فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

March 16, 2012

کاش کہیں سے تھوڑی عقل مل جاتی

Filed under: پاکستان,خبریں,سیاست,طنزومزاح — ابو عزام @ 3:00 am

تو اوریا مقبول جان صاحب کا بڑا بھلا ہوجاتا۔

ایک تو احباب نے ان سوڈو انٹیلیکچولز کے لنک بھیج بھیج کر ناک میں دم کر رکھا ہے اوربندہ مروت میں یہ بھی نہیں کہ سکتا کہ بھائ، ایسی بے پرکی تو ہم نے مظہر کلیم سے بھی نا سنی، آپ کو ذرا احساس تو ہونا چاہیے کہ یہ نادان دوست ہم اصحاب میمنہ کو کس قدر مضحکہ خیز دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کرتے ہیں؟ تحقیق سے ان کو کوئ واسطہ ہو نا ہوکہ ہر ایک کو اپنی راے کا حق ہے لیکن بقول شخصے، اپنے حقائق کا نہیں۔ کم از کم ڈالڈا ملاتے ہوے کچھ تو خیال کریں کہ اس تکنیکی دور میں انکی اس بے سروپا باتوں کو جھٹلانا اور جھوٹے کو گھر تک چھوڑ کر آنا کس قدر آسان ہے۔

تو محترم کا یہ کالم ایک برقی ڈاک میں ملا۔  مزاح  پڑھ کر طبعیت باغ باغ ہو گئ کہ یہ دفاعی میکینزم ہے۔ اگر خون جلانا شروع کریں تو قومی اخبار ختم ہونے سے پہلے بلند فشار خون کی بنا پر جان جان آفرین کے سپرد ہوجائے۔اب اسکا پہلا پیراگراف پڑھیں اورمندرجہ ذیل ویڈیو دیکھ لیں، پھر بتائیں کہ یہ سلیمانی ٹوپی پہنے ہوئے پلسی کہاں چھپے ہیں جنہوں نے بقول جان صاحب کے “اسے دھکیل کر پیچھے کر دیا”؟

Marlon Brando’s Oscar® win for ” The Godfather” by WhiteWolf-Cree

اب اس مضحکہ خیز کالم کا دوسرا پیراگراف پڑھیں اور سر پیٹیں۔ جان صاحب، اگر تھوڑی سی تحقیق کر لیتے تو نو اینڈ ان سایٹ، عراق فار سیل، عراق ان  فریگمنٹس، ریتھنک افغانستان، انسائڈ گواتنامو، انسائڈ عراق،  اینڈ آف امریکہ، بش وار، رولز آف انگیجمنٹ، انڈیپینڈنٹ انٹروینشن, فارن ہایٹ نائن الیون اور اس جیسی بیسیوں ڈاکومنٹریز مل جاتیں جن پر عراق و افغانستان میں ہونے والے مظالم پر روشنی ڈالی گئی ہے اورامریکی جارحیت پر کھل  کر تنقید کی گئ ہے۔ سب چھوڑیں، ٹیکسی ٹو دی ڈارک سائڈ جیسی رلا دینے والی دستاویزی فلم جو عراق افغانستان و گوانتناموبے میں امریکی مظالم سے کو بے نقاب کرتی ہے ۲۰۰۷ میں آسکر ملا۔ آپ کو پینٹاگان پیپرز بھی کسی قطار و شمار میں نظر نا آتی ہوگی کہ حقیقت سے آپکی تحاریر کا موضع بھی نہیں ملتا۔ آپ کو ایوارڈ یافتہ و نامزد ڈاکومنٹریز میں یقینا وار گیم، اینڈرسن پلاٹون،بروکن رینبو،  ہیل فائر جرنی فرام ہیروشیما، ہو کلڈ ونسنٹ چن  ، فور لٹل گرلز بھی نظر نا آئ ہونگی۔ بس اب مزید کچھ کہنے سننے کی سکت کہاں بس اتنا کہتا چلوں کہ اگر آپ کو محترمہ شرمین عبید کا ایورڈ لینا پسند  نہیں تو نا سہی، حالات و واقعات میں دروغ گوئ سے کام لیے بغیر بھی یہ مدعا آرام سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ نیز شرمین عبید کو یہ ایوارڈ ایک امریکی ڈائریکٹر ڈینیل ینگی کے ساتھ ملا ہے، مارلن برانڈو کی طرح ان کی تن تنہا اداکاری پر نہیں، اب بے چارے ینگی کا کیا قصور جان صاحب کہ وہ بھی ایوارڈ کو ٹھوکر مار دے۔آپ کی دروغ گوئ پر ہمارا تو کچھ ایسا ہی عالم ہے کہ

حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں


Share

February 13, 2012

سیاہ، سفید اور سرمئی

Filed under: سیاست — ابو عزام @ 8:00 am

کچھ خبریں سیاہ ہوتی ہیں، کچھ سفید اور کچھ سرمئی

کچھ مقامات پر قاری ان رنگوں کے وابسته بطرز تفکر شخصی ہونے پر اصرار کرسکتا ہے۔ لیکن ہر جگہ ایسا نہیں ہوتا۔

شام خون آشام سیاہ ہے، لیکن روس و چین کی نگاہوں سے اوجھل، انکا ویٹو مغرب کے ہسٹیریا کو مہمیز دیتا ہے۔ سچائ دو رنگی نہیں ہوتی،مگر مفادات میں قوس و قزح کے رنگ  بہت بکھرے ہیں۔

کیونکہ اگر لہو کا رنگ ہی تاریکی شب سے نمود سحر کا علمبردار ہوتا تو وہ فلسطینی ریاست کا وعدہ ویٹو نا ہوتا، آج یہ بساط پلٹی ہے تو کون جانے سچائیوں کا کیا رنگ ہوتا ہے۔

افغان کیس بھی واضع ہے کہ معصوم نہتے شہریوں، عورتوں اور بچوں کے خون سے زمیں کو رنگ دینا دامن انسانیت پر ایک سیاہ دھبہ ہے۔

تاریخ کہتی ہے کہ جب کسی قوم کے دامن پر لگے دھبے، زیادہ سیاہ ہوتے چلے جایا کریں کہ اس دامن کی سفیدی سرمئی ہوتی جاے تو ایسی اقوام مٹ جایا کرتی ہیں۔

بأى ذنب قتلت!

