آپ اسے شعراء اور ادباء کی نازک مزاجی کہئیے یا کچھ اور کہ اردو نثر و نظم میں دوڑنے والے کا کچھہ زیادہ تذکرہ نہیں ملتا. مرزا نوشہ تو دھول دھپے کے قطعی قائل نہ تھے اور نہ ہی رگوں میں دوڑنے پھرنے کے، اور یوسفی تو اپنی ناسازی طبع کا رونا کچھ یوں روتے ہیں کہ اچھے اچھوں کی آنکھیں بھر آئیں.اب بلاگ چونکہ اردو ادب کی تیسری صنف ٹھہری تو لہٰذا کچھ غیر ہم آہنگی تو لازم ہے.۔ وہ جو کہتے ہیں کے جب گیڈر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے،راقم کی جو شامت آئی تو ہم نے سانٹا مونیکا کی طرف بھاگنے کا عزم کیا.۔
ٹورینٹینو کی فلموں کی طرح اس بیک اسٹوری کی بھی کچھ بیک اسٹوری ہے، اصل میں قصّہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے عزیز دوست راشد کامران کی میراتھن سے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ کے بعد دیسیوں کے قومی وقار، تناسب اندام اور تندرستی صحت کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری ہمارے نازک کندھوں پر آ پڑی۔لیکن اب اس جثے کے ساتھ بھاگنا ایک امر دشوار ٹھرا، تو باتوں باتوں میں ایک دوست عزیزم اسٹیون سانگ سے یہ شرط لگی کہ ستمبر ۱۲’ تک جو شخص ایک سو پینسٹھ پاؤنڈ تک وزن کم کرلے گا۔ وہ گویا یہ روپے پیسے کے بغیر لگنے والی شرط جیتے گا اور ہارنے والا فیس بک پر اپنے اسٹیٹس میں اپنے آپ کو سخت سست قرار دیتے ہوئے دوسرے فریق کی خوب تعریفیں کریگا. نیزشرط کے مندرجات میں مزید یہ بات بھی شامل تھی کہ ہارنے والا یا والے ایک عدد مراتھن دوڑینگے اور اسکا وقت راقم کے لیے پانچ گھنٹے تیس منٹ اور اسٹیون کے لیے چار گھنٹے تیس منٹ کے برابر یا اس کم ہونا چاہیے ۔ اب اگر یہ وقت بھی نہ ہو پایا تو اس نتیجے میں ہارنے والا یا والے، دوسرے فریق کی مرضی کی تین عدد کتابیں پڑھیںگے اور اس پر تبصرہ کرینگے جو ایمازون پر شائع کرنا لازم ہے. اب اس قدر پیچیدہ شرط کی مندرجات کے بعد ہم نے وزن کم کرنے پر عمل درآمد شروع کیا اور رمضان کی برکت سے ایک سو ستر پاؤنڈ پہ آگۓ، لیکن ستم گر کو ذرا روا نہ ہوا کہ پانچ پاؤنڈ ادھر یا پانچ پاؤنڈ ادھر کو معاف کیا جاۓ اور مجبورا ہم دونوں کو ہی میراتھن کی رجسٹریشن کرانی پڑی،، ہمیں ملی بب نمبر ۱۷۰۵۰، اور اسطرح دفتری کاروائ مکمل ہوئ۔
میراتھن کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ فاصلہ دوڑنے والا پہلا شخص ایتھنز کی طرف بھاگا اور منزل مقصود پہنچنے پر پٹ سے گر کر مر گیا۔ لیکن چونکہ ہم نے من الحیث القوم تاریخ سے کچھ نا سیکھا تو یہ تو خیر یونانی کہاوتیں ہیں۔
اب باری آئی تیاری کی،یہ تھا ہمارا میراتھن کی تیاری کا جدول۔
Week | Mon | Tue | Wed | Thu | Fri | Sat | Sun | Total |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|
1 | 3 | Rest | 4 | 3 | Rest | 5 | Rest | 15 |
2 | 3 | Rest | 4 | 3 | Rest | 6 | Rest | 16 |
3 | 3 | Rest | 4 | 3 | Rest | 7 | Rest | 17 |
4 | 3 | Rest | 5 | 3 | Rest | 8 | Rest | 19 |
5 | 3 | Rest | 5 | 3 | Rest | 10 | Rest | 21 |
6 | 4 | Rest | 5 | 4 | Rest | 11 | Rest | 24 |
7 | 4 | Rest | 6 | 4 | Rest | 12 | Rest | 26 |
8 | 4 | Rest | 6 | 4 | Rest | 14 | Rest | 28 |
9 | 4 | Rest | 7 | 4 | Rest | 16 | Rest | 31 |
