فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

August 3, 2015

حیدرآبادی بریانی اور شروڈنگر کی بلی

Filed under: ادبیات,سائینس و ٹیکنالوجی,طنزومزاح — ابو عزام @ 8:29 am

طبعیات کا ایک مشہور لطیفہ ہے کہ ایک دفعہ سائنسدان ہائزنبرگ، شروڈنگر اور اوھم گاڑی میں جارہے تھے۔ ہائزنبرگ گاڑی چلا رہا تھا کہ ایک ٹریفک پولیس والے نے انکو تیز رفتاری کرنے پر روک لیا۔ پولیس افسر نے ہائزنبرگ سے پوچھا۔

پولیس افسر: جناب، آپکو علم ہے کہ آپ کس رفتار سے سفر کر رہے تھے؟
ہائزنبرگ: جی نہیں، لیکن مجھے اس بات کا ضرور علم ہے کہ میں کہاں موجود ہوں۔
پولیس افسر: آپ ۳۵ کی رفتار والے زون میں ۵۵ کی رفتار سےگاڑی چلا رہے تھے
ہائزنبرگ: بہت خوب بے وقوف آدمی، چونکہ اب تم نے مجھے میری رفتار بتا دی ہے لہذا اب مجھے نہیں پتا کہ میں کہاں موجود ہوں!
پولیس والے کو ان کی پراسرار  باتوں سے کچھ شک ہونے لگا تو اس نے ڈگی کھولنے کا حکم دیا۔ ڈگی کے معائنے پر اس نے وہاں ایک ڈبہ دیکھا جس میں ایک مری ہوئئ بلی موجود تھی۔
پولیس افسر: آپ لوگوں کو علم ہے کہ ڈگی میں ایک عدد مری ہوئئ بلی ہے؟
شروڈنگر: نہیں الو کی دم، لیکن آپکی مہربانی کہ اب ہمیں پتا چل گیا ہے!
پولیس افسر انہیں بدتمیزی کرنے پر گرفتارکر کر لے جاتا ہے۔ صرف اوھم مزاحمت کرتا ہے۔

 بہرحال،  اگر آپ کو اس لطیفے پر ہنسی نا آے تو آپ کی حس طبعیات یا حس مزاح میں سے کوئئ ایک حس مفقود ہے لیکن بہتر ہوگا کہ علمیت کا رعب ڈالنے کے لئے ہنسنا شروع کردیں، ہم نے بھئ یہی کیا تھا۔

Schrodingers-Cat

بہرطور، بات ہورہی تھی شروڈنگر کی بلی کی۔ اس ویکینڈ پر ہمارے ایک عزیز کچی یخنی کی حیدرآبادی بریانی لائے۔ اس بریانی کو بنانے کا طریقہ انہوں نے یہ بتایا کہ اس میں گوشت، مصالحہ جات اور چاول سب ایک ساتھ رکھ دئے جاتے ہیں اور دیگ یا پتیلے کو آٹے سے سیل کر دیا جاتا ہے۔ پھر اسکو پکنے دیا جاتا ہے اور دعا کی جاتی ہے کہ گوشت گل جائے اور چاول زیادہ نا گل جائیں۔ اس دوران پتیلا نہیں کھولا جاسکتا لہذا آپ کو علم نہیں ہوتا کہ بریانی بن گئی ہے یا نہیں جب تک کہ پتیلے کا ڈھکن نا ہٹایا جائے۔

جی ہاں، آپ نے درست پہچانا، اس سے مراد یہ ہے کہ ارون شروڈنگر کی بلی کا تھاٹ ایکسپیرمنٹ تو ہم حیدرآبادی لوگاں صدیوں سے کرتے آرہے ہیں۔  یہ مغرب کی سازش ہے کہ ہماری تمام ایجادات کو لے کر اپنا نام لگا کر نوبل انعامات لے جاتا ہے،  بیہودہ لوگ، شروڈنگر کا بینگن!