Share

January 13, 2012

اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز از محمد حنیف کا مختصر تعارف

Filed under: ادبیات,پاکستان,سیاست,طنزومزاح — ابو عزام @ 6:32 pm

کل شب کافی عرصے بعد انگریزی کی ایک نان فکشن کتاب کے دو سو کے قریب صفحات ایک نشست میں ختم کیے، باقی اس سے قبل پورے ہفتےمیں مختلف مواقع میں پڑھ چکا تھا، غالبا اس سے پہلے لایف آف پای ہی ایسی نان فکشن کتاب تھی جس کے انداز بیاں نے توجہ کو اس قدر مرکوز رکھا اور صفحہ در صفحہ کس طرح گذرا پتا نہیں چلا۔ راشد بھای سے یہ کتاب کچھ ماہ پہلے مستعار لی تھی، شروع کی لیکن دو ابواب کے بعد کچھ سفر کی مصروفیتوں کی بنا پر ختم نا کر سکا۔ اب دوبارہ اٹھای تو سوچا کہ ختم کر کے ہی چھوڑوں گا۔ محمد حنیف کی اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز اپنے متنازع موضوع اور معترضانہ مواد کے باوجود یا شاید اسی وجہ سے ایک دلچسپ ناول ہے جو ۸۰ کی دہائ کی پاکستانی سیاست، فوج اور دور آمریت کے سماجی رجحانات پر ایک طنزیہ و تمسخرانہ نظر ڈالتا ہے۔

دو ہزار نو میں شائع ہونے والے اس ناول ’اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز‘ کے مصنف، ڈرامہ نگار اور صحافی محمد حنیف کو کامن ویلتھ رائٹرز کا انعام مل چکا ہے اور اگر وہ اپنی اسی طرح کی صف شکن تحاریر لکھتے رہے تو مین بکر پرایز کی لانگ لسٹ سے شارٹ لسٹ ہونے میں کچھ زیادہ وقت نا لگے گا۔ اس ناول کا مرکزی خیال آمریت اور اس کے خمیر سے اٹھنے ہونے والی وہ مضحکہ خیزعبودیت و اضطرار کی ملی جلی کیفیت ہے جو انسانی دماغ میں فوج کے حکومتی نظام سے پروان چڑھتی ہوتی ہے۔ راقم کا اپنا تجربہ ہے کہ جب سانحہ بہاولپور ہوا تو سن آٹھ برس کا تھا لیکن اس عمر میں بھی یہ خیال کہ ضیا الحق کے علاوہ کوئی اور بھی صدر مملکت ہو سکتا ہے ایک نہایت  عجیب و ناممکن بات لگتی تھی۔ غیرجماعتی انتخابات کے اعلان پر بھی ہم بڑے عرصے تک اسی وجہ سے خفا رہے رہے کہ ہماری دانست میں یہ وہ انتخابات تھے جن میں جماعت اسلامی کے سوا سب جماعتوں کو حصہ لینے کی آزادی تھی۔ اس سے آپ ہماری سیاسی بالیدگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں لیکن یہ تو جملہ ہاے معترضہ ہیں، چلیے تبصرے کی جانب۔

محمد حنیف کے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ ان کے نزدیک کوئی چیز بھی تنقید و تمسخر سے ماورا نہیں۔ دی کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز میں بھی یہی سب وشتم بدرجہ اتم موجود ہے۔ جنرل ضیا کی آنکھوں سے لیکرانکے غدودان معدہ تک،پاکستان کی اسلامایزشن کا الزام ہو یا جرنیلوں کی میٹنگ، بیگم شفیق جہاں ضیا الحق کا بیڈروم ہو یا حدود آرڈینینس کی شرائط، ان کا خامہ بے محابہ ایک شتر بے مہارکی طرح تمام حدود قیود سے آزاد اپنے مناظر اور کردار قرطاس پر بکھیرتا چلا جاتا ہے۔ حنیف صاحب کے کردار یک جہتی اور مناظر پر انکی گرفت قوی ہے۔اپنے کرداروں کے پس منظر سے پیش منظر تک کا تعارف وہ اسطرح کرواتے ہیں کہ ایک تشنگی سی باقی رہتی ہے اور یہی اسرار کا باعث بنتی ہے۔ ان کے کرداروں کا کینوس خاصہ بڑا ہے لیکن وہ سب کے ساتھ انصاف کرتے نظر آتے ہیں۔ امریکی سفیرآرنلڈ رافیل، سی آی اے کے چارلس کوگن، اسلم بیگ، بن لادن، کیانی، برگیڈیر ٹی ایم، جنرل اختر عبدالرحمان پر مبنی کردار ہوں یا بے بی او اور علی شگری کے فسانوی کردار، انکا قلم چابکدستی سے ان زندگیوں اور واقعات کو اس طرح سے جوڑتا ہے کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے۔

محمد حنیف نے خود تو اس کتاب کو ایک انٹرویو میں فکشن قرار دیا تھا لیکن بیشتر کیچ ٹوینٹی ٹو اور جارج آرویل کی طرز کے ‘فکشنات’ کی طرح انہوں نے اپنی کہانی کے تانے بانے حقیقی واقعات سے کچھ اس طرح جوڑے ہیں کہ پڑھنے والا حقیقیت و فسانے کے درمیان ایک خلا میں معلق رہتا ہے اور آہستہ آہستہ فسانہ فسانہ نہیں رہتابلکہ حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے۔محمد حنیف کے افکارونظریات سے اختلاف تو بلکل ہوسکتا ہے لیکن ان کی ندرت خیال کی تعریف نا کرنا ناانصافی ہوگی۔ اندھی زینب کی بددعاوں سے لے کر کوے کی غیر قانونی پرواز ، شاہی قلعے کے سیکرٹری جنرل قیدی اور حرم کے قاضی کو کی جانے والی فون کال تک ان کے قلم کا نشتر ایسے زخم ادھیڑتا ہے کہ جو پاکستانی سیاسی و سماجی تناظر میں شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں اس ناول کی کہانی نہیں بیان کروں گا، بس اتنا کہتا چلوں گا کہ بقول مصنف انکا پہلا ناول ایک سیاسی تھرلر ہے اور یہ بات صد فیصد درست ہے۔

نازک طبع لوگوں کے لیے لیکن انتباہ ہے، غالب گمان ہمارا یہ ہے کہ یہ کتاب اور اس میں استعمال کی گی زبان و استعارات و مضامین طبعیت پر گراں گذرے گی۔ فحاشی کی تعریف میں تفرق ہو سکتا ہے لیکن مشتزنی سے لواطت اور راشد بھای کے الفاظ میں اعضاے بقاے نسل انسانی بلا شمار مستعمل ہیں لہذا احتیاط لازم اور جس کو ہو جان و دل عزیز اسکی گلی میں جاے کیوں۔

بی بی سی کی خبر ہے کہ اپنے پہلے ناول پر پیدا ہونے والے ردِ عمل کے بارے میں محمد حنیف نے بتایا تھا کہ ’اور کسی نے تو کوئی خاص ردِ عمل ظاہر نہیں کیا لیکن ایک صاحب نے انہیں مرکزی کردار (جنرل ضیا) کے بیٹے کا یہ پیغام پہنچایا کے ’میرے والد زندہ ہوتے تو پھر میں دیکھتا کہ وہ (حنیف) یہ ناول کیسے لکھتا‘۔
اس تبصرے کے اختتام حنیف صاحب کے کردار کورپورل لسارڈ کا یہ تاریخی جملہ نقل کرتا چلوں جو اس نے صوبیدار میجر کے اس استفسار پرکہ “یہ جو ہاٹ ڈاگ تم ہمارے لیے اتنے چاو سے لاے ہو، وہ حلال ہے کہ نہیں” کہا تھا،

it is a piece of f******* meat in a piece of f******* bread. If we can’t agree on that, what the hell am I doing here?”

