو ان پر بنیاد پرستی کا لیبل چسپاں کرنے میں ایک منٹ کی دیر نہیں کرتے۔ آپ لوگوں کو بانٹنا چاہتے ہیں تاکہ ان کو اللہ کی بندگی سے نکال کر اپنی غلامی میں لا سکیں،جبکہ اسلام لوگوں کو جوڑنا چاہتا ہے۔ آپ لوگوں کو انکی جبلی خواہشات کا اسیر رکھنا چاہتے ہیں، جس تنوع سے خالق نے انہیں تخلیق کیا، اس کا مذاق اُڑاتے رہے ہیں، یہ باتیں کسی محراب و منبر سے تو نا سنیں ہونگی آپ نے کہ بہاری نا کپن یا پنجابی کوئئ زبان نہیں بولی ہے یا سندھی تو کاہل مفت خور ہیں اور بلوچ تو غار کے زمانے کے میلے کچیلے، سست جاہل جنگلی لوگوں سے زیادہ دور نہیں یا بنگالی، وہ تو کالے، چھوٹے قد والے ہیں، موسی چاول کھائے گا، اور پشتون، انکو تو ہم جنس اور بے وقوف ثابت کرنے کے لئے لطائف کا کثیر زخیرہ موجود ہے، جبکہ ہم اردو بولنے والے سب سے اعلی و ارفع ہیں کہ ہماری زبان و بیان کی قوتیں اس پر استدلال کرتی ہیں، فاعتبروا یا اولوالابصار۔ اس رب جس کے آگے ہم سب اپنئ پیشانیاں سرنگوں کرتے ہیں صاف الفاظ میں حکم کرچکا ہے کہ اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہو اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے یہ ان سے بہتر ہوں، اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو۔ الحجرات۔

لیکن وہ یہ کہتے رہے کہ شہادت حق کی یہ باتیں تو بس کتابی باتیں ہیں، رموز سیاست و مملکت تو ہم جانتے ہیں۔

تقسیم در تقسیم کا یہ عمل نہیں رکتا، آپ اپنی مصلحت کے تحت اس پر پی ایس پی و حقیقی و ثنا اللہ زہری کی کتنی ہی بینڈ ایڈز لگا لیں، جس شاخ نازک پر یہ آشیانہ بنایا جا رہا ہے وہ اسلامی شناخت کی اکائئ سے دوری ہے۔ جس ملک کی اساس اسلام ہے اس کوقومیتوں میں تقسیم کر کر پریشر گروپس کے ذریعے چلانا مسئلے کا حل نہیں۔ اگر یہ بات آپکو عجیب لگے تو جان لیں کہ آپ اکیلے نہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ اسلام اس حال میں شروع ہوا کہ وہ اجنبی تھاا ور عنقریب اجنبی ہوجائے گا۔ پس خوشخبری ہے اجنبی لوگوں کے لئے۔ عرض کیا گیا کہ اجنبی لوگ کون ہیں؟ فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جواسلام کی محبت میں قبیلوں سے علیحدہ ہوگئے۔( ابن ماجہ، ترمذی)

آج بھی وہ داعیان کلمة اللہ، وہ خواب دیکھنے والے ائیڈیلسٹ لوگ، وہ مواخات کا جذبہ رکھنے آپکے بہت قریب ہیں جو وحدت ملت کی بات کرتےہیں، جو اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کو نافذ کرنا چاہتے ہیں، جو تمام مسلمانوں کو ایک اکائئ جانتے ہیں ، ان کے مقابل عبداللہ بن اُبی کی مثل کے لوگ ہیں جس نے غزوہ بنی المصطلق کے موقع پر مسلمانوں کو باہم لڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ مہاجرین جب ہمارے ہاں آئے تھے تو بھوکے ننگے تھے۔ اور اس کے بعد پھر یہ حالت ہوگئی ہے کہ یہ انصار کے خلاف جری ہوگئے ہیں اور ان سے لڑنے کے لیے تیار ہیں،جدید جاہلیت اپنے آپ کو کتنا ہی نفیس و ممذوق سمجھ لے، جاہلیت کا ہر ریفرینس” جو ہم میں سے عزت والا ہے وہ ذلت والے کو نکال باہر کرے گا” سے ہی جا ملے گا۔

لیکن وہ یہ کہتے رہے کہ شہادت حق کی یہ باتیں تو بس کتابی باتیں ہیں، رموز سیاست و مملکت تو ہم جانتے ہیں۔

وما علينا إلا البلاغ المبين

Share

July 3, 2013

میدان التحریر بمقابلہ مسجد رابعہ العدویہ

Filed under: خبریں,سیاست,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 6:35 am

