فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

August 21, 2011

اسٹار بخش اور بابو صاحب

Filed under: خبریں,مشاہدات — ابو عزام @ 5:04 am

چینی بلاگستان میں آجکل دھوم مچی ہے اس تصویر کی جس میں ایک شخص کو کافی کی دکان پر اپنا ‘بیک پیک’ بستہ پہنے، آرڈر دیتے دکھائی دیا جاسکتا ہے۔

یہ ایک عام سا منظر ہے لیکن یہ شخص کوئی عام آدمی نہیں۔ سیاٹل ٹکوما ایرپورٹ پر کھینچی گئی یہ تصویر چین کے لئے امریکہ کےسفیر گیری لاک کی ہے جو ریاست واشنگٹن کے سابق گورنر بھی رہ چکے ہیں۔ ہماری طرح چینیوں کو بھی بڑی حیرت ہے کہ سابق گورنر اور سفیر صاحب نے اپنا سامان خود کیوں اٹھایا ہوا ہے اور بابو صاحب کے ملازموں کی فوج ظفر موج کہاں ہے جو کہ صاحب کے ایک اشارے پر دوڑی چلی جائے اور چاے، کافی و لوازمات لے کر آے۔ چینی بلاگروں اور میڈیا نے افسر شاہی کو لاک صاحب سے سبق سیکھنے کا کہا لیکن صاحبوں نے نا صرف اسے ‘کلچرل تھنگ’ کہ کر نظر انداز کرنے کا عندیہ دیا بلکہ اسے امریکہ کی ممکنہ غربت پر بھی محمول کیا ہے ۔ نیز یہ کہ ایک بلین کی آبادی میں سب اپنے کام کرنے لگے تو ‘چھوٹوں’ کی نوکری کا کیا ہوگا، آپ تو کلاس وار فیر شروع کرنے لگ گئے، کمیونسٹ کہیں کے۔

اب اس کار با دست پر متوازیات کی باری آے تو اسلاف سے بیسیوں مثالیں دے ڈالوں لیکن شائد یہی مسئلہ ہے، تاریخ سے مثالیں اور نوسٹیلجیا۔

Share

February 2, 2011

فراعنہ کی سرزمیں اور ٹوئٹر انقلابی

Filed under: خبریں,سیاست — ابو عزام @ 12:23 am

انقلابات ٹوئٹر اور فیس بک سے نہیں آتے۔

انقلابات سوشل میڈیا کی آمد سے بہت پہلے سے آ رہے ہیں اور اس وسيلة الاتصال کے ختم ہونے کے بعد بھی آتے رہیں گے۔اسکا کیٹیلسٹ کبھی صدا بہ صحرا سندھ ہوتی ہے تو کبھی ٹوئٹ۔ انقلابات کا منبع  ظلم اور جبر، ناانصافی اور مطلق العنانی کی  مخالفت سے پھوٹتا ہے جس کی ابتدا معاشرتی اور معاشی مسائل کا حل اور انتہا انسان کو انسان کی غلامی سے نکال کر اپنے رب کی بندگی میں‌ دینا قرار پاتی ہے۔
آج سرزمین یوسف کا انقلاب تسلسل ہے اس اذاں کا جو قطب نے دار پر چڑھ کر اور البنا نے سینے پر گولی کھا کر دی ۔ کردار مختلف سہی لیکن آب جبر و استبداد کے پردے ہٹا دیں اور جمہوری طریقے سے لوگوں کو اپنا حق راےدہی استعمال کرنے کا حق دیں تو تونس سے قاہرہ تک غنوشی و الہلباوی و بدیع ہی ابھرتے ہیں۔ ‘روشن خیال’ اس ‘ہائی جیکنگ’ کا منظر فلسطین و الجزائر میں دیکھ چکے ہیں، اب قاہرہ کی گلیوں میں دیکھیں۔
’ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ‘
Share

July 19, 2010

مرزائی رہنما کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائ

Filed under: پاکستان,خبریں — ابو عزام @ 12:41 pm
عربی و انگریزی جریدے الاخبار نامی ہفت روزہ مجلے کی آٹھ جولائی کی اشاعت میں احمدی عبادت گاہ کے سربراہ شمشاد احمد قادیانی کا ‘آزادی کی میرے لئے کیا اہمیت ہے’ کے عنوان سے ایک مضمون چھپا ہے۔ اس مضمون کا مکمل متن یہاں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

