فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

September 5, 2016

ایسے ناداں بھی نہ تھے جاں سے گزرنے والے

Filed under: خبریں,سیاست,مذہب — ابو عزام @ 10:58 am

یہ اسی کی دہائی کی بات ہے کہ جب روشنیوں کے شہر میں ایم کیو ایم کا طوطی بول رہا تھا، جب شہر کے بام و در قد آدم پتنگوں اور اور “قائد تحریک” کی تصاویر سے مزین تھے اور اس فرد واحد کے ون ٹو تھری کہنے پر تین ہٹی سے عزیز آباد، اور دس نمبر سے عائشہ منزل تک ہزاروں کے مجمع کو سانپ سونگھ جایا کرتا تھا۔ یہ اس وقت کا قصہ ہے جب بانیان پاکستان کی اولادوں میں تعصب کی وہ فصل بوئی جارہی تھی جس کوکاٹنے اور اسکا سدباب کرنے کی سعی لا حاصل میں اگلی کئی دہائیاں صرف ہونے والی ہیں۔ اس کڑے وقت میں عصبیت کے اس سیلاب کے آگے شہر میں مٹھی بھر دہان پان سے نوجوان، جن میں سے کچھ کی مسیں بھی نا بھیگی ہونگی، شہر نا پرساں کے در و دیوار پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث چسپاں کرتے نظر آتے تھے

لیس منا من دعا الی عصبیۃ ولیس منا من قاتل عصبیۃ ولیس منا من مات علی عصبیۃ۔ رواہ ابوداؤد
جس نے عصبیت کی طرف دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں،
جس نےعصبیت کے لیے جنگ کی وہ ہم میں سے نہیں،
جو عصبیت پر مرا وہ ہم میں سے نہیں ہے

اس پیغام کی سزا کیا تھی؟ عقوبت خانے، مہاجر خیل، اور ڈرل شدہ نعشیں۔ سعد بن صلاح اور غیور انور

لیکن وہ یہ کہتے رہے کہ شہادت حق کی یہ باتیں تو بس کتابی باتیں ہیں، رموز سیاست و مملکت تو ہم جانتے ہیں۔

آج جس فرعون صفت کو شہر میں لب کشائئ کی اجازت نہیں، کل اسی کی مدح سرائئ میں سارا شہر گم تھا، جب کچھ کفن پوش یہ کہتے پھرتے تھے کہ یہ کیا دور جاہلیت کی بات ہے کہ کلمہ گو بھائئ کی تقسیم اس بنیاد پر کی جائے کہ وہ مقامی ہے یا غیر مقامی، اسکی زبان کیا ہے، وہ یوپی سی پی کا ہے، دکنی ہے، پنجابی ہے، یا اس کی رگوں میں کسی بلوچ یا پٹھان کا خون دوڑ رہا ہے؟ جبکہ میرے آقا و مولا نے یہ بات ۱۴۰۰ سال پہلے اپنے آخری خطبے میں واضع طور پر کہہ دی تھئ کہ

یایہا الناس ا لا ان ربکم واحد وان اباکم واحد الالافضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لأسود علی احمر ولا لأحمر علی اسود الا بالتقوی۔(مسند احمد)
اے لوگو!خبردارتمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے خبر دار!کسی عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر یا کالے کو سرخ پر اور نہ سرخ کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے سوائے تقویٰ

لیکن وہ یہ کہتے رہے کہ شہادت حق کی یہ باتیں تو بس کتابی باتیں ہیں، رموز سیاست و مملکت تو ہم جانتے ہیں۔

جدید جاہلیت کے علمبرداراروں کا نعرہ ہے کہ نسل و رنگ و قبائل پر تقسیم فطری ہے لہذا اسے ختم کرنا فطرت سے جنگ ہے۔ ان کے لئے اطلاعا عرض ہے کہ اسلام دین فطرت ہے، اگر تعصب کی عینک ہٹا کر وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ کو پڑھیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہوگی کہ اسلام قومیت و گروہ کی شناخت کےفطری رجحان کوتسلیم کرتے ہوئے اس سے منسلک کسی امتیازی سلوک یا تفاوت کو رد کرتا ہے۔ دیسی لبرلوں کا حال یہ ہے کہ جب مغرب اسی تفاوت کا خاتمہ “افرمیٹیو ایکشن” یا اینٹی ڈسکریمینیشن کے قوانین کے ذریعے کرتا ہے تو آپ اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوتے ہیں لیکن جب اسلام پسند یہی کام کریں تو ان پر بنیاد پرستی کا لیبل چسپاں کرنے میں ایک منٹ کی دیر نہیں کرتے۔ آپ لوگوں کو بانٹنا چاہتے ہیں تاکہ ان کو اللہ کی بندگی سے نکال کر اپنی غلامی میں لا سکیں،جبکہ اسلام لوگوں کو جوڑنا چاہتا ہے۔ آپ لوگوں کو انکی جبلی خواہشات کا اسیر رکھنا چاہتے ہیں، جس تنوع سے خالق نے انہیں تخلیق کیا، اس کا مذاق اُڑاتے رہے ہیں، یہ باتیں کسی محراب و منبر سے تو نا سنیں ہونگی آپ نے کہ بہاری نا کپن یا پنجابی کوئئ زبان نہیں بولی ہے یا سندھی تو کاہل مفت خور ہیں اور بلوچ تو غار کے زمانے کے میلے کچیلے، سست جاہل جنگلی لوگوں سے زیادہ دور نہیں یا بنگالی، وہ تو کالے، چھوٹے قد والے ہیں، موسی چاول کھائے گا، اور پشتون، انکو تو ہم جنس اور بے وقوف ثابت کرنے کے لئے لطائف کا کثیر زخیرہ موجود ہے، جبکہ ہم اردو بولنے والے سب سے اعلی و ارفع ہیں کہ ہماری زبان و بیان کی قوتیں اس پر استدلال کرتی ہیں، فاعتبروا یا اولوالابصار۔ اس رب جس کے آگے ہم سب اپنئ پیشانیاں سرنگوں کرتے ہیں صاف الفاظ میں حکم کرچکا ہے کہ اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہو اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے یہ ان سے بہتر ہوں، اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو۔ الحجرات۔