تیس سالہ آمریت کے جبر و استبداد کے بعد سیکیولر و ترقی پسندوں کی جمہوری کامیابی۔ اسلام پسندوں کے پر تشدد مظاہرے اور فوج کا منتخب صدر کو مفاہمت کا الٹی میٹم۔

معاف کیجٗے گا، کچھ الٹا لکھ گیا۔ یہ صورتحال ہوتی تو یقینا ناقابل برداشت ہوتی۔ لیکن اگر چونکہ اسکے برعکس ہے، توپھر ٹھیک ہے۔

 حضور، جب نظام پادشاہی ہو تو آپ ملوکیت و استبداد کا رونا روئیں ، اور جب اسلام پسند مروجہ جمہوری طریقے سے برسر اقتدار آئیں تو یہ بھی آپکو اچھا نا لگے کہ چِت بھی اپنی، پَٹ بھی  اپنی

خُداوند یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں۔۔

Share

April 13, 2012

محرمات اور انسانی قوانین- اسفل السافلین

Filed under: خبریں,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 10:33 am

بی بی سی پر یہ عبرت انگیز خبر پڑھی، کہ نکاح محرمات کے بنیادی ‘انسانی حق آزادی’ کو یورپی عدالت نے تسلیم کرنے سے انکار کردی,، اگر یہی نفرین فعل چار سو میل دور بیلجیم یا فرانس میں ہوتا تو قابل مواخذہ نا ٹہرتا، کیا بات ہے انسانی قوانین آزادی کی۔

 لیکن قوانین جمہور و لبرلزم کے علمبردار یہ بتائن کہ اگر انسان کو قانون سازی کا مطلق حق حاصل ہے تو اس امر قبیح میں برائ ہی کیا ہے؟ جب لوگوں کو ہمجنس پرستی پرعائد پابندیاں زہر لگتی ہیں اور وہ اسے مملکت خداداد میں جاری و ساری دیکھنا چاہتے ہیں تو نکاح محرمات بھی تو صرف ایک معاشرتی ٹابو ہی ہے، اس کو بھی روند ڈالیے ۔ رہی بات پیدائشی موروثی نقائص کی تو پھر یوجینکس میں کیا برائ تھی، اس کو بھی جاری و ساری رکھا جاتا۔ تعدد ازواج کی مغربی پابندی بھی تو ایک معاشرتی قدغن ہی ہے، اسکا کیا جواز بنتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ لبرلیت و نام نہاد روشن خیالی کے علمبردار لوگ جو ‘رضامند عاقل و بالغ’ افراد کے افعال پر کسی قسم کی بیرونی قدغن نہیں پسند  کرتے انہیں کم از کم اصولی طور پر پر تو ان پیٹرک سٹیوبنگ اور سوزان کارولسکی کے حق میں آواز بلند کرنی چاہیے۔ یہ کیا دہری پالیسی ہے حیات من النزاعات کی کہ انسانی عقل کل ہے بھی اور نہیں بھی۔ موروثی نقائص کا مسئلہ ہے تو قطع القناة  یا نسبندی اور إستئصال الرحم کے بعد تو اس میں کوئ کجی نہیں رہ جاتی، العیاذ باللہ

غرضیکہ جو لوگ خدائ احکام کے بجاے انسانی قوانین کو بنیادی معاشرتی اقدار کے لیے هیئت حاکمیه کا درجہ دیتے ہیں وہ ایک ایسی ٹیڑھی شاہراہ پر سفر کرتے ہیں جس کا انجام گمراہی کا گڑھا ہے جہاں کسی فوٹون کی توانائ کچھ کام نا آئے گی۔

قال سمع النبي صلی الله عليه وسلم رجلا يعظ أخاه في الحيا فقال إن الحيا شعبة من الإيمان

Share

March 16, 2012

کاش کہیں سے تھوڑی عقل مل جاتی

Filed under: پاکستان,خبریں,سیاست,طنزومزاح — ابو عزام @ 3:00 am

تو اوریا مقبول جان صاحب کا بڑا بھلا ہوجاتا۔

ایک تو احباب نے ان سوڈو انٹیلیکچولز کے لنک بھیج بھیج کر ناک میں دم کر رکھا ہے اوربندہ مروت میں یہ بھی نہیں کہ سکتا کہ بھائ، ایسی بے پرکی تو ہم نے مظہر کلیم سے بھی نا سنی، آپ کو ذرا احساس تو ہونا چاہیے کہ یہ نادان دوست ہم اصحاب میمنہ کو کس قدر مضحکہ خیز دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کرتے ہیں؟ تحقیق سے ان کو کوئ واسطہ ہو نا ہوکہ ہر ایک کو اپنی راے کا حق ہے لیکن بقول شخصے، اپنے حقائق کا نہیں۔ کم از کم ڈالڈا ملاتے ہوے کچھ تو خیال کریں کہ اس تکنیکی دور میں انکی اس بے سروپا باتوں کو جھٹلانا اور جھوٹے کو گھر تک چھوڑ کر آنا کس قدر آسان ہے۔