Share

December 18, 2013

الگارتھم بمقابلہ لاگرتھم

Filed under: تحقیق,سائینس و ٹیکنالوجی,کتابیات — ابو عزام @ 8:38 pm

آج  شام کرسٹوفر اسٹائن کی تصنیف “آٹومیٹ دس” پڑھتے ہوئے صفحہ ۱۰۲ پرلفظ  الگارتھم کی تاریخ پر مبنی ایک پیراگراف نظر آیا۔ اکثر و بیشتر لوگوں کو الگوردم اور لاگرتھم کے الفاظ میں اشتباہ ہوتا ہے ، یہ دونوں بلکل مختلف اصطلاحات ہیں اور دونوں  الخوارزمی سے منسلک نہیں۔  الگارتھم کسی مسئلے کوحل کرنے کے لیۓ ، اصول و ضوابط کی (عموما مرحلہ بہ مرحلہ) ترتیب شدہ شکل کو کہا جاتا ہے جبکہ لاگرتھم شارع کا منعکس عمل ہے جس  کی مدد سے بڑی قدروں کو چھوٹی قدروں میں تبدیل کر کر بڑے اعداد کے حساب کتاب کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

automate_this

صفحہ نمبر ۱۰۲ پر آٹومیٹ دس کے مصنف الگارتھم کے بارے میں شابرت کے حوالے سے لکھتے ہیں

“The word algorithm comes from Abu Abdullah Muhammad ibn Musa Al-Khwarizmi, a Persian mathematician from the ninth century who produced the first known book of algebra, Al-Kitab al-Mukhtasar fi Hisab al-Jabr wa l-Muqabala (The Compendious Book on Calculation by Completion and Balancing). Algebra’s name comes straight from the al-Jabr in the book’s title. As scholars disseminated Al-Khwarizmi’s work in Latin during the Middle Ages, the translation of his name—“algorism”—came to describe any method of systematic or automatic calculation”

لفظ الگارتھم، انیسیوں صدی میں فارس کے ایک ریاضی دان  ابو عبداللہ محمد ابن موسی الخوارزمی سے منسوب ہے جو  الجبرا کے موضوع پر پہلی معلوم کتاب کے مصنف ہیں۔ ۔اس کتاب کا نام كتاب المختصر في حساب الجبر والمقابلة  تھا۔ ریاضی کی صنف الجبرا اسی کتاب کے نام سے ماخوذ ہے۔ جب علما نے الخوارزمی کے کام کو لاطینی زبان میں ڈھالنا شروع کیا تو الخوارزمی کے نام کا لاطینی تلفط، الگورزم، اصول و ضوابط کی (عموما مرحلہ بہ مرحلہ) ترتیب شدہ شکل میں حساب کتاب کا متبادل قرار پایا۔

حوالہ جات

الخوارزم

آٹومیٹ دس از کرسٹوفر اسٹائنر

Share

October 29, 2013

مطالعہ2.0 – ای ریڈر، صوتی کتب اور قدامت پسند کتابی کیڑے

  مندرجہ ذیل تبصرہ ، ۔ کنڈل، پیپروائٹ، آئ پیڈ، نک، وغیرہ کے بارے میں یہ راے ہماری ای بک ریڈرز کے ساتھ  کئی سالوں کی رفاقت و رقابت کے تجربوں کا نچوڑ ہے اور قاری کا  نشان میل بالکل مختلف ہوسکتا  ہے۔

برقی کتاب یا ای بک سے ہماری دیرینہ عداوت کوئ ڈھکی چھپی پات نہیں۔ جس کتاب کو لائبریری سے اٹھنی میں مستعار لے کراور درسی کتابوں میں چھپا کر نا پڑھا جاسکے، جس کے صفحات نا مروڑے جا سکیں اور پسند نا آنے پر دوست کے سر پر نا مارا جاسکے، وہ موئ کتاب ہی کیا۔ اب تو سائنسدانوں کا بھی یہ کہنا ہے کہ دماغ کو کتاب کے لمس و زماں سے بڑی انسیت ہے۔ گئے دنوں کی بات ہے کہ پی آئ بی کالونی میں “آپ کی لائبریری” سے کتابیں لایا کرتے تھے، پھر فایف سی فور نارتھ کراچی میں ایک خوب لائبریری ملی، پڑھائ کے لئے لیاقت نیشنل لائبریری کی بھی کیا ہی بات تھی، پھر ہمارے اور عبدالقدیر خانصاحب کے المامیٹر ڈی جے کالج کی لائبریریاں بھی اپنی مثال آپ تھیں۔ جامعہ کراچی میں تو  ڈپارٹمنٹ کی  سیمینار لائبریری (راشد بھائ کا اصطلاح یاد دلانے کا شکریہ) اور محمودالحسن لائبریری موجود تھیں اور پھر بعد میں ہم نے لائبریری آف کانگریس اور برٹش نیشنل لائبریری کی رکنیت بھی حاصل کی۔ غرضیکہ کتابیں پڑھیں یا نا پڑھیں، کتابوں کے درمیان رہنے کا سامان   ہمیشہ میسر رہا جیسا کہ جون ایلیا نے کہا