لیکن وہ یہ کہتے رہے کہ شہادت حق کی یہ باتیں تو بس کتابی باتیں ہیں، رموز سیاست و مملکت تو ہم جانتے ہیں۔

تقسیم در تقسیم کا یہ عمل نہیں رکتا، آپ اپنی مصلحت کے تحت اس پر پی ایس پی و حقیقی و ثنا اللہ زہری کی کتنی ہی بینڈ ایڈز لگا لیں، جس شاخ نازک پر یہ آشیانہ بنایا جا رہا ہے وہ اسلامی شناخت کی اکائئ سے دوری ہے۔ جس ملک کی اساس اسلام ہے اس کوقومیتوں میں تقسیم کر کر پریشر گروپس کے ذریعے چلانا مسئلے کا حل نہیں۔ اگر یہ بات آپکو عجیب لگے تو جان لیں کہ آپ اکیلے نہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ اسلام اس حال میں شروع ہوا کہ وہ اجنبی تھاا ور عنقریب اجنبی ہوجائے گا۔ پس خوشخبری ہے اجنبی لوگوں کے لئے۔ عرض کیا گیا کہ اجنبی لوگ کون ہیں؟ فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جواسلام کی محبت میں قبیلوں سے علیحدہ ہوگئے۔( ابن ماجہ، ترمذی)

آج بھی وہ داعیان کلمة اللہ، وہ خواب دیکھنے والے ائیڈیلسٹ لوگ، وہ مواخات کا جذبہ رکھنے آپکے بہت قریب ہیں جو وحدت ملت کی بات کرتےہیں، جو اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کو نافذ کرنا چاہتے ہیں، جو تمام مسلمانوں کو ایک اکائئ جانتے ہیں ، ان کے مقابل عبداللہ بن اُبی کی مثل کے لوگ ہیں جس نے غزوہ بنی المصطلق کے موقع پر مسلمانوں کو باہم لڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ مہاجرین جب ہمارے ہاں آئے تھے تو بھوکے ننگے تھے۔ اور اس کے بعد پھر یہ حالت ہوگئی ہے کہ یہ انصار کے خلاف جری ہوگئے ہیں اور ان سے لڑنے کے لیے تیار ہیں،جدید جاہلیت اپنے آپ کو کتنا ہی نفیس و ممذوق سمجھ لے، جاہلیت کا ہر ریفرینس” جو ہم میں سے عزت والا ہے وہ ذلت والے کو نکال باہر کرے گا” سے ہی جا ملے گا۔

لیکن وہ یہ کہتے رہے کہ شہادت حق کی یہ باتیں تو بس کتابی باتیں ہیں، رموز سیاست و مملکت تو ہم جانتے ہیں۔

وما علينا إلا البلاغ المبين

Share

December 16, 2014

سقوط ڈھاکہ

Filed under: پاکستان,سیاست,شاعری — ابو عزام @ 5:52 am

میں قائد عوام ہوں
جتنے میرے وزیر ہیں سارے ہی بے ضمیر ہیں
میں انکا بھی امام ہوں میں قائد عوام ہوں
میں پسر شاہنواز ہوں میں پدر بے نظیر ہوں
میں نکسن کا غلام ہوں میں قائد عوام ہوں
دیکھو میرے اعمال کو میں کھا گیا بنگال کو
پھر بھی میں نیک نام ہوں میں قائد عوام ہوں
میں شرابیوں کا پیر ہوں میں لکھپتی فقیر ہوں
وہسکی بھرا ایک جام ہوں میں قائد عوام ہوں
سنو اے موحبان وطن رہنے نہ دونگا مہکتا چمن
میں موت کا پیغام ہوں میں قائد عوام ہوں
میری زبان ہے بے کمال لڑتا ہوں میں ہزار سال
میں اندرا کا غلام ہوں میں قائد عوام ہوں

 

حبیب جالب

Share

February 4, 2014

بے حسی کا خراج

Filed under: پاکستان,سیاست,مشاہدات — ابو عزام @ 11:23 am

 کل دن دہاڑے میرے چھوٹے بھائی کو یونیورسٹی روڈ پر صفورا چورنگی کے پاس ایک اے ٹی ایم سے پیسے نکالتے ہوئے اسلحے کے زور پر لوٹ لیا گیا۔

