فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

April 6, 2013

میراتھن دوڑنے کا غلط طریقہ – لاس اینجلس میراتھن کی تصویری روداد

Filed under: سفر وسیلہ ظفر,طنزومزاح,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 8:58 am


LA-Marathon-FEATURE

آپ اسے شعراء اور ادباء کی نازک مزاجی کہئیے یا کچھ اور کہ اردو نثر و نظم میں دوڑنے والے کا کچھہ زیادہ تذکرہ نہیں ملتا. مرزا نوشہ تو دھول دھپے کے قطعی قائل نہ تھے اور نہ ہی رگوں میں دوڑنے پھرنے کے، اور یوسفی تو اپنی ناسازی طبع کا رونا کچھ یوں روتے ہیں کہ اچھے اچھوں کی آنکھیں بھر آئیں.اب بلاگ چونکہ اردو ادب کی تیسری صنف ٹھہری تو لہٰذا کچھ غیر ہم آہنگی تو لازم ہے.۔ وہ جو کہتے ہیں کے جب گیڈر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے،راقم کی جو شامت آئی تو ہم نے سانٹا مونیکا کی طرف بھاگنے کا عزم کیا.۔ 

2013_LAM_8.5X11_Coursemap_final_outlined

ٹورینٹینو کی فلموں کی طرح اس بیک اسٹوری کی بھی کچھ بیک اسٹوری ہے، اصل میں قصّہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے عزیز دوست راشد کامران کی میراتھن سے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ کے بعد دیسیوں کے قومی وقار، تناسب اندام اور تندرستی صحت کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری ہمارے نازک کندھوں پر آ پڑی۔لیکن اب اس جثے کے ساتھ بھاگنا ایک امر دشوار ٹھرا، تو باتوں باتوں میں ایک دوست عزیزم اسٹیون سانگ سے یہ شرط لگی کہ ستمبر ۱۲’  تک جو شخص ایک سو پینسٹھ پاؤنڈ تک وزن کم کرلے گا۔ وہ گویا یہ روپے پیسے کے بغیر لگنے والی شرط جیتے گا اور ہارنے والا فیس بک پر اپنے اسٹیٹس میں اپنے آپ کو سخت سست قرار دیتے ہوئے دوسرے فریق کی خوب تعریفیں کریگا. نیزشرط کے مندرجات میں مزید یہ بات بھی شامل تھی کہ ہارنے والا یا والے ایک عدد مراتھن دوڑینگے اور اسکا وقت راقم کے لیے پانچ گھنٹے تیس منٹ اور اسٹیون کے لیے چار گھنٹے تیس منٹ کے برابر یا اس کم ہونا چاہیے ۔ اب اگر یہ وقت بھی نہ ہو پایا تو اس نتیجے میں ہارنے والا یا والے، دوسرے فریق کی مرضی کی تین عدد کتابیں پڑھیںگے اور اس پر  تبصرہ کرینگے جو ایمازون پر شائع کرنا لازم ہے. اب اس قدر پیچیدہ شرط کی مندرجات کے بعد ہم نے وزن کم کرنے پر عمل درآمد شروع کیا اور رمضان کی برکت سے ایک سو ستر پاؤنڈ پہ آگۓ، لیکن  ستم گر کو ذرا روا نہ ہوا کہ پانچ پاؤنڈ ادھر یا پانچ پاؤنڈ ادھر کو معاف کیا جاۓ اور مجبورا ہم دونوں کو ہی میراتھن کی رجسٹریشن کرانی پڑی،،  ہمیں ملی بب نمبر ۱۷۰۵۰، اور اسطرح دفتری کاروائ مکمل ہوئ۔

میراتھن کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ فاصلہ دوڑنے والا پہلا شخص ایتھنز کی طرف بھاگا اور منزل مقصود پہنچنے پر پٹ سے گر کر مر گیا۔ لیکن چونکہ ہم نے من الحیث القوم تاریخ سے کچھ نا سیکھا تو یہ تو خیر یونانی کہاوتیں ہیں۔ 

اب باری آئی تیاری کی،یہ تھا ہمارا میراتھن کی تیاری کا جدول۔

 

16-Week Marathon Training Schedule
Week Mon Tue Wed Thu Fri Sat Sun Total
1 3 Rest 4 3 Rest 5 Rest 15
2 3 Rest 4 3 Rest 6 Rest 16
3 3 Rest 4 3 Rest 7 Rest 17
4 3 Rest 5 3 Rest 8 Rest 19
5 3 Rest 5 3 Rest 10 Rest 21
6 4 Rest 5 4 Rest 11 Rest 24
7 4 Rest 6 4 Rest 12 Rest 26
8 4 Rest 6 4 Rest 14 Rest 28
9 4 Rest 7 4 Rest 16 Rest 31
10 5 Rest 8 5 Rest 16 Rest 34
11 5 Rest 8 5 Rest 17 Rest 35
12 5 Rest 8 5 Rest 18 Rest 36
13 5 Rest 8 5 Rest 20 Rest 38
14 5 Rest 8 5 Rest 9 Rest 27
15 3 Rest 5 3 Rest 8 Rest 19
16 3 Rest 3 Walk 2 Rest 26.2 Rest 34.2


لیکن، درحقیقت ہوا یوں کہ  پطرس بخاری کے بقول، پہلا اٹھنا چار بجے، دوسرا اٹھنا چھ بجے اور بیچ میں لالا جی آواز دیں تو نماز، سیانے کہتے ہیں کل وہ جادوئی وقت ہے جب سارے کام بخیرو خودہی ہو جایا کرتے ہیں، ہم بھی اسی کل کا انتظار کرتے رہے،. بہانے بنانے میں ملکہ حاصل ۔ ہر روز، 
بعد از فجر کچھ ایسا ہوتا

آج کچھ سردی و تیز ہوا کا گذر لگتا ہے،

آج بارش جیسا موسم لگتا ہے،

آج موسم کافی سرد معلوم ہوتا ہے،

جوتے تو گاڑی میں رکھے ہیں،

میاں سورج سوا نیزے پر ہے، 

وغیرہ وغیرہ۔۔

یہی کرتے کرتے میراتھن کی صبح آ پہنچی، ویسے تو یہ ہماری تیسری میراتھن تھی لیکن بغیر کسی قسم کی تیاری کے پہلی۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق، ڈاجر اسٹیڈیم پہنچے۔ صبح کا سہانا وقت اور چالیس ہزار لوگوں کا مجمع دیکھا تو کچھ ہمت بندھی کہ ، ہو رہے گا کچھ نا کچھ ، گھبرائیں کیا۔

 