میرے کمرے کو سجھانے کی تمنا ہے تمھیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں

مگر یہ تو جناب جملہ معترضہ تھا، ٓآتے ہیں اصل بات کی طرف

books

 ۔پھر یہ ہوا کہ ائ بکس کا چلن شروع ہوا کہ مالیکیولز کی نسبت الیکٹرونس کو حرکت دینا کفایت شعاری ہے۔ ہم نے بھی بقیہ تمام کرمکین حاسب کی طرح پہلے پہل پی ڈی ایف کمپیوٹر پر پڑھیں۔ ہمارا پہلا باقاعدہ ای بک ریڈر آی پیڈ فرسٹ جینیریشن تھا۔ یہ تجربہ مگر کچھ زیادہ کامیاب نا رہا کیونکہ آئ پیڈ میں دیگر ایسے خلفشار ذہن موجود ہوتے ہیں کہ مطالعہ کا سکون میسر نہیں ہوتا۔  پھر ہم نے تقریبا دو سال قبل کنڈل فرسٹ جینیریشن خرید کر اس پر کتابیں پڑھنا شروع کیں۔ کنڈل پر کتاب پڑھنا شروع میں تو مشکل لگا لیکن جب ہم نے اسکا استعمال گھر سے باہر خصوصا ساحل سمندر پر کیا تو کتابیں اٹھا اٹھا  کر نا پھرنے کی سہولت کچھ اچھی لگی

reading

لیکن پھر بھی درخت خشکیده کی کتابیں ہمیشہ ترجیح رہیں کہ چھٹتی نہیں منہ سے یہ کافر۔ کنڈل میں پی ڈی ایف پڑھنا خصوصا ایک جنجال ہوتا ہے۔ فانٹ ایڈجسٹ کرنے میں اور صفحات کو صحیح طور پر دیکھنا  خصوصا اگر کتاب تکنیکی ہو اور تصاویر یا  کوڈ پڑھنا ہو تو آئ پیڈ یا کمپیوٹر کی بڑی اسکرین ہی بہتر حل نظر آیا۔

DSCN8245

ان تمام تجربات کے دوران ہم نے صوتی کتب کا استعمال نا چھوڑا۔ اکژ ایسا ہوتا کہ گھر پر ایک کتاب شروع کی، دفتر جاتے ہوے راستے میں اسی کا صوتی ورژن گاڑی میں سنا، لنچ بریک میں اسی کتب کو کنڈل پر پڑھا، طویل بے مقصد میٹنگز کی بوریت مٹانے کے لئے اسی کو لیپ ٹاپ یا آئ پیڈ  میں پڑھتے رہے اور دفتر سے واپسی پر صوتی کتاب اور پھر اصل کتاب رات کو۔ فکشن کتب کے ساتھ یہ خوب چلتا ہے جیسا کہ اوپر والی تصویر میں ڈین براون کی انفرنو کو مختلف اشکال کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔

Screenshot_2013-10-29-22-04-57

اس کے بعد ہم نے کنڈل فائر کو بھی کچھ عرصہ استعمال کیا لیکن یہ ٹیبلٹ محض ایک کم قیمت و کم ظرف آئ پیڈ ہے اور اپنے پیشرو کنڈل کی طرح مطالعے کے لئے کوئ خاص سہولت نہیں دیتا۔ اسکی اسکرین چونکہ سادہ کنڈل کی طرح ای انک نہیں لہذا ہم نے اسے نا تو اچھا ای ریڈر پایا اور نا ہی ڈھنگ کا ٹیبلٹ۔  بارنس انینڈ نوبل کا نک بھی کچھ دنوں استعمال کیا کہ ہمارے ایک عزیز اس کے پراڈکٹ مینیجر ہیں۔ ان کی دل آزاری مقصود نہیں لیکن نک کے لئے آسان الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا۔ یہی کچھ میں نوٹ ۲ اور دیگر فیبلیٹ متعلقین کے بارے میں بھی کہوں گا۔