دو عدد موٹرسائکل سوار ڈاکووں نے جنہیں بظاہر کسی بات کی جلدی  نا تھی، نہایت آرام سے اس سے تمام پیسے  چھینے، مزید جتنی نقدی مشین سے نکلوا سکتے تھے وہ بھی نکلوائی اور پھر اس کے دفتر کا دیا ہوا موبائل فون، اور ایک آئ فون جو میں نے اسکی ۲۵ ویں سالگرہ کے موقع پر اسے دو ماہ پہلے ہی تحفتا دیا تھا، چھین کر لے گئے۔ اللہ کا بڑا شکر ہے کہ میرا بھائی اس واقعہ میں محفوظ رہا۔ الحمدللہ رب العلمین

ـ اللهم رب الضالة هادي الضالة، تهدي من الضلالة رد علي ضالتي بقدرتك وسلطانك فإنها من عطائك وفضلك.

 یہ انسان کی فطرت ہے کہ اسے اپنا نقصان اور اپنا غم سب سے شدید لگتا ہے۔ روشنیوں کے شہر میں روزانہ خون کی ندیاں بہتی رہیں، چوریوں، ڈکیتیوں اور لوٹ مار کا بازار گرم ہو، لیکن جب تک کوئی مصیبت اپنے سر نا پڑے، راوئ عیش ہی عیش لکھتا ہے۔ ہم دونوں بھائیوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ سندھی اور بلوچ اکثریتی علاقے میں گذارا اور انہیں نہائت مخلص اور بے لوث پڑوسی پایا ۔ میں نہیں جانتا کہ ان دو بلوچ راہزنوں کا کیا المیہ تھا جس نے انہیں اس واردات پر مجبور کیا لیکن یہ سطریں لکھتے ہوے مجھے اس بات کا ضرور احساس ہے کہ اگر میرے بھائی کامران کے بجاے اللہ وچائو گوٹھ سے میرے دوست ابراہیم بلوچ، عبدالغنی اورعبدالمجید خاصخیلی بھی ہوتے تو انکے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا کہ غالبا راہزن کوئ مذہب، کوئ شناخت،  کوئ قومیت نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے جو لوگ کئی بار موبائیل چھین چکے ہیں وہ تو اپنے ہم زبان ہی تھے۔

اور ظاہر ہے کہ پھر اس دور نارسائ میں خود کو الزام دینا بھی بہت ضروری ہے

بے وقوف اے ٹی ایم پر کیا کر رہا تھا، کارڈ سے شاپنگ کرنی چاہئے
بے وقوف، آئ فون لے کر کون گھومتا ہے اس شہر میں، گھر پر رکھ کر آنا تھا
پاگل آدمی کو چاہئے تھا کہ پیسے نکلوانے کسی کو ساتھ لے جاتا، چلو جان کا صدقہ گیا۔

لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ درحقیقیت  ہمارئ  اجتماعی بے حسی کا خراج ہے ، جو ہم سے ایک محروم و مجروح طبقہ لے رہا ہے۔ اس سے مراد چوری و ڈکیتی کی توجیح پیش کرنا قطعی نہیں لیکن اس حقیقت سے فرار بھی ممکن نہیں کہ جس شہر میں روزگار کے مواقع کم سے کم ہوتے جائیں، جہاں امن و امان یرغمال اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی حفاظت کے لئے بے بس ہوں، وہاں جنگل کا قانون ہی چلتا ہے۔اس کی ذمہ داری جس قدر صاحبان اقتدار کی ہے، اسی قدر عوام کی بھی ہے کہ إن الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم

 میرا بھائی ایک دینداراورمحب وطن شخص ہے۔ اس کو اپنی مٹی سے بڑئ محبت ہے لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ امن و آمان کی مخدوش صورتحال اور راہزنی کی پے درپے وارداتوں نے اسکی اس محبت کو شائد گہنانا شروع کردیا  ہے۔ لیکن اب بھی وہ کم از کم مجھ سے تو زیادہ  محب وطن ہے کیونکہ میں نے  ۱۹۹۸ میں اپنے گھر میں ہونے والی مسلح ڈکیتی کے بعد ۱۸ سال کی عمر میں یہ تہیہ کرلیا تھا کہ اس ملک میں جہاں میرے باپ کو کلاشنکوف کے بٹ  مار کر اس کی محنت کی جمع پونجی چھین لی جاے، میں تو ہرگز نہیں رہ سکتا۔ وہ ملک جہاں کا تھانیدار آپ کو ڈرا کر کہے کہ “اگر ایف آئ آر  درج کرائ تو شناخت کرنے آنا ہوگا اور پھر کیا پتا کون کس کو شناخت کر لے، بس روزنامچہ بہت ہے”۔ بادئ نظر میں شائد یہ بات کافی بچکانہ سی معلوم ہوتی ہو لیکن وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ کی انسانی زندگی میں بڑئ وقعت ہے۔

یہ سب  باتیں شائد صحیح ہوں لیکن پھر مجھے اپنے عزیز دوست اور کلاس فیلو عبدالرحمن المعروف مانی کا وہ پیٹریاٹک فقرہ  یاد آتا ہے جو شائد اسے اسکی عسکری وراثت  میں ملا ہے

ابے یار، اگر تو تبدیلی نہیں لائے گا تو اور کون کچھ کرے گا؟ تم سالے سب یہاں سے ملک چھوڑ کر بھاگ گئے ہو۔۔۔۔

——

أذكـــــار وأدعية عند ضياع أو فقدان شيء

ـ اللهم رب الضالة هادي الضالة، تهدي من الضلالة رد علي ضالتي بقدرتك وسلطانك فإنها من عطائك وفضلك.