تو محترم کا یہ کالم ایک برقی ڈاک میں ملا۔  مزاح  پڑھ کر طبعیت باغ باغ ہو گئ کہ یہ دفاعی میکینزم ہے۔ اگر خون جلانا شروع کریں تو قومی اخبار ختم ہونے سے پہلے بلند فشار خون کی بنا پر جان جان آفرین کے سپرد ہوجائے۔اب اسکا پہلا پیراگراف پڑھیں اورمندرجہ ذیل ویڈیو دیکھ لیں، پھر بتائیں کہ یہ سلیمانی ٹوپی پہنے ہوئے پلسی کہاں چھپے ہیں جنہوں نے بقول جان صاحب کے “اسے دھکیل کر پیچھے کر دیا”؟

Marlon Brando’s Oscar® win for ” The Godfather” by WhiteWolf-Cree

اب اس مضحکہ خیز کالم کا دوسرا پیراگراف پڑھیں اور سر پیٹیں۔ جان صاحب، اگر تھوڑی سی تحقیق کر لیتے تو نو اینڈ ان سایٹ، عراق فار سیل، عراق ان  فریگمنٹس، ریتھنک افغانستان، انسائڈ گواتنامو، انسائڈ عراق،  اینڈ آف امریکہ، بش وار، رولز آف انگیجمنٹ، انڈیپینڈنٹ انٹروینشن, فارن ہایٹ نائن الیون اور اس جیسی بیسیوں ڈاکومنٹریز مل جاتیں جن پر عراق و افغانستان میں ہونے والے مظالم پر روشنی ڈالی گئی ہے اورامریکی جارحیت پر کھل  کر تنقید کی گئ ہے۔ سب چھوڑیں، ٹیکسی ٹو دی ڈارک سائڈ جیسی رلا دینے والی دستاویزی فلم جو عراق افغانستان و گوانتناموبے میں امریکی مظالم سے کو بے نقاب کرتی ہے ۲۰۰۷ میں آسکر ملا۔ آپ کو پینٹاگان پیپرز بھی کسی قطار و شمار میں نظر نا آتی ہوگی کہ حقیقت سے آپکی تحاریر کا موضع بھی نہیں ملتا۔ آپ کو ایوارڈ یافتہ و نامزد ڈاکومنٹریز میں یقینا وار گیم، اینڈرسن پلاٹون،بروکن رینبو،  ہیل فائر جرنی فرام ہیروشیما، ہو کلڈ ونسنٹ چن  ، فور لٹل گرلز بھی نظر نا آئ ہونگی۔ بس اب مزید کچھ کہنے سننے کی سکت کہاں بس اتنا کہتا چلوں کہ اگر آپ کو محترمہ شرمین عبید کا ایورڈ لینا پسند  نہیں تو نا سہی، حالات و واقعات میں دروغ گوئ سے کام لیے بغیر بھی یہ مدعا آرام سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ نیز شرمین عبید کو یہ ایوارڈ ایک امریکی ڈائریکٹر ڈینیل ینگی کے ساتھ ملا ہے، مارلن برانڈو کی طرح ان کی تن تنہا اداکاری پر نہیں، اب بے چارے ینگی کا کیا قصور جان صاحب کہ وہ بھی ایوارڈ کو ٹھوکر مار دے۔آپ کی دروغ گوئ پر ہمارا تو کچھ ایسا ہی عالم ہے کہ

حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں


Share

March 15, 2012

برٹانیکا اب ہم میں نہیں رہے

Filed under: خبریں,طنزومزاح,کتابیات — ابو عزام @ 11:53 am

 ہاے برقی کتاب، تیرا برا ہو کہ تو نے ہم سے ایک ۲۴۴ سالہ ہمدم دیرینہ، انسائکلوپیڈیا برٹانیکا چھین لیا۔ اب بتا کہ پطرس کے انجام بخیر پر کنڈل کا تکیہ لگایا جاے گا؟ ہم تو بس اس نثر کو  روتے ہیں کہ اس دور عدو کتب ہاے ورق میں اسکا کیا مماثل ہو۔

پطرس۔۔ حضرات اندر تشریف لے آئیے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ میرے پاس صرف ایک کرسی ہے۔ لیکن جاہ و حشمت کا خیال بہت پوچ خیال ہے۔ علم بڑی نعمت ہے، لہذا اے میرے فرزندو، اس انبار سے چند ضخیم کتابیں انتخاب کرلو اور ان کو ایک دوسرے کے اوپر چُن کر ان پر بیٹھ جاؤ۔ علم ہی تم لوگوں کا اوڑھنا اور علم ہی تم لوگوں کا بچھونا ہونا چاہیئے۔