audiobook

نان فکشن کتب بمع السٹریشنز، ریسرچ آرٹیکلز اور درسی کتب کے لئے بھرحال ابھی تک ہمیں آئ پیڈ اور کاغذی کتاب کا کوئ اچھا متبادل نہیں ملا۔ خصوصا جب سے راقم نے “نیا آئ پیڈ” ریٹینا ڈسپلے استعمال کرنا شروع کیا۔  مثلا اگر آپ کو پائتھن فار ڈمیز پڑھنی ہے تو اسکی عکاسی و اشکال کے بہتر مطالعے کے لئے  آئ پیڈ یا کاغذی کتاب ہی درست وسیلہ ہے۔ حال ہی میں ہم نے اپنا پرانا کنڈل ایک دوست کو ہدیہ کیا اور نیا کنڈل پیپر وائٹ استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ ابھی تک اس پر دو تین کتابیں ہی پڑھی ہیں اور پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ “انٹرپریٹیشن آف اے مرڈر” کی کاغذی کاپی کے بجاے اس کی کنڈل شکل کو ترجیہ دی ہو۔ اس کی تین اہم وجوہات تھیں۔ ایک تو اس کی اسکرین آئ پیڈ کی طرح کچھ دیر بعد آنکھوں کو نہیں چبھتی ،  دوسرا یہ کہ اس کی بیک لٹ کی وجہ سے اسے رات کے وقت سونے سے پہلے اندھیرے میں بھی دوسروں کو تنگ کئے بغیر (عقلمند کے لئے اشارہ کافی)  اچھی طرح پڑھا جاسکتا ہے، اور تیسرا یہ کہ فانٹ سائز تبدیل کرنا اسکے ٹچ اسکرین ہونے کی وجہ سے نہایت آسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مارک رسانوچ کی ٹروجن ہارس کا مطالعہ بھی راقم اسی طرح کر رہا ہے۔

20131029_220215

 اس نئے کنڈل کا گرویدہ بننے کی ایک اور وجہ وسپر سنک   کا استعمال ہے۔ راقم آجکل محترمہ مریم جمیلہ پر لکھی گئی کتاب “اے کنورٹ” کا دوبارہ مطالعہ یا رفریشر چل رہا  ہے۔ اب میں جہاں پر کنڈل میں اسے چھوڑتا ہوں، آڈیبل کی صوتی کتاب اسے وہیں سے دوبارہ شروع کردیتی ہے اور پھر جہاں سے سننا ختم ہوتا ہے، کنڈل اسے دوبارہ اسی صفحے پر “سنک” کردیتا ہے۔


20131029_220108      Screenshot_2013-10-29-22-04-30

صوتی کتب اور ائ بکس میں بحرحال مومینٹو کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل نیٹوز کا تو نہیں پتا لیکن ہم پرانے لوگ تو کتاب کے لمس سے، صفحات پر سالن کے دھبوں سے اور دیگر زمانی و مکانی نشانیوں سے چیزوں کو یاد رکھتے ہیں۔ مومینٹو کی کمی ہمیشہ اس بات کا شدید احساس دلاتی ہے کہ آپ زمان و مکاں کی حدود سے دور کہیں الیکٹرونز  کی سرزمین پر بے وزنی کی کیفیت میں ہیں جہاں کتابوں کی ابتدا و انتہا و درمیان سب ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔ مثلا  کتاب “پطرس کے مضامین” کے میرےمطالعے میں آنے والے  پہلے  نسخے میں جسے راقم نے بلامبالغہ ہزار مرتبہ پڑھا ہوگا، میبل اور میں کے دو صفحات غائب تھے، جب میں نے پہلے دفعہ انہیں کہیں اور سے پڑھا تو کچھ  عرصے تک یقین نا آیا کہ یہ اسی مضمون کا حصہ ہیں، وہ تشنگی مضمون کا حصہ بن کر رہ گئی تھی, اب سوکھے ہوے پھول ای بکس میں تو نہیں مل سکتے نا قبلہ، بہرحال۔

قصہ مختصر، راقم کا کلیہ مطالعہ کچھ یوں ہے۔

فکشن کتب : صوتی کتاب، کنڈل

نان فکشن اور درسی کتب مع تصاویر: آئ پیڈ، لیپ ٹاپ یا کاغذی کتاب

نان فکشن کتاب بغیر تصاویر و کوڈ : کنڈل

ابھی تک کنڈل پیپر وائٹ کو بہرحال بہترین ریڈر پایا ہے۔ قارئین کا تجربہ جاننے کا متمنی رہوں گا۔