اپنی تحریر میں شمشاد احمد صاحب نے پاکستان کی حکومت، اداروں اور عوام کی اکثریت پر احمدیوں کے قتل عام میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں
‘لاہور میں اٹھایس مئی کو طالبانی ہتھیار برداروں نے دو عبادت گاہوں پر حملہ کر کے 86 احمدیوں کو ہلاک کردیا۔ ان دہشت گردوں نے یہ کام پاکستانی حکومت، پولیس، آئین اور مذہبی اکابرین کی اجازت سے کیا جو تمام کے تمام اس بات پر راضی ہیں کہ احمدیوں کا قتل ایک عظیم الشان فعل ہے”
مزید الزام تراشی کرتے ہوے کہتے ہیں
“یہ مذہبی اقلیت کے خلاف دہشت گردی کا کوئ بےترتیب واقعہ نا تھا بلکہ یہ ریاستی پشت پناہی ‘اسٹیٹ اسپانسرڈ’ اور عوامی منظوری سے کیا جانے حملہ تھا”  اور “پاکستان اور دیگرکئی مسلم ممالک میں مذہبی بنیادوں پر ایذا رسانی کی حمایت اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے”
مزید زہر افشانی کرتے ہوئے وہ امریکہ کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ مسلمانوں سے کہے کہ وہ اپنے ضمیر کو جگائیں نیز یہ کہ
“پاکستانی حکومت اور پاکستانی عوام کی اکثریت سب کے لئے آزادی اور انصاف کی مشترکہ اقدار پر یقین نہیں رکھتی”۔
اگر آپ کو میرے ترجمے پر اعتراض ہو تو آپ خود پیراگراف نمبر 7-9 کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔
لاہور میں قادیانی عبادت گاہوں پر حملہ دہشت گردی کا ایک فعل تھا جس کی ہر مکتبہ فکر کی جانب سے مذمت کی گئی۔ پاکستان کا ہر طبقہ چاہے وہ مذہبی اقلیت ہو یا مسلم اکثریت، اس وقت دہشت گردی کی لپیٹ‌ میں ہے۔ سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، ہر فرقے کے افراد کو دہشت گردی کی بہیمانہ غیر انسانی وارداتوں کا سامنا ہے۔ سید علی ہجویری کی قبر پر ہونے والے دھماکے ہوں، سرگودھا  میں امام بارگاہ پر حملہ ہو، مہمند ایجنسی یکہ غنڈ میں ہونے والا خود کش دھماکہ ہو یا منگورہ میں’فدائی’ حملہ، ہمارا ملک دہشت گردی کے ایک ایسے خونی بحران سے گذر رہا ہے کہ جس میں پاکستانیوں کی جان و مال جنس ارزاں ہوگئیں ہیں۔ ان خراب حالات میں جبکہ قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کی اشد ضرورت ہے، مرزایوں کی طرف سے یہ گمراہ کن بیان کہ یہ حملے نہ صرف خاص طور پر احمدی فرقے کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے بلکہ یہ کہ اس میں کسی طرح پاکستانی حکومت کی اسپانسرشپ اور پاکستانی عوام کی مرضی شامل ہے ، نہایت افسوسناک ہے۔
پچانوے فیصد سے زائد مسلم اکثیریتی آبادی کے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں کو غیر مسلم اقلیتوں کےحقوق حاصل ہیں۔ غیر جانبدار عالمی تجزیات اور رپورٹوں کی روشنی میں اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے  جن میں عیسائی، ہندو اور قادیانی شامل ہیں لیکن یہی دہشت گردی کی وبا اسلامی فرقہ جات کے لئے بھی یکساں طور پر قتل و غارت کا پیغام لے کر آئی ہے اور اعداد وشمار اس بات کے گواہ ہیں۔ دہشت گرد بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں لیکن جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک مذمتی بیان کی پریس ریلیز بھی نظر نہیں آتی ۔ چونکہ یہ ‘غیر جانبدارانہ’ سروے صرف اقلیتوں کے حقوق کی نمایندگی کرتی ہیں، اس وجہ سے ‘بگ پکچر’ یا دہشت گردی سے متاثر ہونے والوں کی مکمل تصویر کشی نہیں ہوپاتی اور یہ تاثر بننا شروع ہو جاتا ہے کہ اس دہشت گردی کا اصل منبع اکثریتی مسلم آبادی کی اقلیتی غیر مسلم آبادی پر ایذا رسانی ہے جو حقیقت سے بعید تر ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کے باشعور عوام نے کبھی اس طرح کی کاروایوں کی حمائت نہیں کی اور شمشاد احمد کا یہ شرمناک الزام کہ ‘ دہشت گردوں نے یہ کام پاکستانی حکومت، پولیس، آئین اور مذہبی اکابرین کی اجازت سے کیا’ مملکت پاکستان کی انتظامیہ اور عوام پر بلاوجہ لگایا جانے والا بہتان ہے ۔ اس طرح کے بے سروپا الزامات اور ہرزہ سرایاں کرکے مرزا غلام احمد کذاب کے ماننے والےشمشاد صاحب شائد اپنے غیر ملکی آقاوں کو تو خوش کر سکتے ہیں لیکن کسی سنجیدہ ڈایلاگ کی کمی کو پورا نہیں کرسکتے۔
Share