کمرے میں ایک پر اسرار سا نور چھا جاتا ہے۔ فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے

Share

February 27, 2012

اسباق و دروسہاے انٹرنیٹ – خان اکیڈمی

Filed under: خبریں,مشاہدات — ابو عزام @ 8:22 pm

انٹرنیٹ پر موجود اسباق و لیکچرز کا ذکر ہو اور خان اکیڈمی کا نام نا آے، یہ کیسے ہو ممکن ہے۔ خان اکیڈمی ایک غیر منافع بخش تعلیمی تنظیم ہے جسے۲۰۰۶ میں  امریکی معلم اور  ایم ائی ٹی  یونیورسٹی کے ایک گریجویٹ سلمان خان  نے تخلیق کیا تھا. خان اکیڈمی کا مشن ہے کہ کسی کو بھی، کہیں بھی ایک اعلی معیار کی تعلیم فراہم کی جاسکے اور اس کار خیر کے لیے انٹرنیٹ کی مدد لی جاے۔ ۲۶۰۰ سے زاِئد ویڈیو اسباق کے ذریعے ریاضی، تاریخ، صحت کی دیکھ بھال اور ادویات، طبعیات، علم کیمیا، کمپیوٹر سائنس، حیاتیات، فلکیات، معاشیات کے علاوہ سیکڑوں دیگر مضامین کو بلامعاوضہ سیکھا جاسکتا ہے۔

خان اکیڈمی

خان اکیڈمی – یو ٹیوب چینل

Share

January 22, 2012

سوپا کا سیاپا

Filed under: خبریں,عمومیات — ابو عزام @ 2:08 pm

جیت گیا انٹرنیٹ، اور ہار گیا سوپا کا کالا قانون۔

اچھی خبر ہے کہ ذرائع ابلاغ کی طاقنتور لابی کے سامنےایک عام آدمی اور انٹرنیٹ کی آزاد معیشیت کی جیت ہوئ یا ہمیں ایسا لگا کیونکہ کنسپریسی تھیورسٹ تو اس میں بھی اپنی ہی چت اور اپنی ہی پٹ کا قانون ضرور لاگو کریں گے۔

سوپا کا قانون کیا تھا، مختصرا سوپا اور پیپا دونوں بظاہر تو آنلاین پایریسی  کے خلاف بنائے ہوئے قوانین ہیں لیکن ان کی پہنچ عمومی شہری آزادیوں تک ہوتی ہے، اسکے علاوہ ان انٹرنیٹ کمپنیوں کو جو لوگوں کا مہیا کیا ہوا مواد آنلاین رکھتی ہیں ان کو بھی کسی چوری کیے مواد کے شائع ہونے پر پابندی کا سامنا کرنا پڑتا۔ اسی وجہ سے ریڈیٹ، وکیپیڈیا، یوٹیوب، گوگل، وایرڈ وغیرہ نے اسکے خلاف سخت مہم چلائ اور بایکاٹ کیا۔

 ذرائع ابلاغ اور مواد کی فراہمی کے ادارے یا  ‘ کنٹنٹ پروایڈر’ ضرور سوپا ۲۔۰ کی کوشش کریں گے، پر دیکھتے ہیں زور کتنا بازو قاتل میں ہے۔

Share

October 5, 2011

آیکن ایمبولینس – اسٹیو جابس، ٹیکنالوجی کی ایک عہد ساز شخصیت کی موت

Filed under: خبریں,مشاہدات — ابو عزام @ 8:17 pm

ایپل کمپیوٹر اور آئی فون کا موجد، بلحاظ سرمایہ دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ایپل کا بانی، ایک شامی باپ اور امریکی ماں کا بیٹا،  ٹیکنالوجی کی دنیا کا صاحب بصیرت شخص جس نے کمپیوٹر اورٹیلی کمیونیکیشنز کی دنیا کو وہ بنیادی تبدیلیاں دیں‌ جن کے اثرات کئی دہایوں تک محسوس کئے جائیں گے آج اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔

اس زمن میں‌ گوگل کے وک گندوترا کے ایک نہائت عمدہ اور مختصر مضمون ‘آیکن ایمبولینس’ کا ترجمہ موقع کی مناسبت سے درج ہے