اب محمد حنیف کی اگلی کتاب، آور لیڈی آف ایلس بھٹی کو پڑھنا ہے۔ اب یہاں معاملہ اس بار کچھ یوں ہے کہ کتاب ہماری ہے اور قبضہ راشد بھائی کا ہے۔ دیکھیں وہ کب عنایت کرتے ہیں۔

Share

September 30, 2011

انـا لله وانـا اليـه راجـعـون

Filed under: خبریں,سیاست,مشاہدات — ابو عزام @ 8:18 pm

ابھی اروائن گیارہ کی فرد جرم کی سیاہی خشک نا ہوئی تھی کہ‌ امریکی انتظامیہ نے آج امریکی آئین کی پانچویں ترمیم کا جنازہ نکال دیا گیا جس کے مطابق کسی امریکی شہری کو ماورائے عدالت قتل نہیں کیا جا سکتا.  انـا لله وانـا اليـه راجـعـون- امام انورالولاکی کی امریکی حملے میں‌ شہادت کے زمن میں راقم نے سیلون کے کالم نگار گلین گلینوالڈ کے کالم کا ترجمہ کیا ہے جو درج زیل ہے۔

پچھلے سال ماہ جنوری میں‌ یہ بات سامنے آئی تھی کہ ابامہ انتظامیہ نے امریکی شہریوں کی ایک ہٹ لسٹ تیار کی ہےجن کے ماورائے عدالت قتل کا حکم دیا گیا ہے۔  ان میں سے ایک شہری انور الاولاکی بھی ہیں۔ ان کے خلاف فرد جرم دائر کرنے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی گئی حالانکہ اباما انتظامیہ نے ایک سال پہلے اس پر غور کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ اس بارئے میں‌ قومی سلامتی کے یمنی ماہرین کے شدید شک و شبہات ہیں کہ انور اولاکی کا القاعدہ سے آپریشنل یا عملی طور پر کوئی تعلق بھی تھا اور نا کوئی ثبوت ان کے خلاف لایا گیا۔ صرف غیر ثابت شدہ حکومتی الزامات جن کی عدالت میں‌کوئی مصدقہ حیثیت نہیں۔ اولاکی کے والد نے جب صدارتی حکم کے خلاف اپنے بیٹے کی جان بچانے اور قتل کے احکامات کی قانونی حیثیت کو عدالت میں چیلینج کیا تو امریکہ محکمہ انصاف نے یہ کہ کر یہ کیس باہر پھینک دیا کہ یہ یہ مملکت کے راز ہیں اوریہ عدلیہ کی دسترس سے باہرہیں۔ اولاکی کو امریکی صدر کی ایما پر قتل کیا گیا جو کہ ان کا منصف بھی ہے، جیوری بھی ہے اور جلاد بھی۔

جب اولاکی کی امریکی شہریوں کی ہٹ لسٹ میں‌موجود ہونے کی تصدیق ہوئی تو نیویارک‌ ٹایمز نے لکھا کہ ‘یہ نہائت غیر معمولی بات ہے اور اس کی تاریخ میں‌ مثل بہت کم ملتی ہے۔ یہ  شاذ و نادر ہئ ہوتا ہے کہ کسی امریکی کو ہدف بنا کر قتل کرنے کی منظوری دی جائے۔

کئی ناکام کوششوں کے بعد آج امریکی انتظامیہ انور اولاکی کو قتل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس کے لئے دیرینہ آمر دوست صدر صالح کی مدد لی گئی جنہوں نے اپنے شہریوں‌کو مارنے سے تھوڑے وقت کی چھٹی لی تاکہ امریکی انتظامیہ کو اس کا اپنا شہری مارنے میں مدد دے سکیں۔ امریکی انتظامیہ نے اس زمن اپنی حماقت سے  ایک معمولی شخص کو شہید کے درجے پر فائز کرتے ہوئے اپنا حقیقی چہرہ دنیا کو دکھا دیا۔ ہمیں‌یقین ہے کہ میڈیا کا پیٹ بھرنے کے لئے اب حکومت اور میڈیا دونوں نے اگلے بن لادن کی تلاش دوبارہ شروع کر دی ہوگی،

سب سے حیرت ناک بات یہ نہیں کہ امریکی حکومت نے وہی کام کیا جس جس سے امریکی آئین کی پانچویں ترمیم میں‌یکسر  طور پر منع کیا گیا ہے،یعنی اپنے ہی شہریوں کا قتل، اور اسی دوران پہلی ترمیم یعنی آزادی اظہار کی آزادی پر بھی ضرب لگائی گئی چونکہ عدالت میں ان الزامات پر اب کبھی بحث نا ہوگی۔ اس سے بھی حیرت ناک بات یہ ہے کہ اس ہلاکت کو اس طرح پیش کیا گیا کہ امریکی شہری اس بات پر نا صرف یہ کہ کوئی اعتراض بھی نہیں‌ کریں‌ گے بلکہ کھڑے ہو کر امریکی حکومت کی اپنے ہی شہریوں‌کو قتل کرنے کی نئی طاقت پر تالیاں بجائیں گے۔ یہ وہ طاقت ہے جس کے ذریعے اپنے کسی شہری کو کسی بھی قانونی کاروائی کے بغیر ماورائے عدالت قتل کیا جاسکتا ہے۔ بہت سے لوگ صدر کی مضبوطی، قوت فیصلہ اور سخت جانی کو سراہیں گے ۔ ان میں بہت سے وہ ‘صالحین’  بھی شامل ہونگے جنہوں نے ٹیکساس کے گورنر پیری ،جو آج کل صدارت کے امیدوار ہیں، ان کے ریاست ٹیکساس میں زانیوں اور قاتلوں کے تختہ دار پر لٹکانے کے عمل پر خوش ہونے والے ٹی پارٹی کے اراکین کے رد عمل  کو انسانیت سوز قرار دیا تھا۔ لیکن کم از کم ان قیدیوں‌ کو عدالت کے کٹھرے میں‌ تو لایا گیا تھا اور ان کے قتل سے پہلے انہیں‌ قانون کے مطابق اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع دیا گیا تھا، انو الولاکی کو تو کوئی موقع نہیں‌ دیا گیا ۔



آمریت کے نقطہ نگاہ سے یہ امریکی سیاسی پس منظر کا کارنامہ عظیم ہے۔ یہ یقینا ایک گراں‌ قدر بات ہے کہ نا صرف ایک ایسا طریقہ نکال جائے کہ آپ عوام کی وہ آئینی انفرادی آزادیاں سلب کرلیں‌ جو انہیں‌ریاست کے جبر سے بچانے کے لئے بنائی گئی تھیں‌۔ لیکن اس سے بھی بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ایسا ماحول بنا دیا جائے کہ یہ  شہری بھیڑ بکریوں کی طرح ان آزادیوں‌ کے چھن جانے پر تالیاں‌ بھی بجائیں۔