10 | 5 | Rest | 8 | 5 | Rest | 16 | Rest | 34 |
11 | 5 | Rest | 8 | 5 | Rest | 17 | Rest | 35 |
12 | 5 | Rest | 8 | 5 | Rest | 18 | Rest | 36 |
13 | 5 | Rest | 8 | 5 | Rest | 20 | Rest | 38 |
14 | 5 | Rest | 8 | 5 | Rest | 9 | Rest | 27 |
15 | 3 | Rest | 5 | 3 | Rest | 8 | Rest | 19 |
16 | 3 | Rest | 3 | Walk 2 | Rest | 26.2 | Rest | 34.2 |
لیکن، درحقیقت ہوا یوں کہ پطرس بخاری کے بقول، پہلا اٹھنا چار بجے، دوسرا اٹھنا چھ بجے اور بیچ میں لالا جی آواز دیں تو نماز، سیانے کہتے ہیں کل وہ جادوئی وقت ہے جب سارے کام بخیرو خودہی ہو جایا کرتے ہیں، ہم بھی اسی کل کا انتظار کرتے رہے،. بہانے بنانے میں ملکہ حاصل ۔ ہر روز، بعد از فجر کچھ ایسا ہوتا
آج کچھ سردی و تیز ہوا کا گذر لگتا ہے،
آج بارش جیسا موسم لگتا ہے،
آج موسم کافی سرد معلوم ہوتا ہے،
جوتے تو گاڑی میں رکھے ہیں،
میاں سورج سوا نیزے پر ہے،
وغیرہ وغیرہ۔۔
یہی کرتے کرتے میراتھن کی صبح آ پہنچی، ویسے تو یہ ہماری تیسری میراتھن تھی لیکن بغیر کسی قسم کی تیاری کے پہلی۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق، ڈاجر اسٹیڈیم پہنچے۔ صبح کا سہانا وقت اور چالیس ہزار لوگوں کا مجمع دیکھا تو کچھ ہمت بندھی کہ ، ہو رہے گا کچھ نا کچھ ، گھبرائیں کیا۔
سوا سات بجےکے لگ بھگ سب نے بھاگنا شروع کیا، اب یہ مرد تائوانی تو پچاس پچاس میل یونہی ویک اینڈ پر تفریحا بھاگتا پھرتا ہے، اور ہمارا تو میٹنگ روم سے میٹنگ روم جاتے سانس پھول جاتا ہے، لہذا ہمارا اسکا کیا مقابلہ،
تو جناب ہم نے جب آہستہ آہستہ بھاگنا شروع کیا یا یہ کہیں کہ بھاگنے کی اداکاری شروع کی تو لوگوں کے دھکوں سے خراماں خراماں یہ کہتے ہوے آگے بڑھتے چلے کہ
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں
میل اول – لوگوں کا سیلاب ہمیں آہستہ آہستہ اپنے ساتھ چلاتا رہا اور ہم چلتے گئے
میل دوئم – رفتار میں کچھ تیری آنے لگی اور ہم گنگنانے لگے کہ – مجھے سہل ہو گئیں منزلیں وہ ہوا کے رُخ بھی بدل گئے
میل سوئم – بلا تبصرہ مندرجہ زیل پوسٹرز۔
میل چہارم، توانائی کی بشاشت کے ساتھ دوڑنا جاری رہا، جگہ جگہ پری وش رضاکار پانی پلانے، اور ہم کہتے ساقیا اور پلا اور پلا.
– میل پنجم – قدم بڑھاۓ چلو جوانوں کہ منزلیں راہ تک رہی ہیں.مزید پانی کچھہ الیکٹرولائٹ اور کچھہ اہتمام اخراج کا،
میل ششم- اب ہم کچھ ایلیٹ رنرز کی طرف سے تنہائی محسوس کرنے لگے ، اپنے گرد و پیش افراد کی کمیت ہماری کمیت کے قریب تک آ چکی تھی
میل ہفتم – اب دوڑنے کی رفتار آہستہ ہوتے ہوتے محض تیز چلنے پر منتج ہو گئی
میل ہشتم – پانی اور الیکٹرولائٹ کا انتظام ۔ ان دوڑوں کے دوران رضاکاروں کے جھنڈ کے جھنڈ دکھائ دیتے ہیں جن میں اقلیتوں کا بڑا کردار ہوتا ہے۔
پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خُدا کے تئیں
معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا
میل نہم – یہ نواں میل ہے کے دسواں؟ سراب کی کی کیفیت کی ابتدا اور بھوک لگنا شروع.
میری زندگی میری منزلیں، مجھے قرب میں نہیں دور دے
مجھے تُو دِکھا وہی راستہ، جو سفر کے بعد غرور دے
میل دہم – اب پٹھوں کا کچھ خاموش اور کچھ زور سے احتجاج، یعنی جتنا ابھی بھاگ کر آئے ہیں اتنا مزید؟ یہ کیا چکر ہے بھائی..
