اخبارات میں خبر گرم ہے کہ صدر اوبامہ نے جنرل میک کرسٹل کو برطرف کردیا۔ جنرل صاحب نے کمانڈر انچیف (صدر مملکت) سے اپنے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل پرمعذرت کی اور امریکی حکومت کے اعلی اہلکاروں اور افغانستان میں امریکی سفیر کو تنقید کا نشانہ بنانے پر افسوس کا اظہار کیا۔
اس فور اسٹار جرنیل کے برطرف کئے جانے پرنا تو بقول پیر پگارو ‘بوٹوں کی چاپ’ سنائی دی گئی، حیرت انگیز طور پر برگیڈ 1 نے وائٹ ہاوس کا محاصرہ نہ کیا اور نا ہی کوئی کور کمانڈر ڈسٹرکٹ آف کولمبیا ان کی ملاقات کے لئےلمحہ بہ لمحہ رابطے میں رہا۔ اس سے پہلے جب صدر فورڈ نے جنرل ڈگلس مک آرتھر کودوران جنگ ایک غیر ذمہ دارانہ خط لکھنے کے الزام میں 10 اپریل 1951
کو برطرف کیا تو جنرل اپنی کئریر کی بلندیوں پر تھے اور انکے ساتھ تمام عوامی ہمدردیاں بھی شامل تھیں، اس قدر کہ انہیں اگلی مرتبہ ریپبلیکن پارٹی کی طرف سے صدارتی انتخاب کی بھی پیشکش کی گئی تھی اور انکی تقریر پر اسوقت کی کانگریس کے اراکین نے انہیں 50 مرتبہ ‘اسٹینڈینگ اویشن’ اٹھ کر داد دی۔ لیکن عجیب معاملہ ہے کہ نکالے جانے پر دارورسن سجے اور نا خلق خدانےعزیز ہموطنوں کی آواز سنی اور نا ہی جنرل نے قصر صدارت کا قصد کیا۔ سوئلین صدر کا حکم سنا اور چپکے سے گھر کی راہ لی.ڈیڑھ سو سال پہلےمارچ 1862 میں لنکن نے بھی جنرل مککیلن کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا تھا اور وہ بھی خاموشی سے گھر سدھار گئے تھے کہ یہی جمہوری طریقہ ہے اور زندہ قومیں اپنے ہی گھر ڈاکے نہیں ڈالا کرتیں۔ فراز کیا خوب کہ گئےہیں کہ
مرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
مرا قلم نہیں اس دزدِ نیم شب کا رفیق
جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے
دور کیوں جائیں، پچھلے سال جب پڑوسی ملک میں لیفٹننٹ جنرل آویدیش پرکاش کولینڈ مافیا کے سلسلے میں سزا ہوئی تو کسی کا پندار آڑے نا آیا۔ آپ نے جنرل وجے کمار اورجنرل دیپک کپور کا نام سنا ہو یا نہیں، جارج فرنانڈس، پرناب مکھرجی اور اے کے انتھونی آپ کو ضرور یاد ہونگے کہ آخر الذکر افراد سویلین وزارت دفاع کے لیڈران ہیں جن کی سامنے سپہ سالار کو حد ادب یاد رکھنا پڑتی ہے ۔ اگر اپنی سنہری تاریخ پر نظر ڈالیں کہ جب خلیفہ دوئم رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان آیا تو معزول کمانڈر خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ جیسا جری مجاہد بلا چون و چرا سر جھکاے واپسی کا سفر اختیار کرنے لگا اور جب وقت کے حکمران سلیمان بن عبدالمالک نےفاتح سندھ سپہ سالار ابن قاسم کو معزول کر کے شام طلب کیا تو وہ اتباع نظم اور رضا کی تصویر بن کر مقتل کی طرف روانہ ہوئے جب کہ فرزندادن سندھ کی تلواریں اس عظیم جرنیل کی حفاظت کے لئے بے قرار تھیں۔ اطاعت امیر و اولی الا مر، اداروں کی مضبوطی اور قانون کی حکمرانی کسی بھی زندہ معاشرے کے کلیدی اوصاف ہیں جو کہ آج ہمارے معاشرے سے معدوم ہوچکے ہیں۔