میں جب بھی اس موضوع پر قلم اٹھاتا ہو، مجھے جو بات نہایت پریشان کرتی ہے وہ  ڈیموکریٹس کی بش کی پالیسیوں پر تنقید ہے۔ یاد ہے جب صدر بش نے امریکی شہریوں کو بلا اجازت حراست میں‌ رکھنے اور ان کی گفتگو سننے کی طاقت کا قانون منظور کروایا تھا؟ اس پر ڈیموکریٹس نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا اور کس قدر لے دے ہوئی تھی۔  اب وہی لوگ صرف حکومتی ذرائع کی اطلاع اور کسی عدالتی عمل کے بغیر کسی امریکی شہری کو ہلاک کردینے پر خاموش ہیں کیونکہ انتظامیہ کہتی ہے کہ وہ دہشتگرد تھا، یہ کونسا انصاف ہے؟

ان دنوں‌ لبرلز کا نعرہ تھا، کیا آپ پسند کریں‌گے کہ ہیلری کلنٹن کے پاس آپ کا فون سننے اور آپ کو ماورائے عدالت قید کرنے کے طاقت ہو؟ آج انہی لوگوں سے  یہ سوال کیا جانا چاہئے کہ‌ اب آپ کو کیسا لگے کا کہ جب امریکی شہریوں‌کو ماورائے عدالت قتل کرنے کی اجازت رک پیری یا مشیل باکمین کے ہاتھ میں‌ہو؟

گلین گرین والڈ، سیلون ڈاٹ کام۔

وبشر الصابرين الذين اذا اصابتهم مصيبة قالو انـا لله وانـا اليـه راجـعـون.
يا أيتها النفس المطمئنة ارجعي إلى ربك راضية مرضية, فادخلي في عبادي وادخلي جنتي.

 

Share

September 28, 2011

اروائن گیارہ – عہد زباں بندی میں حسینیت کے علمبردار

Filed under: سیاست,مشاہدات — ابو عزام @ 7:27 am

مغرب آزادی اظہار کو انسان کا بنیادی حق گردانتا ہے۔ امریکی آئین کی پہلی ترمیم جو کہ ‘بل آف رایٹس’ کا حصہ ہے کے مطابق ہر فرد کو آزادی اظہار کا حق حاصل ہے اور امریکی ایوان نمایندگان کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتا جس سے کسی سرکاری مذہب کی رائے ہموار ہوتی ہو ، کسی کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنےسے روکا جاتا ہو، عبادات میں خلل ڈالا جا سکتا ہو، کسی فرد یا افراد کے گروہ کی زباں بندی ہوتی ہو، یا انہیں پرامن طور پر اجتماع کرنے کی آزادی سلب کی جاتی ہو یا کوئی ایسا قانون بنایا جا سکے جس کے  ذریعے زرائع ابلاغ پر قدغن لگائی جا سکتی ہو۔

لیکن قوانین تو شائد بنتے ہی اپنی مرضی کے مطابق توڑنے مروڑنے کے لئے ہیں، حبس بے جا کے خلاف قانون کی بندش ہو، ایک لاکھ بیس ہزار جاپانی امریکیوں کی انٹرمٹنٹ قفل بندی ہو یا پھر اورینج کاونٹی کی عدالت کی جامعہ اروائن کے گیارہ  طالبعلموں کے خلاف فرد جرم ہو  جنہوں نے اسرائیلی سفیر کی تقریر کے دوران اپنی رائے کا ببانگ دہل اظہار کیا ۔

فروری 2010 میں غزہ کے محاصرے اور حملوں کے دوران اسرائیلی سفیر مائکل اورن نے جامعہ اروائن کیلیفورنیا میں خطاب کیا۔ اس خطاب کے دوران مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے اراکین گیارہ طالبعلموں نے رفتہ رفتہ کھڑے ہوکر زبانی احتجاج کیا اور سفیر کو فلسطین میں ہونے والے ظلم و بربریت پر ظالم، جارح اور قاتل کے القابات سے نوازا۔ صدائے احتجاج بلند کرنے پر جب پولیس نے ان طالبعلموں کو باہر نکالا تو وہ کسی مزاحمت کے بغیر کمرے سے باہر چلے گئے جو کہ ان کی امن پسندی کا واضع پیغام تھا۔ اس تمام واقعے کے تصویری و وڈیو ثبوت موجود ہیں۔ اس واقعے پر یونیورسٹی نے انہیں ایک سیمسٹر کے لئے معطل کر دیا اور ایم ایس اے کو پروبیشن پر رکھ دیا۔

تقریبا ایک سال بعد اورینج کاونٹی کے پبلک پراسیکیوٹر کو اس بات کا خیال آیا کہ اسرائیل کے سفیر کے خلاف مسلمان طالبعلموں کا ایسا جرم کیسے معاف کیا جاسکتا ہے، ان صاحب نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے ان طالبعلموں کے خلاف مقدمہ دائر کیا اورپچھلے جمعے کے روز عدالت نے انہیں مجرم قرار دے دیا۔ ان کو تین سال کی پروبیشن یا چھپن گھنٹے کی کمیونٹی سروس کی سزا سنائی گئی اور تقریبا دو سو ڈالر کا جرمانہ ادا کرنے پڑئے گا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ یہ مقدمہ امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے تحت ہی لڑا گیا۔ استغاثہ کا موقف تھا کہ ان طالبعلموں نے سفیر کے اظہار رائے کے حق کو چھینا جو کہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے۔ اگر اس قانونی موشگافی کو مان لیا جائے تو ٹاون ہال کی میٹنگوں میں ہونے والے شور و غوغا اور اختلاف رائے جو کہ نہائت معمول کی بات ہے بھی غیر قانونی قرار پائے گا اورٹی پارٹی کے ان تمام افراد کے خلاف بھی مقدمہ کرنا چاہئے جنہوں‌ نے حالیہ دور میں ٹاون ہال میٹنگوں کو ثبوتاژ کرنے کہ منصوبہ بندی کی تھی۔ امریکی کانگریس کے اس رکن کے خلاف بھی مقدمہ چلنا چاہیے جس نے صدر اوبامہ کو سرعام ان کے خطاب کے دوران با آواز بلند ‘تم جھوٹ بولتے ہو‘ کہا تھا۔ دور کیوں جائیں ابھی ویسٹ بارو چرچ کے اراکین کو امریکی فوجیوں کے جنازوں پر نفرت انگیز بورڈز اور نعروں سے بھرپور مظاہروں کی اجازت سپریم کورٹ‌ نے دی ہے کہ یہ آزادی رائے کی اجازت ہے۔‌ پادری جیری جونز کا واقعہ تو کوئی بھی مسلمان نہیں‌ بھول سکتا۔ لیکن اگر یہ سب بھی آپ کو دور کی کوڑیاں لگتی ہوں تو چلیں ایک بلکل مماثل واقعہ ہی دیکھ لیں جب پچھلے سال نومبر میں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے دورے کے دوران ‘جیوز فار پیس’ نامی تنظیم کے پانچ یہودی مظاہرین نے بلکل اسی طرح سے صدائے احتجاج بلند کی تو انہیں بے دخلی کے سوا کسی اور سزا کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس تمام گفتگو سے مدعا یہ ہے کہ اس قسم کا امتیازی سلوک مسلمان طالبعلموں کے ساتھ ہی کیوں‌روا رکھا گیا۔ جامعہ اروائن کے شعبہ قانون کے ڈین ارون چرمنسکی کا خود یہی کہنا ہے کہ جامعہ کی اپنی نظم و ضبط کے خلاف دی گئیں سزائیں اور پابندیاں ان طالبعلموں کے لئے کافی تھیں، کسی فوجداری مجرمانہ مقدمے کا اطلاق  اس مظاہرے  پر نہیں ہوتا۔ کئیر، اے سی ایل یو اور کئی یہودی تنظیموں اور ربیوں نے بھی اس شرمناک سزا پر صدائے احتجاج بلند کی اور اروائن گیارہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ اس زمن میں‌ کئیر کی محترمہ امینہ قاضی کا اورینج کاونٹی رجسٹر میں‌ لکھا گیا کالم ڈسٹرکٹ اٹارنی کے منہ پر دلایل و براہین و قاطعین کا ایک بھرپور طمانچہ ہے۔