اتوار، چھ  جنوری سن دو ہزار آٹھ  کی صبح کا ذکر ہے کہ میں چرچ کی مذہبی رسومات میں‌ شریک تھا کہ اچانک میرا فون جو وائبریٹ پر رکھا تھا، جاگ اٹھا، جس قدراحتیاط سے چھپتے چھپاتے ممکن تھا میں نے وائبریٹ ہوتے ہوئے فون کو دیکھا تو اس میں‌ کال کرنے والے کا نمبر ‘شناخت نامعلوم’ تھا۔ موقع کی مناسبت سے میں‌ نے اس کال کو نظر انداز کرنا بہتر سمجھا۔

چرچ کے بعد جب میں اپنے گھر والوں‌ کے ساتھ گاڑی کیطرف روانہ تھا، میں نے اپنے سیل فون کی وائس میل کے پیغامات کو سننا شروع کیا۔ اسٹیو جابس نے  پیغام چھوڑا تھا کہ “وک، مجھے تم سے کچھ ضروری بات  کرنی ہے، کیا مجھے گھر پر کال کرسکتے ہو؟”.

گاڑی تک پہنچنے سے  پہلے ہی میں‌ نے اسٹیو جابز کا نمبر ڈائل کر دیا۔  چونکہ میں گوگل کی تمام موبائل ایپلی کیشنز کے لیے ذمہ دار تھا اس لئے اس کردار میں میرا اسٹیو کے ساتھ باقاعدگی سےرابطہ رہتا تھا. یہ اس جاب کے فوائد میں‌ سے ایک بڑا فائدہ تھا!‌

اسٹیو –میں وک بات کر رہا ہوں ، میں نے کہا. مجھے افسوس ہے کہ میں نے آپ کی کال کا پہلے جواب نہیں دیا، میں اس وقت چرچ میں تھا ، اور کالر آئی ڈی نامعلوم آئی تو میں‌نے فون نہیں‌ اٹھایا۔

سٹیو ہنستے ہوئے بولے، وک ، اگر تم چرچ میں‌ ہو تو جب تک کہ فون کرنے والے کی کالر آئی ڈی خدا کی طرف سے نا ہو، فون نا اٹھانا ہی درست فیصلہ ہے۔

میں کھسیانی سی ہنسی ہنسا کیونکہ اسٹیو کا اتوار کے دن کال کرنا اور مجھ سے اپنے گھر پر کال واپس کرنے کو کہنا غیر معمولی تھا، وہ عموما کام کے دنوں میں‌ہی رابطہ کیا کرتا تھا، چھٹی والے دن نہیں، میں‌ حیران تھا کہ کیا اتنی اہم بات ہو سکتی ہے۔

وک، ایک ضروری مسئلہ ہے جس کو فورا حل کرنے کی ضرورت ہے، میں نے پہلے ہی اپنی ٹیم سے کسی شخص کوآپ کی مدد کرنے کے لئے متعین کر دیا ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی اپنی طرف سے اس مسئلے کو کل تک حل کر سکتے ہیں۔ اسٹیو نے کہا۔

دراصل میں آئی فون پر گوگل کے لوگو کے آیکن سے خوش نہیں ہوں۔   گوگل کے لوگو میں دوسرا او صحیح  طریقے سے پیلے رنگ کو تدریجی طور پر نہیں دکھا رہا. یہ درست نہیں ہے اور میں گریگ سے اسے درست کرنے کے لئے کہ رہا  ہوں، تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں

بلکل نہیں,یقینا مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ ۔ چند منٹ بعد میں سٹیو کی طرف سے آئکن ایمبولینس کے نام کی ایک ای میل موصول ہوئی ہے. ای میل میں‌ مجھے گریگ کرسٹی کے ساتھ آئکن کی درستگی کے لئے کام کرنے کی ہدایت کی گئی تھی.

میرا ایپل کمپیوٹرز سے اس وقت سے تعلق ہے جب سے میں‌ گیارہ برس کا تھا، ایپل کی مصنوعات کی تعریفوں‌کے لئے میرے پاس درجنوں واقعات ہیں، ایپل کئی دہائیوں سے میری زندگی کا ایک حصہ رہا ہے. یہاں تک کہ جب میں نے بل گیٹس کے لیے مائیکروسافٹ میں 15 سال کام کیا ، تب بھی میں‌اسٹیو جابس اور ایپل کی مصنوعات کا دلی قدر دان تھا۔

لیکن جب بھی میں قیادت، جزئیات پر توجہ اور جذبے کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے جنوری میں‌ اتوار کی صبح سٹیو جابس کی کال یاد آجاتی ہے،  یہ ایک ایسا سبق ہے جو میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا ۔ ایک کامیاب سی ای او کو جزئیات کا ہمیشہ خیال ہوتا ہے، چاہے وہ لوگوکے پیلے رنگ کی تدریج  ہی کیوں نا ہو، اور دن اتوار کا ہی کیوں‌ نا ہو.