معاشرے میں رائج نظام کی طاقت اس کےاداروں کی مضبوطی میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ چہے وہ فوج ہو، مقننہ ہو، عدلیہ ہو یا سول سروسز۔ ادارے جتنے زیادہ فعال ہونگےاور اپنے دائرہ کار میں اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائں گے،وہ اتنا ہی طاقتورنظام بنا سکیں گے۔ اگر تعلیمی بورڈ جعلی ڈگریوں پر کسی دباو کو قبول نہ کرے، اگر الیکشن کمیشن صاف اور غیرجانبدارانہ انتخابات کروائے، اگر محکمہ تعلیم گھوسٹ اسکولوں کا خاتمہ اپنا مشن بنائے ، پولیس امن و آمان کو بلا دباو اپنی پہلی ترجیح خیال دے اور ہر ادارہ اپنی عملداری میں کام کرے تو کامیابی کی منزل زیادہ دور نہیں۔ لیکن کس کو الزام دیں کہ جب اپنے ہی لوگ ایک راہزن سپہ سالار کو بہترین حکمران قرار دینے پر تلے ہوں اور انکی واپسی شب و روزانتظار کر رہے ہوں۔ اسی زمن میں فراز کی سقوط ڈھاکہ کی نظم یاد آگئ، بر محل ہے سو چلو لکھتے چلیں۔
میں نے اب تک تمھارے قصیدے لکھے
اورآج اپنے نغموں سے شرمندہ ہوں
اپنے شعروں کی حرمت سے ہوں منفعل
اپنے فن کے تقاضوں سے شرمندہ ہوں
اپنےدل گیر پیاروں سےشرمندہ ہوں
جب کبھی مری دل ذرہ خاک پر
سایہ غیر یا دست دشمن پڑا
جب بھی قاتل مقابل صف آرا ہوئے
سرحدوں پر میری جب کبھی رن پڑا
میراخون جگر تھا کہ حرف ہنر
نذر میں نے کیا مجھ سے جو بن پڑا
آنسوؤں سے تمھیں الوداعیں کہیں
رزم گاہوں نے جب بھی پکارا تمھیں
تم ظفر مند تو خیر کیا لوٹتے
ہار نے بھی نہ جی سے اتارا تمھیں
تم نے جاں کے عوض آبرو بیچ دی
ہم نے پھر بھی کیا ہےگوارا تمھیں
سینہ چاکان مشرق بھی اپنے ہی تھے
جن کا خوں منہ پہ ملنے کو تم آئے تھے
مامتاؤں کی تقدیس کو لوٹنے
یا بغاوت کچلنے کو تم آئے تھے
ان کی تقدیر تم کیا بدلتے مگر
ان کی نسلیں بدلنے کو تم آئے تھے
اس کا انجام جو کچھ ہوا سو ہوا
شب گئی خواب تم سے پریشاں گئے
کس جلال و رعونت سے وارد ہوئے
کس خجالت سے تم سوئے زنداں گئے
تیغ در دست و کف در وہاں آئے تھے
طوق در گردن و پابجولاں گئے
جیسے برطانوی راج میں گورکھے
وحشتوں کے چلن عام ان کے بھی تھے
جیسے سفاک گورے تھے ویت نام میں
حق پرستوں پہ الزام ان کے بھی تھے
تم بھی آج ان سے کچھ مختلف تو نہیں
رائفلیں وردیاں نام ان کے بھی تھے
پھر بھی میں نے تمھیں بے خطا ہی کہا
خلقت شہر کی دل دہی کےلیئے
گو میرے شعر زخموں کے مرہم نہ تھے
پھر بھی ایک سعی چارہ گری کیلئے
اپنے بے آس لوگوں کے جی کیلئے
یاد ہوں گے تمھیں پھر وہ ایام بھی
تم اسیری سے جب لوٹ کر آئے تھے
ہم دریدہ جگر راستوں میں کھڑے
اپنے دل اپنی آنکھوں میں بھر لائے تھے
اپنی تحقیر کی تلخیاں بھول کر
تم پہ توقیر کے پھول برسائے تھے
جنکے جبڑوں کو اپنوں کا خوں لگ گیا
ظلم کی سب حدیں پاٹنے آگئے
مرگ بنگال کے بعد بولان میں
شہریوں کے گلے کاٹنے آگئے
ٓاج سرحد سے پنجاب و مہران تک
تم نے مقتل سجائے ہیں کیوں غازیو
اتنی غارتگری کس کی ایما پہ ہے
کس کے آگے ہو تم سر نگوں غازیو
کس شہنشاہ عالی کا فرمان ہے
کس کی خاطر ہے یہ کشت و خوں غازیو
کیا خبر تھی کہ اے شپرک زادگاں
تم ملامت بنو گے شب تار کی
کل بھی غا صب کے تم تخت پردار تھے
آج بھی پاسداری ہے دربار کی
ایک آمر کی دستار کے واسطے
سب کی شہ رگ پہ ہے نوک تلوار کی
تم نے دیکھے ہیں جمہور کے قافلے
ان کے ہاتھوں میں پرچم بغاوت کے ہیں
پپڑیوں پر جمی پپڑیاں خون کی
کہ رہی ہیں یہ منظر قیامت کے ہیں
کل تمھارے لیئے پیار سینوں میں تھا
اب جو شعلے اٹھے ہیں وہ نفرت کے ہیں
آج شاعر پہ بھی قرض مٹی کا ہے
اب قلم میں لہو ہے سیاہی نہیں
خون اترا تمھاراتو ثابت ہوا
پیشہ ور قاتلوں تم سپاہی نہیں
اب سبھی بے ضمیروں کے سر چاہیئے
اب فقط مسئلہ تاج شاہی نہیں