ما ز آغاز و زنجام جہاں بے خبریم
اوّل و آخرِ ایں کہنہ کتاب افتادہ است

Share

April 21, 2013

محض ایک نظریہ؟ چند غلط العوام اصطلاحات اور انکے درست سائنسی معنی

Filed under: تحقیق,سائینس و ٹیکنالوجی,مشاہدات — ابو عزام @ 6:31 am

 نظریہ یا تھیوری کا لفظ ان غلط العوام  سائنسی اصطلاحات میں سے ایک ہے جو ہماری روز مرہ کی زبان اور اردو نثر میں خاص طور پر مستعمل ہیں۔ لوگوں کا غالب گمان یہ ہے کہ نظریہ ایک نا پختہ بچہ ہوتا ہےجو بڑا ہو کر قانون بن جاتا ہے۔ لہذا شماریاتی علوم کے لفظ معتبر یا سگنفکنٹ سے لیکرآرگینک،  فطری یا نیچرل، اور نظریے سے لیکر ماڈل یا نمونے تک بے شمار ایسی سائنسی اصطلاحات ہیں جنکی معنویت عوام الناس اور سائنسی حلقہ جات میں بلکل مختلف ہے۔  مثال کے طور پر اگریہ کہا جاۓ کے پاکستان کی آدھی آبادی کا آئی کیو اوسط درجے سے نیچے ہے تو شماریات کے ماہر کے لیے یہ اوسط کی  بنیادی تعریف ہونے کے باعث اظہر من الشمس حقیقت ہے لیکن ایک عام فرد کے لئے یہی حقیقت نہایت حیرت انگیز بات ہوتی ہے ۔ بہرطور، مفروضہ، نظریہ، قانون وغیرہ روز مرّہ استعمال کی وہ اصطلاحات ہیں، جن کو غلط العوام کہنا کچھ بے جا نا ہوگا. اب سائنسدانوں کا تو یہ خیال ہے ان تمام اصطلاحات کے بجاۓ لوگ ماڈل یا نمونے کی اصطلاح استعمال کریں تو شائد افاقہ ہو۔

theory

پہلی اصطلاح،  نظریہ

نظریہ بیک وقت ایک عام استعمال ہونے والا لفظ اور ایک پیچیدہ سائنسی اصطلاح ہے۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے کیمیادان،  مائیکل فیئر نے نظریے یا تھیوری کو ایک سائنسی اور تکنیکی اصطلاح قرار دیتے ہوے کہا کہ صرف اس وجہ سے کہ عام لوگ اس اصطلاح کے بارے میں نہیں جانتے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم سائنسدان اسے استعمال کرنا ترک کردیں.اس غلط فہمی کا تو یہ ہے کہ ہمیں بہتر سائنسی تعلیم کی ضرورت ہے۔

عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں میں انسانی ہاتھ کی موجودگی اور نظریہ ارتقاء کے منکرین ان دونوں چیزوں کی سائنسی توجیہ کو محض ایک نظریہ قرار دے کر رد کر دیتے ہیں.موجودہ سائنسی تحقیق کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں میں انسانی آلودگی کے اثرات اور نظریہ ارتقاء،  دونوں نظریات کے لئے واضح سائنسی شواہد موجود ہیں۔ اس انکار کی ایک وجہ یہ ہے کہ لفظ نظریہ کی سائنسی اصطلاح اور اسکی عام فہم معنویت میں شدید اختلاف ہے. ایک سائنسی نظریہ کسی مشاہدے کی ایک ایسی سائنسی توجیہ ہوتا ہے جس کو بارہا کیے جانے والے تجربات سے جانچا اور پرکھا جا سکتا ہے نیز اس کے درست ہونے کے واضح شواہد موجود ہوتے ہیں مثلا درجہ حرارت کا مستقل بڑھنا یا فاسلز کی موجودگی۔ لیکن اگر کسی عام فرد سے نظریے کی تعریف پوچھی جاۓ تو وہ اسے کسی کی ذاتی راۓ پر محمول کریگا، جسکی اکثر و بیشتر کوئی تجرباتی اور مشاہداتی مثال موجود نہیں ہوتی، اور اسی بنا پر اکثر یہ سوال ہوتا ہے کہ قانون اور نظریہ  میں کیا فرق ہے؟

دوسری اصطلاح، قانون۔ عام طور پر قانون کو نظریے کی انتہائ شکل سمجھا جاتا ہے اور اس سے لوگوں کی اکثر یہ مراد ہوتی ہے کہ قانون کبھی غلط نہیں ہوتا۔ اس سے پس پردہ یہ بھی کہا جارہا ہوتا ہے کہ اگر یہ نظریہ واقعی درست ہوتا تو قانون ہوتا۔