اسٹیو کے نام، ایک بڑے رہنما اور لیڈر کے نام ، میری دعائیں اور نیک خواہشات تمہارے ساتھ ہیں

وک

Share

September 30, 2011

انـا لله وانـا اليـه راجـعـون

Filed under: خبریں,سیاست,مشاہدات — ابو عزام @ 8:18 pm

ابھی اروائن گیارہ کی فرد جرم کی سیاہی خشک نا ہوئی تھی کہ‌ امریکی انتظامیہ نے آج امریکی آئین کی پانچویں ترمیم کا جنازہ نکال دیا گیا جس کے مطابق کسی امریکی شہری کو ماورائے عدالت قتل نہیں کیا جا سکتا.  انـا لله وانـا اليـه راجـعـون- امام انورالولاکی کی امریکی حملے میں‌ شہادت کے زمن میں راقم نے سیلون کے کالم نگار گلین گلینوالڈ کے کالم کا ترجمہ کیا ہے جو درج زیل ہے۔

پچھلے سال ماہ جنوری میں‌ یہ بات سامنے آئی تھی کہ ابامہ انتظامیہ نے امریکی شہریوں کی ایک ہٹ لسٹ تیار کی ہےجن کے ماورائے عدالت قتل کا حکم دیا گیا ہے۔  ان میں سے ایک شہری انور الاولاکی بھی ہیں۔ ان کے خلاف فرد جرم دائر کرنے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی گئی حالانکہ اباما انتظامیہ نے ایک سال پہلے اس پر غور کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ اس بارئے میں‌ قومی سلامتی کے یمنی ماہرین کے شدید شک و شبہات ہیں کہ انور اولاکی کا القاعدہ سے آپریشنل یا عملی طور پر کوئی تعلق بھی تھا اور نا کوئی ثبوت ان کے خلاف لایا گیا۔ صرف غیر ثابت شدہ حکومتی الزامات جن کی عدالت میں‌کوئی مصدقہ حیثیت نہیں۔ اولاکی کے والد نے جب صدارتی حکم کے خلاف اپنے بیٹے کی جان بچانے اور قتل کے احکامات کی قانونی حیثیت کو عدالت میں چیلینج کیا تو امریکہ محکمہ انصاف نے یہ کہ کر یہ کیس باہر پھینک دیا کہ یہ یہ مملکت کے راز ہیں اوریہ عدلیہ کی دسترس سے باہرہیں۔ اولاکی کو امریکی صدر کی ایما پر قتل کیا گیا جو کہ ان کا منصف بھی ہے، جیوری بھی ہے اور جلاد بھی۔

جب اولاکی کی امریکی شہریوں کی ہٹ لسٹ میں‌موجود ہونے کی تصدیق ہوئی تو نیویارک‌ ٹایمز نے لکھا کہ ‘یہ نہائت غیر معمولی بات ہے اور اس کی تاریخ میں‌ مثل بہت کم ملتی ہے۔ یہ  شاذ و نادر ہئ ہوتا ہے کہ کسی امریکی کو ہدف بنا کر قتل کرنے کی منظوری دی جائے۔

کئی ناکام کوششوں کے بعد آج امریکی انتظامیہ انور اولاکی کو قتل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس کے لئے دیرینہ آمر دوست صدر صالح کی مدد لی گئی جنہوں نے اپنے شہریوں‌کو مارنے سے تھوڑے وقت کی چھٹی لی تاکہ امریکی انتظامیہ کو اس کا اپنا شہری مارنے میں مدد دے سکیں۔ امریکی انتظامیہ نے اس زمن اپنی حماقت سے  ایک معمولی شخص کو شہید کے درجے پر فائز کرتے ہوئے اپنا حقیقی چہرہ دنیا کو دکھا دیا۔ ہمیں‌یقین ہے کہ میڈیا کا پیٹ بھرنے کے لئے اب حکومت اور میڈیا دونوں نے اگلے بن لادن کی تلاش دوبارہ شروع کر دی ہوگی،