June 23, 2010

اداروں کا استحکام – کامیابی کی کلید

Filed under: پاکستان,خبریں,سیاست,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 10:55 pm
اخبارات میں خبر گرم ہے کہ صدر اوبامہ نے جنرل میک کرسٹل کو برطرف کردیا۔ جنرل صاحب نے کمانڈر انچیف (صدر مملکت) سے اپنے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل پرمعذرت کی اور    امریکی حکومت کے اعلی اہلکاروں اور افغانستان میں امریکی سفیر کو تنقید کا نشانہ بنانے پر افسوس کا اظہار کیا۔
اس فور اسٹار جرنیل کے برطرف کئے جانے پرنا تو  بقول پیر پگارو ‘بوٹوں کی چاپ’ سنائی دی گئی، حیرت انگیز طور پر برگیڈ 1 نے وائٹ ہاوس کا محاصرہ نہ کیا اور نا ہی کوئی کور کمانڈر ڈسٹرکٹ آف کولمبیا ان کی ملاقات کے لئےلمحہ بہ لمحہ رابطے میں رہا۔ اس سے پہلے جب  صدر فورڈ نے جنرل ڈگلس مک آرتھر کودوران جنگ ایک غیر ذمہ دارانہ خط لکھنے کے الزام میں 10 اپریل 1951 کو برطرف کیا تو جنرل اپنی کئریر کی بلندیوں پر تھے اور انکے ساتھ تمام عوامی ہمدردیاں بھی شامل تھیں، اس قدر کہ انہیں اگلی مرتبہ ریپبلیکن پارٹی کی طرف سے صدارتی انتخاب کی بھی پیشکش کی گئی تھی اور انکی تقریر پر اسوقت کی کانگریس کے اراکین نے انہیں 50 مرتبہ ‘اسٹینڈینگ اویشن’ اٹھ کر داد دی۔ لیکن عجیب معاملہ ہے کہ نکالے جانے پر دارورسن سجے اور نا خلق خدانےعزیز ہموطنوں کی آواز سنی اور نا ہی جنرل نے قصر صدارت کا قصد کیا۔ سوئلین صدر کا حکم سنا اور چپکے سے گھر کی راہ لی.ڈیڑھ سو سال پہلےمارچ  1862 میں لنکن نے بھی جنرل مککیلن کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا تھا اور وہ بھی خاموشی سے گھر سدھار گئے تھے  کہ یہی جمہوری طریقہ ہے اور زندہ قومیں اپنے ہی گھر ڈاکے نہیں ڈالا کرتیں۔ فراز کیا خوب کہ گئےہیں کہ
مرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
مرا قلم نہیں اس دزدِ نیم شب کا رفیق
جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے
دور کیوں جائیں، پچھلے سال جب پڑوسی ملک میں لیفٹننٹ جنرل آویدیش پرکاش کولینڈ مافیا کے سلسلے میں سزا ہوئی تو کسی کا پندار آڑے نا آیا۔ آپ نے جنرل وجے کمار اورجنرل دیپک کپور کا نام سنا ہو یا نہیں، جارج فرنانڈس، پرناب مکھرجی اور اے کے انتھونی آپ کو ضرور یاد ہونگے کہ آخر الذکر افراد سویلین وزارت دفاع کے لیڈران ہیں جن کی سامنے سپہ سالار کو حد ادب یاد رکھنا پڑتی ہے ۔ اگر اپنی سنہری تاریخ پر نظر ڈالیں کہ جب خلیفہ دوئم رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان آیا تو معزول کمانڈر خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ  جیسا جری مجاہد بلا چون و چرا سر جھکاے واپسی کا سفر اختیار کرنے لگا اور جب وقت کے حکمران سلیمان بن عبدالمالک نےفاتح سندھ سپہ سالار ابن قاسم کو معزول کر کے شام طلب کیا تو وہ اتباع نظم اور رضا کی تصویر بن کر مقتل کی طرف روانہ ہوئے جب کہ فرزندادن سندھ کی تلواریں اس عظیم جرنیل کی حفاظت کے لئے بے قرار تھیں۔ اطاعت امیر و اولی الا مر، اداروں کی مضبوطی اور قانون کی حکمرانی کسی بھی زندہ معاشرے کے کلیدی اوصاف ہیں جو کہ آج ہمارے معاشرے سے معدوم ہوچکے ہیں۔