یہ فیصلہ امریکی روایات کے خلاف ہے، آزادی اظہار پر حملہ ہے، جمہوری اقدار پر دست درازی ہے۔ مجھے اروائن گیارہ کو آکیسویں صدی کے روزا پارکس اور مارٹن لوتھر کنگ  ماننے میں‌کوئی مظائقہ نہیں اور  واثق یقین ہے کہ ہیبیس کورپس کی معطلی کی طرح ایک دن اس فیصلے کو بھی تاریخ کے سیاہ صفحات میں‌درج کیا جائے گا۔

سلام اروائن کے ان گیارہ طالبعلموں‌پر جنہوں نے اپنے کیرئر کی قربانی دے کر غزہ کے مظلوموں کے حق میں‌آواز بلند کی۔ اب ان کے ریکارڈ‌ پر ایک ‘مس ڈیمینر’ کا دھبہ ہے جو کہ مٹائے نہیں مٹ‌ سکتا۔ فارغ‌التحصیل ہونے کے بعد جب یہ کہیں‌ نوکری کے لئے جائیں‌ گے تو بیک گراونڈ چیک میں‌ یہ سزا دور سے دکھائی دے گی۔ لیکن انہیں اس بات کی پروا نہیں، انہیں‌فکر تو اس بات کی ہے کہ غزہ کے بے آواز لوگوں کو آواز مل جائے.

مبارک ہو ان طالبعلموں کو کہ انہوں نے اسرائیل کے ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھا کر رسم حسینیت کی لاج رکھی اور کسی ملامت کرنے والے کا خوف ان کو اپنے مشن سے دور نا کرسکا۔ سلام ہو ان ماوں پر جنہوں نے اپنے بچوں کو ہمیشہ سچ کہنے کا درس دیا۔ ظالم و جابر کے خلاف آواز حق بلند کرنا افضل جہاد ہے، آج اروائین کے ان گیارہ طلبعلوں نے اس روایت کا پاس رکھا جو کہ امت مسلمہ کا ہی خاصہ ہے۔

حسین تو نا رہا اور تیرا گھر نا رہا
تیرے بعد مگر ظالموں کا ڈر نا رہا

Share

February 2, 2011

فراعنہ کی سرزمیں اور ٹوئٹر انقلابی

Filed under: خبریں,سیاست — ابو عزام @ 12:23 am

انقلابات ٹوئٹر اور فیس بک سے نہیں آتے۔

انقلابات سوشل میڈیا کی آمد سے بہت پہلے سے آ رہے ہیں اور اس وسيلة الاتصال کے ختم ہونے کے بعد بھی آتے رہیں گے۔اسکا کیٹیلسٹ کبھی صدا بہ صحرا سندھ ہوتی ہے تو کبھی ٹوئٹ۔ انقلابات کا منبع  ظلم اور جبر، ناانصافی اور مطلق العنانی کی  مخالفت سے پھوٹتا ہے جس کی ابتدا معاشرتی اور معاشی مسائل کا حل اور انتہا انسان کو انسان کی غلامی سے نکال کر اپنے رب کی بندگی میں‌ دینا قرار پاتی ہے۔
آج سرزمین یوسف کا انقلاب تسلسل ہے اس اذاں کا جو قطب نے دار پر چڑھ کر اور البنا نے سینے پر گولی کھا کر دی ۔ کردار مختلف سہی لیکن آب جبر و استبداد کے پردے ہٹا دیں اور جمہوری طریقے سے لوگوں کو اپنا حق راےدہی استعمال کرنے کا حق دیں تو تونس سے قاہرہ تک غنوشی و الہلباوی و بدیع ہی ابھرتے ہیں۔ ‘روشن خیال’ اس ‘ہائی جیکنگ’ کا منظر فلسطین و الجزائر میں دیکھ چکے ہیں، اب قاہرہ کی گلیوں میں دیکھیں۔
’ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ‘
Share

December 23, 2010

لنگڑی بطخ کانگریس

Filed under: پاکستان,سیاست,مشاہدات — ابو عزام @ 3:16 pm
نہیں‌ جناب ، یہ لقب ہمارا دیا ہوا نہیں بلکہ کئ مغربی ممالک کی سیاست میں ‘لیم ڈک’ یا لنگڑی بطخ ایسے سیاسی فرد یا جماعت کو کہا جاتا ہے جو کہ
.۔1 دوسری مدت کا انتخاب ہار گئے ہوں اور پہلی مدت کے اختتام پر ہوں
.۔2 دوسری مدت کے لئے انتخاب نا لڑنے کا فیصلہ کیا ہو اور موجودہ مدت ختم ہونے والی ہو
.۔ 3 دفتر ی میعاد کی حد کو پہنچ گئے ہوں کہ اب اگلے انتخاب کے لئے نا اہل ہوں
۔4 اس دفتری عہدے کو  انکی معیاد پوری ہونے پر ختم ہوجانا ہو۔
 
ان لنگڑی بطخ حکام کی چونکہ  سیاسی قوت کمزور ہوتی ہے کہ چل چلاو کا وقت ہے،  لہذا دیگر منتخب عہدے دار  ان کے ساتھ تعاون کی طرف راغب کم کم ہی ہوتے ہیں. آج کل کی امریکی کانگریس اپنے لیم ڈک سیشن میں ہے لیکن سنبھالا لیتے ہوئے قوانین پر قوانین پاس کرتی جا رہی ہے کہ سند رہے اور بوقت الیکشن کام آئے۔
 