392876_547465325297498_1971927162_n

LA-Marathon

سوا سات بجےکے لگ بھگ سب نے بھاگنا شروع کیا، اب یہ مرد تائوانی تو پچاس پچاس میل یونہی ویک اینڈ پر تفریحا بھاگتا پھرتا ہے، اور ہمارا تو میٹنگ روم سے میٹنگ روم جاتے سانس پھول جاتا ہے، لہذا ہمارا اسکا کیا مقابلہ،

862771_10151349615249212_1526966936_n

تو جناب ہم نے جب آہستہ آہستہ بھاگنا شروع کیا یا یہ کہیں کہ بھاگنے کی اداکاری شروع کی تو  لوگوں کے دھکوں سے خراماں خراماں یہ کہتے ہوے آگے بڑھتے چلے کہ

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں

میل اول –  لوگوں کا سیلاب ہمیں آہستہ آہستہ اپنے ساتھ چلاتا رہا اور ہم چلتے گئے

میل دوئم – رفتار میں کچھ تیری آنے لگی اور ہم گنگنانے لگے کہ – مجھے سہل ہو گئیں منزلیں وہ ہوا کے رُخ بھی بدل گئے

لاس اینجلس میراتھن

 

میل سوئم – بلا تبصرہ مندرجہ زیل پوسٹرز۔

funny-marathon-ten

میل چہارم،  توانائی کی بشاشت کے ساتھ دوڑنا جاری رہا، جگہ جگہ پری وش رضاکار پانی پلانے، اور ہم کہتے ساقیا اور پلا اور پلا.

205386072-M-1

 – میل پنجم –  قدم بڑھاۓ چلو جوانوں کہ منزلیں راہ تک رہی ہیں.مزید پانی کچھہ الیکٹرولائٹ اور کچھہ اہتمام اخراج کا،

لاس اینجلس میراتھن

میل ششم-  اب ہم کچھ ایلیٹ رنرز کی طرف سے تنہائی محسوس کرنے لگے ، اپنے گرد و پیش افراد کی کمیت ہماری کمیت کے قریب تک آ چکی تھی

میل ہفتم – اب دوڑنے کی رفتار آہستہ ہوتے ہوتے محض تیز چلنے پر منتج ہو گئی

sign-5

میل ہشتم –  پانی اور الیکٹرولائٹ کا انتظام ۔ ان دوڑوں کے دوران رضاکاروں کے جھنڈ کے جھنڈ دکھائ دیتے ہیں جن میں اقلیتوں کا بڑا کردار ہوتا ہے۔

پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خُدا کے تئیں

معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا

6857528326_452584af57_z
میل نہم –  یہ نواں میل ہے کے دسواں؟ سراب کی کی کیفیت کی ابتدا اور بھوک لگنا شروع.

میری زندگی میری منزلیں، مجھے قرب میں نہیں دور دے

مجھے تُو دِکھا وہی راستہ، جو سفر کے بعد غرور دے

میل دہم –  اب پٹھوں کا کچھ خاموش اور کچھ زور سے احتجاج،  یعنی جتنا ابھی بھاگ کر آئے ہیں اتنا مزید؟ یہ کیا چکر ہے بھائی..

 

Asics 26miles no gridlock billboard

گیارہواں میل، ہالی وڈ کے گرد و نواح کے علاقے سے دل بہلانے کا شغل کیا

منزلیں دور پُر خطر رستے

مجھ کو لے آئے یہ کدھر رستے

گھر سے نکلا ہوں جستجو میں تری

مجھ کو لے جا ئیں اب جدھر رستے

la-marathon

بارہواں میل – یہاں رکشے کا شعر یاد آنے لگا کہ

 تھک کر مجھ سے پوچھا پاؤں کے چھالوں نے،

کتنی دور بنائی ہے بستی دل میں بسنے والوں نے

تیرھواں میل – خیال آیا کہ آدھی میراتھن ہوتی تو ابھی تک ختم ہو جاتی اور ہم گھر جاتے، وہ کیا کہتا ہے شاعر کہ گر اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے

Asics made of 26 miles billboard



چودھواں میل۔  شرطوں کی تحریم پر اپنے آپ کو کوستے، نیز اب ہم پیدل چلنے والوں سے آملے تھے

پندرھواں میل –  مہ وشوں کی کمی پر زیر لب احتجاج، اب  تھکن سے ہر پٹھے نے احتجاج شروع کر دیا تھا۔

6857528284_1eeb62b5c5_z

سولہواں میل – الٹے  پاؤں میں پڑ جانے والے چھالوں کی کی وجہ سے سیدھے پاؤں پر زور دینے سے ایک لنگڑی سی رفتار کی کوشش جاری رہی..

 سترھواں میل – ارے دس میل مزید؟  بھائی واپسی کی بس کہاں ملے گی

Asics LA Marathon 2013 billboard

اٹھارواں میل –  اب جہاز اور طوطے کا ڈی جے کالج کے زمانے میں سنا لطیفہ یاد آنے لگا،  پھر ہم سوچتے کہ آباء و اجداد بھی تو انڈیا سے آئے تھے اور انھیں کون پانی اور الیکٹرولائٹ پلایا کرتا تھا تو چلو شاید ہو جاۓ یہ سفر کسی نا کسی طرح

انیسواں میل – اب ہمارے جی پی ایس اور بلو ٹوتھ کی بیٹری ختم ہو چکی تھی اور خان صاحب کے راگ تھم گئے تھے

لاس اینجلس میراتھن
بیسواں میل۔ اب رضاکاروں نے کرسیاں سمیٹنا شروع کردی تھیں اور پولیس نے سڑکوں کو کھلوانا شروع کر دیا ہے

marathon-water

اکیسواں میل – ہم جو بھی ہماری ہمّت بڑھاتا ہوا نظر آتا ہم اسی گاڑی سے فنش لائین تک لفٹ لینے کی التماس کرتے

بائیسواں میل – اب حالت یہ تھی کہ کئی بار سوچا کہ پولیس والوں کی سائیکل لے بھاگیں پر ہمّت نہ پڑی

254453447667548365_QP7iFcfP_c

تئیسواں میل –  ہر اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے،  اب تک ہمیں یقین واثق ہو چلا تھا کہ  اگر مردوں کو درد زہ ہوتا تو وہ میراتھن جیسا ہی ہوتا۔

چوبیسواں میل – سراب  کی کیفیت اب تقریبا مستقل ہو چکی تھی

اللہ کیا ہی منزل مقصود دور ہے

تھم ہوگئے ہیں سوجھ کے مج خستہ تن کے پاؤ

 