حقیقت یہ ہے کہ سائنسی قوانین ، اشیا کی کی عام حالت میں عمومی طور پرپائ جانے والی روش کی نشاندہی کرتے ہیں ۔یہ جملہ کچھ پیچیدہ سا ہے لہذا ہم مثالوں سے سمجھاتے ہیں۔ قوانین دراصل یہ بتاتے ہیں کہ جب سے کسی خاص مشاہدے کی بنیاد پر ایک ریاضیاتی نمونے کو بنایا گیا ہے، اور جس نظام پر اسے لاگو کیا گیا ہے، دونوں کو بلکل اسی روش پر موافق پایا گیا ہے۔ نیز اس قانون میں کوئ رعائت نہیں ہے۔  اب اس کے لئے کچھ مثالوں کو دیکھتے چلیں۔

نیوٹن کے حرکت کے قوانین نہائت مشہور و معروف ہیں اور ان کا اطلاق طبعیات کے بیشتر شعبوں میں لامحالہ کیا جاتا ہے۔ میکرو یا بڑی اشیا پر عمدہ طریقے سے انکے اطلاق کے باوجود کوانٹم مکینکس اور ذرہ جاتی سطح پر یہ قوانین پورے نہیں اترتے۔  اسکے باوجود بھی ان قوانین کو ثقہ قانون کا درجہ حاصل ہے کیونکہ  یہ ماڈل  بڑی سطح پر اشیا کی صحیح طرح نمائندگی کرتا ہے۔

کشش ثقل اور اضافیت کا نظریہ ایسے نظریات کی عام مثالیں ہیں جنہیں ہم تجربہ گاہ میں ثابت کر سکتے ہیں۔  سمجھنے کی بات یہ ہے کہ لفظ نظریہ کوئ تضیک نہیں اور نا کوئ نظریہ بڑا ہو کر قانون بن جاتا ہے۔ ان دونوں کا محض دائرہ کار تھوڑا مختلف ہے۔

نظریہ کسی طبعی، کیمیائ، حیاتیاتی و دیگر سائنسی امور کی وضاحت کرتا ہے اور ‘کیوں’ کی وضاحت کے لئے ایک ذریعہ فراہم کرتا ہے۔ اس کے برخلاف قانون اس وضاحت سے بحث نہیں کرنا مثلا اشیا کی باہمی کشش کے نیوٹن کے قانون پر غور کریں۔ ایک  طبعی روِیہ کی ماڈل کے زریعے پیشن گوئی کرنے کے لئے نیوٹن کے اس قانون کو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن لیکن کمیت میں یہ کشش کیوں آئی، اس کے بارے میں اس قانون کوئ رہنمائ نہیں کرتا اور ہمیں آج کی تحقیق بتاتی ہے کہ کشش ثقل کے بارے میں ہماری ابتدائ سمجھ بوجھ نہایت ناقص ہے۔

لیکن کیا اس سے نیوٹن کے قوانین تبدیل ہو جائیں گے؟ اگر ہمیں کوئ اور ماڈل نیوٹن کے قوانین سے بہتر نتائج دے تو یقینا اس ماڈل کا استعمال شروع کردیا جاے گا لیکن فی الحال یہ قوانین بیشتر روز مرہ کی تکنیکی و انجینئرنگ کی ضروریات کے لئے کافی ہیں۔

تیسری اصطلاح، مفروضہ

جامعہ ساؤتھہ ویسٹرن لوزیانہ کے طبیعات دان ایٹ ایلن کا خیال ہے کہ چونکہ عوام الناس مفروضہ، قانون اور نظریہ جیسےاصطلاحات کی معنویت کا نہایت بے دردی سے قتل عام کرتے ہیں، لہٰذا ان کا استعمال ختم کردینا چاہیے. ایلن کا کہنا ہے کہ اب ان الفاظ کو بچانے کی کوشش کرنا اب ایک سعی لاحاصل ہی ہے. سائنسی طور پر ایک مفروضے کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ  کسی عمل کی ایسی  توجیح پیش کرتا ہے ہے جس کو سائنسی بنیادوں پر جانچہ یا پرکھا جا سکے ، لیکن اگر کسی عام آدمی سے پوچھا جاۓ تو اس کے خیال میں سائنسی مفروضہ محض ایک علمی قیاس یا اٹکل پچو کا دوسرا نام ہو گا جو کہ درست نہیں۔

کسی طبعی عمل کی پیشن گوئ اور اسکو جانچنے کے لئے سائنسدان مختلف اقسام کے ریاضیاتی  سائینسی ماڈل یا نمونے بناتے ہیں، ان کا عشر عشیر ایک مساوات ہوتی ہے مثلا