ـ يا جامع الناس ليوم لا ريب فيه رد علي ضالتي.

– أو يتوضأ ويصلي ركعتين، ثم يتشهد، ثم يقول: اللهم راد الضالة، هادي الضالة، تهدي من الضلال رد علي ضالتي بعزك وسلطانك فإنها من فضلك وعطائك.

– ,الدعاء الذي يدعو به صاحب الشيء المفقود، هو ما جاء عند ابن أبي شيبة في مصنفه والطبراني من حديث ابن عمر رضي الله عنهما ما معناه: أن من ضاع له شيء فليتوضأ وليصل ركعتين وليتشهد وليقل: “بسم الله يا هادي الضلال وراد الضالة اردد علي ضالتي بعزتك وسلطانك فإنها من عطائك وفضلك” قال الحاكم رواته موثقون مدنيون لا يعرف واحد منهم بجرج.

Share

July 3, 2013

میدان التحریر بمقابلہ مسجد رابعہ العدویہ

Filed under: خبریں,سیاست,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 6:35 am

تیس سالہ آمریت کے جبر و استبداد کے بعد سیکیولر و ترقی پسندوں کی جمہوری کامیابی۔ اسلام پسندوں کے پر تشدد مظاہرے اور فوج کا منتخب صدر کو مفاہمت کا الٹی میٹم۔

معاف کیجٗے گا، کچھ الٹا لکھ گیا۔ یہ صورتحال ہوتی تو یقینا ناقابل برداشت ہوتی۔ لیکن اگر چونکہ اسکے برعکس ہے، توپھر ٹھیک ہے۔

 حضور، جب نظام پادشاہی ہو تو آپ ملوکیت و استبداد کا رونا روئیں ، اور جب اسلام پسند مروجہ جمہوری طریقے سے برسر اقتدار آئیں تو یہ بھی آپکو اچھا نا لگے کہ چِت بھی اپنی، پَٹ بھی  اپنی

خُداوند یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں۔۔

Share

January 5, 2013

ستم کا آشنا تھا وہ، سبھی کے دل دکھا گیا

Filed under: سیاست,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 4:44 pm

محترم قاضی حسین احمد اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ

روایت و حکائت و درائت کا تقاضا تو یہ ٹھیرا کہ میں تحریک اسلامی کے بطل جلیل کے بارے میں کچھ عام سی باتیں لکھوں، جیسے کہ آج ہم سے ایک عظیم  رہنما جدا ہوگیا،  ان کی وفات کا خلا کبھی پورا نہیں ہوگا، صداقت و امانت و دیانت کا پیکر ہمیں چھوڑ کر چلا گیا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ سب عمومیات آپ کل کے اخباروں اور سوشل میڈیا پر دیکھ سکتے ہیں۔ میری آنکھیں تو اسوقت اپنے اس قائد کے غم میں پرنم ہیں جو ایک سچا انقلابی تھا۔ جو وقت کے دھارے کے ساتھ بہنے کاقائل نا تھا بلکہ جس نے اپنے قول و عمل سے عملا مسلم لیگ کی بی ٹیم کا کردار ادا کرنے والی جماعت کو تحریک اسلامی کی ایک متحرک و منظم قوت میں تبدیل کیا جسے عدو و یگانہ سب تسلیم کرتے ہیں۔ مجھے تو اس بات کا غم کھاے جاتا ہے کہ اس دور قحط الرجال میں اب کون ہے جو اس جرات رندانہ سے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑے گا۔  کون ہے جو ہمیشہ یہ امید بندھاتا رہے گا کہ میرے بچوں، انقلاب کا آنا تو ٹھر گیا ہے،  قوم مخلص اور ایماندار قیادت سے محروم  ہے،بیداری کی لہرآنے والی ہے، بس دین کا کام کرے جاو اور تنائج اللہ پر چھوڑ دو، وہی اپنے دین کا بول بالا کرنے والا ہے۔

اللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ

207754_473854839327487_1990456438_n

میرا وہ قائد اپنے رب کے پاس چلا گیا ہے جس کے ساتھ  میں نے زمین پر بیٹھ کرکھانا کھایا، جس کے مشفق چہرے سے پھوٹتا نور آج بھی میری یاداشت میں اسی طرح تازہ ہے جیسے کہ یہ کل ہی کی بات ہو۔ وہ جو پاکستان کی سب سے بڑی اسلامی تحریک کا روح رواں تھا اور مودودی و قطب و بنا کے ورثے کا امین تھا، جسے اسلامی مملکتوں کے سربراہان اپنے باہمی مسائل میں ثالث کرتے، لیکن وہ ایسا عملی انقلابی تھا کہ سکوں نا آشنا رہنا اسے سامان ہستی ٹھرا، جو کارکنوں کے ساتھ صف اول میں پولیس کے ڈندے کھانے کے لئے موجود رہتا، جو نا جاگیردار تھا اور نا تاحیات سربراہ، بلکہ ہر عام کارکن کی طرح دریاں اٹھانے والا شخص بالاخر مملکت خداداد میں تحریک اسلامی کی قائدانہ آواز بنا۔  جو لسانی غنڈوں کے ہاتھوں ہونے والے شہادتوں کے قافلوں کو اپنے آنسووں سے الوداع کہتا اور مقتل میں انکی نماز جنازہ پڑھاتا،  اقبالیات کا وہ خوشہ چیں اب ہمارے درمیاں نا رہا جس کی آواز کی گھن گرج رزم خود باطل ہو تو فولاد ہے مومن کا عملی نمونہ تھی۔

تمہارے بعد کہاں يہ وفا کے ہنگامے
کوئي کہاں سے تمہارا جواب لائے گا

اتحاد بین المسلمین اور بین المسالکی ہم آہنگی کاعلمبردار، ایک قائد جوسراپا عمل تھا اور غلطی اسی سے سرزرد ہوتی ہے جو باعمل ہو۔ کنارے پر بیٹھ کر پتھر مارنے والا جو کچھ نا کرے وہی فیصلے کی انسانی غلطیوں سےمبرا ہونے کامدعی ہوسکتا ہے، میرا قائد سزاوار ہو  تو اپنی خطا پر عوامی ندامت و برات کا  اظہار کرتا،  حق بات کہتا اور ڈٹ جاتا، جس نے امت کو جہاد فی سبیل اللہ کا بھولا سبق یاد دلایا اور فساد فی الارض کی تفریق سکھائ، جس نے افغانستان میں غیر اسلامی سخت گیری کے خلاف اسوقت آواز بلند کی جب ایسی بات کرنا، خصوصا کسی مذہبی شخصیت کے لئے سیاسی خودکشی تھی۔ جو گولیوں کی بوچھاڑ میں کھڑا رہا کہ اگر آج وہ پچھلے دروازے سے چلا جاے تو کل کون کھڑا رہے گا۔ افسوس کہ فتنوں اور جیکٹوں کے اس دور نارسا میں جب اسلام کی اخلاقی اقدار پر بات کرنے والا کوئ نہیں، جب دین مصطفوی کے محاسن اخلاق و درس نصیحت اس امت مرحوم کا نوحہ بن چکے ہیں، وہ مرد قلندر جو امت مسلمہ کی نشاط ثانیہ کا علمبردار تھا ،عزم، حوصلہ اور خلوص جس کی زندگی کا خاصہ تھا، ہمیں روتا بلکتا چھوڑ کر اپنے رب کے پاس یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ

میرے عزیزو – جنت میں ملاقات ہوگی

يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي
Share

September 2, 2012

کون ہے جان گالٹ، سوز درون کائنات؟

Filed under: ادبیات,سیاست,مذہب — ابو عزام @ 8:03 am

دروغ برگردن راوی پر کسی نے آئن رینڈ سے پوچھا کہ آپکی تصنیف آیٹلس شرگڈ بارہ سو صفحات کی ایک نہائت ضخیم کتاب ہے، آپ نے اس کو کبھی مختصر کرنے کا  سوچا؟ انسانی انفرادیت و آزادی کی طاقت اور جاہ حشمت کی نام نہاد علمبردار نے نہائت نخوت سے جواب دیا، کیا کبھی کسی نے یہ کہا ہے کہ انجیل ایک طویل کتاب ہے  اور اسکو مختصر ہونا چاہیے؟

تخلیقی انفرادیت کے لبادے میں چھپا کر جس بنیاد پرست انفرادیت کو آئن رینڈ ہوا دیتی نظر آتی ہے وہی ہمیں نطشے کے اوبیرمنش فوق البشر میں نظر آتا ہے سواے اسکے کہ یہاں اسکی اخلاقی قراردادو قابلیت کچھ اختیاری سی معلوم ہوتی ہے ۔سرمایہ دارانہ نظام اور انفرادیت کی اخلاقیات کا وہ علمبردار، کلاسیکی ادب میں دانتے و ملٹن و گوئٹے کے تصور ابلیس سے کچھ خاص مختلف نہیں، لیکن اس تفاوت کی صحیح توضیح و فرق ہمیں اقبال کے سوز درون کائنات ‘ابلیس’ اور مرد مومن کے  تجرباتی و متحرک کردار میں ہی صحیح طور پر عیاں نظر آتی ہے کہ ۔

می تپداز سوزِ من ، خونِ رگ کائنات
من بہ دو صرصرم ، من بہ غو تندرم

فکر نطشے کی طرح رینڈین ہیرو و ولن کا تصوربھی ان تخیلاتی سریع الفکر، صحیح النظر اور صائب الرائے افراد کے گرد اسی طرح مطوف ہے کہ سرحد ابلیس و یزداں  کا کوئ وجود نہیں۔ اقبال کے مرد مومن و ابلیس میں لیکن یہ خط تفریق نہائت عمدگی سے بنائ گئ ہے