پچیسواں میل –  من من بھر کے پاؤں…..جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا، ایسے جوڑ بھی جن کی موجودگی کا کبھی علم نا تھا۔  اسٹیون کا خیال ذہن سے نکالتے رہے کہ کہیں ہمیں بھی پطرس کی طرح ایف اے کی وہ کتاب دوبارہ نا پڑھنی پڑے۔

منزلیں دور بھی ہیں منزلیں نزدیک بھی ہیں

اپنے ہی پاؤں میں زنجیر پڑی ہو جیسے

لاس اینجلس میراتھن
چھبیسواں میل –  یہ طوالت میں  سب سے لمبا میل ہوتا ہیں، اگر آپ اسے ناپنے نکلیں تو یہ باقی تمام میلوں سے کم سے کم دگنا تو نکلےگا ہی،

جب ہم اختتامی لکیر یا فنش لائن پر پہنچے تو منتظمین نے ہماری حالت اور وقت دیکھ کر پوچھا

کیا آپ دوڑ کر آرہے ہیں؟

تو ہم نے جل کر کہا نہیں یونہی سیر کرنے نکلے تھے ڈاجر اسٹیڈیم سے سینٹا مونیکا تک،  بس سوچا کہ آپ سے ملاقات کر لیں،  بڑا اشتیاق تھا

یوں قتل سے لوگوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کے فرعون کو مراتھن کی نہ سوجی

اب میڈل لینے کے بعد، فنش لائن سے گھر تک کا فاصلہ کس طرح طے ہوا، یہ کبھی بعد میں بتائینگے،  ابھی تو اتنا ہی کافی ہے کہ اگر آپ کبھی مراتھن دوڑیں تو دو تین  ماہ قبل سے پریکٹس ضرور کر لیجیئے ۔ شکریہ،

861882_10151350628074212_1458462759_n

lam_logo2013_asics 

Share

July 9, 2012

قصہ اردو بلاگران کے ساتھ ایک شام کا

Filed under: پاکستان,سفر وسیلہ ظفر,طنزومزاح — ابو عزام @ 12:20 am

ایک عرصہ دراز سے یہ تحریر ڈرافٹ کے خانے میں پڑی تھی تو سوچا اس کو  ملاقات کی سالگرہ سے قبل شائع کردیا جاے۔  تاخیر کی معذرت۔

میر امن نے کیا خوب کہا کہ سچ ہے جب کچھ بن نہیں آتا۔ تب خدا ہی یاد آتا ہے نہیں تو اپنی اپنی تدبیر میں ہر ایک لقمان اور بو علی سینا ہے۔۔ خصوصا ۲۲ نومبر کی شب ایک بجے ناگن چورنگی کے پچھواڑے ایک دیوان عروسی میں جہاں پیر مرد راشد کامران نے یہ مقرّر کیا کہ تبدیلی اوقات کے ساتھ وہ پرسوں سات سمندر کے سفر پر روانہ ہو جاویں گے۔ فقیر بولا قبلہ حاجی صاحب، ایسی بھی کاہے کی جلدی، ٹک دم تو لو، ابھی مکے مدینے اور ابھی شہر فرشتگاں،  تو یکدم بولے کہ جی تو  بہت چاہتا ہے کہ روشنیوں کے شہر میں کچھ وقت اور بتاوں پر ظالم پیٹ ہر ایک کے ساتھ لگا ہے۔ فقیر بولا یہاں مملکت  بلاگستان کے ساتھی تیری جھلک دیکھنے کو ترستے ہیں اور تو بنا درشن کوچ کا قصد کرتا ہے۔ اس دہائ پر یوں گویا ہوے کہا کہ اگر قصد ملاقات احباب ریختہ  کا دل میں مقرر رکھتے ہو تو جلد کچھ ترکیب کرو۔ میں نے کہا اسی وقت میں درویش ابو شامل کے پاس برقی خط بذریعہ چہرہ کتاب لے جاتا ہوں اور خدا چاہے تو پھر جواب لاتا ہوں۔ آخر رخصت ہو کر اور فضل الٰہی پر  نظر رکھ اس سمت کو چلا۔

 اب خدا کے کارخانے کا تماشا سنو۔ ہماری قسمت نے یاوری کی اور درویش ابوشامل نے سبک دستی سے سب انتظام کیا، اوراگلی شام مطعم کراچی فوڈز میں خاطر احباب کا التزام رکھا۔اس درویش مرد کے  سب سے روابط اور یاداللہ کے سبب افکار میں قطبین کے فاصلے کے لوگ حب اردو و تبادلہ خیال کو ایک میز پر جمع ہوے  اور سب ہی مدعی تھے کہ

 گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر
یہ ہماری زبان ہے پیارے

اب اس محفل کا حال نا پوچھو۔ کیا اہل علم جمع تھے۔ ماجرا میں نے بہ چشمِ خود دیکھا اور خدا کی قدرت کو یاد کیا کہ ایسے ایسے بندے پیدا کیئے ہیں۔ کیا ہوا جو سماجی مہارتوں میں ید طولی نہیں رکھتے، پلاو و زردہ و بریانی سے انصاف مگر برابر کا روا رکھتے ہیں۔

برادرم شعیب صفدر اور فہیم اسلم نے نہایت انہماک سے عمار ابن ضیا کی تقریر سنی جس میں انہوں نے جامعہ میں سی آر بننے کے فوائد پر روشنی ڈالی ۔

اسی دوران محمد اسد نیپکن سے طیارہ بنانے کی مشق کرتے رہے۔

درویش نے پیر مرد راشد کامران کاشعیب صفدر سے تعارف کروایا جس میں شعیب صاحب کی روایتی گرمجوشی، برادر فہد کا استفہامیہ اور ہمارا خالی پلیٹ ہونا قابل ذکر ہے

کھانے کے آمد ہوئی تو کچھ دل کو تسلی ہوئی، ابوشامل درویش کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ اسی دوران ہم لوگ اس بات پر گفتگو کر رہے تھے کہ روزا پارکس کے سیٹ نا چھوڑنے کے فیصلے سے محترمہ عنیقہ ناز کے بلاگ پر بلاواسطہ کیا اثرات مرتب ہوے نیز کیا اس زمانے میں شعیب صفدر سول رائٹس کا کیس بلا معاوضہ لڑنے میں دلچسپی رکھتے۔

کھانے کے انتظار کے باعث غیر حالت ہونے پر یہاں یہ ذکر تھا کہ اگر حکم ہو تو شہزادہ عالمیان،  برادرم فہیم اسلم کو باورچی کے پاس لے جاویں، اس کو ایک نظر دکھاویں، امید قوی ہے کہ جلد شفائے کامل ہو۔ اور ظاہر میں بھی یہ تدبیر اچھی ہے کہ ہر ایک مطبخ کی ہوا کھانے سے اور جا بجا کے آب و دانے سے مزاج میں فرحت آتی ہے۔