برطانوی انداز کی مقننہ میں زیادہ تر تکنیکی طور پر تو لیم ڈک سیشن نہیں ہوا کرتا لیکن اگر دیکھا جائے جائے تو  مملکت خداداد، ہمارے وطن عزیز کی لولی لنگڑی جمہوریت اور اس کے مقننہ کے ادارے شازونادر ہی لنگڑی بطخ سیشن سے باہر آتے ہیں۔ کبھی مڈ ٹرم کا خوف، کبھی بھاری بوٹوں کی آواز کا ڈر تو کبھی بیچ منجدھار میں سیاسی جماعتوں کے اتحاد ٹوٹنے کا خدشہ – اس لئے ہمارا مشورہ ہے کہ ایوان زیریں و بالا کا اجتماعی نام ‘مجالس بط بہ لنگ’ رکھ دیا جائے۔ باقی اہم فیصلے تو سب ہی جانتے ہیں کہ کہاں کئے جاتے ہیں۔
Share

August 7, 2010

زرداری اور نیرو – مقابلے کی جھلکیاں

Filed under: پاکستان,سیاست — ابو عزام @ 4:34 pm
جیسا کہ آپ ناظرین جانتے ہیں کہ صدر پاکستان جناب آصف علی ترکاری اور روم کے حکمران نیرو کے درمیان پچھلے دو ہزار سال کے سب سے بے حس حکمران ہونے کا مقابلہ زور و شور سے جاری ہے۔ اب ہم آپ کو اپنے خصوصی وقائع نگار / اسپورٹس کاسٹر مرزا کے پاس لے چلتے ہیں جو آپ کو تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کریں گے۔ جناب، آپ کا کیا خیال ہے، اس دو ہزار سالہ دوڑ میں کون جیتتا ہوا دکھائی دے رہا ہے؟
آپ کا شکریہ مرزا – یہ انتہائی دلچسپ مقابلہ ہے۔ اس سے پہلے ایسی ہی دوڑ‌پال پوٹ، عیدی امین، اسٹالن، اور فرانس کی شہزادی میری نے بھی نیرو کے ساتھ تاریخ کے اوراق میں کی تھی لیکن ظلم و ستم اور قتل عام کے باوجود وہ نیرو کی بے حسی کا وہ جوہر نہیں پا سکے کہ جو کہ اسکی حکمرانی  کا خاصہ تھا۔ فرانسیسی شہزادی میری نے تو غریبوں کی بھوک اور انکے روٹی نا ملنے  کا سن کر اپنے شہرہ آفاق جملے
Qu’ils mangent de la brioche
تو انکو کیک اور پیسٹری کھانے دو!
سے تاریخ میں اپنا نام امر کروا لیا تھا لیکن نیرو کی شہرہ آفاق بانسری کا مقابلہ کوئی نہیں‌کرسکا۔ ہماری خوش قسمتی اور پاکستانی عوام کی بدقسمتی کہیں کہ آج ہمیں صدر پاکستان آصف علی ترکاری کی صورت میں ایک ایسا نمونہ ملا ہے جس سے قوئ امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ نیرو کی بے حسی کی بانسری کا دو ہزار سالہ ریکارڈ توڑنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔
مرزا، جب اتنے بڑے طرم خان لوگ نیرو کا ریکارڈ نہیں توڑ پائے تو آپ یہ کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ میاں ترکاری ایسا کر پائیں‌گے؟
مرزا، ہم آواگون پر یقین نہیں رکھتے ورنہ اس بات میں کوئی شک نا ہوتا کہ میاں ترکاری نیرو پادشاہ کا اوتار ہیں۔ جیسا کہ آپ سب پڑھے لکھے لوگ جانتے ہیں  نیرو پہلی صدی عیسوی کے روم کا ایک ظالم و جابر حکمران تھا جس کی وجہ شہرت اس کا روم کے جلتے ہوئے بانسری بجانا تھا۔لیکن اس سے پہلے اس نے شہنشاہ کی بیٹی کلاڈیا سے شادی کی۔ پھر بادشاہ بننے کےبعد اپنی ماں اگریپینہ اور دوسری بیوی پاپائییہ کو جان سے مار ڈالا۔  اس کو شکائتی لوگوں سے سخت چڑ تھی، جی حضوری کرنے والوں کو بہت سراہتا تھا اور اسی وجہ سے انتیستیس کو مروا ڈالا کہ اس نے  نیرو کی شان میں‌کوئی ادنی بات کی تھی ۔ پھر روم میں بڑی آگ لگی تو سیوتونیس نامی تاریخ نگار لکھتا ہے کہ وہ  اپنی گاڑی پر بیٹھ کر بانسری بجاتا رہا۔ شائد اس زمانے میں بیرونی دورے نہیں کئے جایا کرتے ہونگے۔ موے تاریخ دان نا جانے کیا کیا لکھتے رہتے ہیں۔
اب آپ اسی روشنی میں دیکھیں اور بتائیں کیا بادشاہ نیرو کو ہمارئے صدر کی صورت میں ایک صحیح جانشین میسر نہیں آیا؟ ترکاری صاحب نے تو اس بات کا حق ادا کردیا ہے اور ایسے اقدامات کئے ہیں کہ نیرو بھی کہے واہ ترکاری، تجھے لوگ مسٹر ٹین پرسنٹ بلا وجہ نہیں کہتے ۔ نیرو نے غریبوں پر ٹیکس چار فیصد سے کم کرکے دو فیصد کیا تھا، ترکاری صاحب نے ٹیکس بڑھانے کے لئے کوی دقیقہ فروگزاشت نہیں‌ چھوڑا۔ ملک میں سیلاب ہے، کراچی میں آگ لگی ہے، لوگ بھوکوں مر رہے ہیں‌ اور صدر ترکاری پرانی جینز میں فوٹو سیشن کرو رہے ہیں۔۔ پاکستان ڈوب رہا ہے، سولہ سو افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں ، ایک کروڑ بیس لاکھ افراد اس سیلاب بلا سے متاثر ہوئے ہیں اور ترکاری صاحب اپنی بے سری بجا رہے ہیں کہ تاریخ بتائے گی کہ لیلی مرد تھی یا عورت۔صدر اوبامہ نے تو تیل بہنے پر گلف کی ریاستوں کے تین دورے کر ڈالے کہ بش کی کترینا والا انجام نا ہو کہ صدر تیل صاف تو نہیں کرتا لیکن قوم کا قائد دکھ بانٹنے موجود ہو تو حوصلے جوان رہتے ہیں۔اوبامہ اپنا شرق ایشیا کا دورہ دو دفعہ اس وجہ سے منسوخ کیا کہ ملک میں صحت عامہ کا جو بل پاس ہونے جا رہا ہے وہ تعطل کا شکار نا ہو جائے۔ ظاہر سی بات ہے ان کو نیرو سے مقابلہ مقصود نا تھا، ڈرپوک کہیں کے۔  یہ معلوم نہیں کہ نیرو کو کتنے جوتے پڑے تھے اور یہ بات بھی واضع نہیں کہ نیرو نے روم کے دشمنوں کے ساتھ کیا رویہ روا رکھا تھا لیکن ہمارے صدر نے کیمرون کے بیانات کو ایک کان سے اندر اور دوسرے سے باہر کیا ‘بیچ کی جگہ سینٹرل جیل کے خیام کے دوران خالی کروا لی گئی تھی’ اور کہتے ہیں کہ ‘ہم انکا پیچھا اتنی آسانی سے تو نہیں چھوڑیں گے’۔ اب بتائیں اس کے بعد بھی اس دو ہزار سالہ دوڑ کے جیتنے والے صدر ترکاری ڈکیت نا ہوئے تو کون ہوگا؟
اور بقول فراز ایس ایم ایس کہ
بلاول : ابا آپ نے اپنی حرکتوں سے خاندان کے نام پربدنما داغ لگا دیا ہے
ترکاری : ہاہا بیٹا، یہ داغ تو چلا جائے گا، یہ وقت پرکبھی نہیں آئے گا!
مرزا: آپ کو اس بات کا ڈر نہیں کہ آپ صدر پاکستان کی ہتک کے جرم میں دھر لئے جائیں گے۔
ارے مرزا وہ کیا کہا تھا نیرو نے، یہ بازو میرے آزمائے ہوے ہیں، (پولیس کی دستک ہوتی ہے اور مرزا کو گھسیٹتے ہوئے باہر لے جایا جا تا ہے، وہ کراہتے ہوے کچھ آزادی اظہار کی بات کر تے سنائی دے رہی ہیں جو کانسٹیبل کے مکوں تلے دبتی جا رہے ہے۔۔۔۔)
بہر حال نیرو کے بانسری کے مقابلے میں ترکاری کی بے سری  کیا رنگ لاتی ہے، اس سلسلے میں دوڑ کی تازہ  ترین تفصیلات کے لئے دیکھتے رہئے جیو نیوز۔
Share