گیارہواں میل، ہالی وڈ کے گرد و نواح کے علاقے سے دل بہلانے کا شغل کیا
منزلیں دور پُر خطر رستے
مجھ کو لے آئے یہ کدھر رستے
گھر سے نکلا ہوں جستجو میں تری
مجھ کو لے جا ئیں اب جدھر رستے
بارہواں میل – یہاں رکشے کا شعر یاد آنے لگا کہ
تھک کر مجھ سے پوچھا پاؤں کے چھالوں نے،
کتنی دور بنائی ہے بستی دل میں بسنے والوں نے
تیرھواں میل – خیال آیا کہ آدھی میراتھن ہوتی تو ابھی تک ختم ہو جاتی اور ہم گھر جاتے، وہ کیا کہتا ہے شاعر کہ گر اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے
چودھواں میل۔ شرطوں کی تحریم پر اپنے آپ کو کوستے، نیز اب ہم پیدل چلنے والوں سے آملے تھے
پندرھواں میل – مہ وشوں کی کمی پر زیر لب احتجاج، اب تھکن سے ہر پٹھے نے احتجاج شروع کر دیا تھا۔
سولہواں میل – الٹے پاؤں میں پڑ جانے والے چھالوں کی کی وجہ سے سیدھے پاؤں پر زور دینے سے ایک لنگڑی سی رفتار کی کوشش جاری رہی..
سترھواں میل – ارے دس میل مزید؟ بھائی واپسی کی بس کہاں ملے گی
اٹھارواں میل – اب جہاز اور طوطے کا ڈی جے کالج کے زمانے میں سنا لطیفہ یاد آنے لگا، پھر ہم سوچتے کہ آباء و اجداد بھی تو انڈیا سے آئے تھے اور انھیں کون پانی اور الیکٹرولائٹ پلایا کرتا تھا تو چلو شاید ہو جاۓ یہ سفر کسی نا کسی طرح
انیسواں میل – اب ہمارے جی پی ایس اور بلو ٹوتھ کی بیٹری ختم ہو چکی تھی اور خان صاحب کے راگ تھم گئے تھے
بیسواں میل۔ اب رضاکاروں نے کرسیاں سمیٹنا شروع کردی تھیں اور پولیس نے سڑکوں کو کھلوانا شروع کر دیا ہے
اکیسواں میل – ہم جو بھی ہماری ہمّت بڑھاتا ہوا نظر آتا ہم اسی گاڑی سے فنش لائین تک لفٹ لینے کی التماس کرتے
بائیسواں میل – اب حالت یہ تھی کہ کئی بار سوچا کہ پولیس والوں کی سائیکل لے بھاگیں پر ہمّت نہ پڑی
تئیسواں میل – ہر اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے، اب تک ہمیں یقین واثق ہو چلا تھا کہ اگر مردوں کو درد زہ ہوتا تو وہ میراتھن جیسا ہی ہوتا۔
چوبیسواں میل – سراب کی کیفیت اب تقریبا مستقل ہو چکی تھی
اللہ کیا ہی منزل مقصود دور ہے
تھم ہوگئے ہیں سوجھ کے مج خستہ تن کے پاؤ
پچیسواں میل – من من بھر کے پاؤں…..جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا، ایسے جوڑ بھی جن کی موجودگی کا کبھی علم نا تھا۔ اسٹیون کا خیال ذہن سے نکالتے رہے کہ کہیں ہمیں بھی پطرس کی طرح ایف اے کی وہ کتاب دوبارہ نا پڑھنی پڑے۔
منزلیں دور بھی ہیں منزلیں نزدیک بھی ہیں
اپنے ہی پاؤں میں زنجیر پڑی ہو جیسے
چھبیسواں میل – یہ طوالت میں سب سے لمبا میل ہوتا ہیں، اگر آپ اسے ناپنے نکلیں تو یہ باقی تمام میلوں سے کم سے کم دگنا تو نکلےگا ہی،
جب ہم اختتامی لکیر یا فنش لائن پر پہنچے تو منتظمین نے ہماری حالت اور وقت دیکھ کر پوچھا
کیا آپ دوڑ کر آرہے ہیں؟
تو ہم نے جل کر کہا نہیں یونہی سیر کرنے نکلے تھے ڈاجر اسٹیڈیم سے سینٹا مونیکا تک، بس سوچا کہ آپ سے ملاقات کر لیں، بڑا اشتیاق تھا
یوں قتل سے لوگوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کے فرعون کو مراتھن کی نہ سوجی
اب میڈل لینے کے بعد، فنش لائن سے گھر تک کا فاصلہ کس طرح طے ہوا، یہ کبھی بعد میں بتائینگے، ابھی تو اتنا ہی کافی ہے کہ اگر آپ کبھی مراتھن دوڑیں تو دو تین ماہ قبل سے پریکٹس ضرور کر لیجیئے ۔ شکریہ،