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

کہ  جذبہ مسابقت و فوقیت  کی حدود پال ریان کے جاب کریٹرزسے ما سوا ہوں۔ افسوس یہ کہ ساری عمر معاشرتی زندگی و اشتراکی فوائد کے خلاف جنگ کرتی یہ مضطرب العقل خاتون جب خود پھیپڑوں کے سرطان میں مبتلا ہوئ تو سوشل سیکیورٹی لینے میں کچھ عار نا محسوس کی۔

بس یہی جان گالٹ موجودہ ریپبلکن پارٹی اور لبرٹیرنزم کی سوچ کا مختصر نوحہ ہے۔

Share

August 12, 2012

مسلماں زادہ ترکِ نسب کن

Filed under: سیاست,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 9:21 am

اعداے ملت اسلامیہ کا عرصہ دراز سے یہ منشا رہا ہے کہ امت واحدہ کو  نسلی اور وطنی تفرقات میں  بانٹے رکھیں۔ اس کی تازہ ترین مثال روہینگا کے مسلمانوں کے قتل عام پر ڈرائنگ روم لبرلیوں کا یہ ردعمل ہے کہ یہ  ایک نسلی و محدود جغرافیای معاملہ ہے، اس کو مسلمانوں کا مسئلہ بنانے کی کوشش کرنا غلط ہے۔

یہ عدم پرواہی و بے اعتنای ایک نہایت تباہ کن رجحان ہے جو درحقیقیت اورئنٹلزم کا کول ایڈ پینے سے لاحق ہوتا ہے۔ آج سے نہیں عرصہ دراز سے اسی قماش کے لوگ سلطان صلاح الدین ایوبی کو مسلمان نہیں بلکہ کرد فاتح، دولتہ عثمانیہ کو مسلمانوں کی نہیں بلکہ ترکوں کی امارات اور اسپین پر مسلمانوں کی حکومت کو بربروں کی سلطنت قرار دیتے ہیں۔ اس زمن میں قران کا موقف بلکل صاف ہے

و انّ ھذہ امتکم امة واحدة وانا ربکم فاتقون -مومنون ٥٢
اور
انماالمومنون اخوة فاصلحوا بین اخویکم -الحجرات ١٠

اس امت واحدہ کو رنگ و نسل، زبان و وطن اور ویسٹفیلین سوویرنیٹی کی بنیاد پر بانٹنے کا کام اسی کو زیب دیتا ہے جس نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول نا سن رکھا ہو

مثل المومنین فی تواد ہم وتراحمہم وتعاطفہم مثل الجسد والواحد اذا اشتکی منہ عضوتداعی لہ سائرالجسد بالسہر والحمی ﴿متفق علیہ﴾

“مومنوں کی مثال آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے ایک دوسرے کے ساتھ رحم کھانے میں ایک دوسرے کے ساتھ شفقت کرنے میں ایک جسم کے مانند ہے جب اس کا ایک عضو بیمار ہوجاتا ہے تو سارا جسم اس کے لیے بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔”

نیز مزید فرمایا

المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضا ﴿بخاری ۴۸۱ مسلم ۲۵۸۵﴾
“مومن ﴿دوسرے ﴾مومن کے لیے دیوار کے مثل ہے جس کی ایک اینٹ سے دوسرے اینٹ کو مضبوط بناتی ہے۔”

حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشارمومن کو جغرافیائ حدود کا خیال نہیں ہوتا، بحکم الہی وہ قبیلوں اور قوموں کو پہچان کا ذریعہ تو ضرور مانتا ہے لیکن اس کا دل ہر مسلمان کے دکھ درد میں برابر کا شریک ہوتا ہے چاہے وہ شام میں بشار الاسد کے ظلم و ستم سے پنجہ آزما ہو، ایران میں زلزلے کی تباہ کاریوں سے متاثر ہو یا برما کے بدھوں کی سنگینوں کا شکار ہو۔

 سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبرز مقام محمدؐ عربی است

وہ اپنی بے عملی کو چھپانے کے لیے حیلے بہانے نہیں ڈھونڈتا بلکہ جس امر کہ طاقت و قدرت اس کے رب نے عطا کی ہے اتنا عمل کر کے  نتیجہ اپنے خالق پر چھوڑ دیتا ہے۔ اس کو کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں ہوتا اور نا اس کے لیے بوسنیا کا یورپی مسلمان سوڈان کے افریقی مسلمان سے اور کاشغر کے اویغور بھائ سے چنداں مختلف ہوتا ہے۔ وہ تو بس یہ جانتا ہے کہ

نہ افغانیم ونے ترک و تتاریم
چمن زادیم و ازیک شاخساریم

مسلمانوں کی نسل کشی خواہ وہ بوسنیا میں ایتھنک کلینزنگ کے نام پر ہو، یا چاہے کسی جابر حکمراں کے ہاتھوں، اس امت کا برنگِ احمر و خون و رگ و پوست ایک ہے۔ اگر کسی ایک واقعے کو امتداد زمانہ سے زیادہ توجہ ملے اور دوسرے کو کچھ کم تو اس سے امت کے رشتوں میں کمی نہیں آجاتی۔وہ امت کو جغرافیے کی چھری سے ذبح کرنے کے بجاے ببانگ دہل کہتا ہے کہ