اور یہ رہی جناب اجتماعی تصویر، جہاں مشرق و مغرب کے اردو سے محبت کرنے والے جمع ہیں

دائیں سے بائیں: راقم ، ابوشامل ، راشد کامران ، عنیقہ ناز ، شعیب صفدر ، فہیم اسلم ، محمد اسد اور عمار ابن ضیا

 نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

Share

April 23, 2012

لاس اینجلس کتب میلے کی ایک تصویری روداد

Filed under: ادبیات,سفر وسیلہ ظفر,کتابیات — ابو عزام @ 10:52 pm

 ہر سال کی طرح اس سال بھی لاس اینجلس ٹایمز اخبار کی طرف سے دو روزہ کتب میلے کا انعقاد کیا گیا۔ اس سال یہ کتب میلہ یو سی ایل اے کے بجاے یو ایس سی یعنی یونیورسٹی آف سا تھرن  کیلیفورنیا میں منعقد ہوا جہاں  اس میں ہزاروں افراد اور کتب فروشوں نے شرکت کی۔ اس اینجلس ٹائمز فیسٹیول 1996 ء میں شروع ہوا اور امریکہ میں ہونے والا سب سے بڑا کتب میلا  بن گیا جہاں یہ تہوار  ہر سال 140،000سے زیادہ کتابوں سے محبت کرنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔

 ہر سال کی طرح اس دفعہ بھی کتابوں کی محبت ہمیں بھی کشاں کشاں کھینچ لے گئی۔ یہاں تکنیکی کتب تو خیر کم ہی تھیں لیکن دیگر موضوعات پر ہزاروں کتب اور کتب فروشگاں  موجود تھے۔اسکے علاوہ بہت سے مشہور مصنفین بھی اس تہوار میں موجود تھے،

بچوں کے لئے خوب انتظام تھا اور  بچوں کے لئے کتابیں لکھنے والے بھی بہت موجود تھے جو بچوں کو کہانیاں سنا رہے تھے اور داد وصول کر رہے تھے۔انہی کہانیاں سنانے والوں اور کتابوں پر دستخط کرنے والوں میں کریم عبدالجبار بھی شامل تھے۔

اتنا بڑا میلا ہو اور آئ فون کی ایپ نا ہو، یہ کیسے ہو سکتا ہے!

ایپ کے علاوہ بھی جگہ جگہ جدول اور مصنفین کی آمد و کتابوں کی دستخط کا نظام الوقات ٓآویزاں تھا۔

نیے مصنفین نے لیئے سیکھنے کی ورکشاپ کا بھی انتظام کیا گیا تھا

 

 ایک  جانب مشاعرہ بھی گرم تھا اور ایک شاعر صاحب اپنے شعروں پر دادوں کے ڈونگرے وصول کر رہے تھے!

ایک جانب یو ایس سی کے طلبہ اپنے اساتذہ کی کتابیں اس دعوے کے ساتھ بیچ رہے تھے کہ ان کو پڑھ کر آپ بھی ایسے جہاز بنانے شروع کردیں گے!

گروچو کا یہ قول سچ بات ہے ہمیں تو بہت پسند آیا!

پیسیفیکا ریڈیو جس کا قبلہ بائیں بازو کے بھی بائیں جانب ہوتا ہے  وہاں سے براہ راست نشریات کر رہا تھا۔

۔ہر سال کی طرح اس سال بھی دعوت کی تنظیم  واے اسلام کی جانب سے اسٹال لگاے گے تھے ، ان میں ہر سال چار سے پانچ ہزار قران کی کاپیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ اس سال کی خاص بات یہاں موقع پر ایک فرد کا قبول اسلام ہے ۔۔

 کتابوں کے جھرمٹ میں ایک یادگار دن

Share

December 16, 2011

!دوروست ترک

Filed under: سفر وسیلہ ظفر,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 9:41 pm

یہ واقعہ ہمارے ساتھ تقریبا ایک ماہ پہلے استنبول میں پیش آیا، جب سے ہم دوستوں کو سنا کر انہیں‌ بور کر رہے ہیں، اب آپ قارئین کی دلچسپی کے لئے بلاگ کی نظر کرتے ہیں۔

سلطان احمد کا‌ ضلع استنبول کے انتالیس اضلاع میں سے ایک ہے۔ مشہور زمانہ نیلی مسجد جامع سلطان احمد، کلیسہ آیاصوفیہ اور توپ کاپی کا عجائب گھراسی ضلع کا حصہ ہیں۔ ہمارے ترک دوستوں نے مشورہ دیا تھا کہ اپنے قیام کے دوران رہائش سلطان احمد میں رکھنا تاکہ سفر میں‌وقت ضائع نا ہو، یہ مشورہ بڑا کارآمد ثابت ہوا اور ہم نے چار روز میں سلطان احمد کی بڑی خاک چھانی۔

اس سفر کا تذکرہ تو کبھی اور سہی، اہم بات یہاں یہ تھی کہ ہم جس اپارٹمنٹ میں بمعہ اہل و عیال ٹھرے، وہ کوچک یعنی چھوٹی آیاصوفیہ نامی مسجد کے بلکل برابر میں‌ تھا۔ ایرولواپارٹمنٹ کمپلکس کے نگہبان روحان اور اس کے ایک ساتھی نے بڑی گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا اور ہمیں ہمارے اپارٹمنٹ کی چابی تھما دی اور ہمارے اصرار کے باوجود سامان گاڑی سے اتار کر اندر پہنچایا۔ روایتی ترکی گرمجوشی، مہمان نوازی اور بچوں سے ترکوں کے خصوصی لگاو کا مشاہدہ ہم نے پورے سفر کے دوران کیا۔ اس حسن سلوک سے ہم سب خاصے متاثر ہوئے۔

 

خیر، جب جانے کا وقت قریب آیا اور ہم نے اپنے الیکٹرانک گیجٹ سمیٹنا شروع کئے تواہلیہ کو تحفتا دیا ہوا آی پاڈ ٹچ، جو اس وقت ہمارے استعمال میں‌ تھا، شومئی قسمت سے اپارٹمنٹ میں‌ رہ گیا۔ یہ عقدہ کراچی پہنچ کر کھلا کہ ہم آئی پاڈ وہیں بھول آئے ہیں۔ اس ڈوائس کی قیمت اس اپارٹمنٹ میں ہمارے چار روزہ قیام کے کرائے سے زیادہ تھی اور ہمیں یقین واثق تھا کہ کہ جس نے بھی آئ پاڈ کو پڑا پایا، وہ کسی صورت اسے واپس نہیں کرئے گا۔ صلواتیں سننے کے لئے تیار ہم نے اس ڈوائس کے نقصان پر اناللہ پڑھی ہی تھی کی ایک ای میل وصول ہوئی۔