  

معاشرے میں رائج نظام کی طاقت اس کےاداروں کی مضبوطی میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ چہے وہ فوج ہو، مقننہ ہو، عدلیہ ہو یا سول سروسز۔  ادارے جتنے زیادہ فعال ہونگےاور اپنے دائرہ کار میں اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائں گے،وہ اتنا ہی طاقتورنظام بنا سکیں گے۔ اگر تعلیمی بورڈ جعلی ڈگریوں پر کسی دباو کو قبول نہ کرے، اگر الیکشن کمیشن صاف اور غیرجانبدارانہ انتخابات کروائے، اگر محکمہ تعلیم گھوسٹ اسکولوں کا خاتمہ اپنا مشن بنائے ، پولیس امن و آمان کو بلا دباو اپنی پہلی ترجیح خیال دے اور ہر ادارہ اپنی عملداری میں کام کرے تو کامیابی کی منزل زیادہ دور نہیں۔ لیکن کس کو الزام دیں کہ جب اپنے ہی لوگ ایک راہزن سپہ سالار کو بہترین حکمران قرار دینے پر تلے ہوں اور انکی واپسی شب و روزانتظار کر رہے ہوں۔ اسی زمن میں فراز کی سقوط ڈھاکہ کی نظم یاد آگئ، بر محل ہے سو چلو لکھتے چلیں۔

  