اس مساوات کو پھر تجربے کی کسوٹی پر رکھا جاتا ہے اور جو ماڈل بہتر طریقے سے تمام عوامل کی نشاندہی کرتا ہو، اسے نظریے کے طور پر مان لیا جاتا ہے اور باقی تمام نمونہ جات یا مفروضوں کو رد کردیا جاتا ہے۔ آکم ریزر بھی اسی عمل کی ایک مثال ہے۔

چوتھی اصطلاح، ماڈل یا نمونہ۔

اب نظریہ ہی محض ایک ایسی سائنسی اصطلاح نہیں جو کہ وسیع طور پر غلط سمجھی جاتی ہو، لفظ نمونہ یا ماڈل بھی اسی پریشانی کا شکار ہے. موٹر گاڑیوں اور فیشن میں استعمال ہونے والی یہ زود زبان اصطلاح مختلف سائنسی میدانوں میں بھی مختلف معنی  رکھتی ہے. مثلا، ایک موسمیاتی نمونہ، ریاضاتی نمونے سے خاصا مختلف ہوتا ہے۔ جان ہاکس جو کہ جامعہ وسکونسن میڈیسن میں ایک ماہر بشریات ہیں ، کہتے ہیں کہ طبیعات کے اسٹینڈرڈ ماڈل کی بنا پر اس میدان میں خاصا انضباط نظر آتا ہے لیکن علم جینیات اورعلم ارتقاء میں ماڈل کی یہی اصطلاح مختلف معنوں میں مستعمل ہے۔

پانچویں اصطلاح۔ سائینسی شکی یا اسکیپٹک

ماحولیاتی تبدیلیوں کا انکار کرنے والوں کو نشریاتی میڈیا اکثر ماحولیاتی ماہر تشکیک دان قراردیتا ہیں لیکن مائیکل ہانٹ جو کہ پینسلوینیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماحولیاتی سائنسدان ہیں، ان کے مطابق یہ ایسے ہی لا علم لوگوں کو زبردستی  سر چڑھانے کے  مترادف ہے۔ تشکیک عام فہم معبود عام سائنسی اقادات کو بلاوجہ اعتراض سے الجھانا تشکیک نہیں بلکہ میں نا مانوں کا دوسرا نام ہے۔ یہ غیر حقیقی تشکیک کا دعوی کرنے والے درحقیقت سائنسی مشاہدات اور تجربات کو ماننے کی جرّات نہیں رکھتے جبکہ حقیقی تحقیق کرنے والے سائنسی مشاہدات اور تجربات کوحقیقت گردانتے ہیں چاہے وہ انکے نظریات کے خلاف ہی کیوں نا ہو۔ تاہم سائنسدانوں کو ہمیشہ تشکیک کا متقاضی ہونا چاہیے کالس سیگن نے حقیقی تشکیک کو سائنس کی خود درستگی کی بنیادی وجہ بتایا ہے.

چھٹی اصطلاح، فطرت یا تربیت۔

یہ عام طور پر استعمال ہونے والی اصطلاح ، فطرت بھی سائنسدانوں کے لیے دردسر کا باعث ہے، کیونکہ فطرت کا لفظ عام زبان میں استعمال ہو تو ایک نہایت پیچیدہ سائنسی عمل کو آسانی کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش میں اسکی معنویت کو کھو دیتا ہے.ڈین کروور جو کے جامعہ مشیگن میں ارتقائی حیاتیات دان ہیں انکا کہنا ہے یہ ایک ایسی ہی غلط استعمال ہونے والی اصطلاحات میں سے ایک ہے جن  کا سادہ لوح استعمال انکے اصل معنی کھو دیتا ہے۔

موجودہ ارتقائی حیاتیات دانوں کے لیے اس اصطلاح کا غلط استمال باعث تشویش ہے، آباواجداد کے جینز انسانی زندگی  پر واضح طور پر اثر انداز ہوتے ہیں. لیکن اسی طرح ایپی جینیٹک تبدیلیوں کا بھی انسانی زندگی پر بھی خاص اثر ہوتا ہے کیونکہ  یہ جنیاتی تبدیلیاں موروثی ہونے کے ساتھہ ساتھہ ماحولیاتی اثرات کی بناء پر بھی اثر پذیر ہو سکتی ہے۔  انسانی طرز زندگی رویے اور دیگر تبدیلیوں کا انحصار ماحولیات، جینیات، کیمیائی تبدیلیوں اور کئی غیر متوقع عوامل پر ہے جن کا مکمل ادراک  ایک نہایت مشکل کام ہے۔