آپ اپنا فون اپارٹمنٹ میں‌بھول گئے ہیں، آکر لے جائیں، آپکی امانت ہمارے یہاں محفوظ ہے۔ روحان از ایرولو اپارٹ

اس پر آشوب دور میں ایمانداری کے اس نادر مظاہرے پر بڑی دلی مسرت ہوئی ۔ ہم نے انہیں‌ جواب دیا کہ انشاللہ ہم ایک ماہ بعد آ کر اپنی امانت لے جائیں گے۔ تقریبا ایک ماہ بعد جب ہمارا دوبارہ استنبول جانا ہوا تو ہم نے صبح سویرے اپارٹمنٹ کا چکر لگایا اور روحان کے ساتھی نے فورا ہی ہمیں‌ ہمارا آئی پوڈ لا دیا۔ اس کی فارمیٹنگ اور ڈیفالٹ زبان کو مشرف با ترکی کرنے کے علاوہ اور کوئی خاص تبدیلی نہ تھی۔  ہم نے اپنے میزبان کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا اور اپنی راہ لی۔

جب آپ نیلی مسجد سے نکلنے لگتے ہیں تو باہر جانے کے دروازے پر یہ بڑا طغرہ نظر آتا ہے۔ ترکوں کے قول و عمل میں اس کا بڑا ہاتھ دکھائی دیا۔ الکاسب حبیب اللہ۔


Share

March 9, 2011

کیفے سرائیو – ایک بوسنیائی مطعم

Filed under: سفر وسیلہ ظفر — ابو عزام @ 12:03 pm

Serajivo Cafe

گزشتہ ہفتے بیابان سونوران میں صحرا نوردی کرتے جب ہم ریاست ایریزونا میں داخل ہوئے تو پیٹ میں چوہوں کی میراتھون شروع ہو چکی تھی۔ راشد بھائی کی برق رفتار ڈرایونگ کی بدولت ہم تنہا ستارے کی ریاست ٹیکساس سے سنہری ریاست کیلیفورنیا کا سفر درست وقت میں طے کر رہے تھے لیکن اب بھوک زوروں پر تھی اور غدودانہ معدہ سےاول طعام کی صدائیں بلند ہو رہیں تھیں تو ہم نے کھانا کھانے کی ٹھانی۔ زبیحہ ڈاٹ کام نے قریب میں جو حلال ریسٹورانٹ بتائے ان میں سے ایک بوسنیائی مطبخ ‘سرائیو کیفے‘ کی ریٹنگ خاصی اچھی تھی۔ ہمارا مقولہ ہے کہ زندگی میں ہر حلال کام کم از کم ایک دفعہ ضرور کر کے دیکھنا چاہئے اور چونکہ ہم دونوں نے کبھی بوسنیائی کھانا نہیں کھایا تھا لہذا سوچا کہ آج اس جنوب مشرقی یورپی ملک کے کھانے کو آزمایا جائے۔ راشد بھائی تو ہمیشہ کہتے ہیں کہ یہ جو مولانا حالی نے مقدمہ شعر و شاعری میں کہا تھا کہ ‘۔ انسان کو اگر ہمیشہ طرح بہ طرح کے کھانے میسر نہ آئیں تو وہ تمام عمر ایک ہی کھانے پر قناعت کر سکتا ہے لیکن شعر یا راگ میں تلون اور تنوع نہ ہو اس سے جی اکتا جاتا ہے’، سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے کبھی متنوع کھانے نہیں کھائے اور اسکا انجام درجہ پنچم سے گیارویں جماعت تک ہمیں بھگتنا پڑا ۔

کیفے سرائیو ریاست ایریزونا کے شہر فینکس کے مضافات میں واقع ایک چھوٹا سا ریسٹورانٹ ہے۔ ہم جب اس کے جائے وقوع میں پہنچے تو علاقے کی دگرگوں صورتحال سے کچھ ہچکچاہٹ ہوئی لیکن پھر جی کڑا کر کے سوچا کہ اگر مرنا ہی ٹہرا تو کھا پی کر جان دینا خالی پیٹ گولی کھانے سے بہتر ہے۔ بہر حال، یہاں داخل ہوتے ہی اشتہا انگیز خوشبووں اور بوسنیائی میزبان بیرے نے ہمارا استقبال کیا۔ سنا ہے کہ اس خاندانی مطبخ میں والدہ کھانا پکاتی ہیں اور بیٹا بیرا گیری اور کیشیر کے فرایض انجام دیتا ہے۔ اس بات کی تصدیق تو نا کر پائے لیکن ماحول بلکل ایسا ہی تھا۔ یہاں دیگر بوسنیائی مسلمان بھی موجود تھے۔ ہمارےمیزبان نے سلام دعا کے بعد ہمیں مینیو پکڑا دیا جس کی ہمیں اتنی ہی سمجھ آئی جتنی رحمان ملک کو سورۃ اخلاص کی ہے۔ ہہرحال، زمانہ شناس میزبان بیرے نے ہماری نو آموزی بھانپتے ہوئے احوال پوچھا تو ہم نے جھٹ کہ ڈالا کہ ہم پہلی بار کسی بوسنیائی ریسٹورانٹ میں آئے ہیں لہذا آپ کے رحم و کرم پر ہیں۔ بھوک زوروں پر ہے، اچھا کھانا کھلاو گے تو دعا دینگے۔ راشد بھائی نے البتہ برابر والی میز کا کھانا تاڑتے ہوئے کہا کہ میں تو وہی کھاوں گا ورنہ۔

بوسنیائی دسترخواں یورپی اور میڈیٹرینین کھانوں کا ایک خوبصورت امتزاج معلوم ہوتا ہے۔ آپ کو کروسانٹ جیسی روٹی میں قیمہ بھرا ملے تو اس کے ایجاد کرنے والےکے لئےدل سے بے اختیار دعائیں نکلتی ہیں۔ اس ڈش کو بوریک کہا جاتا ہے۔ شواپی یا بوسنیائی ساسیچ سینڈوچ جو راشد بھائی نے آرڈر کی درحقیقت تین مختلف قسم کے گوشتوں کے امتزاج سے بنے کباب ہوتے ہیں۔یہ سلطنت عثمانیہ کی باقیات میں سے ایک یادگار ہے جس کو بوسنیا کی قومی ڈش کا درجہ حاصل ہے۔ اس نہائت لذیذ ڈش میں بکرے، دنبے اور بچھیا کے گوشت سے بناے گئے کباب کے ساتھ ایک مزیدار چٹنی اور خصوصی روٹی ملتی ہے جس کا ذائقہ اب تک نہیں بھولتا۔ ہم نے بمینجی نامی سوپ بھی منگوایا جو سوپ کم اور سبزی گوشت کا سالن زیادہ تھا۔ اضافی روٹی بھی کروسانٹ سے ملتی جلتی تھی جو زائقے میں اپنی مثال آپ تھی۔