میں نے اب تک تمھارے قصیدے لکھے
اورآج اپنے نغموں سے شرمندہ ہوں
اپنے شعروں کی حرمت سے ہوں منفعل
اپنے فن کے تقاضوں سے شرمندہ ہوں
اپنےدل گیر پیاروں سےشرمندہ ہوں
جب کبھی مری دل ذرہ خاک پر
سایہ غیر یا دست دشمن پڑا
جب بھی قاتل مقابل صف آرا ہوئے
سرحدوں پر میری جب کبھی رن پڑا
میراخون جگر تھا کہ حرف ہنر
نذر میں نے کیا مجھ سے جو بن پڑا
آنسوؤں سے تمھیں الوداعیں کہیں
رزم گاہوں نے جب بھی پکارا تمھیں
تم ظفر مند تو خیر کیا لوٹتے
ہار نے بھی نہ جی سے اتارا تمھیں
تم نے جاں کے عوض آبرو بیچ دی
ہم نے پھر بھی کیا ہےگوارا تمھیں
سینہ چاکان مشرق بھی اپنے ہی تھے
جن کا خوں منہ پہ ملنے کو تم آئے تھے
مامتاؤں کی تقدیس کو لوٹنے
یا بغاوت کچلنے کو تم آئے تھے
ان کی تقدیر تم کیا بدلتے مگر
ان کی نسلیں بدلنے کو تم آئے تھے
اس کا انجام جو کچھ ہوا سو ہوا
شب گئی خواب تم سے پریشاں گئے
کس جلال و رعونت سے وارد ہوئے
کس خجالت سے تم سوئے زنداں گئے
تیغ در دست و کف در وہاں آئے تھے
طوق در گردن و پابجولاں گئے
جیسے برطانوی راج میں گورکھے
وحشتوں کے چلن عام ان کے بھی تھے
جیسے سفاک گورے تھے ویت نام میں
حق پرستوں پہ الزام ان کے بھی تھے
تم بھی آج ان سے کچھ مختلف تو نہیں
رائفلیں وردیاں نام ان کے بھی تھے
پھر بھی میں نے تمھیں بے خطا ہی کہا
خلقت شہر کی دل دہی کےلیئے
گو میرے شعر زخموں کے مرہم نہ تھے
پھر بھی ایک سعی چارہ گری کیلئے
اپنے بے آس لوگوں کے جی کیلئے
یاد ہوں گے تمھیں پھر وہ ایام بھی
تم اسیری سے جب لوٹ کر آئے تھے
ہم دریدہ جگر راستوں میں کھڑے
اپنے دل اپنی آنکھوں میں بھر لائے تھے
اپنی تحقیر کی تلخیاں بھول کر
تم پہ توقیر کے پھول برسائے تھے
جنکے جبڑوں کو اپنوں کا خوں لگ گیا
ظلم کی سب حدیں پاٹنے آگئے
مرگ بنگال کے بعد بولان میں
شہریوں کے گلے کاٹنے آگئے
ٓاج سرحد سے پنجاب و مہران تک
تم نے مقتل سجائے ہیں کیوں غازیو
اتنی غارتگری کس کی ایما پہ ہے
کس کے آگے ہو تم سر نگوں غازیو
کس شہنشاہ عالی کا فرمان ہے
کس کی خاطر ہے یہ کشت و خوں غازیو
کیا خبر تھی کہ اے شپرک زادگاں
تم ملامت بنو گے شب تار کی
کل بھی غا صب کے تم تخت پردار تھے
آج بھی پاسداری ہے دربار کی
ایک آمر کی دستار کے واسطے
سب کی شہ رگ پہ ہے نوک تلوار کی
تم نے دیکھے ہیں جمہور کے قافلے
ان کے ہاتھوں میں پرچم بغاوت کے ہیں
پپڑیوں پر جمی پپڑیاں خون کی
کہ رہی ہیں یہ منظر قیامت کے ہیں
کل تمھارے لیئے پیار سینوں میں تھا
اب جو شعلے اٹھے ہیں وہ نفرت کے ہیں
آج شاعر پہ بھی قرض مٹی کا ہے
اب قلم میں لہو ہے سیاہی نہیں
خون اترا تمھاراتو ثابت ہوا
پیشہ ور قاتلوں تم سپاہی نہیں
اب سبھی بے ضمیروں کے سر چاہیئے
اب فقط مسئلہ تاج شاہی نہیں
Share