ان تازہ خداوں میں بڑا سب سے، وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، مذہب کا کفن ہے
یہ بُت کہ ترا شیدہ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کا شانہ دینِ نبوی ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیں ہے، تو مصطفوی ہے

امت میں نفاق کے پروردہ لوگوں کو مژدہ ہو کہ عربوں و ترکوں کو میانمارمیں اپنوں کا خون دامے درمے سخنے کھینچ لایا، تورانی و افغانی کی تمیز نا رہی، یہی منتہاے ملت ہے ،عرب نازد اگر، ترکِ عرب کن۔ و من الله توفیق۔

Share

May 6, 2012

!اسما محفوظ، تیری جرات کو سلام

Filed under: سیاست,مشاہدات — ابو عزام @ 7:51 am

اگر آپ اپنے ملک میں ہونے والی تحریک آزادی کے ایک سرگرم  ثقہ کارکن ہوں، امریکہ میں موجود ہوں اور آپکی اپنی فوجی حکومت آپکے لیے گرفتاری کا پروانہ جاری کردے تو آپ کیا کریں گے؟ سیاسی پناہ کی درخواست یا پھر ممکنہ قیدوبند میں واپسی؟ ہم میں سے بہت سوں کے لیے یہ سوال ایک نو برینر کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اسما محفوظ کے  لیے نہیں، وہ اپنے مقرر کردہ وقت پر مصر واپس لوٹ رہی ہیں۔ فراعنہ کی سرزمین میں جرات موسی رکھنے والی زینب الغزالیوں کی منزل مکمل آزادی یا موت ہے۔

کل رات مصر کی تحریک حریت کی اس کارکن اور ہیرو کو اکنا کے ایک عشائیے میں سننے کا اتفاق ہوا۔ یہ عشائیہ واے اسلام نامی دعوتی تنظیم کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا جو ریاستہاے متحدہ امریکہ میں دین کی دعوت کا کام کرتی ہے اور راقم کو اس سے تعلق کا شرف حاصل ہے۔ بیس منٹ کی ایک تقریر میں بہن اسما نے مصر کی تحریک آزادی، تحریر اسکوائر کے مناظر اور نوجوانان کے کردار کو اسقدر پر اثر طریقے سے بیان کیا کہ سامعین کی آنکھیں تر ہوگئیں، انکا کہنا تھا کہ انہیں تو مغربی میڈیا کی بدولت لوگ جانتے ہیں لیکن وہاں قید وبند میں  ہزاروں ایسے  کارکنان ہیں جنہوں نے اپنے ہاتھ، آنکھیں اور دیگر اعضا کھو دیے ہیں، سینکڑوں نے اپنی جانیں جان آفرین کے سپرد کردیں اور ان کا نام بھی کسی کو معلوم نہیں، لیکن کوئ بات نہیں کیونکہ اللہ تعالی کو ان کا نام معلوم ہے اور یہی سب سے اہم بات ہے۔

جرات اور استقامت کے اس زندہ نشان نے جب یہ آیت پڑھی کہ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ, خدا اس قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت خود نہیں بدلتی تو بے ساختہ اپنے وطن کی یاد آگئی۔ اسما محفوظ کی بنیادی وجہ شہرت انکی یہ ویڈیو ہے جو انہوں نے جنوری ۲۰۱۱ میں یوٹیوب پر پوسٹ کی تھی۔مصری خاتون صحافی منى الطحاوى کے مطابق اس ویڈیو نے مصری انقلاب کے شعلے کو مہمیز دی اور اکثر مبصرین کے مطابق یہ تحریک انقلاب کی وجہ بنی۔ اس مختصر پیغام اور بعد کی تقاریر میں اسما محفوظ کہتی ہیں کہ

میں یہ ویڈیو آپ کو ایک سادہ سا پیغام دینے کے لئے بنا رہی ہوں، ہم 25 جنوری کو تحریر اسکوائر جارہے ہیں۔ اگر ہم اب بھی غیرت کے نام پرزندہ رہنا چاہتے ہیں، اور ہم اس زمین پر وقارمیں جینا چاہتے ہیں تو ہمیں 25 جنوری کو تحریر اسکوائر جانا ہے … جو شخص یہ کہتا ہے کہ اسکا کوئ فائدہ نہیں کیونکہ وہاں بہت تھوڑے سے اور مٹھی بھر ہی لوگ ہونگے وہ جان لے کہ وہ انتظامیہ سے قطعی مختلف نہیں۔  اس جیسے غداروں کی وجہ سے ہی سیکیورٹی فورسز ہمیں گلیوں اور سڑکوں پر دوڑا کر مارتی ہے۔  آپ ۲۵ جنوری کو ضرور چلیں،  اگر آپ خواتین کے عزت و وقار کے بارے میں فکرمند ہیں تو آئیں اور تحریر اسکوائر میں اسکا دفاع کریں۔