سب کچھ کھا کر اپنے نہائت خوش اخلاق میزبان کو دعائیں دیں اور مسجد کا پتا پوچھا۔ ریاست ائریزونا کے بارئے میں جیسا میڈیا میں سنتے آ تے ہیں اس سے تو لگتا تھا کہ یہاں مساجد کے باہر گرینڈ وزرڈز کا پہرا ہوگا لیکن ریسٹورانٹ سے کچھ ہی دور ایک بڑی مسجد دیکھ کر نہایت خوشی ہوئی۔ واللّٰہ متمّ نورہ ۔ بہرحال، بھاری دل کے ساتھ اپنے میزبان کو خدا حافظ کہا کہ طویل سفر باقی تھا۔

قصہ مختصر کہ اب ہم تو بوسنیائی دسترخوان کے ذائقے کے اسیر ہیں۔ آپکا اگر کبھی ریاست ایریزونا کے شہر فینکس سے گذر ہو تو کیفے سرائوو کو ضرور یاد رکھئے گا۔ راشد بھائی تو کہ چار سو میل کے سفر کے لئے تیار ہیں کہ شواپی اوہو ای اے جیہدے بارے آکھیا جاندا ہے پئی شوق دا کوئی مُل نہیں۔

Share

January 22, 2011

تھامس جیفرسن کےنسخہ ترجمہ قران کے تعاقب میں – ایک تصویری کہانی

Filed under: تحقیق,سفر وسیلہ ظفر — ابو عزام @ 12:00 am
ہائیں؟ کیا مطلب جیفرسن کا نسخہ قران یہاں موجود نہیں؟
Library of Congress
عالم حیرت میں انگشت بدنداں یہ بات ہم نے لائبرری آف کانگریس میں ہونے والی تھامس جیفرسن کے کتب خانے کی نمائش کی نگرانی پر مامور سیکورٹی گارڈ سے پوچھی ۔ واشنگٹن ڈی سی میں واقع لائبرری آف کانگریس دنیا کی سب سے بڑی لائبرری سمجھی جاتی ہے۔ یہاں پر تھامس جیفرسن، امریکہ کے تیسرے صدر کے زیر استعمال ہونے والا وہ تاریخی ترجمہ قران موجود ہے جو برطانوی محقق و مترجم جارج سیل نے 1734 میں کیا تھا۔ اس ترجمہ قران کو پہلا انگریزی علمی ترجمہ سمجھا جاتا ہے۔اس سے پہلے الیگزینڈر راس کا ترجمہ قران درحقیقت ایک فرانسیسی ترجمے کا انگریزی ترجمہ تھا۔اسی نادر و نایاب ترجمہ قران پر امریکہ کے پہلے مسلم کانگریس ممبر کیتھ ایلیسن نے حلف اٹھایا تھا اور اسی کی تلاش ہمیں کشاں کشاں اس کتب خانے تک کھینچ لائی تھی.ہماری طرح  صدر تھامس جیفرسن کو کتابیں پڑھنے اور جمع کرنے کا بہت شوق تھا۔ اس نے ایک دفعہ ایک مشہور امریکی سیاستدان جان ایڈمز سے کہا تھا کہ ‘میں .کتابوں کے بغیر نہیں جی سکتا’۔راقم نے بھی راشد بھائی سے ایک دفعہ بلکل یہی بات کہی تھی لیکن جب انہوں نے ہمارا یہی قول حیدرآبادی بریانی پر بھی صادق بتایا تو ہم نے اصرار کرنا مناسب نا سمجھا۔ یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا، بہرحال بات ہو رہی تھی کہ اگر یہ ترجمہ اس نمائش میں موجود نہیں تو آخر گیا کہاں؟

Jefferson's Library

۔ کمپیوٹر کے مطابق یہ ترجمہ قران بلکل سامنے والے شیلف کی تیسری دراز میں ہونا چاہئے تھا لیکن ہماری حیرت کی انتہا نا رہی کہ جب کمپیوٹر کے کیٹالاگ کے برخلاف مصحف اس دراز میں نا نظر آیا؟

Library of Congress Jefferson's Quran

اگر کسی نے اسے پڑھنے کے لئے نکلوایا ہو تو دنیا کی سب سے بڑئی لائبرری سے کم از کم یہ تو توقع کی جاسکتی ہے کے وہ اپنے کیٹالاگ کو درست حالت میں رکھے ۔ اب ہمیں یہ کھٹکا ہوا کہ یہ نسخہ قران کہیں کسی اسلام دشمنی کی وجہ سے تو نہیں‌ہٹا دیا گیا؟ پاکستانی ہونے کے ناطے اتنی کانسپیریسی تھیوری بنانے کا حق تو ہمیں حاصل ہے۔ تو پھر کیا تھا، ہم نے اس بات کی ٹھان لی کہ آج اس نسخہ ترجمہ قران کی تلاش کر کر رہیں گے چاہے ہمیں گنتناموبے ہی کیوں نا بھیج دیا جائے، غضب خدا کا۔

Library of Congress Jefferson's Quran

جب سیکیورٹی گارڈ سے کوئی خاص مدد نا مل سکی تو ہم نے کسی ثقہ لائبریرین کی تلاش شروع کی۔ ایک والنٹیر کتب خانے کا نگران نظر آیا تو اس سے اس بابت دریافت کی۔ مرد ابیض بولا کہ شائد یہ مصحف آپکو نایاب کتب کے خصوصی کمرے میں ملے ۔ ہم نے راستہ پوچھا تو اس نے کہا کہ نایاب کتب کی دسترس کے لئے محقق ہونا شرط ہے اور ایک کارڈ بنوانا پڑتا ہے۔ کانسپریسی تھیوری کے پکوڑوں کی خوشبو اب زور پکڑنے لگی تھی۔ ہم نے پوچھا اے درویش، کارڈ بنوانے کا پتا بتا، اس نے کہا سڑک پار کرو اور جیمز میڈیسن والی عمارت کے کمرہ نمبر 140 میں جا کر ایک ایشیائی نژاد محققہ سے ملو تو شائد مراد بر آئے ۔