May 18, 2010

منصف ہو تو پھر حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

Filed under: پاکستان,خبریں,سیاست,مشاہدات — ابو عزام @ 11:53 pm
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
اس شعر کے مصداق صدارتی اختیارات کے تحت رحمن ملک صاحب آزاد ہیں کہ آج روپوشی کی سزا ‘معاف’ ہوئی ہے تو کل کلاں بدعنوانی کے ریفرینس بھی ختم کر دیے جایئں گے۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔
ہم توبس اس بات کو جاننے کی تگ و دو میں ہیں کہ کہ یہ صدارتی اختیارات براے ‘دست برداری’ امیونٹی اور معافی کی ابتدا مقننہ میں کہاں سے ہوئی۔ مملکت کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان، اور پیغمبراسلام، علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ عمل کہ عامل ریاست ہونے کے باوجود ایک یہودی آکر گریبان تھامے اور اپنا حق مانگ سکے۔ اسلامی ریاست کے خلیفہ ثانی کا یہ عمل کہ ایک عام شہری کرتے کے کپڑے کا حساب مانگ لے اورامیر المومنین علی رضی اللہ تعالی عنہ اپنی کمان ایک یہودی کہ ہاتھ شرعی عدالت میں ہار جائیں۔ اگر یہ قرون اولی کی مثالیں ہیں تو اسکی موجودہ دور میں تعمیل کا فرض کس کی ذمہ داری ہےِ؟ صرف حکمرانوں کی یا گریبان پکڑنے کی جرات رکھنے والی رعایا کا بھی کوئی فرض بنتا ہے؟
اور چلیں اگر آپکا قبلہ لندن و امریکہ ہے تو انکی مثالیں ہی اپنا لیں۔ کینتھ لے بھری عدالت میں‌ اسوقت کے حاضر امریکی صدر بل کلنٹن کو رسوا کرتا ہے، امریکی ایوان سینٹ میں قرارداد پیش کی جاتی ہے اور برطرفی ‘امپیچمنٹ’ کا ٹرائل کیا جاتا ہے۔ وقت کا صدر نکسن اپنے مخالفین کی باتیں ریکارڈ کرنے کے الزامات کے تحت ‘واٹر گیٹ’ اسکینڈل میں ملوث ہونے پراستعفی دیتا ہے اور اینڈریو جیکسن سے لے کر صدر اوباما تک لوگ انصاف کے نام سے تھراتے ہیں۔ گونروں، سینٹروں اور کانگریس کے ممبران تو کسی گنتی میں ہی نہیں کہ انصاف کا ہتھوڑا سب پر یکساں پڑتا ہے۔ معافی یا کلیمنسی کی مثالیں انکی تاریخ میں‌بھی ملتی ہیں مثلا ہنری فورڈ کا نکسن کو صدر بننے کے بعد معاف کرنا لیکن میری ناقص معلومات میں زرداری جیسی ‘حاضر’ معافی کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ہاں صدر بش پر لاکھوں بے گناہوں کے خون کا مقدمہ چلنے کا انتظار ہے کہ انصاف کی جے جے کار ہو پر کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک۔
بہرحال، کہتے ہیں رچرڈ شیر دل نے اپنے قاتل کو معاف کر دیا تھا، رحمان ملک تو خیر اپنے ہی آدمی ہیں۔ پچاس ہزار میٹرک ٹن تیل کا کوٹا کیا چیز ہے، اختیارات ہوںاوراستعمال نا کئے جائیں تو انکو زنگ لگ جاتا ہے۔ ہم تو ‘انوسنٹ ٹل پروون گلٹی’ یا ‘معصوم تا ثبوت گناہ’ کے نظریہ کے حامی ہیں پر کیا کریں، تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے۔
باقی یار زندہ، صحبت باقی۔
Share

April 13, 2010

انّا للہ و انّا الیہ راجعون

Filed under: خبریں — ابو عزام @ 11:06 pm

ڈاکٹر اسرار احمد، خادم قران ، داعی اور عالم دین اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اناللہ وانا علیہ راجعون- اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔

ڈاکٹر صاحب کی تمام زندگی خدمت قران اور دعوت دین کی کوششوں میں گزری ۔1971 میں  آپ نے جسموں کی مسیحائی کو خیر آباد کہا اور اللہ کے کلام کے زریعہ ذہنوں کی آبیاری کی سعی شروع کی۔ آپ کی قران سے محبت مثالی تھی؛ انجمن خدام قران، دورہ تفسیر اور 60 سے زائد کتابیں آپ کی محنت شاقہ کا ثمر ہیں جس کی جزا صرف ان کے رب کے پاس ہے. آپ کے دورہ قرآن کی آڈیو ایم پی تھری یہاں سے سنی جا سکتی ہے.الحمدللہ راقم اس سے فیضیاب ہوتا رہتا ہے اور میں نے تفہیم القران کے بعد اس کو ایک جامع اور عملی دروس کا مجموعہ پایا ہے۔ یہ علم نافع ڈاکٹر اسرار احمد کا صدقہ جاریہ ہے اور ہمارے لئے قران سمجھنے کی دعوت عام؛ ایک ایسی دعوت جو یہ مرد مومن اپنی ساری زندگی دیتا رہا۔

اس قحط الرجال کے دور میں ایک اور تحریکی فرد، داعی ور محقق داعی اجل کو لبیک کہ گئے اور یہ کار گراں متاخرین کے نا آزمودہ کندھوں پر منتقل ہو گیا۔
آسمان تیری لحد پر شبنم فشانی کرے۔
Share

April 7, 2010

دست و گریبان ڈاکٹر اور صحافی

Filed under: پاکستان,خبریں,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 8:59 pm

میڈیا کی بے لگامی کو دیکھ کر بے اختیار دل سے نکلتا ہے کے

اتنی نہ برا پاکی دامان کی حکایت

ڈاکٹر اور صحافی
ڈاکٹر اور صحافی

کیا یہ کسی دو پیشہ وارانہ شعبہ جات کا انداز تکلم لگتا ہے ؟

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/04/100407_ali_salman_doctors.shtml

Share
« Newer Posts

Powered by WordPress