August 3, 2010

عصبیت

Filed under: پاکستان,سیاست,مذہب — ابو عزام @ 6:29 am
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لیس منا من دعا الی عصبیۃ ولیس منا من قاتل عصبیۃ ولیس منا من مات علی عصبیۃ۔ رواہ ابوداؤد
جس نے عصبیت کی طرف دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں،
جس نےعصبیت کے لیے جنگ کی وہ ہم میں سے نہیں،
جو عصبیت پر مرا وہ ہم میں سے نہیں ہے
آج روشنیوں کا شہر پھر لہو لہو ہے، لسانی بنیادوں پر تفریق پھیلانے والی سیاست کی وجہ سے ہمیں یہ دن پھر دیکھنا پڑ رہا ہے کہ کلمہ گو مسلمان اپنے کلمہ گوبھائی کا گلا کاٹ رہا ہے اور یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہم رنگ و نسل و زبان کی بنیاد پر کی جانے والی تفریق کو رد کرتے ہوئے حجتہ الوداع پر دئے گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کو اپنی اجتماعی زندگیوں کا نصب العین نہیں بنا لیتے۔
یایہا الناس ا لا ان ربکم واحد وان اباکم واحد الالافضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لأسود علی احمر ولا لأحمر علی اسود الا بالتقوی۔(مسند احمد)
اے لوگو!خبردارتمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے خبر دار!کسی عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر یا کالے کو سرخ پر اور نہ سرخ کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے سوائے تقویٰ کے
اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ آمین
Share

June 23, 2010

اداروں کا استحکام – کامیابی کی کلید

Filed under: پاکستان,خبریں,سیاست,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 10:55 pm
اخبارات میں خبر گرم ہے کہ صدر اوبامہ نے جنرل میک کرسٹل کو برطرف کردیا۔ جنرل صاحب نے کمانڈر انچیف (صدر مملکت) سے اپنے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل پرمعذرت کی اور    امریکی حکومت کے اعلی اہلکاروں اور افغانستان میں امریکی سفیر کو تنقید کا نشانہ بنانے پر افسوس کا اظہار کیا۔
اس فور اسٹار جرنیل کے برطرف کئے جانے پرنا تو  بقول پیر پگارو ‘بوٹوں کی چاپ’ سنائی دی گئی، حیرت انگیز طور پر برگیڈ 1 نے وائٹ ہاوس کا محاصرہ نہ کیا اور نا ہی کوئی کور کمانڈر ڈسٹرکٹ آف کولمبیا ان کی ملاقات کے لئےلمحہ بہ لمحہ رابطے میں رہا۔ اس سے پہلے جب  صدر فورڈ نے جنرل ڈگلس مک آرتھر کودوران جنگ ایک غیر ذمہ دارانہ خط لکھنے کے الزام میں 10 اپریل 1951 کو برطرف کیا تو جنرل اپنی کئریر کی بلندیوں پر تھے اور انکے ساتھ تمام عوامی ہمدردیاں بھی شامل تھیں، اس قدر کہ انہیں اگلی مرتبہ ریپبلیکن پارٹی کی طرف سے صدارتی انتخاب کی بھی پیشکش کی گئی تھی اور انکی تقریر پر اسوقت کی کانگریس کے اراکین نے انہیں 50 مرتبہ ‘اسٹینڈینگ اویشن’ اٹھ کر داد دی۔ لیکن عجیب معاملہ ہے کہ نکالے جانے پر دارورسن سجے اور نا خلق خدانےعزیز ہموطنوں کی آواز سنی اور نا ہی جنرل نے قصر صدارت کا قصد کیا۔ سوئلین صدر کا حکم سنا اور چپکے سے گھر کی راہ لی.ڈیڑھ سو سال پہلےمارچ  1862 میں لنکن نے بھی جنرل مککیلن کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا تھا اور وہ بھی خاموشی سے گھر سدھار گئے تھے  کہ یہی جمہوری طریقہ ہے اور زندہ قومیں اپنے ہی گھر ڈاکے نہیں ڈالا کرتیں۔ فراز کیا خوب کہ گئےہیں کہ
مرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
مرا قلم نہیں اس دزدِ نیم شب کا رفیق
جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے
دور کیوں جائیں، پچھلے سال جب پڑوسی ملک میں لیفٹننٹ جنرل آویدیش پرکاش کولینڈ مافیا کے سلسلے میں سزا ہوئی تو کسی کا پندار آڑے نا آیا۔ آپ نے جنرل وجے کمار اورجنرل دیپک کپور کا نام سنا ہو یا نہیں، جارج فرنانڈس، پرناب مکھرجی اور اے کے انتھونی آپ کو ضرور یاد ہونگے کہ آخر الذکر افراد سویلین وزارت دفاع کے لیڈران ہیں جن کی سامنے سپہ سالار کو حد ادب یاد رکھنا پڑتی ہے ۔ اگر اپنی سنہری تاریخ پر نظر ڈالیں کہ جب خلیفہ دوئم رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان آیا تو معزول کمانڈر خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ  جیسا جری مجاہد بلا چون و چرا سر جھکاے واپسی کا سفر اختیار کرنے لگا اور جب وقت کے حکمران سلیمان بن عبدالمالک نےفاتح سندھ سپہ سالار ابن قاسم کو معزول کر کے شام طلب کیا تو وہ اتباع نظم اور رضا کی تصویر بن کر مقتل کی طرف روانہ ہوئے جب کہ فرزندادن سندھ کی تلواریں اس عظیم جرنیل کی حفاظت کے لئے بے قرار تھیں۔ اطاعت امیر و اولی الا مر، اداروں کی مضبوطی اور قانون کی حکمرانی کسی بھی زندہ معاشرے کے کلیدی اوصاف ہیں جو کہ آج ہمارے معاشرے سے معدوم ہوچکے ہیں۔