Madison Building

اندھا کیا چاہے لائبرری کارڈ، ہم نے آو دیکھا نا تاو، ظہر و عصر کی قصر ادا کرتے کے ساتھ ہی سیدھا لائبرری آف گانگریس کی دوسری عمارت کی راہ لی۔ چشم تصور میں‌ ہمیں‌ ڈین براون کی کتابوں کے ہیرو رابرٹ لینگڈن سے ہو بہو مشابہت تھی جو کہ لاسٹ سبمل کے دوران ڈی سی کی خاک چھانتا پھرتا ہے، کمرہ نمبر 140 بھاگتے دوڑتے پہنچے

Reading Registration - Madison Building

جب وہاں‌ دیکھا تو لکھا تھا کہ لائبرری کارڈ صرف محققین کو جاری کئے جاتے ہیں۔ ہم پی ایچ ڈی کے ظالبعلم تو ہیں لیکن بایزین بیلیف نیٹورک اور مشین لرننگ کا نادر کتابوں سے کوئی دور کا تعلق نہیں لیکن پھر بھی ہم نے قسمت آزمائی کا سوچا کہ شائد یاوری کرئے۔

Reading Registration - Madison Building 2.JPG

پہلا مرحلہ شناخت کاتھا، پھرکپمیوٹر پر فارم بھرنے کے بعد ایک خاتون نے کتب خانے کے کارڈ کےلئے تصویر لی اور کارڈ ہمارے ہاتھ میں تھماتے ہوئے نوید دی کہ اب ہم دو سال تک اب کتب خانے کے بیشتر کمروں میں جانے کے اہل ہیں۔

Registration for Library Card - Madison Building

اتنی جلد تو ہمیں ہماری عزیز لیاقت نیشنل لائبرری کا کارڈ تو کیا بس کا رعایتی کارڈ بھی پرنسپل کے دفتر سے نا ملا

Library Card

. بہرحال، انکا شکریہ ادا کرتے ہوئے اگلے مرحلے کی طرف بڑھے جو ریسرچ اسسٹنٹ سے ملنے کا تھا. ہم نے ریسرچ اسسٹنٹ سے ترجمہ قران کے محل و وقوع کے بارے میں پوچھا تو اس نے اپنے کمپیوٹر میں ڈھونڈنا شروع کیا اور کچھ دیر میں‌بتایا کہ یہ نادر کتابوں کے کمرئے میں موجود ہے لیکن فون کر کے کنفرم کر لیتے ہیں ۔ محترمہ نے فون گھمایا اور ہمیں تھما دیا ۔ اب جب ہم نے دوسری طرف موجود لایبریرین سے پوچھا کہ کیا ہم جیفرسن کے قران کا مطالعہ کر سکتے ہیں تو انہوں نے ٹکا سا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم 4:15 کے بعد کتابوں‌کو نہیں نکالنے۔ یاد رہے کہ نادر کتابوں کے کمرے کا وقت 5:00 بجے ختم ہو جاتا ہے۔ہمیں بڑی مایوسی ہو چلی تھی لیکن آخری حربے کے طور پر التجائی لہجے میں‌درخواست کی کہ جیسے جامعہ میں محتمن سے ایک ایک نمبر کے لئے دست سوال دراز کیا جاتا تھا ۔ گویا ہوئے کہ محترمہ، ہم مغرب کے گرم پانیوں کی سنہری ریاست سے آپ کے اس یخ بستہ برف کے تندور میں‌آئے ہیںاور کل صبح روانگی ہے، اگر آپ کی نظر عنائت ہو توفدوی عمر بھر مشکور رہے گا۔بقول یوسفی خمری کو فون پر ہی ہمارئ مسکین صورت پر رحم آگیا اور بلا سوال و جواب اس نے ہمیں‌ کہا کہ فورا پہنچو۔ ہم نے اسسٹنٹ ریسرچر سے کمرے کا راستہ پوچھا تو اس نے ہمیں سرنگ کا شارٹ کٹ بتاتے ہوئے نقشہ دیا اور ہم بھاگتے ہوئے نادر کتابوں کے سیکشن کے طرف روانہ ہوئے۔

Jefferson's Library -Rare Books Section - tunnel

واشنگٹن ڈی سی میں بہت سی سرکاری اور وفاقی عمارتوں کو ایک دوسرے سے سرنگوں کے ذریعے جوڑا گیا ہے۔ یہ سرنگیں واضع نشانیوں کی عدم موجودگی میں تو شائد بھول بھلیوں کا کام دیں لیکن قسمت نے یاوری کی اور ہم نشانات دیکھتے ہوئے بغیر جی پی اسی کی مدد کے آسانی سے نادر کتب کے فلور پر پہنچ گئے

Jefferson's Library -Rare Books Section



Jefferson's Library - Quran - Rare Books Section - Locker

Jefferson's Library - Rare Books Section - Locker

یہاں پہنچ کہ پتا چلا کہ ابھی تو ایک اور فارم بھرنا ہے اور اپنی ہر چیز کو ایک عدد لاکر میں رکھنا ہے۔ حکمِ صیّاد ہے تا ختم، ایک بڑی سی کنجی والے لاکر میں تمام بوریا بستر ڈالا اور سنہرے دروازے والے نادر کتب کے کمرے تک جا پہنچے

Jefferson's Library - Quran - Rare Books Section

وہاں دعا مانگتے ہوئے اور ڈرتے ڈرتے داخل ہوئے کہ کہیں وقت کو بہانہ بنا کر لائبریرین داغ مفارقت نا دے دے لیکن محترمہ وعدے کی پکی تھیں انہوں نے ہم سے ایک فارم بھروایا کہ اگر ہم نے کسی نادر کتاب کو کسی قسم کا نقصان پہنچایا یا کوئی چیز خراب کی تو جو چور کی سزا وہ ہماری۔

Jefferson's Library - Quran - Rare Books Section

ان تمام کاغذی کاروایوں سے فارغ ہونے کے بعد اب ہم ریڈنگ روم میں میز کرسی پر جا بیٹھے۔ لایبریرین ایک رحل لایا اور اس کے ساتھ ترجمہ قران کے دو نسخے، جلد اور اور دوم۔ مرد بیضا کے ہاتھ میں رحل دیکھی تو وہ کچھ مسلمان مسلمان سا لگنے لگا لیکن جب آس پاس نظر دوڑای تو پتا چلا کہ نادر کتب کے لئے یہی رائج طریقہ مطالعہ ہے کہ کتاب کو کم سے کم ہاتھ لگے۔ اس نے پھر ایک کپڑے کی پٹی سی جس کے دونوں طرف ہلکے اوزان بندھے تھے ترجمہ کھول کر اس پر ڈال دی اور خاموشی سے اپنی میز پر جا کر مطالعے میں منہمک ہو گیا۔