ساتویں اصطلاح، سگنیفکنٹ یا معتبر۔

اسی طرح کا ایک اور غلط العوام اصطلاح شماریاتی سائنس کا لفظ معتبر ہے، یہ ایک خاصا وسیع الستعمال اور گنجلک لفظ ہے، کسی اعداد و شمار معتبر ہونے سے آپکی کیا مراد ہے، مائکل اوبرائن، جو جامعہ مزیوری کے سائنس اور آرٹس کالج کے سربراہ ہیں،  یہ سوال پوچھتے نظر آتے ہیں۔  کیا آپکی مراد شماریاتی طور پر معتبر ہے یا محض رائے کی اہمیت،  شماریات میں کسی چیز کے معتبر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس واقعے کا اتفاقی طور پر وقوع پذیر ہونے کا احتمال نہایت کم ہو. لیکن ضروری نہیں کہ یہ کسی شہ کی علت کا سبب بھی بنے۔ لیکن عمومی استعمال کے وقت سیمپل اسپیس اور علت کی سمت کا خیال کم ہی رکھا جاتا ہے۔

آٹھویں اصطلاح، قدرتی،

قدرتی یا نباتیاتی کا لفظ اور اسکا غلط استعمال بھی سائنسدانوں کو، بالخصوص حیاتیات کے ماہرین کو بہت پریشان کرتا ہے۔ اسکی وجہ عام ذخیرہ الفاظ میں قدرتی کا خودبخود بننے والا صحت مندانہ رجحان ہے ۔ اس لفظ کے استعمال سے فوری طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ ہر مصنوعی شے صحت کے لیے مضر ہے اور ہر قدرتی شے صحت کے لیے لازمی طور پر اچھی ہوگی جو کہ سائنسی طور پر درست نہیں۔ 

 مثلا یورینیم ایک قدرتی عنصر ہے لیکن اس کے استعمال سے آپ کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے. اسی طرح نباتیاتی یا آرگینک لفظ کا استعمال بھی اسی طرح کی غیر متوقع مشکلات کا باعث ہے. آرگینک سے سائنسدانوں کی مراد کاربن والے مرکبات ہوتے ہیں، لیکن عوام اس اصطلاح کو اب کیڑے مار دواؤں سے پاک آڑو اور کپاس کی اعلیٰ قسم والی چادروں کے لیے بھی استعمال کرنے لگے ہیں، جو کہ اس لفظ کے حقیقی مطلب کے برعکس ہے ۔ سائنسدان اس تمام غلط فہمی کا سبب اسکول اور کالج میں سائنسی تعلیم کی کمی کو ٹھہراتے ہیں اس اشتباہ  اور سو فہمی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمومی طور پر لوگ کم سائنسی تعلیم کی بنا پر اصطلاحات کو درست طور نہیں سمجھتے. اسی طرح سے عام الفاظ کے دوہری معنی ہونے کی وجہ سے بھی سائنسی اصطلاحات کی فراست کا صحیح احاطہ نہیں کر ہو پاتا۔  کروگر لکھتے ہیں کہ سائنس صحیح اور غلط کے ثنائی نظام کے بجاۓ ایک تسلسل یا اسپیکٹرم کی حامی ہے جسکی حدود انسانی معلومات کی حدو کی طرح مستقل بڑھتی جا رہی ہیں۔

112704410

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ سائنس کو درحقیقت اس بات سے قطعی کوئی غرض نہیں کہ کون کیا کہہ رہا ہے مثلا البرٹ آئنسٹائن بے چارہ یہ سمجھتا رہا کہ کوانٹم فزکس اندھیرے کی ایک ڈراؤنی شہ ہے لیکن کوانٹم طبیعات سے اسکے خوف کی وجہ، کوانٹم طبیعات کو صحیح یا غلط علم ثابت کرنے میں کوئی مدد نا کرسکی اور آج یہ طبعیات کی ایک ثقہ شاخ کے طور پر مانی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر عوام الناس نظریے اور مفروضے کو خلط ملط کرتے رہیں تو اس سے بھی سائنس کی صحت پر کوئ فرق نا پڑے گا۔ بقول آنجہانی گلیلیو کے، وہ تو گھوم رہی ہے۔

 امید ہے کہ اب آپ کو ان اصطلاحات سے خاطر خواہ واقفیت ہو گئی ہوگی۔ مزید معلومات کے لئے درج زیل حوالہ جات کا مطالعہ موزوں ہے۔

حوالہ جات و تخلیص 

کیمیا – اباوٹ ڈاٹ کام
        سائنٹفک امریکن

Share

Powered by WordPress