اسما محفوظ نے اپنی تقریر میں کہا کہ انکو اس بات کی فکر ہے کہ مسلمان اور اقوام عالم اب مسلسل قتل عام اور ظلم و ستم دیکھ کر بے حس ہوتے چلے  ہیں،اور جو جوش و جذبہ مصر و لیبیا میں نظر آیا اب وہ شام میں نظر نہیں آتا جہاں پر روزانہ ایک جابر حکمران اپنے عوام پر جبر واستبداد کے پہاڑ توڑ رہا ہے، مصر کی موجودہ صورتحال پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوے انہوں نے کہا کہ ابھی وہ منزل جس کے لیے قربانیاں دی گئ ہیں وہ دور ہے۔ فوجی حکمرانوں نے ایمرجنسی قوانین کو دوبارہ لاگو کرنے کی سعی شروع کر رکھی ہے اور مجلس العسکری کی سیاست سے علیہدگی ضروری ہے۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ جرات و صداقت کی علمبردار ، تحریک حریت کی اس سپاہی اور تمام لوگ جو ظالم حکمران کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں ان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، آمین۔

Share

May 2, 2012

دو نظریاتی ریاستیں

Filed under: پاکستان,سیاست,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 4:00 am

سنہ ۱۹۴۷/۴۸ میں دو عدد نظریاتی ریاستی معرض وجود میں آئ تھیں جن کی بنا قومیتوں کی مذہبی بنیاد پر تقسیم تھی۔

نظریے پر عمل کتنا ہوا، اس کا اندازہ ان دو سرخیوں سے ہوجاتا ہے۔

سابق اسرائلی صدر موسے کاستو کو عدلیہ نے سات سال قید کی سزا سنا دی۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو قومی مصالحتی آرڈینینس یعنی این آر او پر عملدرآمد سے متعلق مقدمے میں عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنے اور توہین عدالت کا مرتکب ہونے  پر ایک منٹ کی سزا سنا دی ہے۔

جرائم کی نوعیت نہایت مختلف سہی لیکن اینکڈوٹ اچھی بنی ہے۔

Share

March 29, 2012

کھوکھلے خواب

Filed under: پاکستان,سیاست,مشاہدات — ابو عزام @ 10:31 pm

مارچ ۲۳ کے تناظر میں لکھی گئی یہ تحریر تو شائد کلمہ ابتذال کلیشے ہی قرار پاے لیکن بقول فیض، کبھی کبھی ایسا بھی لکھنا چاہیے۔

یہ لوگ کون ہیں اور کونسے خواب دیکھ رہے ہیں؟ کیا یہی وہ رویا اقبال ہے جس کا چہار دانگ عالم چرچا ہے، کیا یہی وہ خواب ہیں جس کی تعبیر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صورت میں قائم ہونے والی ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے؟

 ہم اسے توہم و اغفال و تجسم ہذیان تو قرار دے سکتے ہیں لیکن زمینی حقائق سے دور ان پوش و کلچرڈ گلچین کا اساس مملکت خداداد سے کیا لینا دینا۔ اردش کے استعمال کے بنا چارہ نہیں کہ اس شماریات کا سیمپل سائز تو خدا جانے کس قسم کا آوٹلائر ہے، کوئ باشرع جوان نہیں، کوئ حجابی خاتون نہیں، ٹک ذکر دین نہیں، کہیں نظام مصطفوی کی پکار نہیں، فکر ہے تو بس اس بات کی کہ پاکستان کا ویزہ لینے کے لیے لوگوں کی لاین لگ جائے۔ مستعار لی گئی  مغربی عقل کے یہ متوالے پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان اورمملکت ناروے و ریاست آسٹریلیا ومملکت نیدرلینڈز میں کیا فرق دیکھتے ہیں جہاں کی ہیومن ڈویلپمینٹ انڈیکس ٹاپ تھری میں شمار ہوتی ہے۔ اداروں کی مضبوطی کی خواہش یا قانون کی بالادستی بات تو بجا ٹھری لیکن نظریات کے فرق میں برہان قاطع کیا ہے؟ جس اساس پرمملکت پاکستان کا وجود ٹھرا، اس کا تذکرہ ندارد، کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے۔ کیا یہی مملکت پاکستان کے حصول کا خواب تھا؟ اگریہی بات ٹھری تو پھردو قومی نظریے پر  دو حرف بھیجیے اور اسے خلیج بنگال کی طرح اس بار بحیرہ عرب میں ڈبو دیں، قرار داد مقاصد کو آگ لگا دیں، اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو سیکیولر جمہوریہ قرار دیتے ہوئے ایک “ترقی یافتہ” ملک بنانے کی جدوجہد کے لیے کمر باندھ لیں۔

قومی لباس سے محروم تن بدن پر موجود جن خمار آلود آنکھوں نے یہ اسکرپٹڈ خواب بنے ہیں انہیں میں استعمارانہ نظام کے خواب، سرمایہ دارانہ نظام کے خواب، گلوبل معیشیت کے خواب یا کالونیلزم کے خواب ہی گردان سکتا ہوں۔ مملکت خداداد کے مستقبل کے لیے اقامت دین اور قیام نظام مصطفے صلی اللہ  علیہ وسلم ہی ایک خواب ہے جس کوغلامان مصطفی کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اس کی تعبیر کی سعی کرتے ہیں۔

ڈرائنگ روم کی سیاست کرنے والے جو لوگ اپنی زبان میں خواب بھی نہیں دیکھ سکتے ان سے فسانوی حقیقت کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔

Share
Older Posts »

Powered by WordPress