سب سے حیرت ناک بات یہ نہیں کہ امریکی حکومت نے وہی کام کیا جس جس سے امریکی آئین کی پانچویں ترمیم میں‌یکسر  طور پر منع کیا گیا ہے،یعنی اپنے ہی شہریوں کا قتل، اور اسی دوران پہلی ترمیم یعنی آزادی اظہار کی آزادی پر بھی ضرب لگائی گئی چونکہ عدالت میں ان الزامات پر اب کبھی بحث نا ہوگی۔ اس سے بھی حیرت ناک بات یہ ہے کہ اس ہلاکت کو اس طرح پیش کیا گیا کہ امریکی شہری اس بات پر نا صرف یہ کہ کوئی اعتراض بھی نہیں‌ کریں‌ گے بلکہ کھڑے ہو کر امریکی حکومت کی اپنے ہی شہریوں‌کو قتل کرنے کی نئی طاقت پر تالیاں بجائیں گے۔ یہ وہ طاقت ہے جس کے ذریعے اپنے کسی شہری کو کسی بھی قانونی کاروائی کے بغیر ماورائے عدالت قتل کیا جاسکتا ہے۔ بہت سے لوگ صدر کی مضبوطی، قوت فیصلہ اور سخت جانی کو سراہیں گے ۔ ان میں بہت سے وہ ‘صالحین’  بھی شامل ہونگے جنہوں نے ٹیکساس کے گورنر پیری ،جو آج کل صدارت کے امیدوار ہیں، ان کے ریاست ٹیکساس میں زانیوں اور قاتلوں کے تختہ دار پر لٹکانے کے عمل پر خوش ہونے والے ٹی پارٹی کے اراکین کے رد عمل  کو انسانیت سوز قرار دیا تھا۔ لیکن کم از کم ان قیدیوں‌ کو عدالت کے کٹھرے میں‌ تو لایا گیا تھا اور ان کے قتل سے پہلے انہیں‌ قانون کے مطابق اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع دیا گیا تھا، انو الولاکی کو تو کوئی موقع نہیں‌ دیا گیا ۔



آمریت کے نقطہ نگاہ سے یہ امریکی سیاسی پس منظر کا کارنامہ عظیم ہے۔ یہ یقینا ایک گراں‌ قدر بات ہے کہ نا صرف ایک ایسا طریقہ نکال جائے کہ آپ عوام کی وہ آئینی انفرادی آزادیاں سلب کرلیں‌ جو انہیں‌ریاست کے جبر سے بچانے کے لئے بنائی گئی تھیں‌۔ لیکن اس سے بھی بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ایسا ماحول بنا دیا جائے کہ یہ  شہری بھیڑ بکریوں کی طرح ان آزادیوں‌ کے چھن جانے پر تالیاں‌ بھی بجائیں۔

میں جب بھی اس موضوع پر قلم اٹھاتا ہو، مجھے جو بات نہایت پریشان کرتی ہے وہ  ڈیموکریٹس کی بش کی پالیسیوں پر تنقید ہے۔ یاد ہے جب صدر بش نے امریکی شہریوں کو بلا اجازت حراست میں‌ رکھنے اور ان کی گفتگو سننے کی طاقت کا قانون منظور کروایا تھا؟ اس پر ڈیموکریٹس نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا اور کس قدر لے دے ہوئی تھی۔  اب وہی لوگ صرف حکومتی ذرائع کی اطلاع اور کسی عدالتی عمل کے بغیر کسی امریکی شہری کو ہلاک کردینے پر خاموش ہیں کیونکہ انتظامیہ کہتی ہے کہ وہ دہشتگرد تھا، یہ کونسا انصاف ہے؟

ان دنوں‌ لبرلز کا نعرہ تھا، کیا آپ پسند کریں‌گے کہ ہیلری کلنٹن کے پاس آپ کا فون سننے اور آپ کو ماورائے عدالت قید کرنے کے طاقت ہو؟ آج انہی لوگوں سے  یہ سوال کیا جانا چاہئے کہ‌ اب آپ کو کیسا لگے کا کہ جب امریکی شہریوں‌کو ماورائے عدالت قتل کرنے کی اجازت رک پیری یا مشیل باکمین کے ہاتھ میں‌ہو؟

گلین گرین والڈ، سیلون ڈاٹ کام۔

وبشر الصابرين الذين اذا اصابتهم مصيبة قالو انـا لله وانـا اليـه راجـعـون.
يا أيتها النفس المطمئنة ارجعي إلى ربك راضية مرضية, فادخلي في عبادي وادخلي جنتي.

 

Share

August 28, 2011

اینکڈوٹل ایوڈنس، مغالطه منطقی اور سنیتا ولیمز

Filed under: خبریں,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 6:54 am

حکایتی دلیل یا ‘اینکڈوٹل ایوڈنس’ خصوصی طور پر چنے گئے کسی ایسے واقعے کو کہا جاتا ہے جو کہ ایک نوع عمومی کے رجحان کی صفت کو صحیح طور پر بیان نہیں کرتا۔ اسے بسا اوقات کج بحثی میں دلیل کی مضبوطی کے ثبوت کے لئے خصوصی طور پر چنا جاتا ہے لیکن مزید تحقیق پر یہ منطقی مغالطے کی صورت میں سامنے آکر آپکا منہ چڑانے لگتا ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ اینکڈوٹل ایوڈنس خود تو درست ہو سکتی ہے لیکن اسکا عمومی نوعیت پر کیا جانے والا استدلال درست نہیں ہوتا۔