  

معاشرے میں رائج نظام کی طاقت اس کےاداروں کی مضبوطی میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ چہے وہ فوج ہو، مقننہ ہو، عدلیہ ہو یا سول سروسز۔  ادارے جتنے زیادہ فعال ہونگےاور اپنے دائرہ کار میں اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائں گے،وہ اتنا ہی طاقتورنظام بنا سکیں گے۔ اگر تعلیمی بورڈ جعلی ڈگریوں پر کسی دباو کو قبول نہ کرے، اگر الیکشن کمیشن صاف اور غیرجانبدارانہ انتخابات کروائے، اگر محکمہ تعلیم گھوسٹ اسکولوں کا خاتمہ اپنا مشن بنائے ، پولیس امن و آمان کو بلا دباو اپنی پہلی ترجیح خیال دے اور ہر ادارہ اپنی عملداری میں کام کرے تو کامیابی کی منزل زیادہ دور نہیں۔ لیکن کس کو الزام دیں کہ جب اپنے ہی لوگ ایک راہزن سپہ سالار کو بہترین حکمران قرار دینے پر تلے ہوں اور انکی واپسی شب و روزانتظار کر رہے ہوں۔ اسی زمن میں فراز کی سقوط ڈھاکہ کی نظم یاد آگئ، بر محل ہے سو چلو لکھتے چلیں۔

  

میں نے اب تک تمھارے قصیدے لکھے
اورآج اپنے نغموں سے شرمندہ ہوں
اپنے شعروں کی حرمت سے ہوں منفعل
اپنے فن کے تقاضوں سے شرمندہ ہوں
اپنےدل گیر پیاروں سےشرمندہ ہوں
جب کبھی مری دل ذرہ خاک پر
سایہ غیر یا دست دشمن پڑا
جب بھی قاتل مقابل صف آرا ہوئے
سرحدوں پر میری جب کبھی رن پڑا
میراخون جگر تھا کہ حرف ہنر
نذر میں نے کیا مجھ سے جو بن پڑا
آنسوؤں سے تمھیں الوداعیں کہیں
رزم گاہوں نے جب بھی پکارا تمھیں
تم ظفر مند تو خیر کیا لوٹتے
ہار نے بھی نہ جی سے اتارا تمھیں
تم نے جاں کے عوض آبرو بیچ دی
ہم نے پھر بھی کیا ہےگوارا تمھیں
سینہ چاکان مشرق بھی اپنے ہی تھے
جن کا خوں منہ پہ ملنے کو تم آئے تھے
مامتاؤں کی تقدیس کو لوٹنے
یا بغاوت کچلنے کو تم آئے تھے
ان کی تقدیر تم کیا بدلتے مگر
ان کی نسلیں بدلنے کو تم آئے تھے
اس کا انجام جو کچھ ہوا سو ہوا
شب گئی خواب تم سے پریشاں گئے
کس جلال و رعونت سے وارد ہوئے
کس خجالت سے تم سوئے زنداں گئے
تیغ در دست و کف در وہاں آئے تھے
طوق در گردن و پابجولاں گئے
جیسے برطانوی راج میں گورکھے
وحشتوں کے چلن عام ان کے بھی تھے
جیسے سفاک گورے تھے ویت نام میں
حق پرستوں پہ الزام ان کے بھی تھے
تم بھی آج ان سے کچھ مختلف تو نہیں
رائفلیں وردیاں نام ان کے بھی تھے
پھر بھی میں نے تمھیں بے خطا ہی کہا
خلقت شہر کی دل دہی کےلیئے
گو میرے شعر زخموں کے مرہم نہ تھے
پھر بھی ایک سعی چارہ گری کیلئے
اپنے بے آس لوگوں کے جی کیلئے
یاد ہوں گے تمھیں پھر وہ ایام بھی
تم اسیری سے جب لوٹ کر آئے تھے
ہم دریدہ جگر راستوں میں کھڑے
اپنے دل اپنی آنکھوں میں بھر لائے تھے
اپنی تحقیر کی تلخیاں بھول کر
تم پہ توقیر کے پھول برسائے تھے
جنکے جبڑوں کو اپنوں کا خوں لگ گیا
ظلم کی سب حدیں پاٹنے آگئے
مرگ بنگال کے بعد بولان میں
شہریوں کے گلے کاٹنے آگئے
ٓاج سرحد سے پنجاب و مہران تک
تم نے مقتل سجائے ہیں کیوں غازیو
اتنی غارتگری کس کی ایما پہ ہے
کس کے آگے ہو تم سر نگوں غازیو
کس شہنشاہ عالی کا فرمان ہے
کس کی خاطر ہے یہ کشت و خوں غازیو
کیا خبر تھی کہ اے شپرک زادگاں
تم ملامت بنو گے شب تار کی
کل بھی غا صب کے تم تخت پردار تھے
آج بھی پاسداری ہے دربار کی
ایک آمر کی دستار کے واسطے
سب کی شہ رگ پہ ہے نوک تلوار کی
تم نے دیکھے ہیں جمہور کے قافلے
ان کے ہاتھوں میں پرچم بغاوت کے ہیں
پپڑیوں پر جمی پپڑیاں خون کی
کہ رہی ہیں یہ منظر قیامت کے ہیں
کل تمھارے لیئے پیار سینوں میں تھا
اب جو شعلے اٹھے ہیں وہ نفرت کے ہیں
آج شاعر پہ بھی قرض مٹی کا ہے
اب قلم میں لہو ہے سیاہی نہیں
خون اترا تمھاراتو ثابت ہوا
پیشہ ور قاتلوں تم سپاہی نہیں
اب سبھی بے ضمیروں کے سر چاہیئے
اب فقط مسئلہ تاج شاہی نہیں
Share
« Newer PostsOlder Posts »

Powered by WordPress