Jefferson's Library - Quran

اس نادر نسخے کو اتنے قریب سے دیکھنے اور آخرکار ہاتھ لگانے سے ہم پر شادی مرگ کی سی کیفیت طاری تھی، اس اولین نسخہ ترجمہ قران میں ایک طویل تمہید ‘پریلمنری ڈسکورس’ کے نام سے موجود ہے جو عرب اور اسلام کے ابتدائی حالات کے بارے میں ایک مفصل مضمون ہے۔ اس ترجمے پر کئی اعتراضات اٹھائے جا چکے ہیں جن میں‌سے بنیادی اعتراض اس بات پر ہے کہ اس زمانے کے تراجم نے اسلام کو یہودیت اور عیسائیت کی طرح ایک الہامی مذہب کے بجائے ایک گروہ یا ‘کلٹ’کی طرح پیش کیا جاتا ہے جس کی ایک رمق جارج سیل کے اپنے مقولے سے ملتی ہے جس میں وہ کہتے ہیں۔

” محمد نے عربوں کو وہ بہترین‌ دین دیا جو کہ کم از کم ان بت پرستوں کے قانون دانوں کے دئے گئے ضابطوں سے بہت بہتر تھا۔ مجھے علم نہیں کہ انکو اس طرح کی عزت و احترام کے برابر کیوں نا سمجھا جائے جیسا کہ ماینوس اور نوما (یونانی اور رومی فلاسفر بادشاہوں) کو دیا جاتا ہے لیکن یہ عیسی اور موسی کے ہرگز برابر نا ہوگا کہ انکے قوانین الہامی تھے۔ انکو ایک ایسے عالم کے طور پر ضرور ماننا چاہئے کہ جس نے بت پرستی کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک خدا کے لئے دین کی داغ بیل ڈالی اور پہلے سےبنے قوانین صنم پرستی کے ذریعے پادشاہت کی آرزو نا کی۔”

صلی اللہ علیہ والہ وسلم

بہرطور، جارج سیل کے ترجمے پر کئی رائے ہو سکتی ہیں جو کہ ایک ماہر تراجم اور ایک اور مضمون کی متقاضی ہیں لیکن ہمیں اسکی تلاش اور مطالعے میں بے حد لطف آیا۔ باہر نکلے تو شام کا وقت تھا اور کیپٹل بلڈنگ کی عمارت پر سے سورج اپنی روشنی سمیٹتا نظر آیا۔ ہم نے ستارئے سفر کے ڈھونڈنا شروع کئے کہ ایمسٹرڈم فلافل پر رش نا بڑھ جائے۔بھوک زوروں پر ہے۔

Jefferson's Library -Capitol Building

مضمون کے حوالہ جات

قران کے انگریزی تراجم کا علمی جائزہ

جارج سیل

جارج سیل کا ترجمہ قران – گٹن برگ پراجیکٹ

مسلم کانگریسمین کا قران پر حلف – این پی آر

ایلیسن کا قران پر حلف – اسنوپس

لایبرری آف کانگریس – جیفرسن کا ترجمہ قران

Share

December 29, 2010

لاس اینجلس کے ساحل سے لے کر تابہ خاک نیویارک

Filed under: سفر وسیلہ ظفر,مشاہدات — ابو عزام @ 1:50 pm
کہتے ہیں سفر وسیلہ ظفر ہے، کل شام بروز جمعرات، برادرم راشد کامران اور بندہ ناچیز ایک طویل سفر پر روانہ ہو رہے ہیں۔ ارادہ ہے کہ براعظم شمالی امریکہ کے ایک ساحل بحر الکاہل سے بحر اوقیانوس تک کا تقریبا 4000 میل کا سفر کم و بیش پانچ دن میں طے کیا جائے ۔درمیان میں جنوبی ریاستوں سے گذرتے ہوئے اس مختصر وقت میں بائبل بیلٹ اور قدامت  و جدت کے تقابل کا ارادہ ہے ۔دوستوں کے ہاں قیام کا ارادہ ہے اور چونکہ ایک عددایس ایل آر کیمرہ بھی ساتھ ہوگا تو کچھ تصویر کشی کا  شوق بھی پورا کیا جائے گا ۔  گرم پانیوں سے برفیلے طوفانوں کے اس سفر میں تقریبا سولہ ریاستوں سے گذر ہوگا جن میں بلا ترتیب کیلیفورنیا، ایریزونا،نیو میکسیکو، ٹیکساس، لوزیانا، مسیسپی، الاباما، جارجیا، ٹینیسی، کینٹکی، ورجینیا، میری لینڈ، واشنگٹن، ڈی سی، نیو یارک، نیو جرسی اور کنیکٹیکٹ شامل ہیں۔ ان ریاستوں میں سے کچھ میں برفانی طوفانوں کی وجہ سے ہنگامی حالات کا اعلان ہے۔ راشد بھائی کا کہنا ہے کہ گاڑی میں چینوں ‘پہیوں کے سلاسل ‘  کے بغیر سفر کچھ ایسا ہوگا کہ
امیر شہر نے کاغذ کی کشتیاں دیکر
سمندروں کے سفر پر کیا روانہ ہمیں
اس روٹ کی لمبائی کا اندازہ آپ اسطرح لگا سکتے ہیں کہ اگر ہم کراچی سے یہ سفر شروع کرتے تو اختتام مشرقی یورپ کے ملک سلوینیا،اٹلی کے شہر یودین یاجنوب مشرق میں رنگون برما  تک ہو سکتا تھا۔ اس سفر کا نقشہ آپ نیچے دیکھ سکتے ہیں۔
میری کوشش ہوگی کہ اس سفر میں آنے والی دلچسپ چیزوں کو قلمبند کر سکوں، خصوصا ارادہ یہ ہے کہ راستے میں آنے والی ہر ریاست کی کم از کم ایک مسجد میں‌نماز ادا کی جائے، مقامی مطبخ میں کھانا کھایا جائے اور ہر ریاست کے ستار بخش (اسٹار بکس کا اسم مستعمل) کے ذائقے کی درجہ بندی کی جائے۔ راشد بھائی کا مزید خیال ہے کہ ساوتھ میں اسکارلٹ او ہیرا کی تلاش بھی بعید از امکان نہیں تاہم ہم اس سلسلے میں مہر بہ لب ہیں۔
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہیں


View Larger Map

Share

Powered by WordPress