منطق کی اصطلاح میں‌ ‘فیلیسی’ یا مغالطہ منطقی بھی اسی کے قریب قریب کی چیز ہے۔ مثلا اگر میں تمباکو نوشی کے دفاع میں‌ کہوں کہ میرے ایک عزیز زندگی بھر چمنی کی طرح سگریٹ پیتےرہے لیکن انکی موت 99 سال کی عمر میں‌ایک حادثہ میں ہوئی تو یہ اینکڈوٹل ایوڈنس ہوگی کیونکہ اس کا سیمپل سائز ، اس کی نوع ‘کلاس’ کا ممثل نہیں۔ اسی کو آوٹلائر بھی کہا جاتا ہے۔ فیلیسی تھوڑی سی مختلف ہے کہ جس میں استدلال کی زنجیر میں مغالطہ موجود ہوتا ہے مثلا چونکہ انسان ممالیہ ہے اور وہیل مچھلی بھی ممالیہ ہے لحاظہ انسان وہیل مچھلی ہے۔

آج صبح کی نماز میں ہمارے امام صاحب نے خلاباز سنیتا ولیمز کے مسلمان ہونے کے بارے میں بتایا اور کہا کہ چونکہ اس نے حرمین کو خلا سے دیکھا اور اس کی روشنی سے وہ اسقدر متاثر ہوئی کہ اس نے ایمان قبول کرلیا۔ یہ بات نا اینکڈوٹل ایوڈنس ہے اور نا ہی فیلیسی، یہ سراسر غلط اطلاع ہے۔ امام صاحب تو خاصے سلجھے ہوئے پڑھے لکھے آدمی ہیں تو ان کو تو یہ بات نہائت آسانی سے سمجھائی جا سکتی ہے لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ میں نے ایسا پہلی مرتبہ نہیں دیکھا، ہمارے ذرائع ابلاغ سے لے کر عام لوگوں تک اس بات کو کوئی فلٹر موجود نہیں کہ کسی خبر کی تصدیق بھی کی جائے۔ انکی نیت خواہ کتنی ہی اچھی ہو، ان اینکڈوٹل ایوڈنسز، فیلیسیز اور کرامات کے بیان سے اسلام کا کچھ بھلا نہیں ہوتا، ہم صرف اپنی لاعلمی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہوتے ہیں۔ ہم نا آحایث میں احتیاط کرتے ہیں اور نا ہی عام مکالموں میں، اسلام کی بڑائی اس بات میں‌ نہیں کہ ہم کتنی جھوٹی روایات اور کرامات کا تذکرہ کرتے ہیں یا کتنی  اینکڈوٹل ایوڈنسز کو منصوص من اللہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔فارورڈڈ ای میلز میں غیر تصیق شدہ فضولیات کا انبار لگا ہوتا ہے۔ دعوت کا کام کرنے والوں کو خصوصا ایسی چیزوں سے سے خبردار رہنا چاہئےکہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے۔

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع ) رواه مسلم في المقدمة 6 صحيح الجامع 4482
’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرے ۔‘‘(مسلم)

رچرڈ فائنمن وہ ماہر طبعیات تھے کہ جنہیں‌ میں البرٹ آئنسٹائین سے بڑا سائنسدان مانتا ہوں۔ ان کا استدلال بڑا خوبصورت ہوا کرتا تھا اور ان کی کتاب ‘یقینا آپ مذاق کر رہے ہیں جناب فاینمین’ ایک نہایت اچھی کتاب ہے۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہا جس کا مطلب کچھ یوں ہے کہ ‘اگر سائنس آج کوئی چیز ثابت نہیں کرسکتی تو مجھے اس غیر یقینی کیفیت سے کوئی ڈر نہیں لگتا۔ کچھ لوگ خدا کو اس لئے استعمال کرتے ہیں کہ وہ غیر یقینی چیزوں کو سمجھا سکیں اور اسکا صورتحال کا تدارک کیا جاسکے، میں اس طرز فکر پر یقین نہیں کرتا، یہ غیر یقینی کیفیت مجھے پریشان نہیں کرتی’

یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اگر ہم خالصتا توحید اور رسالت کی طرف دعوت دے رہے ہیں تو یہ سچ فی النفسہ کائنات کی سب سے بڑی مجسم حقیقت ہے۔ اس کو واضع کرنے کے لئے کسی چمکیلی شے کو دکھانے، قران کو سائنسی کتاب بنانے، چاند پر اذان دلوانے اور سنیتا ولیمز کو زبردستی مشرف با اسلام کرانے  کی چنداں کوئی حاجت نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب و بالتوفیق

Share
Older Posts »

Powered by WordPress